کون ہیں صدیق اور صدیقہ
 

صدیق باعتبار لغت و استعمال
صدیق ، مادۂ (ص،د،ق) سے مشتق ہے اور صدق (سچ) کذب (جھوٹ ) کی نقیض ہے ، صدیق فعیل کے وزن پر ہے اور صدیقہ فعیلہ کے وزن پر، اور یہ وزن موصوف کے صفت سے بہت زیادہ اتصاف پر دلالت کرتا ہے گویا اس مادہ میں صدق و تصدیق کا مبالغہ پایا جاتاہے اور یہ صدوق (بہت سچا ) سے بھی زیادہ سچے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔ کہا جاتاہے صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جو صدق و سچائی میں کامل ہو اس کا عمل اس کے قول کی تصدیق کرے یعنی قول و عمل ایک ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ صدیق اس کو کہتے ہیں کہ جس نے اصلاً کبھی جھوٹ نہ بولا ہو ۔
اہل سنت کے درمیان مشہور ہے کہ'' صدیق '' ابوبکر بن قحافہ کا لقب ہے اگر چہ ان کے یہاں بہت زیادہ روایا ت موجود ہیں کہ جو اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ''صدیق'' حضرت علی بن ابی طالب کا لقب ہے اور یہ روایات شیعہ مذہب کی روایات کے مطابق ہیں کہ شیعوں کے نزدیک ''صدیق''بطور نص حضرت علی کا لقب مبارک ہے اور اہل سنت نے اس کو چوری کرکے ابوبکر کے سرپر چڑھادیا ہے(١)۔
..............
(١) العمدہ ٢٢٠۔
٢٦
لیکن لقب ''صدیقہ '' قرآن کریم میں حضرت مریم بنت عمران کے لیے آیا ہے اور پیغمبر اکرمۖ کی زبان مبارک پر حضرت فاطمہ زہرا اور حضرت خدیجہ کے لیے جاری ہوا ،جبکہ اس سلسلے میں اہل سنت کی طرف سے یہ کوشش رہی کہ یہ لقب عایشہ کو دیدیا جائے ،لیکن عنقریب آپ کے سامنے اس دعوی کی پول کھل جائے گی ۔
اگر حقیقت کو درک کرنا ہے تو ضروری ہے کہ'' صدیقیت'' کے معنی کی تنقیح و تحلیل کی جائے تاکہ معلوم ہو کہ صدیقیت ایک معنوی و ربانی مرتبہ ہے یا کوئی معمولی لقب ہے کہ جو جس کو چاہے عطا کردے۔
کیا صدر اسلام میں پیغمبر اکرم ۖ جس کو جو بھی عطاکرتے اور دوسرے لوگ کسی کو کچھ بھی عطا کرتے تو کیا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں تھا ؟ اور کیا معقول ہے کہ جو القاب ، خداوندعالم اور پیغمبر اکرمۖ کی جانب سے دیے گئے ہیں وہ بے بنیاد اور صرف تعلقات کی وجہ سے ہوں یا ایسا نہیں ہے اور پیغمبراکرمۖ کا کسی کا کوئی نام رکھنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس نام و لقب کا مستحق ہے۔
اور کیا القاب ، لیاقت و قابلیت کے اعتبار سے دیے جاتے تھے یا یہ کہ لوگوں کی تشویق و ترغیب کے لیے عطا ہوتے تھے ۔
اور کیوں جناب ابوذر غفاری کو لقب ''صدیق''عطا نہیں ہوا جبکہ پیغمبر اکرمۖ کے فرمان کے مطابق وہ روے ٔ زمین پر تمام انسانوں سے زیادہ سچے انسان تھے(١)۔
..............
(١) سنن ترمذی : ٥ ٣٣٤، ح ٣٨٨٩۔الانساب (سمعانی ): ٤ ٣٠٤۔
٢٧

''صدیقیت'' سے کیا مراد ہے ؟ اور کیا'' صدیق ''کے مراتب و اقسام ہیں ؟
علامہ ابن بطریق (متوفی ٦٠٠ھ) اپنی کتاب العمدہ میں راقم ہیں :
((صدیق کی تین قسمیں ہیں :
١ـ صدیق نبی ہوتا ہے ۔
٢ـ صدیق امام ہوتا ہے۔
٣ـ صدیق عبد صالح ہے کہ جو نہ نبی ہے اور نہ امام۔
پہلی قسم پر یہ فرمان الٰہی دلالت کرتا ہے ( واذکر فی الکتاب ادریس انہ کان صدیقاً نبیاً)(١) کتاب (قرآن ) میں ادریس کو یاد کرو کہ وہ صدیق نبی تھے ۔
اور خداوندعالم کا یہ ارشاد گرامی (یوسف ایھاالصدیق)(٢) یوسف اے صدیق۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہر نبی صدیق ہے لیکن ہر صدیق نبی نہیں ہے ۔
اس بات پر کہ ''صدیق ''امام ہوتا ہے خداوندعالم کایہ فرمان دلالت کرتا ہے (فأولائک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین والصدیقین والشھداء والصالحین و حسن اولٰئک رفیقا)(٣)۔ وہ ان کے ساتھ ہیں کہ جن کو اللہ نے نعمتیں عطا کی ہیں انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین میں سے اور وہ بہترین ساتھی ہیں ۔
..............
(١) سورہ مریم(١٩) آیت ٥٦۔
(٢) سورہ یوسف(١٢) آیت ٤٦۔
(٣) سورہ نساء (٤) آیت ٦٩۔
٢٨
خداوندعالم نے نبیوں کا تذکرہ کرنے کے بعد صدیقین کی مدح سرائی کی ہے جبکہ نبیوں کے بعد آئمہ ہی کا ذکر سب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اور اسی پر وہ روایات بھی دلالت کرتی ہیں کہ جن میں وارد ہے کہ'' صدیق '' تین شخص ہیں حبیب نجار، حزقیل ، علی اور علی ان سب سے افضل ہیں ۔ پس چونکہ علی کاذکر ان دو افراد کے ساتھ آیا ہے اور وہ ان کے ساتھ صدیقین میں شامل ہیں جبکہ وہ دونوں نہ نبی ہیں اور نہ امام ۔ لہذا مناسب یہ سمجھا کہ علی کو ان دونوں سے جدا اور ممتاز رکھیں ایک ایسی شی ٔ سے کہ جو ان دونوں میں نہیں ہے یعنی امامت لہذا پیغمبراکرمۖ نے فرمایا علی ان دونوں سے افضل ہیں ۔
پس لفظ صدیق کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے چونکہ پیغمبراکرمۖ نے تینوں کو صدیق فرمایا ہے لہذا لفظ کے اعتبار سے برابر ہیں ۔ لیکن پیغمبراکرمۖ نے چاہا کہ ان کے درمیان معنی کے اعتبار سے فرق بیان کردیا جائے یعنی علی کے مستحق امامت ہونے کوامتیاز قرار دیا جائے لہذا فرمایا وہ ان دونوں سے افضل ہیں یعنی علی صدیق ہیں اور امام))(١)۔
ظاہرہے کہ اس مسئلہ سے متعلق بحث ، چند مسائل کو بیان کرنے پر موقوف ہے اور ان کو تدریجی و یکے بعد دیگر بیان کرنے کی ضرورت ہے لہٰذا ابتداء ً کلمہ ''صادق و کاذب ''سے آشنائی ضروری ہے تاکہ ''صدیقیت '' کے معنی کو درک کرسکیں اور یہ واضح ہوجائے کہ صدیقیت کہاں اور کس کے لیے مناسب ہے ۔
..............
(١) العمدہ ٢٢٣۔
٢٩
سب سے پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرمۖ زمانۂ جاہلیت ہی میں لقب ''صادق و امین'' سے ملقب تھے ، حضرت خدیجہ اور آپ کی دختر نیک اخترحضرت فاطمہ زہرا کو پیغمبر اکرمۖ کی زبان مبارک سے صدیقہ کا لقب ملا ۔
صدیق حضرت امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب اور صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا سے پاک وصادق اولادیں ہوئیںکہ جو مسلمانوں کے امام قرار پائے اور خداوندعالم نے آیت تطہیر(١) میں ان کو پاک و منزہ قرار دیا۔
نیز خداوندعالم نے ان کی اطاعت کی طرف دعوت دی اور فرمایا (کونوا مع الصادقین)(٢)( سچو ںکے ساتھ ہوجاؤ)(٣) ۔
..............
(١) سورہ احزاب (٣٣) آیت ٣٣۔
(٢) سورہ توبہ (٩) آیت ١١٩۔
(٣) دیکھیے تفسیر قمی : ١ ٣٠٧۔ تفسیر فرات کوفی ١٣٧۔ ان دونوں تفاسیر میں وارد ہے کہ'' ای کونوا مع علی و اولادعلی'' علی اور اولاد علی کے ساتھ ہوجاؤ ، یہ معنی حضرت امام محمد باقر سے نقل ہوئے ہیں ، مندرجہ ذیل حوالے ملاحظہ فرمائیں :
الدرالمنثور :٣ ٢٩٠۔فتح القدیر:٢ ٣٩٥۔ شواہد التنزیل :٢٦٠١، آیت ٥٥، حدیث٣٥٣۔ کفایت الطالب ٢٣٥ـ٢٣٦۔

