107
حصّہ چہارم
فضائل حضرت زہرا(ع)
108
پيغمبر(ص) نے فرمايا ہے كہ بہترين عورتيں چار ہيں، مريم دختر عمران، فاطمہ (ع) دختر محمد(ص) ، خديجہ بنت خويلد، آسيہ زوجہ فرعون _(1)
پيغمبر(ص) نے فرمايا كہ بہشت كى عورتوں ميں سے بہترين عورت فاطمہ (ع) ہيں_ (2)
جناب رسول خدا(ص) نے فرمايا ہے كہ جب قيامت برپا ہوگي، عرش سے اللہ كا منادى ندا دے گا، لوگو اپنى آنكھيں بند كر لو تا كہ فاطمہ (ع) پل صراط سے گزر جائيں_ (3)
پيغمبر (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمايا كہ خدا تيرے واسطے سے غضب كرتا ہے اور تيرى خوشنودى كے ذريعہ خوشنود ہوتا ہے _(4)
جناب عائشےہ فرماتى ہيں كہ ميںنے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے بعد
--------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 76_
2) كشف الغمہ، ج 2 ص 76_
3) كشف الغمہ، ج 2 ص 83، ذخائز العقبى ، ص 48_
4) كشف الغمہ، ج 2 ص 84_ سدالغابہ، ج 5 ص 532_
109
كسى كو جناب فاطمہ (ع) سے زيادہ سچا نہيں ديكھا_(1)
امام محمد باقر(ع) نے فرمايا ہے كہ خدا كى قسم، اللہ نے فاطمہ (ع) كو علم كے وسيلہ سے فساد اور برائيوں سے محفوظ ركھا ہے _(2)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے جناب فاطمہ (ع) اللہ تعالى كے يہاں نوناموں سے ياد كى جاتى ہے_ فاطمہ، صديقہ، مباركہ، طاہرہ، زكيہ، رضيہ، مرضيہ، محدثہ، زہرا، فاطمہ (ع) كے نام ركھے جانے كى وجہ يہ ہے كہ آپ برائيوں اور فساد سے محفوظ اور معصوم ہيں، اگر حضرت على عليہ السلام نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) كا كوئي ہمسر نہ ہوتا_ (3)
جناب امام محمد باقر(ع) سے پوچھا گيا كہ جناب فاطمہ (ع) كا نام زہراء كيوں ركھا گيا؟ آپ نے فرمايا اس لئے كہ خدا نے آپ كو اپنى عظمت كے نور سے پيدا كيا ہے آپ كے نور سے زمين اور آسمان اتنے روشن ہوئے كہ ملائكہ اس نور سے متاثر ہوئے اور وہ اللہ كے لئے سجدہ ميںگر گئے اور عرض كى خدايا يہ كس كا نور ہے؟ اللہ تعالى نے فرمايا كہ ميرى عظمت كے نور سے ايك شعلہ ہے كہ جسے ميں نے پيدا كيا ہے اور اسے آسمان پر سكونت دى ہے اسے پيغمبروں ميں سے بہترين پيغمبر(ص) كے صلب سے پيدا كروں گا اور اسى نور سے دين كے امام اور پيشوا پيدا كروں گا تا كہ لوگوں كو حق كى طرف ہدايت كريں وہ پيغمبر(ص) كے جانشين اور خليفہ ہوں گے_(4)
---------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 89_ ذخائر العقبى ، ص 44_
2) كشف الغمہ، ج 2 ص 89_
3) كشف الغمہ، ج 2 ص 89_
4) كشف الغمہ، ج 2 ص 90_
110
پيغمبر(ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمايا بيٹى خداوند عالم نے دينا كى طرف پہلى دفعہ توجہ اورمجھے تمام مردوں پرچنا، دوسرى مرتبہ اس كى طرف توجہ كى تو تمہارے شوہر علي(ع) كو تمام لوگوں پر چنا، تيسرى مرتبہ اس كى طرف توجہ كى تو تمہيں تمام عالم كى عورتوں پر برترى اور فضيلت دي، چوتھى مرتبہ توجہ كى تو حسن (ع) اور حسين (ع) كو جنت كے جوانوں پر امتياز ديا _(1)
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا بہشت چہار عورتوں كے ديكھنے كى مشتاق ہے ، پہلے مريم دختر عمران، دوسرى آسيہ فرعون كى بيوى ، تيسرى خديجہ دختر خويلد ، چہوتھى فاطمہ (ع) دختر محمد (ص) _(2)
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے اس كى اذيت ميرى اذيت ہے اور اس كى خوشنودى ميرى خوشنودى ہے _(3)
