حضرت فاطمہ زہرا کے رونے کا فلسفہ (قرآن و سنت کی روشنی میں)
 
چوتھی فصل:
حضرت زہرا کی سیرت
ہر انسان کی فطرت ہے کہ جب کسی دور میں کسی ہستی کی سیرت دنیوی اور اخروی زندگی کی کا میا بی اور سعا دت کے لئے مشعل راہ ہو تو اس کی سیرت پر چلنے کا خوا ہاں ہو تا ہے اسی لئیے شریعت اسلام میں عقلاء کی سیرت کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ اگر عقلاء کی سیرت کے اتصال کا سلسلہ زمان معصوم تک کشف ہو تو اس کو برہان قرار دیا ہے لہٰذا حضرت زہرا کی سیرت ہم سب کے لئے اس دور حا ضر میں بہتر ین نمونہ عمل ہے کیو نکہ حضرت زہرا کی سیرت سے ہٹ کر غور کر یں تو ہمارا زمانہ سوائے گمراہی اور زرق وبرق کے علاوہ کچھ نہیں ہے اگر چہ آپ کی سیرةطیبہ کی تشریح کر نا اس مختصر کتا بچہ کا مقصد نہیں تھا فقط نمونہ کے طور چند پہلو قابل ذکر ہے:

١لف۔ ازد واجی کا موں میں آپ کی سیرت
شاید کا ئنات میں انسان کے نام سے کوئی ہستی اذدواج اور شادی کے مخالف نہ ہو، لہٰذا آدم سے لے کر خاتم تک تمام ادیان الٰہی نے ازدو اجی زندگی کو انفرادی زندگی سے افضل قرار دیتے ہو ئے شادی کی ترغیب دی گئی ہے حتی پیغمبر اکرم ۖ کا دین جو باقی تمام ادیان الٰہی کا خلاصہ اور نچوڑ سمجھا جا تا ہے اس میں شادی اور ازدوا جی زندگی کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ فرما یا کہ جو ازدواج اور شادی کے مخالف ہے: '' فلیس منی'' لہٰذا ہمارے زمانے کے محققین میں سے کچھ نے شادی کے مسئلہ کو ایک امر طبعی دوسرے کچھ محققین اس کو امر فطری سمجھتے ہیں ۔
اگر چہ جناب افلاطون کے حالات زندگی کا مطالعہ کر نے سے معلوم ہو تا ہے کہ وہ ازدواج اور شادی کو سلب آزادی کا سبب سمجھتا تھا تب ہی تو انہوں نے آخری عمر تک اسی نظر یہ کی بناء پر ازدواج کا اقدام نہیں کیا لیکن مو ت سے پہلے پھر بھی شادی کر کے دنیا سے رحلت کی اگرچہ کو ئی اولاد اور وارث ان سے وجود میں نہ آیا پس ازدواجی زندگی اور شادی کا مسئلہ ہر دور میں تھا اور قیامت تک رہے گا اگرچہ شادی کی کیفیت اور کمیت کے حوالہ سے ہر انسان کی طبیعت میں تفاوت ہی کیوں نہ ہو، لیکن ہم مسلمان ہو نے کی حیثیت سے ازدواج اور شادی جیسے اہم مسئلہ میںحضرت زہرا سلام اللہ علیہا جیسی ہستی کی سیرت کو نمونہ عمل قرار دینا چا ہئے تاکہ بہت سارے مفاسد اور اخروی عقاب سے نجات مل سکے آپ کی شادی کے بارے میں دو نظریہ مشہورہیں : ١)روز پنجشنبہ سوم ہجری اکیسویں محرم کی رات کو ہوئی۔(١)
………
(١) بحارالا نوار جلد ٤٣ ص٩٣
٢)آپ کی شادی جناب محدث قمی اور شیخ طوسی و شیخ مفید کے نقل کے مطابق یکم ذالحجہ چھ ہجری کو ہوئی۔(١)
آپ کی شب زفاف کو جبرائیل دائیں طرف میکا ئیل بائیں طرف سترہزار فرشتے لے کر صبح تک تقدیس وتسبیح میں رہے (٢)
جعفر ابن نعیم نے احمد ابن ادر یس سے وہ ابن ہاشم سے وہ علی ابن سعید سے وہ حسین ابن خالد سے وہ جناب امام رضا علیہ اسلام سے روایت کی ہے:
قال علی قال لی رسول اللہ ۔۔۔(٣)
تر جمہ )حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا مجھ سے پیغمبر اکر م ۖ نے فرمایا اے علی قر یش کے مردوں نے زہرا سے خواستگار ی کر کے مجھے تھکا دیا اور مجھ سے کہنے لگے کہ آپ زہرا کی شادی ہم میں سے کسی سے نہیں کر نا چاہتے بلکہ علی سے ان کی شادی کر نے کے خواہشمند ہیں میں نے ان سے کہا خدا کی قسم میں نے منع نہیں کیا ہے بلکہ خدا نے منع کیا ہے اور خدا نے ہی زہرا کی شادی علی سے کر ائی ہے اور جبرائیل نازل ہو کر کہا اے حضرت محمد ۖ خدا نے فرمایا ہے اگر میں علی کو خلق نہ کر تا تو تیری بیٹی فاطمہ کو روئے زمین پر کوئی شریک حیات نہیں ملتا ۔
………
(١)مفاتیح الجنان . (٢) بحارالا نوار جلد ٤٣ ص٩٣.
