بحث اور استدلال
جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبكر كے پاس گئيں اور فرمايا كہ تم نے كيوں ميرے كاركنوں كو ميرى ملكيت سے باہر
182
نكال ديا ہے؟ ميرے باپ نے اپنى زندگى ميں فدك مجھے ہبہ كرديا تھا جناب ابوبكر نے جواب ديا اگر چہ ميں جانتا ہوں كہ تم جھوٹ نہيں بولتيں ليكن پھر بھى اپنے دعوے كے ثبوت كے لئے گواہ لے آؤ_ جناب زہراء (ع) جناب ام ايمن اور حضرت على (ع) كو گواہ كے طور پر لے گئيں، جناب ام ايمن نے جناب ابوبكر سے كہ تجھ خدا كى قسم ديتى ہوں كہ كيا تم جانتے ہو كہ رسول خدا(ص) نے ميرے بارے ميںفرمايا ہے كہ ام ايمن بہشتى ہيں، جناب ابوبكر نے جواب ديا، يہ ميں جانتا ہوں اس وقت جناب ام ايمن نے فرمايا ميں گواہى ديتى ہوں كہ جب يہ آيت ''و آت ذى القربى حقہ'' نازل ہوئي تو رسول خدا(ص) نے فدك فاطمہ (ع) كو دے ديا تھا_
حضرت على عليہ السلام نے بھى اس قسم كى گواہى دى جناب ابوبكر مجبور ہوگئے كہ فدك جناب فاطمہ (ع) كو لوٹا ديں لہذا ايك تحرير ايك كے متعلق لكھى اور وہ حضرت زہراء (ع) كو دے دي_
اچانك اسى وقت جناب عمر آگئے اور مطلب دريافت كيا جناب ابوبكر نے جواب ديا كہ چونكہ جناب فاطمہ (ع) فدك كا دعوى كر رہى تھيں اور اس پر گواہ بھى پيش كرديئےيں لہذا ميں نے فدك انہيں واپس كرديا ہے جناب عمر نے وہ تحرير زہراء كے ہاتھ سے لى اور اس پر لعاب دہن ڈالا اور پھر اسے پھاڑ ڈالا_ جناب ابوبكر نے بھى جناب عمر كى تائيد كرتے ہوئے كہا كہ آپ على (ع) كے علاوہ كوئي اور آدمى گواہ لے آئيں يا ايم ايمن كے علاوہ كوئي دوسرى عورت بھى گواہى دے جناب فاطمہ (ع) روتى ہوئي جناب ابوبكر كے گھر سے باہر چلے گئيں_
ايك اور روايت كى بناء پر جناب عمر اور عبدالرحمن نے گواہى دي
183
كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فدك كى آمدنى كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كرديتے تھے (1)_
ايك دن حضرت على (ع) جناب ابوبكر كے پاس گئے اور فرمايا كہ كيوں فدك كو جو جناب رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو دياتھا ان سے لے ليا ہے؟ آپ نے جواب دياانہيں اپنے دعوى پر گواہ لے آنے چاہئيں اور چونكہ ان كے گواہ ناقص تھے جو قبول نہيں كئے گئے_ حضرت على (ع) نے فرمايا اے ابوبكر، كيا تم ہمارے بارے ميں اس كے خلاف حكم كرتے ہو جو تمام مسلمانوں كے لئے ہوا كرتا ہے_ جناب ابوبكر نے كہا كہ نہيں_ حضرت على (ع) نے فرمايا كہ اب ميں تم سے سوال كرتا ہوں كہ اگر كچھ مال كسى كے ہاتھ ميں ہو اور ميں دعوى كروں كہ وہ ميرا مال ہے اور فيصلہ كرانے كے لئے جناب كے پاس آئيں تو آپ كس سے گواہ كا مطالبہ كريں گے؟ جناب ابوبكر نے كہا كہ آپ سے گواہ طلب كروں گا كيوں كہ مال كسى دوسرے كے تصرف ميں موجود ہے، آپ نے فرمايا پھر تم نے كيوں جناب فاطمہ (ع) سے گواہ لانے كا مطالبہ كيا ہے در انحاليكہ فدك آپ(ص) كى ملكيت اور تصرف ميں موجود ہے، جناب ابوبكر نے سوكت كے سوا كوئي چارہ نہ ديكھا ليكن جناب عمر نے كہايا على ايسى باتين چھوڑو (2)_
اگر انصاف سے ديكھا جائے تو اس فيصلے مين حق حضرت زہراء كے
--------
1) احتجاج طبرسي، ج 1 ص 121، اور كشف الغمہ ج 2 ص 104_ اور شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 274_
2) احتجاج طبرسي، ج 1 ص 121_ كشف الغمہ ج 2 ص 104_
184
ساتھ ہے كيونكہ فدك آپ كے قبضے ميں تھا اسى لئے تو حضرت على (ع) نے اپنے ايك خط ميں لكھا ہے_ جى ہاں دنيا كے اموال سے فدك ہمارے اختيار ميں تھا ليكن ايك جماعت نے اس پر بھى بخل كيا اور ايك دوسرا گروہ اس پر راضى تھا (1) _
قضاوت كے قواعد اور قانون كے لحاظ سے حضرت زہراء (ع) سے گواہوں كا مطالبہ نہيں كرنا چاہيئے تھا بلكہ دوسرى طرف جو ابوبكر تھے انہيں گواہ لانے چاہيئے تھے، ليكن جناب ابوبكر نے فيصلے كے اس مسلم قانون كى مخالفت كي، حضرت زہراء (ع) اس مبارزے ميں كامياب ہوگوئيں اور اپنى حقانيت كو مضبوط دليل و برہان اور منطق سے ثابت كرديا اور حضرت ابوبكر مجبور ہوگئے كہ وہ فدك كے واپس كردينے كا دستور بھى لكھ ديں يہ اور بات ہے كہ جناب عمر آپہنچے اور طاقت كى منطق كو ميدان ميں لائے اور لكھى ہوئي تحرير كو پھاڑ ديا اور گواہوں كے ناقص ہونے كا اس ميں بہانا بنايا_
پھر بھى استدلال
ايك دن جناب فاطمہ (ع) جناب ابوبكر كے پاس گئيں اور باپ كى وراثت كے متعلق بحث اور احتجاج كيا آپ نے فرمايا اے ابوبكر، ميرے باپ كا ارث مجھے كيوں نہيں ديتے ہو؟ جناب ابوبكر نے جواب ديا كہ پيغمبر(ص) ارث نہيں چھوڑتے_
----------
1) نہج البلاغہ، ج 3 ص 45_
185
آپ نے فرمايا مگر خداوند عالم قرآن ميں نہيں فرماتا:
''و ورث سليمان داؤد'' (1)
كيا جناب سليمان جناب داؤد كے وارث نہيں بنے؟ جناب ابوبكر غضبناك ہوئے اور كہا تم سے كہا كہ پيغمبر ميراث نہيں چھوڑتے ، جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا كيا زكريا نبى نے خدا سے عرض نہيں كيا تھا_
''فہب لى من لدنك وَلياً يرثنى وَ يرث من آل يعقوب'' (2)
جناب ابوبكر نے پھر بھى وہى جواب ديا كہ پيغمبر ارث نہيں چھوڑتے جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا:
''يوصيكم اللہ فى اولادكم للذكر حظ الانثيين'' (3)
كيا ميں رسول اللہ (ص) كى اولاد نہيں ہوں؟ چونكہ جناب ابوبكر حضرت زہراء (ع) كے محكم دلائل كا سامنا كر رہے تھے اور اس كے سوا اور كوئي چارہ نہ تھا كہ اسى سابقہ كلام كى تكرار كريں اور كہيں كہ كيا ميں نے نہيں كہا كہ پيغمبر ارث نہيں چھوڑتے_
جناب ابوبكر نے اپنى روش اور غير شرعى عمل كے لئے ايك حديث نقل كى كہ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ ہم پيغمبر ارث نہيں چھوڑتے_ جناب عائشےہ اور حفصہ نے بھى
----------
1) سورہ نحل آيت 16_
2) سورہ مريم آيت 6_
3) سورہ نساء آيت 11_
186
جناب ابوبكر كى اس حديث كى تائيد كردى ((ص) )_
جيسا كہ آپ ديكھ رہے ہيں كہ اس مباحثے ميں بھى حضرت زہراء (ع) غالب آئيں اور دلائي و برہان سے ثابت كرديا كہ وہ حديث جس كا تم دعوى كر رہے ہو وہ صريح قرآنى نصوص كے خلاف ہے اور جو حديث بھى قرآن كى صريح نص كے خلاف ہو وہ معتبر نہيں ہوا كرتى جناب ابوبكر مغلوب ہوئے اور آپ كے پاس اس كے سوا كوئي علاج نہ تھا كہ جناب فاطمہ (ع) كے جواب ميں اسى سابقہ جواب كى تكرار كريں_