پيغمبر(ص) نے اس حالت ميں جب كے فاطمہ (ع) ہاتھ پكڑے ہوئے تھے فرمايا جو شخص اسى پہچانتا ہے تو وہ پہچانتا ہے اور جو نہيں پہچانتا وہ پہچان لے كہ يہ فاطمہ(ع) پيغمبر (ص) كى دختر ہے اور ميرے جسم كا ٹكڑا ہے اور ميرا دل اور روح ہے جو شخص اسے ذيت دے گا اس نے مجھے اذيت دى ہے اور جوشخص مجھے اذيت دے گا اس نے خدا كو اذيت دى ہے _ (4)
جناب ام سلمہ نے فرمايا كہ سب سے زيادہ شباہت پيغمبر اسلام (ص) سے
--------
ا_ كشف الغمہ، ج 2 ص ا9_
2_ كشف الغمہ ، ج 2 ص 92_
3_ كشف الغمہ ، ج 2 ص 93_
4_ كشف الغمہ ، ج 2 ص 92 اور الفصول المہمہ مولفہ ابن صباغ نجف ، ص 28ا_
111
جناب فاطمہ (ع) كو تھى (ا)_
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے كہ فاطمہ (ع) انسانوں كى شكل ميں جنت كى حور ہيں _(2)
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا كہ فاطمہ (ع) سب سے پہلے جنت ميں داخل ہوگي_(3)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ فاطمہ (ع) كا نام فاطمہ (ع) اس لئے ركھا گيا ہے كہ لوگوں كو آپ كى حقيقت كے درك كرنے كى قدرت نہيں ہے _(4)
پيغمبر(ص) فرمايا كرتے تھے كہ اللہ نے مجھے اور على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن و حسين كو ايك نور سے پيدا كيا ہے_(5)
ابن عباس فرماتے ہيںكہ ميں نے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے پوچھا كہ وہ كلمات كہ جو اللہ تعالى نے حضرت آدم عليہ السلام كو بتلائے اور ان كى وجہ سے ان كى توبہ قبول ہوئي وہ كيا تھے؟ آپ نے فرمايا كہ جناب آدم نے خدا كو محمد(ص) اور على (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسين (ع) كے حق كى قسم دى اسى وجہ سے آپ كى توبہ قبول ہوئي _(6)
---------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 97_
2) كشف الغمہ، ج 2 ص 53_
3) كشف الغمہ، ج 2 ص 43 ص 44_
4) كشف الغمہ، ج 2 ص 65_
5) كشف الغمہ، ج 2 ص 91_
6) كشف الغمہ، ج 2 ص 91_
112
پيغمبر(ص) نے فرمايا اگر على نہ ہو تے تو جناب فاطمہ (ع) كا كوئي ہمسر نہ ہوتا _(1)
پيغمبر(ص) فرماتے ہيں كہ جب ميں معراج پر گيا تو بہشت كى سير كى ميں نے جناب فاطمہ (ع) كا محل ديكھا جس ميں ستر قصر تھے كہ جو لولو اور مرجان سے بنانے گئے تھے_ (2)
پيغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) سے فرمايا تھا كہ جانتى ہو كہ كيوں تيرا نام فاطمہ (ع) ركھا گيا ہے؟ حضرت على (ع) نے عرض كى يا رسول اللہ (ص) كيوں فاطمہ (ع) نام ركھا گيا ہے؟ تو آپ نے فرمايا چوں كہ آپ اور اس كے پيروكار دوزخ كى آگ سے امان ميںہيں _(3)
امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں كہ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فاطمہ (ع) كو زيادہ بوسہ ديا كرتے تھے ايك روز جناب عائشےہ نے اعتراض كہ پيغمبر اسلام(ص) نے اس كے جواب ميں فرمايا جب مجھے معراج پر لے جايا گيا تو ميں بہشت ميں داخل ہوا، جبرئيل مجھے طوبى كے درخت كے نزديك لے گئے اور اس كا ميوہ مجھے ديا ميں نے اس كو كھايا تو اس سے نطفہ وجود ميں آيا، جب ميں زمين پر آيا اور جناب خديجہ(ع) سے ہمبستر ہوا تو اس سے جناب فاطمہ (ع) كا حمل ٹھہرا يہى وجہ ہے كہ جب ميں فاطمہ (ع) كو بوسہ ديتا ہوں تو درخت طوبى كى خوشبو ميرے شام ميں پہنچتى ہے _(4)
ابن عباس كہتے ہيں كہ ايك دن على (ع) اورفاطمہ (ع) اور حسن (ع) اور حسين (ع) پيغمبر(ص) كے پاس بيٹھے ہوئے تھے توپيغمبر(ص) نے فرمايا اے خدا مجھے علم ہے كہ يہ ميرے اہلبيت
--------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 98_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 76_
