149
حصّہ پنجم
جناب فاطمہ (ع) باپ كے بعد
150
پيغمبر اسلام(ص) نے سنہ ہجرى كو تمام مسلمانوں كو حج بجالانے كى دعوت دى اور آپ آخرى دفعہ مكہ مشرف ہوئے آپ نے مسلمانوں كو حج كے اعمال اور مراسم بتلائے اور واپسى پر جب آپ غدير خم پہنچے تو وہاں ٹھہرگئے اور مسلمانوں كو اكٹھا كيا اور اس كے بعد آپ منبر پر تشريف لے گئے اور على ابن ابيطالب (ع) كو اپنا جانشين اور خليفہ معين فرمايا اس كے بعد مسلمانوں نے حضرت على (ع) كى بيعت كى اور اپنے اپنے شہروں كو واپس چلے گئے اور رسول خدا(ص) بھى مدينہ واپس لوٹ آئے، آپ سفر كى مراجعت كے بعد مريض ہوگئے آپ كى حالت دگرگوںہوتى گئي، آپ كے احوال سے معلوم ہو رہا تھا كہ آپ كى وفات كا وقت آگيا ہے_ كبھى كبھار كسى مناسبت سے اپنے اہل بيت كى سفارش فرمايا كرتے تھے، كبھى جنت البقيع كے قبرستان جاتے اورمردوں كے لئے طلب مغفرت كرتے_
جناب فاطمہ (ع) نے حجة الوداع كے بعد خواب ديكھا كہ ان كے ہاتھ ميں قرآن ہے اور اچانك وہ ان كے ہاتھ سے گرا_ اورغائب ہوگيا_ آپ وحشت زدہ جاگ اٹھيں اور اپنے خواب كواپنے والد كے سامنے نقل كيا، جناب رسول خدا(ص)
151
نے فرمايا،ميرى آنكھوں كى نور ہيں وہ قرآن ہوں كہ جس كو تم نے خواب ميںديكھا ہے، انہيں دنوں ميں نگاہوں سے غائب ہوجاؤں گا(1)_
آپ پر آہستہ آہستہ بيمارى كے آثار ظاہر ہونے لگے_ آپ نے ايك لشكر جناب اسامہ كى سپہ سالارى ميں مرتب كيا اورفرمايا كہ تم روم كى طرف روانہ ہوجاؤ، آپ نے چند آدميوںكے خصوصيت سے نام لئے اورفرمايا كہ يہ لوگ اس جنگ ميں ضرور شريك ہوں آپ كى اس سے غرض يہ تھى كہ مدينہ ميں كوئي منافق نہ رہے اور خلافت اعلى كا مسئلہ كسى كى مدافعت اور مخالفت كے بغير حضرت على (ع) كے حق ميں طے ہوجائے_ رسول خدا(ص) كى بيمارى ميں شدت آگئي اور گھر ميں صاحب فراش ہوگئے_ پيغمبر(ص) كى بيمارى نے جناب فاطمہ (ع) كو وحشت اور اضطراب ميں ڈال ديا، كبھى آپ باپ كے زرد چہرے اور ان كے اڑے ہوئے رنگ كو ديكھتيں اور روديتيں اور كبھى باپ كى صحت اور سلامتى كے لئے دعا كرتيں اور كہتيں خدايا ميرے والد نے ہزاروں رنج اور مشقت سے اسلام كے درخت كا پودا لگايا ہے اور ابھى ثمر آور ہوا ہى ہے اور فتح و نصرت كے آثار ظاہر ہوئے ہيں_
مجھے اميد ہوگئي تھى كہ ميرے والد كے واسطے سے دين اسلام غالب ہوجائے گا اور كفر اور بت پرستي، ظلم اور ستم ختم ہوجائيں گے ليكن صد افسوس كے ميرے باپ كى حالت اچھى نہيں_ خدايا تجھ سے ان كى شفا اور صحت چاہتى ہوں_
پيغمبر(ص) كى حالت شديدتر ہوگئي اور بيمارى كى شدت سے بيہوش ہوگئے
--------
1) رياحين الشريعة، ج 1 ص 239_
152
جب ہوش ميں آئے اور ديكھا جناب ابوبكر اور عمر اور ايك گروہ كہ جن كو اسامہ كے لشكر ميں شريك ہوتا تھا شريك نہيں ہوئے اور مدينہ ميں رہ گئے ہيں آپ نے ان سے فرمايا كہ كيا ميں نے تم سے نہيں كہا تھا كہ اسامہ كے لشكر ميں شريك ہوجاؤ؟ ہر ايك نے اپنے جواب ميں كوئي عذر اور بہانہ تراشا، ليكن پيغمبر(ص) كو ان كے خطرناك عزائم اور ہدف كا علم ہوچكا تھا اور جانتے تھے كہ يہ حضرات خلافت كے حاصل كرنے كى غرض سے مدينہ ميں رہ گئے ہيں_
اس وقت پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ كاغذ اور دوات لاؤ تا كہ ميں وصيت لكھ دوں حاضرين ميں سے بعض نے چاہا كہ آپ كے حكم پر عمل كيا جائے ليكن حضرت عمر نے كہا_ كہ آپ پر بيمارى كا غلبہ ہے، ہذيان كہہ رہے ہيں لہذا قلم و قرطاس دينے كى ضرورت نہيں ہے(1)_
جناب زہراء (ع) يہ واقعات ديكھ رہى تھيں آور آپ كا غم اور اندوہ زيادہ ہو رہا تھا اپنے آپ سے كہتى تھيں كہ ابھى سے لوگوں ميں اختلاف اور دوروئي كے آثار ظاہر ہونے لگے ہيں_ ميرے باپ كے كام اور حكم اللہ كى وحى سے سرچشمہ ليتے ہيں اور آپ ملت كے مصالح اور منافع كو مد نظر ركھتے ہيں پس كيوں لوگ آپ كے فرمان سے روگرانى كرنے لگے ہيں، گويا مستقبل بہت خطرناك نظر آرہا ہے گويا لوگوں نے مصمّم ارادہ كرليا ہے كہ ميرے والد كى زحمات كو پائمال كرديں_
تعجب اور تبسم
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى حالت سخت ہوگئي آپ نے
---------
1) الكامل فى التاريخ، ج 2 ص 217 و صحيح بخاري، ج 3 ص 1259_
153
اپنا سر مبارك حضرت على (ع) كے زانو پر ركھا اور بے ہوش ہوگئے، حضرت زہراء (ع) اپنے باپ كے نازنين چہرے كو ديكھتيں اور رونے لگتيں اور فرماتيں_ آہ، ميرے باپ كى بركت سے رحمت كى بارش ہوا كرتى تھى آپ يتيموں كى خبر لينے والے اور بيواؤں كے لئے پناہ گاہ تھے_ آپ كے رونے كى آواز پيغمبر(ص) كے كانوں تك پہنچى آپ نے آنكھيں كھوليں اور نحيف آواز ميں فرمايا بيٹى يہ آيت پڑھو_
''و ما محمد الّا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افائن مات اور قتل انقلبتم على اعقابكم'' (1)
موت سے گريز نہيں جيسے سابقہ پيغمبر(ص) مرگئے ہيں ميں بھى مروں گا كيوں ملت اسلامى ميرے ہدف كا پيچھا نہيں كرتى اور اس كے ختم كرنے اور لوٹ جانے كا قصد ركھتى ہے_
اس گفتگو كے سننے سے حضرت زہراء (ع) كے رونے ميں شدت پيدا ہوگئي رسول خدا كى حالت اپنى بيٹى كو روتے اور پريشان ديكھ دگرگوں ہوگئي_ آپ نے انہيں تسلى دينا چاہى مگر كيا آپ كو آسانى سے آرام ميں لايا جاسكتا تھا؟ اچانك آپ كى فكر ميں ايك چيز آئي، جناب فاطمہ (ع) سے فرمايا ميرے پاس آؤ جب جناب فاطمہ (ع) اپنا چہرہ اپنے باپ كے نزديك لے گئيں تو آپ نے جناب فاطمہ (ع) كے كان ميں كچھ كہا_ حاضرين نے ديكھا كہ جناب فاطمہ (ع) كا چہرہ روشن ہوگيا اور آپ مسكرانے لگيں، اس بے جا ہنسى اور تبسم پر حاضرين نے تعجب كيا تبسم كى علت آپ سے دريافت كى تو آپ نے فرمايا كہ جب تك ميرے باپ
------------
1) سورہ آل عمران، آيت ص 144_
154
زندہ ہيں ميں يہ راز فاش نہيں كروں گى آپ نے آن جناب كے فوت ہونے كے بعد اس راز سے پردہ اٹھايا اور فرمايا كہ ميرے باپ نے ميرے كان ميں يہ فرمايا تھا كہ فاطمہ (ع) تمہارى موت نزديك ہے تو پہلى فرد ہوگى جو مجھ سے ملحق ہوگى (1)_