اور حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے جیسا کہ شواہد التنزیل :٢٥٩١، آیت ٥٥، حدیث٣٥٠۔اور غایت المرام ٢٤٨ میں ابو نعیم اصفہانی سے منقول ہے ۔اور اسی طرح عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے دیکھیے ذیل کے حوالہ جات: ۔۔۔۔۔اگلے صفحہ پر
٣٠
اس طرح کے القاب میں تحریف اور اہل بیت علیہم السلام کی عظمت و منزلت کو گرانے و کم کرنے کی مسلسل ناکام کوششیں کی جاتی رہیں اور اب تک جاری ہیں ، لیکن ان سب کے باوجود تحریف کرنے والے ان کے مقام کو کم کرنے میں ناکام ہیں اور رہیں گے ۔
..............
۔۔۔ پچھلے صفحہ کا ادامہ
مناقب امیر المؤمنین (خوارزمی ) ١٩٨۔ شواہد التنزیل :٢٦٢١، آیت ٥٥، حدیث٣٥٦۔ الدرالمنثور :٣ ٢٩٠۔فتح القدیر:٢ ٣٩٥۔
اور عبداللہ بن عمر سے روایت کی گئی ہے کہ جو شواہد التنزیل :٢٦٢١، آیت ٥٥، حدیث٣٥٧۔ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔
مقاتل بن سلیمان سے روایت ہے کہ جو شواہد التنزیل :٢٦٢١، آیت ٥٥، حدیث٣٥٦۔میں مذکور ہے اور اس آیت کی تفسیر میں آیا ہے کہ صادقین سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جن کا تذکرہ سورہ احزاب (٣٣) آیت ٢٣ میں آیا ہے ۔
(رجال صدقوا ماعاھدوا اللہ علیہ فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر )۔ وہ افراد کہ جنہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا اور اس پر ثابت قدم رہے ان میں سے کچھ نے اس عہد کو انجام تک پہنچایا اور کچھ منتظر رہے ۔ ابو جعفر سے روایت ہے کہ (من قضی نحبہ) سے حمزہ اور جعفر مراد ہیں اور (من ینتظر ) سے مراد علی بن ابی طالب ہیں۔(سورہ احزاب (٣٣) آیت ٢٣)

٣١
اس لیے کہ یہ حضرات عظیم و باعظمت اصلاب و پاکیزہ ماؤں کے رحم میں رہے اور جاہلیت کی آلودگی ان سے دور ہے اور پلیدگی و تیرگی کا لباس انہوں نے جامہ تن نہیں کیا ۔(١)
..............
(١) پیغمبر اکرمۖ سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : (انادعوة ابراھیم) میں اپنے پدربزرگوار ابراہیم کی دعا ہوں ۔ دیکھیے : مسند الشامیین :٢ ٢٤١۔ تفسیر طبری :١ ٧٧٣، حدیث ١٧٠٧۔ الجامع الصغیر : ١ ٤١٤، حدیث ٧٠٣۔ شواہد التنزیل :٤١١١،حدیث٤٣٥۔
اور آپ ہی سے روایت ہے کہ( نقلت من کرام الاصلاب الی مطھرات الارحام و خرجت من نکاح ولم اخرج من سفاح و ما مسنی عرق سفاح قط وما زلت انقل من الاصلاب السلیمة من الوصوم البریة من العیوب) (شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی):١١ ١٠)
میں اصلاب کرام سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوا اور نکاح (حلال) زادہ ہوں نہ کہ زنا(حرام) زادہ، میری پشتوں میں بھی کبھی عرق زنا نے مجھے مس نہیں کیا اور میں ہمیشہ سے بے عیب و بے نقص اور پاک اصلاب سے پاک و پاکیزہ ارحام کی طرف منتقل ہوتا رہا ہوں ۔
احمد بن حنبل نے اپنی کتاب فضائل الصحابہ: ٢ ٦٦٢۔ میں پیغمبراکرمۖ سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:( خلقت انا و علی بن ابی طالب من نور واحد قبل ان یخلق اللہ آدم … فلما خلق اللہ آدم اسکن ذالک النور فی صلبہ الی ان افترقنا فی صلب عبد المطلب فجزء فی صلب عبداللہ و جزء فی صلب ابی طالب) میں اور علی ابن ابی طالب ایک ہی نور سے خلق ہوئے اس سے پہلے کہ خداوندعالم آدم کو خلق کرتا … اور جب آدم کو خلق فرمایا تو اس نور کو صلب آدم میں قرار دیا یہاں تک کہ ہم صلب عبد المطلب میں جدا ہوئے کہ ایک جزء صلب عبداللہ میں قرار پایا اور ایک جز ء صلب ابی طالب میں منتقل ہوا۔

٣٢
ان کے جدبزرگوار زمانہ جاہلیت میں ''صادق و امین''کے لقب سے معروف تھے اور اپنے عہد وپیمان میں وفادار ہونے کی وجہ سے عربوں کے درمیان مورد اعتماد و قابل احترام تھے ،عرب اپنے فیصلے کرانے آپ کی خدمت میں آتے چونکہ آپ حق کے علاوہ کسی کی طرف داری نہیں کرتے اور کسی کے حق سے انکار نہیں کرتے تھے ۔(١)
بیس سال کی عمر میں (حلف الفضول) میں شرکت کی تاکہ ظالم کے مقابل میںمظلوم کی مدد کرسکیں (٢)۔ اور اپنے عہد و پیمان سے وفاداری کرسکیں ۔
پیغمبر اکرمۖ ، مکہ کے قبیلوں کے درمیان حجر اسود کو اس کی جگہ پر نصب کرنے کے لیے قاضی و داور قرارپائے ، جبکہ یہ وہ زمانہ تھا کہ قبائل عرب خانۂ کعبہ کی تجدید بناء کررہے تھے تو حجر اسود کو رکھنے میں آپس میں اختلاف ہوگیا ، ابو امیہ بن مغیرہ (والد ام سلمہ) نے مشورہ دیا کہ جو شخص بھی سب سے پہلے باب السلام سے اندر آئے اس کو قاضی و جج بنایا جائے تو اس وقت محمدۖ بن عبد اللہ اسی باب سے تشریف لے آئے جیسے ہی آپ کو آتے دیکھا سب کے سب کہنے لگے یہ امین ہیں ان کے فیصلے پر ہم راضی ہیں ۔
پیغمبر اکرمۖ نے پورا واقعہ سنا اور پھر اپنی عبا ء کو پھیلایا ـایک روایت میں ہے کہ ایک کپڑا منگایاـاور پھر حجر اسود کو اٹھایا آپ نے حجر اسود کو اس میں رکھا پھر فرمایا ہر ایک قبیلے والے اس کے ایک ایک گوشے کو پکڑ لیں ، انہوںنے ایسا ہی کیا اور اٹھایا ۔
..............
(١) السیرة الحلبیہ :١ ١٤٥۔
(٢) طبقات ابن سعد :١ ١٢٩۔ المنمق ٥٢ـ٥٤۔