يہاں پر قابل توجہ نكتہ يہ ہے كہ يہى جناب عائشےہ جنہوں نے اس جگہ اپنے باپ كى بيان كردہ وضعى حديث كى تائيد كى ہے جناب عثمان كى خلافت كے زمانے ميں ان كے پاس گئيں اور پيغمبر (ص) كى وراثت كا ادعا كيا_ جناب عثمان نے جواب ديا كيا تم نے گواہى نہيں دى تھى كہ پيغمبر(ص) نے فرمايا كہ ہم پيغمبر ارث نہيں چھوڑتے؟ اور اسى سے تم نے جناب فاطمہ (ع) كو وراثت سے محروم كرديا تھا، اب كيسے آپ خود رسول (ص) كى وراثت كا مطالبہ كر رہى ہيں (2)_
خليفہ سے وضاحت كا مطالبہ
جناب زہراء (ع) پہلے مرحلہ ميں كامياب ہوئيں اور اپنى منطق اور برہان سے اپنے مد مقابل كو محكوم
-----------
1) كشف الغمہ، ج 2 س 104_
2) كشف الغمہ، ج 2 ص 105_
187
كرديا قرآن مجيد كى آيات سے اپنى حقانيت كو ثابت كيا اور اپنے مد مقابل كو اپنے استدلال سے ناتواں بناديا، آپ نے ديكھا كہ _ مد مقابل اپنى روش كو صحيح ثابت كرنے كے لئے ہر قسم كے عمل كو بجالانے كے لئے حتى كہ حديث بناكر پيش كرنے كى بھى پرواہ نہيں كرتا اور دليل و برہان كے مقابلے ميں قوت اور طاقت كا سہارا ڈھونڈتا ہے_
آپ نے تعجب كيا اور كہا عجيب انہوں نے ميرے شوہر كى خلافت پر قبضہ كرليا ہے_ يہ آيات قرآن كے مقابل كيوں سر تسليم خم نہيں كرتے؟ كيوں اسلام كے خلاف فيصلہ ديتے ہيں؟ كيوں جناب ابوبكر تو مجھے تحرير لكھ كر ديتے ہيں ليكن جناب عمر اسے پھاڑ ڈالتے ہيں؟ اے ميرے خدا يہ كسى قسم كى حكومت ہے اور يہ كسى قضاوت ہے؟ تعجب در تعجب: جناب ابوبكر رسول خدا(ص) كى جگہ بيٹھتے ہيں، ليكن حديث از خود بناتے ہيں تا كہ ميرے حق كو پائمال كريں؟ ايسے افراد دين اور قرآن كے حامى ہوسكتے ہيں؟ مجھے فدك اور غير فدك سے دلچسپى نہيں ليكن اس قسم كے اعمال كو بھى تحمل نہيں كرسكتى بالكل چپ نہ رہوں گى اور مجھے چاہيئے كہ تما لوگوں كے سامنے خليفہ سے وضاحت طلب كروں اور اپنى حقانيت كو ثابت كروں اور لوگوں كو بتلادوں كہ جس خليفہ كا تم نے انتخاب كيا ہے اس ميں صلاحيت نہيں كہ قرآن اور اسلام كے دستور پر عمل كرے اپنى مرضى سے جو كام چاہتا ہے انجام ديتا ہے_ جى ہان مسجد جاؤں گى اور لوگوں كے سامنے تقرير كروں گي_
يہ خبر بجلى كى طرح مدينہ ميں پھيل گئي اور ايك بم كى طرح پورے شہر كو ہلاك ركھ ديا، فاطمہ (ع) جو كہ پيغمبر(ص) كى نشانى ہيں چاہتى ہيں كہ تقرير كريں؟ ليكن
188
كس موضوع پر تقرير ہوگي؟ اور خليفہ اس پر كيا رد عمل ظاہر كرے گا؟ چليں آپ كى تاريخى تقرير كو سنيں_
مہاجر اور انصار كى جمعيت كا مسجد ميں ہجوم ہوگيا، بنى ہاشم كى عورتيں جناب زہراء (ع) كے گھر گئيں اور اسلام كى بزرگ خاتون كو گھر سے باہر لائيں، بنى ہاشم كى عورتيں آپ كو گھيرے ميں لئے ہوئے تھيں، بہت عظمت اور جلال كے ساتھ آپ چليں، پيغمبر(ص) كى طرح قدم اٹھا رہى تھيں، جب مسجد ميں داخل ہوئيں تو پردہ آپ كے سامنے لٹكا دياگيا، باپ كى جدائي اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) كو منقلب كرديا كہ آپ كے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دينے والى آواز نے مجمع پر بھى اثر كيا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_
آپ تھوڑى دير كے لئے ساكت رہيں تا كہ لوگ آرام ميں آجائيں اس كے بعد آپ نے گفتگو شروع كي، اس كے بعد پھر ايك دفعہ لوگوں كے رونے كى آوازيں بلند ہوئيں آپ پھر خاموش ہوگئيں يہاں تك كہ لوگ اچھى طرح ساكت ہوگئے اس وقت آپ نے كلام كا آغاز كيا اور فرمايا:
جناب فاطمہ (ع) كى دہلا اور جلادينے والى تقرير
ميں خدا كى اس كى نعمتوں پر ستائشے اور حمد بجالاتى ہوں اور اس كى توفيقات پر شكر ادا كرتى ہوں اس كى بے شمار نعمتوں پر اس كى حمد و ثنا بجالاتى ہوں وہ نعمتيں كہ جن كى كوئي انتہانہيں اور نہيں ہوسكتا كہ
189
ان كى تلافى اور تدارك كيا جاسكے ان كى انتہا كاتصور كرنا ممكن نہيں، خدا ہم سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں كو جانيں اور ان كا شكريہ ادا كريں تا كہ اللہ تعالى نعمتوں كو اور زيادہ كرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے كہ ہم اس كى نعمتوں كو جانيں اور ان كا شكرہ ادا كريں تا كہ اللہ تعالى مقامى نعمتوں كو اور زيادہ كرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا كو طلب كيا ہے تا كہ وہ اپنى نعمتوں كو ہمارے لئے زيادہ كرے_
ميں خدا كى توحيد اور يگانگى گواہى ديتى ہوں توحيد كا وہ كلمہ كہ اخلاص كو اس كى روح اور حقيقت قرار ديا گيا ہے اور دل ميں اس كى گواہى دے تا كہ اس سے نظر و فكر روشن ہو، وہ خدا كہ جس كو آنكھ كے ذريعے ديكھا نہيں جاسكتا اور زبان كے ذريعے اس كى وصف اور توصيف نہيں كى جاسكتى وہ كس طرح كا ہے يہ وہم نہيں آسكتا_ عالم كو عدم سے پيدا كيا ہے اور اس كے پيدا كرنے ميں وہ محتاج نہ تھا اپنى مشيئت كے مطابق خلق كيا ہے_ جہان كے پيا كرنے ميں اسے اپنے كسى فائدے كے حاصل كرنے كا قصد نہ تھا_ جہان كو پيدا كيا تا كہ اپنى حكمت اور علم كو ثابت كرے اور اپنى اطاعت كى ياد دہانى كرے، اور اپنى قدرت كا اظہار كرے، اور بندوں كو عبادت كے لئے برانگيختہ كرے، اور اپنى دعوت كو وسعت دے، اپنى اطاعت كے لئے جزاء مقرر كى اور نافرمانى كے لئے سزا معين فرمائي_ تا كہ اپنے بندوں كو عذاب سے نجات دے اور بہشت كى طرف لے جائے_
ميں گواہى ديتى ہوں كہ ميرے والد محمد(ص) اللہ كے رسول اور اس كے بندے ہيں، پيغمبرى كے لئے بھيجنے سے پہلے اللہ نے ان كو چنا اور قبل
190
اس كے كہ اسے پيدا كرے ان كا نام محمّد(ص) ركھا اور بعثت سے پہلے ان كا انتخاب اس وقت كيا جب كہ مخلوقات عالم غيب ميں پنہاں اور چھپى ہوئي تھى اور عدم كى سرحد سے ملى ہوئي تھي، چونكہ اللہ تعالى ہر شئي كے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان كے مقدرات كے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) كو مبعوث كيا تا كہ اپنے امر كو آخر تك پہنچائے اور اپنے حكم كو جارى كردے، اور اپنے مقصد كو عملى قرار دے_ لوگ دين ميں تفرق تھے اور كفر و جہالت كى آگ ميں جل رہے تھے، بتوں كى پرستش كرتے تھے اور خداوند عالم كے دستورات كى طرف توجہ نہيں كرتے تھے_