3) بحار الانوار، ج 43 ص 14_ كشف الغمہ، ج 2 ص 89_
4) بحار الانوار، ج 43 ص 6_
113
ہيں اور ميرے نزديك سب سے زيادہ عزيز ہيں ان كے دوستوں سے محبت اور ان كے دشمنوں سے دشمنى ركھ ان كى مدد كرنے والوں كى مدد فرما انہيں تمام برائيوں سے پاك ركھ اور تمام گناہوں سے محفوظ ركھ روح القدس كے ذريعے ان كى تائيد فرما اس كے بعد آپ نے فرمايا، يا على (ع) تم اس امت كے امام اور ميرے جانشين ہو اور مومنين كو بہشت كى طرف ہدايت كرنے والے ہو، گويا ميں اپنى بيٹى كو ديكھ رہا ہوں كہ قيامت كے دن ايك نورانى سوارى پرسوارہے كہ جس كے دائيں جانب ستر ہزار فرشتے اور بائيں جانب ستر ہزار فرشتے اس كے آگے ستر ہزار فرشتے اور اس كے نيچے ستر ہزار فرشتے چل رہے ہيں اور تم ميرى امت كى عورتوں كو بہشت ميں لئے جا رہى ہو پس جو عورت پانچ وقت كى نماز پڑھے اور ماہ رمضان كے روزے ركھے خانہ كعبہ كا حج بجالائے اور اپنے مال كو زكوة ادا كرے اوراپنے شوہر كى اطاعت كرے اور على ابن ابيطالب كو دوست ركھتى ہو وہ جناب فاطمہ (ع) كى شفاعت سے بہشت ميں داخل ہوگي، فاطمہ (ع) دنيا كى عورتوں ميں سے بہترين عورت ہے_
عرض كيا گيا يا رسول اللہ (ص) فاطمہ (ع) اپنے زمانے كى عورتوں سے بہترين ہے؟ آپ نے فرمايا وہ تو جناب مريم ہيں كہ جو اپنے زمانے كى عورتوں سے بہتر ہيں، ميرى بيٹى فاطمہ (ع) تو پچھلى اور ا گلى عورتوں سے بہتر ہے، جب محراب عبادت ميں كھڑى ہوتى ہے تو اللہ تعالى كے ستر ہزار مقرب فرشتے اسے سلام كرتے ہيں اور عرض كرتے ہيں اے فاطمہ (ع) اللہ نے تجھے چنا ہے اور پاكيزہ كيا ہے اور تمام عالم كى عورتوں پرتجھے برترى دى ہے_
اس كے بعد آپ على (ع) كى طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا ياعلى (ع) ، فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے اور ميرى آنكھوں كا نور اور دل كا ميوہ ہے جو بھى اسے تكليف دے
114
اس نے مجھے تكليف دى اور جس نے اسے خشنود كيااس نے مجھے خوشنود كيا فاطمہ (ع) پہلى شخصيت ہيں جو مجھ سے ملاقات كريں گى ميرے بعد اس سے نيكى كرنا، حسن (ع) اور حسين (ع) ميرے فرزند ہيں اور ميرے پھول ہيں اور جنت كے جوانوں سے بہتر ہيں انہيں بھى آپ آنكھ اور كان كى طرح محرّم شمار كريں_
اس كے بعد آپ نے اپنے ہاتھ آسمان كى طرف اٹھائے اور فرمايا اے ميرے خدا تو گواہ رہنا كہ ميں ان كے دوستون كو دوست ركھتا ہوں اور ان كے دشمنوں كو دشمن ركھتا ہوں_ (1)
فاطمہ (ع) كا علم و دانش
عمار كہتے ہيں ايك دن حضرت على (ع) گھر ميں داخل ہوئے تو جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا يا على (ع) آپ ميرے نزديك آئيں تا كہ ميں آپ كوگزشتہ اور آئندہ كے حالات بتلاؤں، حضرت على (ع) ، فاطمہ (ع) كى اس گفتگو سے حيرت ميں پڑ گئے اور پيغمبر (ص) كى خدمت ميں شرفياب ہوئے اور سلام كيا اور آپ كے نزديك جا بيٹھے، پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا آپ بات شروع كريں گے يا ميں كچھ كہوں؟ حضرت على (ع) نے عرض كى كہ ميں آپ كے فرمان سے استفادہ كرنے كو دوست ركھتا ہوں_ پيغمبر(ص) نے فرمايا گويا آپ سے فاطمہ (ع) نے يہ كہا ہے اور اسى وجہ سے تم نے ميرى طرف مراجعت كى ہے_ حضرت على عليہ السلام نے عرض كى يا رسول اللہ(ص) كيا فاطمہ (ع) كا نور بھى ہمارے نور سے ہے_ پيغمبر(ص) نے فرمايا كيا آپ كو علم نہيں ہے؟ حضرت على (ع) يہ بات
---------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 24_
115
سن كر سجدہ شكر ميں گر گئے اور اللہ تعالى كا شكر ادا كيا_