(٣) بحارالا نوار جلد ٤٣ ص٩٣.
اگر چہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے ساتھ شادی کر نے کی خاطر خواستگار ی کے پروگرام میں بہت سارے صحابہ شریک ہو کر خیالی پلائو کھا یا تھا لیکن خدا نے ہی ان کے خام خیالی کو خاک میں ملادیا اور بارہا پیغمبر اکر م نے حضرت زہرا سے خواستگار ی کر نے والے صحابہ سے فرمایا حضرت زہرا کی شادی کا مسئلہ خدا کے ہاتھ میں ہے پھر بھی اکثر او قات پیغمبر اکرم ۖصحابہ کرام کی تکرار کے مطابق حضرت زہرا( س) سے پوچھا کر تے تھے کیا آپ فلاں صحابی کے ساتھ اذدواج کر نے پر راضی ہیں ؟
لیکن حقیقت میں پیغمبر اکر م کا اس طرح زہرا(س) سے سوال کر نا ان کی سیاست تھی کیو نکہ اگر پیغمبر قبل ازوقت حقیقت اور واقعیت کو بیان فرما تے تو مزید دشمنی اور عداوت کا باعث تھا لہٰذا پیغمبر اکرم ۖظاہری طور پرحضرت زہرا(س)سے پوچھتے تھے اور حضرت زہرا(س) اظہار نارضایتی فرما ئی تھی۔
ان مختصر روایات سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ اگر کسی کی بیٹی کے لئے کو ئی دولت مند نام نہاد رشتہ آئے تو فوراً اس کی شہرت اور دولت کی وجہ سے قبول نہ کیجئے بلکہ بیٹی کے لئے ایک ایماندار اور امین شوہر کا انتخاب کر نا والدین کی ذمہ داری ہے کیو نکہ پیغمبر اکرم ۖنے اتنے اصحاب جو دولت اور شہرت کے حوالے سے کسی سے پوشیدہ نہیں تھے جب حضرت زہرا (س) سے رشتہ کے طالب ہوئے تو کسی کو قبول نہیں فرمایا اسی لئے جب اصحاب حضرت زہرا(س) سے خواستگاری کر نے کے بعد نا امید ہو گئے تو وہی اصحاب حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں کہنے لگے اے علی پیغمبر اکر م ۖاپنی بیٹی کی شادی آپ سے کر نا چا ہتے ہیں آپ پیشکش کیجئے اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو ہم خود بندوست کریں گے حضرت علی نے ان کے مشور ہ کو قبول فرمایا اور پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پیغمبر بھی ایسی ہستی کی پیشکش کے منتظر تھے اسی لئے جب حضرت علی نے خواہش کا اظہار فرمایا تو آنحضرت کا چہرہ منور اور خوشی سے چمک اٹھا اور فرما یا اے علی انتظار کیجئے میں فاطمہ سے اجازت لے لوں پیغمبر اسلام ۖجناب سیدہ کی خدمت میں پہنچے اور فرمایا :
''اے زہرا آپ حضرت علی کی حالت سے واقف ہیں وہ آپ کی خوستگاری کو آئے ہیں کیاآپ ان سے شادی کر نے پر راضی ہیں ؟ جناب سیدہ شرم کی وجہ سے خاموش رہیں اور کچھ نہ بولیں آنحضرت ان کی خاموشی کو رضایت کی علامت قرار دیتے ہوئے حضرت علی کی خدمت میں آئے اور مسکر اتے ہو ئے فرمایا ، اے علی شادی کے لیے آپ کے پاس کیا چیز ہے ؟
حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :اے خدا کے حبیب میرے ما ںباپ آپ پر قربان ہو جا ئیں آپ میری حالت سے بہتر آگاہ ہیں میری پوری دولت ایک تلوار ،ایک ذرہ اور ایک اونٹ ہے (١)
………
(١)بحارجلد ٤٣ ص١٣٣.
