(ج) وصیت حضرت زہرا سلام اللہ علیہا )
جب حضرت زہرا سلا م اللہ علیہاکی علالت شدت کر گئی تو حضرت زہرا نے حضرت علی سے کہا یا ابن عم مجھے یقین ہے اب عنقریب میں اپنے والد گرامی سے ملاقات کرونگی لہٰذا میں وصیت کر نا چا ہتی ہوں حضرت علی حضرت زہرا کے قریب آبیٹھے اور فرمایا اے پیغمبر کی بیٹی آپ میرے پاس امانت تھی جو آپ کا دل چاہتا ہے وصیت کیجئے میں آپ کی وصیت کے مطابق عمل کر نے کا عہد کرتا ہوں ا س وقت حضرت علی کی نظر جناب سیدہ کونین کے افسردہ چہرے پر پڑ ی تو رونے لگے حضرت زہرا نے پلٹ کر حضرت علی کی طرف دیکھتے ہو ئے فرمایا یا ابن عم اب تک میں نے آپ کے گھر میں کبھی نہ چھوٹ نہ خیانت کی ہے بلکہ ہمیشہ آپ کے احکامات ور دستورات پر عمل کر نے کی کو شش کی ہے پھر بھی میری کو تا ہیوں کو معاف کیجئے۔
حضرت علی نے فرمایا اے پیغمبر کی دختر آپ کو اللہ تعالی کی اتنی شنا خت اور معرفت تھی تب ہی تو کسی قسم کی کوتاہی کا احتمال تک نہیں دے سکتا خدا کی قسم آپ کی جدائی اور فراق مجھ پر بہت سخت اور سنگین ہے کیونکہ پیغمبر اکرم ۖ جب دنیا سے رخصت کر گئے تو آپ نے ہی میری مدد کی لیکن آپ کے بعد میری مدد کون کرے گا مگر موت بر حق ہے اس کے سامنے کوئی چارہ نہیں ہے خدا کی قسم آپ کی مو ت نے میری مصیبتیں تازہ کردی ہیں آپ کی اس جوانی میں موت کا آنا میرے لئے بہت ہی درد ناک حادثہ ہے ( انا للہ وانا اللہ راجعون ) خدا کی قسم اس عظم حادثہ کو کبھی میں فراموش نہیں کروں گا (١)
جناب سیدہ اپنی زندگی کی صداقت اور شوہر کی اطاعت کو بیان کرنے کے بعد حضرت فاطمہ اور حضرت علی علیہ السلام باہم رونے لگے جناب سیدہ کے رونے پر قابو پا نے کے بعد حضرت علی علیہ لسلام نے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا سے فرمایا یا حضرت زہرا سر مبارک کو میرے دامن میں رکھیں جناب سیدہ نے سرمبارک کو حضرت علی کے دامن میں رکھا اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا آپ وصیت کیجئے حضرت زہرا نے وصیتیں شروع کیں:
١) یا ابن عم مرد عورت کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا ،لہٰذا آپ میرے مرنے کے بعد امامہ سے ازدواج کیجئے چونکہ امامہ باقی عورتوں کی بہ نسبت میرے بچوں پر زیادہ مہربان ہے (٢)
………
(١) بحارالا نوار جلد ٤٣ . (٢) مناقب شہرآشوب جلد ٣ ص٣٦٢، دلائل الا ما مة.
٢) میرے بچوں کے ساتھ نرمی سے پیش آئیے گا کبھی ان کو سخت لہجہ سے نہ پکاریئے گا۔
٣) میرے جنازہ کو رکھنے کے لئے ایک تابوت مہیا کیجئے گا ۔
٤) مجھے رات کو غسل اور تجہیز وتکفین کرکے دفن کیجئے گا اور ان افراد کو میری تجہیز وتدفین میں آنے کی اجازت نہ دیجے گا (ابوبکر ،عمروغیرہ ) (١)
٥) رسول اکرم کی بیویوں میں سے ہر ایک کو میری طرف سے مدد کیجئے گا۔(٢)
اور ایک روایت میں ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے ایک وصیت نامہ لکھوا یا حضرت علی علیہ السلام وصیت نامے کے کاتب تھے اور جناب مقداد اور زبیر اس کے گواہ تھے اس وصیت نامے کوجناب آیتہ اللہ امینی نے اپنی کتاب میں اس طرح ذکر فرمایا ہے:
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
''یہ وصیت نامہ فاطمہ پیغمبر اکرم ۖکی دختر کا ہے میں خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتی ہوں اور گواہی دیتی ہوں کہ محمد ۖ خدا کے رسول ہیں بہشت اور
………
(١)بحارالانوار جلد ٤٣ . (٢)دلائل الاما مة.
