تربيت كى اعلى درسگاہ
حضرت زہرا(ع) كے گھر ميں بچوں كى ايك اسلامى تربيت اور اعلى درسگاہ كى بنياد ركھى گئي يہ درسگاہ اسلام كى دوسرى شخصيت اور اسلام كى خاتون اول كى مدد سے يعنى على (ع) اور فاطمہ زہرا (ع) كى مدد سے چلائي جارہى تھى اور اسلام كى پہلى شخصيت يعنى پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى زيرنگرانى چل رہى تھي_اس ميں تربيت كے قواعد اور پروگرام بلاواسطہ پرودگار جہان كى طرف سے نازل ہوتے تھے، تربيت كے بہترين پروگرام اس ميںجارى كئے جاتے تھے اور بہترين افراد كو تربيت دى گئي تھى ميں يہاں اس مطلب كے اعتراف كرنے پر مجبور ہوں كہ اس عالى پروگرام كے جزئيات ہمارے لئے بيان نہيں كئے گئے، كيوں كہ اول تو اس زمانے كے مسلمان اتنى فكرى رشد نہيں ركھتے تھے كہ وہ تربيتى امور كى اہميت كے قائل ہوں اور اس كى قدر كريں اور پيغمبر اور على (ع) اور فاطمہ عليہم السلام كى گفتار اور رفتار كو جو وہ بجالائے تھے محفوظ كر ليتے اور دوسروں كے لئے روايت كرتے دوسرے بچوں كى تربيت كا اكثر لائحہ عمل گھر كے اندر جارى كيا جاتا تھا كہ جو دوسروں سے اندرونى اوضاع غالباً پوشيدہ رہتے تھے_
ليكن اس كے باوجود اجمالى طور سے كہا جاسكتا ہے كہ ان كى تربيت كا لائحہ عمل وہى تھا جو قرآن كريم اور احاديث پيغمبر(ص) اور احاديث آئمہ اطہار ميں وارد ہوا ہے اور پھر جو تھوڑى بہت جزئيات نقل كى گئي ہيں اس سے ايك حد تك ان كى تربيت
90
كى طرف راہنمائي حاصل كى جاسكتى ہے_
يہ بھى واضح رہے كہ ميں نہيں چاہتا ہوں كہ مفصول طور پر اصول تربيت پر بحث كروں كيوں كہ يہاں اس بحث كے لئے گنجائشے نہيں ہے_ ليكن ان ميں سے كچھ اصول تربيت كو جو حضرت زہرا(ع) كى اولاد كى تربيت ميں استعمال كئے گئے ہيں اور ہمارے لئے نقل ہوئے ہيں اختصار كے طور پر يہاں بيان كرتا ہوں_
پہلا درس
محبت
شايد اكثر لوگ يہ خيال كريں كے بچے كى تربيت كا آغاز اس وقت سے ہونا چاہيئے جب اچھائي اور برائي كو بچہ درك كرنے لگے اور اس سے پہلے بچے كى تربيت كرنا موثر نہ ہوگي، كيوں كہ اس سے پہلے بچہ خارجى عوامل سے متاثر نہيں ہوتا ليكن يہ خيال درست نہيں ہے كيوں كہ فن تربيت كے دانشمندوں كى تصديق كے مطابق بچے كى پرورش اور تربيت كا آغاز اس كى پيدائشے سے ہى شروع كردينا چاہيئے، دودھ پلانے كى كيفيت اور ماں باپ كے واقعات اور رفتار نو مولود كى پرورش ميں ايك حد تك موثر واقع ہوتے ہيں اور اس كى مستقبل كى شخصيت اسى وقت سے شروع جاتى ہے_
فن تربيت اور نفسيات كے ماہرين كے نزديك يہ مطلب يا يہ ثبوت كو پہنچ گيا ہے كہ بچے بچپن كے زمانے سے ہى محبت اور شفقت كے محتاج ہوتے ہيں_ بچہ چاہتا ہے كہ اس كے ماں باپ اسے حد سے زيادہ دوست ركھيں
91
اور اس كے ساتھ شفقت كا اظہار كريں بچے كو اس كى زيادہ فكر نہيں ہوتى كہ وہ قصر ميں زندگى گزار رہا ہے يا خيمے ميں اس كا لباس بہت اعلى اور نفيس ہے يا نہيں، ليكن اسے اس موضوع سے زيادہ توجہ ہوتى ہے كہ اس سے محبت كى جاتى ہے يا نہيں، بچے كے اس اندورنى احساس كو سوائے محبت كے اظہار اور شفقت كے اور كوئي چيز ختم نہيں كرسكتي، بچے كى مستقبل كى شخصيت اور اخلاق كا سرچشمہ اس سے محبت كا اظہار ہے يہى ماں كى گرم گود اور باپ كى مخلصانہ نوازش بچے ميں بشر دوستى كى حس اور ہم جنس سے علاقہ مندى پيدا كرتى ہے_ يہى بچے سے بے رياء نوازش بچے كو تنہائي كے خوف اور ضعف سے نجات ديتى ہے اور اسے زندگى كا اميدوار بناتى ہے، يہى خالص پيار و محبت بچے كى روح ميں اچھى اخلاق اور حسن ظن كى آميرش كرتى ہے اور اسے اجتماعى زندگى اور ايك دوسرے سے تعاون و ہمكارى كى طرف ہدايت كرتى ہے اور گوشہ نشينى اور گمنامى سے نجات ديتى ہے انہيں نوازشات كے واسطے سے بچے ميں اپنى شخصيت كا احساس پيدا ہوتا ہے اور اپنے آپ كو دوستى كے لائق سمجھتا ہے_
