فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
  234
حضرت على (ع) جناب زہراء (ع) كى قبر پر
جناب زہراء (ع) كے دفن كو مخفى اور بہت سرعت سے انجام ديا گيا تا كہ دشمنوں كو اطلاع نہ ہو اور وہ _ آپ كے دفن ميں مانع نہ ہوں ليكن جب حضرت على (ع) جناب زہراء (ع) كے دفن سے فارغ ہوئے آپ پر بہت زيادہ غم و اندوہ نے غلبہ كيا آپ نے فرمايا اے خدا كس طرح ميں نے پيغمبر (ص) كى نشانى كو زمين ميں دفن كيا ہے، كتنى مہربان بيوي، باصفا، پاكدامن اور فداكار كو اپنے ہاتھ سے دے بيٹھا ہوں خدايا اس نے ميرا دفاع كرنے ميں كتنے مصائب برداشت كئے ہيں كتنى ميرے گھر ميں زحمت اٹھائي ہے_ آہ زہراء (ع) كا اندرونى درد افسوس ان كے ٹوٹے ہوئے پہلو پر اور ان كے ورم كئے ہوئے بازو پر ان كے ساقط شدہ بچے پر، اے ميرے خدا ميرى اميد تھى كہ آخرى زندگى تك اس مہربان بيوى كے ساتھ گزاروں گا ليكن افسوس اور صد افسوس كو موت نے ہمارے درميان جدائي ڈال دى ہے_ آہ ميں زہراء (ع) كے يتيم چھوٹے بچوں كا كيا كروں؟
رات كے اندھيرے ميں آپ جناب رسول خدا (ص) كى قبر كى طرف متوجہ ہوئے اور عرض كى سلام ہو آپ پر اے رسول خدا (ص) ميرى طرف سے اور آپ كى پيارى دختر كى طرف سے جو ابھى آپ كى خدمت ميں پہنچنے والى ہے اور آپ كے جوار ميں دفن ہوئي ہے اور سب سے پہلے آپ سے جاملى ہے، يا رسول اللہ ميرا صبر ختم ہوگيا ہے ليكن اس كے سوا چارہ بھى نہيں ہے، جيسے آپ كى مصيبت پر صبر كيا ہے زہراء كے فراق پر بھى صبر كروں گا

235
يا رسول اللہ (ص) آپ كى روح ميرے دامن ميں قبض كى گئي ميں آپ كى آنكھوں كو بند كرتا تھا ميں تھا كہ جس نے آپ كے جسم مبارك كو قبر ميں التارا ہاں صبر كروں گا اور پڑھوں گا انا للہ و انا اليہ راجعون، يا رسول اللہ وہ امانت جو آپ نے ميرے سپرد كى تھى اب آپ (ص) كے پاس لوٹ گئي ہے_ زہراء (ع) ميرے ہاتھ سے چھينى گئي ہے، آسمان اور زمين كى رونق ختم ہوگئي ہے، يا رسول اللہ (ص) ميرے غم كى كوئي انتہا نہيں رہى ميرى آنكھوں سے نيند اڑ گئي ہے ميرا غم و اندوہ ختم نہ ہوگا مگر جب كہ ميں مروں گا اور آپ (ص) كے پاس پہنچوں گا يہ ايسے غم اور مصائب ہيں جو دل كے زخموں سے پيدا ہوئے ہيں، ہمارى باصفا گھريلو زندگى كتنى جلدى لٹ گئي ہيں اپنے دل كے درد كو خدا سے بيان كرتا ہوں_
يا رسول اللہ (ص) آپ كى دختر آپ كو خبر دے گى كہ آپ كى امت نے اتفاق كر كے خلافت كو مجھ سے چھيں ليا اور زہراء (ع) كے حق پر قبضہ كرليا_ يا رسول اللہ (ص) حالات اور اوضاع كو اصرار سے جناب فاطمہ (ع) سے پوچھنا كيوں كہ ان كے دل ميں بہت زيادہ درد موجود ہے جو يہاں ظاہر يہ كرسكيں ليكن آپ سے وہ بيان كريں گي، تا كہ خدا ہمارے اور ان لوگوں كے درميان قضاوت كرے_ يا رسول اللہ(ص) آپ كو وداع كرتا ہوں اس لئے نہيں كہ آپ (ص) كى قبر پر بيٹھنے سے تھك گيا ہوں اور آپ سے رخصت ہوتا ہوں، اس لئے نہيں كہ يہاں ملول خاطر ہوگيا ہوں اور اگر آپ (ص) كى قبر پر بيٹھا رہوں تو اس لئے نہيں كہ اللہ تعالى كے اس وعدے پر ''جو صبر كرنے والوں كو ديا گيا ہے'' يقين نہيں ركھتا پھر بھى صبر كرنا تمام چيزوں سے بہتر ہے_

