75
حصّہ سوم
فاطمہ (ع) على (ع) كے گھر ميں
76
جناب فاطمہ (ع) باپ كے گھر سے شوہر كے گھر منتقل ہوگئيں ليكن خيال نہ كيجئے كہ كسى اجنبى كے گھر گئي ہيں گرچہ آپ مركز نبوت سے باہر چلى گئي ہيں ليكن مركز ولايت ميں پہنچ گئيں_ اسلام كے سپہ سالار فوج كے كمانڈر جنگ كے وزير اور خصوصى مشير اسلام كى پہلى شخصيت كے گھر وارد ہوئي ہيں اس مركز ميں آنے سے بہت سخت وظائف آپ كے كندھے پر آن پڑے ہيں، اب رسمى ذمہ دارياں بھى آپ پر عائد ہوگئيں_ يہاں رہ كر آپ كو اسلام كى خواتين كے لئے ازدواجى زندگي، امور خانہ داري، بچوں كى تربيت كا عملى طور پر درس دينا ہے، خواتين اسلام كو فداكاري، صداقت، محبت لازمى طور پر درس دينا ہوگا آپ كو اس طرح زندگى گزارنا ہے جو مسلمان عورتوں كے لئے ايك نمونہ بن جائے كہ عالم كى خواتين آپ كے وجود كے آئينے ميں اسلام كى نورانيت اور حقيقت كو ديكھ سكيں_
امور خانہ داري
پہلا گھر كہ جس كے دونوں ركن مياں اور بيوى گناہوں سے پاك اور معصوم انسانيت كے فضائل اور كمالات سے مزين ہيں وہ حضرت على (ع) اور جناب فاطمہ (ع) كا گھر تھا_ حضرت على (ع) ايك اسلامى مرد كا مل نمونہ تھے اور حضرت زہرا (ع)
77
ايك مسلمان عورت كا كامل نمونہ تھيں_
على ابن ابى طالب نے بچپن سے جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے دامن ميں اور آپ كى زير نگرانى تربيت پائي تھي_ كمالات اور فضائل اور بہترين اور اعلى ترين اسلامى اخلاق كے مالك تھے، جناب زہرا(ع) نے بھى اپنے باپ كے دامن ميں تربيت پائي تھى اور آپ اسلامى اخلاق سے پورى طرح آگاہ تھيں_ آپ لوگوں كے كان بچپن سے قرآن سے مانوس تھے_ رات دن ا ور كبھى كبھار قرآن كى آواز خودپيغمبر (ص) كے دہن مبارك سے سنا كرتے تھے_ غيبى اخبار اور روحى سے آگاہ تھے اسلام كے حقائق اور معارف كو اس كے اصلى منبع اور سرچشمہ سے دريافت كرتے تھے اسلام كا عملى نمونہ پيغمبر اسلام(ص) كے وجودى آئينہ ميں ديكھا كرتے تھے اسى بناء پر گھر يلو زندگى كا اعلى ترين نمونہ اس گھر سے دريافت كيا جاسكتا ہے_
على (ع) اور فاطمہ (ع) كا گھر واقعاً محبت اور صميميت كا با صفا محور تھا_ مياں بيوى كمال صداقت سے ايك دوسرے كى مداد اور معاونت كر رہے تھے گھر يلوكاموں ميں ايك دوسرے كى مدد كرتے تھے_ بياہ كے ابتدائي دنوں ميں پيغمبر (ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض كى كہ آپ گھر كے كام كاج ہم ميں تقسيم كرديں_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا گھر كے اندرونى كام فاطمہ انجام ديں گى اور بيرونى كام على (ع) كے ذمہ ہوں گے فاطمہ (ع) فرماتى ہيں كہ ميں اس تقسيم سے بہت خوش ہوئي كہ گھر كے بيرونى كام ميرے ذمہ نہيں گئے _(1)