جس بچے ميں محبت كى كمى كا احساس ہو وہ عام طور سے ڈرپوك، شرميلا ضعيف، بدگمان، گوشہ نشين، بے علاقہ، پمردہ اور مريض ہوا كرتا ہے، اور كبھى ممكن ہے كہ اس كے رد عمل كے اظہار كے لئے اور اپنى بے نيازى كو بتلانے كے لئے مجرمانہ افعال كے بجالانے ميں ہاتھ ڈال دے جيسے جنايت، چوري، قتل و غيرہ تا كہ اس وسيلہ سے اس معاشرہ سے انتقام لے سكے جو اسے دوست نہيں ركھتا اور اس سے بے نيازى كا مظاہرہ كرسكے_
پس بچے سے محبت اور شفقت اس كى ضروريات ميں شمار ہوتى ہيں اور اس
92
كى پرورش ميں محبت كى زيادہ ضرورت ہوتى ہے_
اس چيز كا درس حضرت زہرا(ع) كے گھر ميں كامل طور سے ديا جاتا تھا اور پيغمبر اكرم(ص) يہ جناب فاطمہ (ع) كو ياد دلاتے تھے_
روايت ميں آيا ہے كہ جب امام حسن (ع) متولد ہوئے تو آپ كو زرد كپڑے ميں لپيٹ كر پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لايا گيا تو آپ نے فرمايا كيا ميں نے تم سے نہيں كہا تھا كہ نو مولود كو زرد كپڑے ميں نہ لپيٹا كرو؟ اس كے بعد امام حسن (ع) كے زرد كپڑے كو اتار پھينكا اور انہيں سفيد كپڑے ميں لپيٹا اور بغل ميں ليا او رانہيں بوسہ دينا شروع كيا، يہى كام آپ نے امام حسين عليہ السلام كى پيدائشے وقت بھى انجام ديا_(1)
روايت ميں آيا ہے كہ ايك دن جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نماز جماعت ميں مشغول تھے آپ جب سجدے ميں جاتے تو امام حسين (ع) آپ كى پشت مبارك پر سوار ہوجاتے اور پاؤں كو حركت دينے اور جب سجد سے سر اٹھاتے تو امام حسين عليہ السلام كو پشت سے ہٹاكر زمين پر بٹھا ديتے اور جب آپ دوبارہ سجدے ميں جاتے تو امام حسين عليہ و آلہ و سلم انہيں ہٹا ديتے، پيغمبر اكرم(ص) نے اسى كيفيت سے نماز پورى كي، ايك يہودى جو يہ كيفيت ديكھ رہا تھا اس نے عرض كى كہ بچوں كے ساتھ آپ كا جو برتاؤ ہے اس كو ہم پسند نہيں كرتے_ پيغمبر اكرم(ص) نے فرمايا كہ اگر تم بھى خدا اور اس كے رسول پر ايمان ركھتے ہوتے تو تم بھى بچوں كے ساتھ ايسى ہى نرمى سے پيش آتے وہ يہودى پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم
---------
1) بحارالانوار، ج 43 ص 240_
93
كے اس رويہ كى وجہ سے مسلمان ہوگيا_ (1)
ايك دن پيغمبر(ص) جناب امام حسن (ع) كو بوسہ اور پيار كر رہے تھے كہ اقرع بن حابس نے عرض كى كہ ميرے دس فرزند ہيں ليكن ميں نے ابھى تك كسى كو بھى بوسہ نہيں ديا_ پيغمبر (ص) غضبناك ہوئے اور فرمايا كہ اگر خدا نے تيرے دل سے محبت كو لے ليا ہے تو ميں كيا ميں كيا كروں؟ جو شخص بھى بچوں پر ترحم نہ كرے اور بڑوں كا احترام نہ كرے وہ ہم سے نہيں ہے _(2)
ايك دن جناب رسول خدا(ص) كا جناب فاطمہ (ع) كے گھر سے گزر ہوا آپ نے امام حسين عليہ السلام كے رونے كى آواز سنى آپ نے جناب فاطمہ (ع) كو آواز دى اور فرمايا كيا تم كو معلوم نہيں كہ حسين (ع) كو رونا مجھے اذيت ديتا ہے_(3)