دوزخ برحق ہے قیامت کے واقع ہونے میں شک نہیں ہے خدا مردوں کو زندہ فرمائیںگا یا علی خدانے مجھے آپ کا ہمسر قرار دیا ہے تا کہ دنیا اور اخرت میں اکٹھے رہیں میرا اختیار آپ کے ہاتوں میں ہے اے علی مجھے رات کو غسل وکفن دیجئے گا اور حنوط کر کے کسی کو خبر دیئے بغیر دفن کر دیجئے گا اب میں آپ سے وداع کر تی ہوں میرا سلام میری تمام اولاد کو پہنچا دیجئے گا (١)
ان وصیتوں کو بیان کر نے کے بعد امام حسن وامام حسین علیہما السلام والدہ گرامی کی یہ حالت دیکھ کر رونے لگے اسماء بنت عمیس آپ کی خادمہ آپ کی حالت دیکھ کر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے جدا نہیں ہو تی تھی حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا ہم حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی روح پروازکرتے وقت آپ کے کنارے بیٹھے ہو ئے تھے اتنے میں جناب سیدہ نے آنکھیں کھولیں اور نگاہ اطراف پر ڈالی اور فرمایا السلام علیک یارسول اللہ ۔
نیز حضرت علی نے فرمایا جناب سیدہ نے وفات کی رات مجھ سے فرمایا یا ابن عم جبرائیل ابھی مجھے سلام کر نے کے لئیے حاضر ہو ئے تھے اور خدا کے سلام کو عرض کرنے کے بعد کہا کہ خدا نے خبردی ہے کہ آپ عنقریب بہشت میں اپنے والد گرامی سے ملاقات کریں گیں اس کے بعد حضرت زہرا نے مجھ سے فرمایا یاابن
………
(١)بحارالانوار جلد ٤٣ نقل از کتاب فاطمہ زہرا مثالی خاتون
عم میکائیل ابھی نازل ہوئے تھے اور اللہ کی طرف سے پیغام لائے یا ابن عم خدا کی قسم عزرائیل میری روح کو قبض کرنے کے لئے میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں اتنے میں آپ کی روح بدن سے پرواز کرگئی علی اور آل علی ماتم برپا کرنے لگے۔
(راقم الحروف )خدا یا تو ہی اعدل العادلین ہے حضرت زہرا کے نازنین جسم پر ضربت لگا نے والے افراد کو کیفر کردار تک پہنچا دینا حضرت زہرا کے صدقے میں دنیا اور آخرت میں ہمیں کامیابی عطافرماعالم بے عمل کو ہدایت فرما۔(آمین)
د۔قبر حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کہاں ہے ؟
جناب سیدہ کی وصیت کے مطابق حضرت علیہ السلام نے ابوبکر اور عمر کو حضرت زہرا کے شہید ہونے کی خبر نہیں دی اور رات کو تجہیز وتکفین انجام دئیے لہٰذا جب حضرت زہرا کی شہادت کی خبر ان تک پہنچی تو حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا کہ حضرت زہراسلام اللہ علیہا کو کہا ں دفن کیا گیا ہے ؟ حضرت علی علیہ السلام نے واقعیت کو چھپا یا تو انہوں نے نبش قبر کرنے کی دہمکی دی لیکن علی نے فرمایا اگر حضرت زہرا کی تلاش میں نبش قبر کی تو میں تحمل نہیں کروں گا اور حضرت علی نے ان کو معلوم نہ ہو نے کی خاطر بقیع میں چالیس جگہوں پر قبر کی علامت بنائی تاکہ کسی بھی ظالم کو حضرت زہرا کی قبر کا پتہ نہ چلے (١)
………
(١)بحارجلد ٤٣
اور جناب طبری نے دلائل الامامتہ میں لکھا ہے کہ حضرت زہرا کی وفات کی صبح ان لوگوں نے(ابوبکر وغیرہ) عورتوں کو جمع کیا اور حضرت علی سے کہا ہم نبش قبر کر کے حضرت زہرا پر نماز جنازہ اور ان کی تشییع جنازہ کریںگے۔
لیکن حضرت علی کی تہدید اور دھمکی کی وجہ سے نبش قبر کرنے سے منصرف ہوئے۔(١)
