270
تيسرا اعتراض:
فرض كيجئے كہ جناب ابوبكر حضرت زہراء (ع) كے گواہوں كے نصاب كو ناقص سمجھتے تھے اور ان كى حقانيت پر يقين بھى نہيں ركھتے تھے تو پھر بھى ان كا وظيفہ تھا كہ حضرت زہراء (ع) سے قسم كھانے كا مطالبہ كرتے اور ايك گواہ اور قسم كے ساتھ قضاوت كرتے كيوں كہ كتاب قضا اور شہادت ميں يہ مطلب پايہ ثبوت كو پہنچ چكا ہے كہ ام وال اور ديون كے واقعات ميں قاضى ايك گواہ كے ساتھ مدعى سے قسم لے كر حكم لگا سكتا ہے، روايت ميں موجود ہے كہ رسول خدا (ص) ايك گواہ كے ساتھ قسم ملا كر قضاوت اور فيصلہ كرديا كرتے تھے (1)_
چوتھا اعتراض:
اگر ہم ان سابقہ تمام اعتراضات سے صرف نظر كرليں تو اس نزاع ميں جناب فاطمہ (ع) مدعى تھيں كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ نے فدك انہيں بخش ديا ہے اور جناب ابوبكر منكر تھے اور كتب فقہى ميں يہ مطلب مسلم ہے كہ اگر مدعى كا ثبوت ناقص ہو تو قاضى كے لئے ضرورى ہوجاتا ہے كہ مدعى كو اطلاع دے كہ تمہارے گواہ ناقص ہيں اور تمہيں حق پہنچتا ہے كہ تم منكر سے قسم اٹھانے كا مطالبہ كرو، لہذا جناب ابوبكر پر لازم تھا كہ وہ جناب زہراء (ع) كو تذكر ديتے كہ چونكہ آپ كے گواہ ناقص ہيں اگر آپ چاہيں تو چونكہ ميں منكر ہوں آپ مجھ سے قسم اٹھوا سكتى ہيں، ليكن جناب ابوبكر نے قضاوت كے اس قانون كو بھى نظرانداز كيا اور صرف گواہ كے ناقص ہونے كے ادعا كو نزاع كے خاتمہ كا اعلان كر كے رد كرديا_
-------
1) مجمع الزوائد، ج 3 ص 202 _
271
پانچواں اعتراض:
اگر فرض كرليں كہ جناب زہراء (ع) كى حقانيت اس جگھڑے ميں جناب ابوبكر كے نزديك ثابت نہيں ہوسكى تھى ليكن پھر بھى فدك كى آراضى حكومت اسلامى كے مال ميں تھي، مسلمانوں كے حاكم اور خليفہ كو حق پہنچتا تھا كہ وہ عمومى مصلحت كا خيال كرتے، جب كہ آپ اپنے كو مسلمانوں كا خليفہ تصور كرتے تھے، فدك كو بعنوان اقطاع جناب فاطمہ (ع) دختر پيغمبر(ص) كو دے ديتے اور اس عمل سے ايك بہت بڑا اختلاف جو سالہا سال تك مسلمانوں كے درميان چلنے والا تھا اس كے تلخ نتائج كا سد باب كرديتے_
كيا رسول خدا(ص) نے بنى نضير كى زمينيں جناب ابوبكر اور عبدالرحمن بن عوف اور ابو دجانہ كو نہيں دے دى تھيں (1) _
كيا بنى نضير كى زمين مع درختوں كے زبير بن عوام كو پيغمبر(ص) اسلام نے نہيں دے دى تھيں (2)_
كيا معاويہ نے اسى فدك كا تہائي حصہ كے عنوان سے مروان بن الحكم اور ايك تہائي جناب عمر بن عثمان كو اور ايك تہائي اپنے بيٹے يزيد كو نہيں دے ديا تھا (3)_
كيا يہ بہتر نہ تھا كہ جناب ابوبكر بھى اسى طرح دختر پيغمبر(ص) كو دے ديتے اور اتنے بڑے خطرے اور نزاع كو ختم كرديتے؟
--------
1) فتوح البلدان، ص 31_
2) فتوح البلدان، ص 34_
3) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 216_
272
چھٹا اعتراض:
اصلاً جناب ابوبكر كا اس نزاع ميں فيصلہ اور قضاوت كرنا ہى ازروئے قانون قضاء اسلام درست نہ تھا كيونكہ جناب زہراء (ع) اس واقعہ ميں مدعى تھيں اور جناب ابوبكر منكر تھے، اس قسم كے موارد ميں يہ فيصلہ كسى تيسر آدمى سے _ كرانا چاہيئے تھا، جيسے كہ پيغمبر(ص) اور حضرت على (ع) اپنے نزاعات ميں اپنے علاوہ كسى اور قاضى سے فيصلہ كرايا كرتے تھے يہ نہيں ہوسكتا تھا كہ جناب ابوبكر خود ہى منكر ہوں او رخود ہى قاضى بن كر اپنے مخالف سے گواہ طلب كريں اور اپنى پسند كا فيصلہ اور قضاوت خود ہى كرليں_
ان تمام مطالب سے يہ امر مستفاد ہوتا ہے كہ فدك كے معاملے ميں حق جناب زہراء (ع) كے ساتھ تھا اور جناب ابوبكر نے عدل اور انصاف كے راستے سے عدول كر كے ان كے حق ميں تعدى اور تجاوز سے كام ليا تھا_
رسول خدا (ص) كے مدينہ ميں اموال
بنى نضير يہوديوں كى زمينيں رسول خدا (ص) كا خالص مال تھا، كيونكہ بغير جنگ كے فتح ہوئي تھيں اس قسم كے مال ميں پيغمبر اسلام (ص) كو پورا اختيار تھا كہ جس طرح مصلحت ديكھيں انہيں مصرف ميں لائيں، چنانچہ آپ نے بنى نضير سے منقول اموال جو لئے تھے وہ تو مہاجرين كے درميان تقسيم كرديئےور كچھ زمين اپنے لئے مخصوص كرلى اور حضرت على (ع) كو حكم ديا كہ اس پر تصرف كريں اور بعد ميں اسى زمين كو وقف كرديا اور موقوفات ميں داخل قرار ديا اپنى زندگى ميں اس كے متولى خود آپ تھے آپ كى وفات كے بعد اس كى توليت حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) اور ان كى اولاد كے سپرد كى (1)