ابوہريرہ كہتے ہيں كہ ايك دن پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے امام حسن اور امام حسين عليہما السلام كو اپنے كندھے پر سوار كيا تھا راستے ميں كبھى امام حسن عليہ السلام كا بوسہ ليتے تھے اور كبھى امام حسين عليہ السلام كا، ايك آدمى نے عرض كي_ يا رسول اللہ(ص) آپ ان دو بچوں كو دوست ركھتے ہيں آپ نے فرمايا_ ہاں، جو شخص حسن (ع) اور حسين (ع) كو دوست ركھے وہ ميرا دوست ہے اور جو شخص ان سے دشمنى كرے وہ ميرا دشمن ہے _(4)
پيغمبر اسلام(ص) كبھى جناب فاطمہ (ع) سے فرماتے تھے، حسن اور حسين كو ميرے پاس لاؤ
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 296_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 282_
3) بحار الانوار، ج 43ص 295_
4) بحار الانوار، ج 43 ص 281_
94
اور جب آپ ان كو حضور كى خدمتم يں لے جاتيں تو رسول اكرم(ص) ان كو سينے سے لگاتے اورپھول كى طرح ان كو سونگھتے _(1)
ابوہريرہ كہتے ہيں كہ ميں نے پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم كو حسن(ع) اور حسين(ع) كے لبوں كو اس طرح چوستے ديكھا ہے جيسے خرما كو چوسا جاتا ہے_ (2)
دوسرا درس
شخصيت
نفسيات كے ماہر كہتے ہيں كہ بچے كى تربيت كرنے والے كو بچے كى شخصيت كى پرورش كرنى چاہيئے اور بچے كو خود اعتماد كا درس دينا چاہيئے_ يعنى اس ميں اعتماد نفس اجاگر كيا جائے تا كہ اسے بڑى شخصيت اور بڑا آدمى بنايا جاسكے_
اگر بچے كى تربيت كرتے والا بچے كا احترام نہ كرے اور اسے حقير شمار كرے اور اس كى شخصيت كو ٹھيس پہنچاتا رہے تو خودبخود وہ بچہ ڈرپوك اور احساس كمرى كا شكار ہوجائے گا اور اپنے آپ كو بے قيمت اور حقير جاننے لگے گا_ اور جب جوان ہوگا تو اپنے آپ كو اس لائق ہى نہيں سمجھے گا كہ كوئي بڑا كارنامہ انجام دے سكے_ اس قسم كا آدمى معاشرہ ميں بے اثر ہوگا اور اپنے آپ كو بہت آسانى سے پست كاموں كے لئے حاضر كردے گا_
--------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 299_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 284_
95
بخلاف اگر اپنے آپ كو صاحب شخصيت اور با وقار سمجھتا ہو تو پھر وہ پست كاموں كے لئے تيار نہ ہوگا اورذلت وخوارى كے زير بار نہ ہوگا_ اس قسم كى نفسياتى كيفيت ايك حد تك ماں باپ كى روحى كيفيت اور خاندانى تربيت سے وابستہ ہوا كرتى ہے_
نفسيات كے ماہر بچے كى تربيت كے لئے تربيت كرنے والوں سے سفارش كرتے ہيں كہ جن ميں سے بعض يہ مطالب ہيں_
اول: بچے سے محبت اور نوازش كااظہار كرتا ہم اسے پہلے درس ميں بيان كرچكے ہيں اور ہم نے ذكر كيا تھا كہ جناب امام حسن(ع) اور جناب امام حسين(ع) ماں باپ اور حضرات رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى بہت زيادہ محبت سے بہرہ ور تھے_
دوم: بچے كى اچھى صفات كا ذكر كيا جائے اور اس كى اپنے دوستوں كے سامنے تعريف اورتوصيف كى جائے اور اسے نفس كى بزرگى كا درس ديا جائے_
جناب رسول خدا(ص) نے كئي دفعہ امام حسن اور امام حسين عليہما السلام كے بارے ميں فرمايا كہ يہ جوانان جنت كے بہترين افراد سے ہيں اور ان كا باپ ان سے بھى بہتر ہے_(1)
پيغمبر اكرم(ص) نے امام حسين اور امام حسين عليہما السلام سے فرمايا كہ تم خدا كے ريحان ہو_(2)
----------
1) بحار الانوار، ج 43_ ص 264_
2) بحار الانوار، ج 43ج_ ص281_
96