قارئین محترم! حضرت علی علیہ السلا م کی اما نتداری کا اندازہ اسی سے کر سکتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس سے منقول ہے کہ میں حضرت علی کے ساتھ حضرت زہرا کو غسل دیتے وقت مدد کررہی تھی اتنے میں ایک دفعہ حضرت علی علیہ السلام بے اختیار اٹھ کھڑے ہو ئے اور دیوار سے ٹیک لگا کر اتنا روئے کہ آپ کے مبارک چہرے سے آنسو بہنا شروع ہوگئے میں نے حضرت علی سے کہا یا وصی مصطفی اگر زہرا کی رحلت کا آپ کو تحمل نہ ہو تو باقی انسانوں کی حالت کیا ہو گی آپ نے فرمایا اے اسماء بنت عمیس میں زہرا کی مو ت اور جدائی کی وجہ سے نہیں روتا بلکہ قنفذ کی جو ضربت آپ کی پہلوپرلگی تھی اس کی نشانی نظر آنے کی وجہ سے آنسو بہاتا ہوں جب کہ حضرت زہرا نے یہ نشانی مجھ سے پوشیدہ رکھی تھی اس حالت میں حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہراسلام اللہ علیہا کے غسل وکفن اور تدفین انجام دیئے اور
………
(١)دلائل الامامةص٤٦.
دشمنوں کو نماز جنازہ اور ان کی تجہیز وتکفین میں شرکت کرنے سے محروم کر کے قیامت تک کے لئے بے نقاب کیا لہٰذا شاعرنے کیا خوب کہا:
ولای الامورتدفن سرا
بضعة المصطفی ویعضی ثراہا
کیوں پیغمبر اکرم ۖ کے ٹکڑے کو مخفی دفن کیا گیا اور انکی قبر کو پوشیدہ رکھا گیا۔
اسی لئے آپ کی قبر کے بارے میں چار نظرئے پائے جاتے ہیں:
١) جناب سید مرتضی عیون المعجزات میں جناب اربلی کشف الغمہ میں اور اہل تسنن کے معروف علماء کا نظر یہ بھی یہی ہے کہ حضرت زہرا کی قبر مبارک بقیع میں ہے ۔(١)
٢) ابن سعد اور ابن جوزی نے کہا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو جناب عقیل کے گھر میں دفن کیا گیا ہے (٢)
٣) کچھ محققین اورعلما ء نے حضرت زہرا کی قبر مبارک روضہ پیغمبر اکرم ۖ میں ہو نے کو بیان کیا ہے۔
………
(١)عیون المعجزات کشف الغمہ. (٢) طبقات جلد ٨ وتذکرة الخواص .
٤)ہمارے علماء میں سے کچھ کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت زہرا جوار پیغمبر میں ہی مدفون ہے یعنی خود حضرت زہراکے گھر میں ہی دفن کیا گیا ہے اس نظریہ کی دلیل یہ ہے کہ خانہ حضرت زہرا جوار پیغمبر اکرم ۖ تھا وہ باقی جگہوں سے زیادہ بافضیلت جگہ تھی۔
لہٰذا حضرت زہرا کو اس جگہ میں دفن کئے بغیر بقیع میں لے جا نا بعید ہے تب ہی تو ابوبکر اور عمر پر جب موت آئی تو انہوں نے بھی جوار پیغمبر اکرم ۖ میں دفن کر نے کی وصیت کی تھی اسی طرح جب امام حسن مجتبیٰ کو شہید کیا گیا تو آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جوار پیغمبر اکرم ۖ میں دفن کیا جائے لیکن خلیفہ وقت نے وصیت کے مطابق دفن کرنے کی اجازت نہیں دی اسی لیئے متاخرین علماء اور محققین کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت زہرا جوارپیغمبر میں مدفون ہیں لیکن جوقبرحضرت فاطمہ کے نام سے بقیع میں معروف ہے وہ حضرت علی علیہالسلام کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد کی ہے اسی نظریہ پرروایت میں بھی اشارہ ملتا ہے چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے جب حضرت زہراکودفن کیا تو فرمایا: '' السلام علیک یارسول اللہ عنی وعن ابنتک النازلة فی جوارک۔''(١)
اے خدا کے رسول آپ پر آپ کی بیٹی اور میری طرف سے سلام ہوایسی بیٹی جو آپ کے جوارمیں مد فون ہے۔( یا طبق نقل شیخ کلینی رحمة اللہ :)
(١)بحار الانوار ج٤٣.