انس نے كہا ہے كہ اس زمانے ميں جب پيغمبر(ص) بيمار تھے جناب فاطمہ (ع) نے امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كا ہاتھ پكڑا اور باپ كے گھر آئيں اپنے آپ كو پيغمبر(ص) كے جسم مبارك پر گراديا اور پيغمبر(ص) كے سينے سے لگ كر رونے لگيں_ پيغمبر(ص) نے فرمايا، فاطمہ (ع) روو مت، ميرى موت پر منھ پر طمانچے نہ مارتا، بالوں كو پريشان نہ كرنا، ميرے لئے رونے اور نوحہ سرائي كى مجلس منعقد كرنا اس كے بعد پيغمبر خدا(ص) كے آنسو جارى ہوگئے اور فرمايا اے ميرے خدا ميں اپنے اہلبيت كو تيرے اور مومنين كے سپرد كرتا ہوں (2)_
راز كى پرستش
امام موسى كاظم عليہ السلام فرماتے ہے كہ پيغمبر(ص) نے اپنى زندگى كى آخرى رات حضرات علي، فاطمہ، حسن اور حسين عليہم السلام كى دعوت كى اور گھر كا دروازہ بند كرديا اور انہيں كے ساتھ تنہائي ميں رہے جناب فاطمہ (ع) كو اپنے پاس بلايا اور كافى وقت تك آپ كے كان ميں كچھ فرماتے رہے چونكہ آپ كي
----------
1) الكامل فى التاريخ، ج 2 ص 219 و بحار الانوار، ج 22 ص 470_ ارشاد مفيد، ص 88 طبقات ابن سعد، ج 2 قسمت دوم ص 39، 40_ صحيح مسلم، ج 4 ص 1095_
2_ بحار الانوار، ص 22 ص 460_
155
گفتگو طويل ہوگئي تھى اس لئے حضرت على (ع) اور حضرت حسن (ع) اور حضرت حسين (ع) وہاں سے چلے آئے تھے اور دروازے پر آكھڑے ہوئے تھے اور لوگ دروازے كے پيچھے كھڑے ہوئے تھے_ پيغمبر(ص) كى ازواج حضرت على (ع) كو ديكھ رہى تھيں_ جناب عائشےہ نے حضرت على (ع) سے كہا كہ كيوں پيغمبر(ص) نے آپ كو اس وقت وہاں سے باہر نكال ديا ہے اور فاطمہ (ع) كے ساتھ تنہائي ميں ہيں آپ نے جواب ديا ميں جانتا ہوں كس غرض كے لئے اپنى بيٹى سے خلوت فرمائي ہے اور كون سے راز انہيں بتلا رہے ہيں؟ تمہارے والد اور ان كے ساتھيوں كے كاموں كے متعلق گفتگو فرما رہے ہيں_ جناب عائشےہ ساكت ہوگئيں_
حضرت على (ع) نے فرمايا بہت زيادہ دير نہ گزرى تھى كہ جناب فاطمہ (ع) نے مجھے بلايا جب ميں اندر گيا تو ديكھا كہ پيغمبر(ص) كى حالت خطرناك ہے تو ميں اپنے آنسؤں پر قابو نہ ركھا سكا_ جناب پيغمبر(ص) نے فرمايا يا على (ع) كيوں روتے ہو فراق اور جدائي كا وقت آپہنچا ہے تمہيں خدا كے سپرد كرتا ہوں اور پروردگار كى طرف جا رہا ہوں، ميرا غم اور اندوہ تمہارے اور زہراء (ع) كے واسطے ہے اس لئے كہ لوگوں نے ارادہ كيا ہے كہ تمہارے حقوق كو پائمال كريں اور تم پر ظلم ڈھائيں، تمہيں خدا كے سپرد كرتا ہوں خدا ميرى امانت قبول فرمائے گا_
يا على (ع) چند ايك اسرار ميں نے فاطمہ (ع) كو بتلائے ہيں وہ تمہيں بتلائيں گى ميرے دستورات پر عمل كرنا اور يہ جان لو كہ فاطمہ (ع) سچى ہے اس كے بعد پيغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو بغل ميں ليا آپ كے سر كا بوسہ ليا اور فرمايا، بيٹى فاطمہ (ع) تيرا باپ قربان جائے اس وقت زہراء (ع) كے رونے كى صدا بلند ہوگئي_ پيغمبر (ص) نے فرمايا خدا ظالموں سے تمہارا انتقام لے گا_ واى ہو ظالموں پر_ اس كے بعد آپ نے رونا شروع كرديا_
156
حضرت على (ع) فرماتے ہيں كہ پيغمبر(ص) كے آنسو بارش كى طرح جارى تھے آپ كى ريش مبارك تر ہوگئي اور آپ اس حالت ميں فاطمہ (ع) سے جدا نہ ہوئے تھے، اور آپ نے سر مبارك ميرے سينے پر ركھے ہوئے تھے اور حسن (ع) اور حسين (ع) آپ كے پاؤں كا بوسہ لے رہے تھے اور چيخ چيخ كر رو رہے تھے، ميں ملائكہ كے رونے كى آوازيں سنى رہا تھا_ يقينا اس قسم كے اہم موقع پر جناب جبرئيل نے بھى آپ كو تنہا نہيں چھوڑا ہوگا_ جناب فاطمہ (ع) اس طرح رو رہى تھيں كہ زمين اور آسمان آپ كے لئے گريہ كر رہے تھے پيغمبر(ص) نے اس كے بعد فرمايا بيٹى فاطمہ (ع) ، خدا تمہارا ميرى جگہ خليفہ ہے اور وہ بہترين خليفہ ہے_ عزيزم مت رو كيونكہ تمہارے رونے سے عرش خدا اور ملائكہ اور زمين اور آسمان گريا كناں ہيں_ خدا كى قسم ، جب تك ميں بہشت ميں داخل نہ ہوں گا كوئي بھى بہشت ميں داخل نہ ہوگا اور تم پہلى شخصيت ہوگى جو ميرے بعد بہترين لباس كے ساتھ، بہشت ميں داخل ہوگى اللہ تعالى كى تكريم تمہيں مبارك ہو، خدا كى قسم تم بہشتى عورتوں ميں سے بزرگ ہو_ خدا كى قسم دوزخ اس طرح فرياد كرے گى كہ جس كى آواز سے ملائكہ اور انبياء آواز ديں گے، پروردگار كى طرف سے خطاب ہوگا كہ چپ ہوجاؤ، جب تك فاطمہ (ع) جناب محمد(ص) كى دختر بہشت كى طرف جارہى ہے، بخدا يہ اس حالت ميں ہوگا كہ حسن (ع) تيرے دائيں جانب چل رہے ہوں گے اور حسين (ع) بائيں جانب اور تم بہشت ميں داخل ہوگي، بہشت كے اوپر والے طبقے سے محشر كا نظارہ كروگي، جب كہ محمد(ص) كا پرچم حضرت على (ع) كے ہاتھ ميں ہوگا_ خدا كى قسم اس وقت اللہ تعالى تمہارے حق كا دشمن سے مطالبہ كرے گا اس وقت جن لوگوں نے تمہارا حق غصب كيا ہوگا اور تمہارى دوستى كو چھوڑ ديا ہوگا_ پشيمان ہوں گے ميں جتنا بھى كہتا رہوں گا خدايا ميرى امت
157
كى داد كو پہنچو، ميرے جواب ميں كہا جائے گا تمہارے بعد انہوں نے دستورات اور قوانين كو تبديل كيا ہے اس لئے وہ دوزخ كے مستحق ٹھہرے ہيں (1)_
فاطمہ (ع) باپ كے بعد
اس حالت ميں كہ پيغمبر(ص) كا سر مبارك حضرت على (ع) كے زانو پر تھا اور جناب فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسين (ع) ، پيغمبر(ص) كے نازنين چہرے كو ديكھ رہے تھے اور رو رہے تھے كہ آپ كى حق بين آنكھ بند ہوگئي اور حق گو زبان خاموش ہوگئي اور آپ كى روح عالم ابدى كى طرف پرواز كرگئي، پيغمبر(ص) كى اچانك اور غيرمنتظرہ موت سے جہان كا غم اور اندوہ حضرت فاطمہ (ع) پر آپڑا وہ فاطمہ (ع) كہ جس نے اپنى عمر غم اور غصّہ اور گرفتارى ميں كاٹى تھى صرف ايك چيز سے دل خوش تھيں اور وہ تھا ان كے والد كا وجود مبارك_ اس جانگداز حادثہ كے پيش آنے سے آپ كى اميدوں اور آرزؤں كا محل يكدم زميں پر آگرا_ اسى حالت ميں آپ باپ كى كمرشكن موت ميں گريہ و زارى اور نوحہ سرائي كر رہى تھيں، اور حضرت على (ع) آپ كے دفن كے مقدمات كفن اور دفن ميں مشغول تھے اچانك يہ خبر ملى كہ مسلمانوں كے ايك گروہ نے سقيفہ بنى ساعدہ ميں اجتماع كيا ہے تا كہ پيغمبر(ص) كے جانشين كو مقرر كريں زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ دوسرى خبر آملى كہ انہوں نے جناب ابوبكر كو پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا جانشين اور خليفہ منتخب كرليا ہے_