جناب ابوبكر كہتے ہيں كہ ايك دن پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم منبر پر تشريف فرماتھے اور جناب امام حسن (ع) آپ كے پہلوں ميں بيٹھے ہوئے تھے جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كبھى لوگوں كى طرف ديكھتے اور كبھى جناب امام حسن عليہ السلام كى طرف اور فرماتے تھے كہ حسن (ع) سيد وسردار ہے_ شايد اس كى بركت سے ميرى امت ميں صلح واقع ہو_(1)
جابر كہتے ہيں كہ ميں ايك دن رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں حاضر ہوا تو ديكھا كہ امام حسن اور امام حسين عليہما السلام جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ وآلہ و سلم كى پشت پر سوار ہيں اور آپ گھٹنوں اور ہاتھوں پر چل رہے ہيں اور فرما رہے ہيں كہ تمہارى سوارى بہترين ہے اورتم بہترين سوار ہو_(2)
يعلى عامرى كہتے ہيں كہ ايك دن رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے ديكھا كہ امام حسين عليہ السلام بچوں كے ساتھ كھيل رہے ہيں، آپ نے اپنے ہاتھ بڑھائے تا كہ آپ كو پكڑليں جناب امام حسين عليہ السلام اس طرف اور اس طرف بھاگتے تھے_ پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ہنستے ہوئے امام حسين عليہ السلام كو بغل ميں لے ليا اور اس وقت اپنا ايك ہاتھ امام حسين عليہ السلام كى ٹھوڑى كے نيچے اور دوسرا ہاتھ گردن كے پيچھے ركھا اور اپنے دہن مبارك كو امام حسين(ع) كے لبوں پر ركھ كر بوسہ ديا اور فرمايا كہ حسين مجھ سے ہے اور ميں حسين سے ہوں_ جو شخص اسے دوست ركھے خدا اسے دوست ركھتا ہے_
-----------
1) بحار الانوار، ج 43، ص 205_
2) بحار الانوار،ج 43_ ص 285_
97
حسين (ع) ميرى بيٹى كا فرزند ہے_(1)
حضرت على بن ابى طالب امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) سے فرمايا كرتے تھے كہ تم، لوگوں كے پيشوا اور جوانان جنت كے سردار ہو اور معصوم ہو خدا اس پر لعنت كرے جو تم سے دشمنى كرے_(2)
جناب فاطمہ (ع) ايك دن امام حسن(ع) اور امام حسين(ع) كو جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ وآلہ وسلم كے خدمت ميں لائيںاور عرض كى يا رسول اللہ(ص) حسن (ع) اور حسين آپ كے فرزند ہيں ان كو كچھ عطا فرمايئےرسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے فرمايا ميں نے اپنى سيادت و ہيبت حسن كو بخشي، اور اپنى شجاعت اور سخاوت حسين (ع) كو دي_
سلمان فارسى كہتے ہيں كہ ميںنے امام حسين (ع) كو ديكھا كہ آپ پيغمبر(ص) كے زانو پر بيٹھے ہوئے ہيں اور آپ ان كو بوسہ دے رہيں اور فرماتے ہيں كہ تم سردار اورسردار زادہ ہو امام اور امام كے فرزند اور ماموں كے باپ ہو تم حجت ہو اور حجت كے فرزند اور نوحجتوں كے باپ ہو كہ آخرى حجت امام مہدى قائم ہوں گے_ (3)
جى ہاں پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم جناب زہرا(ع) كى اولاد كى تربيت ميں كوشش كرتے تھے جناب زہراء اور حضرت على بھى اسى لائحہ عمل پرآپ كى متابعت كرتے تھے كبھى بھى انہوں نے بچوں كو حقير نہيں سمجھا اور ان كى شخصيت كو دوسروں كے
---------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 271_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 165_
3) بحار الانوار، ج 43 ص 295_
98
سامنے ہلكاپھلكا بنا كر پيش نہيں كيا، اور ان كے روح اور نفس پر اس قسم كى ضرب نہيں لگائي يہى وجہ تھى كہ آپ كے يہاں سيد و سردار نے تربيت پائي_
