فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
 

215
حصہ ششم

جناب فاطمہ موت كے نزديك

216
جناب فاطمہ (ع) باپ كى وفات كے بعد چند مہينے سے زيادہ زندہ نہيں رہيں، اور اسى طرح تھوڑى مدت ميں بھى اتنا روئيں كہ آپ كو زيادہ رونے والوں ميں سے ايك قرار ديا گيا آپ كو كبھى ہنستے نہيں ديكھا گيا (1)_
جناب زہرا (ع) كے رونے كے مختلف عوامل اور سبب تھے سب سے زيادہ اہم سبب كہ جو آپ كى غيور اور احساس روح كو ناراحت كرتا تھا وہ يہ تھا كہ آپ ديكھ رہى تھيں كہ اسلام كى جوان ملت اپنے حقيقى اور صحيح راستے سے ہٹ گئي ہے اور ايك ايسے راستے پر گامزن ہوگئي ہے كہ بدبختى اور تفرقے اس كا حتمى انجام ہے_
چونكہ حضرت زہرا (ع) نے اسلام كى ترقي، سريع اور پيشرفت كو ديكھا تھا آپ كو توقع تھى كہ اسى طرح اسلام ترقى كرے گا اور تھوڑى سى مدت ميں كفر اور بت پرستى كو ختم كركے ركھ دے گا اور ستم كا قلع قمع كردے گا، ليكن خلافت كے اصلى محور سے ہٹنے كى غير متوقع صورت حال نے آپ كى اميدوں كے محل كو يكدم گراديا_
-------
1) طبقات ابن سعد، ج 2 ص 85_
217
ايك دن جناب ام سلمہ جناب فاطمہ (ع) كے پاس آئيں اور عرض كى اے پيغمبر(ص) كى دختر آج رات صبح تك كيئے گزري؟ آپ نے فرمايا كہ غم و اندوہ ميں كٹي_ بابا مجھ سے جدا ہوگئے اور شوہر كى خلافت لے لى گئي اللہ اور رسول (ص) كے دستور كے خلاف امامت اور خلافت كو على سے چھپناگيا كيوں كہ لوگوں كو على (ع) سے كينہ تھا چوں كہ وہ ان لوگوں كے آباء و اجداد كو بدر كى جنگ ميں قتل كرچكے تھے (1)_
حضرت على (ع) فرماتے ہيں كہ جناب فاطمہ (ع) نے ايك دن اپنے باپ كى قميص مجھ سے طلب كى جب ميں نے ان كى قميص انہيں دى تو اسے ا؟ نے سونگھا اور رونا شروع كرديا اور اتنا روئيں كہ آپ بيہوش ہوگئيں ميں نے جب يہ حالت ديكھى تو ميں نے آپ كى قميص ان سے چھپادى (2)_
روايت ميں ہے كہ جب پيغمبر(ص) وفات پاگئے تو بلال نے جو آپ كے مخصوص موذن تھے اذان دينى بند كردى تھى ايك دن جناب فاطمہ (ع) نے انہيں پيغام بھيجا كہ ميرى خواہش ہے كہ ميں ايك دفعہ اپنے باپ كے موذن كى اذان سنو_ بلال نے جناب فاطمہ (ع) كے حكم پر اذان دينى شروع كى اور اللہ اكبر كہا، جناب فاطمہ (ع) كو اپنے باپ كے زمانے كى يا آگئي اور رونے پر قابو نہ پاسكيں اور جب بلال نے اشہد ان محمداً رسول اللہ كہا تو جناب فاطمہ (ع) نے باپ كے نام سننے پر ايك چيخ مارى اور غش كرگئيں_ بلال كو خبر دى گئي كہ آذان دينا بند كردو كيونكہ فاطمہ (ع) بيہوش ہوگئيں ہيں_ بلال نے آذان روك دى جب جناب فاطمہ (ع) كو ہوش آيا تو بلال سے كہا كہ اذان كو پورا كرو انہوں نے عرض كى كہ آپ اگر اجازت ديں
----------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 156_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 175_

