|
16
تمہید
بحث موضوعی کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کچھ ایسے الفاظ و اصطلاحات سے روبرو ہوتا ہے کہ جن کے سلسلے میں اپنی ذہنیت واقعی کا استعمال کرتا ہے، اور کبھی کبھی تاریخی شواہد وغیرہ انسان کو ان الفاظ و اصطلاحات کی تحقیق پر مجبور کرتے ہیں ۔خصوصا ایسے موارد کہ جہاں ایک ہی لفظ ،ایک ہی اصطلاح ایک دوسرے کے متعارض یا مخالف مواقع پر استعمال ہوئی ہو کہ جن کے درمیان کسی بھی طرح سے وجہ جمع ممکن نہ ہو اور نہ ہی کوئی شرعی یا عقلی قابل قبول توجیہ موجود ہو ۔
اسلامی تاریخ ، فقہ اور حدیث کا مطالعہ کرتے ہوئے کچھ ایسے الفاظ سے گذر ہوتا ہے کہ جو ایک دوسرے کے خلاف ہیں یا متناقض و متضاد ہیں اور محقق کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا برتاؤ کرے یا ان کے درمیان کیا وجہ جمع ایجاد کرے چونکہ یہ قدیم الایام سے ہم تک پہنچے ہیں ۔
یہ متناقضات خصوصاً اس طرح کے افراد کے سامنے زیادہ آتے ہیں کہ جو بعض ایسی شخصیات کو مقدس بناکے پیش کرنا چاہتے ہیں کہ جن کو اللہ و رسولۖ نے بعنوان مقدس یاد نہیں فرمایا۔جبکہ ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ دونوںمذہب(مذہب صحابہ و مذہب اہل بیت ) کی روش کو ایک جگہ جمع کریں۔
١٧
لہٰذا ہم ایک طرف دیکھتے ہیں کہ یہ افراد محبت اہل بیت علیہم السلام کا دم بھرتے ہیں اوردوسری طرف اہل بیت علیہم السلام پر ہونے والے مظالم کو بھی پسند نہیں کرتے لہٰذا ایک ایسی روش و راستہ ایجاد کرنا چاہتے ہیں کہ جس میں ظالموں کے ظلم سے چشم پوشی ہوسکے ،اس دعوی کے ساتھ ساتھ کہ جس نے جو کیا ،اچھا ہو یا برا، وہ چلا گیا اور اپنے اعمال اپنے ساتھ لے گیا ، ہمیں کیا مطلب کہ ہم ان کے کارناموں میں دخل اندازی کریں۔
یہ توجیہ ابتداء ً اچھی اور معقول نظر آتی ہے لیکن تھوڑا ہی غور و فکر کرنے سے اس کی خرابیاں آشکار ہونے لگتی ہیں چونکہ یہ شخصیات ، تاریخ کے عام افراد نہیں تھے کہ جن کے بارے میں کہا جائے کہ ان کے اچھے اور برے اعمال خود ان ہی سے مربوط ہیں اور ان کا مسئلہ خدا کے حضور پیش کیا جائے تاکہ وہ ان کے بارے میں جو چاہے حکم کرے۔
بلکہ وہ لوگ تاریخ و شریعت میں ایک مہم نقش رکھتے تھے اور عصر حاضر میں بہت سے مسلمانوں کے نظر یات انہیں سے ماخوذ ہیں اس وجہ سے ناچار ہیں کہ ان کی سیرت و حالات زندگی سے آشنا ہواجائے۔ چونکہ یہ ہماری آج کی اجتماعی زندگی اور علمی و عملی سیرت سے مربوط ہے اس لیے کہ ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے لہٰذا علی و فاطمہ کی معرفت ، ابوبکر و معاویہ کی پہچان کے بغیرممکن نہیںہے ۔چونکہ یہ ہم کو ماننا پڑے گا کہ خدا وندعالم کی جانب سے رسول اکرمۖ پرنازل ہونے والا حکم اورحق ایک ہی ہے اور اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے باطل ہے پس اگر علی حق کے ساتھ ہیں '' علی مع الحق ''(١) تو معاویہ باطل پر ہے۔
..............