روايت ميںآيا ہے كہ ايك آدمى نے ايك گناہ كا ارتكاب كيا كہ جس كى اسے سزا ملنى تھى اس نے اپنے آپ كو جناب رسول خدا(ص) سے مخفى ركھا يہاں تك كہ ايك دن راستے ميں امام حسن (ع) اورامام حسين (ع) سے اس كى ملاقات ہوگئي ان دونوں كو كندھے پر بيٹھايا اور جناب رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوگيا اور عرض كى يا رسول اللہ(ص) ميں حسن (ع) اور حسين (ع) كو شفيع اورواسطہ قرار ديتا ہوں پيغمبر اكرم(ص) ہنس ديئے اورفرمايا ميںنے تمہيں معاف كرديا اس كے بعد امام حسن(ع) اور امام حسين(ع) سے فرمايا كہ ميں نے تمہارى سفارش اور شفاعت قبول كرلى ہے _(1)
يہى عظمت نفس اور بزرگى تھى كہ امام حسين عليہ السلام اپنى مختصر فوج سے يزيد كے بے شمار لشكر كے سامنے ڈٹ گئے اور مردانہ وار جنگ كى ليكن ذلت اور خوارى كو برداشت نہ كيا آپ فرماتے تھے ميں غلاموں كى طرح بھاگوں گا نہيں اور ذلت اور خوارى كے سامنے سر تسليم خم نہيں كروں گا _(2)
اسى تربيت كى بركت تھى كہ زينب كبرى ان تمام مصائب كے باوجود يزيد كے ظلم و ستم كے سامنے حواس باختہ نہ ہوئيں اور اس سے مرعوب نہ ہوئيں اور پرجوش خطابت سے كوفہ اور شام كو منقلب كر گئيں اور يزيد كى ظالم اور خونخوار حكوت كو ذليل اور خوار كر كے ركھ ديا_
-----------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 318_
2) مقتل ابن مختف، ص 46_
99
تيسرا درس
ايمان اورتقوى
نفسيات كے ماہرين كے درميان يہ بحث ہے كہ بچوں كے لئے دينى تعليمات اور تربيت كس وقت سے شروع كى جائے ايك گروہ كا نظريہ يہ ہے كہ بچہ جب تك بالغ اوررشيد نہ ہو وہ عقائد اورافكار دينى كو سمجھنے كى استعداد نہيں ركھتا اور بالغ ہوتے تك اسے دينى امور كى تربيت نہيں دينى چاہيئے_ ليكن ايك دوسرے گروہ كاعقيدہ يہ ہے كہ بچے بھى اس كى استعداد ركھتے ہيں اور انہيں دينى تربيت دى جانى چاہيئےربيت كرنے والے دينى مطالب اور مذہبى موضوعات كو سادہ اور آسان كر كے انہيں سمجھائيں اور تلقين كريں اور انہيں دينى امور اور اعمال كو جو آسان ہيں بجالانے پر تشويق دلائيں تا كہ ان كے كان ان دينى مطالب سے آشنا ہوں اور وہ دينى اعمال اورافكار پرنشو و نما پاسكيں_ اسلام اسى دوسرے نظريئے كى تائيد كرتا ہے اور حكم ديتا ہے كہ بچوں كو جب وہ سات سال كے ہوجائيں تو انہيں نماز پڑھنے كى تاكيد كريں _(1)
پيغمبر اسلام(ص) نے دينى امور كى تلقين حضرت زہرا(ع) كے گھر بچپن اور رضايت كے زمانے سے جارى كردى تھي_ جب امام حسن عليہ السلام دنيا ميں آئے اور انہيں رسول خدا(ص) كى خدمت ميں لے گئے تو آپ نے انہيں بوسہ ديا اوردائيں كان ميں
----------
1) شافى ج 2 ص 149_
100
اذان اور بائيں كان ميں اقامت اور امام حسين عليہ السلام كى ولادت كے موقع پربھى يہى عمل انجام ديا(1)_
امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں ايك دن پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نماز پڑھنا چاہتے تھے امام حسين عليہ السلام بھى آپ كے پہلو ميں كھڑے ہوگئے جب پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے تكبير كہى توجناب امام حسين عليہ السلام نہ كہہ سكے رسول خدا صلى اللہ عليہ و الہ وسلم نے سات مرتبہ تكبيركى تكرار كى يہاں تك كہ امام حسين (ع) نے بھى تكبير كہہ دى _(2)
