حضرت فاطمہ زہرا کے رونے کا فلسفہ (قرآن و سنت کی روشنی میں)
 
تیسری فصل:
حضر ت زہراسلام اللہ علیہاکے رونے کا مقصد
اہل تسنن واہل تشیع دونوں مذہب کی معروف کتابوں میں یہ بات مسلم ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا نے پیغمبر اکر م کی وفات کے بعد چالیس دن ایک نظریہ کی بناء پر یاپچہتردن دوسرے نظریہ کی بناپریا پچا نوے دن تیسرے نظریہ کی بنا پر زند گی کی لیکن اس مختصر زندگی میں آپ اتنا زیادہ روئیں کہ کتاب خصال میں مرحوم صدوق ایک روایت کی ہے جس میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ۔
البکا ء خمسة آدم ویعقوب ویو سف وفاطمة وسجاد۔(١)
یعنی کا ئنات میں سب سے زیا دہ رونے والی پانچ ہستیاںہیں کہ انہیں میں سے ایک حضرت زہرا ہیں جب کہ خدا نے متعدد آیات میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی فضیلت کو واضح الفاظ میں بیان کیا ہے اور خدا کے حبیب حضرت پیغمبر اکرمۖ
………
(١)خصال باب خمسہ
نے متعدد جملوں میں حضرت زہرا کو تمام عالم کی خواتین سے افضل قرار دیا ہے .اور صحا بہ کرام بھی اس حقیقت سے باخبر تھے اس کے باوجود سب سے زیادہ رونے کا ہدف اور مقصد کیا تھا ؟ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا باقی عام انسانوں کی ما نند نہ تھیں لہٰذا موت آنے کے خوف سے اتنا روئیں کہ مدینہ والوں نے آپ سے شکا یت کی ایسا جواب حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت کے ساتھ سازگا ر نہیں ہے کیو نکہ زہرا کی جو سیرت، اہل تشیع اور اہل تسنن کی کتابوں میں مورخین اور محققین نے ذکر کیاہے انشاء اللہ اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کریں گے۔
ثانیاً مو ت کے خوف سے وہ انسان گر یہ کر تا ہے جو صر ف دنیا کے حقائق اور مو ت آنے کو جا نتا ہو لیکن ابدی زندگی سے واقف نہ ہو جبکہ پیغمبر اکر م نے کئی بار حضرت زہرا سے فرمایا تم جنت میں تمام عو رتوںکاسردار ہو تمہارے صدقے میں باقی تمام مخلو قات کو خدا نے عد م سے وجودبخشا ہے اور تمہاری خوشنودی اور رضا ء میں خدا کی رضا اور خوشنودی پوشیدہ ہے لہٰذا ایسی ہستی سے رونے کا فلسفہ اور اس سوال کا جواب مو ت کے خوف کو ذکر کر نا حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی سیرت اور فضیلت سے بے خبر ہو نے کے مترادف ہے ۔

دوسرا جواب :
یہ ہے کہ اس لئے اتنا زیادہ حضرت زہرا سلام اللہ علیہا روئیں کہ آپ عمر کے حوالے سے جوان تھی پیغمبر اکر م ۖ کی حیات طیبہ میںکو ئی گر می اور نر می اور مشکلات سے دو چار نہ ہو ئیں تھیں باپ کے ساتھ خوشحال زندگی کر نے کی عادی تھی لیکن جب پیغمبر اکر م نے وفات پا ئی اور پیغمبر اکرم نے حضرت زہرا کو فورا ًمو ت آنے کی خبردی تو زہرا ایسی زندگی سے محروم ہو نے کے خوف سے اتنا روئیں۔
ایسا جواب معاشرہ میں پیش کر نا حقیقت میں حضرت زہرا کی شان میں گستاخی کی مانند ہے کیونکہ حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم کی زندگی میں جوسختی اور مشکلات دیکھی ہیں وہ اس جواب کے ساتھ ہم آہنگ نہیںہیں حضرت زہرا نے پیغمبر اکرم ۖ کے ساتھ جتنے سال زندگی کی ہے ، اس عرصے میں کبھی بھی آپ نے مادی لو زمات کے حوالہ سے خو شحالی اور عام انسان کی ما نند زندگی نہ کی تھی بلکہ ہمیشہ اس وقت کے فقیر ترین افراد کی ما نند زندگی گزاری ہے لہٰذا خدا نے ہل اتی جیسی سورہ کو آپ اور حضرت علی کی شان میں نازل کر کے فرمایا :
انما نطعمکم لوجہ اللہ.(١)
یعنی ہم بس جو کھلاتے ہیں وہ صرف خدا کے لئے ہے۔
ثانیاًتاریخ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کے حا لات زندگی کو کم وبیش
………
(١)سورہ ھل اتیٰ ٦.
تحریف کے ساتھ مو رخین نے ذکر کیا ہے ان سے مراجعہ کر یں تو معلوم ہوتا ہے ، کہ حضرت زہرا خالص پانی سے افطار کر کے مسکینوں، یتیموں اور اسیروں کی ضروریات کو پورا فرماتی تھیں اور اپنے گر دن بند یا فدک کی آمدنی کو راہ خدا میں اور دیگر محتاجوں میں خرچ کر تی تھیں یہ سیرت اس جواب کے ساتھ متضاد ہے ۔