٣٣
جب اس کی جگہ کے قریب پہنچے تب آپ ۖ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو پکڑا اور اس کے مقام پر نصب فرمادیا ۔(١)
اہل سنت والجماعت کی بعض کتب کی روایت کے مطابق پیغمبراکرمۖ نے اپنی دعوت اسلام کا آغاز کوہ صفا سے اس طرح کیا کہ فرمایا :
'' اے بنی فہر ، اے بنی عدی، اے فرزندان عبدالمطلب اور اسی طرح تمام قبائل کہ جو آپ سے قریب ترین تھے سب کو نام لے لے کر پکارا یہاں تک کہ سب آپ کے ارد گرد جمع ہوگئے اور جو نہیں آسکتا تھا اس نے اپنا نمائندہ بھیجا تاکہ معلوم ہو کہ آپ کیا چاہتے ہیں ۔
پیغمبراکرمۖ نے فرمایا : آپ حضرات کی نظر میں اگر میں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا لشکر ہے کہ جو آپ پر شبخون مارنے والا ہے تو کیا میری تصدیق کروگے ؟
سب نے ایک زبان ہوکر کہا : ہاں آپ ہمارے نزدیک سچے ہیں اور ہم نے آپ سے کبھی جھوٹ نہیں سنا۔
آنحضرتۖ نے فرمایا : میں آپ کو عذاب شدید سے ڈرانے والا ہوں اے بنی عبد المطلب ، اے بنی عبد مناف ، اے بنی زہرہ ، اے بنی تیم ، اے بنی مخزوم و اسد اور تمام اہل مکہ کے قبیلوں میں سے ایک ایک کا نام لیا پھر فرمایا : خداوندعالم نے مجھے حکم دیا کہ آپ کو عذاب سے ڈراؤں میں آپ کی دنیا وآخرت کا مالک نہیں ہوں مگر یہ کہ کہیے'' لاالہ الا اللہ'' کوئی خدا نہیں سوائے اللہ کے ۔
..............
(١) السیرة النبویة (ابن ہشام) :١ ٢٠٩۔ تاریخ طبری :٢ ٤١۔ البدایة والنہایة : ٢ ٣٠٣۔ شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی) : ١٤ ١٢٩۔

٣٤
پس ابو لہب کھڑا ہوا ـ وہ بھاری بھر کم آدمی تھا اور بہت جلدی غصہ میں آجاتا تھا ـ اور چیخا : تجھ پر ہمیشہ پھٹکار ہو کیا اسی لیے لوگوں کو جمع کیا ہے اس کے بعد لوگ آپ کے چاروں طرف متفرق ہوگئے تاکہ آپ کے پیغام کے سلسلے میں فکر و مشورہ کریں''۔(١)
جی ہاں ، قبائل عرب نے آپ کی تکذیب کی لیکن خود آپ کی وجہ سے نہیں بلکہ آپ کے نظریات و افکار اور پیغام کی وجہ سے کہ جو لوگوں کے لیے حیات بخش تھے وہ نظریات کہ جو اس سے پہلے ان کے سامنے بیان نہیں ہوئے تھے ، لہٰذا اس سلسلے میں آپ کا مقام دوسرے انبیاء و رسل کی طرح ہے کہ وہ بھی اپنی اپنی قوموں کے ذریعہ جھٹلائے گئے اور آپ کی قو م کی مثال بھی قوم نوح ، قوم عاد، قوم ثمود و لوط اور اصحاب رس کی طرح ہے جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے:

( وان یکذبوک فقد کذبت قبلھم قوم نوح و عاد و ثمود و قوم ابراھیم و قوم لوط)(٢)۔پس اگر آپ کی تکذیب کریں تو آپ سے پہلے قوم نوح و عاد و ثمود اور قوم ابراہیم و قوم لوط اپنے اپنے پیغمبروں کی تکذیب کرچکے ہیں ۔
بہر حال آپ کی قوم نے کذب ذاتی اور خیانت و ظلم کی نسبت آپ کی طرف نہیں دی ہے بلکہ آپ پر جادو ٹونہ اور سحر کی تہمت لگائی ہے چونکہ وہ لوگ معجزہ کی حقیقت کو درک نہیں کرسکتے تھے اور پیغمبر اکرمۖ کو دیوانہ و مجنون کہتے تھے اس لیے کہ آپ پر وحی کے بارسنگین کو دیکھتے تھے جب کہ یہ انتہائی واضح ہے کہ عرب ،اسلام سے پہلے آپ کی امانت داری ، وفا اور سچائی کے معترف تھے ۔
..............
(١) دیکھیے ـ: صحیح بخاری : ٦ ١٩٥، آیت (تبت یدا ابی لھب ) کی تفسیر میں ۔صحیح مسلم : ١ ١٣٤۔
(٢) سورہ حج (٢٢) آیت ٤٢و ٤٣۔

٣٥
پس '' صادق و صدیق '' سب سے پہلے رسول خداۖ کا لقب ہے اور اسی طرح گذشتہ انبیاء کا جیسے ابراہیم ، ادریس ، اسماعیل ، موسی اور عیسی جیسا کہ خود آپ ہی کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے :
(والذی جاء بالصدق و صدق بہ)(١) وہ کہ جو صدق کو لایا اور اس کے ذریعہ تصدیق ہوئی ۔
حضرت ابراہیم کے متعلق ارشاد ہوا:
(واذکر فی الکتاب ابراھیم انہ کان صدیقاً نبیاً)(٢) اورکتاب (قرآن) میں ابراہیم کو یاد کرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔
اور پھر حضرت ابراہیم ہی کے لیے ہے :
(و وھبنا لہ اسحاق و یعقوب و کلا ً جعلناہ نبیاً ـ و وھبنا لھم من رحمتنا و جعلنالھم لسان صدق علیا )(٣) ۔
اور ہم نے ابراہیم کو اسحاق ویعقوب عطا کیے اور ہر ایک کو نبی بنایا اور ان کو اپنی رحمتوں میں سے کچھ عطا کیا اور ان کے لیے سچی زبان ، علی و بلند قرار دی ۔
..............
(١) سورہ زمر(٣٩) آیت ٣٣۔
(٢) سورہ مریم(١٩) آیت ٤١۔
(٣) سورہ مریم(١٩) آیت ٤٩ـ٥٠۔

٣٦
حضرت ادریس کے لیے ارشاد خداوندی ہے :
(اذکر فی الکتاب ادریس انہ کان صدیقاً نبیاً)(١) ۔
اورکتاب (قرآن) میں ادریس کو یادکرو کہ وہ صدیق پیغمبر تھے۔
اور حضرت اسماعیل کے لیے ارشاد ہوا :
(اذکر فی الکتاب اسماعیل انہ کان صادق الوعد و کان رسولاً نبیاً) (٢) ۔
اورکتاب (قرآن) میں اسماعیل کو یادکرو کہ وہ صادق الوعدتھے اور پیغمبر نبی تھے ۔
حضرت موسی کے بارے میں ارشاد ہے:
(اذکر فی الکتاب موسی انہ کان مخلصاًو کان رسولاً نبیاً) (٣) ۔
اورکتاب (قرآن) میں موسی کو یادکرو کہ وہ مخلص اور پیغمبر نبی تھے ۔
بہر حال '' صدیقیت '' پیغمبروں اور نبیوں کی صفت ہے اور ممتاز علامت ہے ، مذکورہ آیات کے اعتبار سے یہ پہلے تو انبیاء اور پیغمبروں کی صفت ہے اور پھر اوصیاء و نیک وباایمان بندوں کی چونکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے :
(والذین آمنوا باللہ و رسولہ اولائک ھم الصدیقون) (٤)
..............
(١) سورہ مریم(١٩) آیت ٥٦۔
(٢) سورہ مریم(١٩) آیت ٥٤۔
(٣) سورہ مریم(١٩) آیت ٥١۔
(٤) سورہ حدید (٥٧) آیت ١٩۔