218
تو باقى اذان نہ كہوں كيوں كہ مجھے آپ كے بے ہوش ہونے كا خوف ہے (1) _
جناب فاطمہ (ع) اتنا روئيں كہ آپ كے رونے سے ہمسائے تنگ آگئے وہ حضرت على (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض كى كہ ہمارا سلام جناب فاطمہ (ع) كو پہنچاديں اور ان سے كہيں كہ يا رات كو روئيں اور دن كو آرام كريں يا دن كو روئيں اور رات كو آرام كريں كيونكہ آپ كے رونے ہمارا آرام ختم كرديا ہے جناب فاطمہ (ع) نے ان كے جواب ميں فرمايا كہ ميرى عمر ختم ہونے كو ہے ميں زيادہ دنوں تك تم ميں موجود نہ رہوں گي_ آپ دن ميں امام حسن (ع) اور حسين (ع) كا ہاتھ پكڑتيں اور جناب رسول خدا (ص) كى قبر پر چلى جاتيں اور وہاں رويا كرتيں اور اپنے بيٹوں سے كہتيں ميرے پيارو يہ تہارے نانا كى قبر ہے كہ جو تمہيں كندھے پر اٹھايا كرتے تھے اور تمہيں دوست ركھتے تھے اس كے بعد آپ بقيع كے قبرستان ميں شہداء كى قبر پر جاتيں اور صدر اسلام كے سپاہيوں پر گريہ كرتيں حضرت على (ع) نے آپ كے آرام كے لئے بقيع ميں سائبان بناديا تھا كہ جسے بعد ميں بيت الحزن كے نام سے پكارا جانے لگا (2)_
انس كہتا ہے كہ جب ہم پيغمبر (ص) كے دفن سے فارغ ہوچكے اور گھر واپس لوٹ آئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا اے انس كس طرح راضى ہوئے كہ پيغمبر(ص) كے بدن پر مٹى ڈالو (3)_
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 157_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 177_
3) اسد الغابة ابن اثير، ج 5 ص 524_ طبقات ابن سعد ج 2 رقم 2 ص 83_

219
محمود بن بسيد كہتے ہيں كہ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد كى وفات كے بعد جناب حمزہ كى قبر پر گريہ كرتى تھيں ايك دن ميرا گزر احد كے شہدا سے ہوا تو ميں نے فاطمہ (ع) كو ديكھا كہ جناب حمزہ كى قبر پر بہت سخت گريہ كر رہى ہيں ميں نے صبر كيا يہاں تك كہ آپ نے توقف كيا، ميں سامنے گيا اور سلام كيا اور عرض كى اے ميرى سردار آپ نے اپنے اس جانگداز گريہ سے ميرا دل ٹكڑے ٹكڑے كرديا ہے آپ نے فرمايا كہ مجھے حق پہنچتا ہے كہ اس طرح كا گريہ كروں كيونكہ ميں نے كيسا مہربان باپ اور پيغمبروں ميں بہترين پيغمبر اپنے ہاتھ سے كھوديا ہے، كتنا آپ كى زيارت كا مجھ ميں شوق موجود ہے_ ميں نے عرض كى اے ميرى سردار ميں دوست ركھتا ہوں كہ آپ سے ايك مسئلہ پوچھوں آپ نے فرمايا كہ پوچھو_ ميں نے عرض كيا رسول خدا(ص) نے اپنى زندگى ميں حضرت على (ع) كى امامت كى تصريح كردى تھى آپ نے فرمايا تعجب ہے_ كيا تم نے غدير كا واقعہ بھلاديا ہے؟ ميں نے عرض كى كہ غدير كا واقعہ تو ميں جانتا ہوں ليكن ميں چاہتا ہوں يہ معلوم كروں كہ جناب رسول خدا(ص) نے اس بارے ميں آپ سے كيا فرمايا ہے_ آپ نے فرمايا خدا گواہ ہے كہ رسول خدا(ص) نے مجھ سے فرمايا تھا كہ ميرے بعد على (ع) ميرا خليفہ اور امام ہے اگر اس كى اطلاعت كى تو ہدايت پاؤگے اور اگر اس كى مخالفت كى تو قيامت كے دن تك تم ميں اختلاف موجود رہے گا (1)_
--------
1) رياحين الشريعہ، ج 1 ص 250_
220
فاطمہ (ع) بيمارى كے بستر پر جناب امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ جب قنفذ كى ان ضربات سے جو اس نے جناب فاطمہ (ع) كے نازنين جسم پر لگائي تھيں آپ كے بچے كا اسقاط ہوگيا اور اسى وجہ _ سے آپ ہميشہ بيمار اور ضعيف رہيں يہاں تك كہ آپ بالكل بستر سے لگ گئيں (1)_
حضرت على (ع) اور جناب اسماء بنت عميس آپ كى تيماردارى كيا كرتے تھے (2)_
ايك دن انصار اور مہاجرين كى عورتوں كى ايك جماعت آپ كى مزاج پرسى كے لئے حاضر ہوئي اور عرض كى اے رسول خدا(ص) كى دختر آپ كى حالت كيسى ہے؟ آپ نے فرمايا قسم خدا كى ميں دنيا سے كوئي علاقہ نہيں ركھتى تمہارے مردوں سے جب ان كا امتحان كرچكى ہوں تو دلگير ہوں اور انہيں دور پھينك ديا ہے اور ان كے ہاتھ سے ملول خاطر ہوں_ ان كى متزلزل رائے اور سست عقيدہ اور ان كى بے حالى پر اف ہو_ كتنا برا انہوں نے كام انجام ديا ہے اور غضب الہى كے مستحق بنے ہيں؟ دوزخ كى آگ ميں ہميشہ رہيں_ ہم نے خلافت اور امامت كو ان كے ہاتھ ميں چھوڑ ديا ہے_ ليكن اس كا عار اور ننگ ان كے دامن پر ہميشہ رہے گا، ظلم كرنے والوں پر ذلت اور خوارى ہوا كرتى ہے ان كى حالت پر افسوس اور روائے ہو_ كس طرح انہوں نے حضرت على (ع) سے خلافت كو چھينا ہے خدا كى قسم ان كا على (ع) سے دور ہٹنا اس كے
---------
1) دلائل امامہ ص 45_ بحار الانوار، ج 43 ص 70 1_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 211_