جى ہاں فاطمہ (ع) وحى كى تربيت يافتہ تھيں اور جانتى تھيں كہ گھر ايك اسلام كا بہت بڑا مورچہ ہے ، اگر عورت كے ہاتھ سے يہ مورچہ نكل گيا اور خريد و فروخت كے
--------
1) بحارالانوار، ج 43 ص 81_
78
لئے گھر سے باہر نكل پڑى تو پھر وہ امور خانہ دارى كے وظائف اور اولاد كى تربيت اچھى طرح انجام نہيں دے سكے گى يہى وجہ تھى كہ آپ اس تقسيم سے خوش ہوگئيں كہ گھر كے مشكل اور سخت كام على (ع) كے سپرد كئے گئے ہيں_
اسلام كى بے مثال پہلى شخصيت كى بيٹى كام كرنے كو عارنہ سمجھتى تھى اور گھر كے مشكل كاموں كى بجا آورى سے نہيں كتراتى تھيں، آپ نے اس حد تك گھر كے كاموں ميں زحمت اٹھائي كہ خود حضرت على عليہ السلام آپ كے بارے ميں ياد كرتے تھے اور آپ كى خدمات كو سراہا كرتے تھے آپ نے اپنے ايك دوست سے فرمايا تھا كہ چاہتے ہو كہ ميں اپنے او رفاطمہ (ع) كے متعلق تمہيں بتلاؤں_
اتنا ميرے گھر پانى بھى كر لائي ہيں كہ آپ كے كندھے پر مشك كا نشان پڑ گيا تھا اور اتنى آپ نے چكى پيسى كہ آپ كے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے تھے، اتنا آپ نے گھر كى صفائي اور پاكيزگى اور روٹى پكانے ميں زحمت اٹھائي ہے كہ آپ كا بساس ميلا ہوجانا تھا_ آپ پر كام كرنا بہت سخت ہوچكا تھا ميں نے آپ سے كہا تھا كتنا بہتر ہوگا كہ اگر آپ پيغمبر(ص) كى خدمت ميں حاضر ہو كر حالات كاآپ(ص) سے تذكرہ كريں شادى كوئي كنيز آپ كے لئے مہيا كرديں_ تا كہ وہ آپ كى امور خانہ دارى ميں مدد كرسكے_
جناب فاطمہ (ع) پيغمبر(ص) كى خدمت ميں گئيں ليكن اصحاب كى ايك جماعت كو محو گفتگو ديكھ كر واپس لوٹ آئيں اور شرم كے مارے آپ سے كوئي بات نہ كي_ پيغمبر(ص) نے محسوس كرليا تھا كہ فاطمہ (ع) كسى كام كى غرض سے آئي تھيں، لہذا آپ(ص) دوسرے دن ہمارے گھر خود تشريف لے آئے اور اسلام كيا ہم نے جواب سلام ديا آپ ہمارے پاس بيٹھ گئے اور فرمايا بيٹى فاطمہ (ع) كس لئے ميرے پاس آئي تھيں؟ جناب فاطمہ (ع) نے اپنى حاجت كے بيان كرنے ميں شرم محسوس كى حضرت على (ع) نے عرض كى يا رسول اللہ(ص) ، فاطمہ (ع) اس قدر پانى بھر كر لائيں ہيں كہ مشك كے بند كے داغ آپ كے سينے پر پڑچكے ہيں اتنى آپ نے
79
چكى چلائي ہے كہ آپ كے ہاتھ پر چھالے پڑ گئے ہيں اتنا آپ نے اپنے گھر كى صفائي كے لئے جھاڑو ديئے ہيں كہ آپ كا لباس غبار آلود اور ميلا ہوچكا ہے اور اتنا آپ ن خوراك اور غذا پكائي ہے كہ آپ كا لباس كثيف ہوگيا ہے_ ميں نے ان سے كہا تھا كہ آپ كى خدمت ميں جائيں شايد كوئي كنيز اور مددگار آپ انہيں عطا فرما ديں_
