
|
حضرت فاطمہ زہرا کے رونے کا فلسفہ
(قرآن و سنت کی روشنی میں)
تالیف: محمد باقر مقدسی
انتساب
اپنے شفیق اور مہربان والدین کے نام۔
تقریظ:
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وآلہ الطاہرین.
اس عظیم اور بیمثال ہستی کو سلام ہو جو ناموسی الہی ہے عصمت اور طہارت کا مرکز ہے .مظہرالعجائب کے ہمتا ۔ اور علم ودانش کے دریا نیز صبر واستقامت کے پیکر ہے ۔
ہمارے مظاہر اسلامی ،معاشر ہ الٰہی اونچے اہداف تک پہنچنے اور مقدس آرمانوں کی تحقیق اور حصول کیلئے اپنے مکتب کے علمی اور عملی مثالی شخصیات کے پیروی کئے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔
اس مسیر میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہاپیغمبر اکرم ۖ کی اکلوتی بیٹی ہونے اور ائمہ اطہار ٪ کی مادر گرامی ہونے کے حوالے سے نیز مکتب وحی میں تربیت یافتہ خاتون ہونے کے لحاظ سے چاہئے کہ رہبر شناسی اور الگوشناسی کے دفتر کا سرلوحہ قرار پائے، اگر مسلم معاشرے کے تمام افراد مرد اور عورت چھوٹے بڑے سب اپنی زندگی کے تمام شعبوں میں حضرت زہرا ئے اطہر اور آپ کے فرزندان گرامی کی پیروی کریںگے تو یہ مسلم معاشرہ تمام جوامع انسانی پر برتری حاصل کرسکتا ہے۔
جب کہ دور حاضر میں ایسا نہیں ہے حال اینکہ اسلام کا دعوای ہے ''لیظہرہ علی الدین کلہ'' اور خاتم الادیان کے حوالہ سے اس دین کا قانون قرآن میں مکتوب اور اس کا عملی کردار اہل بیت اطہار ٪ کی ذوات مقدس میں متجلی ہے۔
اہل بیت اطہار ٪ میں حضرت زہرا کو محوری حیثیت ہونا کسی اہل علم ومعرفت سے مخفی نہیں ہے۔
لہٰذا اس عظیم ہستی کی شخصیت اور مقام وعظمت کی کنہ اور انتہا تک رسائی ہونا کسی بھی عام انسان کی بس کی بات نہیں ؟لہٰذا تمام اہل معرفت اس بات کا اعتراف کرتے ہیں ۔
مرحوم شیخ محمد حسین غروی اصفہانی ایک عظیم محقق اور فیلسوف نیز مجتہداتنی عظمت اور شخصیت والی ہستی حضرت زہرا کے بارے میں فرماتے ہیں۔
وہم بہ اوج قدس ناموس الٰہہ کی رسد؟
فہم کی نعت بانوی خلوت کبریا کند؟
کیوں ایسا مقام حاصل ہے؟ کیوں انسانی فکر وخیال آپ کی عظمت درک کرنے سے عاجز ہے؟ اس سوال کے جو اب میں مفکر عظیم یوں کہتا ہے:
فیض نخست وخاتمہ نو ر جہان فاطمہ
چشم دل از نظار در مبداء ومنتہی کند
فلسفہ وعرفان کی اصطلاح میں نخست یا فیض اول سے مراد علت غائی عالم امکان ہے اور اس شعر میں خاتمہ سے مراد کائنات کی انتہا اور انتہا تجلی قدرت وفیاضی باری تعالیٰ ہے۔
دوسرے مصرع میں علامہ کھلے الفاظ میں فرماتے ہیں کہ اگر دل کی آنکھوں سے فکر کے اعماق میں جاکر مبدء ومنتہی جو ذات باری ہے ان کا مطالعہ کریں تو تمام عالم وجود فاطمہ زہرا کے نور سے منور او ر جمال سے مزین نظر آتا ہے ۔
بہر حال یہ مصداق ''ما لا یدرک کلہ لایترک کلہ'' یا دوسری عبارت کے مطابق ''آب دیا ر را اگر نتوان کشید ہمہ بقدر تشنگی باید چشید''