---------
1) بحار الانوار، ج 20 ص 173_
273
يہوديوں كے علماء ميں سے مخيرق نامى ايك عالم _ مسلمانوں ہوگئے انہوں نے اپنا مال جناب رسول خدا (ص) كو بخش ديا ان كے اموال ميں سے سات باغ تھے كہ جن كے يہ نام تھے_ مشيب، صافيہ، دلال، حسني، برقہ، اعوف، مشربہ ام ابراہيم يہ تمام اس نے جناب رسول خدا (ص) كو ہبہ كرديئےھے آپ(ص) نے بھى انہيں وقف كرديا تھا (1) _
بزنطى كہتے ہيں كہ ميں نے سات زرعى زمينوں كے متعلق ''جو جناب فاطمہ (ع) كى تھيں'' امام رضا (ع) سے سوال كيا _ آپ نے فرمايا يہ رسول خدا(ص) نے وقف كى تھيں كہ جو بعد ميں حضرت زہراء (ع) كو ملى تھيں، پيغمبر اسلام (ص) اپنى ضروريات بھر ان ميں سے ليا كرتے تھے جب آپ نے وفات پائي تو جناب عباس نے ان كے بارے ميں حضرت فاطمہ (ع) سے نزاع كيا، حضرت على (ع) اور دوسروں نے گواہى دى كہ يہ وقفى املاك ہيں وہ زرعى زمينيں اس نام كى تھيں دلال، اعوف حسني، صافيہ، مشربہ ام ابراہيم، مشيب، برقہ (2) _
حلبى اور محمد بن مسلم نے امام جعفر صادق (ع) سے روايت كى ہے كہ ہم نے رسول خدا (ص) اور فاطمہ زہراء (ع) كے صدقات اور اوقاف كے متعلق سوال كيا تو آپ (ع) نے فرمايا كہ وہ بنى ہاشم اور بنى مطلب كا مال تھا (3)_
ابومريم كہتا ہے كہ ميں نے رسول خدا(ص) اور حضرت على (ع) كے صدقات اور اوقاف كے متعلق امام جعفر صادق (ع) سے سوال كيا، تو آپ نے فرمايا كہ وہ
--------
1) فتوح البلدان، ص 31_ سيرة ابن ہشام، ج 2 ص 5 16_
2) بحار الانوار، ج 22 ص 296_
3) بحار الانوار، ج 22 ص 266_
274
ہمارے لئے حلال ہے جناب فاطمہ (ع) كے صدقات بنى ہاشم اور بنى المطلب كا مال تھا (1) _
جناب رسول خدا(ص) نے ان املاك كو جو مدينہ كے اطراف ميں تھے وقف كرديا تھا اور ان كى توليت حضرت فاطمہ (ع) اور حضرت على (ع) كے سپرد كردى تھي_ يہ املاك بھى ايك مورد تھا كہ جس ميں حضرت زہراء (ع) كا جناب ابوبكر سے جھگڑا ہوا تھا_
بظاہر حضرت زہراء (ع) اس جھگڑے ميں كامياب ہوگئيں اور مدينہ كے صدقات اور اوقاف كو آپ نے ان سے لے ليا، اس كى دليل اور قرينہ يہ ہے كہ آپ نے موت كے وقت ان كى توليت كى على (ع) اور اپنى اولاد كے لئے وصيت كى تھي، ليكن مجلسي نے نقل كيا ہے كہ جناب ابوبكر نے بالكل كوئي چيز بھى جناب فاطمہ (ع) كو واپس نہيں كى البتہ جب جناب عمر خلافت كے مقام پر پہنچے تو آپ نے مدينہ كے صدقات اور اوقاف حضرت على (ع) اور عباس كو واپس كرديئےليكن خيبر اور فدك واپس نہ كئے اور كہا كہ يہ رسول خدا(ص) كے لازمى اور ناگہانى امور كے لئے وقف ہيں_
مدينہ كے اوقاف اور صدقات حضرت على (ع) كے قبضے ميں تھے اس بارے ميں جناب عباس نے حضرت على (ع) سے نزاع كيا ليكن اس ميں حضرت على كامياب ہوگئے لہذا آپ كے بعد يہ حضرت امام حسن عليہ السلام كے ہاتھ ميں آيا اور ان كے بعد امام حسين عليہ السلام كے ہاتھ اور آپ كے بعد جناب عبداللہ بن حسن (ع) كے ہاتھ ميں تھے يہاں تك كہ بنى عباس خلافت پر پہنچے تو انہوں نے يہ صدقات بنى ہاشم سے واپس لے لئے (2)_
------
1) بحار الانوار، ج 22 ص 297_
2) بحار الانوار، ج 42 ص 300_
275
خيبر كے خمس كا بقايا
7 ہجرى كو اسلام كى سپاہ نے خيبر كو فتح كيا اس كے فتح كرنے ميں جنگ اور جہاد كيا گيا اسى وجہ سے يہوديوں كا مال اور اراضى مسلمانوں كے درميان تقسيم ہوئي_
رسول خدا(ص) نے قانون اسلام كے مطابق غنائم خيبر كو تقسيم كيا، آپ نے منقولہ اموال كو پانچ حصّوں ميں تقسيم كيا چار حصّے فوج ميں تقسيم كرديئےور ايك حصہ خمس كا ان مصارف كے لئے مخصوص كيا كہ جسے قرآن معين كرتا ہے جيسا كہ خداوند عالم فرماتا ہے :
''و اعلموا انما غنمتم من شيئً فان للہ خمسہ
و للرسول و لذى القربى و اليتامى و المساكين و ابن السبيل '' (1)
يعنى جان لو كہ جو بھى تم غنيمت لو اس كا خمس خدا اور پيغمبر(ص) اور پيغمبر(ص) كے رشتہ دار اور ذوى القربى اور اس كے يتيم اور تنگ دست اور ابن سبيل كے لئے ہے_ اس آيت اور ديگر احاديث كے رو سے غنيمت كا خمس چھ جگہ خرچ كيا جاتا ہے اور صرف اسى جگہ خرچ كرنا ہوگا_