پيغمبر(ص) نے فرمايا بيٹى فاطمہ (ع) كيا تمہيں ايسا عمل نہ بتلاؤں جو كنيز سے بہتر؟ جب سونا چاہو تو تينتيس مرتبہ سبحان اللہ، تينتيس مرتبہ الحمد اللہ، چونتيس مرتبہ اللہ اكبر پڑھا كرو_ يہ ذكر ايك سو سے زيادہ نہيں_ ليكن اس نے نامہ عمل ميں ايك ہزار حسنہ لكھا جاتا ہے_ فاطمہ (ع) ، اگر اس ذكر كو ہر روز صبح پڑھو تو خداوند تيرے دنياا ور آخرت كے كاموں كى اصلاح كردے گا_ فاطمہ (ع) نے جواب ميں كہا ابا جان ميں خدا اور اس كے رسول سے راضى ہوگئي _(1)
ايك دوسرى حديث ميں اس طرح آيا ہے كہ فاطمہ (ع) نے اپنے حالات اپنے با با سے بيان كئے اور آپ(ص) سے ايك لونڈى كا تقاضا كيا_ رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے گريہ كرتے ہوئے فرمايا_ فاطمہ (ع) خدا كى قسم چار سو آدمى فقير اس وقت مسجد ميں رہ رہے ہيں كہ جن كے پاس نہ خوراك ہے اور نہ ہى لباس مجھے خوف ہے كہ اگر تمہارے پاس لونڈى ہوئي تو گھر ميں خدمت كرنے كا جو اجر و ثواب ہے وہ تمہارے ہاتھ سے نكل جائے گا_ مجھے خوف ہے كہ على ابن ابى طالب قيامت كے دن تم سے اپنے حق كا مطالبہ كريں اس كے بعد آپ نے تسبيح زہرا(ع) آپ كو بتلائي_ اميرالمومنين نے فرمايا كہ دنيا كى طلب كے لئے پيغمبر(ص) كے پاس گئي تھيں ليكن آخرت كا ثواب ہميں نصيب ہوگيا_(2)
---------
1) بحارالانوار، ج 43 ص 82_ 134_
2) بحارالانوار، ج 43 ص 85_
80
ايك دن پيغمبر(ص) جناب فاطمہ (ع) كے گھر تشريف لے گئے ديكھا كہ على (ع) اور فاطمہ (ع) چكى چلانے ميں مشغول ہيں آپ نے پوچھا تم ميں سے كون تھك چكا ہے؟ حضرت على عليہ السلام نے عرض كى كہ فاطمہ (ع) ، چنانچہ جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) كى جگہ بيٹھ گئے اور حضرت على كى چكى چلانے ميں مدد كي_(1)
جناب جابر كہتے ہيں كہ پيغمبر اسلام(ص) نے ديكھا كہ جناب فاطمہ (ع) معمولى قيمت كا لباس پہنے ہوئے ہيں اور اپنے ہاتھ سے چكى چلاتى ہيں اور بچوں كو گود ميں لئے ہوئے دودھ پلاتى ہيں يہ منظر ديكھ كر آپ كے آنسو جارى ہوگئے اور فرمايا ميرى پيارى بيٹى دنيا كى سختى اور تلخى كو برداشت كرو تا كہ آخرت كى نعمتوں سے سرشار ہوسكو آپ نے عرض كيا، يا رسول اللہ(ص) ميں اللہ تعالى كى ان نعمتوں پر شكر گزار ہوں اس كے بعد يہ آيت نازل ہوئي كہ خدا قيامت كے دن اتنا تجھے عطا كرے گا كہ تو راضى ہوجائے _(2)
اما م جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ حضرت على (ع) لكڑياں اور گھ كا پانى مہيا كرتے تھے اور گھر كى صفائي كرتے تھے اور جناب فاطمہ (ع) چكى پيستى تھيں اور آٹا گوندھتى اور روٹى پكاتى تھيں_(3)
ايك دن جناب بلال خلاف معمول مسجد ميں صبح كى نماز ميں دير سے پہنچے تو رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے دير سے آنے كى وجہ پوچھى آپ نے عرض كيا_ جب ميں مسجد آرہا تھا تو جناب فاطمہ (ع) كے گھر سے گزرا ميں نے ديكھا كہ آپ چكى پيس رہى ہيں اور