١) حضرت علی علیہ السلام شادی کے لیے تیار ہو ئے لیکن مسلمانوں کے لیے اس روایت میں پیغمبر اکرم ۖ یہ پیغام دینا چا ہتے ہیں کہ بیٹی کا شوہر باید امین اور ایماندار ہو ۔
٢) بیٹی کا مہر اسلام کے ضوابط اور اصول سے خارج نہ ہو یعنی اگر بیٹی کی زندگی اپنے شوہر کے ساتھ خوشگوار بنا نا چاہتے ہیں تو زہرا کی سیرت پر چلیں کہ زہرا کا مہر اتنی شخصیت اور پوری کا ئنات پر اختیار ہو نے کے باوجود روایت میں درج ذیل ذکر کیا گیا ہے :
ا ۔ایک ذرہ جس کی قیمت چار سو یا چار سو اسی یا پانچ سو درہم تھی۔
٢۔ ایک جوڑا یمنی کتان (٣) ایک گو سفند کی کھال (١)
اس روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ بیٹی کا مہر زیادہ اس کی عزت اور آبرو نہیں ہے بلکہ باایمان شوہر کا منتخب کرنا اس کی عزت ہے، لہٰذا ایک مسلمان عورت کو اپنے لئے حضرت زہرا کی سیرت کو نمونہ عمل قرار نہ دینا پشیمانی کا سبب ہے ، جب حضرت علی علیہ السلام نے حضرت زہرا کا مہر ایک ذرہ قرار دیا تو پیغمبر اکرم ۖ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا:
''اے علی اس ذرہ کو بازار میں لے کر فروخت کرو تاکہ میں اس کی قیمت
………
(١)وافی کتاب نکاح نقل از کتاب فاطمہ زہرا اسلام کی مثالی خاتون .
سے جناب فاطمہ زہرا کا جہیز او رگھر کا سامان مہیا کردو''۔(١)
چنانچہ حضرت علی علیہ السلام نے ذرہ کو فروخت کردیااور قیمت لے آنحضرت ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے توپیغمبر اکرم ۖ نے ابوبکر اور حضرت سلمان فارسی اور جناب بلال کو بلایا اور کچھ درہم ان کے حوالہ فرمایا او رکہا: ان سے حضرت زہرا کے لئے لوازمات زندگی خریدلو اور چند درہم حضرت اسماء بنت عمیس کو دئے اور فرمایا کہ ان سے حضرت زہرا کے لئے عطر اور خوشبو کے لوازمات خرید لو ۔(٢)
اسی لئے روایات میں آپ کے جہیز کو اس طرح بیان فرمایا ہے:
١۔ایک قمیص۔
٢۔ایک برقعہ ۔
٣۔ایک سیاہ خیبری حلہ۔
٤۔ایک چارپائی۔
٥۔دو عدد توشک (گدّے)
٦۔چار تکیے۔
………
(١)بحار الانوار ج٤٣ص ١٣٥ . (٢)بحار الانوار ج٤٣ص ١٣٩
٧۔ایک چٹائی۔
٨۔ایک ہاتھ کی چکّی۔
٩۔ایک پیالہ۔
١٠۔ایک عبا۔
١١۔دو عدد کوزے۔
١٢۔ایک فرش۔
١٣۔ایک مٹی کا برتن۔
١٤۔ایک لوٹا۔
١٥۔ایک پردہ۔
١٦۔ایک گلاس۔
١٧۔ایک کپڑے دھونے کا لگن۔
١٨۔ایک چمڑے کی مشک۔(١)
اس روایت سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ بیٹی کے ساتھ جہیزکا بھیجناسنت نبوی ۖ ہے لیکن افراط وتفریط نہ کرنا بھی سنت نبویۖ ہے یعنی جہیز کی وجہ سے ان کی
………
(١) مناقب شہر ابن آشوب ج٣، کشف الغمہ جلد اول ص ٢٥٩.بحار الانوار ج٤٣.