جناب رسول خدا (ص) خمس كو عليحدہ ركھ ديتے تھے اور بنى ہاشم كے ذوالقربى اور يتيموں اور فقيروں اور ابن سبيل كى ضروريات زندگى پورا كيا كرتے تھے اور باقى كو اپنے ذاتى مصارف او رخدائي كاموں پر خرچ كيا كرتے
----------
1) سورہ انفال آيت 41_
276
تھے آپ نے خيبر كے خمس كو بھى انہيں مصارف كے لئے عليحدہ ركھ چھوڑا تھا اس كى كچھ مقدار كو آپ نے اپنى بيويوں ميں تقسيم كرديا تھا مثلاً جناب عائشےہ كو خرما اور گندم اور جو كے دو وسق وزن عنايت فرمائے_ كچ مقدار اپنے رشتہ داروں اور ذوى القربى ميں تقسيم كيا مثلاً دو وسق سو وزن جناب فاطمہ (ع) كو اور ايك سو وسق حضرت على (ع) كو عطا فرمائے (1)_
اور خيبر كى زمين كو دو حصوں ميں تقسيم كى ايك حصہ زمين كا ان مصارف كے لئے جو حكومت كو در پيش ہوا كرتے ہيں مخصوص كرديا اور دوسرا حصہ مسلمانوں اور افواج اسلام كى ضروريات زندگى كے لئے مخصوص كرديا اور پھر ان تمام زمينوں كو يہوديوں كو اس شرط پر واپس كرديا كہ وہ اس ميں كاشت كريں اور اس كى آمدنى كا ايك معين حصّہ پيغمبر(ص) كو ديا كريں_ آپ اس حصہ كو وہيں خرچ كرتے تھے كہ جسے خداوند عالم نے معين كيا (2)_
جب رسول خدا (ص) كى وفات ہوگئي تو جناب ابوبكر نے خيبر كے تمام موجود غنائم پر قبضہ كرليا، يہاں تك كہ وہ خمس جو خدا اور اس كے رسول (ص) اور بنى ہاشم كے ذوى القربى اور يتيموں، مسكينوں اور ابن سبيل كا حصہ تھا اس پر بھى قبضہ كرليا_ اور بنى ہاشم كو خمس سے محروم كرديا_
حسن بن محمد بن على (ع) ابن ابيطالب كہتے ہيں كہ جناب ابوبكر نے ذوى القربى كا سہم جناب فاطمہ (ع) اور دوسرے بنى ہاشم كو نہيں ديا اور اس كو كار خير ميں جيسے اسلحہ اور زرہ و غيرہ كى خريدارى پر خرچ كرتے تھے (3)_
---------
1) سيرہ ابن ہشام، ج 3 ص 365، ص 371_
2) فتوح البلدان، ص 26 تا 42_
3) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 231_
277
عروہ كہتے ہيں كہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبكر كے پاس گئيں اور فدك اور سہم ذى القربى كا ان سے مطالبہ كيا_ جناب ابوبكر نے انہيں كوئي چيز نہ دى اور اسے اللہ كے اموال ميں داخل كرديا (1)_
الحاصل يہ موضوع بھى ان موارد ميں سے ايك ہے كہ جس ميں جناب فاطمہ (ع) كا جناب ابوبكر سے جھگڑا و مورد نزاع قرار پايا كہ آپ كبھى اسے خيبر كے عنوان سے اور كبھى اسے سہم ذى القربى كے عنوان سے جناب ابوبكر سے مطالبہ كيا كرتى تھيں_
اس مورد ميں بھى حق جناب فاطمہ زہراء (ع) كے ساتھ ہے كيونكہ قرآن شريف كے مطابق خمس ان خاص موارد ميں صرف ہوتا ہے كہ جو قرآن مجيد ميں مذكور ہيں اور ضرورى ہے كہ بنى ہاشم كے ذوى القربى اور يتيموں اور فقيروں اور ابن سبيل كو ديا جائے_ يہ كوئي وراثت نہيں كہ اس كا يوں جواب ديا جائے كہ پيغمبر(ص) ارث نہيں چھوڑتے، جناب فاطمہ (ع) ابوبكر سے فرماتى تھيں كہ خداوند عالم نے قرآن ميں ايك سہم خمس كا ذوى القربى كے لئے مخصوص كيا ہے اور چاہيئے كہ يہ اسى مورد ميں صرف ہو آپ تو ذوى القربى ميں داخل نہيں ہيں اور نہ ہى اس كے مصداق ہيں آپ نے يہ ہمارا حق كيوں لے ركھا ہے_
انس بن مالك كہتے ہيں كہ فاطمہ (ع) جناب ابوبكر كے پاس گئيں اور فرمايا كہ تم خود جانتے ہو كہ تم نے اہلبيت كے ساتھ زيادتى كى ہے اور ہميں رسول خدا (ص) كے صدقات اور غنائم كے سہم ذوى القربى سے كہ جسے قرآن نے معين كيا ہے محروم كرديا ہے خداوند عالم فرماتا ہے ''و اعلموا انما غنمتم من شيء الخ'' جناب ابوبكر نے
-----------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 131_
278
جواب ديا كہ ميرے ماں باپ آپ پر اور آپ كے والد پر قربان جائيں اس رسول (ص) كى دختر ميں اللہ كتاب اور رسول (ص) كے حق اور ان كے قرابت داروں كے حق كا پيرو ہوں، جس كتاب كو آپ پڑھتى ہيں ميں بھى پڑھتا ہوں ليكن ميرى نگاہ ميں يہ نہيں آيا كہ خمس كا ايك پورا حصہ تمہيں دے دوں_
جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا كہ آيا خمس كا يہ حصہ تيرے اور تيرے رشتہ داروں كے لئے ہے؟ انہوں نے كہا نہيں بلكہ اس كى كچھ مقدار تمہيں دونگا اور باقى كو مسلمانوں كے مصالح پر خرچ كروں گا جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا كہ اللہ تعالى كا حكم تو اس طرح نہيں ہے_ جناب ابوبكر نے كہا كہ اللہ تعالى كا حكم يوں ہى ہے (1)_