236
يا رسول اللہ (ص) اگر دشمنوں كى شماتت كا خوف نہ ہوتا تو آپ (ص) كى قبر پر بيٹھا رہتا اور اس مصيبت عظمى پر روتا رہتا، يا رسول اللہ (ص) ہمارے حالات ايسے تھے كہ ہم مجبور تھے كہ آپ كى بيٹى كو مخفى طور سے رات كى تاريكى ميں دفن كريں_ اس كا حق لے ليا گيا اور اسے ميراث سے محروم ركھا گيا، يا رسول اللہ (ص) ميں اپنے اندرونى درد كو خدا كے سامنے پيش كرتا ہوں اور اس دردناك مصيبت پر آپ (ص) كو تسليت پيش كرتا ہوں آپ(ص) پر اور اپنى مہربانى بيوى پر ميرا درد رہو (1)_
حضرت على (ع) نے دشمنوں كے خوف سے جناب زہراء (ع) كى قبر مبارك كو ہموار كرديا اور سات يا چاليس تازہ قبريں مختلف جگہ پر بناديں تا كہ حقيقى قبر نہ پہچانى جاسكے (2)_
اس كے بعد آپ اپنے گھر واپس لوٹ آئے، جناب ابوبكر اور عمر اور دوسرے مسلمان دوسرى صبح كو تشيع جنازہ كے لئے حضرت على (ع) كے گھر كى طرف روانہ ہوئے، ليكن مقداد نے اطلاع دى كہ جناب فاطمہ (ع) كو كل رات دفن كرديا گيا ہے جناب عمر نے جناب ابوبكر سے كہا ہيں نے نہيں كہا تھا كہ وہ ايسا ہى كريں گے؟ جناب عباس نے اس وقت كہا كہ خود جناب فاطمہ (ع) نے وصيت كى تھى كہ مجھے رات كو دفن كرديا جائے اور ہم نے آپ(ع) كى وصيت كے مطابق عمل كيا ہے_ جناب عمر نے كہا، كہ بنى ہاشم كى دشمنى اور حسد ختم ہونے والا نہيں ميں فاطمہ (ع) كى قبر كو كھودونگا
-----------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 192_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 183_

237
اور اس پر نماز پڑھوں گا_
حضرت على (ع) نے فرمايا اے عمر خدا كى قسم اگر تم ايسا كروگے تو ميں تيرا خون تلوار سے بہادوں گا ہرگز اجازت نہيں دوں گا كہ فاطمہ (ع) كے جنازے كو قبر سے باہر نكالاجائے_ جناب عمر نے حالت كو خطرناك پھانپ ليا اور اپنے اس ارادے سے منحرف ہوگئے (1)_

وفات كى تاريخ
بظاہر اس امر ميں شك كى گنجائشے نہيں كہ جناب زہراء (ع) كى وفات گيا رہ ہجرى كو ہوئي ہے كيونكہ پيغمبر (ص) دس ہجرى كو حجة الوداع كے سفر پر تشريف لے گئے اور گيارہويں ہجرى كے ابتدا ميں آپ نے وفات پائي مورخين كا اس پر اتفاق ہے كہ جناب فاطمہ (ع) آپ ے بعد ايك سال سے كم زندہ رہيں، ليكن آپ كى وفات كے دن اور مہينے ميں بہت زيادہ اختلاف ہے_
دلائل الامامہ كے مولّف اور كفعى نے مصباح يں اور سيّد نے اقبال ميں اور محدّث قمى نے منتہى الامال ميں آپ نے وفات پائي مورخين كا اس پر اتفاق ہے كہ جناب فاطمہ (ع) آپ كے بعد ايك سال سے كم زندہ رہيں، ليكن آپ كى وفات كے دن اور مہينے ميں بہت زيادہ اختلاف ہے_
لائل الامامہ كے مولّف اور كفعى نے مصباح ميں اور سيّد نے اقبال ميں اور محدّث قمى نے منتہى الامال ميں آپ كى وفات تيسرى جمادى الثانى كو بتلائي ہے_
ابن شہر آشوب نے مناقب ميں آپ كى وفات تيرہ ربيع الثانى كو بتلائي ہے_