---------
1) بحار الانوار، ج 43 ص 50_
2) بحار الانوار، ج 43 ص 86_
3) بحار الانوار، ج 43 ص 151_
81
بچے رو رہے ہيں، ميں نے عرض كى اے پيغمبر كى بيٹى ان دو كاموں ميں سے ايك ميرے سپرد كرديں تا كہ ميں آپ كى مدد كروں، آپ نے فرمايا بچوں كو بہلانا مجھے اچھا آتا ہے اگر تم چاہتے ہو تو چكى چلا كر ميرى مدد كر و ميں نے چكى كا چلانا اپنے ذمہ لے ليا اسى لئے مسجد ميں دير سے آيا ہوں_ پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا تو نے فاطمہ (ع) پر رحم كيا ہے خدا تم پر رحم كرے_ (1)
شوہر كے ہمراہ
جناب فاطمہ (ع) كسى عام آدمى كے گھر زندگى نہيں گزار رہى تھيں بلكہ وہ اسلام كى دوسرى شخصيت، جو اسلام كے سپہ سالار اور بہادر اور قوى اور پيغمبر(ص) كے خصوصى وزير اور مشير تھے ، كے گھر ميں زندگى گزار رہى تھيں اسلام اور اپنے شوہر كے حساس مقام كو اچھى طرح سمجھتى تھيں اور جانتى تھيں كہ اگر على كى تلوار نہ ہو تو اسلام كى كوئي پيشرفت نہيں ہوسكتى ، جناب فاطمہ (ع) اسلام كے بحرانى اور بہت حساس مواقع كے لحاظ سے حضرت على عليہ السلام كے گھر زندگى گزار رہى تھيں اسلام كا لشكر ہر وقت تيار رہتا تھا، ہر سال ميں كئي لڑائياں ہو جاتى تھيں_ حضرت على (ع) ان تمام يا اكثر جنگوں ميں شريك ہوا كرتے تھے_
جناب زہرا(ع) اپنى سخت اور حساس ذمہ دارى سے باخبر تھيں اور اس سے بھى بطور كامل مطلع تھى كہ عورت كا مرد كے مزاج پر كيا اثر ہوتا ہے، جانتى تھيں كہ عورت اس قسم كا نفوذ اور قدرت ركھتى كے كہ جس طرف چاہے مرد كو پھير سكتى ہے اور يہ بھى جانتى تھيں كہ مرد كى ترقى يا تنزلى اور سعادت اور بدبختى كتنى عورت كى رفتار اور مزاج
-------------
1) ذخائر العقبى ، ص 51_
82
سے وابستہ ہے اور يہ بھى جانتى تھيں كہ گھر مرد كے لئے مورچہ اور آسائشے كا مركز ہے مرد مبارز كے ميدان اور حوادث زندگى اور ان كے مشكلات سے روبرو ہو كر تھكا ماندا گھر ہى آكر پناہ ليتا ہے تاكہ تازہ طاقت حاص كرے اور اپنے وظائف كى انجام دہى كے لئے اپنے آپ كو دوبارہ آمادہ كرسكے_ اس مہم آسائشےگاہ كى ذمہ داياں عورت كو سونپى گئي ہيں_ اسى لئے اسلام نے ازدواجى زندگى كو جہاد كے برابر قرار ديا ہے_ امام موسى كاظم عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ عورت كا جہاد يہ ہے كہ وہ اچھى طرح شوہر كى خدمت كرے _(1)