221
علاوہ اور كچھ نہ تھا كہ حضرت على (ع) كى كاٹنے والى تلوار اور بہادرى اور خدا كى راہ ميں سخت حملے كرنے سے خوش نہ تھے_
خدا كى قسم اگر خلافت على (ع) كے ہاتھ سے نہ لى ہوتى اور على (ع) ان كى حكومت كى زمام اپنے ہاتھ ميں لے ليتے تو وہ بہت آسانى سے انہيں خوش بختى اور سعادت كى طرف ہدايت كرتے اور بہت جلد رياست طلب كا متقى اور سچے كا جھوٹے سے امتياز ہوجاتا بہت جلد ظالم اپنے اعمال كى سزا پاليتا، ان لوگوں كا كام بہت زيادہ تعجب آور ہے، ايسا كيوں كيا انہوں نے؟ كس دليل پر انہوں نے اعتماد اور تكيہ كيا ہے؟ كون سى رسى سے تمسك كيا ہے؟ اور كس خاندان كے خلاف انہوں نے اقدام كيا ہے؟ على (ع) كى جگہ كس كا انتخاب كيا ہے؟ خدا كى قسم على (ع) كى جگہ اتنى لياقت والے كو نہيں لائے؟ گمان كرتے ہيں كہ انہوں نے اچھا كام كيا ہے، حالانكہ انہوں نے غير معقول كام انجام ديا ہے_ وہ خود بھى نہيں جانتے كہ انہوں نے اصلاح كى جگہ فساد اور فتنے كو ايجاد كيا ہے_ آيا وہ شخص جو لوگوں كو ہدايت كى طرف لے جائے رہبرى كے لئے بہتر ہے يا وہ شخص جو ابھى ہدايت پانے كا دوسروں كى طرف محتاج ہو تم كس طرح فيصلہ ديتى ہو؟ خدا كى قسم ان كے كردار اور آئندہ آنے والے حالات كا نتيجہ بعد ميں ظاہر ہوگا ليكن تمہيں معلومم ہونا چاہيئے كہ سوائے تازہ خون اور قتل كرنے والے زہر كے اور كوئي نتيجہ نہيں نكلے گا_
اس وقت ظلم كرنے والوں كا نقصان ميں ہونا ظاہر ہوجائے گا_ اب تم ناگوار واقعات كے لئے تيار ہوجاؤ اور كاٹنے والى تلواروں اور دائمى گڑبڑ اور ڈكٹيٹر شپ كا انتظار كرو_ تمہارے بيت المال كو لوٹيں گے اور تمہارے منافع كو اپنى جيب ميں ڈاليں گے تمہارى حالت پر افسوس_ اس

222
طرح كيوں ہوگئے ہو؟ تمہيں علم نہيں كہ كس خطرناك راستے پر چل پڑے ہو؟ نتائج سے نا واقف ہو؟ كيا ہم تم كو ہدايت پر مجبور كرسكتے ہيں جب كہ تم ہدايت كى طرف جانے كو پسند نہيں كرتے (1)_

زيادہ غم و اندوہ
جناب زہراء (ع) كى بيمارى اور كمزورى كى وجہ صرف سابقہ بيمارى ہى نہ تھى بلكہ غم اور افكار اور زيادہ پريشانياں بھى آپ پر بہت زيادہ روحانى فشار كا موجب بنى ہوئي تھيں جب بھى آپ اپنے چھوٹے سے كمرے ميں چمڑے كے فرش پر گھاس سے پر كئے ہوئے سرہانہ پر تكيہ كر كے سو رہى ہوتى تھيں تو آپ پر مختلف قسم كے افكار ہجوم كرتے_ آہ كس طرح لوگوں نے ميرے باپ كى وصيت پر عمل نہيں كيا اور ميرے شوہر سے خلافت كو لے ليا؟ خلافت كے لے لينے كے آثار اور خطرناك نتائح قيامت تك باقى رہيں گے_ جو خلافت ملت پر زبردستى اور حيلہ بازى سے مسلط كى جائے اس كا انجام اچھا نہيں ہوتا_ مسلمانوں كى ترقى اور پيشرفت كى علت ان كا اتحاد اور اتفاق تھا وہ كتنا بڑا سرمايہ اور طاقت ان سے چھن گيا ہے؟ ان ميں اندرونى اختلاف پيدا كرديئے گئے ہيں_ اسلام كے اقتدار كى تنہا جو طاقت تھى وہ پراگندگى اور اختلاف ميں تبديل كردى گئي ہے_ اسلام كو انہوں نے كمزورى اور پراگندگى اور ذلت
---------
1) احتجاج طبرسي، ج 1 ص 147_ بحار الانوار، ج 43 ص 161_ شرح ابن ابى الحديد ج 16 ص 233_ بلاغات النساء ص 19_