'' السلام علیک عنی وعن ابنتک وزائرتک والبائنة۔(١)
اے خدا کے رسول میری طرف سے اور آپ کی بیٹی کی طرف سے آپ پر سلام ہو جو آپ کے دیدار کو آپ کے جوار میں آئی ہوئی ہیں ۔
اور جناب صدوق نے فرمایا مجھ ثابت ہوا ہے کہ جناب سیدہ کی قبران کے گھر میں ہی ہے اگر چہ ان کا گھر مسجدنبوی کو توسعہ دینے کے نتیجہ میں مسجد کے اندر داخل ہے مرحوم علامہ حلی اور علامہ مجلسی نے بھی کہا ہے کہ حضرت زہرا کو ان کے گھر میں ہی دفن کیا گیا ہے لیکن جناب شیخ طوسی نے فرمایا زہرا کی قبر یا پیغمبر کے روضے میں یا خود زہرا کے گھر میں ہے (راقم)پالنے والے تو ہی زہرا کی وصیت سے آ گاہ ہے مجھے زہرا کی قبر کی شناخت کرنے کی تو فیق دے تاکہ عاصی اپنے چہرہ کو ان کی قبر کی خاک سے مس کر کے جہنم کی آگ سے نجات حاصل کرو پالنے والے اس مظلومہ کی قبر کو مخفی رکھنے میں کیا راز ہے ؟
ز۔کیا ابوبکر اور عمر کو حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے معاف کیا تھا؟
دور حاضر میں کچھ مادہ پر ست حضرات دلیل اور تحقیق کے بغیر اور اپنی مؤثق کتابوں اور معتبر مورخین کی طرف مرا جعہ کئے بغیر اس مسئلہ کو اس طرح ذکر کرتے
(١)اصول کافی ج٢.
ہیں کہ حضرت زہرا (سلام اللہ علیہا ) کے شہید ہونے سے پہلے ابوبکر اور عمر آپ کی عیادت کو آئے اور ان پر کئے ہو ئے مظالم کی معذرت خواہی کی اور حضرت زہرا نے بھی ان کو معاف کردیا لیکن اگر ہم تعصب اور عناد سے ہٹ کر ایک دانشمند کی حیثیت سے اہل تسنن کی معتبر کتابوں کی طرف مراجعہ کریں گے تو نتیجہ اس کا پر عکس نکلتا ہے یعنی جناب سیدہ کو نین پر پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد ہر قسم کے مظالم اور ستم ڈھائے گئے ان پر آپ مرنے تک راضی نہیں تھیں چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے:
''ان فاطمة ہجرت ابابکر ولم تکلمہ الی ان ماتت''
بتحقیق حضرت زہرا نے ابو بکر سے قطع رابطہ کیا اور مرنے تک ان سے گفتگو نہ کی ۔ صحیح بخاری بحث خمس میں جناب امام بخاری نے اس طرح روایت کی ہے:
''فغضبت فاطمة بنت رسول اللہ فھجرت ابابکرفلم تزل مھا جرتہ حتی توفیت۔'' (١)
پس خدا کے رسول کی بیٹی (ان کی طرف سے ڈھائے گئے مظالم پر ) غضب ناک ہوئیں اور ابوبکر سے قطع رابطہ کیا وفات پانے تک ان سے کبھی رابطہ نہیں کیا نیز جناب بخاری نے لکھا ہے:
'' فھجر تہ فاطمة فلم تکلمہ حتی ماتت ۔(٢)
………
(١)صحیح بخاری جلد ٤ ص ٤٢ چاپ بیروت . (٢)بخاری جلد ٨ بحث فرئض ص٣٠ .