گريہ و بكا اور غم و غصہ كے اس بحرانى وقت ميں اتنى بڑى خبر نے حضرت فاطمہ (ع)
----------
1) بحار الانوار، ج 22 ص 490_
158
اور حضرت على (ع) كے مغز كو تكان دى اور ان كے تھكے ماندے اعصاب كو دوبارہ كوٹ كر ركھ ديا_ سبحان اللہ _ كيا ميرے باپ نے حضرت على (ع) كو اپنا جانشين اور خليفہ مقرر نہيں كيا؟ كيا دعوت ذوالعشيرہ سے لے كر زندگى كے آخرى لمحات تك كئي مرتبہ حضرت على (ع) كى خدمت كى سفارش نہيں كرتے رہے؟ كيا چند مہينہ پہلے ايك بہت بڑے اجتماع ميں غدير خم كے مقام پر انہيں خليفہ معين نہيں فرمايا تھا؟ كيا ميرے شوہر على (ع) كے جہاد اور فداكارى كا انكار كيا جاسكتا ہے؟ كيا على (ع) كى علمى منزلت كا كوئي شخص انكار كرسكتا ہے؟ مگر ميرے باپ نے على (ع) كو بچپن سے اپنى تربيت اور تعليم ميں نہيں ركھا تھا؟ خدايا اسلام كا انجام كيا ہوگا؟ اسلام كو ايسے رہبر كى ضرورت ہے جو مقام عصمت پر فائز ہو اور لغزش اور انحراف سے دوچار نہ ہو_ آہ_ مسلمان كس خطرناك راستے پر چل پڑے ہيں؟
اے ميرے خدا ميرے باپ نے اسلام كے لئے كتنى زحمت برداشت كى ہے، ميرے شوہر نے كتنى فداكارى اور قربانى دى ہے؟ ميدان جنگ ميں سخت ترين اور خطرناك ترين حالت ميں اپنى جان كو خطرے ميں نہيں ڈالا؟ ميں ان كى زخمى بدن اور خون آلودہ لباس سے باخبر ہوں_ خدايا ہم نے كتنى مصيبتيں اور زحمات ديكھى ہيں_ فاقہ كاٹے ہيں وطن سے بے وطن ہوئے_ يہ سب كچھ توحيد اور خداپرستى كے لئے تھا، مظلوموں كے دفاع كے لئے تھا اور ظالموں كے ظلم كا مبارزہ اور مقابلہ تھا_ مگر ان مسلمانوں كو علم نہيں كہ اگر على (ع) مسلمانوں كا خليفہ ہو تو وہ اپنى عصمت اور علوم كے مقام سے جو انہيں ميرے باپ كے ورثہ ميں ملے ہيں مسلمانوں كے اجتماع اور معاشرے كى بہترين طريقے سے رہبرى كرے گا اور ميرے باپ كے مقدس ہدف اور غرض كو آگے بڑھائے گا اور جو اسلام كو سعادت اور كمال كي
159
طرف لے جائے گا_
جى ہاں يہ اور اس قسم كے دوسرے افكار جناب زہراء (ع) كے ذہن اور اعصاب پر فشار وارد كرتے تھے اور اس بہادر اور شجاع بى بى كے صبر اور تحمل كى طاقت كو ختم كرديا تھا_
حضرت زہراء (ع) كے تين مبارزے
اگر ہم سقيفہ كى طولانى اور وسيع كہانى اور جناب ابوبكر كے انتخاب كے بارے ميں بحث شروع كرديں تو ہم اصل مطلب سے ہٹ جائيں گے اور بات بہت طويل ہوجائے گي، ليكن مختصر روداديوں ہے كہ جب حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے دفن اور كفن سے فارغ ہوگئے تو وہ ايك تمام شدہ كام كے روبرو ہوئے انہوں نے ديكھا كہ جناب ابوبكر خلافت كے لئے منصوب كئے جاچكے ہيں اور مسلمانوں كے ايك گروہ نے ان كى بيعت بھى كرلى ہے_
اس حالت ميں حضرت على عليہ السلام كے لئے ان طريقوں ميں سے كوئي ايك طريقہ اختيار كرنا چاہيئے تھا_
پہلا: يہ كہ حضرت على (ع) ايك سخت قدم اٹھائيں اور رسماً جناب ابوبكر كى حكومت كے خلاف اقدام كريں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑ كائيں اور برانگيختہ كريں_
دوسرا: جب وہ ديكھ چكے كہ كام ختم ہوچكا ہے تو اپنے شخصى مفاد اور مستقبل كى زندگى كے لئے جناب ابوبكر كى بيعت كرليں اس صورت ميں آپ كے شخصى منافع
160
بھى محفوظ ہوجائيں گے اور حكومت كے نزديك قابل احترام ميں قرار پائيں گے، ليكن دونوں طريقوں ميں سے كوئي بھى طريقہ حضرت على كے لئے ممكن نہ تھا كيونكہ اگر چاہتے كہ كھلم كھلا حكومت سے ٹكر ليں اور ميدان مبارزہ ميں وارد ہوجائيں تو ان كا يہ اقدام اسلام كے لئے ضرر رسائل ہوتا اور اسلام كے وہ دشمن جو كمين گاہ ميں بيٹھے ہوئے تھے موقع سے فائدہ اٹھاتے اور ممكن تھا كہ ''اسلام جو ابھى جوان ہوا ہے'' كلى طور پر ختم كرديا جاتا اسى لئے حضرت على (ع) نے اسلام كے اعلى اور ارفع منافع كو ترجيح دى اور سخت كاروائي كرنے سے گريز گيا_
آپ كے دوسرے طريقے پر عمل كرنے ميں بھى مصلحت نہ تھى كيونكہ جانتے تھے كہ اگر ابتداء ہى سے جناب ابوبكر كى بيعت كرليں تو اس كى وجہ سے لوگوں اور جناب ابوبكر كى كاروائي جو انجام پاچكى تھى اس كا تائيد ہوجائے گى اور پيغمبر(ص) كى خلافت اور امامت كا مسئلہ اپنے حقيقى محور سے منحرف ہو جائے اور پيغمبر(ص) اور ان كى اپنى تمام تر زحمات اور فداكارياں بالكل ختم ہوكر رہ جائيں گي_ اس كے علاوہ جو كام بھى جناب ابوبكر اور عمر اپنے دور خلافت ميں انجام ديں گے وہ پيغمبر(ص) اور دين كے حساب ميں شمار كئے جائيں گے حالانكہ وہ دونوں معصوم نہيں ہيں اور ان سے خلاف شرع اعمال كا صادر ہونا بعيد نہيں_
تيسرا: جب آپ نے پہلے اور دوسرے طريقے ميں مصلحت نہ ديكھى تو سوائے ايك معتدل روش كے انتخاب كے اور كوئي چارہ كار نہ تھا_ حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) نے ارادہ كيا كہ ايك وسيع اور عاقلانہ مبارزہ اور اقدام كيا جائے تا كہ اسلام كو ختم ہونے اور متغير ہونے سے نجات دلاسكيں گرچہ اس عاقلانہ اقدام كا نتيجہ مستقبل بعيد ميں ہى ظاہر ہوگا آپ كے اس اقدام اور مبارزے كو تين مرحلوں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے_
161
پہلا مرحلہ:
حضرت على (ع) اور جناب فاطمہ (ع) امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كا ہاتھ پكڑتے اور رات كے وقت مدينہ كے بڑے لوگوں كے گھر جاتے اور انہيں اپنى مدد كے لئے دعوت ديتے_ پيغمبر اكرم(ص) كے وصايا اور سفارشات كا تذكرہ كرتے (1)_
جناب فاطمہ (ع) فرماتيں، لوگو كيا ميرے باپ نے حضرت على (ع) كو خلافت كے لئے معين نہيں فرمايا؟ كيا ان كى فداكاريوں كو فراموش كرگئے ہو؟ اگر ميرے والد كے دستورات پر عمل كرو اور على (ع) كو رہبرى كے لئے معين كردو تو تم ميرے والد كے ہدف پر عمل كروگے اور وہ تمہيں اچھى طرح ہدايت كريں گے_ لوگو مگر ميرے باپ نے نہيں فرمايا تھا كہ ميں تم سے رخصت ہو رہا ہوں ليكن دو چيزيں تمہارے درميان چھوڑے جارہا ہوں اگر ان سے تمسك ركھوگے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے، ايك اللہ كى كتاب دوسرے ميرے اہلبيت (ع) _ لوگو كيا يہ مناسب ہے كہ ہميں تنہا چھوڑ دو اور ہمارى مدد سے ہاتھ كھينچ لو حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) مختلف طريقوں سے مسلمانوں كو اپنى مدد كے لئے دعوت ديتے تھے كہ شايد وہ اپنے كرتوت پر پشيمان ہوجائيں اور خلافت كو اس كے اصلى مركز طرف لوٹا ديں_