٣٧
وہ لوگ کہ جو خدا اور پیغمبروں پر ایمان لائے وہی لوگ صدیقین ہیں اس آیت میں ''تخصص بعد از ایمان '' پایا جاتا ہے یعنی اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جو لوگ اپنے ایمان میں یقین نہیں رکھتے یا جھوٹے ہیں وہ ہر گز صدیق نہیں کہلاسکتے بلکہ اس آیت سے مراد صرف اہل بیت علیہم السلام ہیں چونکہ اصل میں وہی صادق و صدیق ہیں کہ جس کی تفصیل آئندہ آئے گی انشاء اللہ ۔
اس آیت ( ومن یطع اللہ و الرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین و الصدیقین والشھداء والصالحین و حسن اولائک رفیقاً) (١) کے ذیل میں ابن شہر آشوب نے مناقب آل ابی طالب میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا'' من النبیین'' یعنی محمدۖ ''والصدیقین ''یعنی علی (کہ جو پیغمبراکرمۖ کی سب سے پہلے تصدیق کرنے والے ہیں ) '' والشھداء '' یعنی علی و جعفر و حمزہ اور حسن و حسین ہیں اور پھر کہا تمام پیغمبر صدیق ہیں لیکن ہر صدیق پیغمبر نہیں ہے اور تمام صدیق ، نیک و صالح ہیں لیکن ہر نیک و صالح ، صدیق نہیں ہے اور ہر صدیق شہید بھی نہیں ۔
امیر المؤمنین علی علیہ السلام صدیق و شہید اور صالح تھے لہٰذا وہ نبوت کے علاوہ صالحین و صدیقین کی تمام صفات کے حامل تھے ۔
ابو ذر لوگوں سے کچھ بیان کررہے تھے کہ لوگوں نے ان کی تکذیب کی تب پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا : (ما اظلت الخضراء (علی ذی لھجة اصدق من ابی ذر))
..............
(١) سورہ نساء (٤) آیت ٦٩۔ (وہ افراد کہ جو خدا اور رسول کی اطاعت کرتے ہیں وہی ان کے ساتھ ہیں کہ جن پر اللہ کی نعمتیں نازل ہوئی ہیں انبیاء و صدیقین ، شہداء و صالحین میں سے اور وہی بہترین دوست ہیں )۔

٣٨
آسمان نے ابوذر سے زیادہ سچے انسان پر سایہ نہیں کیا ہے، اسی دوران حضرت امیرالمؤمنین تشریف لے آئے تو پیغمبر اکرمۖ نے فرمایا:
''الاان ھذا الرجل المقبل فانہ الصدیق الاکبر و الفاروق الاعظم''
آگاہ ہوجاؤ کہ آنے والا شخص صدیق اکبر اور فاروق اعظم ہے''۔(١)
اس اعتبار سے کہ پیغمبر اکرمۖ سچے اور امین ہیں یعنی وہ ایسی ہستی ہیں کہ جن کے بارے میں ارشاد ہے :( وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی) (٢) پیغمبراکرمۖ ، اپنی مرضی اور خواہشات نفس سے کچھ نہیں کہتے وہی کہتے ہیں کہ جو ان پر وحی نازل ہوتی ہے ۔
لہذا آپ ۖ جو کچھ بھی کسی کے بھی بارے میں ارشاد فرمائیں یا کسی کو کوئی لقب عنایت کریں ، رشتہ داری یا اپنائیت کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ ان صفات کا حامل اور صاحب لیاقت ہے ۔
یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام دو چیزوں سے پھیلا ہے ۔
١ـ حضرت خدیجہ کا مال ۔
٢ـ حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی تلوار۔
جبکہ یہ بھی واضح ہے کہ یہ دونوں پیغمبراکرمۖ پر سب سے پہلے ایمان لاے ٔ ہیں اور آپ کی رسالت کی تصدیق کرنے والے ہیں اور اپنی گرانبہا و قیمتی چیزوں کو اسلام اور پیغمبراکرمۖ کی دعوت کو پہنچانے اور پھیلانے میں نثار کردیا ہے ۔
..............
(١) مناقب ابن شہر آشوب :٣ ٨٩ـ٩٠۔
(٢) سورہ نجم(٥٣) آیت ٣ـ٤۔

٣٩
لہذا دیکھتے ہیں کہ پیغمبر اکرمۖ نے جناب خدیجہ کو صدیقہ کا لقب عطا کیا اور حضرت علی کو صدیق کالقب عنایت فرمایا ۔ چونکہ یہ دونوں ہر مقام اور ہر گام پر اور ہر پیغام و کلام میں پیغمبر اکرمۖ کی تصدیق فرماتے تھے اس کا مطلب یہ ہے کہ مصداق صدیقیت ، لوگوں کے ذاتی کمالات اور سیر ت کو دیکھ کر پیغمبراکرمۖ کی جانب سے مشخص ہوتے ہیں اور یہ ان الفاظ کا اطلاق و استعمال بغیر کسی قابلیت و صلاحیت کے ، بلا وجہ کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہیں ہے ، یہ کمترین چیز ہے کہ جو عرض کی جاسکتی ہے ۔
تاریخ دمشق میں ضحاک و مجاہد کے حوالے سے ابن عمر کی روایت نقل کی گئی ہے '' ایک مرتبہ جبرئیل پیغام الٰہی لے کر پیغمبراکرمۖ پر نازل ہوئے اور آپ کے قریب آکر بیٹھ گئے اور محو گفتگو ہوگئے کہ اتنے میں خدیجہ بنت خویلد کا وہاں سے گذرہوا ، جبرئیل نے سوال کیا اے محمد ۖ یہ کون ہیں ؟
پیغمبراکرمۖ نے فرمایا یہ میری امت کی صدیقہ ہیں ''ھذہ صدیقة امتی''
جبرئیل نے کہا : میرے پاس ان کے لیے خداوند عالم کی جانب سے ایک پیغام ہے کہ خداوندعالم ان کو سلام پیش کرتا ہے اور بشارت دیتا ہے کہ جنت میں ان کا گھر قصب(مروارید) کا ہے کہ جو پیاس اور آگ سے بہت دور ہے ، نہ اس میں کوئی رنج و غم ہے اور نہ کسی طرح کا شور شرابا۔
جناب خدیجہ نے فرمایا : اللہ السلام و منہ السلام والسلام علیکما ورحمة اللہ و برکاتہ علی رسول اللہ ۔
خداوندعالم سلام ہے اور سلامتی اسی کی جانب سے ہے آپ دونوں پر سلام ہو اور رحمت خدا اور اس کی برکتیں رسول خدا پر نازل ہوں یہ گھر کہ جو قصب کا ہے کیا ہے؟

٤٠
پیغمبراکرمۖ نے فرمایا : مروارید کا بہت بڑا قصر و قلعہ مریم بنت عمران اور آسیہ بنت مزاحم کے قلعوں کے درمیان اور یہ دونوں بہشت میں میری بیویاں ہونگی۔(١)
خداوندعالم کی جانب سے جناب خدیجہ کے لیے سلام آنا یہ آپ کا دوسری بیویوں پر فوقیت و برتری کی نشانی ہے چونکہ سلام الہٰی صرف معصوم کے لیے یا پھر اس شخص کے لیے آتا ہے کہ جو عصمت کے مرتبے میں ہو جیسے سلمان ، ابوذر اور عمار و غیرہ۔
..............
(١) تاریخ دمشق : ٧ ١١٨۔ اوراسی سے نقل ہے البدایة والنھایة :٢ ٦٢ میں ۔

یہ روایت شیعہ و سنی دونوں کتابوں میں مختلف و متعدد اسنا دکے ساتھ ذکر ہوئی ہے ، بخاری نے اپنی صحیح :٤ ٢٣١،کتاب بدء الخلق ،باب تزویح النبی ۖ خدیجہ میں مختصر اشارے کے ساتھ ابو ہریرہ سے نقل کی ہے ۔
سیرہ ا بن ہشام : ١٥٩١ میں عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب سے نقل ہوئی ہے اور اس میں یہ آیا ہے '' اللہ السلام و منہ السلام وجبرئیل السلام''۔
دولابی نے اپنی کتاب الذریة الطاہرہ ٣٦ میں ذکر کیا ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک :٣ ١٨٦ میں انس سے روایت نقل کی ہے اوراس میں ہے کہ ان اللہ ھو السلام و علیک السلام ورحمة اللہ و برکاتہ ۔ اور کہا ہے کہ یہ روایت ، مسلم کی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہے لیکن بخاری و مسلم نے اس کو ذکر نہیں کیا ۔
معجم الکبیر : ٢٣ ١٥ میں اور سنن الکبری (نسائی ) : ٥ ٩٤ ،حدیث ٨٣٥٩میں اور اسی سے نقل ہے اصابہ : ٨ ٢٠٢ میں اس میں بھی راوی انس ہی ہیں اور اس میں مذکور ہے ''ان اللہ ھو السلام و علی جبرئیل السلام وعلیک السلام ۔ اور تفسیر عیاشی : ٢ ٢٧٩،حدیث ١٢ میں ۔ اور اسی سے نقل ہے بحار الانوار :١٦ ٧ میں کہ یہ روایت ابو سعید خدری سے ہے ۔