رسول خدا كى وراثت
جناب فاطمہ (ع) كا جناب ابوبكر سے ايك نزاع اور اختلاف رسول خدا (ص) كى وراثت كے بارے ميں تھا_ تاريخ اور احاديث كى كتابوں ميں لكھا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) رسول خدا(ص) كى وفات كے بعد جناب ابوبكر كے پاس گئيں اور اپنے والد كى وراثت كا ان سے مطالبہ كيا، جناب ابوبكر نے جناب فاطمہ (ع) كو وراثت كے عنوان سے كچھ بھى نہ ديا اور يہ عذر پيش كيا كہ پيغمبر (ص) ميراث نہيں چھوڑتے اور جو كچھ وہ مال چھوڑ جاتے ہيں وہ صدقہ ہوتا ہے اور اس مطلب كے لئے انہوں نے ايك حديث بھى بيان كى كہ جس كے راوى وہ خود ہيں اور كہا كہ ميں نے آپ كے والد سے سنا ہے كہ ہم پيغمبر (ص) سونا، چاندي، زمين اور ملك اور گھر بار ميراث ميں نہيں چھوڑتے بلكہ ہمارى وراثت ايمان اور حكمت
------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 230_
279
اور علم و دانش اور شريعت ہے_ ميں اس موضوع ميں پيغمبر(ص) كے دستور اور ان كى مصلحت كے مطابق كام كروں گا (1)_
جناب فاطمہ (ع) نے حضرت ابوبكر كى اس بات كو تسليم نہ كيا اور اس كى ترديد قرآن مجيد كى كئي آيات سے تمسك كر كے كى ہميں اس موضوع ميں ذرا زيادہ بحث كرنى چاہئے تا كہ وراثت كا مسئلہ زيادہ واضح اور روشن ہوجائے_
قرآن ميں وراثت
قرآن كريم ميں وراثت كا مطلق قانون وارد ہوا ہے_ خدا قرآن مجيد ميں فرماتا ہے كہ اللہ تمہيں اولاد كے بارے ميں سفارش كرتا ہے كہ لڑكے كا حصہ لڑكى كے دو برابر ہے (2)_
يہ آيت اور قرآن كى دوسرى آيات جو ميراث كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں ان ميں كليت اور عموميت ہے اور وہ تمام لوگوں كو شامل ہيں اور پيغمبروں كو بھى يہى آيات شامل ہيں_ پيغمبر (ص) بھى ان نصوص كليہ كى بناء پر ميراث چھوڑنے والے سے ميراث حاصل كريں گے اور ان كے اپنے اموال بھى ان كے وارثوں كو مليں گے انہيں نصوص كليہ كى بناء پر ہمارے رسول (ص) كے اموال اور تركے كو ان كے وارثوں كى طرف منتقل ہونا چاہيئے، البتہ اس قانون توارث كے عموم اور كليت ميں كسى قسم كا شك نہيں كرنا چاہيئے ليكن يہ ديكھنا ہوگا كہ آيا كوئي قطعى دليل ہے جو پيغمبروں كو اس كلى اور عمومى قانون وراثت سے خارج اور مستثنى قرار دے رہا ہے ؟
---------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 214_
2) سورہ نساء آيت 11_
280
جناب ابوبكر كى حديث
حضرت زہراء (ع) كے مقابلے ميں جناب ابوبكر دعوى كرتے تھے كہ تمام پيغمبر (ص) وراثت كے كلى قوانين سے مستثنى اور خارج ہيں اور وہ ميراث نہيں چھوڑتے اپنے اس ادعا كے لئے جناب ابوبكر نے ايك حديث سے استدلال كيا ہے كہ جس كے راوى خود آپ ہيں اور يہ روايت كتابوں ميں مختلف عبارات سے نقل ہوئي ہے:
''قال ابوبكر لفاطمہ فانى سمعت رسول اللہ يقول انا معاشر الانبياء لانورث ذہبا و لا فضّة و لا ارضا و لا دار او لكنا نورث الايمان و الحكمة و العلم و السنة فقد عملت بما امرنى و نصحت لہ '' (1)
يعنى ابوبكر نے جناب فاطمہ (ع) سے كہا كہ ميں نے رسول خدا (ص) سے سنا ہے كہ آپ نے فرمايا كہ ہم پيغمبر (ص) سونا، چاندي، زمين، مكان ارث ميں نہيں چھوڑتے ہمارا ارث ايمان، حكمت، دانش، شريعت ہوا كرتا ہے ميں رسول خدا (ص) كے دستور پر عمل كرتا ہوں اور ان كى مصلحت كے مطابق عمل كرتا ہوں_
دوسرى جگہ روايت اس طرح ہے كہ جناب عائشےہ فرماتى ہيں كہ جناب فاطمہ (ع) نے كسى كو ابوبكر كے پاس بھيجا كہ آپ ان سے رسول خدا (ص) كى ميراث طلب كرتى تھيں اور آپ وہ چيزيں طلب كرتى تھيں جو رسول اللہ نے مدينہ ميں چھوڑى تھيں_
--------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 214_
281
اور فدك اور جو خيبر كا خمس بچا ہوا تھا، جناب ابوبكر نے كہا رسول اللہ (ص) نے فرمايا ہے كہ ہم ميراث نہيں چھوڑتے جو چھوڑجاتے ہيں وہ صدقہ (يعنى وقف) ہوتا ہے، آل محمد(ص) تو اس سے صرف كھاسكتے ہيں (1)_