پس حضرت محمّد(ص) كے وجود مبارك سے تاريكياں چھٹ گئيں اور جہالت اور نادانى دلوں سے دور ہوگئي، سرگردانى اور تحير كے پردے آنكھوں سے ہٹا ديئے گئے ميرے باپ لوگوں كى ہدايت كے لئے كھڑے ہوئے اور ان كو گمراہى سے نجات دلائي اور نابينا كو بينا كيا اور دين اسلام كى طرف راہنمائي فرمائي اور سيدھے راستے كى طرف دعوت دي، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پيغمبر كى مہربانى اور اس كے اختيار اور رغبت سے اس كى روح قبض فرمائي_ اب ميرے باپ اس دنيا كى سختيوں سے آرام ميں ہيں اور آخرت كے عالم ميں اللہ تعالى كے فرشتوں اور پروردگار كى رضايت كے ساتھ اللہ تعالى كے قرب ميں زندگى بسر كر رہے ہيں، امين اور وحى كے لئے چتے ہوئے پيغمبر پر درود ہو_
آپ نے اس كے بعد مجمع كو خطاب كيا اور فرمايا لوگو تم اللہ تعالى
191
كے امر اور نہى كے نمائندے اور نبوت كے دين اور علوم كے حامل تمہيں اپنے اوپر امين ہونا چاہيئےم ہو جن كو باقى اقوام تك دين كى تبليغ كرنى ہے تم ميں پيغمبر(ص) كا حقيقى جانشين موجود ہے اللہ تعالى نے تم سے پہلے عہد و پيمان اور چمكنے والانور ہے اس كى چشم بصيرت روش اور رتبے كے آرزومند ہيں اس كى پيروى كرنا انسان كو بہشت رضوان كى طرف ہدايت كرتا ہے اس كى باتوں كو سننا نجات كا سبب ہوتا ہے اس كے وجود كى بركت سے اللہ تعالى كے نورانى دلائل اور حجت كو دريافت كيا جاسكتا ہے اس كے وسيلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شريعت كے قوانين كو حاصل كيا جاسكتا ہے_
اللہ تعالى نے ايمان كو شرك سے پاك ہونے كا وسيلہ قرار ديا ہے___ اللہ نے نماز واجب كى تا كہ تكبر سے روكاجائے_ زكوة كو وسعت رزق اور تہذيب نفس كے لئے واجب قرار ديا_ روزے كو بندے كے اخلاص كے اثبات كے لئے واجب كيا_ حج كو واجب كرنے سے دين كى بنياد كو استوار كيا، عدالت كو زندگى كے نظم اور دلوں كى نزديكى كے لئے ضرورى قرار ديا، اہلبيت كى اطاعت كو ملت اسلامى كے نظم كے لئے واجب قرار ديا اور امامت كے ذريعے اختلاف و افتراق كا سد باب كيا_ امر بالمعروف كو عمومى مصلحت كے ماتحت واجب قرار ديا، ماں باپ كے ساتھ نيكى كو ان كے غضب سے مانع قرار ديا، اجل كے موخر ہونے اور نفوس كى زيادتى كے لئے صلہ رحمى كا دستور ديا_
192
قتل نفس كو روكنے كے لئے قصاص كو واجب قرار ديا_ نذر كے پورا كرنے كو گناہوں گا آمرزش كا سبب بنايا_ پليدى سے محفوظ رہنے كى غرض سے شراب خورى پر پابندى لگائي، بہتان اور زنا كى نسبت دينے كى لغت سے روكا، چورى نہ كرنے كو پاكى اور عفت كا سبب بتايا_ اللہ تعالى كے ساتھ شرك، كو اخلاص كے ماتحت ممنوع قرار ديا_
لوگو تقوى اور پرہيزگارى كو اپناؤ اور اسلام كى حفاظت كرو اور اللہ تعالى كے اوامر و نواحى كى اطاعت كرو، صرف علماء اور دانشمندى خدا سے ڈرتے ہيں_
اس كے بعد آپ نے فرمايا، لوگو ميرے باپ محمد(ص) تھے اب ميں تمہيں ابتداء سے آخر تك كے واقعات اور امور سے آگاہ كرتى ہوں تمہيں علم ہونا چاہيئےہ ميں جھوٹ نہيں بولتى اور گناہ كا ارتكاب نہيں كرتي_
لوگو اللہ تعالى نے تمہارے لئے پيغمبر(ص) جو تم ميں سے تھا بھيجا ہے تمہارى تكليف سے اسے تكليف ہوتى تھى اور وہ تم سے محبت كرتے تھے اور مومنين كے حق ميں مہربان اور دل سوز تھے_
لوگو وہ پيغمبر ميرے باپ تھے نہ تمہارى عورت كے باپ، ميرے شوہر كے چچازاد بھائي تھے نہ تمہارے مردوں كے بھائي، كتنى عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنى رسالت كو انجام ديا اور مشركوں كى راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان كى پشت پر سخت ضرب وارد كى ان كا گلا پكڑا اور دانائي اور نصيحت سے خدا كى طرف دعوت دي، بتوں كو توڑا اور ان كے سروں كو سرنگوں كيا كفار نے شكست كھائي اور شكست كھا كر
193
بھاگے تاريكياں دور ہوگئيں اور حق واضح ہوگيا، دين كے رہبر كى زبان گويا ہوئي اور شياطين خاموش ہوگئے، نفاق كے پيروكار ہلاك ہوئے كفر اور اختلاف كے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبيت كى وجہ سے شہادت كا كلمہ جارى كيا، جب كہ تم دوزخ كے كنارے كھڑے تھے اور وہ ظالموں كا تر اور لذيذ لقمہ بن چكے تھے اور آگ كى تلاش كرنے والوں كے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل كے پاؤں كے نيچے ذليل تھے گندا پانى پيتے تھے اور حيوانات كے چمڑوں اور درختوں كے پتوں سے غذا كھاتے تھے دوسروں كے ہميشہ ذليل و خوار تھے اور اردگرد كے قبائل سے خوف و ہراس ميں زندگى بسر كرتے تھے_
ان تمام بدبختيوں كے بعد خدا نے محمد(ص) كے وجود كى بركت سے تمہيں نجات دى حالانكہ ميرے باپ كو عربوں ميں سے بہادر اور عرب كے بھيڑيوں اور اہل كتاب كے سركشوں سے واسطہ تھا ليكن جتنا وہ جنگ كى آگ كو بھڑكاتے تھے خدا سے خاموش كرديتا تھا، جب كوئي شياطين ميں سے سر اٹھاتا يا مشركوں ميں سے كوئي بھى كھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائي على (ع) كو ان كے گلے ميں اتار ديتے اور حضرت على (ع) ان كے سر اور مغز كو اپنى طاقت سے پائمال كرديتے اور جب تك ان كى روشن كى ہوئي آگ كو اپنى تلوار سے خاموش نہ كرديتے جنگ كے ميدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ كى رضا كے لئے ان تمام سختيوں كا تحمل كرتے تھے اور خدا كى راہ ميں جہاد كرتے تھے، اللہ كے رسول كے نزديك تھے_ على (ع) خدا دوست تھے، ہميشہ جہاد كے لئے آمادہ تھے، وہ تبليغ اور جہاد كرتے تھے اور تم اس حالت ميں آرام اور خوشى ميں خوش و خرم زندگى گزار
194
رہے تھے اور كسى خبر كے منتظر اور فرصت ميں رہتے تھے دشمن كے ساتھ لڑائي لڑنے سے ا جتناب كرتے تھے اور جنگ كے وقت فرار كرجاتے تھے_
جب خدا نے اپنے پيغمبر كو دوسرے پيغمبروں كى جگہ كى طرف منتقل كيا تو تمہارے اندرونى كينے اور دوروئي ظاہر ہوگئي دين كا لباس كہنہ ہوگيا اور گمراہ لوگ باتيں كرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھايا اور باطل كا اونٹ آواز ديتے لگا اور اپنى دم ہلانے لگا اور شيطان نے اپنا سركمين گاہ سے باہر نكالا اور تمہيں اس نے اپنى طرف دعوت دى اور تم نے بغير سوچے اس كى دعوت قبول كرلى اور اس كا احترام كيا تمہيں اس نے ابھارا اور تم حركت ميں آگئے اس نے تمہيں غضبناك ہونے كا حكم ديا اور تم غضبناك ہوگئے_