٤١
ہاں ، اہل سنت نے سلام الہٰی کو دوسروں کے لیے بھی نقل کیا ہے جبکہ تحقیق اور ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ان روایات کا جعلی و من گھڑت ہونا ثابت ہے ۔
عسقلانی ، فتح الباری میں اس حصے کی شرح کرتے ہوئے کہتا ہے کہ جناب خدیجہ نے فرمایا : ھو السلام و عن جبرئیل السلام وعلیک السلام (خداوندعالم سلام ہے اور جبرئیل سے سلام ہے اور آپ پر اے رسول خدا سلام ہے )۔
علماء کا بیان ہے کہ یہ واقعہ جناب خدیجہ کی بلندی مقام پر دلیل ہے چونکہ آپ نے ''وعلیہ السلام'' نہیں کہا جیسا کہ بعض صحابہ کے متعلق یہ نقل کیا گیا ہے ۔ جناب خدیجہ نے اپنی فکر سے یہ سمجھ لیا کہ خداوندعالم کو عام مخلوق کی طرح جواب سلام نہیں دیا جاتا (١)۔
ڈاکٹر سلیمان بن سالم بن رجاء سیحمی (اسلامی یونیورسٹی مدینہ میں علمی گروپ کے ممبر)جناب خدیجہ کے لیے خدا کی جانب سے سلام کو نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کلام میں جناب خدیجہ کی دو عظیم منقبتیں پائی جاتی ہیں ۔
١ـ خداوندعالم کی جانب سے جبرئیل کے ذریعہ آپ کے لیے سلام آنا اور پیغمبر اکرمۖ کا آپ تک سلام پہچانا یہ ایسی خصوصیت ہے کہ کسی دوسری خاتون کو نصیب نہیں ہوئی ۔
٢ـ جنت میں مروارید کے گھر کی بشارت کہ جس میں نہ شورشرابا ہے اور نہ رنج وغم ۔
..............
(١) فتح الباری : ٧ ١٠٥۔

٤٢
سہیلی کا بیان ہے کہ'' بیت '' کے ذکر میں ایک لطیف معنی کی طرف اشارہ ہے چونکہ جناب خدیجہ بعثت سے پہلے صاحب خانہ تھیں اور آپ کا ہی گھر اسلام کا واحد گھر قرار پایا، جس روز سے پیغمبر اکرمۖ مبعوث ہوئے تو صرف آپ ہی کا بیت الشرف اسلام کا تنہا گھر تھا اور یہ ایک ایسی فضیلت ہے کہ کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں ہے ۔
اور پھر کہتا ہے کہ کسی بھی کام اور کار خیر کا بدلہ و جزاء غالباً اسی لفظ کے ساتھ بیان ہوتاہے چاہے وہ جزاء کتنی بھی بلند و بالا ہی کیوں نہ ہو اسی وجہ سے حدیث میں قصر نہیں بیت آیا ہے۔(١)
حافظ ابن حجر کا کہنا ہے کہ لفظ بیت میں ایک خاص معنی پوشیدہ ہے چونکہ پیغمبر اکرمۖ کے اہل بیت کی مرکزحضرت خدیجہ ہیں اس لیے کہ اس آیت(( ( انمایرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھر کم تطھیرا)(٢)
اے اہل بیت بس اللہ کا ارادہ یہ ہے آپ کو ہر طرح کے رجس سے پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک رکھنے کا حق ہے ) )کی تفسیر میں جناب ام سلمہ کا بیان ہے کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی پیغمبراکرمۖ نے فاطمہ ، علی وحسن اور حسین کو بلایا اور اپنی عبا ء ان پر ڈالی اور فرمایا : پروردگارا یہ میرے اہل بیت ہیں (اس روایت کو ترمذی اور دوسروں نے بھی نقل کیا ہے)۔(٣)
..............
(١) الروض الانف :١ ٤١٦۔
(٢) سورہ احزاب (٣٣) آیت ٣٣۔
(٣) فتح الباری :٧ ١٣٨۔

٤٣
ان افراد یعنی اہل بیت کا مرکز جناب خدیجہ ہیں چونکہ امام حسن و امام حسین حضرت فاطمہ کے فرزند ہیں اور حضرت فاطمہ جناب خدیجہ کی بیٹی ہیں اور حضرت علی بچپن ہی سے جناب خدیجہ کے گھر آگئے تھے وہیں تربیت پائی اور پھر آپ کی بیٹی جناب فاطمہ سے شادی ہوئی لہذا اہل بیت کی مرکزیت جناب خدیجہ کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے ۔(ڈاکٹر سلیمان )(١)
حاکم نیشاپوری نے اپنی اسناد کے ساتھ انس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرمۖ نے فرمایا : آپ کے لیے دنیا کی چار عورتوں کی معرفت کافی ہے مریم بنت عمران ، آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ۖ۔(٢)
سنن ترمذی میں عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے علی بن ابی طالب سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول خدا ۖسے سنا آپ نے فرمایا: اس زمانے میں دنیا کی بہترین عورت خدیجہ بنت خویلد ہیں اور اس زمانے میں مریم بنت عمران بہترین عورت تھیں ۔(٣)
..............
(١) العقیدہ فی اہل البیت بین الافراط و التفریط:١ ١٠٣ـ١٠٨۔
(٢) مستدرک حاکم : ٣ ١٥٧۔ اور ترمذی نے اس روایت کو جلد: ٥ ٣٦٧ ، حدیث٣٩٨١، ابواب مناقب میں نقل کیا ہے ۔ مسند احمد بن حنبل : ٣ ١٣٥۔ اخبار اصبہان:٢ ١١٧۔
(٣) سنن ترمذی : ٥ ٣٦٧،حدیث ٣٩٨٠،فضل خدیجہ۔ مسند احمد بن حنبل : ١ ١١٦۔ صحیح بخاری : ٤ ١٣٨، (تھوڑے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے )

٤٤
جناب خدیجہ ، پیغمبراکرمۖ کے لیے بہترین وزیر تھیں (١) اور آپ کو زمانۂ جاہلیت میں ''طاہرہ'' کہا جاتا تھا۔(٢)
فضائل الصحابہ ٔ احمد ابن حنبل میں (٣) تاریخ دمشق (٤) اور دوسرے منابع اور مآخذ(٥) میں عبدالرحمن بن ابی لیلی کی سند سے کہ اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرمۖنے فرمایا: صدیقین (بہت زیادہ سچے) تین شخص ہیں حبیب بن موسی نجار مؤمن آل یاسین وہ کہ جس نے کہا ( یا قوم اتبعواالمرسلین) (٦) اے میری قوم والو پیغمبروں کی اطاعت کرو ۔
..............
(١) البدایة و النھایة :٣ ١٥٧۔ فتح الباری : ٧ ١٤٨۔ الذریة الطاہرہ (دولابی) ٤٠۔ اسد الغابہ : ٥ ٤٣٩۔
(٢) مجمع الزوائد : ٩٧ ٢١٨۔ فتح الباری :٧ ١٠٠۔المعجم الکبیر :٢٢ ٤٤٨۔ اسد الغابہ :٥ ٤٣٤۔ تاریخ دمشق :٣ ١٣١۔ البدایة و النھایة :٣٢٩٣۔سیرة النبویة (ابن کثیر) : ٤ ٦٠٨۔
(٣) فضائل الصحابہ : ٢ ٦٥٥و ٢٦٧۔
(٤) تاریخ دمشق : ٤٢ ٤٣و ٣١٣۔
(٥) الفردوس بماثور الخطاب :٢ ٤٢١۔ فیض القدیر : ٤ ١٣٨۔ کنز العمال : ١١ ٦٠١۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) :٩ ١٧٢۔مناقب ابن شہر آشوب :٢ ٢٨٦۔ الجامع الصغیر:١١٥٢۔ الدر المنثور : ٥ ٢٦٢۔ ان تمام کتابوں میں صرف قرطبی تنہا ہے کہ جس نے اپنی تفسیر :١٥ ٣٠٦ میں تمام محدثین و مفسرین کے خلاف نقل کیا ہے کہ تیسرا شخص ابوبکر ہے نہ کہ علی ۔
(٦) سورہ یاسین(٣٦) آیت ٢٠۔