ايك اور حديث ميں ہے كہ جب جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبكر سے گفتگو كى تو جناب ابوبكر روديئےور كہا كہ اے دختر رسول اللہ (ص) آپ كے والد نے نہ دينا اور نہ درہم چھوڑا ہے اور انہوں نے فرمايا ہے كہ انبياء ميراث نہيں چھوڑتے (2)_
ايك اور حديث يوں ہے كہ جناب ام ہانى كہتى ہيں كہ جناب فاطمہ نے جناب ابوبكر سے كہا كہ جب تو مرے گا تو تيرا وارث كون ہوگا اس نے جواب ديا كہ ميرى اولاد اور اہل، آپ نے فرمايا پھر تجھے كيا ہوگيا ہے كہ تو رسول اللہ كا وارث بن بيٹھا ہے اور ہم نہيں؟ اس نے كہا اے دختر رسول (ص) آپ كے والد نے گھر، مال اور سونا اور چاندى وراثت ميں نہيں چھوڑي، جب جناب فاطمہ (ع) نے كہا كہ ہمارا وہ حصہ جو اللہ نے ہمارے لئے قرار ديا ہے اور ہمارا فئي تمہارے ہاتھ ميں ہے؟ جناب ابوبكر نے كہا كہ ميں نے رسول اللہ (ص) سے سنا ہے كہ يہ ايك طعمہ ہے كہ جس سے اللہ نے ہم اہلبيت كو كھانے كے لئے ديا ہے، جب ميں مرجاؤں تو يہ مسلمانوں كے لئے ہوجائے گا (3)_
ايك اور روايت يوں ہے كہ جناب فاطمہ (ع) حضرت ابوبكر كے پاس گئيں اور
---------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 117_
2)شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 116_
3) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 118_
282
فرمايا كہ ميرى ميراث رسول اللہ (ص) سے جو بنتى ہے وہ مجھے دو_ جناب ابوبكر نے كہا كہ انبياء ارث نہيں چھوڑتے جو چھوڑ جاتے ہيں وہ صدقہ (يعنى وقف) ہوتا ہے (1)_
جناب ابوبكر نے اس قسم كى حديث سے استدلال كر كے جناب فاطمہ (ع) كو والد كى ميراث سے محروم كرديا ليكن يہ حديث كئي لحاظ سے حجت نہيں كہ جس سے استدلال كيا جاسكے_
قرآن كى مخالفت
يہ حديث قرآن كے مخالف ہے كيونكہ قرآن ميں تصريح كے ساتھ بيان ہوا ہے كہ پيغمبر(ص) بھى دوسرے مردوں كى طرح ميراث چھوڑتے ہيں اور جيسا كہ آئمہ طاہرين نے فرمايا ہے كہ جو حديث قرآن كى مخالف ہو وہ معتبر نہيں ہوا كرتى اسے ديوار پر دے مارو، ان آيات ميں سے كہ جو انبياء كے ارث چھوڑنے كو بتلاتى ہيں ايك يہ ہے:
''ذكر رحمة ربك عبدہ ذكر يا اذ نادى ربہ خفيا خفيا'' تا ''فہب لى من لدنك ولياً يرثنى و يرث من آل يعقوب و اجعلہ رب رضياً'' (2)_
لكھا ہے كہ جناب زكريا كے چچازاد بھائي بہت برے لوگ تھے اگر جناب زكريا كے فرزند پيدا نہ ہوتا تو آپ كا تمام مال چچازاد بھائيوں كو ملنا آپ كو ڈر
-----------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 103_
2) سورہ مريم آيت 4_
283
تھا كہ ميرى ميراث چچازاد بھائيوں كو مل گئي تو اس مال كو برائيوں اور گناہ پر خرچ كريں گے اسى لئے اللہ تعالى سے دعا مانگى تھى كہ خدايا مجھے اپنے وارث چچازاد بھائيوں سے خوف ہے اور ميرى بيوى بانجھ ہے، خداوندا مجھے ايك فرزند عطا فرما جو ميرا وارث بنے، خداوند عالم نے آنجناب كى دعا قبول فرمائي اور خدا نے جناب يحيى كو انہيں عطا كيا_ اس آيت سے اچھى واضح ہو جاتا ہے كہ پيغمبر(ص) بھى دوسرے لوگوں كى طرف ميراث چھوڑتے ہيں ورنہ حضرت زكريا كى دعا اور خواہش بے معنى ہوتي_
يہاں يہ كہا گيا ہے كہ شايد جناب زكريا كى وراثت علم و دانش ہو نہ مال و ثروت، اور انہوں نے اللہ تعالى سے خواہش كى ہو كہ انہيں فرزند عنايت فرمائے كہ جو ان كے علوم كا وارث ہو اور دين كى ترويج كى كوشش كرے، ليكن تھوڑاسا غور كرنے سے معلوم ہوجائے گا كہ يہ احتمال درست نہيں ہے اس لئے كہ وراثت كا لفظ مال كى وراثت ميں ظہور ركھتا ہے نہ علم كى وراثت ميں اور جب تك اس كے خلاف كوئي قرينہ موجود نہ ہو اسے وراثت مال پر ہى محمول كيا جائے گا_ دوسرے اگر تو وراثت سے مراد مال كى وراثت ہو تو جناب زكريا كا خوف يا محل ہے اور اگر مراد وراثت سے علمى وراثت ہو تو پھر اس آيت كے معنى كسى طرح درست نہيں قرار پاتے كيوں كہ اگر مراد علمى وراثت سے علمى كتابيں ہيں تو يہ در حقيقت مالى وراثت ہوجائے گى اس لئے كہ كتابوں كا شمار اموال ميں ہوتا ہے نہ علم ميں اور اگر يہ كہا جائے كہ حضرت زكريا كو اس كا خوف تھا كہ علوم اور معارف اور قوانين شريعت ان كے چچازاد بھائيوں كے ہاتھ ميں چلے گئے تو وہ اس سے غلط فائدہ اٹھائيں گے تو بھى جناب زكريا كا يہ خوف درست نہ تھا كيوں كہ جناب زكريا كا وظيفہ يہ تھا كہ