لوگو وہ اونٹ جو تم ميں سے نہيں تھا تم نے اسے با علامت بناكر اس جگہ بيٹھايا جو اس كى جگہ نہيں تھي، حالانكہ ابھى پيغمبر(ص) كى موت كو زيادہ وقت نہيں گزرا ہے ابھى تك ہمارے دل كے زخم بھرے نہيں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھى پيغمبر(ص) كو دفن بھى نہيں كيا تھا كہ تم نے فتنے كے خوف كے بہانے سے خلافت پر قبضہ كرليا، ليكن خبردار رہو كہ تم فتنے ميں داخل ہوچكے ہو اور دوزخ نے كافروں كا احاطہ كر ركھا ہے_ افسوس تمہيں كيا ہوگيا ہے اور كہاں چلے جارہے ہو؟ حالانكہ اللہ كى كتاب تمہارے درميان موجود ہے اور اس كے احكام واضح اور اس كے اوامر و نواہى ظاہر ہيں تم نے قرآن كى مخالفت كى اور اسے پس پشت ڈال ديا، كيا تمہارا ارادہ ہے كہ قرآن سے اعراض اور روگرداني
195
كرلو؟ يا قرآن كے علاوہ كسى اور ذريعے سے قضاوت اور فيصلے كرتا چاہتے تو؟ ليكن تم كو علم ہونا چاہيئے كہ جو شخص بھى اسلام كے علاوہ كسى دوسرے دين كو اختيار كرے گا وہ قبول نہيں كيا جائے گا اور آخرت ميں وہ خسارہ اٹھانے والوں ميں سے ہوگا، اتنا صبر بھى نہ كرسكے كہ وہ فتنے كى آگ كو خاموش كرے اور اس كى قيادت آسان ہوجائے بلكہ آگ كو تم نے روشن كيا اور شيطان كى دعوت كو قبول كرليا اور دين كے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) كے خاموش كرنے ميں مشغول ہوگئے ہو_ كام كو الٹا ظاہر كرتے ہو اور پيغمبر(ص) كے اہلبيت كے ساتھ مكر و فريب كرتے ہو، تمہارے كام اس چھرى كے زخم اور نيزے كے زخم كى مانند ہيں جو پيٹ كے اندر واقع ہوئے ہوں_
كيا تم يہ عقيدہ ركھتے ہو كہ ہم پيغمبر(ص) سے ميراث نہيں لے سكتے، كيا تم جاہليت كے قوانين كى طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانكہ اسلام كے قانون تمام قوانين سے بہتر ہيں، كيا تمہيں علم نہيں كہ ميں رسول خدا(ص) كى بيٹى ہوں كيوں نہيں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب كى طرح يہ روشن ہے_ مسلمانوں كيا يہ درست ہے كہ ميں اپنے باپ كى ميراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبكر آيا خدا كى كتاب ميں تو لكھا ہے كہ تم اپنے باپ سے ميراث لو اور ميں اپنے باپ كى ميراث سے محروم رہوں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں كہتا كہ سليمان داود كے وارث ہوئے_
''ورث سليمان داؤد''
كيا قرآن ميں يحيى عليہ السلام كا قول نقل نہيں ہوا كہ خدا سے انہوں نے عرض كى پروردگار مجھے فرزند عنايت فرما تا كہ وہ ميرا وارث
196
قرار پائے او آل يعقوب كا بھى وارث ہو_
كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں كے وارث ہوتے ہيں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ اللہ نے حكم ديا كہ لڑكے، لڑكيوں سے دوگنا ارث ليں؟ كيا خدا قرآن ميں نہيں فرماتا كہ تم پر مقرر كرديا كہ جب تمہارا كوئي موت كے نزديك ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں كے لئے وصيت كرے كيونكہ پرہيزگاروں كے لئے ايسا كرنا عدالت كا مقتضى ہے_
كيا تم گمان كرتے ہو كہ ميں باپ سے نسبت نہيں ركھتي؟ كيا ارث والى آيات تمہارے لئے مخصوص ہيں اور ميرے والد ان سے خارج ہيں يا اس دليل سے مجھے ميراث سے محروم كرتے ہو جو دو مذہب كے ايك دوسرے سے ميراث نہيں لے سكتے؟ كيا ميں اور ميرا باپ ايك دين پر نہ تھے؟ آيا تم ميرے باپ اور ميرے چچازاد على (ع) سے قرآن كو بہتر سمجھتے ہو؟
اے ابوبكر فدك اور خلافت تسليم شدہ تمہيں مبارك ہو، ليكن قيامت كے دن تم سے ملاقات كروں گى كہ جب حكم اور قضاوت كرنا خدا كے ہاتھ ميں ہوگا اور محمد(ص) بہترين پيشوا ہيں_
اے قحافہ كے بيٹھے، ميرا تيرے ساتھ وعدہ قيامت كا دن ہے كہ جس دن بيہودہ لوگوں كا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشيمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالى كے عذاب كو ديكھ لوگے آپ اس كے بعد انصار كى طرف متوجہ ہوئيں اور فرمايا:
اے ملت كے مددگار جوانو اور اسلام كى مدد كرنے والو كيوں حق
197
كے ثابت كرنے ميں سستى كر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت ميں ہو؟ كيا ميرے والد نے نہيں فرمايا كہ كسى كا احترام اس كى اولاد ميں بھى محفوظ ہوتا ہے يعنى اس كے احترام كى وجہ سے اس كى اولاد كا احترام كيا كرو؟ كتنا جلدى فتنہ برپا كيا ہے تم نے؟ اور كتنى جلدى ہوى اور ہوس ميں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم كے ہٹانے ميں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت ركھتے ہو اور ميرے مدعا اور خواستہ كے برلانے پر طاقت ركھتے ہو_ كيا كہتے ہو كہ محمد(ص) مرگئے؟ جى ہاں ليكن يہ ايك بہت بڑى مصيبت ہے كہ ہر روز اس كا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس كا خلل زيادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) كى غيبت سے زمين تاريك ہوگئي ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہيں آپ كى مصيبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہيں، اميديں ٹوٹ گئيں، پہاڑ متزلزل اور ريزہ ريزہ ہوگئے ہيں پيغمبر(ص) كے احترام كى رعايت نہيں كى گئي، قسم خدا كى يہ ايك بہت بڑى مصيبت تھى كہ جس كى مثال ابھى تگ ديكھى نہيں گئي اللہ كى كتاب جو صبح اور شام كو پڑھى جا رہى ہے آپ كى اس مصيبت كى خبر ديتى ہے كہ پيغمبر(ص) بھى عام لوگوں كى طرح مريں گے، قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے كہ محمد(ص) بھى گزشتہ پيغمبروں كى طرح ہيں، اگر آپ(ص) مرے يا قتل كئے گئے تو تم دين سے پھر جاوگے، جو بھى دين سے خارج ہوگا وہ اللہ پر كوئي نقصان وارد نہيں كرتا خدا شكر ادا كرنے والوں كو جزا عنايت كرتا ہے (1)_
اے فرزندان قبلہ: آيا يہ مناسب ہے كہ ميں باپ كى ميراث سے محروم
---------
1) سورہ آل عمران_
198