جناب فاطمہ (ع) جانتى تھيں اسلام كا بہادر اور طاقتور سپہ سالار جنگ كے ميدان ميں اس وقت فاتح ہوسكتا ہے جب وہ گھر كے داخلى امور سے بے فكر اور اپنى رفيقہ حيات كى مہربانيوں اور تشويقات سے مطمئن ہو، اس سے يہ نتيجہ نكالا جاسكتا ہے كہ اسلام كا فداكار سپہ سالار على (ع) جب جنگ سے تھكا ماندا ميدان سے گھر آتا تھا تو اپنى ہمسر كى مہربانيوں اور نوازشات اور پيار بھرى باتوں سے كاملاً نوازا جاتا تھا_ آپ ان كے جسم كے زخموں پر مرہم پٹى كرتى تھيں ان كے خون آلود لباس كو دھوتى تھيں اور جنگ كے حالات ان سے سنانے كو كہتى تھيں_
جناب زہرا معظمہ ان تمام كاموں كو خود انجام ديتى تھيں يہاں تك كہ كبھى اپنے باپ كے خون آلود كپڑے بھى خود ہى دھويا كرتى تھيں، ہم تاريخ ميں پڑھتے ہيں كہ جب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم احد كى جنگ سے واپس آئے تو آپ نے اپنى تلوار جناب زہرا كو دى اور فرمايا كہ اس كا خون بھى دھودو_(2)
----------
1) وافى كتاب نكاح ص 114_
2) سيرہ ابن ہشام، جلد 3 ص 106_
83
جناب زہرا(ع) اپنے شوہر كو آفرين اور شاباش دے كر شوق دلايا كرتى تھيں آپ اور كى فداكارى و بہادرى كى داد ديا كرتى تھى اس طرح آپ حضرت على (ع) كى حوصلہ افزائي اور اپ كو اگلى جنگ كے لئے تيار كرتى تھيں_ اپنى بے ريا محبت سے تھكے ماندے على (ع) كو سكون مہيا كرتى تھيں خود حضرت على عليہ السلام فرمايا كرتے تھے كہ جب ميں گھر واپس آتا تھا اور جناب زہرا (ع) كو ديكھتا تھا تو ميرے تمام غم و اندوہ ختم ہوجايا كرتے تھے _(1)
جناب فاطمہ (ع) كبھى بھى حضرت على (ع) كى اجازت كے بغير گھر سے باہر قدم نہيں ركھتى تھيں اور كبھى بھى حضرت على عليہ السلام كو غضبناك نہيں كرتى تھيں كيونكہ جانتى تھيں كہ اسلام كہتا ہے كہ جو عورت شوہر كو غضب ناك كرے خداوند اس كى نماز اور روزے كو قبول نہيں كرتا جب تك اپنے شوہر كو راضى نہ كرے_ (2)
جناب فاطمہ (ع) نے حضرت على (ع) كے گھر بھى جھوٹ نہيں بولا اور خيانت نہيں كى اور كبھى آپ كے حكم كى مخالفت نہيں كى حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ميں نے كبھى ايسا كام نہيں كيا كہ جس سے فاطمہ (ع) غضبناك ہوئي ہوں، اور فاطمہ (ع) نے بھى كبھى مجھے غضبناك نہيں كيا _(3)
حضرت على عليہ السلام نے جناب زہرا(ع) كے آخرى وداع ميں اس كا اعتراف كيا ہے، كيونكہ جناب زہرا(ع) نے اپنے آخرى وقت ميں على (ع) سے كہا تھا اے ا بن عم آپ نے مجھے كبھى دروغ گو اور خائن نہيں پايا جب سے آپ نے ميرے سامنے زندگى شروع كى ہے ميں نے آپ كے احكام كى مخالفت نہيں كي، على (ع) نے فرمايا اے رسول خدا(ص) كى دختر
------------
1) مناقب خوارزمي، ص 256_
2) وافى كتاب نكاح، ص 114_
3) مناقب خوارزمي، ص 256_
84
معاذاللہ تم نے گھر ميں مجھ سے برا سلوك كيا ہو كيونكہ تيرى اللہ كى معرفت اور پرہيز گارى اور نيكوكارى اور خدا ترسى اس حد تك تھى كہ اس پر ايراد اور اعتراض نہيں كيا جاسكتا تھا، ميرى محترم رفيقہ حيات مجھ پر تيرى جدائي اور مفارقت بہت سخت ہے ليكن موت سے كسى كو مفر نہيں_(1)