284
قوانين اور احكام شريعت كو عام لوگوں كے سپرد كريں اور ان كے چچازاد بھائي بھى عموم ملّت ميں شامل ہوں گے اور پھر اگر جناب زكريا كے فرزند بھى ہوجاتا تب بھى آپ كے چچازاد بھائي قوانين كے عالم ہونے كى وجہ سے غلط فائدہ ا ٹھا سكتے تھے اور اگر جناب زكريا كو اس كا خوف تھا كہ وہ مخصوص علوم جو انبياء كے ہوتے ہيں وہ ان كے چچازاد بھائيوں كے ہاتھوں ميں نہ چلے جائيں اور وہ اس سے غلط فائدہ نہ اٹھائيں تو بھى آنجناب كا يہ خوف بلا وجہ تھا كيون كہ وہ مخصوص علوم آپ ہى كے اختيار ميں تھے اور بات آپ كى قدرت ميں تھى كہ ان علوم كى اپنے چچازاد بھائيوں كو اطلاع ہى نہ كريں تا كہ وہ اسرار آپ ہى كے پاس محفوظ رہيں اور آپ جانتے تھے كہ خداوند عالم نبوت كے علوم كا مالك بدكار لوگوں كو نہيں بتاتا_ بہرحال وراثت سے علمى وراثت مراد ہو تو جناب زكريا كا خوف اور ڈر معقول نہ ہوتا اور بلاوجہ ہوتا_
ممكن ہے يہاں كوئي يہ كہے كہ جناب زكريا كو خوف اور ڈر اس وجہ سے تھا كہ آپ كے چچازاد بھائي برے آدمى اور خدا كے دين اور ديانت كے دشمن تھے آپ كے بعد اس كے دين كو بدلنے كے درپے ہوتے اور آپ كى زحمات كو ختم كر كے ركھ ديتے لہذا جناب زكريا نے خدا سے دعا كى كہ مجھے ايك ايسا فرزند عنايت فرما كہ جو مقام نبوت تك پہنچے اور خدا كے دين كے لئے كوشش كرے اور اسے باقى ركھے پس اس آيت ميں وراثت سے مراد علم اورحكمت كى وراثت ہوگى نہ مال اور ثروت كي_
ليكن يہ كہنا بھى درست نہيں ہے، كيونكہ جناب زكريا جانتے تھے كہ خدا كبھى بھى زمين كو پيغمبر يا امام كے وجود سے خالى نہيں ركھتا، لہذا يہ كہنا درست نہ ہوگا كہ جناب زكريا كو اس جہت سے خوف اور ڈر تھا كہ شايد خداوند عالم
285
دين اور شريعت كو بغير كسى حامى كے چھوڑ دے اور اگر جناب زكريا ايسا فرزند چاہتے تھے كہ جو پيغمبر اور دين كا حامى ہو تو آپ كو اس طرح نہ كہنا چاہيئے كہ خدايا مجھے ايسا فرزند عنايت فرما جو ميرى وراثت كے مالك ہو اور اسے صالح قرار دے_ بلكہ ان كو اس صورت ميں اس طرح دعا كرنى چاہيئے تھى كہ خدايا مجھے خوف ہے كہ ميرے بعد دين كى اساس كو ختم كرديا جائے گا ميں تجھ سے تمنا كرتا ہوں كہ ميرے بعد دين كى حمايت كے لئے ايك پيغمبر بھيجنا اور ميں دوست ركھتا ہوں كہ وہ پيغمبر ميرى اولاد سے ہو اور مجھے ايك فرزند عنايت فرما جو پيغمبر ہو اور پھر اگر ميراث سے مراد علم كى ميراث ہو تو پھر دعا ميں اس جملے كى كيا ضرورت تھى خدا اسے محبوب اور پسنديدہ قرار دے كيونكہ جناب زكريا جانتے تھے كہ خداوند عالم غير صالح اور غير اہل افراد كو پيغمبرى كے لئے منتخب نہيں كرے گا تو پھر اس جملے
''خدايا ميرے فرزند كو پسنديدہ اور صالح قرار دے'' كى ضرورت ہى نہ تھي_ اس پورى گفتگو سے يہ مطلب واضح ہوگيا ہ كہ جناب يحيى كى ميراث جناب زكريا سے مال كى ميراث تھى نہ كہ علم كى اور يہى آيت اس مطلب پر كہ پيغمبر(ص) بھى دوسرے لوگوں كى طرح ميراث لينے ہيں اور ميراث چھوڑتے ہيں بہت اچھى طرح دلالت كر رہى ہے لہذا جو حديث ابوبكر نے اپنے استدلال كے لئے بيان كى وہ قرآن كے مخالف ہوگى اور حديث شناسى كے علم ميں يہ واضح ہوچكا ہے كہ جو حديث قرآن مجيد كے مخالف ہو وہ قابل قبول نہيں ہوا كرتى اور اسے ديوار پر دے مارنا چاہيئے اسى لئے تو جناب زہراء (ع) نے ''جو قوانين اور احكام شريعت اور حديث شناسى اور تفسير قرآن كو اپنے والد اور شوہر سے حاصل كرچكى تھيں'' اس حديث كے رد كرنے كے لئے اسى سابقہ آيت كو اس كے مقابلے ميں پڑھا اور بتلايا كہ يہ حديث اس آيت كى مخالف ہے كہ جس پر اعتماد نہيں كيا جاسكتا_
286
ايك اور آيت كہ جس سے استدلال كيا گيا ہے كہ پيغمبر(ص) بھى ميراث ليتے ور ميراث چھوڑتے ہيں يہ آيت ہے ''و ورث سليمان داؤد'' (1)_
اس آيت ميں خداوند عالم___ سليمان كے بارے ميں فرماتے ہے كہ آپ جناب داؤد كے وارث ہوئے اور كلمہ وارث كا ظہور مال كى وراثت ميں ہے جب تك اس كے خلاف كوئي قطعى دليل موجود نہ ہو تب تك اس سے مراد مال كى وراثت ہى ہوگي_ اسى لئے تو حضرت زہراء (ع) نے ابوبكر كے مقابلے ميں اس آيت سے استدلال كيا جب كہ حضرت زہراء (ع) قرآن كے نازل ہونے والے گھر ميں تربيت پاچكى تھي_
