فاطمہ (ع) اور على (ع) كى سخت زندگي
ايك زمانہ ميں حضرت على (ع) كى زندگى بہت سخت گزر رہى تھي_ جناب فاطمہ (ع) اپنے والد بزرگوار كى خدمت ميں حاضر ہوئيں آپ نے دروازہ كھٹكھٹايا تو پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ام ايمن سے فرمايا گويا زہرا(ع) دروازے پرہے دروازہ كھولو_ ديكھو كون ہے، جب انہوں نے گھر كا دروازہ كھولا تو جناب فاطمہ عليہا السلام گھر كے اندر داخل ہوئيں سلام كيا اور باپ كى خدمت ميں بيٹھ گئيں، جناب رسول خدا(ص) نے فرمايا بيٹى فاطمہ (ع) تم اس وقت پہلے كبھى ہمارے گھر نہيں آيا كرتى تھيں كيا ہوا ہے؟ آپ نے عرض كى يا رسول اللہ(ص) ملائكہ كى غذا كيا ہے، آپ نے فرمايا اللہ تعالى
127
كى حمد_ عرض كيا، اباجان ہمارى غذا كيا ہے؟ آپ نے فرمايا خدا كى قسم ايك مہينہ ہونے كو ہے كہ آل محمد(ص) كے گھر ميں آگ نہيں جلائي گئي_ ميرى آنكھوں كانور، آگے آؤ ميں تمہيں وہ پانچ كلمات بتلاتا ہوں جو جبرئيل نے مجھے تعليم ديئے ہيں_
''يا رب الاولين وَ الآخرين يا ذالقوة المتين
و يا ارحم المساكين و يا ارحم الراحمين''
جناب فاطمہ (ع) نے يہ دعا ياد كى اور گھر لوٹ آئيں، حضرت على عليہ السلام نے پوچھا كہاں گئي تھيں؟ جواب ديا دنيا طلب كرنے گئي تھى ليكن آخرت كے لئے دستور لے كر آئي ہوں_ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا آج سب سے بہتر دن تھا(1)_
ايك دن پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) كى عيادت كى اور آپ كے احوال پوچھے تو آپ نے عرض كيا اباجان بيمار ہوں اور اس سے بدتر يہ كہ گھر ميں كوئي چيز موجود نہيں جو كھاؤں، آپ نے فرمايا كيا يہ تمہارے لئے كافى نہيں كہ دنيا كى عورتوں سے بہترہو(2)_
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا كہ ايك دن جناب فاطمہ (ع) نے جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں عرض كيا كہ حضرت على عليہ السلام كے پاس جو آتا ہے وہ فقراء ميں تقسيم كرديتے ہيں پيغمبر(ص) نے فرمايا: بيٹى فاطمہ (ع) خبردار ميرے بھائي اور چچازاد على (ع) كوناراحت نہ كرنا
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 152_
2) در رالسمطين، ص 179_
128
كيوں كہ على (ع) كاغضب ميرا غضب ہے اورميرا غضب خدا كا غضب ہے (1)_
اسماء بنت عميس كہتى ہيں كہ ايك دن رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) كے گھر گئے ديكھا كہ حسن(ع) اور حسين(ع) گھر ميں موجود نہيں ہيں ان كى حالت پوچھي، جناب فاطمہ (ع) نے عرض كي، آج ہمارے گھر ميںكھانے كے لئے كچھ موجود نہ تھا، على (ع) نے جب باہر جانا چاہا فرمايا كہ ميںحسن (ع) و حسين (ع) كو اپنے ساتھ باہر لے جاتا ہوں تا كہ يہاں روئيں نہ اور تم سے غذا كا مطالبہ نہ كريں_ ان كواٹھايا اور فلاںيہودى كے پاس چلے گئے_ جناب رسول خدا(ص) على كى تلاش ميں باہر گئے اور انہيں يہودى كے باغ ميں ڈول كھينچتے ديكھا اور ديكھا كہ حسن (ع) اور حسين (ع) كھيل ميں مشغول ہيں اور ان كے سامنے تھوڑى مقدار خرما كى بھى موجود ہے_ پيغمبر(ص) نے على (ع) سے فرمايا كہ دن گرم ہونے سے پہلے حسن (ع) و حسين (ع) كو گھر لوٹانا نہيںچاہتے؟ آپ نے عرض كى يا رسول اللہ(ص) جب ميںگھر سے باہر آيا تھا تو ہمارے گھر كوئي غذا موجود نہ تھى آپ تھوڑ ا توقف كريں تا كہ ميںكچھ خرما جناب فاطمہ (ع) كے لئے مہيا كروں_ ميں نے اس يہودى سے ہر ڈول كے كھينچنے پر ايك خرما مقرر كيا ہے_ جب كچھ خرمے مہيا ہوگئے انہيں آپ نے اپنے دامن ميں ڈالا اور حسن (ع) اور حسين (ع) كواٹھايا اور گھر واپس لوٹ آئے (2)_
ايك دن پيغمبر(ص) فاطمہ (ع) كے پاس آئے تو ديكھا كہ فاطمہ (ع) گلوبند پہنے ہوئے ہيں، آپ نے فاطمہ (ع) سے روگردانى كى اور چلے گئے، جناب فاطمہ (ع) آپ كى روگرداني
---------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 99_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 83_
129
كى علت كو بھانپ گئيں، ہارا تارا اور پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں حاضر كرديا آپ نے فرمايا فاطمہ (ع) تم مجھ سے ہو_ اس كے بعد ايك غريب آدمى آيا تو آپ نے وہ ہار اس كو عطا كرديا اور فرمايا كہ جو شخص ہمارا خون بہائے اورميرے اہل بيت كے بارے ميں مجھے اذيت دے خداوند عالم اس پر غضب كرے گا(1)_
اسماء بنت عميس كہتى ہيں كہ ميں جناب فاطمہ (ع) كى خدمت ميں بيٹھى تھى كہ جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم وہاں آئے، آپ نے فاطمہ (ع) كى گردن ميں سونے كا ہار ديكھا آپ نے فرمايا فاطمہ (ع) لوگوں كے اس كہنے پر كہ فاطمہ (ع) رسول(ص) كى دختر ہے مغرور نہ ہونا جب كہ تم اس حالت ميں ہو كہ ظالموں كا لباس تمہارے جسم پرہو_ جناب زہراء نے فوراً ہار كو اتارا اور فروخت كرديا اور اس كى قيمت سے ايك غلام خريد كر آزاد كرديا، پيغمبر(ص) آپ كے اس كام سے بہت خوش ہوئے (2)_
امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا كہ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى عادت يہ تھى كہ جب سفر كو جاتے تو آخرى آدمى كہ جس سے وداع كرتے وہ فاطمہ (ع) ہوتيں اور جب سفر سے واپس آتے تھے تو پہلا انسان جس كا آپ ديدار كرتے تھے وہ فاطمہ (ع) ہوتيں، آپ ايك سفر سے جب جناب فاطمہ (ع) كے گھر آئے تو ديكھا حضرت حسن (ع) اور حضرت حسين (ع) كے ہاتھوں ميں چاندى كا دست بند ہے اور ايك پردہ بھى لٹكا ہوا ہے آپ نے اسے تھوڑى دير تك ديكھا اور اپنى عادت كے خلاف
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 152_
2) نظم در رالسمطين ص 179_
130
جناب زہرا(ع) كے گھر نہ ٹھہرے اور فوراً واپس لوٹ گئے، جناب فاطمہ (ع) غمگين ہوئيں اوراس واقعہ كى علت سمجھ گئيں، پردہ اتار اورحضرت حسن (ع) اور حضرت حسين (ع) كے ہاتھ سے دست بند بھى اتارا، اور يہ كسى ذريعہ سے جناب رسول خدا(ص) كى خدمت ميں روانہ كرديا_ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے آپ كى آنكھوں كو بوسہ ديا اور آپ كو نوازش دى اور دس بند كو مسجد ميں حوفقراء رہتے تھے ان ميں تقسيم كرديا اور پردے كے ٹكڑے كر كے مختلف برہنہ انسانوں كوديئے تا كہ وہ ستر عورت كرسكيں اس كے بعد جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ خدا فاطمہ (ع) پر رحمت كرے اور اسے بہشتى لباس پہنائے اور بہشتى زينت اسے عطا كرے(1)_
عمران ابن حصين كہتے ہيں كہ ميں ايك دن جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں بيٹھا ہوا تھا كہ جناب فاطمہ (ع) زہراء وہاں تشريف لے آئيں_ جب رسول خدا كى نگاہ آپ كے چہرے پر پڑى جو بھوك سے زرد ہوچكا تھا اور اس پر خون كے موجود ہونے كے آثار نہيں نظر آرہے تھے تو انہوں نے اپنے پاس بلايا اور اپنا دست مبارك جناب فاطمہ (ع) كے سينے پر ركھا اور فرمايا اے وہ خدا جو بھوكوں كو سير كرتا ہے اور ضعيفوں كو بلند كرتا ہے، فاطمہ (ع) محمد(ص) كى دختر كو بھوكا نہ ركھ_ عمران كہتا ہے كہ پيغمبر(ص) كى دعا كى بركت سے جناب فاطمہ (ع) كے چہرے كى زردى ختم ہوگئي، اور آپ كے چہرے پرخون دوڑے كے آثار
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 83_
2) نظم در رالسمطين، ص 191_
131
عملى دعوت
روايات اور تواريخ يہ گواہى دے رہى ہيں كہ اہلبيت كى فرد اول يعنى پيغمبر اسلام(ص) اور اسلام كى دوسرى شخصيت على بن ابيطالب(ع) اور اسلام كى پہلى خاتون فاطمہ زہراء (ع) كى زندگى بہت سادہ بلكہ بہت سختى اور مشقت سے گزرتى تھي، اور اس پر بہت زيادہ تعجب بھى نہيں كيا جانا چاہيئےيوں كہ اس زمانے ميں تمام مسلمانوں كى عمومى زندگى اچھى نہ تھي_
اكثر مسلمان فقير اور معاشرے سے محروم افراد ہوا كرتے تھے وہ گروہ كہ جن كى ايك حد تك زندگى برى نہ تھى دشمنوں كے خوف سے مجبور ہوگئے تھے اور اپنى تمام پونجى اور گھر بار مكہ چھوڑكر مدينہ ميں ہجرت كر آئے تھے، مدينہ ميں بھى اكثريت فقراء كى تھى اور جو چند آدمى جن كى وضع كسى حدتك اچھى تھى وہ بھى مجبور تھے كہ ان مسلمانوں سے جو مكّہ چھوڑكر ہجرت كر آئے تھے ہمدردى اور مالى مواسات بجالائيں اور اپنى قدرت كے مطابق ان كى مدد اور مساعدت كريں اور دوسرى طرف وہ زمانہ اسلام كا بحرانى زمانہ تھا مسلمان ہر وقت جنگ كے لئے تيار رہتے تھے اور اكثر اوقات جنگ اور دفاع ميں مشغول رہتے تھے اسى وجہ سے اپنى اقتصادى اوضاع كو قوى نہيںكرسكتے تھے_
ان حالات ميں كيا پيغمبر(ص) اور على (ع) اور فاطمہ (ع) كے لئے مناسب اور ممكن تھا كہ وہ اپنے لئے اچھى زندگى فراہم كريں اور فقراء اور بيچاروں سے ہمدردى نہ كريں اگر چہ پيغمبر(ص) اور حضرت على (ع) خود كام كيا كرتے تھے اور اسى ذريعہ سے
132
ان كے پاس مشروع اورجائز دولت بھى اكھٹى ہوجاتى تھى اور جنگ كى غنيمت سے بھى انہيں حصہ ملتا تھا اور اگر چاہتے تو اچھى زندگى گزار سكتے تھے، ليكن كيا يہ ممكن تھا كہ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور ان كے داماد اور ان كى بيٹى تو آرام سے زندگى گزاريں ليكن مدينہ كے فقراء كى فرياديں بلند ہوں، كيا يہ مناسب تھا كہ پيغمبر(ص) كى دختر تو گھر پر پردے لٹكائے ركھے اور مسلمانوں كى ايك جماعت كے پاس سترعورت كے لئے كپڑے تك موجود نہ ہوں، كيا يہ ہوسكتا تھا كہ حسن (ع) اور حسين (ع) توہاتھوں ميں چاندى كے دست بند پہنے ہوئے ہوں اور مسلمانوں كے بچوں كى بھوك سے فضاء ميں آوازيں بلند ہو رہى ہوں_
قاعدتاً اگر اسلام كا پہلا شخص اور اہلبيت گرامى دوسرے مسلمانوں سے مواسات نہ كرتے تو كيا ممكن ہوتا كہ مسلمانوں كے مستضعف گروہ كو صدر اسلام ميں كہ جو ابھى اچھى طرح پيغمبرى اور وحى كے معنى كو درك نہيں كرتے تھے اور ان كى عقليں صرف ان كى آنكھوں تك محدود تھى حاضر كيا جاتا كہ وہ ميدان جہاد ميں فداكارى كريں اور اپنى جان كو قربان كريں؟ اسلام كى پيشرفت اور اس كے معنوى نفوذ كى ايك علت يہ بھى تھى كہ جو آنحضرت سے سنتے تھے اسے عملى طور سے بھى رفتار و گفتار اور زندگى فردى اور خانوادے كى زندگى ميںمشاہدہ بھى كرتے تھے اسى عملى دعوت كى وجہ سے وہ اسلام اور جانبازى كى طرف مائل ہوا كرتے تھے ليكن ...