چونكہ حضرت على (ع) كى فكر داخلى امو ر سے كاملا آزاد تھى اور اپنى بيوى كى تشويق سے بھى بہرہ مند تھے اسى لئے آپ كے لئے وہ تمام كاميا بيان ممكن ہوسكيں_
ليكن يہ خيال كبھى يہ كيجئے كہ حضرت على (ع) ابن ابى طالب ان خود پسند اور خود خواہ مردون ميں سے تھے كہ ہزاروں توقع اپنى سے تو ركھتے ہوں ليكن اپنے لئے كسى مسئوليت يا ذمہ دارى كے قائل نہ ہوں اور اپنے آپ كو عورت كا حاكم مطلق سمجھتے ہوں اور عورت كو زر خريد غلام بلكہ اس سے بھى پست تر خيال كرتے ہوں ايسا بالكل نہ تھا حضرت على (ع) اسى حالت ميں جب ميدان جنگ ميں تلوار چلا ہے ہوتے تھے تو جانتے تھے كہ ان كى بيوى بھى اسلام كے داخلى مورچہ ''گھر'' ميں جہاد ميں مشغول ہے ان كى غير حاضرى ميں تمام داخلى امور اور خارجى امور كى ذمہ دارى جناب فاطمہ (ع) پر ہے كھانا پكاتى تھيں لباس دھوتى تھيں، بچوں كى نگاہ دارى كرتى تھيں اور اولاد كى ترتيت ميں سخت محنت كرتى تھيں_ جنگ كے زمانے ميں سختى او رقحط كے دور ميں غذا اور ديگر زندگى كے اسباب مہيا كرنے ميں كوشش كرتى تھيں، جنگ او رحوادث كى ناراحت كنندہ خبر سن كر ناراحت ہوتيں اور انتظار كى سختى برداشت كرتى تھيں_
خلاصہ گھر كے نظم و ضبط كو برقرار ركھتيں جو كہ ايك مملك چلانے سے آسان نہيں ہوا كرتا، حضرت على (ع) كو احساس تھا كہ داخلى سپاہى كو بھى دلجوئي اور محبت اور تشويق كي
-----------
1) بحارالانوار ، ج 43ص 191_
85
ضرورت ہوتى ہے اسى لئے جب بھى آپ گھر ميں تشريف لاتے تو آپ گھر كے حالات او رجناب زہرا(ع) كى محنت او رمشقت كى احوال پرسى كرتے تھے اور اس تھكى ماندى شخصيت كو سرا ہتے اور اس كے پمردہ دل كو اپنى مہربانيوں اور دل نواز باتوں كے ذريعہ سكون مہيا كرتے، زندگى سختى اور فقر اور تہى دستى كے لئے ڈھارس بندھاتے اور زندگى كے كاموں كو بجالانے اور زندگى كے كاموں ميں آپ كى ہمت افزائي كرتے تھے_ على (ع) جانتے تھے كہ جتنا مرد عورت كے اظہار محبت اور خلوص اور قدردانى كا محتاج ہے اتنا عورت بھى اس كى محتاج ہے يہ دونوںاسلام كا نمونہ تھے اور اپنے وظائف پر عمل كرتے اور عالم اسلام كے لئے اپنے اخلاق كا نمونہ بنے رہے_
كيا جناب رسول خدا(ص) نے زفاف كى رات على (ع) سے نہيں فرمايا تھا كہ تمہارى بيوى جہاں كى عورتوں سے بہتر ہے، اور جناب زہرا(ع) ، سے فرمايا تھا كہ تمہارا شوہر على (ع) جہان كے مردوں سے بہتر ہے _(1)
كيا پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے نہيں فرمايا تھا كہ اگر على (ع) نہ ہوتے تو فاطمہ (ع) كا كوئي كفو اور لائق شوہر موجود نہيں تھا_(2)