(١) خصال (صدوق) ٤٩٦۔ کفایةالاثر ٢٠۔ تاریخ مدینہ دمشق: ٤٢ ٤٤٩۔
١٨
اور اگر حضرت فاطمہ زہرا اپنے مدعیٰ میں سچی ہیں تو یقینا ابوبکر سچے نہیں ہیںاوراس کے علاوہ کوئی تیسری صورت نہیں۔ چونکہ خداوندعالم کا ارشاد گرامی ہے : ( فماذا بعد الحق الا الضلال فانیٰ تصرفون) (١) حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے پس کہاں منھ موڑے جارہے ہو۔
اور پیغمبراکرمۖ کا فرمان ہے : (ستفرق امتی الی نیف و سبعین فرقة ،فرقة ناجیة والباقی فی النار)(٢) عنقریب میری امت ستر سے زیادہ فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی کہ جن میں سے ایک فرقہ ناجی اور باقی جہنمی ہیں۔
یہ دونوں نصوص، وضاحت کے ساتھ ایک کے حق ہونے اور دوسر ے کے باطل ہونے پر دلالت کرتی ہیں بلکہ دین اسلام بطور کلی وحدت فکر و مضمون پر موقوف ہے ۔
حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں :''فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ، ولو ان الحق خلص من لبس الباطل لانقطعت عنہ السن المعاندین ، ولکن یوخذ من ھٰذا ضغث و من ھٰذا ضغث فیمزجان ، فھنالک یستولی الشیطان علی اولیائہ ، وینجو الذین سبقت لھم من اللہ الحسنی''(٣)
..............
(١) سورہ یونس(١٠) آیت ٣٢۔
(٢) شرح الاخبار :٢ ١٢٤۔ خصال(صدوق) ٥٨٥۔ سنن ابن ماجہ:٢ ٣٩٩٣ ،ح ١٣٢٢، اس ماخذ میں بیان ہوا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس کے رجال سند ثقہ ہیں ۔سنن ترمذی:٤ ١٣٥ ، اس ماخذ میں ہے کہ یہ حدیث غریب ہے ۔ مستدرک حاکم :١٢٩١۔
(٣) نہج البلاغہ :١ ٩٩ خطبہ ٥٠۔ شرح نہج البلاغہ : ٣ ٢٤٠۔
١٩
اگر باطل ، حق کی آمیزش سے خالی رہتا تو حق کے طلب گاروں پر پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق ، باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتا تو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ ایک حصہ اس سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے ، ایسے ہی مواقع پر شیطان اپنے ساتھیوں پر مسلط ہوجاتاہے اور صرف وہ لوگ نجات حاصل کرپاتے ہیں جن کے لیے پروردگار کی جانب سے نیکی پہلے ہی سے پہنچ چکی ہو تی ہے۔
اور آپ ہی نے حارث بن لوط لیثی سے فرمایا:
'' یا حارث، انک ملبوس علیک! ان الحق لایعرف بالرجال، اعرف الحق تعرف اھلہ''(١)
اے حارث آپ پر امر مشتبہ ہوگیا ہے حق لوگوں سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ حق کو پہچانو پھر اہل حق کو پہچان جاؤ گے ۔
سلف و گذشتگان کی بزرگی و ہیبت نے بعض لوگوں کو اس تناقض گوئی میں ڈال دیا ہے جبکہ صحابہ عام انسانوں کی طرح ہیں اور سب الٰہی قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرتے ہیں پس جوشخص خداوندعالم اور اس کے پیغمبر ۖ ، کتاب الٰہی اور اس کے احکام پر ایمان لائے ،راہ ہدایت کو اپنائے وہ ہدایت یافتہ ہے اور جو اس راستہ سے گمراہ و منحرف ہو اس نے خود نے اپنے آپ کو گمراہ کیا ہے ۔
..............