حضرت زہراء كى عصمت
لغت ميں لفظ معصوم كے معنى محفوظ اور ممنوع كے ہيں_ اصطلاح ميں معصوم اس شخص كو كہاجاتا ہے جو غلطى اور اشتباہ اور گناہوں سے امان ميں ہو اور محفوظ ہو معصوم اسے كہتے ہيں كہ اس كى بصيرت
133
كى آنكھ ايسى ہو كہ عالم كے حقائق كا مشاہدہ كر رہى ہو اور اس ارتباط اور اتصال كى وجہ سے جو اسے عالم ملكوت سے ہے اور غيبى تائيدات سے گناہ اور نافرمانى نہ كرے اور اس كے وجود مقدس ميں غلطى اور اشتباہ اور سركشى اور عصياں گزر نہ كرسكے_ عصمت كا بلند و بالا رتبہ اور مقام دلائل عقلى اور نقلى اور براہين سے پيغمبروں كے لئے تو ثابت ہوچكا ہے_
شيعہ اماميہ كاعقيدہ ہے كہ ہمارے پيغمبر(ص) كے حقيقى جانشين و خلفاء اور بارہ اماموں كو بھى معصوم ہونا چاہيئےور ان كے پاس ان بزرگوں كى عصمت كے لئے دلائل اور براہين بھى موجود ہيں_ اگر ہم ان كا ذكر يہاں شروع كرديں تو اصل مقصد سے ہٹ جائيں گے_
شيعہ اماميہ پيغمبروں كى عصمت كے علاوہ حضرت زہرا (ع) كو بھى گناہوں اور نافرمانى سے معصوم جانتے ہيں اور آپ كى عصمت كے ثبوت كے لئے بہت سى دليليں پيش كى جاسكتى ہيں_ بعض كو يہاں ذكر كيا جاتا ہے_
پہلى دليل اس آيت كے تمسك كر كے آپ كى عصمت كو ثابت كياجاسكتا ہے_
''انما يريد اللہ ليذہب عنكم الرجس اہل البيت و يطہركم تطہيرا'' (1)
آيت كا ترجمہ اس طرح كيا گيا ہے_ ''خدا چاہتا ہے كہ ناپاكياور آلودگى كو تم اہلبيت سے دور كردے اوركاملاً تمہيں پاكيزہاور طاہر كردے_
شيعہ اور سنى نے بہت زيادہ احاديث نقل كى ہے جو دلالت كرتى ہيں كہ يہ آيت پيغمبر(ص) اور على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسين (ع) كى شان ميں نازل ہوئي ہے_
-------
1) سورہ احزاب آيت 24_
134
جناب عائشےہ فرماتى ہيں كہ ايك دن جناب پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اپنے كندھے پر سياہ پشم كا بنا ہوا كپڑا ڈالے گھر س باہر نكلے اس كے بعد حسن اور حسين (ع) اور فاطمہ (ع) اور على (ع) كو اس كپڑے اور چادر كے درميان ليا اور فرمايا:
انما يريد اللہ ليذہب عنكم الرجس اہل البيت الخ(1)
جناب ام سلمہ فرماتى ہيں ايك دن جناب فاطمہ (ع) ايك ظرف ميں حرير (ايك كا حلوہ ہے) لے كر جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں حاضر ہوئيں، پيغمبر(ص) نے فرمايا كہ على (ع) اور حسن (ع) اور حسين (ع) كو بھى بلاؤ، جب يہ تمام حضرات رسول (ص) كى خدمت ميں حاضر ہويئےور غذا كھا نے ميںمشغول ہوئے تو يہ آيت نازل ہوئي، اس كے بعد پيغمبر(ص) نے خيبرى چادر ان كے سرپر ڈالى اور تين مرتبہ فرمايا كہ اے ميرے خدا يہ ميرے اہل بيت ہيں، آلودگى كو ان سے زائل كردے اورپاكيزہ بنادے (2)_
عمر ابن ابى سلمہ كہتے ہيں كہ يہ آيت ''انما ير اللہ'' جناب ام سلمہ كے گھر ميں نازل ہوئي، پس پيغمبر اكرم(ص) نے على (ع) اورفاطمہ اور حسن اور حسين عليہم السلام كو اپنے پاس بلايا اور چادر ان كے سرپر ڈالى اور فرمايا، اے ميرے خدا، يہ ميرے اہلبيت ہيں آلودگى كو ان سے زائل كردے اور ان كو اس طرح پاك و پاكيزہ فرما جو حق ہے جناب ام سلمہ نے عرض كى يا رسول اللہ(ص) ميں بھى ان كے ساتھ ہوں يعنى اہلبيت ميں داخل ہوں آپ نے جواب ديا كہ تم بھى اچھائي پر ہو (3)_
----------
1) ينابيع المودہ، ص 124_ درالمنثور، ج 5 ص 198_
2) ينابيع المودہ، ص 125 و درالمنثور، ج 5 ص 198_
3) ينابيع المودہ، ص 125_
135
واثلہ ابن اسقع كہتے ہيں كہ ايك دن پيغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) كے گھر تشريف لے گئے على (ع) اور فاطمہ (ع) كو سامنے بٹھايا اور حسن (ع) اور حسين (ع) كو زانو پر، اس كے بعد ان كے سروں پر چادر ڈال كر فرمايا، اے ميرے خدا، يہ ميرے اہلبيت ہيں آلودگى كو ان سے زائل كردے (1)_