ابن شہر آشوب نے مناقب ميں آپ كى وفات تيرہ ربيع الثانى ميں بتائي ہے_
ابن جوزى نے تذكرة الخواص ميں اور طبرى نے اپنى تاريخ ميں
----------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 199_
238
فرمايا ہے كہ جناب زہراء (ع) نے تيسرے رمضان المبارك كو وفات پائي مجلسى نے بحار الانوار ميں بھى يہ محمد بن عمر سے نقل كيا ہے_
مجلسى نے ___ بحار الانوار ميںمحمد بن ميثم سے نقل كيا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) كى وفات بيس جمادى الثانى كو ہوئي_
محمد تقى سپہر نے ناسخ التواريخ ميں ستائيس جمادى الاوّل كو آپ كى وفات بتلائي ہے_
يہ اتنا بڑا اختلاف اس لئے پيدا ہوا ہے كہ اس ميں اختلاف ہے كہ حضرت زہرا (ع) باپ كے بعد كتنے دن زندہ رہيں_
75/ دن: كلينى نے كافى ہيں اور دلائل الامامہ كے مولّف نے لكھا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) پيغمبر (ص) كے بعد پچہتر دن زندہ رہى ہيں_ سيد مرتضى نے عيون المعجزات ميں اسى قول كو اختيار كيا ہے اس قول كى دليل وہ روايت ہے جو امام جعفر صادق عليہ السلام سے اس بارے ميں وارد ہوئي ہے امام جعفر صادق (ع) نے فرمايا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) ، پيغمبر (ص) كے بعد پچہتر دن زندہ رہيں_
72/دن : ابن شہر آشوب نے مناقب ميں لكھا ہے كہ فاطمہ (ع) باپ كے بعد بہتر دن زندہ رہيں_
3 مہينے: ابوالفرج نے مقاتل الطالبين ميں لكھا ہے كہ جناب زہرا (ع) كى زندگى ميں پيغمبر (ص) كے بعد اختلاف ہے، ليكن آٹھ مہينہ سے زيادہ اور چاليس دن سے كمتر نہ تھي، ليكن صحيح قول وہى ہے كہ جو جعفر صادق عليہ السلام
--------
1) اصول كافي، ج 1 ص 241_
239
سے روايت ہوا ہے كہ آپ نے فرمايا ہے كہ حضرت زہرا ء (ع) رسول خدا (ص) كے بعد تين مہينے زندہ رہيں (1)_ اس قول كو صاحب كشف الغمہ نے دولابى سے اور ابن جوزى نے عمر ابن دينار سے بھى نقل كيا ہے_
40 دن: مجلسى نے بحار الانوار ميں جناب فضّہ سے جو جناب زہراء (ع) كى كنيز تھيں اور كتاب روضة الواعظين ميں ابن عباس سے روايت كى ہے كہ انہوں نے كہا ہے كہ حضرت زہرا (ع) باپ كے بعد چاليس دن زندہ رہى ہيں شہر ابن آشوب نے مناقب ميں اسى قول كو قربانى سے نقل كيا ہے_
6 مہينے: مجلسى نے بحار الانوار ميں امام محمد باقر (ع) سے روايت كى ہے كہ حضرت زہراء (ع) باپ كے بعد چھ مہينے زندہ رہيں، كشف الغمہ ميں اسى قول كو ابى شہاب اور زہرى اور عائشےہ اور عروہ بن زبير سے نقل كيا ہے_ ابن جوزى نے تذكرة الخواص ميں ايك قول چھ مہينے سے دس دن كم كا نقل كيا ہے_
4 مہينے: ابن شہر آشوب نے مناقب ميں چہار مہينے كا قول نقل كيا ہے_
95 دن: امام محمد باقر (ع) سے روايت كى گئي ہے كہ آپ زندہ فرمايا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) باپ كے بعد پنچانوے دن زندہ رہيں_