(١) انساب الاشراف ٢٣٨ـ٢٣٩۔ امالی شیخ طوسی ١٢٤، ح ٢١٦۔ تفسیر قرطبی :١ ٣٤٠۔ اور دیکھیے ـ: وسائل الشیعہ :٢٧ ١٣٥، ح ٣٢۔ بحار الانوار :٢٢ ١٠٥، ح ٦٤۔
٢٠
پس پیغمبر اکرمۖ کا صحابی ہونا اس بات سے مانع نہیں ہے کہ صحابی کی رأ و نظریات کی تحقیق ورد نہ کی جائے چونکہ پیغمبراکرمۖ کی حیثیت چمکتے ہوئے سورج کی طرح ہے اور جو حضرات ان کے ہمراہ و مصاحب ہیں ان کی مثال آئینہ کی ہے کہ جس قدر آئینہ صاف و شفاف ہوگا اسی قدر نور نبوت اس میں منعکس ہوگااور جس قدر دھندلا ہوگا تو سورج کی روشنی بھی اس کی دھندلاہٹ ہی میںاضافہ کرے گی۔
(سورج کی روشنی و گرمی پھول پر پڑتی ہے تو خوشبو میں اضافہ کرتی ہے اور گندگی پر پڑتی ہے تواس کی بدبو میں اضافہ کرتی ہے) لہٰذا اس صورت میں کمی و نقص اس مصاحب(صحابی) میں ہے نہ کہ مصاحبۖ میں۔
حضرت امام زین العابدین علی بن الحسین علیہما السلام ان صحابہ کی کہ جوپیغمبراکرمۖ کی روش و سیرت پر باقی رہے اور آپۖ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں کی ، ستائش و تجلیل کرتے ہوئے اپنی دعامیں اس طرح فرماتے ہیں :
''اللھم واصحاب محمد خاصة الذین احسنو ا الصحابة الذین ابلوا البلاء الحسن فی نصرہ ، و کانفوہ و اسرعوا الی وفادتہ ، وسابقوالی دعوتہ، واستجابو لہ حیث اسمعھم حجة رسالتہ ، وفارقوا الازواج والاولاد فی اظہار کلمتہ ، وقاتلوا الاباء والابناء فی تثبیت نبوتہ ، وانتصروا بہ، ومن کانوا منطوین علی محبتہ یرجون تجارةً لن تبورفی مودتہ ، والذین ھجرتھم العشائر اذتعلقو ابعروتہ ، و انتفت منھم القرابات اذ سکنوفی ظل قرابتہ ،فلا تنس لھم اللھم ماترکو ا لک و فیک، وارضھم من رضوانک ۔ ۔ ۔ اللھم واوصل الی التابعین لھم باحسانـالذین یقولون
٢١
( ربنا اغفرلناولاخوانناالذین سبقونابالایمان)(١) ـخیرجزائک،الذین قصدوا سمتھم'' (٢)
بارالٰھا، خصوصیت سے اصحاب محمدۖ میں سے وہ افراد کہ جنہوں نے پوری طرح پیغمبر اکرمۖ کا ساتھ دیا اور ان کی نصرت میں پوری شجاعت کا مظاہرہ کیا اور ان کی مدد پر کمر بستہ رہے، ان پر ایمان لانے میں جلدی، ان کی دعوت کی طرف سبقت کی اور جب پیغمبراکرمۖ نے اپنی رسالت کی دلیلیں ان کے گوش گذار کیں تو انہوں نے لبیک کہا اور ان کا بول بالا کرنے کے لیے اپنے بیوی بچوں تک کو چھوڑدیا اور امر نبوت کے استحکام کے لیے باپ اور بیٹوں تک سے جنگیں کیں ، نبی اکرمۖ کے وجود کی برکت سے کامیابیاں حاصل کیں اس حالت میں کہ آپ ۖ کی محبت دل کے ہر رگ و ریشہ میں لیے ہوئے تھے اور ان کی محبت و دوستی میں ایسی نفع بخش تجارت کے مواقع تھے کہ جس میں کبھی نقصان نہ ہو اور جب ان کے دین کے بندھن سے وابستہ ہوئے تو ان کے قوم و قبیلہ نے انہیں چھوڑ دیا اور جب سایہ ٔ قرب میں منزل کی تو اپنے بیگانے ہوگئے ۔
اے میرے معبود انہوں نے تیری خاطر اور تیری راہ کے سبب سب کو چھوڑ دیا تو (جزاء کے موقع پر) ان کو فراموش نہ کرنا اور ان کی اس فداکاری ،خلق کو تیرے دین پر جمع کرنے اور رسول اللہ ۖ کے ساتھ داعی حق بن کرکھڑے ہونے کے صلہ میں انہیں اپنی خوشنودی سے سرفراز و شادکام فرما اور جزائے خیر دے ۔۔۔
..............