اس رويے سے بہت تھوڑا گروہ اس تبليغ سے متاثر ہوا اور مدد كرنے كا وعدہ كيا، ليكن ان تھوڑے سے آدميوں نے بھى اپنے وعدہ پر عمل نہيں كيا
----------
1) الامامہ والسياستہ، ج 1 ص 12 _
162
اور انہوں نے حكومت كى مخالفت كى جرات نہيں كي_
حضرت على (ع) اور فاطمہ (ع) بغير شور و غل اور تظاہر كے جناب ابوبكر_ سے اپنى مخالفت ظاہر كرتے تھے اور انہوں نے ملّت اسلامى كو ايك حد تك بيدار بھى كيا اور اسى رويے سے مسلمانوں كا ايك گروہ باطنى طور سے ان كا ہم عقيدہ ہوگيا_ ليكن صرف يہى نتيجہ معتدل اقدام سے برآمد ہوا اور اس سے زيادہ كوئي اور نتيجہ نہ نكل سكا_
دوسرا مرحلہ:
حضرت على (ع) نے مصمم ارادہ كرليا كہ وہ جناب ابوبكر كى بيعت نہيں كريں گے تا كہ اس رويہ سے جناب ابوبكر كى انتخابى حكومت سے اپنى مخالفت ظاہر كرسكيں اور عملى طور سے تمام جہاں كو سمجھا ديں كہ على (ع) ابن ابيطالب اور ان كا خاندان جو پيغمبر اسلام كے نزديكى ہيں جناب ابوبكر كى خلافت سے ناراض ہيں تو معلوم ہوجائے گا كہ اس خلافت كى بنياد اسلام كے مذاق كے خلاف ہے، حضرت زہراء (ع) نے بھى حضرت على كے اس نظريئےى تائيد كى اور ارادہ كرليا كہ احتمالى خطرات اور حوادث كے ظاہر ہونے ميں اپنے شوہر كى حتمى مدد كريں گى اور عملى لحاظ سے جہان كو سمجھائيں گى كہ ميں پيغمبر اسلام(ص) كى دختر جناب ابوبكر كى خلافت كے موافق نہيں ہوں، لہذا حضرت على (ع) اس غرض كى تكميل كے لئے گھر ميں گوشہ نشين ہوگئے اور قرآن مجيد كے جمع كرنے ميں مشغول ہوگئے اور يہ ايك قسم كا منفى مبارزہ تھا جو آپ نے شروع كيا تھا_
چند دن اسى حالت ميں گزر گئے، ايك دن جناب عمر نے جناب ابوبكر سے اظہار كيا كہ تم لوگوں نے سوائے على (ع) اور ان كے رشتہ داروں كے تمہاري
163
بيعت كرلى ہے، ليكن تمہارى حكومت كا استحكام بغير على (ع) كى بيعت كے ممكن نہيں ہے، على (ع) كو حاضر كيا جائے اور انہيں بيعت پر مجبور كيا جائے، حضرات ابوبكر نے جناب عمر كى اس رائے كو پسند كيا اور قنفذ سے كہا كہ على (ع) كے پاس جاؤ اور ان سے كہو كہ رسول (ص) كے خليفہ چاہتے ہيں كہ تم بيعت كے لئے مسجد ميں حاضر ہوجاؤ_
قنفذ كئي بار حضرت على (ع) كے پاس آئے اور گئے ليكن حضرت على (ع) نے جناب ابوبكر كے پاس آنے سے انكار كرديا_ جناب عمر خشمناك ہوئے اور خالد بن وليد اور قنفذ اور ايك گروہ كے ساتھ حضرت زہراء (ع) كے گھر كى طرف روانہ ہوئے دروازہ كھٹكھٹايا اور كہا يا على (ع) دروازہ كھولو_ فاطمہ (ع) سر پر پٹى باندھے اور بيمارى كى حالت ميں دروازے كے پيچھے آئيں اور فرمايا_ اے عمر ہم سے تمہيں كيا كام ہے؟ تم ہميں اپنى حالت پر كيوں نہيں رہنے ديتے؟ جناب عمر نے زور سے آواز دى كہ دروازہ كھولو ورنہ گھر ميں آگ لگا دوں گا (1)_
جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا اے عمر خدا سے نہيں ڈرتے، ميرے گھر ميں داخل ہونا چاہتے ہو؟ آپ كى گفتگو سے عمر اپنے ارادے سے منحرف نہ ہوئے، جب جناب عمر نے ديكھا كہ دروازہ نہيں كھولتے تو حكم ديا كہ لكڑياں لے آؤتا كہ ميں گھر كو آگ لگادوں (2)_
دروازہ كھل گيا جناب عمر نے گھر كے اندر داخل ہونا چاہا، حضرت زہراء (ع)
---------
1) شرح ابن ابى الحديد، الحديد، ج 2 ص 56 اور، ج 6 ص 48_
2) اثبات الوصيتہ، ص 110_ بحار الانوار، ج 43 ص 197_ الامامہ السياسہ، ج 1 ص 12_
164
نے جب دروازہ كھلا ديكھا اور خطرے كو نزديك پايا تو مردانہ وار جناب عمر كے سامنے آكر مانع ہوئيں (1)_
-----------
1) سنى شيعہ تاريخ اور مدارك اس پر متفق ہيں كہ جناب ابوبكر كے سپاہيوں نے حضرت زہراء (ع) كے گھر پر حملہ كرديا اور جناب عمر نے لكڑياں طلب كى اور گھرواروں كو گھر جلادينے كى دھمكى دى بلكہ يہاں تك لكھا ہے كہ جناب عمر سے كہا گيا كہ اس گھر ميں فاطمہ (ع) موجود ہيں آپ نے جواب ديا كہ اگر بيعت كے لئے حاضر نہ ہوں گے تو ميں اس گھر كو آگ لگادوں گا گرچہ اس ميں فاطمہ (ع) ہى موجود ہوں_ جيسے كہ يہ مطلب ابوالفداء ابن ابى الحديد ابن قيتبہ نے امامہ و السياسہ ميں، انساب الاشرف يعقوبى اور دوسروں نے گھر پر حملہ كرنے اور جلانے كى دھمكى كو تحرير كيا ہے، خود حضرت ابوبكر نے اپنى موت كے وقت حضرت زہراء (ع) گے گھر پر حملے پر ندامت كا اظہار كيا ہے_ چنانچہ ابن ابى الحديد جلد 2 ص 46 پر اور ج 12 ص 194 پر لكھتے ہيں كہ جس وقت جناب زينب پيغمبر كى (1) لڑكى مكّہ سے مدينہ آرہى تھيں تو راستے ميں دشمنوں نے اس پر حملہ كرديا اور حصار بن الود نے آك كے كجا دے پر حملہ كرديا اور نيزے سے آپ كو تحديد كرديا اور حصار بن الود نے آپ كے كجا دے پر حملہ كرديا اور نيزے سے آپ كو تحديد كى اس وجہ سے جناب زينب كا بچہ سقط ہوگيا، رسول اللہ(ص) اس مطلب سے اس قدر ناراحت ہوئے كہ آپ نے فتح مكہ كے دن ہبار كے خون كو مباح قرار دے ديا_ اس كے بعد ابن ابى الحديد لكھتا ہے كہ ميں نے يہ واقعہ نقيب ابى جعفر كے سامنے پڑھا تو اس نے كہ كہ جب رسول خدا(ص) نے ہبار كے خون مباح كرديا تھا تو معلوم
1) ضعيف روايات كى بناء پر مولّف نے حاشيہ لگايا ہے ورنہ رسول (ص) كى بيٹى فقط جناب فاطمہ (ع) ہيں كے علاوہ كوئي بيٹى تاريخ سے اگر ثابت ہے تو ضعيف روايات كى رو ہے_
165
اور يہ آواز بلند گريہ و بكا اور شيون كرنا شروع كرديا تا كہ لوگ خواب غفلت سے بيدار ہوجائيں اور حضرت على (ع) كا دفاع كريں_ زہراء (ع) كے استغاثے اور گريہ و بكا نے صرف ان لوگوں پر اثر نہيں كيا بلكہ انہوں نے تلوار كا دستہ _ آپ كے پہلو پر مارا اور تازيانے سے آپ كے بازو كو بھى سياہ كرديا تا كہ آپ اپنا ہاتھ على (ع) كے ہاتھ سے م ہٹاليں (1)_
آخر الامر حضرت على (ع) كو گرفتار كرليا گيا اور آپ كو مسجد كى طرف لے گئے جناب زہراء (ع) على (ع) كى جان كو خطرے ميںديكھ رہى تھيں، مردانہ اور اٹھيں اور حضرت على (ع) كے دامن كو مضبوطى سے پكڑليا اور كہا كہ ميں اپنے شوہر كو نہ جانے دوں گى _ قنفذ نے ديكھا كہ زہرا (ع) اپنے ہاتھ سے على (ع) كو نہيں چھوڑتيں تو اس نے اتنے تازيانے آپ كے ہاتھ پر مارے كہ آپ كا بازو ورم كرگيا (2)_