70 دن: ابن جوزى نے تذكرة الخواص ميں امام جعفر صادق (ع) سے روايت كى ہے كہ آپ نے فرمايا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) باپ كے بعد ستّر دن زندہ رہيں_
2 مہينے، 8 مہينے اور 100 دن: مجلسى نے بحار الانوار ميں دو مہينے اور آٹھ مہينے اور سو دن كا قول بھى نقل كيا ہے_
---------
1) مقاتل الطالبين، ص 31
240
پيغمبر (ص) كى وفات كى تاريخ ميں بھى اختلاف ہے شيعہ علماء كے درميان مشہور يہ ہے كہ آپ كى وفات اٹھائيس صفر كو ہوئي ليكن اہل سنت كے اكثر علماء نے آپ كى وفات كو بارہ ربيع الاوّل كہى ہے اور دوسرى ربيع الاوّل بھى گہى گئي ہے_
حضرت زہراء (ع) كا والد كى وفات كے بعد زندہ رہنے ميں تيرہ قول ہيں اور جب ان كو جناب رسول خدا (ص) كى وفات كے اقوال كے ساتھ ملاكر ديكھا جائے تو پھر جناب فاطمہ (ع) كى وفات ميں دن اور مہينے كے لحاظ سے بہت كافى احتمال ہوجائيں گے يعنى تيرہ كو جب تين سے ضرب ديں گے تو حاصل ضرب انتاليس اقوال ہوجائيں گے، ليكن محققين پر يہ امر پوشيدہ نہيں كہ اس معالے ميں آئمہ عليہم السلام كے اقوال اور آراء ہى دوسرے اقوال پر مقدم ہوں گے كيوں كہ حضرت زہراء (ع) كى اولاد دوسروں كى نسبت اپنى ماں كى وفات سے بہتر طور باخبر تھي_ ليكن جيسا كہ آپ نے ملاحظہ كيا ہے خود آئمہ عليہم السلام كى روايات اس باب ميں مختلف وارد ہوئي ہيں اس لئے كہ روايات ميں پچہتر دن اور پنچانوے دن اور ستر دن اور تين مہينے اور چھ مہينے بھى وارد ہوئے ہيں_
اگر پيغمبر (ص) كى وفات كو اٹھائيس صفر تسليم كرليں اور پھر پچہتر دن كى روايت كا لحاظ كريں تو آپ (ع) كى وفات اس لحاظ سے 13/ اور 15/ جمادى الاوّل كو ہى محتمل ہوگى اور اگر پنچانوے دن كى روايت كا لحاظ كريں تو پھر تيسرى يا پانچويں جمادى الثانى كو آنحضرت كى وفات ممكن ہوگي_
اسى طرح آپ خود حساب كرسكتے ہيں اور جو احتمال بن سكتے ہيں انہيں معلوم كرسكتے ہيں_
جناب زہراء (ع) كى عمر كے بارے ميں بھى 18، 28، 29، 30، 35 سال

241
جيسے اختلافات موجود ہيں اور چونكہ پہلے ہم اس كى طرف اشارہ كرچكے ہيں لہذا يہاں دوبارہ تكرار كرنے كى ضرورت باقى نہيں رہيتي_

جناب فاطمہ (ع) كى قبر مبارك
ہم نے پہلے ذكر كيا ہے كہ خود جناب فاطمہ (ع) نے ارادہ كيا تھا كہ آپ كى قبر مخفى رہے اسى لئے حضرت على (ع) نے آپ (ص) كو رات كى تاريكى ميں دفن كيا اور آپ كى قبر كو زمين سے ہموار كرديا اور چاليس تازہ قبروں كى صورت بنادى تا كہ دشمن اشتباہ ميں رہيں اور آپ كى حقيقى قبر كى جگہ معلوم نہ كرسكيں گرچہ خود حضرت على (ع) اور ان كى اولاد اور خاص اصحاب اور رشتہ دار آپ كى قبر كى جگہ جانتے تھے_ ليكن انہيں جناب زہراء (ع) كى شفارش تھى كہ قبر كو مخفى ركھيں لہذا ان ميں سے كوئي بھى حاضر نہ ہوتا تھا كہ آپ (ع) كى قبر كى نشاندہى كرتا يہاں تك كہ ايسے قرائن اور آثار بھى نہيں چھوڑے گئے كہ جس سے آپ كى قبر معلوم كى جاسكے_ آئمہ طاہرين يقينى طور سے آپ كى قبر سے آگاہ تھے ليكن انہيں بھى اس كى اجازت نہ تھى كہ وہ اس راز الہى كو فاش اور ظاہر كريں ليكن اس كے باوجود اہل تحقيق نے اس كى جستجو ميں كمى نہيں كى اور ہميشہ اس ميں بحث و گفتگو كرتے رہے لہذا بعض قرائن اور امارات سے آپ كے دفن كى جگہ كو انہوں نے بتلايا ہے_