اس كے بعد جناب فاطمہ (ع) كے پاس لوٹ آئے_ حضرت فاطمہ (ع) نے فرمايا يا على (ع) گويا ميرے بابا كے پاس گئے تھے اور آپ(ص) نے يہ فرمايا؟ آپ نے فرمايا ہاں اے دختر پيغمبر (ص) _ فاطمہ (ع) نے فرمايا ، اے ابوالحسن (ع) خداوند عالم نے ميرے نور كو پيدا كيا اور وہ اللہ تعالى كى تسبيح كرتا تھا اس وقت اللہ تعالى نے اس نور كو بہشت كے ايك درخت ميں وديعت ركھ ديا ميرے والد بہشت ميں داخل ہوئے تو اللہ تعالى نے آپ كو حكم يا كہ اس درخت كاميوہ تناول كريں، ميرے والد نے اس درخت كے ميوے تنال فرمائے اسى ذريعہ سے ميرا تور آپ(ص) كے صلب ميں منتقل ہوگيا اورميرے بابا كے صلب سے ميرى ماں كے رحم ميں وارد ہوا_ يا على (ع) ميں اسى نور سے ہوں اور گزشتہ اور آئندہ كے حالات اور واقعات كو اس نور كے ذريعہ پاليتى ہوں_ يا ابالحسن، مومن نور كے واسطے سے خدا كو ديكھتا ہے_(1)
امام حسن عسكرى عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ايك عورت حضرت فاطمہ (ع) كى خدمت ميں شرفياب ہوئي اور عرض كى كہ ميرى ماں عاجز ہے اسے نماز كے بارے ميں بعض مشكل مسائل در پيش ہيںمجھے آپ كى خدمت ميں بھيجا ہے كہ ميںآپ سے سوال كروں، اس نے مسئلہ پيش كيا اور جناب فاطمہ (ع) نے اس كا جواب ديا اس عورت نے دوسرى دفعہ دوسرا مسئلہ پوچھا جناب فاطمہ (ع) نے اس كا بھى جواب ديا، اس عورت نے تيسرى دفعہ پھر تيسرا مسئلہ پوچھا اور اسى طرح آپ سے دس مسئلے پوچھے اور حضرت زہرا (ع) نے سب كے جواب ديئے اس كے بعد وہ عورت
------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 24_
116
زيادہ سوال كرنے كى وجہ سے شرمسار ہوئي اور عرض كي، دختر رسول(ص) اب اور ميں مزاحم نہيں ہوتى آپ تھك گئي ہيں، جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا شرم نہ كر جو بھى سوال ہو پوچھو تا كہ ميں اس كا جواب دوں_ ميں تيرے سوالوں سے نہيں تھكتى بلكہ كمال محبت سے جوال دوں گى اگر كسى كو زيادہ بوجھ چھت تك اٹھا كرلے جانے كے لئے اجرت پر ليا جائے اور وہ اس كے عوض ايك لاكھ دينار اجرت لے تو كيا وہ بارے كے اٹھانے سے تھكے گا؟ اس عورت نے جواب ديا نہيں، كيوں كہ اس نے اس بار كے اٹھانے كى زيادہ مزدورں وصول كى ہے حضرت فاطمہ (ع) نے فرمايا كہ خدا ہر ايك مسئلے كے جواب ميں اتنا ثواب عنايت فرماتا ہے بلكہ اس سے بھى زيادہ ہے كہ زمين اور آسمان كو مرواريد سے پر كر ديا جائے تو كيااس كے باوجود ميںمسئلے كے جواب دينے ميں تھكوں گي_
ميں نے اپنے والد سے سنا ہے كہ فرما رہے تھے كہ ميرے شيعوں كے علماء قيامت ميں محشور ہوں گے اور خدا ان كے علم كى مقدار اور لوگوں كو ہدايت اور ارشاد كرنے ميں كوشش اور جد و جہد كے مطابق خلعت اور ثواب عطا فرمائے گا، يہاں تك كہ ان ميں سے ايك كو دس لاكھ حلے نور كے عطا فرمائے گا اور اس كے بعد حق كامنادى ندا دے گا، اے وہ لوگو كو جنہوں نے آل محمد(ص) كے يتيموں كى كفالت كى ہے، اور اس زمانے ميں كہ ان كے امام كا سلسلہ ان سے منقطع ہوچكا تھا يہ لوگ تمہارے شاگرد تھے اور وہ يتيم ہيں كہ جو تمہارى كفالت كے ماتحت اپنى ديندارى پر باقى رہے ہيں اور ارشاد اورہدايت كرتے رہے ہيں، جتنى مقدار انہوں نے تمہارے علوم سے استفادہ كيا ہے ان كو بھى خلعت دو اس وقت ميرى امت كے علماء اپنے پيروكاروں
117
كو خلعت عطا فرمائيں گے، پھر وہ پيروكار اور شاگرد اپنے شاگروں كو خلعت ديں گے، جب لوگوں ميں خلعت تقسيم ہوچكے گى تو اللہ كى طرف سے دستور ديا جائے گا جو خلعت علماء نے تقسيم كى ہيں ان كو مكمل كيا جائے يہاں تك كہ سابقہ تعداد كے برابر ہوجائے، پھر دستور ملے گا كہ اسے دوبرابر كردو اور اس طرح ان كے پيروكاروں كو بھى اسى طرح دو_