خلاصہ رسول خدا(ص) كے اصحاب كى ايك جماعت جيسے جناب عائشےہ، ام سلمہ، معقل بن يسار، ابى الحمرائ، انس بن مالك، سعد ابن ابى وقاص، واثلہ ابن اسقعہ، حسن ابن علي، على بن ابيطالب، ابوسعيد خدري، زينب، ابن عباس اور ان كے علاوہ ايك اور جماعت نے اسى سے ملتى جلتى روايات اس آيت كى شان نزول ميں نقل كى ہيں_ شيعہ اور سنى علماء جيسے جلال الدين سيوطى نے درالمنثور ميں اور سليمان بن ابراہيم قندوزى نے ينابيع المودة اور دوسرے سنى علماء نے ان روايات كو اپنى كتابوں ميں نقل كيا ہے_
ان روايات سے معلوم ہوتا ہے كہ پيغمبر(ص) اس آيت كے نازل ہوئے كے بعد متعدد مقامات پر اور ان ميں سے خود جناب فاطمہ (ع) اور جناب ام سلمہ كے گھر اپنى عبا على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسين (ع) كے سرپر ڈالتے اور اس آيت كى تلاوت فرماتے تھے اور فرماتے تھے كہ اے خدا جو اشخاص ميرى عبا كے نيچے موجود ہيں يہى ميرے اہلبيت ہيں، آلودگى كو ان سے دور فرما، رسول خدا(ص) اس قسم كا عمل اس لئے انجام ديتے تھے تا كہ اہلبيت (ع) كى شناخت ہوجائے اور يہ موضوع پايہ ثبوت كو پہنچ جائے يہاں تك كہ چھ ماہ اوربعض روايات كى بنا پرسات اور بعض دوسرى روايت كى بناپر آٹھ مہينہ تك آپ كى يہ عادت تھي
---------
1)ينابيع المودہ، ص 125 و درالمنثور ج 5 ص 199_
136
كہ آپ صبح كے وقت جب نماز كے لئے جاتے اور حضرت فاطمہ عليہا السلام كے گھر سے گزرتے تو ٹہرجاتے اور يہ آيت تلاوت فرماتے(1)_
رسول خدا(ص) ان موارد اورمواقع پر اپنى چادر على (ع) اور فاطمہ (ع) اورحسن (ع) اور حسين (ع) عليہم السلام كے سر پر ڈالتے اور يہى آيت تلاوت فرماتے تا كہ اس سے غلط مطلب لينے كى كسى كو گنجائشے نہ رہے كہ كوئي دعوى كرے كہ ميں بھى اہلبيت كا مصداق اور فرد ہوں، آپ اس مطلب كو اتنى اہميت ديتے تھے كہ جب ام سلمہ نے عبا كے اندر داخل ہونا چاہا تو آپ نے چادر ان كے ہاتھ سے كھينچ لى اور فرمايا كہ تم نيكى پر ہو_ ايك زمانے تك صبح كے وقت آپ نماز كے لئے تشريف لے جاتے تو فاطمہ (ع) كے گھر ميں رہنے والوں كو خطاب كرتے ہوئے يہ آيت تلاوت فرماتے تا كہ لوگ سن ليں اور اس كے بعد انكار نہ كرسكيں_ على (ع) اور حسن (ع) اور حسين (ع) بھى متعدد مقامات پر اور صحابہ كے روبرو فرمايا كرتے تھے كہ يہ آيت ہمارے حق ميںنازل ہوئي ہے_ اور كسى وقت بھى اس كا كسى نے انكار نہيں كيا_
اس آيت كے مطابق خداوند عالم فرماتا ہے كہ خدا نے ارادہ كيا كہ تم اہلبيت كو آلودگى اور رجس سے منزہ قرار دے_ اس رجس سے مراد ظاہرى نجاست نہيں ہے كيونكہ اس كا دور كرنا اہلبيت كے ساتھ مخصوص نہيں ہے بلكہ تمام مسلمان مكلف ہيں كہ وہ اپنے آپ سے ظاہرى نجاست كو دور ركھيں اور اس سے پرہيز كريں، اس كے علاوہ اگر ظاہرى نجاست مراد ہوتى تو اس كے لئے اتنے اہتمام اور تكلف كى ضرور نہ تھى اور نہ ہى پيغمبر كو دعا
---------
1) كشف الغمہ،ج 2 ص 83، و در المنثور ج 5 ص 199، و فصول المتمہ ص 8_
137
كى ضرورت تھي_ مطلب اتنا مہم نہيں تھا كہ ام سلمہ اس كا مصداق ہونے كى خواہش كرتيں اور رسول خدا اس سے مانع ہوتے اس سے معلوم ہوجائے گا كہ مراد اس آيت ميں ظاہرى نجاست اور آلودگى نہيں ہے، بلكہ اس سے مراد اور مقصود باطنى آلودگى يعنى گناہ اور اللہ تعالى كى نافرمانى ہے، لہذا اس آيت كے معنى يہ ہوں گے كہ خدا نے چاہا ہے اور اس كا ارادہ ہے كہ اہلبيت گناہ سے پاكيزہ ہوں اور اس ارادہ سے مراد بھى ارادہ تشريعى نہيں ہے، يعنى يوں نہيں كہا جاسكتا كہ خداتعالى نے اہلبيت سے_ طلب كيا ہے كہ وہ خود اپنے آپ كو گناہ اورمعصيت سے پاك كريں كيونكہ ايسا ارادہ بھى اہلبيت كے ساتھ اختصاص نہيں ركھتا، كيوں كہ خداوند عالم تمام لوگوں سے يہى چاہتا ہے كہ وہ گناہ كا ارتكاب نہ كريں بلكہ اس ارادے سے مراد اس آيت ميں تكوينى ارادہ ہے يعنى خدا نے اس طرح مقدر كرديا ہے كہ اہلبيت كا دامن معصيت اور گناہ سے پاك اور منزہ ہو حالانكہ تمام بشر مختار ہيں كہ وہ علم اور ارادے سے گناہوں كو ترك كريں_
پيغمبر(ص) نے بھى اس آيت كى يہى تفسير كى ہے يعنى گناہوں سے معصوم ہونا_ ابن عباس نے رسول خدا(ص) سے روايت كى ہے كہ آپ نے فرمايا كہ اللہ تعالى نے مخلوق كى دو قسم كى ہيں اور مجھے بہترين قسم ميں قرار ديا ہے كيوں كہ اللہ تعالى فرماتا ہے كہ:
''اصحاب اليمين ما اصحاب اليمين و اصحاب الشمال ما اصحاب الشمال''_
ميںاصحاب يمين سے اوران سے بہترين ميں سے ہوں، اس كے بعد اللہ تعالى نے ان كى تين قسميں كى ہيں اور مجھے ان ميں سے بہترين قسم ميں قرار ديا ہے_ اللہ تعالى فرماتا ہے كہ:
138
''فاصحاب الميمنة ما اصحاب الميمنة و اصحاب
المشئمہ ما اصحاب المشئمہ و السابقون السابقون''
ميں سابقين ميں سے ہوں اور ان سے بہترين ہوں_ پھر ان تين قسموں كو قبيلوں ميں تقسيم كيا_ اور مجھے بہترين ميں قرار ديا_ جيسے كہ اللہ تعالى فرماتا ہے:
''و جعلناكم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اكرمكم عند اللہ اتقاكم''
پس ميں حضرت آدم(ع) كى اولاد ميں سے پرہيزگاروں اورمعظم ترين لوگوں ميں سے ہوں، ليكن اس پرميں فخر نہيں كرتا پھر اللہ تعالى نے ان قبائل كو خاندانوں ميں تقسيم كيا ہے، اور مجھے بہترين خاندان ميں قرار ديا ہے_ جيسے كہ اللہ تعالى فرماتا ہے:
''انما يريد اللہ ليذہب عنكم الرجس اہل البيت و يطہركم تطہيراً''
پس ميں اور ميرے اہلبيت گناہوں اورمعصيت سے معصوم ہيں (1)_
اعتراض
كہا گيا ہے كہ يہ آيت عصمت پر دلالت نہيں كرتى كيوں كہ اس سے پہلى آيت اور اس سے بعد كى آيات تمام كى تمام پيغمبر(ص) كى ازواج كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں اور انہى كوخطاب كيا گيا ہے_
اس قرينے كے لحاظ سے كہا جاسكتا ہے كہ يہ آيت بھى پيغمبر(ص) كى ازدواج
----------
1) درالمنثور، ج 1 ص 199_
139
كى شان ميں نازل ہوئي ہے اور وہى اس آيت ميں اس كى مخاطب ہيں اور اگر اس آيت كى دلالت عصمت پر مان لى جائے تو پھر كہنا پڑے گا كہ پيغمبر(ص) كى ازدواج گناہوں سے معصوم ہيں حالانكہ اس مطلب كو كسى نے نہيں كہا اور نہ ہى يہ مطلب كہا جاسكتا ہے لہذا كہنا ہوگا كہ اصلاً يہ آيت عصمت پر دلالت ہى نہيں كرتى نہ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى ازدواج كے مورد ميں اور نہ ہى اہلبيت كے مورد ميں_
اعتراض كا جواب
علامہ سيد عبدالحسين شرف الدين نے اس اشكال كونقل كر كے اس كا جواب ديا ہے_ ہم يہاں وہ جواب نقل كر رہے ہيں_
پہلا جواب:
يہ ہے كہ جو احتمال اعتراض ميں ديا گيا ہے وہ نص اور صريح روايات كے خلاف ہے اور يہ ايك ايسا اجتہاد ہے كہ جو نصوص اور روايات كے خلاف ہے كيوں كہ روايات حد تواتر تك موجود ہيں كہ جن سے ظاہر ہوتا ہے كہ يہ آيت حضرات على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسين (ع) كى شان ميں نازل ہوئي ہے اور يہ آيت انہيں سے مخصوص ہے_ يہان تك كہ جب جناب ام سلمہ نے چاہا كہ چادر كے اندر داخل ہوجائيں تو پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے انہيں سختى سے روك ديا_
دوسرا جواب:
اگر يہ آيت پيغمبر(ص) كى ازواج كے حق ميں نازل ہوتى تو پھر
140
چاہيئےھا كہ صيغہ مونث حاضر كا استعمال كيا جاتا اور يوں آيت ہوتى انما يريد اللہ ليذہب عنكم كى جگہ عنكنَّ ہوتا اور جمع مذكر كا صيغہ جو موجودہ آيت ميں ہے نہ لايا جاتا_
تيسرا جواب:
عربى فصيح زبان ميںعربوں كے درميان يہ عام رواج ہے كہ وہ ايك مطلب كے درميان جملہ معترضہ لايا كرتے ہيں، لہذا كيا حرج ہے كہ اللہ تعالى نے اس آيت كو جو اہلبيت سے مخصوص ہے ازواج پيغمبر(ص) كے ذكر كے درميان ذكركرديا ہو تا كہ اہلبيت كے موضوع كى اہميت واضح ہوجائے اور اس نكتہ كى طرف توجہ دلانى ہو كہ چونكہ پيغمبر(ص) كے اہلبيت گناہوں سے معصوم ہيں كسى كو اس مقام كے حاصل كرنے كى كوشش نہيں كرنى چاہيئے يہاں تك كہ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى ازواج مطہرات بھى اس مقام كے حاصل كرنے كا حق نہيں ركھتيں_
چوتھا جواب:
باوجوديكہ قرآن مجيد ميںتحريف واقع نہيں ہوئي اور قرآن مجيد كى آيات ميں كمى زيادتى نہيں ہوئي ليكن يہ مطلب تمام كے نزديك مسلم نہيں كہ قرآن كى تدوين اور جمع كرنے كے وقت ان تمام آيات اور سورتوں كو بعينہ ويسے ہى ركھا گيا ہے جس ترتيب سے نازل ہوئي تھيں مثلاً كوئي بعيد نہيں كہ اس آيت كو جو اہلبيت كے بارے ميں نازل ہوئي ہے ايك عليحدہ جگہ نازل ہوئي ہو ليكن قرآن جمع كرنے كے وقت اس كو ان آيات كے درميان ركھ ديا ہو جو پيغمبر(ص) كى ازواج كے بارے ميں نازل ہوئي ہيں (1)_
--------
1) كتاب كلمة الغراء فى تفصيل الزہرائ_ مولفہ سيد عبدالحسين شرف الدين، ص 212_
141
دوسرى دليل
جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمايا تھا كہ فاطمہ (ع) خدا تيرے غضبناك ہونے پرغضبناك ہوتا ہے اور تيرى خوشنودى پر خوشنود ہوتا ہے (1)_
اس حديث كو شيعہ اور سنيوں نے نقل كيا ہے اور اس حديث كو دونوں قبول كرتے ہيں، اس حديث كے مطابق جس جگہ فاطمہ (ع) غضبناك ہوں گى خدا بھى غضبناك ہوگا اور فاطمہ (ع) خوشنود ہوگى تو خدا بھى راضى اور خوشنود ہوگا اور يہ امر مسلم ہے كہ خدا واقع اور حق كے مطابق راضى اور غضبناك ہوتا ہے اور كبھى بھى برے يا خلاف حق كام كرنے پر راضى اور خوشنود نہيں ہوتا اگر چہ دوسرے اس پر راضى اور خوشنود ہى كيوں نہ ہوں اور كبھى بھى اچھے كاموں اور حق كے مطابق اعمال پر غضب ناك نہيں ہوتا، اگر چہ دوسرے لوگ اس پر غضبناك ہى كيوں نہ ہوتے ہوں، ان دو چيزوں كا لازمہ يہ ہوگا كہ جناب فاطمہ (ع) گناہ اور خطا سے معصوم ہوں، كيوں كہ اگر معصوم ہوئيں تو آپ كا غضب اور رضا شريعت كے ميزان كے مطابق ہوگى اور كبھى بھى اللہ تعالى كى رضا كے خلاف راضى نہ ہوں گى اور كبھى بھى نيك اور حق كاموں سے غضبناك نہ ہوں گى اس صورت ميں يہ كہا جاسكتا ہے كہ اگر فاطمہ (ع) غضب كرے تو خدا غضب كرتا ہے اور اگر وہ خوشنود ہو ت و خدا خوشنود ہوتا ہے_
بخلاف اگر گناہ اور خطا آپ كے حق ميں جائز قرار ديا جائے تو بطور كلى يہ
--------
1) ينابيع المودہ، ص 203 اور مجمع الزوائد، ج 9 ص 203_
142
نہيں كہا جاسكتا كہ فاطمہ (ع) كے غضب سے خدا غضبناك ہوتا ہے اور ان كى خوشنودى سے خدا خوشنود ہوتا ہے، اس مطلب كو ايك مثال ديگر واضح كردوں فرض كريں كہ حضرت فاطمہ (ع) معصوم نہ ہوں اور ان كے حق ميں اشتباہ اور خطا ممكن ہو تو اس صورت ميں ممكن ہے كہ آپ اشتباہ يا خواہشات نفسانى كى وجہ سے حق اور واقع كے خلاف كسى سے كوئي چيز طلب كريں اور اس كى وجہ سے ان ميں نزاع اور كشمكش كى نوبت پہنچ جائے اور آپ كامد مقابل اس مقابلے پر جو آپ كر رہى ہيں راضى نہ ہو اور آپ كو مغلوب كردے تو ممكن ہے كہ آپ اس صورت ميں غضب ناك ہوجائيں اور عدم رضايت كا اظہار كرديں تو كيا اس فرض اور صورت ميں يہ كہنا درست ہوگا كہ چونكہ فاطمہ (ع) اس شخص پر غضبناك ہيں لہذا اللہ بھى اس پر غضبناك ہے گر چہ حق اسى مد مقابل كے ساتھ ہے_ ايسا بالكل نہيںہوسكتا اور نہ ہى ايسے برے كام كو اللہ كى طرف نسبت دى جائيگى ہے_
ايك دوسرى روايت سے بھى جناب فاطمہ (ع) كى عصمت كوثابت كيا جاسكتا ہے كہ جس ميں پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے جو بھى اسے غضبناك كرے اس نے مجھے غضبناك كيا(1)_
يہ حديث بھى شيعہ اور سنى كتابوں ميں موجود ہے اور تمام مسلمان اس حديث كو حتى كہ جناب عمر اور ابوبكر بھى صحيح تسليم كرتے ہيں_ سابقہ بيان كو جب اس حديث كے پيرايہ ميں ديكھا جاتا ہے تو اس سے بھى حضرت زہرا(ع) كى عصمت پر دلالت ہوجاتى ہے_ كيونكہ پيغمبر(ص) گناہ اور خطا اور خواہشات نفسانى سے معصوم ہيں
-----------
1) صحيح بخاري، ج 2 ص 302_
143
آپ اس كام پہ غضبناك ہوتے ہيں جو اللہ تعالى كے نزديك مبغوض ہوتا ہے اور اس چيز سے راضى ہوتے ہيں كہ جس پر اللہ تعالى راضى ہوتا ہے اس صورت ميں كہاجاسكتا ہے كہ فاطمہ (ع) معصوم اور گناہ اور خطا كا احتمال ان كے حق ميں جائز نہيں_
ايك اور دليل جو حضرت زہرا(ع) كى عصمت كو ثابت كرتى ہے، وہ حديث ہے جو امام صادق (ع) نے نقل فرمائي ہے، آپ فرماتے ہيں كہ آپ كا نام زہراء اس لئے ركھا گيا ہے كہ آپ كے وجود ميں شر اور برائي كو كوئي راستہ نہيں ہے (1)_
عورت جناب زہراء (ع) كى نظر ميں