(١) سورہ حشر (٥٩) آیت ١٠۔
(٢) صحیفہ سجادیہ ، چوتھی دعا (رسول اکرم ۖ کی اتباع و تصدیق کرنے والوں کے حق میں دعا)۔
٢٢
اہل بیت علیہم السلام کی سیرت و روش صحابہ ٔ کرام کے بارے میں اسی طرح ہے اور یہی راستہ حق ہے کہ ہر مسٔلہ کو اسی میزان میں پرکھا جاتاہے لیکن ہم دوسری طرف دیکھتے ہیں کہ جہاں سب کو مخلوط کرکے رکھ دیا گیا ہے ،طلیق (آزاد شدہ غلام ) کو مہاجر کی طرح اور صریح(محاصرہ کرنے والے) کو لصیق(محاصرہ ہونے والے ) کی طرح ، محق (اہل حق ) کو مبطل(اہل باطل) کی طرح پیش کیا جاتا ہے (١) اور انتہا ئی جرأت سے کہا جاتاہے کہ ہمارے سید و سردار معاویہ ہمارے سید و سردار علی سے لڑے یا ہماری سیدہ و عایشہ نے ہمارے سید و سردار علی کے خلاف خروج کیا یاہمارے سید و سردار یزید نے ہمارے سید و سردار حسین کو قتل کیا اور اسی طرح بہت سے متناقض کلام دیکھنے میں آتے ہیں ۔
..............
(١) دیکھیے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا نامہ کہ جو معاویہ کے لیے تحریر فرمایا : (۔۔۔ ولکن لیس امیة کھاشم ، ولا الحرب کعبدالمطلب، ولا ابوسفیان کابی طالب ولاالمھاجر کالطلیق ، ولا الصریح کاللصیق ، ولا المحق کاللمبطل ولا المؤمن کالمدغل۔(شرح نہج البلاغہ(ابن ابی الحدید معتزلی):٣ ١٨ـ١٧)
… اور لیکن امیہ، ہاشم کی طرح نہیں ہے اور نہ ہی حرب ، عبد المطلب کی طرح ہے اور نہ ابو سفیان، ابوطالب کی مانند ہے اور نہ ہی آزاد شدہ غلام(طلیق) مہاجر کی طرح ہوسکتا ہے اور محاصرہ کرنے والا(صریح ) محاصرہ ہونے والے(لصیق ) کی مانند، نہ محق (اہل حق ) مبطل(اہل باطل) کی طرح ہے تو نہ ہی مؤمن ، منافق و دھوکے باز کی طرح۔
خداوندتبارک و تعالی سورہ جاثیہ آیت ٢١میں ارشاد فرماتا ہے : (ام حسب الذین اجترحوا السیٔات ان نجعلھم کالذین آمنوا و عملوا الصاحات سواء ً محیا ھم و مماتھم ساء مایحکمون) ۔
٢٣
اور اس طرح کی تناقض گوئیوں میں کہ جہاں غور وفکر لازم ہے یہ بات بھی ہے کہ جو اہل بیت علیہم السلام کے مدمقابل والا مذہب ، ابوبکر اور حضرت فاطمہ زہرا کے سلسلے میں زبان پر لاتا ہے کہ ہمارے سید و سردار ابوبکر صدیق نے فدک و میراث رسولۖ کے بارے میں صدیقہ طاہرہ سے اختلاف کیا !۔
اس طرح کی عبارات و الفاظ سے بعض مسلمانوں پر مسٔلہ مشتبہ ہوگیا ہے لہذا اس مسئلہ میں وہ یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ،اور یہ کام ان دونوں حضرات کی نسبت لفظ صدیق و صدیقہ کے معنی میں تحریف کرکے ایجاد کیا گیا ہے ۔
بہر حال ان میں سے اگر کوئی ایک سچا و صادق ہے تو دوسرا یقینا و حتمی جھوٹا و کاذب ہے اور صدیقہ کے متعلق بھی کہ جو انتہائی صادق القول تھیں اور پیغمبر اکرمۖ و خداوندعالم نے ان کی تصدیق فرمائی ہے یہی مسئلہ ہے ۔یہ دونوں باتیںقبول نہیں کی جاسکتیں چونکہ دونوں ایک دوسرے کو خواہ صراحتاً یا اشارتاً و تلویحاً جھٹلارہے ہیں ۔
حضرت فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا نے اس کلام سے ''لقدجئت شیئا فریا'' (١) ( آپ نے ایک جھوٹی اور اپنے پاس سے من گھڑت چیز پیش کی ہے ) بالکل واضح طورپر ابوبکر کی تکذیب کی ہے جبکہ ابوبکر یہ جرأت نہ کرسکے کہ حضرت زہرا کی صراحتاً تکذیب کریں بلکہ ایک ایسے کلام کا سہارا لیا کہ جس کا نتیجہ حضرت زہرا کی تکذیب تھی ۔
اب اس مسودہ کے ذریعہ لفظ صدیق کے معنی لغة اور استعمال میں تلاش کرتے ہیں ۔
..............
(١) سورہ مریم (١٩) آیت ٢٧۔
| |