اس وقت جناب فاطمہ (ع) نے فرمايا: اے كنيز خدا اس خلعت كا ايك دھاگا ہزار درجہ اس چيز سے بہتر ہوگا جس پر سورج چمكتا ہے اس لئے كہ دنياوى امور مصيبت اور كدورت سے آلودہ ہوتے ہيں، ليكن اخروى نعمات ميںكوئي نقص اور عيب نہيں ہوتا _(1)
امام حسن عسكرى عليہ السلام فرماتے ہيں كہ دو عورتيں كہ ان ميں سے ايك مومن اور دوسرى معاند اور دشمن تھي، ايك دينى مطلب ميں آپس ميں اختلاف ركھتى تھيں اس اختلاف كے حل كرنے كے لئے جناب فاطمہ (ع) كى خدمت ميں حاضر ہوئيں اور اپنے مطلب كو بتلايا چونكہ حق مومن عورت كے ساتھ تھا تو حضرت فاطمہ (ع) نے اپنى گفتگو اور دلائل اور برہان سے اس كى تائيد كى اور اس ذريعے سے اس پر فتح مند كرديا اور وہ مومن عورت اس كاميابى سے خوشحال ہوگئي_ جناب فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت سے فرمايا كہ اللہ تعالى كے فرشتے تجھ سے زيادہ خوشحال ہوئے ہيں اور شيطان اور اس كے پيروكاروں پرغم و اندوہ اس سے زيادہ ہوا ہے جو اس معاند اوردشمن عورت پر وارد ہوا ہے_
-------
1) بحار الانوار، ج 2 ص 3_
118
اس وقت امام حسن عسكرى عليہ السلام نے فرمايا اس وجہ سے خدا نے فرشتوں سے فرمايا ہے كہ اس خدمت كے عوض جو فاطمہ (ع) نے اس مومن عورت كے لئے انجام دى ہے، بہشت اور بہشتى نعمتوں كو اس سے جو پہلے سے مقرر تھيں كئي ہزار گناہ مقرر كرديا جائے اور يہى روش اور سنت اس عالم كے بارے ميں بھى جارى كى جاتى ہے جو اپنے علم سے كسى مومن كو كسى معاند پر فتح دلاتا ہے اور اس كے ثواب كو اللہ تعالى كئي كئي ہزار برابر مقرر كرديتا ہے_(1)
فاطمہ (ع) كا ايمان اور عبادت
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ (ع) كے بارے ميں فرمايا كہ اللہ تعالى كا ايمان فاطمہ (ع) كے دل كى گہرائيوں اور روح كے اندر اتنا نفوذ كر چكا ہے كہ وہ اللہ كى عبادت كے لئے اپنے آپ كو ہر ايك چيز سے مستغنى كرليتى ہيں _(2)
امام حسن عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ ميرى والدہ شب جمعہ صبح تك اللہ تعالى كى عبادت ميںمشغول رہتى تھيں اور متواتر ركوع اور سجود بجالاتى تھيں يہاں تك كہ صبح نمودار ہوجاتى ميں نے سنا كہ آپ مومنين كے لئے نام بنام دعا كر رہى ہيں ليكن وہ اپنے لئے دعا نہيں كرتى تھيں ميں نے عرض كى امّاں جان: كيوں اپنے لئے دعا نہيں كرتيں؟ آپ(ع) نے
--------
1) بحار الانوار، ج 2 ص 8_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 46_
119
فرمايا پہلے ہمسائے اور پھر خود _(1)
امام حسن عليہ السلام فرماتے تھے كہ جناب فاطمہ زہرا(ع) تمام لوگوں سے زيادہ عبادت كرنے والى تھيں اللہ تعالى كى عبادت ميں اتنا كھڑى رہتيں كہ ان كے پاؤں ورم كرجاتے _(2)
پيغمبر اكرم(ص) فرماتے تھے كہ ميرى بيٹى فاطمہ عالم كى عورتوں سے بہترين عورت ہيں، ميرے جسم كا ٹكڑا ہيں، ميرى آنكھوں كا نور، دل كا ميوہ اور ميرى روح رواں ہيں، انسان كى شكل ميںحور ہيں، جب عبادت كے لئے محراب ميںكھڑى ہوتيں تو آپ كا نور فرشتوں ميں چمكتا تھا، خداوند عالم نے ملائكہ كوخطاب كيا كہ ميرى كنيز كو ديكھو ميرے مقابل نماز كے لئے كھڑى ہے اور اس كے اعضاء ميرے خوف سے لرز رہے ہيں اور ميرى عبادت ميں فرق ہے، ملائكہ گواہ ہو ميںنے فاطمہ (ع) كے پيروكاروں كو دوزخ كى اگ سے مامون قرار دے ديا ہے _(3)