ہمارے محققین اور بزرگان نے حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی ابعاد شخصیت کو اپنے بساط علمی اور قوانین کے مطابق طالبان حقیقت کے سامنے قلمی شہہ پاروں کی صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اس عظیم ہستی کے بارے میں اب تک جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں،ان کو اگر جمع کرے تو ایک عظیم الشان لائبریری بن سکتی ہے۔
میں اگرچہ عاصی ہونے کی وجہ سے اپنے آپ کو ذریات رسول ۖ اور سادات میں شمار کرنا ان کی شان میں جسارت سمجھتا ہوں لیکن بہرحال اس انتساب کا شرف مجھے حاصل ہونے کے حوالہ سے میرا فرض بنتا ہے کہ فاضل مصنف حضرت حجة الاسلام والمسلمین آقای مقدسی کا تہہ دل سے شکریہ ادا کروں کہ اس گرانقدر کتاب کو تالیف فرماکر ہماری والدہ گرامی کی خدمت میں خراج عقیدت پیش فرمایا اللہ ان کے قلم اورایمان میں اضافہ فرما۔
اس مجموعہ میں فاضل مصنف نے اپنی مخلصانہ کوشش اس مطلب پر معطوف رکھا ہے کہ مومنین ومومنات کے لئے معتبر روایات اور آیات کی روشنی میں حضرت زہرا کی سیرت کو بیان کریں ۔
اور حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کی مظلومیت نیزان کے گریہ وبکاء کے فلسفہ پر روشنی ڈالیں ۔
واقعاً یہ ایک اہم سوال ہے کہ پیغمبراکرم ۖ کی اکلوتی بیٹی اور سیدة النساء العالمین اپنی مختصر حیات میں اتنارویا کہ پانچ مشہور رونے والوں میں شمار ہونے لگیں۔
یہ کیوں ہوا؟!!
مگرپیغمبر اکرم ۖ کے کتنی اولاد تھی جو آپ کے بعد امت کے لئے ناقابل تحمل ہوگئیں؟
کیوں حضرت زہرا کو راتوں رات غسل دیا گیا اور رات ہی میںدفن کیا گیا اور آپ کی قبر اب تک کیوں دنیا والوں سے مخفی ہے؟!فاضل محترم نے ان نکات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
یہ ایک عظیم معمہ ہے جس پر غور کرنا ہی حضرت زہرا کا مقصد تھا تاکہ اس تفکر اورغور کے نتیجہ میں امت اسلامی کو راہ حق کی طرف ہدایت ہواور حق وباطل میں تمیز ہوجائے۔
اس مختصر تالیف میں فاضل مصنف نے متعدد مقامات پر حضرت زہرا کی شخصیت وسیرت سے متعلق روایات کو نقل کرنے کے ساتھ انھیں ہمارے اسلامی معاشرہ سے مقائسہ کرنے کی کوشش کی ہے، تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم اسلام سے کتنے فاصلہ پر ہیں اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے اور ہم کس غربت وفساد میں غرق ہیں۔
بہرحال یہ ایک مخلصانہ کوشش ہے تاکہ حتی المقدور ایک مسلم دین اسلام کی ترویج میں اپنا وظیفہ ادا کرسکے، اور احیاء علوم آل محمد میں قدم اٹھائیں۔
مجھے امید ہے کہ قارئین کرام اس کتاب کا غور سے مطالعہ کرکے حضرت زہرا کی سیرت سے آشنائی حاصل کریں گے۔
خداوندعالم سے دعا ہے کہ فاضل مصنف کے اس عظیم القدر خدمت کو قبول فرماکر انھیں مزید قلمی میدان میں خدمات کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین بحق محمد وآلہ الطاہرین۔
والسلام
مصطفی المو سوی
حوزہ علمیہ قم ایران
مقدمہ
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاة والسلام علی اشرف الانبیاء والمرسلین وآلہ الطاہرین.