٤٥
حزقیل مؤمن آل فرعون وہ کہ جس نے کہا ( أ تقتلون رجلا)(١)کیا ایسے شخص کو قتل کروگے…اور علی بن ابی طالب ان میں تیسرے شخص ہیں کہ جو ان سب سے افضل ہیں ۔
سنن ابن ماجہ میں اپنی اسناد کے ساتھ عباد بن عبداللہ سے روایت نقل ہوئی کہ امیر المؤمنین نے فرمایا: ''انا عبد اللہ و اخو رسولہ و انا الصدیق الاکبر لا یقولھا بعدی الا کذاب صلیت قبل الناس سبع سنین'' میں اللہ کا بندہ ہوں ، اس کے رسول کا بھائی ہوں، میں صدیق اکبر ہوں میرے بعد صدیق ہونے کا دعوی جو بھی کرے وہ کذاب ہے میں نے لوگوں سے سات سال پہلے رسول خدا کے ساتھ نماز پڑھی ۔
مجمع الزوائد میں ہے کہ اس حدیث کی اسناد صحیح ہیں اور اس کے رجال ثقہ ہیں اس روایت کو حاکم نے مستدرک میں منہال سے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرائط کے اعتبار سے صحیح ہے ۔(٢)
..............
(١) سورہ مؤمن (٤٠) آیت ٢٨۔
(٢) سنن ابن ماجہ :١ ٤٤۔ مصباح الزجاجہ: ١ ٢٢۔ السیرة النبویة (ابن کثیر ) :١ ٤٣١۔ مستدرک حاکم : ٣ ١١١۔مصنف ابن ابی شیبہ:٧ ٤٩٨۔ الاحاد و المثانی (ضحاک) : ١ ١٤٨۔ السنة (ابن ابی عاصم) ٥٤٨۔ السنن الکبری (نسائی ) : ٥ ١٠٦۔ خصائص امیر المؤمنین (نسائی) ٤٦۔ تاریخ طبری:٢ ٥٦۔ تہذیب الکمال : ٢٢ ٥١٤۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید) : ١٣ ٢٠٠۔ اس میں مذکور ہے کہ امیر المؤمنین نے فرمایا : انا الصدیق الاکبر وانا الفاروق الاول اسلمت قبل اسلام ابی بکر و صلیت قبل صلاتہ بسبع سنین۔میں صدیق اکبر اور فاروق اول ہوں ، ابوبکر سے پہلے اسلام لایا اور اس سے سات سال پہلے نماز پڑھی ۔

٤٦
معاذ ہ عدویہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے علی کو خطبہ دیتے ہوئے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : میںصدیق اکبرہوں ، ابو بکر کے ایمان لانے سے پہلے ایمان لایا اور اس کے اسلام قبول کرنے سے پہلے اسلام قبول کیا ۔(١)
ابن حجر نے کتاب اصابہ میں اورابن اثیر نے اسد الغابہ میں ابی لیلی غفاری سے روایت نقل کی ہے کہ اس نے کہا کہ میں نے رسول اکرمۖ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ : سیکون من بعدی فتنة فاذا کان ذالک فالتزموا علی بن ابی طالب فانہ اول من آمن بی و اول من یصافحنی یوم القیامة وھو الصدیق الاکبر و ھو فاروق ھذہ الامة و ھو یعسوب المؤمنین۔(٢)
میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا اس وقت علی سے جدا نہ ہونا چونکہ علی وہ پہلے فرد ہیں کہ جو مجھ پرسب سے پہلے ایمان لائے اور روز قیامت مجھ سے سب سے پہلے مصافحہ کریں گے ، وہ صدیق اکبر ہیں اور اس امت میں فاروق و مؤمنوں کے بادشاہ ہیں ۔
تاریخ دمشق میں اپنی اسناد کے ساتھ ابن عباس سے روایت نقل ہوئی ہے کہ آپ نے کہا:
..............
(١) الاحاد والمثانی (ضحاک ) :١ ١٥١۔ التاریخ الکبیر(بخاری) :٤ ٢٣۔ تاریخ دمشق :٤٢ ٣٣۔ المعارف (ابن قتیبہ ) ٧٣۔ انساب الاشراف ١٤٦،شمارہ ١٤٦۔ مناقب ابن شہر آشوب : ١ ٢٨١۔ شرح نہج البلاغہ (ابن ابی الحدید ) :١٣ ٢٤٠۔ کنزالعمال : ١٣ ١٦٤، حدیث ٣٦٤٩٧۔ سمط النجوم العوالی :٢ ٤٧٦،حدیث ٨۔ اور کتب دیگر ۔
(٢) الاصابہ : ٧ ٢٩٣۔ اسد الغابہ : ٥ ٢٨٧۔ اور اسی کی طرح ابن عباس سے بھی نقل ہوا ہے دیکھیے :ـ الیقین (ابن طاؤس) :١ ٥٠٠۔

٤٧
'' ستکون فتنة فمن ادرکھا منکم فعلیہ بخصلتین : کتاب اللہ و علی بن ابی طالب فانی سمعت رسول اللہ یقول: ـ وھو آخذ بید علی ـ ھذ ا اول من آمن بی و اول من یصافحنی و ھو فاروق ھذہ الامة یفرق بین الحق والباطل و یعسوب المؤمنین و المال یعسوب الظلمة (١) وھو الصدیق الاکبر وھو بابی الذین اوتی منہ ، وھو خلیفتی من بعدی'' ۔(٢)
..............
(١) یہ جملہ شیعہ اور اہل تسنن کی تمام حدیث کی معتبر کتابوں میں مذکورہے اگر چہ اہل تسنن نے اس کو جعلی فرض کیا ہے اور اس کی جگہ پر'' المال یعسوب الفجار '' اور'' المال یعسوب المنافقین'' بھی بعض کتب اہل تسنن میں رکھ کر کچھ چالاکی دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔
یہ کلام ، امیرالمؤمنین کے بارے میں پیغمبراکرمۖ سے مروی ہے اور خود آپ بھی کہ جب بصرہ کے بیت المال میں تشریف لائے اور اس میں درھم و دینار پر نظر پڑی تب فرمایا اور اس کے علاوہ دوسرے مقام پر بھی یہ کلمات زبان پر لائے ۔
اس کلام کا مقصد یہ ہے کہ مؤمنین کے دل آپ کے شیدا اور عاشق ہیں اور آپ ہی کو اپنا مولا و امیر مانتے ہیں اور آپ ہی سے متمسک ہیں ۔لیکن ظالم ، فاسق و منافق اور انہیں کے طرف دار و ماننے والے اور تمام وہ افراد کہ جو حق و عدل کو برداشت نہیں کرسکتے ،دنیا پرست ہیں مال کے دلدادہ ہیں اور دنیاوی ساز وسامان پر مرتے ہیں ، مال اور دنیا ان کے دلوں پر حکومت کیے ہوئے ہیں ، اور ان کو حاصل کرنے کے لیے ہر کام کرگذر تے ہیں اور ہر برے فعل کے مرتکب ہوجاتے ہیں اور گندگی میں گرجاتے ہیں دنیا کو اختیار کرنے کی خاطر جو کام بھی ہو چاہے کتنا ہی برا کیوں نہ ہو ، کتنا ہی خلاف شرع و شریعت کیوں نہ ہو، چاہے دین ہی سے ہاتھ دھونا پڑے یا دوسروں کی حق تلفی ہو، انجام دے دیتے ہیں ۔ ۔۔۔ بقیہ اگلے صفحہ پر ۔۔۔