حضرت زہرا (ع) سلام اللہ عليہا اس جميعت ميں ديوار اور دروازے كے درميان ہوگئيں اور آپ پر دروازے كے ذريعہ اتنا زور پڑا كہ آپ كے پہلو كى ہڈى ٹوٹ گئي اور وہ بچہ جو آپ كے شكم مبارك
ہوتا ہے كہ رسول خدا(ص) زندہ ہوتے تو اس شخص كے خون كو جس نے فاطمہ (ع) كو تحديد كى تھى كہ جس سے فاطمہ (ع) كا بچہ ساقط ہوگيا تھا مباح كرديتے_ اہلسنت كى كتابيں تہديد كے بعد كے واقعات كے بيان كرنے ميں ساكت ہيں، ليكن شيعوں كى تواريخ اور احاديث نے بيان كيا ہے كہ بالاخر آپ كے گھر كے دروازے كو آگ لگادى گئي اور پيغمبر(ص) كى دختر كو اتنا زد و كوب كيا گيا كہ بچہ ساكت ہوگيا
''مولف''
------------
1) بحار الانوار ج 43 ص 197_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 198_
166
ميں تھا ساقط ہوگيا (1)_
حضرت على (ع) كو پكڑا اور مسجد كى طرف لے گئے_ جب جناب فاطمہ (ع) سنبھليں تو ديكھا كہ على (ع) كو مسجد لے گئے ہيں فوراً اپنى جگہ سے ا ٹھيں چونكہ حضرت على (ع) كى جان كو خطرے ميں ديكھ رہى تھيں اور ان كا دفاع كرنا چاہتى تھيں لہذا نحيف جسم پہلو شكستہ كے باوجود گھر سے باہر نكليں اور بنى ہاشم كى مستورات كے ساتھ مسجد كى طرف روانہ ہوگئيں ديكھا كہ على (ع) كو پكڑے ہوئے ہيں آپ لوگوں كى طرف متوجہ ہوئيں اور فرمايا ميرے چچازاد سے ہاتھ اٹھالو ور خدا كى قسم اپنے سر كے بال پريشان كردوں گى اور پيغمبر اسلام(ص) كا پيراہن سر پر ركھ كر اللہ تعالى كى درگاہ ميں نالہ كروں گى اور تم پر نفرين اور بدعا كروں گي_ اس كے بعد جناب ابوبكر كى طرف متوجہ ہوئيں اور فرمايا كيا تم نے ميرے شوہر كو قتل كرنے كا ارادہ كرليا ہے اور ميرے بچوں كو يتيم كرنا چاہتے ہو اگر تم نے انہيں نہ چھوڑا تو اپنے بال پريشان كردوں گى اور پيغمبر(ص) كى قبر پر اللہ كى درگاہ ميں استغاثہ كروں گى يہ كہا اور جناب حسن (ع) اور جناب حسين (ع) كا ہاتھ پكڑا اور رسول خدا(ص) كى قبر كى طرف روانہ ہوگئيں آپ نے ارادہ كرليا تھا كہ اس جمعيت پر نفرين كريں اور اپنے دل ہلادينے والے گريہ سے حكومت كو الٹ كر ركھ ديں_
حضرت على (ع) نے ديكھا كہ وضع بہت خطرناك ہے اور كسى صورت ميں ممكن نہيں كہ حضرت زہرا (ع) كو اپنے ارادے سے روكا جائے تو آپ نے سلمان فارسى سے فرمايا كہ پيغمبر(ص) كى دختر كے پاس جاؤ اور انہيں بددعا كرنے سے منع كردو_
---------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 198_
167
جناب سلمان جناب زہرا (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض كى اے پيغمبر(ص) كى دختر آپ كے والد دنيا كے لئے رحمت تھے آپ ان پر نفرين نہ كيجئے_
جناب زہرا (ع) نے فرمايا، اے سلمان مجھے چھوڑ دو ميں ان متجاوزين سے دادخواہى كروں_ سلمان نے عرض كيا كہ مجھے حضرت على (ع) نے آپ كى خدمت ميں بھيجا ہے اور حكم ديا ہے كہ آپ اپنے گھر لوٹ جائيں، جب حضرت زہرا (ع) نے حضرت على (ع) كا حكم دريافت كيا تو آپ نے كہا جب انہوں نے حكم ديا ہے تو ميں اپنے گھر لوٹ جاتى ہوں اور صبر كا آغاز كروں گي_ ايك اور روايت ميں آيا ہے كہ آپ نے حضرت على (ع) كا ہاتھ پكڑ اور گھر لوٹ آئيں (1)_
مختصر مبارزہ
حضرت زہرا (ع) كے زمانہ جہاد اور مبارزہ كى مدت گرچہ تھوڑى اور آپ كى حيات كا زمانہ بہت ہى مختصر تھا، ليكن آپ كى حيات بعض جہات سے بہت اہم اور قابل توجہ تھي_
پہلے: جب حضرت زہرا (ع) نے ديكھا كہ حكومت كے حاميوں نے حضرت على (ع) كو گرفتار كرنے كے لئے ان كے گھر كا محاصرہ كرليا ہے تو آپ عام عورتوں كى روش سے ہٹ كر جو معمولاً ايسے مواقع ميں كنارہ گيرى كرليتى ہيں گھر كے دروازے كے پيچھے آگئيں اور استقامت كا مظاہرہ كيا_
دوسرے: جب دروازہ كھول ليا گيا تب بھى جناب فاطمہ (ع) وہاں سے نہ ہٹيں
---------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 47 و روضہ كافي، ص 199_
168
بلكہ اپنے آپ كو ميدان كارزار ميں بر قرار ركھا اور دشمن كے مقابلے ميں ڈٹ گئيں اتنى مضبوطى سے كھڑى رہيں كہ تلوار كے نيام سے آپ كے پہلو كو مارا گيا اور تازيانے سے آپ كے بازو سياہ كرديئےئے_
تيسرے: جب على (ع) گرفتار كرلئے گئے اور چاہتے تھے كہ آپ كو وہاں سے لے جائيں تب بھى آپ ميدان ميں آگئيں اور على (ع) كے دامن كو پكڑليا اور وہاں سے لے جانے ميں مانع ہوئيں اور جب تك آپ كا بازو تازيانے سے سياہ نہ كرديا گيا آپ نے اپنے ہاتھ سے دامن نہ چھوڑا_
چوتھے: جناب فاطمہ (ع) نے اپنا آخرى مورچہ گھر كو بنايا اور گھر ميں آكر على (ع) كو باہر لے جانے سے ممانعت كي، اس مورچہ ميں اتنى پائيدارى سے كام ليا كہ دروازے اور ديوار كے درميان آپ كا پہلو ٹوٹ گيا اور بچہ ساقط ہوگيا_
اس مرحلہ كے بعد آپ نے سوچا كہ چونكہ ميرا يہ مبارزہ گھر كے اندر واقع ہوا ہے شايد اس كى خبر باہر نہ ہوئي ہو لہذا ضرورى ہوگيا ہے كہ مجمع عام گريہ و بكا اور آہ و زارى شروع كردى اور جب تمام طريقوں سے نا اميد ہوگئيں تو مصمم ارادہ كرليا كہ ان لوگوں پر نفرين اور بد دعا كريں، ليكن حضرت على (ع) كے پيغام پہنچنے پر ہى آپ كے حكم كى اطاعت كى اور واپس گھر لوٹ آئيں_
جى ہاں حضر ت زہرا (ع) نے مصمم ارادہ كرليا تھا كہ آخرى لحظہ اور قدرت تك على (ع) سے دفاع كرتى رہوں گى اور يہ سوچا تھا كہ جب ميدان مبارزہ ميں وارد ہوگئي ہوں تو مجھے اس سے كامياب اور فتحياب ہوكر نكلنا ہوگا اور حضرت على (ع) كو بيعت كے لئے لے جانے ميں ممانعت كرنى ہوگي، اس طرح عمل كر كے
169
اپنے شوہر كے نظريئے اور عمل اور رفتار كى تائيد كروں گى اور جناب ابوبكر كى خلافت سے اپنى ناراضگى كا اظہار كروں گى اور اگر مجھے مارا پيٹا گيا تب بھى شكستہ پہلو اور سياہ شدہ بازو اور ساقط شدہ بچے كے باوجود جناب ابوبكر كى خلافت كو بدنام اور رسوا كردوں ى اور اپنے عمل سے جہان كو سمجھاؤں گى كہ حق كى حكومت سے روگردانى كا ايك نتيجہ يہ ہے كہ اپنى حكومت كو دوام دينے كے لئے پيغمبر (ص) كى دختر كا پہلو توڑنے اور رسول خدا(ص) كے فرزند كو ماں كے پيٹ ميں شہيد كرنے پر بھى تيار ہوجاتے ہيں اور ابھى سے تمام عالم كے مسلمانوں كى بتلا دينا چاہتى ہوں كہ بيدارى اور ہوش ميں آجاؤ كہ انتخابى حكومت كا ايك زندہ اور واضح فاسد نمونہ يہ ہو رہا ہے_