پس فاطمہ نے ان سے رابطہ قطع کیا اور مرنے تک ان سے بات نہ کی ۔جناب مغازلی نے اپنی کتاب بحث جنگ خیبر میں فرمایا .
''فوجدت فاطمة علی ابی بکر فھجر تہ فلم تکلمہ حتی توفیت۔''(١)
پس جناب فاطمہ زہرا ابو بکر کے پاس پہنچی لیکن ابوبکر سے رابطہ منقطع کیا اور ان سے وفات پانے تک بات نہ کی لہٰذا کیا یہ بات معقول ہے ؟ کہ امام بخاری کی بات اور منقول روایات کو باب صوم وصلوة میں قبول کرکے ان کی تمام روایات کو صحیح سمجھیں لیکن جناب سیدہ کے بارے میں نقل کی ہوئی روایات کو نہ مانیں اسی لئے ہمارے زمانے میں ایسے متضاد رویہ کی وجہ سے اور بد نام نہ ہو نے کی خاطر جدید چھپنے والے کتابوں سے حقیقت کی عکا سی کرنے والی روایات اور قرائن کو حذف کرکے چھاپنے کی کو شش کی ہے لیکن ایک دو کتابوں سے ایسے قرائن اور براہین حذف کرنے سے حقانیت نہیں مٹ سکتی بلکہ بر عکس اپنا عقیدہ سست اور مذہب کی توہین کا سبب بن جا تاہے ۔
جناب ابن قتیبہ دینوری نے اس طرح لکھا ہے.کہ عمرنے ابو بکر سے کہاآئو ہم حضرت زہرا (س)کی عیادت کے لئے چلتے ہیں کیونکہ ہم نے ان کو ناراض کیا
………
(١)کتاب مغازلی.
تھا اس وقت دونوں ساتھ حضرت زہرا کی دولت سرا کی طرف نکلے اور جناب زہرا سے اجازت مانگی لیکن حضرت زہرا نے اجازت نہیں دی پھر وہ حضرت علی کے پاس گئے اور علی سے درخواست کی کہ یا علی حضرت زہرا(س) سے اجازت ما نگیں حضرت علی نے حضرت زہرا سے اجازت لی پھر وہ دونوں داخل ہوئے لیکن جب وہ بیٹھنے لگے تو حضرت زہرا نے اپنا رخ دیوار کی طرف کرلیا انہوں نے حضرت زہرا کو سلام کیا لیکن لکھا گیا ہے حضرت زہرا نے ان کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا ( ١) اور ابو بکر نے گفتگو شروع کی اور کہا اے رسول کی بیٹی ،پیغمبر اکرم ۖ کے ذریّے اور احباب میرے اپنے ذریےّ اور احباب سے عزیز ترہیں اور آپ میر ی بیٹی عا ئشہ سے زیادہ محبوب ہیں۔
اے کاش جس دن پیغمبر اکرم ۖ دنیا سے رخصت ہوئے تھے اس دن ان کے بجائے ہم مر جا تے اور زندہ نہ رہتے ہم آپ کی فضیلت اور شرافت کو خوب جانتے ہیں لیکن ہم نے آپ کو ارث اس لئے نہیں دیا کہ ہم نے پیغمبر اکرم ۖ سے سنا تھا کہ میں نے کسی کیلئے کو ئی ارث نہیں چھوڑاہے میرے مرنے کے بعد تمام چیزیں صدقہ ہیں اس وقت جناب سیدہ نے فرمایا کیا تم لوگ پیغمبر اکرم ۖ سے سنی ہوئی حدیث پر عمل کرتے ہو ، انہوں نے کہا جی ہاں جناب سیدہ نے فرمایا خدا
………
(١)اگر چہ سلام کا جواب نہ دینا بعید ہے راقم الحروف .