٤٨
عنقریب فتنہ برپا ہوگا جو بھی اس وقت موجود ہو اس کو چاہیے کہ دو خصلتوں کو مضبوطی کے ساتھ اپنالے ، ایک کتاب خدا اور دوسرے علی بن ابی طالب چونکہ میں نے رسول خدا ۖ کو فرماتے سنا ہے کہ جبکہ آپ ۖ نے علی کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور فرمارہے تھے کہ یہ پہلا شخص ہے کہ جو مجھ پر ایمان لایا اور سب سے پہلے روز قیامت مجھ سے مصافحہ کرے گا ،یہ اس امت کا فاروق ہے کہ جو حق کو باطل سے جدا کرنے والا ہے ، یہ مؤمنین کا حاکم ہے اور مال ظالموں پر حاکم ہے ، یہ صدیق اکبر ہے ، مجھ تک پہنچنے کا دروازہ ہے اور میرے بعد میرا خلیفہ ہے ۔
ابی سخیلہ کا بیان ہے کہ میں نے اور سلمان فارسی نے حج انجام دیا اور اس کے بعد ابوذر کے پاس پہنچے ، خدا کی مصلحت، ایک مدت تک ان کے مہمان رہے اور جب ہمارے چلنے کا وقت ہوا میں نے ابوذر سے سوال کیا:
..............
۔۔۔ پچھلے صفحہ کا بقیہ۔
اس طرح کے لوگوں کی رہبری ، ظلمہ یعنی وہ لوگ کہ جن کے اندر ونی حالات بہت گندیدہ ہیں، کرتے ہیں ، ظاہر ہے کہ وہ لوگ اپنے اوپر اور دین و سماج پر ظلم کرتے ہیں،مال بہت سے فتنوں اور حوادث کے وجود کا سبب بنتا ہے کہ جوانتہائی دردناک و غم انگیز ہوتے ہیں ،وہ لوگ مال کے پیرو کار ہیں اور مال کو جہاں بھی جس کے ہاتھ میں بھی دیکھتے ہیں اس کی اطاعت شروع کردیتے ہیں اسی کی راہ کو اپنا لیتے ہیں اور کسی دوسری چیز کو نہیں سوچتے یا دوسری تمام چیزوںکو بھول جاتے ہیں ۔
(٢) تاریخ دمشق: ٤٢ ٤٢ـ٤٣۔ اور اسی طرح کاکلام ابوذر سے بھی نقل ہوا ہے ۔
دیکھیے:ـ تاریخ دمشق :٤٢ ٤١۔

٤٩
اے ابوذر کچھ حادثات واقع ہوئے ہیں مجھے ڈر ہے کہ کہیں لوگوں میں اختلاف نہ ہو جائے ، اگر ایسا ہو تو ہمارے لیے آپ کا کیا حکم ہے تو ابوذر نے کہا خداوندعالم کی کتاب اور علی بن ابی طالب کا دامن پکڑلو اور گواہ رہنا میں نے پیغمبراکرمۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا : علی سب سے پہلے مجھ پر ایمان لائے اور روز قیامت سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں گے وہ صدیق اکبر ہیں اور وہ فاروق ہیں کہ جوحق و باطل کے درمیان جدائی کرتے ہیں ۔(١)
پیغمبر اکرمۖ سے مروی ہے کہ آپ نے جناب امیر سے فرمایا : اوتیت ثلاثاً لم یوتھن احد ولا انا اوتیت صھراً مثلی ، ولم اوت انا مثلی،(٢) و اوتیت زوجة صدیقة مثل ابنتی و لم اوت مثلھا زوجة و اوتیت الحسن و الحسین من صلبک و لم اوت من صلبی مثلھا و لکنکم منی وانامنکم''(٣) آپ کو تین ایسی چیزیں ملی ہیں جو کسی دوسرے کو نصیب نہیں ہوئیں حتی مجھے بھی نہیں ملیں ،خسر میری طرح، جبکہ مجھے بھی اپنی طرح خسر نہیں ملا ، صدیقہ بیوی ، میری بیٹی کی طرح جب کہ مجھے اس طرح کی کوئی بیوی نہ مل سکی اور آپ کی صلب سے حسن و حسین جیسے بیٹے عطا ہوئے، جب کہ مجھے ان کی طرح بیٹے نہ مل سکے ،لیکن آپ سب مجھ سے ہو اور میں آپ سے ہوں ۔
..............
(١) تاریخ دمشق : ٤١ ٤٢۔ المعجم الکبیر : ٦ ٢٦٩۔ مجمع الزوائد (ہیثمی ) : ٩ ١٠٢۔
(٢) درالغدیر :٢ ٤٤٠(چاپ اول تحقیق شدہ مرکز الغدیر ١٤١٦ھ) اس میں نیچے کے حاشیہ میں مذکورہے کہ الریاض النضرہ : ٣ ٥٢ میں بجائے مثلی ، مثلک آیا ہے۔
(٣) الریاض النضرہ :٢ ٢٠٢۔ اسی طرح الغدیر :٢ ٣١٢ میں مذکورہے۔

٥٠
اس حدیث سے واضح ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ ہیں چونکہ اس سے قبل بیان ہوچکا ہے کہ خدیجہ ، پیغمبر اکرمۖ کی نص کے مطابق صدیقہ ہیں بلکہ جبکہ اس حدیث میں حضرت فاطمہ زہرا کا مقام والا بیان ہوا ہے کہ جو اس مطلب پر دلیل ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا جناب خدیجہ سے افضل ہیں ، حضرت کا یہ فرمان کہ ولم اوت مثلھا زوجة مجھ کو فاطمہ کی طرح بیوی نہیںملی۔
اس پوری گفتگو سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ صدیقہ کا صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ چند مراتب ہیں جیسے کہ جناب خدیجہ صدیقہ ہیں ان کا مرتبہ الگ ہے اور حضرت فاطمہ زہرا صدیقہ ہیں جبکہ ان کا مرتبہ بہت بلند ہے ۔
ایک طولانی حدیث میں پیغمبر اکرمۖ نے ارشاد فرمایا :'' یا علی انی قد اوصیت فاطمة ابنتی باشیاء و امرتھا ان تلقیھا الیک فانفذ ھا فھی الصادقة الصدیقة ثم ضمھا الیہ و قبل رأسھا و قال فداک ابوک یا فاطمة۔(١)
اے علی میں نے اپنی بیٹی فاطمہ کو چند چیزوں کی وصیت کی اور ان کو حکم دیا کہ وہ آپ کو بتائیں پس ان کو انجام دینا چونکہ وہ صادقہ (سچی)اور صدیقہ(بہت زیادہ سچی) ہیں پھر پیغمبراکرمۖ نے حضرت فاطمہ کو اپنے سینے سے لگایا اور آپ کے سر کا بوسہ لیا اور فرمایا اے فاطمہ آپ کا باپ آپ پر فدا و قربان ہو۔
مفضل بن عمر سے روایت ہے کہ اس نے کہا میں نے حضرت امام جعفر صادق سے عرض کی کہ حضرت فاطمہ کو کس نے غسل دیا؟ آپ نے فرمایا: امیرالمومنین نے۔
..............
(١) کتاب الوصیة (عیسی بن مستفاد) ١٢٠۔ بحار الانوار : ٢ ٤٩١۔