البتہ جناب فاطمہ (ع) زہراء (ع) نبوت اور ولايت كے مكتب كى تربيت شدہ تھيں، فداكارى اور شجاعت كا درس ان دو گھروں ميں پڑھا تھا اپنے پہلو كے شكستہ ہونے اور مار پيٹ كھانے سے نہ ڈريں اور اپنے ہدف كے دفاع كے معاملے ميں كسى بھى طاقت كے استعمال كى پرواہ نہ كي_
تيسرا مرحلہ فدك (1)
جب سے جناب ابوبكر نے مسلمانوں كى حكومت كو اپنے ہاتھ ميں ليا اور تخت خلافت پر بيٹھے اسى وقت سے ارادہ كرليا تھا كہ فدك كو جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے لوں، فدك ايك علاقہ
---------
1) فدك كا موضوع اور اس ميں حضرت فاطمہ (ع) كا ادعا مفصل اور عميق اس كتاب كے آخر ميں بيان كيا گيا ہے_
170
ہے جو مدينے سے چند فرسخ پر واقع ہے، اس ميں كئي ايك باغ اور بستان ہيں اور علاقہ قديم زمانے ميں بہت زيادہ آباد تھا اور يہوديوں كے ہاتھ ميں تھا، جب اس علاقے كے مالكوں نے اسلام كى طاقت اور پيشرفت كو جنگ خيبر ميں مشاہدہ كيا تو ايك آدمى كو رسول خدا(ص) كى خدمت ميں روانہ كيا اور آپ سے صلح كى پيش كش كى پيغمبر اسلام(ص) نے ان كى صلح كو قبول كرليا اور بغير لڑائي كے صلح كا عہدنامہ پايہ تكميل تك پہنچ گيا اس قرار داد كى روسے فدك آدھى زمين جناب رسول خدا(ص) كے اختيار ميں دے دى گئي اور يہ خالص رسول(ص) كا مال ہوگيا (1)_
كيونكہ اسلامى قانون كى رو سے جو زمين بغير جنگ كے حاصل اور فتح ہو وہ خالص رسول خدا(ص) كى ہوا كرتى ہے اور باقى مسلمانوں كا اس ميں كوئي حق نہيں ہوا كرتا_
فدك كى زمينيں پيغمبر(ص) كى ملكيت اور اختيار ميں آگئي تھيں آپ اس كے منافع كو بنى ہاشم اور مدينہ كے فقراء اور مساكين ميں تقسيم كيا كرتے تھے اس كے بعد يہ آيت نازل ہوئي_ ''وات ذا القربى حقہ'' (2)_ اور جب يہ آيت نازل ہوئي تو پيغمبر(ص) نے اللہ تعالى كے دستور اور حكم كے مطابق فدك جناب فاطمہ (ع) كو بخش ديا اس باب ميں پيغمبر(ص) سے كافى روايات وارد ہوئي ہيں نمونے كے طور پر چند _ يہ ہيں_
ابوسعيد خدرى فرماتے ہيں كہ جب يہ آيت ''وات ذاالقربى حقہ'' نازل
---------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 210_
2) سورہ اسراء آيت ص 26_
171
ہوئي تو پيغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمايا كہ فدك تمہارا مال ہے (1)_
عطيّہ كہتے ہيں كہ جب آيت ''و آت ذاالقربى حقہ'' نازل ہوئي تو پيغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو بلايا اور فدك انہيں بخش ديا(2)_
حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں كہ رسول خدا(ص) نے اپنى زندگى ميں فدك فاطمہ (ع) كو بخش ديا تھا (3)_
فدك كا علاقہ معمولى اور كم قيمت نہ تھا بلكہ آباد علاقہ تھا اور اس كى كافى آمدنى تھى ہر سال تقريباً چوبيس ہزار يا ستر ہزار دينار اس سے آمدنى ہوا كرتى تھى (4)_
اس كے ثبوت كے لئے دو چيزوں كو ذكر كيا جاسكتا ہے يعنى فدك كا علاقہ وسيع اور بيش قيمت تھا اسے دو چيزوں سے ثابت كيا جاسكتا ہے_
پہلي: جناب ابوبكر نے جناب فاطمہ زہراء (ع) كے جواب ہيں، جب آپ نے فدك كا مطالبہ كيا تھا تو فرمايا تھا كہ فدك رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا مال نہ تھا بلكہ يہ عام مسلمانوں كے اموال ميں سے ايك مال تھا كہ پيغمبر اسلام(ص) اس كے ذريعے جنگى آدميوں كو جنگ كے لئے روانہ كرتے تھے اور اس آمدنى كو خدا كى راہ ميں خرچ كرتے تھے (5)_
--------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 102 اور تفسير در منثور، ج 4 ص 177_
2) كشف الغمہ، ج 2 ص 102
3) كشف الغمہ، ج 2 ص 102 اور كتاب در منثور، ج 4 ص 177 ور غاية المرام ص 323 ميں اس موضوع كى احاديث كا مطالعہ كيجئے_
4) سفينة البحار، ج 2 ص 251_
5) شرح ابن ابى الحديد، ج 16 ص 216_
172
دوسرے: جب معاويہ خليفہ ہوا تو اس نے فدك مروان ابن حكم اور عمر بن عثمان اور اپنے فرزند يزيد كے درميان مستقيم كرديا (1)_
ان دونوں سے يہ نتيجہ نكالا جاسكتا ہے كہ فدك ايك پر قيمت اور زرخيز علاقہ تھا كہ جس كے متعلق جناب ابوبكر نے فرمايا كہ رسول خدا اس كى آمدنى سے لوگوں كو جنگ كے لئے روانہ كرتے تھے، اور خدا كى راہ ميںخرچ كيا كرتے تھے_
اگر فدك معمولى ملكيت ہوتا تو معاويہ اسے اپنے فرزند اور دوسرے آدميوں كے درميا تقسيم نہ كرتا_
رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فدك كبوں
فاطمہ (ع) كو بخشا
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى زندگى كے مطالعے سے يہ امر بخوبى معلوم كيا جاسكتا ہے كہ آپ ثروت اور مال كے شيدائي نہ تھے اور مال كو ذخيرہ كرنا اور جمع ركھنے كى كوشش نہيں كيا كرتھے اپنے مال كو اپنے ہدف يعنى خداپرستى كے لئے خرچ كرديا كرتے تھے، مگر يہى پيغمبر(ص) نہ تھے كہ جناب خديجہ كى بے حد اور بے حساب دولت كو اسى ہدف اور راستے ميں خرچ كر رہے تھے اور خود اور آپ كے داماد اور لڑكى كمال سختى اور مضيقہ ميں زندگى بسر كرتے تھے
---------
1) شرح ابن ابى الحديد، ج16 ص 216_
173
كبھى بھوك كى شدت كى وجہ سے اپنے شكم مبارك پر پتھر باندھا كرتے تھے_ پيغمبر(ص) ان آدميوں ميں نہ تھے كہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنى اولاد كے لئے مال، دولت حاصل كرتے مگر يہى پيغمبر(ص) نہ تھے كہ جو نہيں چاہتے تھے كہ ان كى لڑكى اپنے گھر كے لئے ايك پشمى پردہ لٹكائے ركھے اور حسن (ع) اور حسين (ع) كو چاندى كا دستبند پہنائيں_ اور خود گردن ميں ہار پہنے ركھے_
سوچنے كى بات ہے اپنى زندگى اور بيٹى كى داخلى زندگى ميں اتنا سخت گير ہونے كے باوجود كس علت كى بناء پر اتنے بڑے علاقے اور باقيمت مال كو فاطمہ (ع) كے لئے بخش ديا تھا؟ آپ كا يہ غير معمولى كام بے جہت اور بے علت نہ تھا اس واقعہ كى يوں علت بيان كى جاسكتى ہے كہ پيغمبر(ص) اللہ تعالى كى طرف سے مامور تھے كہ على (ع) كو اپنا جانشين اور خليفہ معين كريں اور يہ بھى جانتے تھے كہ لوگ اتنى آسانى سے آپ كى رہبرى اور حكومت كو قبول نہيں كريں گے اور آپ كى خلافت كے لئے ركاوٹيں ڈاليں گے اور يہ بھى جانتے تھے كہ عرب كے بہت زيادہ گھرانے اور خاندان حضرت على (ع) كى طرف سے بغض و كدورت ركھتے ہيں كيوں كہ على (ع) شمشير زن مرد تھے اور بہت تھوڑے گھر ايسے تھے كہ جن ميں كا ايك يا ايك سے زائد آدمى زمانہ كفر ميں على (ع) كے ہاتھوں قتل نہ ہوا ہو___ پيغمبر(ص) كو علم تھا كہ خلافت اور مملكت كے چلانے كے لئے مال اور دولت كى ضرورت ہوتى ہے ان حالات اور شرائط ميں قورى كا جمع ہوجانا مشكل كام ہوگا_ پيغمبر(ص) جانتے تھے كہ اگر على (ع) فقراء اور بيچاروں كى مدد اور اعانت كرسكے اور ان كى معاشى احتياجات برطرف كرسكے تو دلوں كا بغض اور كدورت ايك حد تك كم ہوجائے گا اور آپ كى طرف دل مائل ہوجائيں گے_