223
كے راستے پر ڈال ديا ہے_
آہ كيا ميں رسول(ص) كى عزيز وہى فاطمہ (ع) نہيں ہوں جو اب بيمارى كے بستر پر پڑى ہوئي ہوں اور اسى امت كے ضربات سے درود كرب سے نالاں ہوں اور موت كا مشاہدہ كر رہى ہوں؟ پس پيغمبر(ص) كى وہ تمام سفارشيں كہاں گئيں؟ خدايا على (ع) اس بہادرى اور شجاعت كے باوجود كہ جو ان ميں ميں ديكھتى ہوں كس طرح گرفتار اور مجبور ہوگئے ہيں كہ اسلام كے مصالح كى حفاظت كے لئے ہاتھ پر ہاتھ ركھے اپنے صحيح حق كے جانے پر سكوت كو اختيار كر بيٹھے؟ آہ ميرى موت نزديك ہوگئي اور جوانى كے عالم ميں اس دنيا سے جارہى ہوں اور دنيا كے غم اور غصے سے نجات حاصل كر رہى ہوں ليكن اپنے يتيم بچوں كا كيا كروں؟ حسن (ع) اور حسين (ع) ، زينب اور كلثوم بے سرپرست اور يتيم ہوجائيں گے ، آہ كتنى مصيبت ميرے ان جگر گوشوں پر وارد ہوں گى ميں نے ك ئي دفعہ اپنے باپ سے سنا ہے كہ آپ فرماتے تھے كہ تيرے حسن (ع) كو زہر دے ديں گے اور حسين (ع) كو تلوار سے قتل كرديں گے ابھى سے اس پيشين گوئي كى علامتيں ظاہر ہونے لگى ہيں_
آپ كبھى اپنے چھوٹے سے حسين (ع) كو گود ميں لے كر ان كى گردن كا بوسہ ليتيں اور ان كے مصائب پر آنسو بہاتيں اور كبھى آپ اپنے حسن (ع) كو سينے سے لگاليتيں اور ان كے معصوم لبوں پر بوسہ ديتيں اور كبھى زينب و كلثوم پر وارد ہونے والى مصيبتيں اور واقعات كو ياد كرتيں اور ان كے لئے گريہ كرتيں_
جى ہاں اس قسم كے پريشان كرنے والے افكار جناب زہراء (ع) كو تكليف اور رنج ديتے تھے اور آپ دن بدن كمزور اور ضعيف ہوتى جا رہى تھيں_
ايك روايت ميں وارد ہوا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) وفات كے وقت رو

224
رہى تھيں حضرت على (ع) نے فرمايا كہ آپ كيوں رو رہى ہيں؟ آپ نے جواب ديا كہ آپ كے مستقبل كے واقعات اور مصائب پر رو رہى ہوں_ حضرت على (ع) نے فرمايا آپ نہ روئيں، قسم خدا كى اس قسم كے واقعات ميرے نزديك كوئي اہميت نہيں ركھتے(1)_