البتہ جو شخص قرآن كے نزول كے مركز ميں پيدا ہو اور روحى كے دامن ميں رشد پايا اورغور كيا ہو اور دن رات اس كے كان قرآن كى آواز سے آشنا ہوں اور محمد(ع) جيسے باپ كى تربيت ميں رہا ہو كہ آنجناب اس قدر اللہ تعالى كى عبادت كرتے كہ آپ كے پائے مبارك ورم كرجاتے تھے اور على جيسے شوہر كے گھر رہى ہو تو اسے اہل زمان كے افراد سے عابدترين انسان ہونا
-------
1) كشف الغمہ،ج 2 ص 14 و دلائل الامامہ، ص 52_
2) بحار الانوار، ج 43 ص76_
3) بحار الانوار، ج 43 ص 172_
120
ہى چاہيئےسے عبادت ميںاتنا بلند مقام ركھنا چاہيئے اور ايمان اس كى روح كى گہرائيوں ميںسماجاتا چاہيئے_
بابركت ہار
جابربن عبداللہ انصارى فرماتے ہيں كہ ميں نے ايك دن عصر كى نماز پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے ساتھ پڑھى آپ كے اصحاب آپ كے ارد گرد بيٹھے تھے، اچانك ايك آدمى پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں حاضر ہوا جس كا لباس پرانا اور پھٹا ہوا اور سخت بڑھا پے كى وجہ سے اپنى جگہ پر كھڑا نہيں ہوسكتا تھا، پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اس كى طرف متوجہ ہوئے اور اس كى مزاج پرسى كي، يا رسول اللہ(ص) ميں ايك بھوكا آدمى ہوں مجھے سير كيجئے ننگاہوں مجھے لباس عنايت فرمايئےور خالى ہاتھ ہوں مجھے كچھ عنايت فرمايئے پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا سر دست تو ميرے پاس كچھ نہيں ہے ليكن ميںتجھے ايك جگہ كى راہنمائي كرتا ہوں شايد وہاں تيرى حاجت پورى ہوجائے_ اس شخص كے گھر جا كہ جو خداوند اور رسول(ص) كو دوست ركھتا ہے اور خدا اور رسول اسے دوست ركھتے ہيں جا ميرى بيٹى فاطمہ (ع) كے گھر كہ شايد تجھے وہ كوئي چيز عنايت فرما دے آپ اس كے بعد بلال سے فرمايا كہ اسے فاطمہ (ع) كا گھر كھلا آؤ_
جناب بلال اس بوڑھے كے ساتھ جناب فاطمہ (ع) كے گھر گئے، بوڑھے نے عرض كى سلام ہو ميرا خانوادہ اہلبيت پر كہ جو فرشتوں كے نازل ہونے كا مركز ہے جناب فاطمہ (ع) نے اس كے سلام كا جواب ديا اور فرمايا كہ تم كون ہو؟ اس نے عرض كيا كہ ميں ايك فقير ہوں، پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں گيا تھا انہوں نے
121
مجھے آپ كے پاس بھيجا ہے اے دختر پيغمبر(ص) بھوكا ہوں سير كيجئے، برہنہ ہوں لباس مجھے پہنايئےفقير ہوں كوئي چيز عنايت فرمايئےجناب فاطمہ جاتى تھيں كہ گھر ميں كوئي غذا موجود نہيں ہے ايك گوسفند كى كھال ہے كہ جو امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كے فرش كے لئے تھى اسے دى اس نے عرض كى يہ چمڑے كى كھال ميرى زندگى كى اصلاح كہاں كرسكتى ہے_ جناب فاطمہ (ع) نے ايك ہار جو آپ كے چچا كى لڑكى نے بطور ہديہ ديا تھا اس فقير كو دے ديا اور فرمايا اسے فروخت كر كے اپنى زندگى كى اصلاح كرلے_
وہ بوڑھا آدمى پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لوٹ آيا اور تمام قصہ بيان كيا، آپ روديئےور فرمايا كہ اس ہار كو فروخت كر ڈالوتا كہ ميرى بيٹى كے عطيے كى بركت سے خدا تيرى كشائشے كردے_
عمار ياسر نے جناب رسول خدا(ص) سے اجازت لى كہ اس ہار كو خريد لوں اس بوڑھے سے پوچھا كہ اسے كتنے ميں فروخت كروگے؟ اس نے كہا كہ اتنى قيمت پر كہ روٹى اور گوشت سے ميرا پيٹ سير ہوجائے ايك يمانى چادر جسم كے ڈھانپے كے لئے ہوجائے كہ جس ميں نماز پڑھوں اور ايك دينار كہ ميں اپنے گھر اور اہل و عيال كے پاس جاسكوں_