کی قسم اگر تم حدیث نبوی پر عمل کرتے ہو تو کیا تم نے پیغمبر سے یہ حدیث نہیں سنی تھی کہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی خوشنودی اور رضایت میر ی خوشنودی اور رضایت ہے ان کی ناراضگی میر ی ناراضگی ہے جو بھی میری بیٹی فاطمہ سے محبت رکھتا ہے اور ان کو ناراض ہو نے نہیں دیتا اس نے مجھ سے محبت اور مجھے خوش کیا ہے جوان کو اذیت پہنچا تا ہے اس نے مجھ کو اذیت پہنچائی ہے، پھر حضرت فاطمہ زہرا نے فرمایا اے اللہ تو اور تیرے فرشتے گواہ ہو ں کہ ان لوگوں نے مجھے ناراض کیا ہے میں کبھی بھی ان سے راضی نہیں ہوں اگر میں پیغمبر اکرم ۖسے ملاقات کروں تو میں پیغمبر اکرم ۖسے شکا یت کروں گی پھر جناب ابو بکر نے کہا اے حضرت زہرا میں خدا کے حضور آپ کی ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں یہ کہہ کر رونے لگا بہت زیادہ چیخ ماری اور حضرت فاطمہ سے معافی کی درخواست کی ہرنماز میں حضرت زہرا کے حق میںدعا کرنے کا وعدہ کیا لیکن پھر بھی حضرت زہرا نے معاف نہیں کیا پھرابوبکر حضرت زہرا کے دولت سرا سے نکلا جب کہ وہ رو رہے تھے۔ (١)
پس مذکورہ روایات اہل تسنن کی معتبر کتابو ں میں مو جود ہیں اگر تعصب اور عناد سے ہٹ کر ایک مفکر کی حیثیت سے تحقیق کرنا چاہیں تو رجوع کر سکتے ہیں اگر جناب سیدہ کو نین ان پر موت سے پہلے راضی ہوئیں ہیں تو رات کو تجہیز وتکفین
………
(١) الامامتہ والسیاستہ جلد ١ ص ٢٠ و زندگانی فاطمہ زہرا
کرنے کی وصیت نہ فرما تیں مولا علی ان کی تشیع جنازہ ،نماز جنازہ ،قبر وغیرہ کو مخفی انجام نہ دیتے لہٰذا ان شواہد وقرائن کافلسفہ یہ ہے کہ آپ ان پر راضی نہ تھیں اگر ایک دانشمند کی حیثیت سے خود حضرت زہرا کے خطبے اور ان کے احتجاجات کا مطالعہ کریں تو اس مسئلہ کی حقانیت روشن ہو جاتی ہے لہٰذا برہان اور دلیل کے بغیر کسی مذہب کو بد نام کرنا ان سے تہمت اور افتراء باند ھنا تمام مذاہب کی نظر میں نص قرآن کے خلاف ہے اور ہر معا شرے میں اس کو قانونی طور پر مجرم کہا جاتا ہے تب ہی تو زہرا نے فرمایا:
'' ایھاالمسلمون أ أ غلب علی ارثہ یا ابن ابی قحافة أفی کتاب اﷲ ان ترث اباک ولاارث ابی لقد جئت شیئا فریا''۔
اے مسلمانو ںکیا میں اپنے باپ کے ارث سے محروم ہوں ؟اے قحافہ کے فرزند کیا خدا کی کتاب میں اس طرح ہے کہ تم اپنے باپ سے ارث لے سکتے ہو لیکن میں اپنے باپ سے ارث نہیں لے سکتی ؟بتحقیق تم نے عجیب وغریب سلوک کیا۔
پھر حضرت زہرا نے فرمایا اے لوگو! تم جانتے ہو میں فاطمہ زہرا حضرت پیغمبر اکرم ۖ کی بیٹی ہوں۔
''مااقول غلطا،ولاافعل ماافعل شططا۔''
میں غلط بیان نہیں کرتی اور میں کبھی ظلم وستم انجام نہیں دیتی نیز فاطمہ زہرا نے فرمایا:
''اوصیک ان لا یشہد احد جنازتی من ہولاء الذین ظلمونی واخذوا حقی فانہم عدوی وعدو رسول اﷲ (صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) ولاتترک ان تصلی علی احد منہم ولا من اتباعہم وادفنی فی اللیل اذا ہدت العیون ونامت الابصار ثم توفیت ۔''(١)