ناپسنديدہ عيادت
مسلمانوں كى عورتيں اور پيغمبر(ص) كى رشتہ دار عورتوں اور پيغمبر(ص) كے خاص اصحاب كبھى نہ كبھى جناب فاطمہ (ع) كى احوال پرسى اور عيادت كرتے تھے ليكن جناب عمر اور ابوبكر آپ كى عيادت سے روكے گئے تھے كيوں كہ جناب زہراء (ع) نے پہلے سے ارادہ كر ركھا تھا كہ ان كے ساتھ قطع كلام ركھيں گى اس لئے آپ انہيں عيادت اور ملاقات كى اجازت نہ ديتى تھيں آہستہ آہستہ اراكين خلافت ميں يہ خوف پيدا ہوا كہ كہيں جناب فاطمہ (ع) فوت نہ ہوجائيں اور وقت كے خليفہ سے ناراض رہ كر انتقال كر گئيں تو يہ قيامت تك ان كے دامن پر ننگ اور رعار كا دہبہ لگ جائے گا اسى لئے وہ عمومى افكار كے دباؤ ميں تھے اور مجبور تھے كہ كسى طرح جناب فاطمہ (ع) كى عبادت كريں لہذا حضرت على (ع) سے انہوں نے با اصرار تقاضہ كيا كہ ان كى ملاقات كے اسباب فراہم كريں _ حضرت على (ع) جناب فاطمہ (ع) كے پاس آئے اور فرمايا اے دختر رسول (ص) ان دو آدميوں نے آپ كى عيادت كرنے كى آپ سے اجازت چاہى ہے_ آپ كى اس ميں كيا رائے ہے؟
-------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 218_
225
حضرت زہرا ء (ع) حضرت على (ع) كى حالت سے بخوبى واقف تھيں آپ نے عرض كيا گھر آپ كا ہے اور ميں آپ كے اختيار ميں ہوں آپ جس طرح مصلحت ديكھيں اس پر عمل كريں؟ آپ نے يہ كہا اور اپنے سر كے اوپر چادر اوڑھ لى اور ديوار كى طرف منھ كرليا، دونوں آدمى اندر آئے اور اسلام كيا اور احوال پرسى كى اور عرض كيا كہ ہم اپنى غلطى كا اعتراف كرتے ہيں، آپ ہم سے راضى ہوجائيں_ جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا كہ ميں ايك چيز تم سے پوچھنا چاہتى ہوں اس كا جواب دو، انہوں نے عرض كى كہ فرمايئےآپ نے فرمايا كہ تمہيں خدا كى قسم ديتى ہوں كہ آيا تم نے رسول خدا(ص) سے يہ سنا ہے كہ آپ نے فرمايا كہ فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے، جو اسے اذيت دے گا اس نے مجھے اذيت دى ہے، انہوں نے عرض كى ہاں ہم نے يہ حديث آپ كے والد سى سنى ہے_ آپ نے اس كے بعد اپنے ہاتھ آسمان كى طرف اٹھائے اور كہا اے ميرے خدا تو گواہ رہنا كہ انہوں نے مجھے اذيت دى ہے، ان كى شكايت تجھ سے اور تيرے رسول (ص) سے كروں گي، نہيں ميں ہرگز تم سے راضى نہ ہوں گى يہاں تك كہ والد سے ملاقات كروں، تمہارے كردار اور رفتار كو ان سے بيان كروں گى تا كہ وہ(ع) ہمارے درميان قضاوت كريں (1)_

فاطمہ (ع) كى وصيت
جناب زہراء (ع) كى بيمارى تقريباً چاليس دن تك
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 198_

226
طول پكڑگئي ليكن ہر روز آپ كى حالت سخت تر ہوتى جا رہى تھى اور آپ كى بيمارى ميں شدت آتى جارہى تھي_ آپ نے ايك دن حضرت على (ع) سے كہا اے ابن عم ___ ميں موت كے آثار اور علامتيں اپنے آپ ميں مشاہدہ كر رہى ہوں مجھے گمان ہے كہ ميں عنقريب اپنے والد سے ملاقات كروں ميں آپ كو وصيت كرنا چاہتى ہوں_ حضرت على (ع) جناب فاطمہ (ع) كے بستر كے قريب آبيٹھے اور كمرہ كو خالى كردايا اور فرمايا اے دختر پيغمبر (ص) جو كچھ آپ كا دل چاہتا ہے وصيت كيجئے اور يقين كيجئے كہ ميں آپ كى وصيت پر عمل كروں گا_ آپ كى وصيت كى انجام دہى كو اپنے ذاتى كاموں پر مقدم كروں گا_ حضرت على (ع) نے جناب زہراء (ع) كے افسردہ چہرے اور حلقے پڑى ہوئي آنكھوں پر نگاہ كى اور روديئے، جناب فاطمہ (ع) نے پلٹ كر اپنى ان آنكھوں سے حضرت على (ع) كے غمناك اور پمردہ مہربان چہرے كو ديكھا اور كہا اے ابن عم ميں نے آج تك آپ كے گھر ميں جھوٹ نہيں بولا اور نہ ہى خيانت كى ہے اور نہ كبھى آپ كے احكام اور دستورات كو پس پشت ڈالا ہے_
حضرت على (ع) نے فرمايا آپ كو اللہ تعالى كى معرفت اور آپ كا تقوى اتنا قوى اور عالى ہے كہ آپ كے بارے ميں اس كا احتمال تك نہيں ديا جاسكتا خدا كى قسم آپ كى جدائي اور فراق مجھ پر بہت سخت ہے ليكن موت كے سامنے كسى كا چارہ نہيں_ خدا كى قسم تم نے ميرے مصائب تازہ كرديئے ہيں، تمہارى بے وقت موت ميرے لئے ايك دردناك حادثہ ہے_ ''انا للہ و انا اليہ راجعون'' يہ مصيبت كتنى ناگوار اور دردناك ہے؟ خدا كى قسم اس ہلاك كردينے والى مصيبت كو ميں كبھى نہيں فراموش كروں گا _ كوئي چيز اس مصيبت سے تسلى بخش نہيں ہوسكتي، اس