کائنات کا ہر ممکن الوجود واجب باالذات کا خواہاں ہے چاہے عرض ہو یا جوہر تب ہی تو پوری کائنات ممکن الوجود کی حیثیت سے حضرت حق کی تسبیح وتقدیس کرتے ہوئے نظر آتی ہے جمادات ہو یا نباتات ، خاکی ہو یا نوری مجرد ہو یا ماد ی لیکن اللہ تبارک وتعالی نے مخلو قات میں سے صرف انسان کو عقل وشعور جیسے نور سے منور فرماکر باقی تمام موجود ات پر انسان کو فوقیت اور عظمت دی لہٰذاانسان اشرف الموجودات ، اعظم المخلوقات کی شکل میں تکا مل وتر قی کی راہ میں رواں دواں ہے لیکن کائنات کی ہر شئی عقل جیسے نور سے محروم ہو نے کے باوجود رب العزت کے خاضع اور خاکساری کرتی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ انسان کے ساتھ عقل جیسا نور خلق کر نے کے علاوہ ان کے راہنما ئی اور کا میا بی کے راستوں کو معین کر نے کی خاطر انبیا ء اور اوصیا ء جیسی ہستیوں کو بھی مبعوث فرمانے کے باوجود نہ صر ف خدا کا خاضع نہیں ہے بلکہ وہم وخیال اور گمان پر مبنی تصورات کے نتیجے میں رب العزت کے منکر ین قائلین کی بہ نسبت کئی گنازیادہ مشا ہدہ میں آتے ہیں ۔
اگر چہ اللہ تبارک وتعالی نے ان کے بارے میں فرما یا ہے جو شہوات اور خواہشات کے تابع ہے وہ حیوانات سے بھی بدتر ہے جو عقل وشعور کا پیروکار ہے وہ فرشتوں سے بھی افضل ہے اسی لئے کا ئنات میں عقل وشعور اور صحیح معنوں میں اسلام کے تابع انبیاء اور چہار دہ معصومین ٪ کو سمجھا جا تا ہے جن کے صدقے میں خدا نے کائنات کو وجود دیا تا کہ انہیں حضرات کے ذریعے انسان ابدی زندگی کو آباد. دنیوی زندگی کو خوشگوار بنا سکے ، لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ ہماری زندگی آباد کر نے کا ملاک اورمعیار حضرت زہرا ( سلام اللہ علیھا ) کی سیرت ہے جس میں سیاسی، سماجی، علمی ، اقتصادی ، اخلاقی ،اعتقادی ، فقہی ...نکات پوشیدہ ہیں جن کو اگر مسلمان صحیح طریقے سے درک کرے تو مسلمانوں کی کا میا بی اور آپس میں یک جہتی کے لیئے یہی کا فی ہے کیو نکہ حضرت زہرا کی سیرت حقیقت میں دیکھا جا ئے تو کتاب وسنت کانچوڑاور خلاصہ ہے۔
لہٰذا آنے والے مطالب میں حضرت زہرا کی کچھ فضیلت کواختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور ان پرڈھائے گئے مظالم کا تذ کر ہ بھی ہواہے جس مجمو عے کا نام ''فاطمہ زہرا کے رونے کا فلسفہ ''رکھا گیا ہے انشاء اللہ قارئین کو حضرت زہرا کی شخصیت پر مختصر آگاہی ہونے کے سا تھ ان کی مظلومیت اور دیگر قوموں کے مظالم اور بیداد گری کا بھی اندازہ کر سکیں نا چیز زحمت کو بہت ہی اختصار کے ساتھ تعصب سے ہٹ کر فریقین کی کتابوں سے سادہ الفاظ میں جمع کیا گیا ہے خدا وند تبارک وتعالی سے سوال ہے کیوں اس صدی میں بھی حضرت زہرا کی شخصیت مجمل اور مبہم ہے ؟ ان پرکئے ہوئے مظالم کی توجیہ کیوں ؟
پالنے والے میں حضرت زہرا (سلام اللہ علیھا ) کے ماننے والے طالب علموں میں سے ایک ہو نے کی حیثیت سے حضرت زہرا ( سلام اللہ علیھا ) کے سامنے شرمندہ ہوں کیوں مجھے حضرت زہرا کی شخصیت اور عظمت بیان کر نے کی قدرت وجرأت نہیں ہو تی شاید یہ معنویت کی کمی کا نتیجہ ہو کیو نکہ قدرت اور جرأت معنویت کا نتیجہ ہے جس سے میں محروم ہوں ، خدایاعاصی کی ا س ناچیز زحمت کو امام زمانہ(علیہ السلام) کے صدقہ میں اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔
المذنب: باقر مقدسی۔
حوزہ علمیہ قم المقدس۔ ایران
|
|