على ابن ابى طالب (ع) فرماتے ہيں كہ ميں ايك دن ايك جماعت كے ساتھ جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں بيٹھا ہوا تھا آپ نے اپنے اصحاب سے فرمايا كہ عورت كى مصلحت كس ميں ہے؟ آپ كو كوئي صحيح جواب نہ دے سكا، جب اصحاب چلے گئے اور ميں بھى گھر گيا تو ميں نے پيغمبر(ص) كے سوال كو جناب فاطمہ (ع) كے سامنے پيش كيا_ جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا كہ ميں اس كا جواب جانتى ہوں، عورت كى مصلحت اس ميں ہے كہ وہ اجنبى مرد كو نہ ديكھے اور اسے اجنبى مرد نہ ديكھے_ ميں جب جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں حاضر ہوا تو ميں نے عرض كى كہ آپ كے سوال
--------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 89_
144
كے جواب ميںجناب فاطمہ (ع) نے يہ فرمايا ہے_ پيغمبر(ص) نے آپ كے اس جواب سے تعجب كيا اور فرمايا كہ فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے(1)_
اس ميں كوئي شك نہيں كہ دين مقدس اسلام نے عورتوں كى ترقى اور پيشرفت كے لئے بلند قدم اٹھائے ہيں اور ان كے حقوق كو پورا كرنے كے لئے ان كے لئے عادلانہ قوانين اور احكام وضع كئے ہيں، اسلام نے عورت كو علم حاصل كرنے كى آزادى دے ركھى ہے اس كے مال اور كام كا محترم قرار ديا ہے، اجتماعى قوانين وضع كرتے وقت عورتوں كے واقعى منافع اورمصالح كى پورى طرح مراعات كى ہے_
ليكن يہ بات قابل بحث ہے كہ آيا عورت كى مصلحت اجتماع اورمعاشرے ميں اجنبى مردوں كے ساتھ مخلوط رہنے ميں ہے يا عورت كى مصلحت اس ميں ہے كہ وہ بھى مردوں كى طرح عمومى مجالس اورمحافل ميں بيگانوں كے ساتھ گھل مل كر پھرتى رہے؟ كيا يہ مطلب واقعاً عورتوں كے فائدے ميں ہے كہ وہ زينت كر كے بغير كسى بند و بار كے مردوں كى مجالس ميں شريك ہو اور اپنے آپ كو انظار عمومى ميں قرار دے؟ كيا يہ عورتوں كے لئے مصلحت ہے كہ وہ بيگانوں كے لئے آنكھ مچولى كرنے كا موقع فراہم كرنے اور مردوں كے لئے امكانات فراہم كرے كہ وہ اس سے ديدنى لذت اورمفت كى لذت حاصل كرتے رہيں؟ كيا يہ عورتوں كى منفعت ميںہے كہ كسى پابندى كو اپنے لئے جائز قرار نہ ديں اور پورى طرح اجنبى مردوں كے ساتھ گھل مل كر رہيں اور آزادانہ طور سے ايك دوسرے كو ديكھيں؟ كيا عورتوں كى مصلحت اسى ميں ہے كہ وہ گھر سے اس طرح نكلے كہ
----------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 92_
145
اس كاتعاقب اجنبى لوگوں كى نگاہيں كر رہى ہوں_
يا نہ بلكہ عورتوں كى مصلحت معاشرے ميں اس ميں ہے كہ اپنے آپ كو مستور كر كے سادہ طريقے سے گھر سے باہر آئيں اور اجنبى مردوں كے لئے زينت ظاہر نہ كريں نہ خود بيگانوں كوديكھيں اور نہ كوئي بيگانہ انہيں ديكھے_
آيا پہلى كيفيت ميں تمام عورتوں كى مصلحت ہے اور وہ ان كے منافع كو بہتر طور پرمحفوظ كرسكتى ہے يا دوسرى كيفيت ميں؟ آيا پہلى كيفيت عورتوں كى روح اور ترقى اور پيشرفت كے بہتر اسباب فراہم كرسكتى ہے يا دوسرى كيفيت ؟ پيغمبر اسلام(ص) نے اس مہم اوراجتماع اور معاشرے كے اساسى مسئلہ كواپنے اصحاب كے افكار عمومى كے سامنے پيش كيااور ان كى اس ميں رائے طلب كى ليكن اصحاب ميں سے كوئي بھى اس كا پسنديدہ جواب نہ دے سكا، جواب اس كى اطلاع حضرت زہراء (ع) كو ئي تو آپ نے اس مشكل موضوع ميں اس طرح اپنا نظريہ بيان كيا كہ عورتوں كى معاشرے ميں مصلحت اس ميں ہے كہ نہ وہ اجنبى مردوں كو ديكھيں اور نہ اجنبى مرد انہيں ديكھيں_ وہ زہراء (ع) جو وحى اور ولايت كے گھر ميں تربيت پاچكى تھى اس كا اتنا ٹھوس اور قيمتى جواب ديا اوراجتماعى موضوع ميں سے ايك حساس اور مہم موضوع ميں اپنے نظريئے اورعقيدے كااظہار كيا كہ جس سے رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے تعجب كيا اور فرمايا كہ فاطمہ (ع) ميرے جسم كاٹكڑا ہے_
اگر انسان اپنے ناپختہ احساسات كو دور ركھ كر غير جانبدارانہ اس مسئلے ميں سوچے اور اس كے نتائج اور عواقب پر خوب غور اور فكر كرے تو اس بات كى تصديق كرے گا كہ جو جواب جناب فاطمہ (ع) نے ديا ہے وہ بہترين دستورالعمل ہوسكتا ہے جو عورتوں كے منافع كا ضامن ہو_ اور اس كے مقام اور رتبے كو