227
وقت دونو بزرگوار رو رہے تھے (1)_
جناب زہراء (ع) نے اپنے مختصر جملوں ميں اپنى زندگى كے برنامے كو سموديا اپنى صداقت كے مقام اور پاكدامنى اور شوہر كى اطاعت كو اپنے شوہر سے بيان كيا حضرت على (ع) نے بھى آپ كے علمى عظمت اور پرہيزگارى و صداقت اور دوستى و زحمات كا شكريہ ادا كيا اور اپنى بے پنا محبت اور لگاؤ كو آپ كى نسبت ظاہر كيا، اس وقت عواطف اور احساسات پھر سے دونوں زن و شوہر ہيں ''جو اسلام كے نمونہ اور مثال تھے'' اس طرح ابھرے كہ دونوںاپنے رونے پر قابو نہ پاسكے اور كافى وقت تك دونوں روتے رہے اور اپنى مختصر سى ازدواجى زندگى پر جو محبت و صفا اور مہر و صداقت سے پر تھى گريہ كرتے رہے اور ايك دوسرے كو غير معمولى زحمات اور گرفتاريوں اور مصائب پر روتے رہے تا كہ يہى آنكھوں كے آنسو ان كى اندرونى آگ جو ان كے جسم كو جلا دينے كے نزديك تھى ٹھنڈا كرسكيں_
جب آپ كا گريہ ختم ہوا حضرت على (ع) نے جناب فاطمہ (ع) كا سر مبارك اپنے زانو پر ركھا اور فرمايا، اے پيغمبر(ص) كى عزيز دختر جو آپ كا دل چاہتا ہے وصيت كريں اور مطمئن رہين كہ ميں آپ كى وصيتوں سے تخلف نہ كروں گا جناب فاطمہ (ع) نے يہ وصيتيں كيں_
1_ مرد بغير عورت كے زندگى نہيں بسر كرسكتا اور آپ بھى مجبور ہيں كہ شادى كريں ميرى خواہش ہے كہ آپ ميرے بعد امامہ سے شادى كيجئے_
----------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 191_
228
گا، كيونكہ يہ ميرے بچوں پر زيادہ مہربان ہے (1)_
2_ ميرے بچے ميرے بعد يتيم ہوجائيں گے ان كے ساتھ نرمى سے پيش آنا ان كو سخت لہجہ سے نہ پكارنا، ان كى دلجوئي كے لئے ايك رات ان كے پاس رہنا ايك رات اپنى بيوى كے پاس (2)_
3_ ميرا اس طرح اور كيفيت كا تابوت بناناتا كہ ميرا جنازہ اٹھاتے وقت ميرا جسم ظاہر نہ ہو پھر آپ نے اس تابوت كى كيفيت بيان كى (3)_
4_ مجھے رات كو غسل دينا اور كفن پہنانا اور دفن كرنا اور ان آدميوں كو اجازت نہ دينا جنہوں نے ميرا حق غصب كيا ہے اور مجھے اذيت اور آزار ديا ہے كہ وہ مير نماز جنازہ يا تشيع ميں حاضر ہوں (4)_
5_ رسول خدا كى بيويوں ميں سے ہر ايك كو بارہ وقيہ (گندم كا وزن) دينا _
6_ بنى ہاشم كى ہر ايك عورت كو بھى بارہ وقيہ دينا_
7_ امامہ كو بھى كچھ دينا (5)_
8_ ذى الحسنى نامى باغ اور ساقيہ اور دلال اور غراف اور ہيشم اور ام ابراہيم نامى باغات جو سات عدد بنتے ہيں ميرے بعد آپ كے اختيار ميں ہوں گے اور آپ كے بعد حسن (ع) اور حسن (ع) كے بعد حسين (ع) اور حسين (ع) كے بعد ان كے بڑے لڑكے كے اختيار ميں ہوں گے اس وصيت كے لكھنے والے
--------
1) مناقب ابن شہر آشوب، ج 3 ص 362_
2) بحار الانوارء ج 43 ص 178_
3،4) بحار الانوار، ج 43 ص 192_
5) دلائل الامامہ ص 42_
229
على (ع) اور گواہ مقداد اور زبير تھے (1)_
ابن عباس نے روايت كى ہے كہ يہ تحريرى وصيت بھى آنحضرت(ص) سے ہاتھ لگى ہے_
بسم اللہ الرحمن الرحيم_ يہ وصيت نامہ فاطمہ (ع) پيغمبر(ص) كى دختر كا ہے ميں خدا كى وحدانيت كى گواہى ديتى ہوں اور گواہى ديتى ہوں كہ محمد(ص) خدا كے رسول ہيں_ بہشت و دوزخ حق ہيں، قيامت كے واقع ہونے ميں شك نہيں ہے_ خدا مردوں كو زندہ كرے گا، اے على (ع) خدا نے مجھے آپ كا ہمسر قرار ديا ہے تا كہ دنيا اور آخرت ميں اكٹھے رہيں، ميرا اختيار آپ كے ہاتھ ميں ہے، اے على (ع) رات كو مجھے غسل و كفن دينا اور حنوط كرنا اور دفن كرنا اور كسى كو خبر نہ كرنا اب ميں آپ سے وداع ہوتى ہوں، ميرا سلام ميرى تمام اولاد كو جو قيامت تك پيدا ہوگى پہنچا دينا (2)