1_ بعض علماء نے كہا ہے كہ آپ جناب پيغمبر (ص) كے روضہ ميں ہى دفن ہيں_ مجلسى نے محمد بن ہمام سے نقل كيا ہے كہ وہ كہتے ہيں كہ حضرت على (ع) نے جناب فاطمہ (ع) كو رسول (ص) كے روضہ ميں دفن كيا ہے ليكن قبر كے آثار كو بالكل

242
مٹاديا_ نيز مجلسى نے جناب فضہ سے نقل كيا ہے كہ آپ نے كہا كہ جناب فاطمہ (ع) كى نماز جنازہ روضہ رسول ميں پڑھى گئي اور آپ كو رسول (ص) كے روضہ ميں ہى دفن كرديا گيا_
شيخ طوسى نے فرمايا ہے كہ بظاہر جناب فاطمہ (ع) كو جناب رسول خدا (ص) كے روضہ ميں ى اپنے گھر ميں دفن كيا گيا ہے اس احتمال كے لئے مزيد دليل جولائي جاسكتى ہے وہ وہ روايت ہے كہ جو رسول خدا (ص) سے نقل كى گئي ہے كہ آپ نے فرمايا كہ ميرى قبر اور ميرے منبر كے درميان جنت كے باغوں ميں سے ايك باغ ہے (1)_
دوسرى دليل يہ ہے كہ لكھا ہے كہ حضرت على (ع) نے روضہ پيغمبر پر فاطمہ (ع) كى نماز پڑھى اور اس كے بعد پيغمبر كو مخاطب كيا اور فرمايا ميرا اور آپ كى دختر كا آپ پر سلام ہو جو آپ كے جوار ميں دفن ہے_
2_ مجلسى نے ابن بابويہ سے نقل كيا ہے كہ انہوں نے فرمايا كہ ميرے نزديك يہ بات صحيح ہے كہ جناب فاطمہ (ع) كو اپنے گھر ميں دفن كيا تھا اور جب بنى اميہ نے مسجد نبوى كى توسيع كى تو جناب فاطمہ (ع) كى قبر مسجد ميں آگئي_ مجلسى نے محمد ابن ابى نصر سے نقل كيا ہے كہ انہوں نے كہا كہ ميں نے جناب ابوالحسن (ع) سے پوچھا كہ جناب فاطمہ (ع) كى قبر كہاں ہے تو آپ نے فرمايا كہ اپنے گھر ميں مدفون ہيں اور بعد ميں مسجد ميں آگئي ہيں جب مسجد كى توسيع كى گئي _
3_ صاحب كشف الغمہ لكھتے ہيں كہ مشہور يہى ہے كہ جناب فاطمہ (ع) كو بقيع ميں دفن كيا گيا_ سيد مرتضى نے بھى عيون المعجزات ميں يہى قول اختيار كيا ہے
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 185_
243
ابن جوزى لكھتے ہيں كہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) بقيع ميں مدفون ہيں يہ مطلب شايد اس لئے سمجھا گيا ہو كہ حضرت على (ع) نے چاليس تازہ قبريں بقيع ميں بنائي تھيں اور جب بعض نے ان قبروں ميں جناب فاطمہ (ع) كے جنازے كو نكالنے كا ارادہ كيا تو حضرت على (ع) خشمناك اور غصّے ميں آگئے تھے اور انہيں قتل كرنے كى دھمكى بھى دے دى تھى پس معلوم ہوتا ہے كہ ان قبروں ميں سے ايك قبر جناب زہراء (ع) كى تھي_
4_ ابن جوزى لكھتے ہيں كہ بعض نے لكھا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) كو عقيل كے گھر كے قريب دفن كيا گيا تھا آپ كى قبر سے راستے تك سات ذرع كا فاصلہ ہے_ عبداللہ بن جعفر نے كہا ہے كہ اس ميں كوئي شك نہيں كہ جناب فاطمہ (ع) كى قبر عقيل كے گھر كے قريب واقع ہے_ ان چار احتمالات ميں سے پہلا اور دوسرا احتمال ترجيح ركھتا ہے_