رہوں جب كہ تم يہ ديكھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور يہاں موجود ہو ميرى پكار تم تك پہنچ چكى ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہارى تعداد زيادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، ميرے استغاثہ كى آواز تم تك پہنچتى ہے ليكن تم اس پر لبيك نہيں كہتے ميرى فرياد كو سنتے ہو ليكن ميرى فرياد رسى نہيں كرتے تم بہادرى ميں معروف اور نيكى اور خير سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ كى اولاد ہو تم ہم اہلبيت كے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں كے ساتھ تم نے جنگيں كيں سختيوں كو برداشت كيا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائي كى ہے جب ہم اٹھ كھڑے ہوتے تھے تم بھى اٹھ كھڑے ہوتے تھے ہم حكم ديتے تھے تم اطاعت كرتے تھے اسلام نے رونق پائي اور غنائم زيادہ ہوئے اور مشركين تسليم ہوگئے اور ان كا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگيا اور دين كا نظام مستحكم ہوگيا_
اے انصار متحير ہوكر كہاں جارہے ہو؟ حقائق كے معلوم ہو جانے كے بعد انہيں كيوں چھپانے ہو؟ كيوں ايمان لے آنے كے بعد مشرك ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں كا جنہوں نے اپنے ايمان اور عہد اور پيمان كو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ كيا ہو كہ رسول خدا(ص) كو شہر _ بدر كريں اور ان سے جنگ كا آغاز كريں كيا منافقين سے ڈرتے ہو؟ حالانكہ تمہيں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہيئے تھا_ لوگو ميں گويا ديكھ رہى كہ تم پستى كى طرف جارہے ہو، اس آدمى كو جو حكومت كرنے كا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ ميں بيٹھ كر عيش اور نوش
199
ميں مشغول ہوگئے ہو زندگى اور جہاد كے وسيع ميدان سے قرار كر كے راحت طلبى كے چھوٹے محيط ميں چلے گئے ہو، جو كچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر كرديا ہے اور جو كچھ پى چكے تھے اسے اگل ديا ہے ليكن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمين كے لوگ كافر ہوجائيں تو خدا تمہارا محتاج نہيں ہے_
اے لوگو جو كچھ مجھے كہنا چاہيئے تھا ميں نے كہہ ديا ہے حالانكہ ميں جانتى ہوں كہ تم ميرى مدد نہيں كروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفى نہيں، ليكن كيا كروں دل ميں ايك درد تھا كہ جس كو ميں نے بہت ناراحتى كے باوجود ظاہر كرديا ہے تا كہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدك اور خلافت كو خوب مضبوطى سے پكڑے ركھو ليكن تمہيں يہ معلوم ہونا چاہيئے كہ اس ميں مشكلات اور دشوارياں موجود ہيں اور اس كا ننگ و عار ہميشہ كے لئے تمہارے دامن پہ باقى رہ جائے گا، اللہ تعالى كا خشم اور غصہ اس پر مزيد ہوگا اور اس كى جزا جہنم كى آگ ہوگى اللہ تعالى تمہارے كردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال كے نتائج ديكھ ليں گے_ لوگو ميں تمہارے اس نبى كى بيٹى ہوں كہ جو تمہيں اللہ كے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو كچھ كرسكتے ہو اسے انجام دو ہم بھى تم سے انتقام ليں گے تم بھى انتظار كرو ہم بھى منتظر ہيں(1)_
-------
1) احتجاج طبرسي، طبع نجف 1386 ھ ج 1 131_141 _ شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 211_ كتاب بلاغات النسائ، تاليف احمد بن طاہر، متولد 204 ہجرى ص 12_ كشف الغمہ، ج 2 ص 106_
200
خليفہ كا ردّ عمل
حضرت زہرا (ع) نے اپنے آتشين بيان كو ہزاروں كے مجمع ميں جناب ابوبكر كے سامنے كمال شجاعت سے بيان كيا اور اپنى مدلل اور مضبوط تقرير ميں جناب ابوبكر سے فدك لينے كى وضاحت طلب كى اور ان كے ناجائز قبضے كو ظاہر كيا اور جو حقيقى خليفہ تھے ان كے كمالات اور فضائل كو بيان فرمايا_
لوگ بہت سخت پريشان ہوئے اور اكثر لوگوں كے افكار جناب زہراء (ع) كے حق ميں ہوگئے_ جناب ابوبكر بہت كشمكش__ _ ميں گھر گئے تھے، اگر وہ عام لوگوں كے افكار كے مطابق فيصلہ ديں اور فدك جناب زہراء (ع) كو واپس لوٹا يں تو ان كے لئے دو مشكليں تھيں_
ايك: انہوں نے سوچاگہ اگر حضرت زہراء (ع) اس معاملے ميں كامياب ہوگئيں اور ان كى بات تسليم كرلى گئي تو ''انہيں اس كا ڈر ہوا كہ'' كل پھر آئيں گى اور خلافت اپنے شوہر كو دے دينے كا مطالبہ كريں گى اور پھر پر جوش تقرير سے اس كا آغاز كريں گے_
ابن ابى الحديد لكھتے ہيں كہ ميں نے على بن فاروقى سے جو مدرسہ غربيہ بغداد كے استاد تھے عرض كى آيا جناب فاطمہ (ع) اپنے دعوے ميں سچى تھيں يا نہ، انہوں نے كہا كہ اس كے باوجود كہ جناب ابوبكر انہيں سچا جانتے تھے ان كو فدك واپس كيوں نہ كيا؟ استاد ہنسے اور ايك عمدہ جواب ديا اور كہا اگر اس دن فدك فاطمہ (ع) كو واپس كرديتے تو دوسرے دن وہ واپس آتيں اور خلافت كا اپنے شوہر كے لئے مطالبہ كرديتيں اور جناب ابوبكر
201
كو خلافت كے مقام سے معزول قرار دے ديتيں كيونكہ جب پہلے سچى قرار پاگئيں تو اب ان كے لئے كوئي عذر پيش كرنا ممكن نہ رہتا(1)_
دوسرے: اگر جناب ابوبكر جناب فاطمہ (ع) كى تصديق كرديتے تو انہيں اپنى غلطى كا اعتراف كرنا پڑتا اس طرح سے خلافت كے آغاز ميں ہى اعتراض كرنے والوں كا دروازہ كھل جاتا اور اس قسم كا خطرہ حكومت اور خلافت كے لئے قابل تحمل نہيں ہوا كرتا_
بہرحال جناب ابوبكر اس وقت ايسے نظر نہيں آرہے تھے كہ وہ اتنى جلدى ميدان چھوڑ جائيں گے البتہ انہوں نے اس قسم كے واقعات كے رونما ہونے كى پہلے سے پيشين گوئي كر ركھى تھى آپ نے سوچا اس وقت جب كہ موجودہ حالات ميں ملت كے عمومى افكار كو جناب زہراء (ع) نے اپنى تقرى سے مسخر كرليا ہے يہ مصلحت نہيں كہ اس كے ساتھ سختى سے پيش آيا جائے ليكن اس كے باوجود اس كا جواب ديا جانا چاہيئے اور عمومى افكار كو ٹھنڈا كيا جائے، بس كتنا___ اچھا ہے كہ وہى سابقہ پروگرام دھرايا جائے اور عوام كو غفلت ميں ركھا جائے اور دين اور قوانين كے اجراء كے نام سے جناب فاطمہ (ع) كو چپ كرايا جائے اور اپنى تقصير كو ثابت كيا جائے، جناب ابوبكر نے سوچا كہ دين كى حمايت اور ظاہرى دين سے دلسوزى كے اظہار سے لوگوں كے دلوں كو مسخر كيا جاسكتا ہے اور اس كے ذريعے ہر چيز كو يہاں تك كہ خود دين كو بھى نظرانداز كرايا جاسكتا ہے_ جى ہاں دين سے ہمدردى كے مظاہرے سے دين كے ساتھ دنيا ميں مقابلہ كيا جاتا ہے_
--------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 284_