عمار نے كہا ميں اس ہار كو بيس دينار اور دو سو درہم اور ايك برد يمانى اور ايك سوارى كا حيوان اور روٹى اور گوشت كے عوض خريدتا ہوں اس بوڑھے نے ہار جناب عمار كو فروخت كرديا اور معاوضہ لے ليا اور پيغمبر(ص) كى خدمت ميں لوٹ آيا، پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اس سے پوچھا كہ تمہارى حاجت پورى ہوئي، اس نے عرض كى ہاں، ميں جناب فا طمہ (ع) كى بخشش كى بدولت بے نياز ہوگيا ہوں كہ خداوند عالم اس كے عوض جناب فاطمہ (ع)
122
كو ايسى چيز دے كہ نہ آنكھ ديكھى ہو اور نہ كان نے سنى ہو_
جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اصحاب سے فرمايا كہ خداوند عالم نے اسى دنيا ميں اس قسم كى چيز جناب فاطمہ (ع) كو عطا كردى ہے كيونكہ اسے مجھ جيسا باپ اور على جيسا شوہر اور حسن (ع) اور حسين (ع) جيسے فرزند عنايت فرمائے ہيں، جب عزرائيل فاطمہ (ع) كى روح قبض كرے گا اور اس سے قبر ميں سوال كرے گا كہ تيرا پيغمبر كون ہے؟ تو جواب دے گى ميرا باپ، اور اگر پوچھے گاتيرا امام كون ہے تو جواب دے گى ميرا شوہر على بن ابيطالب(ع) ، خداوند عالم نے ملائكہ كى ايك جماعت كى ڈيوٹى لگادى ہے كہ آپ كے مرنے كے بعد ہميشہ ان پراور ان كے والد اور شوہر پر درود بھيجتے رہيں_ خبردار ہو جو شخص ميرے مرنے كے بعد ميرى زيارت كوآئے تو وہ اس كے مانند ہے كہ وہ ميرى زندگى ميں زيارت كو آيا ہے اور جو شخص فاطمہ (ع) كى زيارت كو جائے اس كے مثل ہے كہ اس نے ميرى زيارت كي_
جناب عمار نے وہ ہار ليا اور اسے خوشبو لگائي اور يمانى كپڑے ميں لپيٹ كر اپنے غلام كو ديا اور كہا كہ اسے پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں لے جاكر حاضر كرو ميں نے تجھے بھى آنجناب كو بخش ديا ہے_ جب وہ غلام جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم كى خدمت ميںگيا تو حضرت نے وہ ہار مع غلام كے جناب فاطمہ عليہا السلام كو بخش ديا_ جناب فاطمہ عليہا السلام نے وہ ہار ليا اور اس غلام كو آزاد كرديا_ جب غلام آزاد ہوا تو ہنسنے لگا جب اس سے ہنسنے كى علت پوچھى گئي تو اس نے جواب ديا كہ اس ہار كى بركت پر مجھے تعجب ہوا ہے كيونكہ اس نے بھوكے كو سير كيا ہے، برہنہ كو كپڑا پہنايا، فقير كو غني
123
كرديا، غلام كو آزاد كرديا اور پھر وہ اپنے مالك كے پاس لوٹ گيا _(1)
پيغمبر(ص) كى فاطمہ (ع) سے محبت اوران كا احترام
جناب عائشےہ فرماتى ہيں كہ جناب فاطمہ (ع) بات كرنے ميں تمام لوگوں كى نسبت پيغمبر(ص) سے زيادہ شباہت ركھتى تھي، جب آپ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے پاس جاتيں تو پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم آپ كا ہاتھ پكڑتے اوراسے بوسہ ديتے اورجناب فاطمہ (ع) كو اپنى جگہ بٹھاتے اور جب رسول خدا(ص) جناب فاطمہ (ع) كے پاس جاتے تو آپ والد كے احترام كے لئے كھڑى ہوجاتيں اور آپ كے ہاتھ چومتيں اور اپنى جگہ آپ كوبٹھلاتيں _(2)
ايك دن جناب عائشےہ نے ديكھا كہ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) كو بوسہ دے رہے ہيں تو عرض كيا يا رسول اللہ(ص) اب بھى آپ فاطمہ (ع) كو چومتے ميں كتنا فاطمہ (ع) كو دوست ركھتا ہوں تو تيرى محبت بھى اس كے ساتھ زيادہ ہوجاتي، فاطمہ (ع) يہ انسان كى شكل وصورت ميں حور ہيں، جب بھى ميں بہشت كى خوشبو كا مشتاق ہوتا ہوں تو اسے بوسہ د يتا ہوں _(3)
---------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 56_
2) كشف ا لغمہ، ج 2 ص 79_
3) كشف الغمہ، ج 2ص 85_
124
على بن ابيطالب نے پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے پوچھا يا رسول اللہ(ص) مجھے زيادہ دوست ركھتے ہيں يا فاطمہ (ع) كو؟ تو آپ نے فرمايا تم عزيزترين ہو اور فاطمہ محبوت تر (1)_