آپ اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں
جناب فاطمہ (ع) كى بيمارى شديد ہوگئي اور آپ كى حالت خطرناك ہوگئي حضرت على (ع) ضرورى كاموں كے علاوہ آپ كے بستر سے جدا نہ ہوتے تھے_ جناب اسماء بنت عميس آپ كى تيمار دارى كيا كرتى تھيں_ جناب امام حسن اور امام حسين اور زينب و ام كلثوم ماں كى يہ حالت ديكھ كر آپ سے
------
1) دلائل الامامہ، ص 42_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 214_

230
بہت كم جدا ہوا كرتے تھے، جناب فاطمہ (ع) كبھى مرض كى شدت سے بيہوش ہوجايا كرتى تھيں، كبھى آنكھيں كھولتيں اور اپنے عزيز فرزندوں پر حسرت كى نگاہ ڈالتيں_
حضرت على (ع) فرماتے ہيں كہ جناب فاطمہ (ع) نے احتضار كے وقت آنكھيں كھوليں اور ايك تند نگاہ اطراف پر ڈالى اور فرمايا السلام عليك يا رسول اللہ (ص) اے ميرے اللہ مجھے اپنے پيغمبر(ص) كے ساتھ محشور كر خدايا مجھے اپنى بہشت اور اپنے جوار ميں سكونت عنايت فرما اس وقت حاضرين سے فرمايا اب فرشتگان خدا اور جبرئيل موجود ہيں ميرے بابا بھى حاضر ہيں اور مجھ سے فرما رہے ہيں كہ ميرے پاس جلدى آو كہ يہاں تمہارے لئے بہتر ہے (1) _
حضرت على (ع) نے فرمايا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھ سے وفات كى رات فرمايا كہ اے ابن عم ابھى جبرئيل مجھے اسلام كرنے كے لئے حاضر ہوئے اور كہہ رہے ہيں كہ خدا بعد از سلام فرماتا ہے كہ عنقريب تم بہشت ميں والد سے ملاقات كروگى اس كے بعد آپ نے فرمايا و عليكم السلام_ اس كے بعد مجھ سے فرمايا اے ابن عم ابھى ميكائيل نازل ہوئے اور اللہ كى طرف سے پيغام لائے اس كے بعد فرمايا و عليكم السلام_ اس وقت آپ نے آنكھيں كھوليں اور فرمايا ابن عم خدا كى قسم عزرائيل آگئے ہيں اور ميرى روح قبض كرنے كے لئے آئے ہيں، اس وقت عزرائيل سے فرمايا كہ ميرى روح قبض كرلو ليكن نرمى سے_ آپ نے زندگى كے آخرى لمحہ ميں فرمايا خدايا تيرى طرف آوں نہ آ گ كى طرف، يہ كلمات آپ نے فرمائے اور اپنى نازنين آنكھوں كو بند كرليا اور
--------
1) دلائل الامامہ ص 44_

231
اور جان كو خالق جان كے سپرد كرديا_
اسماء بنت عميس نے جناب زہراء (ع) كى وفات كا واقعہ اس طرح بيان كيا ہے كہ جب جناب فاطمہ (ع) كى وفات كا وقت قريب ہوا تو آپ نے مجھ سے فرمايا كہ ميرے والد كى وفات كے وقت جبرئيل (ع) كچھ كا فور لے كرئے تھے آپ (ص) نے اسے تين حصّوں ميں تقسيم كرديا تھا، ايك حصّہ اپنے لئے ركھا تھا ايك حصّہ حضرت على (ع) كے لئے اور ايك حصّہ مجھے ديا تھا اور ميں نے اسے فلاں جگہ ركھا ہے اب مجھے اس كى ضرورت ہے اسے لے آؤ_ جناب اسماء وہ كافور لے آئيں_ آپ نے اس كے بعد_ آپ نے غسل كيا اور وضو كيا اور اسماء سے فرمايا ميرے نماز كے كپڑے لے آؤ اور خوشبو بھى لے آؤ_
جناب اسماء نے لباس حاضر كيا آپ نے وہ لباس پہنا اور خوشبو لگائي اور قبلہ رخ ہو كر اپنے بستر پر ليٹ گئيں اور اسماء سے فرمايا كہ آرام كرتى ہوں تھوڑى دير___ بعد مجھے آواز دينا اگر ميں نے جواب نہ ديا تو سمجھ لينا كہ ميں دنيا سے رخصت ہوگئي ہوں اور على (ع) كو بہت جلدى اطلاع دے دينا، اسماء كہتى ہيں كہ ميں تھوڑى دير صبر كيا اور پھر ميں كمرے كے دروازے پر آئي جناب فاطمہ (ع) كو آواز دى ليكن جواب نہ سنا تب ميں نے لباس كو آپ كے چہرے سے ہٹايا تو ديكھا آپ د نيا سے گزر گئي ہيں_ ميں آپ كے جنازے پر گرگئي آپ كو بوسہ ديا اور روئي اچانك امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) وارد ہوگئے اپنى والدہ كى حالت پوچھى اور كہا كہ اس وقت ہمارى ماں كے سونے كا وقت نہيں ہے ميں نے عرض كى اے ميرے عزيز و تمہارى ماں دنيا سے رخصت ہوگئي ہيں_