202
جناب ابوبكر كا جواب
رسول اللہ (ص) كى بيٹى كے قوى اور منطقى اور مدلل دلائل كے مقابلے ميں جناب ابوبكر نے ايك خاص رويہ اختيار كيا اور كہا كہ اے رسول خدا(ص) كى دختر آپ كے باپ مومنين پر مہربان اور رحيم اور بلاشك محمّد(ص) آپ كے باپ ہيں اور كسى عورت كے باپ نہيں اور آپ كے شوہر كے بھائي ہيں اور على (ع) كو تمام لوگوں پر ترجيح ديا كرتے تھے، جو شخص آپ كو دوست ركھے گا وہى نجات پائے گا اور جو شخص آپ سے دشمنى كرے گا وہ خسارے ميں رہے گا، آپ پيغمبر(ص) كى عترت ہيں، آپ نے ہميں خير و صلاح اور بہشت كى طرف ہدايت كى ہے، اے عورتوں ميں سے بہترين عورت اور بہتر پيغمبر(ص) كى دختر، آپ كى عظمت اور آپ كى صداقت اور فضيلت اور عقل كسى پر مخفى نہيں ہے_ كسى كو حق نہيں پہنچتا كہ وہ آپ كو آپ كے حق سے محروم كرے، ليكن خدا كى قسم ميں رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے فرمان سے تجاوز نہيں كرتا جو كام بھى انجام ديتا ہوں آپ كے والد كى اجازت سے انجام ديتا ہوں قافلہ كا سردار تو قافلے سے جھوٹ نہيں بولتا خدا كى قسم ميں نے آپ كے والد سے سنا ہے كہ فرما رہے تھے كہ ہم پيغمبر(ص) سوائے علم و دانش اور نبوت كے گھر اور جائيدار و وراثت ميں نہيں چھوڑتے جو مال ہمارا باقى رہ جائے وہ مسلمانوں كے خليفہ كے اختيار ميں ہوگا، ميں فدك كى آمدنى سے اسلحہ خريدتا ہوں اور كفار سے جنگ كرونگا، مبادا آپ كو خيال ہو كہ ميں نے تنہا فدك پر قبضہ كيا ہے بلكہ اس اقدام ميں تمام مسلمان ميرے
203
موافق اور شريك ہيں، البتہ ميرا ذاتى مال آپ كے اختيار ميں ہے جتنا چاہيں لے ليں مجھے كوئي اعتراض نہيں، كيا يہ ہوسكتا ہے كہ ميں آپ كے والد كے دستورات كى مخالفت كروں؟
جناب فاطمہ (ع) كاجواب
جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبكر كى اس تقرير كا جواب ديا_ سبحان اللہ، ميرے باپ قرآن مجيد سے روگردانى نہيں كرسكتے اور اسلام كے احكام كى مخالفت نہيں كرتے كيا تم نے اجماع كرليا ہے كہ خلاف واقع عمل كرو اور پھر اسے ميرے باپ كى طرف نسبت دو؟ تمہارا يہ كام اس كام سے ملتا جلتا ہے جو تم نے ميرے والد كى زندگى ميں انجام ديا_ كيا خدا نے جناب زكريا كا قول قرآن ميں نقل نہيں كيا جو خدا سے عرض كر رہے تھے،
فہب لى يرثنى و يرث من آل يعقوب (1)_
خدايا مجھے ايسا فرزند دے جو ميرا وارث ہو اور آل يعقوب كا وارث ہو_ كيا قرآن ميں يہ نہيں ہے_
ورث سليمان داؤد (2)_
سليمان داؤد كے وارث ہوئے_ كيا قرآن ميں وراثت كے احكام موجود نہيں ہيں؟ كيوں نہيں، يہ تمام مطالب قرآن ميں موجود ہيں اور تمہيں بھى اس
----------
1) سورہ مريم آيت6_
2) سورہ نمل آيت 16_
204
كى اطلاع ہے ليكن تمہارا ارادہ عمل نہ كرنے كا ہے اور ميرے لئے بھى سواے صبر كے اور كوئي چارہ نہيں_
جناب ابوبكر نے اس كا جواب ديا كہ خدا رسول (ص) اور تم سچ كہتى ہو، ليكن يہ تمام مسلمان ميرے اور اپ كے درميان فيصلہ كريں گے كيونكہ انہوں نے مجھے خلافت كى كرسى پر بٹھايا ہے اور ميں نے ان كى رائے پر فدك ليا ہے (1)_
جناب ابوبكر نے ظاہرسازى اور عوام كو خوش كرنے والى تقرير كر كے ايك حد تك عوام كے احساسات اور افكار كو ٹھنڈا كرديا اور عمومى افكار كو اپنى طررف متوجہ كرليا_
جناب خليفہ كا ردّ عمل
مجلس در ہم برہم ہوگئي ليكن پھر بھى اس مطلب كى سر و صدا خاموش نہ ہوئي اور اصحاب كے درميان جناب زہراء (ع) كى تقرير كے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئي اور اس حد تك يہ مطلب موضوع بحث ہوگيا كہ جناب ابوبكر مجبور ہوگئے كہ ملت سے تہديد اور تطميع سے پيش آئيں_
لكھا ہے كہ جناب زہراء (ع) كى تقرير نے مدينہ كو جو سلطنت اسلامى كا دارالخلافة تك منقلب كرديا_ لوگوں كے اعتراض اور گريہ و بكا كى آوازيں بلند ہوئيں لوگ اتنا روئے كہ اس سے پہلے اتنا كبھى نہ روئے تھے_
---------
1) احتجاج طبرسي، ج 1 ص 141_
205
جناب ابوبكر نے جناب عمر سے كہا تم نے فدك فاطمہ (ع) كو دے دينے سے مجھے كيوں روكا اور مجھے اس قسم كى مشكل ميں ڈال ديا؟ اب بھى اچھا ہے كہ ہم فدك كو واپس كرديں اور اپنے آپ كو پريشانى ميں نہ ڈاليں_
جناب عمر نے جواب ديا _ فدك كے واپس كردينے ميں مصلحت نہيں اور يہ تم جان لو كہ ميں تيرا خيرخواہ اور ہمدرد ہوں_ جناب ابوبكر نے كہا كہ لوگوں كے احساسات جو ابھرچكے ہيں ان سے كيسے نپٹا جائے انہوں نے جواب ديا كہ يہ احساسات وقتى اور عارضى ہيں اور يہ بادل كے ٹكڑے كے مانند ہيں_ تم نماز پڑھو، زكوة دو، امر بالمعروف اور نہى عن المنكر كرو، مسلمانوں كے بيت المال ميں اضافہ كرو اور صلہ رحمى بجالاؤ تا كہ خدا تيرے گناہوں كو معاف كردے، اس واسطے كہ خدا قرآن ميں فرماتا ہے، نيكياں برائيوں كو ختم كرديتى ہيں_ حضرت ابوبكر نے اپنا ہاتھ جناب عمر كے كندھے پر ركھا اور كہا شاباش تم نے كتنى مشكل كو حل كرديا ہے_
اس كے بعد انہوں نے لوگوں كو مسجد ميں بلايا اور ممبر پر جاكر اللہ تعالى كى حمد و ثنا كے بعد كہا، لوگو يہ آوازيں اور كام كيا ہيں ہر كہنے والا آرزو ركھتا ہے، يہ خواہشيں رسول(ص) كے زمانے ميں كب تھيں؟ جس نے سنا ہو كہے اس طرح نہيں ہے بلكہ يہ اس كا مطالبہ اس لومڑى جيسے ہے كہ جس كى گواہ اس كى دم تھي_
اگر ميں كہنا چاہوں تو كہہ سكتا ہوں اور اگر كہوں تو بہت اسرار واضح كردوں، ليكن جب تك انہيں مجھ سے كوئي كام نہيں ميں ساكت رہوں گا، اب لڑى سے مدد لے رہے ہيں اور عورتوں كو ابھار رہے ہيں_
206
اے رسول خدا(ص) كے اصحاب مجھے بعض نادانوں كى داستان پہنچى ہے حالانكہ تم اس كے سزاوار ہو كہ رسول خدا(ص) كے دستور كى پيروى كرو تم نے رسول(ص) كو جگہ دى تھى اور مدد كى تھى اسى لئے سزاوار ہے كہ تم رسول خدا(ص) كے دستور سے انحراف نہ كرو_ اس كے باوجود كل آنا اور اپنے وظائف اور حقوق لے جانا اور جان لو كہ ميں كسى كے راز كو فاش نہيں كروں گا اور ہاتھ اور زبان سے كسى كو اذيت نہيں دوں گا مگر اسے جو سزا كا مستحق ہوگا (1)_
جناب ام سلمہ(ع) كى حمايت