یاعلی آپ سے وصیت کرتی ہوں جن لوگوں نے مجھ پر ظلم کیا ہے ان میں سے کسی کو میری تجہیز وتکفین ،نماز جنازہ اور تشیع میں آنے کا مو قع نہ دیجئے مجھے رات کے اس وقت دفنایا جائے کہ جس وقت سب خواب اور نیند میں غرق ہوجا تے ہیں۔
انہیں جملات کے بعد آپ کی روح پر واز کر گئی نیز جناب امیرالمومنین نے حضرت زہرا کو قبر میں رکھنے کے بعد روضہ رسول کی طرف رخ کرکے فرمایا :
''والمختارا ﷲ لھا سرعة لحاق بک''
اور خدا کی مشیت یہ تھی کہ زہرا جلد ازجلدآپ سے ملاقات کریں ۔
………
(ا) الحجة الغراء (آیت اللہ سبحانی دام ظلہ )
قداسترجعت الودیعة وستنبئک ابنتک بتظافر امتک علی ہضمہا فاحفہا السوال والستخبرہا الحال فکم من غلیل معتلج بصدر ہا لم تجد الی بثّہ سبیلا ومشغول ویحکم اﷲ وہو خیر الحاکمین (١)
بتحقیق امانتداری کے ساتھ آپ کی امانت واپس لوٹاتاہوں اور عنقریب آپ کی بیٹی ، آپ کو خبر دے گی کہ آپ کی امت نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اورآپ کی امت نے ان کے دل کو کتنا دکھ پہنچا یا ہے ان سے پوچھیں جس کو برطرف کرنے کی کو ئی راہ سوائے موت نہ تھی وہ تمام حالات اور مظالم کی خبرآپ کو فراہم کرے گی اور خدا ہی فیصلہ کرے گا وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے ان تمام شواہد اور قرائن سے خلیفہ اول ودوم سے حضرت زہرا کے راضی ہو نے اور نہ ہو نے کا فیصلہ بخوبی کر سکتے ہیں اگر بابصیرت ہو۔
………
(١)بحارالانوار جلد ٤٣ ص ١٩٣.
خاتمہ:
بہت ہی مصروفیات کی وجہ سے جناب سیدہ کونین کے حق میں ایک طالب علم کی حیثیت سے تحقیقانہ آپ کی حالات زندگی بیان نہ کرسکنے پرحضرت زہرا سلام اللہ علیہا سے ہی معافی مانگتا ہوں اور رب العزت سے زہرا کے صدقے میں درخواست ہے ناچیز کی زحمت کو قبول کرکے قارئین محترم کو مستفیظ عاصی کے لئے سعادت کا ذریعہ قرار دے عاصی کی کوشش اس مختصر تصورات کی جمع بندی میں یہ تھی کہ سادہ الفاظ اور عام الفہم طریقے کے ساتھ بیان کرکے حضرت زہرا جیسی مثالی خاتون کی فضیلت اور ان پر ڈھائے گئے مظالم کا اجمالی خاکہ پیش کروں تاکہ قیامت کے ہولناک عذاب اور حساب وکتاب کے وقت حضرت زہرا کی شفاعت نصیب ہو کیونکہ کائنات کا حدوث وبقاء زہراکے صدقے میں ہی ہے لہٰذا روایت ہے کہ معصومین کی فضیلت لکھنا ،پڑھنا ،سننا ،ان کے بارے میں غور وخوض کرنا عبادت ہے اسی لئے اس مختصر جمع بندی میں اہل تسنن کی مؤثق کتابوں سے اور ہمارے قدماء اور متاخرین کے نظریات کو بطور اجمال روایات کی روشنی میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے اگر چہ روایات سند کے حوالے سے ضعیف ہی کیوں نہ ہو کیونکہ تاریخی مطالب ثابت کرنے میں روایات صحیح السند کا ہو نا ضروری نہیں ہے بلکہ مختصر شواہد اور قرائن کا فی ہے پالنے والے زہرا کے صدقے میں تشیع کی حفاظت دشمن اہل بیت کی نابودی ،اسلام کی آبیاری ،تو فیقات میں اضافہ ، ایمان وخلوص میں ترقی عطا فرما۔
والحمد ﷲرب العالمین
الاحقرباقر مقدسی ہلال آبادی
١٨ شوال ١٤٢٣ بوقت ١١ شب
حوزہ علمیہ قم المقدس جمہوری اسلامی ایران
|