ايك اشكال
اگر جناب ابوبكر كى نقل شدہ حديث صحيح ہوتى تو ضرورى تھا كہ رسول خدا(ص) كے تمام اموال كو لے ليا جاتا لہذا وارثوں كو آپ كے لباس، زرہ، تلوار، سوارى كے حيوانات، دودھ دينے والے حيوانات، گھر كے اساس سے بھى محروم كرديا جاتا اور انہيں بھى بيت المال كا جزو قرار دے ديا جاتا حالانكہ تاريخ شاہد ہے كہ جناب رسول خدا (ص) كے اس قسم كے اموال ان كے وارثوں كے پاس ہى رہے اور كوئي تاريخ بھى گواہى نہيں ديتى اور كسى مورخ نے نہيں لكھا كہ جناب ابوبكر نے رسول خدا (ص) كا لباس، تلوار، زرہ، فرش، برتن و غيرہ اموال عمومى ميں شامل كر كے ضبط كر لئے ہوں بلكہ پہلے معلوم ہوچكا ہے كہ آپ كے مكان كے كمرے آپ كى بيويوں كے پاس ہى رہے اور اس كے علاوہ جو باقى مذكورہ
---------
1) سورہ نحل آيت 16_
287
مال تھا آپ كے ورثاء ميں تقسيم كرديا گيا_ يہ بات بھى ايك دليل ہے كہ جناب ابوبكر كى حديث ضعيف تھى اور معلوم ہوتا ہے كہ خود جناب ابوبكر كو بھى اپنى بيان كردہ حديث كے متعلق اعتبار نہ تھا كيونكہ اگر وہ حديث ان كے نزديك درست ہوتى تو پھر رسول خدا (ص) كے اموال ميں فرق نہ كرتے_
جب كہ جناب ابوبكر مدعى تھے كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا ہے كہ ميں ميراث نہيں چھوڑتا ميرا مال صدقہ ہوتا ہے اسى لئے تو پيغمبر(ص) كى بيٹى اور اسلام كى مثالى خاتون كو رنجيدہ خاطر بھى كرديا تو پھر كيوں پيغمبر (ص) كے حجروں كو آپ كى ازواج سے واپس نہ ليا؟ اور پھر كيوں دوسرے مذكورہ اموال كا مطالبہ نہ كيا ؟
ايك اور اشكال
اگر يہ بات درست ہوتى كہ پيغمبر ميراث نہيں چھوڑتے تو ضرورى تھا كہ پيغمبر(ص) اس مسئلے كو حضرت زہراء (ع) اور حضرت على (ع) سے ضرور بيان فرماتے اور فرماتے كہ ميرا مال اور جو كچھ چھوڑ جاؤں يہ عمومى صدقہ ہوگا اور وراثت كے عنوان سے تمہيں نہيں مل سكتا خبردار ميرے بعد ميراث كا مطالبہ نہ كرنا اور اختلاف اور نزاع كا سبب نہ بننا_ كيا رسول خدا(ص) كو علم نہ تھا كہ وراثت كے كلى قانون اور عمومى قاعدے كے ماتحت ميرے وارث ميرے مال كو تقسيم كرنا چاہيں گے اور ان كے درميان اور خليفہ وقت كے درميان نزاع اور جھگڑا رونما ہوجائے گا؟ يا رسول اللہ (ص) كو اس بات كا علم نہ تھا ليكن آپ نے احكام كى تبليغ ميں كوتاہى كى ہوگي؟ ہم تو اس قسم كى بات پيغمبر(ص) كے حق ميں باور نہيں كرسكتے_
بعض نے كہا ہے كہ رسول خدا(ص) پر اپنے ورثاء كو يہ مطلب بيان كرنا ضروري
288
نہ تھا بلكہ صرف اتنا كافى تھا كہ اس مسئلے كو اپنے خليفہ جناب ابوبكر جو مسلمانوں كے امام تھے بتلاديں اور خليفہ پر ضرورى ہے كہ وہ احكام الہى كو نافذ كرے چنانچہ پيغمبر(ص) نے جناب ابوبكر كو يہ مسئلہ بتلاديا تھا ليكن يہ فرمائشے بھى درست معلوم نہيں ہوتى ___ اوّل تو يہ كہ جناب ابوبكر پيغمبر(ص) كے زمانے ميں آپ كے خليفہ معين نہيں ہوئے تھے كہ كہا جاسكے كہ پيغمبر(ص) نے انہيں اس كا حكم اور دستور دے ديا تھا دوسرے ميراث كے مسئلہ كا تعلق پہلے اور بالذات آپ كے ورثاء سے تھا انہيں وراثت ميں اپنا وظيفہ معلوم ہونا چاہيئے تھا تا كہ حق كے خلاف ميراث كا مطالبہ نہ كريں اور امت ميں اختلاف اور جدائي كے اسباب فراہم نہ كريں_
آيا يہ كہا جاسكتا ہے كہ حضرت على (ع) جو مدينہ علم كا دروازہ اور جناب فاطمہ (ع) جو نبوت اور ولايت كے گھر كى تربيت يافتہ تھيں ايك اس قسم كے مہم مسئلے سے كہ جس كا تعلق ان كى ذات سے تھا بے خبر تھيں، ليكن جناب ابوبكر كہ جو بعض اوقات عام اور عادى مسائل كو بھى نہ جانتے تھے اس وراثت كے مسئلے كا حكم جانتے ہوں؟ كيا يہ كہا جاسكتا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) اس مسئلے كا حكم تو جانتى تھيں ليكن اپنى عصمت اور طہارت كے باوجود اپنے والد كے دستور اور حكم كے خلاف جناب ابوبكر سے ميراث كا مطالبہ كر رہى تھيں؟ كيا حضرت على (ع) كے بارے ميں يہ كہا جاسكتا ہے كہ آپ مسئلہ تو جانتے تھے ليكن اس مقام زہد اور تقوى اور عصمت و طہارت كے باوجود اور اس كے باوجود كہ آپ ہميشہ قوانين اسلام كے اجراء ميں بہت زيادہ علاقمندى ظاہر كرتے تھے پھر بھى اپنى بيوى كو پيغمبر(ص) كے بيان كردہ مسئلہ كے خلاف اجازت دے رہے ہيں كہ وہ جائيں اور وراثت كا جناب ابوبكر سے مطالبہ كريں اور پھر مسجد ميں وہ مفصل عوام الناس كے سامنے خطاب كريں؟ ہم گمان نہيں كرتے كہ كوئي بھى با انصاف انسان اس قسم كے مطالب كا يقين كرے گا_