اس وقت جناب امّ سلمہ (ع) نے اپنا سر گھر سے باہر نكالا اور كہا اے ابوبكر، آيا يہ گفتگو اس عورت كے متعلق كر رہے ہو جسے فاطمہ (ع) كہتے ہيں اور جو انسانوں كى شكل ميں حور ہے، اس نے پيغمبر(ص) كے دامن ميں پرورش پائي اور فرشتوں سے مصافحہ كرتى تھي، اور پاكيزہ گود ميں پرورش پائي ہے اور بہترين ماحول ميں ہوش سنبھالا ہے_ آيا گمان كرتے ہو كہ رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو ارث سے محروم كيا ہے، ليكن خود اس كو نہيں بتلايا؟ حالانكہ خدا پيغمبر(ص) كو حكم ديتا ہے كہ اپنے رشتہ داروں كو انذاز كرو اور ڈراؤ يا تم احتمال ديتے ہو كہ پيغمبر(ص) نے تو اسے بتلايا ہو ليكن وہ اس كے باوجود وراثت كا مطالبہ كر رہى ہو، حالانكہ وہ عالم كى عورتوں سے بہترہے اور بہترين جوانوں كى ماں ہے
------
1) دلائل الامامہ، ص 38_
207
اور جناب مريم كے ہم پايہ ہے اور اس كا باپ خاتم پيغمبران ہے، خدا كى قسم رسول خدا(ص) فاطمہ (ع) كى گرمى اور سردى سے حفاظت كيا كرتے تھے اور سوتے وقت اپنا داياں ہاتھ فاطمہ (ع) كے نيچے اور باياں ہاتھ اس كے جسم پر ركھتے كرتے تھے، ذرا نرم ہوجاؤ اور آہستہ رونيؤ، ابھى تو رسول خدا(ص) تمہارى آنكھوں كے سامنے ہيں اور جلد ہى تم خدا كے حضور وارد ہوگے اور اپنے كئے كا نتيجہ ديكھو گے_ جناب امّ سلمہ نے جناب فاطمہ (ع) كى حمايت كى ليكن انہيں ايك سال تك حقوق سے محروم كرديا گيا (1)_
قطع كلامي
جناب زہراء (ع) نے ارادہ كرليا كہ اس كے باوجود بھى اپنے مبارزے كو باقى ركھيں، اپنے اس پروگرام كے لئے انہوں نے قطع كلام كرنے كا فيصلہ كرليا اور رسمى طور پر جناب ابوبكر كے متعلق اعلان كر ديا كہ اگر تم ميرا فدك واپس نہيں كروگے تو ميں تم سے جب تك زندہ ہوں گفتگو اور كلام نہيں كروں گي_ آپ كا جہاں كہيں بھى جناب ابوبكر سے آمنا سامنا ہوجاتا تو اپنا منھ پھير ليتيں اور ان سے كلام نہ كرتى تھيں(2)_
مگر جناب فاطمہ (ع) ايك عام فرد نہ تھيں كہ اگر انہوں نے اپنے خليفہ سے قطع كلامى كى تو وہ چندان اہميت نہ ركھتى ہو؟ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى عزيز بيٹى رسول خدا(ص) كى حد سے زيادہ محبت كسى پر پوشيدہ نہ
--------
1) دلائل الامامہ، ص 39_
2) كشف الغمہ، ج 2 ص 103_ شرح ابن ابى الحديد، ج 6 ص 46_
208
تھى _ آپ وہ ہے كہ جس كے متعلق پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے _ جو اسى اذيت دے اس نے مجھے اذيت دى ہے _(ا)
اور آپ فرماتے ہيں كہ فاطمہ (ع) ان عورتوں ميں سے ہيں كہ جن كے ديدار كے لئے بہشت مشتاق ہے _(2)
جى ہاں پيغمبر (ص) اور خدا كى محبوب خاتون نے جناب ابو بكر سے قطع كلامى كا مبارزہ كررہا ہے آپ ان سے بات نہيں كرتيں آہستہ آہستہ لوگوں ميں شائع اور مشہور ہوگيا كہ پيغمبر(ص) كى دختر جناب ابوبكر سے رتھى ہوئي ہے اور ان پر خشمناك ہے _ مدينہ كے باہر بھى لوگ اس موضوع سے باخبر ہوچكے تھے تمام لوگ ايك دوسرے سے سؤال كرتے تھے كہ جنا ب فاطمہ (ع) كيوں خليفہ كے ساتھ بات نہيں كرتيں ؟ ضرور اس كى وجہ وہى فدك كا زبردستى لے لينا ہوگا _ فاطمہ (ع) جھوٹ نہيں بولتيں اور اللہ تعالى كى مرضى كے خلاف كسى پر غضبناك نہيں ہوتيں كيونكہ پيغمبر خدا (ص) نے ان كے بارے ميں فرمايا تھا كى اگر فاطمہ (ع) غضب كرے تو خدا غضب كرتا ہے _
---------
ا_ صحيح مسلم ، ج 3 ص 03ا_
2_ كشف الغمہ ، ج 2 ص 92_
3_ كشف الغمہ ، ج 2 ص 84_
209
اس طرح ملت اسلامى كے احساسات روزبروز وسيع سے وسيع تر ہو رہے تھے اور خلافت كے خلاف نفرت ميں اضافہ ہو رہا تھا_ خلافت كے كاركن يہ تو كرسكتے تھے كہ جناب فاطمہ (ع) كے قطع روابط سے چشم پوشى كرليتے جتنى انہوں نے كوشش كى كہ شايد وہ صلح كراديں ان كے لئے ممكن نہ ہوسكا_ فاطمہ (ع) اپنے ارادے پر ڈٹى ہوئي تھيں اور اپنے منفى مبارزے كو ترك كرنے پر راضى نہ ہوتى تھيں_
جب جناب فاطمہ (ع) بيمار ہوئيں تو جناب ابوبكر نے كئي دفعہ جناب فاطمہ (ع) سے ملاقات كى خواہش ظاہر كى ليكن اسے رد كرديا گيا، ايك دن جناب ابوبكر نے اس موضوع كو حضرت على (ع) كے سامنے پيش كيا اور آپ سے خواہش كى آپ جناب فاطمہ (ع) كى عيادت كا وسيلہ فراہم كريں اور آپ سے ملاقات كى اجازت حاصل كريں_ حضرت على عليہ السلام جناب فاطمہ (ع) كے پاس گئے اور فرمايا اے دختر رسول(ص) جناب عمر اور ابوبكر نے ملاقات كى اجازت چاہى ہے آپ اجازت ديتى ہيں كہ وہ آپ كى خدمت ميں حاضر ہوجائيں، جناب زہرا (ع) حضرت على (ع) كے مشكلات سے آگاہ تھيں آپ نے جواب ديا، گھر آپ كا ہے اور ميں آپ كے اختيار ميں ہوں جس طرح آپ مصلحت ديكھيں عمل كريں يہ فرمايا اور اپنے اوپر چادران لى اور اپنے منھ كو ديوار كى طرف كرديا_
جناب ابوبكر اور عمر گھر ميں داخل ہوئے اور سلام كيا اور عرض كى اے پيغمبر(ص) كى دختر ہم اپنى غلطى كا اعتراف كرتے ہيں آپ سے خواہش كرتے ہيں كہ آپ ہم سے راضى ہوجائيں آپ نے فرمايا كہ ميں ايك بات تم سے پوچھتى ہوں اس كا مجھے جواب دو، انہوں نے عرض كى فرمايئےآپ نے فرمايا تمہيں خدا كى قسم ديتى ہوں___ كہ آيا تم نے ميرے باپ سے يہ سنا تھا كہ آپ نے فرمايا كہ
210
فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے جو اسے اذيت دے اس نے مجھے اذيت دى ہے انہوں نے عرض كيا ہاں ہم نے يہ بات آپ كے والدسے سنى ہے اس وقت آپ نے اپنے مبارك ہاتھوں كو آسمان كى طرف اٹھايا اور كہا اے ميرے خدا گواہ رہ كہ ان دو آدميوں نے مجھے اذيت دى ہے ان كى شكايت تيرى ذات اور تيرے پيغمبر(ص) سے كرتى ہوں ميں_ ہرگز راضى نہ ہوں گى يہاں تك كہ اپنے بابا سے جاملوں اور وہ اذيتيں جو انہوں نے مجھے دى ہيں ان سے بيان كروں تا كہ آپ ہمارے درميان فيصلہ كريں جناب ابوبكر جناب زہرا (ع) كى يہ بات سننے كے بعد بہت غمگين اور مضطرب ہوئے ليكن جناب عمر نے كہا اے رسول (ص) كے خليفہ، ايك عورت كى گفتگو سے ناراحت ہو رہے ہو (1)_
يہاں پڑھنے والوں كے دلوں ميں يہ بات آسكتى ہے كہ وہ كہيں كہ گرچہ جناب ابوبكر نے جناب فاطمہ (ع) سے فدك لے كر اچھا كام نہيں كيا تھا ليكن جب وہ پشيمانى اور ندامت كا اظہار كر رہے ہيں تو اب مناسب يہى تھا كہ ان كا عذر قبول كرليا جاتا ليكن اس نكتہ سے غافل نہيں رہتا چاہيئے كہ حضرت زہرا (ع) كے مبارزے كى اصلى علت اور وجہ خلافت تھى فدك كا زبردستى لے لينا اس كے ذيل ميں آتا تھا اور خلافت كا غصب كرنا ايسى چيز نہ تھى كہ جسے معاف كيا جاسكتا ہو اور اس سے چشم پوشى كى جاسكتى ہو اور پھر جناب زہراء (ع) جانتى تھيں كہ حضرت ابوبكر يہ سب كچھ اس لئے كہہ رہے ہيں تا كہ اس اقدام سے عوام كو دھوكہ ميں ركھا جاسكے اور وہ اپنے كردار پر نادم اور پشيمان نہ تھے كيونكہ ندامت كا طريقہ عقلا كے لحاظ سے يہ تھا كہ وہ حكم ديتے كہ فدك كو فوراً جناب فاطمہ (ع) كے حوالے