174
يہى وجہ تھى كہ آنحضرت نے فدك جناب فاطمہ (ع) كو بخش ديا_ در حقيقت يہ مستقبل كے حقيقى خليفہ كے اختيار ميں دے ديا تھا تا كہ اس كى زيادہ آمدنى فقراء اور مساكين كے درميان تقسيم كريں شايد كينے اور پرانى كدروتيں لوگ بھول جائيں اور حضرت على (ع) كى طرف متوجہ ہوجائيں، خلافت كے آغاز ميں اس كى بحرانى حالت ميں اس مال سے استفادہ كريں اور خدا اور رسول (ص) كے ہدف كى ترقى اور پيشرفت ميں اس سے بہرہ بردارى كريں_ در حقيقت پيغمبر اسلام(ص) نے اس ذريعے سے خلافت كى اقتصادى مدد كى تھي_
فدك جناب رسول خدا(ص) كى زندگى ميں جناب زہرا(ع) كے تصرف اور قبضے ميں تھا آپ قوت لايموت يعنى معمولى مقدار اپنے لئے ليتيں اور باقى كو خدا كى راہ ميں خرچ كرديتيں اور فقراء كے درميان تقسيم كرديتيں_
جب جناب ابوبكر نے مسلمانوں كى حكوت پر قبضہ كيا اور تخت خلافت پر متمكن ہوئے تو آپ نے مصمم ارادہ كرليا كہ فدك آنجناب سے واپس لے ليں، چنانچہ انہوں نے حكم د يا كہ جناب فاطمہ (ع) كے كاركنوں اور عمال اور مزارعين كو نكال ديا جائے اور ان كى جگہ حكومت كے كاركن نصب كرديئے جائيں چنانچہ ايسا ہى كيا گيا(1)_
فدك لينے كے اسباب
فدك لينے كے لئے دو اصلى عوامل قرار ديئے جاسكتے ہيں كہ جن كے بعد جناب ابوبكر نے مصمم ارادہ
---------
1) تفسير نورالثقلين، ج 4 ص 272_
175
كرليا تھا كہ فدك جناب فاطمہ (ع) سے واپس لے ليا جائے_
پہلا عامل: تاريخ كے مطالعے سے يہ مطلب روز روشن كى طرح واضح ہے كہ جناب عائشےہ دو چيزوں سے ہميشہ رنجيدہ خاطر رہتى تھي_ پہلي: چونكہ پيغمبر اسلام(ص) جناب خديجہ سے بہت زيادہ محبت ركھتے تھے اور ان كا كبھى كبھار نيكى سے ذكر كيا كرتے تھے، اس وجہ سے جناب عائشےہ كے دل ميں ايك خاص كيفيت پيدا ہوجاتى تھى اور بسا اوقات اعتراض بھى كرديتى تھيں اور كہتى تھيں خديجہ ايك بوڑھى عورت سے زيادہ كچھ نہ تھيں آپ ان كى اتنى تعريف كيوں كرتے ہيں_ پيغمبر(ص) جواب ديا كرتے تھے، خديجہ جيسا كون ہوسكتا ہے؟ پہلى عورت تھيں جو مجھ پر ايمان لائيں اور اپنا تمام مال ميرے اختيار ميں دے ديا، ميرے تمام كاموں ميں ميرى يار و مددگار تھيں خداوند عالم نے ميرى نسل كو اس كى اولاد سے قرار ديا ہے(1)_
جناب عائشےہ فرماتى ہيں كہ ميں نے خديجہ جتنا كسى عورت سے بھى رشك نہيں كيا حالانكہ آپ ميرى شادى سے تين سال پہلے فوت ہوچكى تھيں كيونكہ رسول خدا(ص) ان كى بہت زيادہ تعريف كرتے تھے، خداوند عالم نے رسول خدا(ص) كو حكم دے ركھا تھا كہ خديجہ كو بشارت دے ديں كہ بہشت ميں ان كے لئے ايك قصر تيار كيا جاچكا ہے، بسا اوقات رسول خدا(ص) كوئي گوسفند ذبح كرتے تو اس كا گوشت جناب خديجہ كے سہيليوں كے گھر بھى بھيج ديتے تھے (2)_
--------
1) تذكرة الخواص، ص 303 و مجمع الزوائد، ج 9 ص 224_
2) صحيح مسلم ج 2 ص 1888_
176
جناب امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہيں كہ ايك دن جناب رسول خدا(ص) گھر ميں آئے تو ديكھا كہ جناب عائشےہ حضرت زہراء كے سامنے كھڑى قيل و قال كر رہى ہيں اور كہہ رہى ہيں اے خديجہ كى بيٹى تو گمان كرتى ہے كہ تيرى ماں مجھ سے افضل تھي، اسے مجھ پر كيا فضيلت تھي؟ وہ بھى ميرى طرح كى ايك عورت تھى جناب رسول خدا(ص) نے جناب عائشےہ كى گفتگو سن لى اور جب جناب فاطمہ (ع) كى نگاہ باپ پر پڑى تو آپ نے رونا شروع كرديا_ پيغمبر نے فرمايا فاطمہ (ع) كيوں روتى ہو؟ عرض كيا كہ جناب عائشےہ نے ميرى ماں كى توہين كى ہے رسول خد ا(ص) خشمناك ہوئے اور فرمايا: عائشےہ ساكت ہوجاؤ، خداوند عالم نے محبت كرنے والى بچہ دار عورتوں كو مبارك قرار ديا ہے_ جناب خديجہ سے ميرى نسل چلي، ليكن خداوند عالم نے تمہيں بانجھ قرار ديا (1)_
دوسرا عامل: پيغمبر اكرم(ص) حد سے زيادہ جناب فاطمہ (ع) سے محبت كا اظہار فرمايا كرتے تھے آپ كے اس اظہار محبت نے جناب عائشےہ كے دل ميں ايك خاص كيفيت پيدا كر ركھى تھى كہ جس كى وجہ سے وہ عذاب ميں مبتلا رہتى تھيں كيونكہ عورت كى فطرت ميں ہے كہ اسے اپنى سوكن كى اولاد پسند نہيں آتى اور عائشےہ كبھى اتنى سخت ناراحت ہوتيں كہ پيغمبر(ص) پر بھى اعتراض فرما ديتيں اور كہتيں كہ اب جب كہ فاطمہ (ع) كى شادى ہوچكى ہے آپ پھر بھى اس كا بوسہ ليتے ہيں_ پيغمبر(ص) اس كے جواب ميں فرماتے ہيں تم فاطمہ (ع) كے مقام اور مرتبے سے بے خبر ہو ورنہ ايسى بات نہ كرتيں (2)_
-------
1) بحار الانوار، ج 16 ص 3_
2) كشف الغمہ، ج 2 ص 85_
177
آپ جناب فاطمہ (ع) كى جتنى زيادہ تعرى كرتے اتناہى جناب عائشےہ كى اندرونى كيفيت دگرگوں ہوتى اور اعتراض كرنا شروع كرديتيں_
ايك دن جناب ابوبكر پيغمبر(ص) كى خدمت ميں حاضر ہونا چاہتے تھے كہ آپ نے جناب عائشےہ كى آواز اور چيخنے كو سنا كہ رسول خدا(ص) سے كہہ رہى ہيں كہ خدا كى قسم مجھے علم ہے كہ آپ على (ع) اور فاطمہ (ع) كو ميرے اور ميرے باپ سے زيادہ دوست ركھتے ہيں، جناب ابوبكر اندر آئے اور جناب عائشےہ سے كہا كيوں پيغمبر(ص) سے بلند آواز سے بات كر رہى ہو (1)_
ان دو باتوں كے علاوہ اتفاق سے جناب عائشےہ بے اولاد اور بانجھ بھى تھيں اور پيغمبر(ص) كى نسل جناب فاطمہ (ع) سے وجود ميں آئي يہ مطلب بھى جناب عائشےہ كو رنج پہنچاتا تھا، بنابرايں جناب عائشےہ كے دل ميں كدورت اور خاص زنانہ كيفيت كا موجود ہوجانا فطرى تھا اور آپ كبھى اپنے والد جناب ابوبكر كے پاس جاتيں اور جناب عائشےہ كے دل ميں كدورت اور خاص زنانہ كيفيت كا موجود ہوجانا فطرى تھا اور آپ كبھى اپنے والد جناب ابوبكر كے پاس جاتيں اور جناب فاطمہ (ع) كى شكايت كرتيں ہوسكتا ہے كہ جناب ابوبكر بھى دل سے جناب فاطمہ (ع) كے حق ميں بہت زيادہ خوش نہ رہتے ہوں اور منتظر ہوں كہ كبھى اپنى اس كيفيت كو بجھانے كے لئے جناب فاطمہ (ع) سے انتقام ليں_