232
امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) ماں كے جنازے پر گرگئے بوسہ ديتے اور روتے جاتے، امام حسن (ع) كہتے تھے اماں مجھ سے بات كيجئے، امام حسين (ع) كہتے تھے اماں جان ميں تيرا حسين (ع) ہوں قبل اس كے ميرى روح پرواز كرجائے مجھ سے بات كيئجے، جناب زہرا (ع) كے يتيم مسجد كى طرف دوڑے تا كہ باپ كو ماں كى موت كى خبرديں، جب جناب زہراء (ع) كى موت كى خبر على (ع) كى ملى تو آپ نے شدت غم اور اندوہ سے بيتاب ہوكر فرمايا_ پيغمبر(ص) كى دختر آپ ميرے لئے سكون كا باعث تھيں، اب آپ كے بعد كس سے سكون حاصل كروں گا؟ (1)

آپ كا دفن اور تشيع جنازہ
جناب زہراء (ع) كے گھر سے رونے كى آواز بلند ہوئي اہل مدينہ كو علم ہوگيا اور تمام شہر سے رونے اور گريہ كى آوازيں بلند ہونے لگيں لوگوں نے حضرت على (ع) كے گھر كا رخ كيا، حضرت على (ع) بيٹھے ہوئے تھے جناب امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) آپ كے اردگرد بيٹھے گريہ كر رہے تھے_ جناب ام كلثوم روتى اور فرماتى تھيں يا رسول اللہ (ص) گويا آپ ہمارے پاس سے چلے گئے لوگ گھر كے باہر اجتماع كئے ہوئے تھے اور وہ حضرت زہراء (ع) كے جنازے كے باہر آنے كے منتظر تھے، اچانك جناب ابوذر گھر سے باہر نكلے اور كہا لوگو چلے جاؤ كيونكہ جنازے كى تشيع ميں دير كردى گئي ہے (2)_
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 186_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 192_
233
جناب ابوبكر اور عمر نے حضرت على (ع) كو تعزيب دى اور عرض كيا يا اباالحسن مبادا ہم سے پہلے جناب فاطمہ (ع) پر نماز پڑھيں (1)_
ليكن حضرت على (ع) نے اسماء كے ساتھ مل كر اسى رات جناب زہراء (ع) كو غسل و كفن ديا، جناب زہرا كے چھوٹے چھوٹے بچے جنازے كے اردگرد گريہ كر رہے تھے، جب آپ غسل و كفن سے فارغ ہوگئے تو آواز دى اے حسن (ع) و حسين (ع) اے زينب و ام كلثوم آو ماں كو وداع كرو كہ پھر ان كو نہ ديكھ سكو گے، جناب زہراء (ع) كے يتيم، ماں كے نازنين جنازے پر گرے اور بوسہ ديا اور روئے_ حضرت على (ع) نے ان كو جنازے سے ہٹايا (2)_
جنازے پر نماز پڑھى اور جناز اٹھايا، جناب عباس، فضل، مقداد، سلمان، ابوذر، عمار، حسن (ع) اور حسين (ع) ، عقيل، بريدہ، حذيفہ، ابن مسعود جنازے كى تشيع ميں شريك ہوئے (3)_
جب تمام آنكھيں ہو رہى تھيں اندھيرے ميں جنازے كو آہستہ آہستہ اور خاموشى كے ساتھ قبر كى طرف لے گئے تا كہ منافقين كو علم نہ ہوجائے اور دفن كرنے سے روك نہ ديں، جنازے كو قبر كے كنارے زمين پر ركھا گيا_ اميرالمومنين حضرت على (ع) نے خود اپنى بيوى كے نازنين جسم كو اٹھايا اور قبر ميں ركھ ديا اور قبر كو فوراً بند كرديا (4)_
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 199_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 179_
3) بحار الانوار، ج 43 ص 183_
4) بحار الانوار، ج 43 ص 183_