جناب رسو ل خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم دينى تلقين كو اس طرح موثر جانتے تھے كہ تولد كے آغاز سے ہى آپ نے امام حسن (ع) اور امام حسين (ع) كے كانوں ميں اذان اور اقامت كہى تا كہ اولاد كى تربيت كرنے والوں كے لئے درس ہوجائے يہى وجہ تھى كہ جناب فاطمہ (ع) جب امام حسن (ع) كو كھلايا كرتيں اورانہيں ہاتھوں پرا ٹھا كر اوپر اور نيچے كرتيں تو اس وقت يہ جملے پڑھتيں اے حسن(ع) تو باپ كى طرح ہوتا حق سے دفاع كرنا اور اللہ كى عبادتكرنا اوران افراد سے جو كينہ پرور اور دشمن ہوں دوستى نہ كرنا_ (3)
جناب فاطمہ زہرا، بچوں كے ساتھ كھيل ميں بھى انہيں شجاعت اور دفاع حق اور عبادت الہى كا درس ديتى تھيں اور انہيں مختصر جملوں ميں چار حساس مطالبہ بچے كوياد دلا رہى ہيں، يعنى باپ كى طرح بہادر بننا اوراللہ كى عبادت كرنا اور
-----------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 241_
2) بحار الانوار ، ج 43 ص 207_
3) بحار الانوار، ج 43 ص 286_
101
حق سے دفاع كرنااوران اشخاص سے دوستى نہ كرنا جو كينہ پرور اور دشمن ہوں پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم مالى تقوى اورناپاك غذا كے موارد ميں اپنى اسخت مراقبت فرماتے تھے كہ ابوہريرہ نے نقل كيا ہے كہ جناب رسول خدا(ص) كى خدمت ميں كچھ خرما كى مقدار زكوة كے مال سے موجود تھى آپ نے اسے فقراء كے درميان تقسيم كرديا جب آپ تقسيم سے فارغ ہوئے اور امام حسن (ع) كو كندھے پر بيٹھا كر چلنے لگے تو آپ نے ديكھا كہ خرما كا ايك دانہ امام حسن(ع) كے منھ ميں ہے_ پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اپنا ہاتھ امام حسن عليہ السلام كے منھ ميں ڈال كر فرمايا طخ طخ بيٹا حسن (ع) كيا تمہيں علم نہيں كہ آل محمد(ص) صدقہ نہيں كھاتے _(1)
حالانكہ امام حسن (ع) بچے اور نابالغ تھے كہ جس پركوئي تكليف نہيں ہوا كرتى چونكہ پيغمبر(ص) جانتے تھے كہ ناپاك غذا بچے كى روح پر اثر انداز ہوتى ہے لہذا اسے نكال دينے كا حكم فرماى قاعدتاً بچے كو بچپن سے معلوم ہونا چاہيئے كہ وہ كھانے كے معاملہ ميں مطلقاً آزاد نہيں ہے بلكہ وہ حرام اور، حلال كا پابند ہے اس كے علاوہ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم نے اپنے اس عمل سے حسن عليہ السلام كى شخصيت اور بزرگى منش ہونے كى تقويت كى اور فرمايا زكوة بيچاروں كا حق ہے اور تمہارے لئے سزاوار نہيں كہ ايسے مال سے استفادہ كرو، حضرت فاطمہ زہرا(ع) كى اولاد ميں شرافت، طبع اور ذاتى لحاظ سے بڑا ہونا اس قدر نافذ تھا كہ جناب ام كلثوم نے ويسے ہى كوفہ ميں عمل كر دكھايا جو پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم ان كے جد نے انجام ديا تھا_
مسلم نے كہا كہ جس دن امام حسين عليہ السلام كے اہلبيت قيد ہوكر كوفہ ميں
---------
1) ينابيع المودہ ص 47_ بحار الانوار، ج 43 ص 305_
102
لائے گئے تھے تو لوگوں ميںاہلبيت كے بچوں پرترحم اوررقت طارى ہوئي اور انہوں نے روٹياں، خرمے، اخروٹ بطور صدقہ ان پر ڈالنى شروع كيں اور ان سے كہتے تھے كہ دعا كرنا ہمارے بچے تمہارى طرح نہ ہوں_
جناب زہرا(ع) كى باغيرت دختر اور آغوش وحى كى تربيت يافتہ جناب ام كلثوم روٹياں اور خرمے اور اخروٹ بچوں كے ہاتھوں اور منھ سے لے كر دور پھينك ديتيں اور بلند آواز سے فرماتيں ہم اہلبيت پرصدقہ حرام ہے _(1)
اگر چہ امام حسين (ع) كے بچے مكلف نہ تھے ليكن شرافت طبع اور بزرگوارى كا اقتضا يہ تھا كہ اس قسم كى غذا سے حتى كہ اس موقع پربھى اس سے اجتناب كيا جائے تا كہ بزرگى نفس اور شرافت اور پاكدامنى سے تربيت ديئے جائيں_