زندگی کو تباہ وبرباد کرنا جائز نہیں ہے لہٰذا اگر شہر کے معمول کے مطابق کسی بیٹی کے لئے جہیز نہ آئے تو ان کی تحقیر وتوہین کرنا شرعاممنوع ہے اگرچہ ہمارے زمانے میں بہت سارے واقعیات دیکھنے میں آئے ہیں کہ اگر کوئی لڑکی اپنے ساتھ کافی مقدار میں جہیز نہ لے آئے تو شوہر اور سسرال والے اس کو ذلیل کرتے ہیں اور ہمیشہ برا بھلا کہتے رہتے ہیں ، لیکن یہ سب کچھ جہالت اور ضعف ایمان کی نشانی ہے۔
پھر جب پیغمبر اکرم ۖ نے حضرت زہرا کی شادی خدا کے اذن سے حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا اور شادی کی رسومات انجام دینے کی تیاری فرمائی اور جہیز کو معین کرنے کے بعد رخصتی کا جشن منانے کا پروگرام شروع کیا تو فرمایا:
''اے علی شادی کے موقع پر ولیمہ دیاجائے اور میں چاہتا ہوں کہ میری امت بھی شادیوں میں ولیمہ دیا کرے۔''اس وقت سعد اس موقع پر حاضر تھے انھوں نے عرض کیا: یا علی میں آپ کو اس جشن کے لئے ایک گوسفند دیتا ہوں ، اسی طرح دوسرے اصحاب نے بھی حسب استطاعت حضرت علی کی مدد کی، اور پیغمبر اکرم ۖ نے جناب بلال سے فرمایا ایک گوسفند لے آئو ، اور حضرت علی کو گوسفند ذبح کرنے کا حکم دیا اور دس درہم بھی دئے اس سے باقی لوازمات خریدیئے ۔
پھر جب یہ انتظام مکمل ہوا تو حضرت علی سے فرمایا : شادی کے ولیمہ میں دعوت دیں، حضرت علی علیہ السلام نے اصحاب کے ایک گروہ کو دعوت دی ، اور جب مہمان پہنچے تو دیکھا کہ مہمانوں کی تعداد زیادہ ہے اور کھانا کم، تو رسول خدا ۖ نے حکم دیا کہ مہمانوں کو دس دس گروہ میں تقسیم کردیا جائے ، دوسری طرف جناب عباس ، جناب حمزہ، جناب عقیل اور حضرت علی مہمانوں کی پذیرائی میں مصروف تھے، دسترخوان بچھایا ولیمہ شروع ہوتے ہی فقراء ومساکین حضرت زہرا کے ولیمہ میں شرکت کرکے سیر ہوئے جب کہ اس وقت پیغمبر اکرم ۖ نے حضرت علی علیہ السلام اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کو دستور دیا کہ آپ دونوں الگ برتن میں کھانا تناول فرمائیں۔(١)
اس مختصر ورایت سے درج ذیل نتیجہ نکلتا ہے:
١۔شادی کے موقع پر ولیمہ کھلانا سنت ہے۔
٢۔ شادی کے موقع پر ایک دوسرے کی مدد کرنا اصحاب کی سیرت ہے۔
٣۔ ولیمہ میں افراط وتفریط نہ کرنا اور فقراء ومساکین کو بھی شامل کر نا حضرت علی اور حضرت زہرا(س) کی سیرت ہے لہٰذا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی اتنی شخصیت اور فضیلت کے باوجود اتنامختصر مہر پر راضی ہو جا نا اور مختصر جہیز کا قبول کر نا آج کل ہما رے زما نے کی بہنوں اور بیٹیو ں کے لئے ایک درس ہے یعنی
………
(١) بحار الانوار ج٤٣.
ہماری ذمہ داری یہ ہے کہ ہم اپنی بہنوں اور بیٹیوں کے لئے ایک ایما ندار شوہر تلاش کریں نہ دولت مند اور نام نہاد نہ جہیزمیں افراط وتفریط۔
پس حضرت زہرا کی سیرت پر چلنے والے مردوں اور عورتوں کے لئے شادی کے موقع پر زہراکی سیرت کو بالائے طاق رکھ کرمو جودہ زمانے کے خرافات کو ازدواج اور شادی کی رسم قرار دینا باعث پشیما نی ہے جس کا نتیجہ شا دی کے مو قع پر اتنے شورو شرا بے کے باوجود تھوڑی مد ت گزرنے کے بعد آپس میں جھگڑا اور طلاق کی صورت نکلتی ہیں جس کی وجہ شوہر کے انتخاب میں ماں ، باپ کا کڑی نظر سے غور نہ کرنا یا مہر وجہیز میں افراط وتفریط کر نا نظر آتا ہے لہٰذا روایت میں آیا ہے کہ حضرت زہرا(س) کی ایک ہزار سے زیا دہ لوگوں نے خواستگاری کی تھی لیکن پیغمبر اکر م ۖاور حضرت زہرا نے کسی کو قبول نہیں کیا جب کہ دولت، شہرت اور سرما یہ کے حوالے سے حضرت علی سے مقائسہ ہی بے معنی ہے کیو نکہ علی اس زمانے کے فقیر ترین افراد کی ما نند زندگی گزار رہے تھے یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شوہر کے انتخاب میں ایماندار ی اور امانت داری معیار ہے ۔