146
معاشرے ميںمحفوظ كردے گا كيونكہ اگر عورتيں گھر سے اس طرح نكليں اور اجنبيوں كے ساتھ اس طرح ميل جول ركھيں كہ مرد ان سے ہر قسم كى تمتعات حاصل كرسكيں اور عورتيں ہر جگہ مردوں كے لئے آنكھ مچولى كے اسباب فراہم كريں تو پھر جوان دير سے شادى كريں گے اور وہ زندگى اور ازدواج كے زيربار نہيں ہوں گے، ہر روز لڑكيوں اور عورتوں كى تعداد ميں جو بے شوہر ہوں گى اضافہ ہوتا جائے گا اور يہ علاوہ ازين كہ معاشرے كے لئے مضر ہے اور ماں، باپ كے لئے مشكلات اور محذورات كا موجب ہے خود عام عورتوں كے اجتماع كے لئے بھى موجب ضرر ہوگا، اور اگرعورتيں اپنى خوبصورتى كو تمام نگاہوں كے لئے عام قرار دے ديں اور اجنبيوں ميں دلربائي كرتى رہيں تو ايك بہت بڑے گروہ كا دل اپنے ساتھ لئے پھريں گى اور چونكہ مرد محروميت سے دوچار ہوں گے اوران تك دست رسى اور وصال بغير قيد اور شرط كے حاصل نہ كرسگيں گے قہراً ان ميںنفسياتى بيمارياں اور ضعف اعصاب اورخودكشى اور زندگى سے مايوسى عام ہوجائے گي_
اس كا نتيجہ بلاواسطہ خود عورتوں كى طرف لوٹے گا، يہى عام لطف نگاہ ہے كہ بعض مرد مختلف قسم كے حيلے اور فريب كرتے ہيں اورمعصوم اور سادہ لوح لڑكيوں كو دھوكا ديتے ہيں اور ان كى عفت و آبرو كے سرمايہ كو برباد كرديتے ہيں اور انہيں فساد اور بدبختى اورتباہى كى وادى ميں ڈھكيل ديتے ہيں_
جب شوہردار عورت ديكھے كہ اس كا شوہر دوسرى عورتوں كے ساتھ آتا جاتا ہے، اورعمومى مجالس اورمحافل ميں ان سے ارتباط ركھتا ہے توغالباً عورت كى غيرت كى حس اسے اكساتى ہے كہ اس ميں بدگمانى اور سو ظن پيدا
147
ہوجائے اور وہ بات بات پراعتراض شروع كردے، بے جہت باصفا اور گرم زندگى كو سرد اور متزلزل بنا كر ركھ دے گى اور نتيجہ،جدائي اور طلاق كى صورت بس ظاہر ہوگا يا اسى ناگوار حالت ميں گھر كے سخت قيدخانے ميں زندگى گزارتے رہے گى اور قيد خانے كى مدت كے خاتمہ كا انتظار كرنے ميں زندگى كے دن شمار كرتى رہے گى اورمياں، بيوى دو سپاہيوں كى طرح ايك دوسرے كى مراقبت ميں لگے رہيں گے_
اگر مرد اجنبى عورتوں كو آزاد نہ ديكھ سكتا ہو تو قہراً ان ميں ايسى عورتيں ديكھ لے گا جو اس كى بيوى سے خوبصورت اور جاذب نظر ہوں گى اور بسا اوقات زبان كے زخم اورسرزنش سے اپنى بيوى كے لئے ناراحتى كے اسباب فراہم كرے گا اور مختلف اعتراضات اور بہانوں سے باصفا اور گرم زندگى كوجلانے والى جہنم ميں تبديل كردے گا_
جس مرد كوآزاد فكرى سے كسب و كار اور اقتصادى فعاليت ميںمشغول ہونا چاہيئے،جب آنے جانے ميں يا كام كى جگہ نيم عرباں اور آرائشے كى ہوئي عورتوں سے ملے گا تو قہراً غريزہ جنسى سے مغلوب ہوجائے گا اور اپنے دل كو كسى دل رباء كے سپرد كردے گا، ايسا آدمى كبھى آزاد فكرى سب كسب و كار ميں يا تحصيل علم ميں مشغول نہيں ہوسكتا اور اقتصادى فعاليت ميںپيچھے رہ جائے گا اس قسم كے ضرر ميں خود عورتيں بھى شريك ہوں گي_ اور يہ ضرر ان پر بھى وارد ہوگا_
اگر عورت پردہ نشين ہو تو وہ اپنى قدر اور قيمت كو بہتر مرد كے دل ميں جاگزين كرسكتى ہے اور عورتوں كے عمومى منافع كو معاشرے ميںحفظ كرسكتى ہے اور اجتماعى كے نفع كے لئے قدم اٹھاسكتى ہے_
اسلام چونكہ عورت كو اجتماع اور معاشرے كا ايك اہم جز و جانتا
148
ہے اور اس كى رفتار اور سلوك كومعاشرے ميں موثر جانتا ہے، لہذا اس سے يہ بڑا وظيفہ طلب كيا گيا ہے كہ وہ پردے كے ذريعے فساد اور انحراف كے عوامل سے جلوگيرى كرے اورملت كى ترقى اورعمومى صحت اور بہداشت كو برقرار ركھنے ميں مدد كرے_ اس لئے اسلام كى نمونہ اور مثالى خاتون نے جو وحى كے گھر كى تربيت يافتہ تھي، عورتوں كے معاشرے كے متعلق اس قسم كے عقيدہ كا اظہار كيا ہے كہ عورتوں كى مصلحت اس ميں ہے كہ وہ اس طرح سے زندگى بسر كريں كہ نہ انہيں اجنبى مرد ديكھ سكيں اور نہ وہ اجنبى مردوں كو ديكھ سكيں_
|