جناب فاطمہ (ع) نے اپنے والد بزگوار سے روايت كى ہے كہ آپ نے فرمايا كہ تم ميں سے بہترين مرد وہ ہيں جو اپنى بيويوں كے محسن او رمہربان ہوں_(3)
كيا خود حضرت على عليہ السلام نے زفاف كى صبح پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كي
---------
1) بحارالانوار، ج 43ص 132_
2) كشف الغمہ، ج 2 ص 98_
2) دلائل الامامہ، ص 7_
86
خدمت ميں عرض كيا تھا كہ فاطمہ (ع) اللہ كى اطاعت ميں ميرى بہترين مددگار اور ياور ہے _(1)
بچوں كى تعليم و تربيت
جناب زہرا ء كى ذمہ داريوں ميں سے سب سے زيادہ سخت ذمہ دارى اولاد كى تربيت تھي_ آپ كے پانچ بچے ہوئے، جناب امام حسن(ع) اور امام حسين (ع) اور جناب زينب خاتوں اور جناب ام كلثوم اور پانچوں فرزند كا نام محسن تھا جو ساقط كرديا گيا، آپ كے دو لڑكے اور دو لڑكياں زندہ ہيں آپ كى اولاد عام لوگوں كى اولاد كى طرح نہ تھى بلكہ يوں ہى مقدر ہوچكا تھا كہ پيغمبر اكرم(ص) كى نسل مبارك جناب فاطمہ (ع) سے چلے_
جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرمايا كرتے تھے باقى پيغمبروں كى ذريت ان كے صلب سے ہے ليكن ميرى نسل على (ع) كے صلب سے مقرر ہوئي ہے ميں فاطمہ (ع) كى اولاد كا باپ ہوں_ (2)
خدا نے مقرر فرمايا ہے كہ دين كے پيشوا اور رسول خدا(ص) كے خلفاء جناب زہرا(ع) كى پاك نسل سے ہوں لہذا جناب زہرا(ع) كى سب سے زيادہ سخت ذمہ دارى اولاد كى تربيت تھي_
تربيت اولاد ايك مختصر جملہ ہے ليكن يہ لفظ بہت مہم اور وسيع المعنى ہے شايد كسى كے ذہن ميں آئے كہ اولاد كى تربيت صرف اور صرف باپ كا ان كے لئے لوازم زندگي
--------
1) بحارالانوار، ج 43 ص 117_
2) مناقب ابن شہر آشوب، ج 3ص 287_
87
فراہم كرنا ہى نہيں اور ماں ان كے لئے خشك و ترسے غذا مہيا كردے اور لباس دھو دے اور بس اس كے علاوہ اور كوئي بھى ذمہ دارى اولاد كى ان پر عائد نہيں ہوتى ليكن معلوم ہونا چاہيئےہ اسلام اسى حد تك اولاد كى تربيت ميں اكتفا نہيں كرتا بلكہ ماں باپ كو ان كے بہت بڑے وظيفہ كا مسئول قرار ديتا ہے_
اسلام بچے كى بعد ميں بننے والى شخصيت كو ماں باپ كى پرورش او رتربيت اور ان كى نگہدارى كے مرہون منت سمجھتا ہے ماں باپ كے تمام حركات او رسكنات اور افعال و كردار بچے كى لطيف اور حساس روح پر اثرانداز ہوتے ہيں، ہر بچہ ماں باپ كے رفتار اور سلوك كى كيفيت كا نمائندہ ہوتا ہے_ ماں باپ كا وظيفہ ہے كہ بہت زيادہ احتياط سے بچے كے مستقبل كے مراقب او رمواظب ہوں تا كہ بے گناہ بچہ كہ جس كى نہاد اچھائي خلق ہوئي ہے فاسد اور بدبخت نہ ہوجائے_