---------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 198_
211
كردو اور اس كے بعد آپ آتے اور معاف كردينے كى خواہش كرتے اور كہتے كہ ہم اپنے اس اقدام پر پشيمان اور نادم ہوچكے ہيں تو اس بات كو صداقت پر محمول كيا جاسكتا تھا_
شب ميں تدفين
جناب زہراء (ع) اپنے ہدف اور مقصد ميں اس قدر استقامت ركھتى تھيں كہ اس كے لئے اپنى زندگى كى آخرى گھڑى ميں بھى مبارزہ كرتى گئيں بلكہ اپنے مبارزہ كا دامن قيامت تك پھيلا گئيں پڑھنے والوں كو تعجب ہوگا كہ كسى شخص كے لئے كيسے ممكن ہوگا كہ وہ اپنے مبارزہ اور مقابلے كو موت كے بعد بھى باقى ركھے، ليكن فاطمہ (ع) كہ جس نے وحى كے گھر ميں تربيت حاصل كى تھى ايك ايسا منصوبہ بتايا تا كہ ان كا مبارزہ اور مقابلہ موت كے وقت تك ختم نہ ہوجائے_ جناب زہراء (ع) نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اپنے شوہر على (ع) كو بلايا اور وصيت كى اے على (ع) مجھے رات كو غسل ديتا اور رات كو كفن دينا اور مخفى طور پر دفن كرنا_ ميں راضى نہيں ہوں كہ جن لوگوں نے ميرا پہلو زخمى كيا ہے جس سے ميرا بچہ ساقط ہوا اور ميرے مال پر قبضہ كرليا ہے وہ ميرے جنازے كى تشيع كريں_ ميرى قبر كو بھى چھپاكر ركھنا_ حضرت على (ع) نے بھى جناب زہراء (ع) كى وصيت كے مطابق آپ كو رات ميں دفن كيا اور آپ كى قبر كو ہموار كرديا اور چاليس قبريں نئي بنائيں كہ كہيں آپ كى قبر پہچانى نہ جائے (1)_
حضرت زہراء (ع) نے اس منصوبے اور نقشے سے اپنے حريف پر آخرى وار
-------
1) دلائل الامامہ_ مناقب ابن شہر آشوب، ج 3 ص 363_
212
كيا اور ايك زندہ اور مضبوط سند اپنى مظلوميت اور حكومت كى زبردستى كے لئے ہميشہ كے لئے باقى چھوڑ گئيں_
كيونكہ ہر مسلمان يہ چاہے گا كہ اسے علم ہو كہ پيغمبر اسلام(ص) كى عزيز بيٹى كى قبر كہاں ہے جب اسے معلوم ہوگا كہ اس كى قبر معلوم نہيں ہے تو پوچھے گا كيوں؟ جواب سنے گا خود جناب زہرا (ع) نے وصيت كى تھى كہ اس كى قبر مخفى ركھى جائے_ اس وقت اسے قبر كے مخفى ہونے كى علت معلوم ہوجائے گى اور سمجھ لے گا كہ آپ وقت كى خلافت سے ناراض تھيں اور آپ كا جنازہ اس محيط خفيہ آور ميں دفن ہوا اس وقت سوچے گا كہ ہوسكتا ہے كہ پيغمبر اسلام(ص) كى دختر ان فضائل اوركمالات كے باوجود اپنے باپ كے خليفہ سے ناراض ہوں اور پھر اس كى خلافت بھى درست اور صحيح ہو؟ يہ چيز ممكن نہيں پس معلوم ہوتا ہے كہ اس كى خلافت پيغمبر(ص) اور ان كے خاندان كے نظريئے كے خلاف واقع ہوئي تھى جو كسى طرح بھى صحيح قرار نہيں دى جاسكتي_
نتيجہ
گرچہ جناب ابوبكر جناب زہراء (ع) كے دلائل اور مبارزات كے سامنے ڈٹے رہے اور حاضر نہ ہوئے كہ فدك جناب فاطمہ (ع) كو واپس كرديں ليكن انہى حضرت زہراء (ع) نے انہيں مبارزات كے ذريعے عالم اسلام پر خلافت اور حكومت كى زيادتيوں اور اپنى حقانيت كو ثابت كرديا_ يہى فدك خلافت كے لئے ايك بم اور مثل استخوان كے ثابت ہوا جوان كے گلے ميں پھنس كررہ گيا بہت مدت تك وہ حكومت كا نقطہ ضعف اور ايك اہم پروپيگنڈا اس كے خلاف شمار ہوتا ر ہا كے حل سے عاجز تھے_ كبھى سادات كى موافقت
213
حاصل كرنے كے لئے فدك ان كو دے ديا جاتا تھا اور كبھى ان سے خشمناك ہوتے تھے تو واپس لے ليا جاتا تھا_ جب معاويہ كے ہاتھ ميں اقتدار آيا تو اس نے فدك ك ايك تہائي مروان كو اور ايك تہائي عمر بن عثمان كو اور ايك تہائي اپنے بيٹے يزيد كو بخش ديا_ مروان كى خلافت كے زمانے ميں پورا فدك اس كے اختيار ميں تھا اور اس نے اسے اپنے بيٹے عبدالعزيز كو دے ديا عبدالعزيز نے اسے اپنے بيٹے عمر بن عبدالعزيز كو دے ديا اور جب عمر بن عبدالعزيز خلافت پر متمكن ہوا تو فدك كو جناب حسن بن حسن يا على بن الحسين كو واپس كرديا_
عمر بن عبدالعزيز كى خلافت كے دوران فدك جناب فاطمہ (ع) كى اولاد كے ہاتھ ميں رہا اور جب يزيد بن عاتكہ كو حاكم بناياگيا تو اس نے فدك جناب فاطمہ (ع) كى اولاد سے لے ليا اور پھر بنى مروان كے قبضے ميں دے ديا، يہ ان كے پاس رہا يہاں تك كہ خلافت ان كے ہاتھ سے نكل گئي_ جب صفّاح خلافت پر قابض ہوا تو اس نے فدك جناب عبداللہ بن حسن كو دے ديا اور جب ابوجعفر عباسى اولاد حسن پر غضبناك ہوا تو فدك ان سے واپس لے ليا اس كے بعد پھر مہدى عباسى نے فدك فاطمہ (ع) كى اولاد كو واپس كرديا، اس كے بعد موسى بن مہدى اور ہارون نے اسے واپس لے ليا اور اس كے پاس مامون كے حاكم بننے تك رہا اور اس نے پھر فاطمہ (ع) كى اولاد كو واپس كرديا_
ايك دن مامون قضاوت كى محفل ميں بيٹھا ہوا تھا كہ ايك خط اسے ديا گيا، جب اس نے اسے پڑھا تو رود يا اس كے بعد كہا كہ فاطمہ (ع) كا وكيل كون ہے اور كہاں ہے؟ ايك بوڑھا آدمى اٹھا اور اس كے نزديك گيا_ مامون نے فدك كے بارے ميں اس سے مباحثہ شروع كرديا وہ بوڑھا اس پر غالب آيا_ تو
214
مامون نے حكم ديا كہ فدك كو قبالہ كى صورت ميں لكھ كر اسے دے ديا جائے اس كے بعد يہ فاطمہ (ع) كى اولاد كے پاس متوكل كے زمانے تك رہا اس نے فدك كو عبداللہ بن عمر بازيار كو دے ديا_
فدك ميں خرما كے گيارہ درخت ايسے تھے كہ جنہيں خود رسول اللہ (ص) نے لگايا تھا فاطمہ (ع) كى اولاد ان د رختوں سے خرمالے كرحج كے موقع پر حاجيوں كو ہديہ ديتيں اور حاجى ان كے عوض ان كى اچھى خاصى مدد كرديتے اور ان كے پاس اس ذريعہ سے اچھا خاصہ مال اكٹھا ہوجاتا_ عبداللہ بن عمر بازيار نے بشر ان بن ابى اميہ ثقفى كو بھيجا اور ان درختوں كو كٹواديا(1)_
جناب فاطمہ (ع) كے مبارزات كا ہى نتيجہ تھا كہ جناب عمر باوجود اس سختى كے جو اس كے وجود ميں تھي، جناب فاطمہ (ع) كو صدقات مدينہ بلكہ جو بھى جناب فاطمہ (ع) كے ادّعا ميں داخل تھے انہيں واپس كرديئےھے(2)_
---------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 216_
2) كشف الغمہ، ج 2 ص 100_
|