289
ايك اور اشكال
جناب ابوبكر نے مرتے وقت وصيت كى كہ اسے پيغمبر(ص) كے حجرے ميں دفن كيا جائے اور اس بارے ميں اپنى بيٹى جناب عائشےہ سے اجازت لي؟ اگر وہ حديث جو پيغمبر(ص) كى وراثت كى نفى كرتى ہو درست ہو تو پيغمبر(ص) كا يہ حجرہ مسلمانوں كا عمومى مال ہوگا تو پھر جناب ابوبكر كو تمام مسلمانوں سے دفن كى اجازت لينا چاہيئے تھي؟
تنبيہہ
جو اموال پيغمبر خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے تصرف اور قبضے ميں تھے وہ دو قسم كے تھے_
پہلى قسم :
يہ وہ مال تھا كہ جس كا تعلق ملت اسلامى سے ہوتا ہے اور بيت المال كا عمومى مال شمار ہوتا ہے جس كو يوں تعبير كيا جاتا ہے كہ يہ حكومت كا مال ہے رسول خدا(ص) چونكہ مسلمانوں كے حاكم تھے آپ اس قسم كے مال ميں تصرف كيا كرتے تھے اور اسے تمام مسلمانوں كے مصالح اور مفاد كے لئے خرچ كيا كرتے تھے ايسا مال نبوت اور امامت اور حكومت اسلامى كا مال ہوتا ہے ايسے مال ہيں قانون وراثت جارى نہيں ہوتا بلكہ اس منصب دار كى موت كے بعد اس كے جانشين شرعى كى طرف بطور منصب منتقل ہوجاتا ہے_
حضرت زہراء (ع) نے اس قسم كے اموال ميں وراثت كا مطالبہ نہيں كيا تھا اور اگر كبھى آپ نے اس قسم كے مال ميں بطور اشارہ بھى مطالبہ كيا ہو تو وہ اس لئے تھا
290
كہ آپ جناب ابوبكر كى حكوت كو قانونى اور رسمى حكومت تسليم نہيں كرتى تھيں بلكہ اپنے شوہر حضرت على (ع) كو قانونى اور شرعى خليفہ جانتى تھيں تو گويا آپ اس قسم كے مال كا مطالبہ كر كے اپنے شوہر كى خلافت كا دفاع كرتى تھيں اور جناب ابوبكر كى حديث كو اگر بالفرض تسليم بھى كرليں تو وہ بھى اس قسم كے مال كى وراثت كى نفى كر رہى ہے نہ پيغمبر(ص) كے ہر قسم كے مال كو شامل ہے_
دوسرى قسم:
وہ مال تھا جو آپ كا شخصى اور ذاتى مال تھا كيونكہ پيغمبر اسلام(ص) بھى تو انسانوں كے افراد ميں سے ايك فرد تھے كہ جنہيں مالكيت كا حق تھا آپ بھى كسب اور تجارت اور دوسرے جائز ذرائع سے مال كمانے تھے ايسا مال آپ كى شخصى ملكيت ہوجاتا تھا، ايسے مال پر ملكيت كے تمام قوانين اور احكام يہاں تك كہ وراثت كے قوانين بھى مرتب ہوتے ہيں اور ہونے چاہئيں آپ بلاشك اور ترديد اس قسم كے اموال ركھتے تھے اور آپ كو بھى غنيمت ميں سے حصہ ملتا تھا اس قسم كے مال ميں رسول خدا(ص) اور دوسرے مسلمان برابر اور مساوى ہيں اس پر اسلام كے تمام احكام يہاں تك كہ وراثت كے احكام بھى دوسرے مسلمانوں كى طرح مرتب ہوتے ہيں_ جناب زہراء (ع) نے ايسے اموال كى وراثت كا جناب ابوبكر سے مطالبہ كيا تھا_
ابن ابى الحديد لكھتے ہيں كہ جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا نے كسى كو جناب ابوبكر كے پاس بھيجا اور پيغام ديا كہ تم رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے وارث ہو يا ان كے اہلبيت؟ جناب ابوبكر نے جواب ديا كہ ان كے اہلبيت_ جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا نے فرمايا پس رسول خدا(ص)
291
كا حصہ كہاں گيا (1)_
اس قسم كے مال ميں جناب رسول خدا(ص) كو جناب ابوبكر كے ساتھ كوئي فرق نہ تھا، جناب ابوبكر باوجوديكہ اپنے آپ كو رسول خدا(ص) كا خليفہ جانتے تھے وہ بھى اپنے شخصى اموال ميں تصرف كيا كرتے تھے اور اسے اپنے بعد اپنے وارثوںكى ملك جانتے تھے پس ابوبكر پر ضرورى تھا كہ رسول خدا (ص) كے شخصى مال كو بھى آپ كے وارثوں كى ملك جانتے؟ اسى لئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا تھا كہ تيرى بيٹياں تو تم سے وراثت ليں ليكن رسول خدا(ص) كى بيٹى اپنے باپ سے وراثت نہ لے؟ جناب ابوبكر نے بھى جواب ديا كہ ہاں ايسا ہى ہے يعنى ان كى بيٹى اپنے باپ سے وراثت نہ لے (2)_
ختم شد
الحمدللہ على اتمامہ و صلى اللہ على محمد و آلہ
-----------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 219_
2) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 219_
|