چوتھا درس
نظم اوردوسروں كے حقوق كى مراعات
ايك اہم مطلب جو ماں باپاور دوسرے بچوں كى تربيت كرنے والوں كے لئے مورد توجہ ہونا چاہيئےہ يہ ہے كہ وہ بچے پرنگاہ ركھيں كہ وہ اپنے حق سے تجاوز نہ كرے اور دوسروں كے حق كا احترام كرے بچے كو منظم اور با ضبط ہونا چاہيئے زندگى ميں نظم اور ضبط كا برقرار ركھنا اسے سمجھايا جائے اس كى اس طرح تربيت كي
----------
1) مقتل ابى مختف، ص 90_
103
جائے كہ اپنے حق كے لينے سے عاجز نہ ہو اوردوسروں كے حق كو پا مال نہ كرے، البتہ اس صفت كى بنياد گھر اور ماں باپ كو ركھنى ہوگي، ماں باپ كو اپنى تمام اولاد كے ساتھ ايك جيسا سلوك كرنا چاہيئے كسى ايك كو دوسرے پر مقدم نہ كريں، لڑكے اور لڑكى كے درميان، چھوٹے اور بڑے كے درميان، خوبصورت اور بدصورت كے درميان، ذہين او ركم ذہن كے درميان فرق نہ كريں يہاں تك كہ محبت كے ظاہر كرنے كے وقت بھى ايك جيسا سلوك كريں تا كہ ان ميں حسد اور كينہ كى حس پيدا نہ ہو اور مراكش اور متجاوز نہ نكل آئيں_
اگر بچہ ديكھے كہ گھر ميں تمام افراد كے درميان حقوق كى پورى طرح رعايت كى جاتى ہے تو وہ سمجھ جائے گا كہ جامعہ اور معاشرہ ميں بھى ايك دوسرے كے حقوق كى پورى طرح رعايت نہ ہوئي تو اس ميںسركشى اور تجاوز كى عادت تقويت پكڑے گى اگر كوئي بچہ كسى تربيت وار چيز كے خريد نے يا كسى جگہ با تربيت سوار ہونے ميں يا كلاس كے كمرے ميں باترتيب جانے يا نكلنے ميں اس ترتيب اور نظم كا خيال نہ كرے اور دوسروں كے حق كو پا مال كرے اور اس كے ماں باپ اور تربيت كرنے والے افراد اس كے اس عمل ميںتشويق كريں تو انہوں نے اس معصوم بچے كے حق ميں خيانت كى كيونكہ وہ بچپن سے يہى سمجھے گا كہ دوسروں پر تعدى اور تجاوز بلا وجہ تقدم ايك قسم كى چالاكى اور ہنر ہے_ يہى بچہ جوان ہو كر جب معاشرہ ميں وارد ہوگا يا كسى كام كى بجا آورى كا ذمہ دار بنا جائے گا تو اس كى سارى كوشش دوسروں كے حقوق كو تلف اور پائمال كرنا ہوگى اور اپنے ذاتى منافع كے علاوہ اس كا كوئي ہدف نہ ہوگا اس صفت كا درس حضرت زہرا كے گھر ميں كامل طور ''اتنى وقت كے ساتھ كہ معمولى سے معمولى ضابطہ كى بھى مراعات كى جات تھي'' ديا جاتا تھا_
مثال كے طور پر حضرت على (ع) فرماتے ہيں كہ ايك دن پيغمبر خدا صلى اللہ عليہ و آلہ وسلم
104
ہمارے گھر آرام كر رہے تھے، امام حسن (ع) نے پانى مانگا جناب رسول خدا(ص) اٹھے تھوڑا دودھ برتن ميں دودہ كر جناب امام حسن (ع) كو ديا كہ اتنے ميں امام حسين عليہ السلام بھى اٹھے اور چاہا كہ دودھ كا برتن امام حسن عليہ السلام كے ہاتھ سے ليں ليكن پيغمبر(ص) نے امام حسين عليہ السلام كو اس كے لينے سے روك ديا، جناب فاطمہ زہرا يہ منظر ديكھ رہى تھيں، عرض كيا يا رسول اللہ(ص) گويا آپ امام حسن (ع) كو زيادہ دوست ركھتے ہيں؟ آپ(ص) نے جواب ديا كہ بات يہ نہيںہے بلكہ اس كے روكنے كى وجہ يہ ہے كہ امام حسن (ع) كو تقدم حاصل ہے اس نے حسين (ع) سے پہلے پانى مانگا تھا لہذا نوبت كى مراعات ہونى چاہيئے _(1)
پانچواں درس
ورزش اور كھيل كود
تربيت كے ماہرين كا كہنا ہے كہ بچے كہ كھيل كود كى اس كى مرضى كے مطابق آزادى دينى چاہيئے بلكہ اس كے لئے كھيل كود اور سير و سياحت كے پورے اسباب فراہم كرنے ہيں آج كل متمدن معاشرے ميں يہ موضوع قابل توجہ قرار ديا جاتا ہے اور پرائمري، ہڈل اور ہائي اسكول اور كالجوں ميں كھيل اور تفريح كے مختلف وسائل بچوں اور جوانوں كى عمر كے مطابق فراہم كئے جاتے ہيں اور انہيں مل كركھيلنے اور ورزش كرنے كى تشويق دلاتے ہيں،