جناب فاطمہ (ع) فرماتى ہيں جب يہ آيت نازل ہوئي كر:
''لاتجعلوا دعا الرسول بينكم كدعاء بعضكم بعضا''
يعنى پيغمبر كو اپنى طرح آواز نہ ديا كرو_ تو ميں اس كے بعد اباجان كے لفظ سے آپ كو خطاب نہ كرتى تھى اور يا رسول اللہ(ص) كہا كرتى تھي، كئي دفعہ ميں نے آپ كو اسى سے آواز دى تو آپ نے ميرا جواب نہ ديا اور اس كے بعد فرمايا بيٹى فاطمہ (ع) يہ آيت تمہارے اورتمہارى اولاد كے بارے ميں نازل نہيں ہوئي تم مجھ سے ہو اور ميں تم سے ہوں، يہ آيت قريش كے متكبر افراد كے لئے نازل ہوئي ہے، تم مجھے ابّا كہہ كر پكارا كرو كيونكہ يہ لفظ ميرے دل كو زندہ كرتا ہے اور پروردگار عالم كو خشنود كرتا ہے (2)_
جناب عائشےہ سے سوال كيا گيا كہ پيغمبر(ص) كے نزديك سب سے زيادہ محبوب كون تھا؟ تو آپ نے كہا كہ فاطمہ (ع) ، اس كے بعد پوچھا گيا كہ مردوں ميں سے زيادہ محبوب كون تھا تو آپ نے كہا فاطمہ (ع) كے شوہر على (ع) _(3)
جب تك پيغمبر(ص) فاطمہ (ع) كو چوم نہ ليتے سويا نہيں كرتے تھے (4)_
------
1) كشف الغمہ، ج 2 ص 88_
2) بيت الاحزان، ص 10_
3) كشف الغمہ، ج 2 ص 88_
4) كشف الغمہ، ج 2 ص 93_
125
پيغمبر(ص) جب سفر كو جاتے تھے تو آخرى آدمى جسے وداع فرماتے تھے فاطمہ (ع) ہوتيں اور جب سفر سے واپس لوٹتے تو پہلا شخص جس كى ملاقات كو جلدى جاتے فاطمہ (ع) ہوتيں (1)_
پيغمبر(ص) فرماتے تھے كہ فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے جو اسے خوشنود كرے گا اس نے مجھے خوشنود كيا، اور جو شخص اسے اذيت دے گا اس نے مجھے اذيت دى سب سے عزيزترين ميرے نزديك فاطمہ (ع) ہيں(2)_
اس ميں كوئي شك نہيں كہ رسول خدا(ص) حد سے زيادہ اور معمول اور متعارف سے بڑھ كر جناب فاطمہ (ع) سے محبت كا اظہار اس حد تك كرتے تھے كہ بسا اوقات اعتراض كئے جاتے تھے البتہ ہر باپ كو طبعى طور پر اولاد سے محبت ہوتى ہے ليكن جب محبت اورتعلق معمول سے تجاوز كرجائے تو اس كى كوئي خاص وجہ اور علت ''جو فطرى محبت كے علاوہ ہو، ہونى چاہيئے، ممكن ہے حد سے زيادہ محبت كا اظہار جہالت اور كوتاہ فكرى كى وجہ سے ہو ليكن اس علت كى پيغمبر(ص) كى ذات كى طرف نسبت نہيں دى جاسكتي،كيونكہ اللہ تعالى پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے متعلق فرماتا ہے: انك العلى خلق عظيم (3)_ ''يعنى خلق عظيم كے مالك ہو_
پيغمبر(ص) كے تمام كا وحى الہى كے ماتحت ہوا كرتے تھے اللہ تعالى فرماتا ہے ان ہو الا وحيٌ يوحى (4)_
--------
1) دخائر العقيى ، ص 37_
2) مناقب ابن شہر آشوب، ج 3 ص 332_
3) سورہ قلم آيت 4_
4) سورہ نجم آيت 4_
126
بس خدا كے رسول كا ان تمام غير عادى محبت كے اظہار ميں كوئي اور منشا اور غرض ہونى چاہيئے_
جناب رسول خدا(ص) نے اپى بيٹى فاطمہ (ع) كے مقام و مرتبت كو خود مشخص كيا تھا اور آپ ان كے رتبے كو اچھى طرح پہچانتے تھے_ جى ہاں پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم جانتے تھے كہ فاطمہ (ع) ولايت اور امامت كى توليد كامركز اور دين كے پيشواؤں كى ماں ہيں، اسلام كى نمونہ اور مثال اور ہر گناہ سے معصوم ہيں_ حضرت رسول صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور حضرت على عليہ السلام كے علاوہ كوئي بھى آپ كے بلند مقام كو درك نہيں كرسكتا_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم جانتے تھے كہ فاطمہ (ع) كا نور آسمان كے فرشتوں كو روشنى دينے والا ہے، بہشت كى خوشبو كو فاطمہ (ع) سے استشمام كرتے تھے يہى علت تھى كہ آپ حد سے زيادہ فاطمہ (ع) سے اظہار محبت فرمايا كرتے تھے_
|