٥١
یہ کلام مجھ پر گراں گذرا آپ نے فرمایا : میں نے جو کچھ تم کو خبر دی ہے یہ تم پر گراں گذری ہے ! میںنے عرض کی جی ایسا ہی ہے میں آپ پر قربان ہوجاں، تب مولا نے فرمایا: لا تضیقن فانھا صدیقة لم یکن یغسلھا الا الصدیق اماعلمت ان مریم لم یغسلھا الا عیسی(١)۔
اپنے اوپر احساس نہ لیں ، فاطمہ صدیقہ ہیں اور ان کو صدیق کے علاوہ کوئی غیر غسل نہیں دے سکتا تھا ، کیا آپ کو نہیں معلوم کہ جناب مریم کو حضرت عیسی کے علاوہ کسی نے غسل نہیں دیا ۔
جناب علی بن جعفر اپنے بھائی امام موسی کاظم سے روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ان فاطمة صدیقة شھیدة (٢) بیشک فاطمہ صدیقہ شہیدہ ہیں ۔
پس صدیقہ کبری جناب خدیجہ ، صادق امین محمدۖ بن عبداللہ سے صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا دنیا میں آئیں اور آپ کی شادی صدیق اکبر علی بن ابی طالب کے ساتھ ہوئی اور دونوں ، انوار کا مرکز اور دو دریا کے ملاپ یعنی مجمع البحرین ہوگئے ۔
اس سے پہلے حضرت امیرالمؤمنین علی اور جناب خدیجہ کبری نے پیغمبراکرمۖ کی تصدیق فرمائی اس زمانے میں کہ لوگ آپ کو جھٹلارہے تھے ۔ اور پیغمبراکرمۖ نے بارہا عایشہ کو کہ جب وہ جناب خدیجہ سے رشک و حسد کرتیں تو اس بات کی تاکید فرمائی ۔
..............
(١) اصول کافی :١ ٤٥٩، حدیث ٢٤ و ج: ٣ ١٥٩،حدیث ١٣۔علل الشرائع ١٨٤، حدیث١۔ التھذیب:١ ٤٤٠، حدیث ١٤٢٤۔ الاستبصار:١ ١٩٩، حدیث ١٥٧٠٣۔
(٢) اصول کافی : ١ ٤٥٨، حدیث ١٢۔ مرأ ة العقول : ٥ ٣١٥۔ اس ماخذ میں جناب علامہ مجلسی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کلمہ صدیقہ سے آپ کی عصمت بھی ثابت ہوتی ہے ۔

٥٢
عایشہ نے کہا کہ آپ کس قدر قریش کی ایک بوڑھی کا تذکرہ کرتے ہیں جبکہ ان کے منھ میں دانت بھی نہ تھے بلکہ صرف دو سرخ مسوڑے رہ گئے تھے حالانکہ آپ کو خداوندعالم نے ان سے بہتر بیویاں عطا کی ہیں ۔(١)
اس وقت پیغمبراکرمۖ کا چہرہ اس قدر متغیر ہوا کہ کبھی ان کو ایسی حالت میں نہیں دیکھا تھا مگر سوائے وحی کے وقت یا بجلی کے کڑکتے اور گرجتے وقت کہ جب وہ محسوس کرتے کہ وہ رحمت یا عذاب الہٰی ہے ۔(٢) پھر فرمایا : یہ بات نہ کہو ، چونکہ خدیجہ نے میری اس وقت تصدیق کی کہ جب لوگ مجھ کو جھٹلارہے تھے ۔(٣)
خداوندعالم کے اس کلام ( والذی جاء بالصدق و صدق بہ) (٤) (وہ کہ جو صدق لایا اور اس کے ذریعہ سے تصدیق کی ) کی تفسیر میں صحابہ اور تابعین سے روایت ہے کہ ( والذی جاء بالصدق) سے مراد پیغمبر اکرمۖ ہیں اور ( و صدق بہ) (کہ جس نے تصدیق کی ) سے
..............
(١) صحیح بخاری : ٤ ٢٣١، کتاب بدء الخلق ، باب تزویج النبی ۖ خدیجہ و فضلھا ۔ صحیح مسلم :٧ ١٣٤۔ مستدرک حاکم:٤ ٢٨٦۔ مسند بن راہویہ : ٢ ٥٨٧۔ صحیح بن حبان : ١٥ ٤٦٨۔ سیر اعلام النبلاء : ٢ ١١٧۔
(٢) مسند احمد بن حنبل : ٦ ١٥٠ و ١٥٤۔ البدایة و النھایة : ٣ ١٥٨۔
(٣) المعجم الکبیر : ١٢ ٣٢۔ الافصاح (مفید ) ٢١٧۔ التعجب (کراجکی) ٣٧۔
(٤) سورہ زمر(٣٩) آیت ٣٣۔

٥٣
حضرت علی بن ابی طالب مراد ہیں ۔(١)
خداوندعالم کے اس کلام کے بارے میں کہ ( فمن اظلم ممن کذب علی اللہ و کذب بالصدق اذجائہ) (٢) اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہے کہ جس نے خداوندعالم پر جھوٹ بولا اور جب سچائی اس کی طرف آئی تو اس کو جھٹلایا ۔
امیر المؤمنین نے فرمایا :'' الصدق ولایتنا اھل البیت'' (٣) صدق سے مراد ہم اہل بیت کی ولایت ہے ۔
صاحبان اقتدار و حکومت اور ان کے پیرو کار ان القاب کو حضرت فاطمہ زہرا ، جناب خدیجہ اور حضرت علی کے لیے برداشت نہ کرسکے ۔ لہذا اس حقیقت کی تحریف میں لگ گئے اور اپنی سعی ناکام سے ابو بکر کو صدیق کا لقب دیا اور عایشہ کو صدیقہ کہا ۔
..............
(١) یہ معنی ابن عباس سے نقل ہواہے ۔ دیکھیے : شواہد التنزیل : ٢ ١٨٠، آیت ١٤٠، حدیث ٨١٣ و ٨١٤۔ اور ابو ہریرہ سے منقول ہے جیسا کہ الدر المنثور : ٥ ٣٢٨ میں مذکورہے ۔ اور ابو طفیل سے نقل ہے جیسا کہ شواہد التنزیل میں موجود ہے :١٨١٢، آیت ١٤٠، حدیث ٨١٥ ۔ ابو الاسود سے جیسا کہ البحر المحیط : ٧ ٤١١ میں آیا ہے اور مجاہد سے مندرجہ ذیل منابع میں ہے :
البحر المحیط : ٧ ٤١١ ۔تفسیر قرطبی :١٥ ٢٥٦۔ شواہد التنزیل : ٢ ١٨٠، آیت ١٤٠، حدیث ٨١٠ و ٨١٢۔ مناقب امام علی (ابن مغازلی) ٢٦٩، حدیث ٢١٧۔ تاریخ دمشق : ٤٢ ٣٥٩ـ ٣٦٠۔
(٢) سورہ زمر(٣٩) آیت ٣٢۔
(٣) امالی (طوسی) ٣٦٤، مجلس ١٣، حدیث ١٧۔ مناقب ابن شہر آشوب :٢ ٢٨٨۔ بحار الانوار :٨ ٢٨٨۔

٥٤
نیز خداوندعالم کے اس فرمان (کونوا مع الصادقین ) (١) (سچوں کے ساتھ ہوجاؤ) کی تفسیر یہ کی کہ ابوبکر و عمر کے ساتھ ہوجاؤ۔(٢)
اور وہ روایات کہ جو صراحتا ً امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے لقب صدیق ہونے پر دلالت کرتی ہیں ان کی یا تضعیف کی یا اصلاً عمداً قبول ہی نہیں کیا ۔(٣)
ہم اس سلسلے میں دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ابو بکر اور عایشہ کی زندگی و سیرت میں اس طرح کی صلاحیت و لیاقت اور ملاکات و معیار پائے جاتے ہیں کہ ان کو صدیق اور صدیقہ کہا جائے یا یہ لقب زبردستی ان کو دیے گئے ہیں ؟۔
..............
(١) سورہ توبہ (٩) آیت ١١٩۔
(٢) تفسیر طبری : ١١ ٨٤۔ زاد المسیر (ابن جوزی) : ٣ ٣٤٩۔ تفسیر قرطبی : ٨ ٢٨٨۔ الدر المنثور : ٣ ٢٨٩۔ فتح القدیر : ٢ ٤١٤۔ تاریخ دمشق : ٣٠ ٣١٠ و ٣٣٧ و ج : ٤٢ ٣٦١۔
(٣) دیکھیے : ضعفاء العقیلی : ٢ ١٣٠ و ١٣٧۔ الکامل (ابن عدی) :٣ ٢٧٤۔ الموضوعات (ابن جوزی) :١ ٣٤۔

یہ لوگ عمر کی پیروی کرتے ہوئے اس خبر کو ضعیف مانتے ہیں کہ عمر نے حضرت امیر المؤمنین علی کو بیعت نہ کرنے کی صورت میں دھمکی دی تب امام علی نے فرمایا : کیا تم لوگ خدا کے بندے اور اس کے رسول کے بھائی کو قتل کروگے ؟ عمر نے کہا : آپ خداکے بندے تو صحیح لیکن رسول کے بھائی نہیں !۔