----------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 283_
105
گويا وہ يہ ثابت كرنے كى كوشش كرتے ہيں كہ كھيلنا جيسے بدن كے رشد كرنے كے لئے ضرورى ہے ويسے ہى يہ ان كى روح كى تربيت كے لئے بھى بہت تاثير ركھتا ہے_
بعض لوگ بچوں سے يہ توقع ركھتے ہيں كہ وہ بڑوں كى طرح زندگى گزاريں اوراپنے لئے يہ ضرورى سمجھتے ہيں كہ انہيں طفلانہ كھيل گود سے روكے ركھيں اور اگر كوئي بچہ كھيل كود ميں مشغول ہو تو اسے بے ادب بچہ قرار ديتے ہيں اوراگر چپ چاپ سر جھكائے اوركھيل گود سے دور ايك گوشہ ميں بيٹھا رہنے والا ہو تو اسے شاباشى ديتے ہيں اور اسے با ادب بچہ سمجھتے ہيں_ ليكن نفسيات كے ماہر اس عقيدے كوغلط اور بے جا قرار ديتے ہيں ان كاعقيدہ ہے كہ بچے كو كھيلنا چاہيئے_ اور اگر بچہ نہ كھيلے تو يہ اس كے جسمى اور روحى بيمار ہونے كى علامت ہے_ البتہ ماں باپ كو يہ خيال ركھنا چاہيئے كہ بچہ وہ كھيل كود انجام نہ دے جو اس كے لئے ضرر كا موجب ہو اور دوسروں كے لئے مسرت كے اسباب فراہم كرتا ہو_
ماں باپ صرف بچہ كو كھيل كودكے لئے آزادى ہى نہ ديں بلكہ خود بھى بيكارى كے وقت بچے كے ساتھ كھيليں، كيوں كہ ماں باپ كا يہ عمل بچے كے لئے لذت بخش ہوتا ہے اوروہ اسے اپنے لئے محبت كى علامت قرار ديتا ہے_
رسول خدا(ص) جناب امام حسن اور امام حسين كے ساتھ كھيلتے تھے_ ابوہريرہ نے نقل كيا ہے كہ ميں نے رسول خد ا (ص) كو ديكھا كہ وہ حسن (ع) اور حسين (ع) كے ہاتھ پكڑے ہوئے تھے اور ان كے پاؤں كو اپنے سينے پر ركھے ہوئے فرما رہے تھے، فاطمہ (ع) كے نور چشم اور چڑھو، حسن (ع) اور حسين (ع) اوپر چڑھتے يہاں تك كہ ان كے پاؤں آپ
106
كے سينے تك جا پہنچے آپ اپنے لبوں پر ركھ كر بوسہ ديتے اور فرماتے خدايا ميں حسن(ع) اور حسين(ع) كو دوست ركھتا ہوں (1)_
ابوہريرہ كہتے ہيں كہ جناب حسن(ع) اور حسين(ع) پيغمبر(ص) كے سامنے كشتى كرتے تھے_ پيغمبر(ص) امام حسن (ع) كو فرماتے شاباش حسن (ع) شاباش حسن (ع) _ جناب فاطمہ (ع) عرض كرتيں يا رسول اللہ(ص) حسن (ع) باوجوديكہ حسين (ع) سے بڑا ہے آپ انہيں حسين (ع) كے خلاف شاباش اور تشويق دلا رہے ہيں_
آپ(ص) نے جواب ديا كہ حسين (ع) باوجوديكہ حسن (ع) سے چھوٹے ہيں ليكن شجاعت اور طاقت ميں زيادہ ہيں اور پھر جناب جبرئيل حسين(ع) كو تشويق اورشاباش دے رہے ہيں _(2)
جابر كہتے ہيں كہ ميں نے ديكھا كہ رسول خدا(ص) پاؤں اور ہاتھوں پر چل رہے ہيں اور آپ كى پشت پر حسن (ع) اور حسين سوار ہيں اور فرما رہے تھے تمہارا اونٹ سب سے بہتر اونٹ ہے اور تم بہترين سوار ہو_(2)
امام رضا عليہ السلام نے اپنے اجداد سے روايت كى ہے كہ جناب حسن (ع) اور حسين (ع) كافى رات تك جناب رسول خدا(ص) كے گھر ميں كھيلتے رہتے تھے جناب رسولخدا اس كے بعد ان سے فرماتے كہ اب اپنى ماں كے پاس چلے جاؤ جب آپ گھر سے باہر نكلنے تو بجلى چمكتى اورراستہ روشن ہوجاتا اور اپنے گھر تك جا پہنچے_ اور پيغمبر(ص) نے فرمايا كہ اس اللہ كا شكر كہ جس نے ہم اہلبيت كو معظم قرار ديا ہے_ (4)
----------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 287_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 265_
3) بحار الانوار، ج 43 ص 285_
4) بحار الانوار، ج 43 ص 266_
|