جب پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم وفات پاچكے تو جناب فاطمہ (ع) رويا كرتيں اور فرماتيں كتنے برے دن آگئے ہيں جناب ابوبكر فرماتے كہ ابھى برے دن اور آگے ہيں (2)_
-------
1) مجمع الزوايد، ج 9 ص 201_
2) ارشاد شيخ مفيد، ص 90_
178
دوسرا مطلب: جناب عمر اور ابوبكر سوچتے تھے كہ حضرت على (ع) كے ذاتى كمالات اور فضائل اور علم و دانش كا مقام قابل انكار نہيں اور پھر پيغمبر(ص) كى سفارشات بھى ان كى نسبت بہت معروف اور مشہور ہيں پيغمبر (ص) كے داماد اور چچازاد بھائي ہيں اگر ان كى مالى اور اقتصادى حالت اچھى ہوئي اور ان كے ہاتھوں ميں دوپيہ بھى ہوا تو ممكن ہے كہ ايك گروہ ان كا مددگار ہو جائے اور پھر وہ خلافت كے لئے خطرے كا موجب بن جائے يہ ايك نكتہ تھا كہ جس كا ذكر جناب عمر نے جناب ابوبكر سے كيا اور جناب ابوبكر سے كہا كہ لوگ دنيا كے بندے ہوا كرتے ہيں اور دنيا كے سوا ان كا كوئي ہدف نہيں ہوتا تم خمس اور غنائم كو على (ع) سے لے لو اور فدك بھى ان كے ہاتھ سے نكال لو جب ان كے چاہنے والے انہيں خالى ہاتھ ديكھيں گے تو انہيں چھوڑ ديں گے اور تيرى طرف مائل ہوجائيں گے (1)_
جى ہاں يہ دو مطلب مہم عامل اور سبب تھے كہ جناب ابوبكر نے مصمم ارادہ كرليا كہ فدك كو مصادرہ كر كے واپس لے ليں اور حكم ديا كہ فاطمہ (ع) كے عمال اور كاركنوں كا باہر كيا جائے اور اسے اپنے عمال كے تصرف ميں دے ديا_
جناب زہراء (ع) كا رد عمل
جب جناب فاطمہ (ع) كو اطلاع ملى كہ آپ كے كاركنوں كو فدك سے نكال دياگيا ہے تو آپ بہت غمگين ہوئيں اور
-------
1) ناسخ التواريخ جلد زہرائ، ص 123_
179
اپنے آپ كو ايك نئي مشكل اور مصيبت ميں ديكھا كيونكہ حكومت كا نقشہ حضرت على (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) پر مخفى نہ تھا اور ان كے اصلى اقدام كى غرض و غايت سے بھى بے خبر نہ تھے_
اس موقع پر جناب فاطمہ (ع) كو ان دو راستوں ميں سے ايك راستہ اختيار كرنا تھے_
پہلا راستہ يہ تھا كہ جناب ابوبكر كے سامنے ساكت ہوجائيں اور اپنے شروع اور جائز حق سے چشم پوشى كرليں اور كہيں كہ ہميں تو دنيا كے مال و متاع سے كوئي محبت اور علاقہ نہيں چھوڑو فدك بھى جناب ابوبكر لے جائيں اس كے ساتھ يہ بھى اس كے لئے ہوسكتا ہے كہ وہ جناب خليفہ كو خوش كرنے كى غرض سے پيغام دالواتيں كہ تم ميرے ولى امر ہو ميں ناچيز فدك كو آپ كى خدمت ميں پيش كرتى ہوں_
دوسرا راستہ يہ تھا كہ اپنى پورى قدرت سے ركھتى ہيں اپنے حق كا دفاع كريں_
پہلا راستہ اختيار كرنا حضرت زہراء (ع) كے لئے ممكن نہ تھا كيونكہ وہ حكومت كے پوشيدہ منصوبے سے بے خبر نہ تھيں جانتى تھيں كہ وہ اقتصادى دباؤ اور آمدنى كے ذريعے قطع كردينے سے اسلام كے حقيقى خليفہ حضرت على (ع) كے اثر كو ختم كرنا چاہتے ہيں تا كہ ہميشہ كے لئے حضرت على (ع) كا ہاتھ حكومت سے كوتاہ ہوجائے اور وہ كسى قسم كا خلافت كے خلاف اقدام كرنے سے مايوس ہوجائيں اور يہ بھى جانتى تھيں كہ فدك كو زور سے لے لينے سے على (ع) كے گھر كا دروازہ بند كرنا چاہتے تھے_
جناب فاطمہ (ع) نے سوچا كہ اب بہت اچھى فرصت اور مدرك ہاتھ آگيا ہے اس وسيلہ سے جناب ابوبكر كى انتخابى خلافت سے مبارزہ كر كے
180
اسے بدنام اور رسوا كيا جائے اور عمومى افكار كو بيدار كيا جائے اور اس قسم كى فرصت ہميشہ ہاتھ نہيں آيا كرتي_
حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا كہ اگر ميں جناب ابوبكر كے دباؤ ميں آجاوں اور اپنے مسلم حق سے دفاع نہ كروں تو جناب ابوبكر كى حكومت دوسروں پر غلط دباؤ ڈالنے كى عادى ہوجائے گى اور پھر لوگوں كے حقوق كى مراعات نہ ہوسكے گي_
جناب فاطمہ (ع) نے فكر كى كہ اگر ميں نے اپنے حق كا دفاع نہ كيا تو لوگ خيال كريں گے اپنے حق سے صرف نظر كرنا اور ظلم و ستم كے زير بار ہونا اچھا كام ہے_
جناب فاطمہ (ع) نے سوچا اگر ميں نے ابوبكر كو بدنام نہ كيا تو دوسرے خلفاء كے درميان عوام فريبى رواج پاجائے گي_
حضرت فاطمہ (ع) نے فكر كى كہ پيغمبر(ص) كى دختر ہوكر اپنے صحيح حق سے صرف نظر كرلوں تو مسلمانوں خيال كريں گے كہ عورت تمام اجتماعى حقوق سے محروم ہے اور اسے حق نہيں پہنچتا كہ وہ اپنے حق كے احقاق كے لئے مبارزہ كرے_
حضرت فاطمہ (ع) نے سوچا كہ ميں جو وحى كے دامن اور ولايت كے گھر كى تربيت يافتہ ہوں اور ميں اسلام كى خواتين كے لئے نمونہ ہوں اور مجھے ايك اسلام كى تربيت يافتہ سمجھا جاتا ہے ميرے اعمال اور رفتار كو ايك اسلام كى نمونہ عورت كى رفتار اور اعمال جانا جاتا ہے اگر ميں اس مقام ميں سستى كروں اور اپنے حق كے لينے ميں عاجزى كا اظہار كروں تو پھر اسلام ميں عورت عضو معطل سمجھى جائے گي_
181
جى ہاں يہ اور اس قسم كے ديگر عمدہ افكار تھے جو جناب فاطمہ (ع) كو اجازت نہيں ديتے تھے كہ وہ پہلا راستہ اختيار كرتيں يہى وجہ تھى كہ آپ نے ارادہ كرليا تھا كہ توانائي اور قدرت كى حد تك اپنے حق سے دفاع كريں گي_
البتہ يہ كام بہت زيادہ سہل اور آسان نہ تھا كيوں كہ ايك عورت كا مقابلہ جناب خليفہ ابوبكر سے بہت زيادہ خطرناك تھا اور وہ اس فاطمہ (ع) ناى عورت كا كہ جو پہلے سے پہلو شكستہ بازو سياہ شدہ اور جنين ساقط شدہ تھيں، ان ميں سے ہر ايك حادثہ اور واقعہ عورت كے لئے كافى تھا كہ وہ ہميشہ كے لئے زبردست انسانوں سے مرعوب ہوجائے_
ليكن فاطمہ (ع) نے فداكارى اور شجاعت اور بردبارى اور استقامت كى عادت اپنے والد رسول خدا(ص) اور مال خديجہ كبرى سے وراثت ميں پائي تھى اور انہوں نے مبارزت اسلامى كے مركز ميں تربيت پائي تھى انہوں نے ان فداكاروں اور قربانى دينے والوں كے گھر ميں زندگى گزارى تھى كہ جہاں كئي دفعہ وہ شوہر كے خون آلود كپڑے دھوچكى تھيں اور ان كے زخمى بدن كى مرہم پٹى كرچكى تھيں وہ ان جزئي حوادث سے خوف نہيں كھاتى تھيں اور جناب ابوبكر كى حكومت سے مرعوب نہيں ہوتى تھيں_
جناب زہراء (ع) نے اپنے مبارزے كو كئي ايك مراحل ميں انجام ديا_
|