تیسرا جواب :
یہ ہے جو راقم الحروف اور دیگر محققین کے نزدیک بھی قابل قبول ہے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا پر پیغمبر اکرم کی وفات کے بعد صحا بہ کرام کی طرف سے ہر قسم کی پابندی عائد ہوئی تھیں جیسے فدک کا غصب کرنا اقتصادی پابندی تھی امامت کا چھیننا سیا سی پابندی تھی گھر پر حملہ کر کے دروازے کا جلانا خاندانی شرافت اور فضیلت کی پائمالی تھی خلاصہ صحابہ کر ام پیغمبر اکرم ۖکے بعد خود کو پیغمبر اکر م ۖ کے جا نشین اور قرآن کا محافظ قرار دیئے تھے اور جو بھی اس روئیے کی مخالفت کر تا تھا اسکو زمان جاہلیت کے طور وطریقے کے ساتھ جواب دنیا لازم سمجھتے تھے حضرت زہرا عصمت کی ما لک تھیں پیغمبر اکرم ۖ نے یقینا صحابہ کرام سے زیادہ کا ئنات کے حقائق سے حضرت زہرا کو با خبر کر دیا تھا فرشتے اور سچے مومن حضرت زہرا کی خدمت کر نے کو باعث نجات سمجھتے تھے اسی لئے حضرت زہرا نے پورے پچھتر (٧٥)یا پچا نوے (٩٥) یا چا لیس دن رونے کو اختیار فرمایا تا کہ صحابہ کرام کی طرف سے ڈھا ئے گئے مظالم پوری بشریت کی تاریخ میں قیامت تک ثبت رہے اور صحابہ کرام کی منافقت بے نقاب ہو کر ایک غاصب کی شکل میں قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے نظر آئے لہٰذا ظالم حکمران اور خریدے ہو ئے مورخین بھی حضرت زہرا کی مظلومیت کو بہت ہی احتیاط کے باجود قدرتی طور پر بیان کر نے پر مجبور ہوئے ہیں۔
پس اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو بخوبی روشن ہو جا تا ہے کہ زہرا نے پیغمبر اکرمۖ کے بعد شریعت اسلام اور ولایت علی ابن ابیطالب کی حفاظت کر نے کے خاطر کتنی سنجیدہ گی سے کام لیا اگر زہرا کا رونا نہ ہو تا تو آج جس طرح ہم زہرا سلام اللہ علیہا کو ایک مظلومہ کی حیثیت سے پہچا نتے ہیں اس طرح شناخت نہ ہو تی بلکہ آج ہم بھی تاریخ میں زہرا کو اور ان پر ڈھائے گئے مظالم کو ایک جھوٹ اور بہتان کی شکل میں بیان کر تے جس طرح دور حاضر کے اہل قلم نے اپنی کتابوں میں واضح دلیل ہو نے کے باوجود زہرا پر ڈھائے گئے ظلم وستم کو ایک بہتان اور جھوٹ سے تعبیر کر تے ہیں لیکن حضرت زہرا کی عصمت اور ان کے علم ومعرفت نے ان کی بری سازشوں کو بے نقاب کر کے قیامت تک کے لیے پشیمان کر دیا اور قیامت تک کے لیے نور خدا یعنی امامت کی حفاظت فرمائی یہ باتیں صحابہ کرام اورپیغمبر اکرمۖ کے ماننے والے مفسرین اور محد ثین نے متعدد روایات اور آیات کی تفسیر میں اپنی گراں بہا کتابوں میں ذکر کیا ہے۔