جناب زہرا(ع) نے خود دامن وحى ميں تربيت پائي تھى او راسلامى تربيت سے نا آشنا او رغافل نہ تھيں_ يہ جانتى تھيں كہ كس طرح ماں كا دودھ اور اس كے معصوم بچے كے لبوں پر بوسے لے كر اس كے تمام حركات اور سكنات اعمال اور گفتار اس كى حساس روح پر اثرانداز ہوا كرتے ہيں_ جانتى تھيں كہ مجھے امام كى تربيت كرتا ہے اور معاشرہ اسلامى كو ايك ايسا نمونہ دينا ہے جو روح اسلام كا آئينہ دار اور حقيقت كا معرف ہوگا، معارف اور حقائق ان كے وجود ميں جلوہ گر ہوں اور يہ كام كوئي آسانى كا م نہ تھا_
جناب فاطمہ (ع) جانتى تھيں كہ مجھے اس حسين (ع) كى تربيت كرنا ہے كہ جو اسلام كى ضرورت كے وقت اپنى اور اپنے عزيزوں كى جان دين اسلام كے دفاع اور ظلم سے مبارزہ كر كے فداكر سكے اور اپنے عزيزوں كے پاك خون سے اسلام كے درخت كو سيراب كردے_ جانتى تھيں كہ انھيں ايسى لڑكياں زينب او رام كلثوم تربيت
88
كرنى ہيں جو اپنے پر جوش خطبوں اور تقريروں سے بنى اميہ كى ظلم و ستم كى حكومت كو رسوا اور مفتضح كرديں اور ان كے ناپاك ارادوں كو ناكام بنادے_ فاطمہ (ع) زہرا گھريلو يونيورسٹى ميں زينب كو فداكارى اور شجاعت اور يزيد كے ظلم سے مرعوب نہ ہونے كا دس دے رہى تھيں تا كہ اپنى شعلہ بيانى سے دوست اور دشمن كو رلائے اور اپنے بھائي كى مظلوميت اور بنو اميہ كى بيدادگى اور ظلم سے مرعوب نہ ہونے كا درس دے رہى تھيں، جانتى تھيں كہ ايك متحمل مزاج فرزند امام حسن جيسا تربيت كرنا ہے تا كہ اسلام كے حساس موقع پر اپنے جگر كا خون پيتا رہے اور اسلام كے منافع اور اساسى انقلاب كے لئے زمين ہموار كرنے كے لئے ساكت رہے اور شام كے حاكم سے صلح كر كے عالم كو بتلا دے كہ اسلام جب تك ممكن ہو صلح كو جنگ پر ترجيح ديتا ہے اور اس طرح كر كے حاكم شام كى عوام فريبى اور دغل بازى كو ظاہر كردے، غير معمولى نمونے جو اس اعجازآميز مكتب سے نكلے ہيں وہ حضرت زہرا (ع) كى غير معمولى طاقت اور عظمت روحى كے ظاہر كر نے كے لئے كافى ہيں_
جى ہاں حضرت زہرا (ع) كوتاہ فكر عورتوں سے نہ تھيں كہ جو گھر كے ماحول اور محيط كو معمولى شمار كرتے ہوئے بلند پرواز كرتى ہيں_ حضرت زہرا(ع) كے گھر كے ماحول كو بہت بڑا اور حساس خيال كرتى تھيں اسے انسان سازى كا ايك بہت بڑا كارخانہ اور فوجى تمرين اور فداكارى كى ايك اہم يونيورسٹى شمار كرتى تھيں اور جانتى تھيں كہ اس درسگاہ كے تربيت شدہ كو جو درس ديا جائے گا وہ نہيں معاشرہ كے بہت بڑے ميدان ميں ظاہر كرنا ہوگا، جو يہاں ٹريننگ ليں گے اس پر انہيں مستقبل ميں عمل كرنا ہوگا، جناب زہرا (ع) عورت ہونے ميں احساس كمترى ميں مبتلا نہ تھيں اور عورت كے مقام اور مرتبے كو اہم اور اعلى جانتى تھيں اور اس قسم كى بھاري
89
استعداد اپنے ميں ديكھ رہى تھيں كہ كارخانہ خلقت نے ان پر اس قسم كى بھارى اور مہم ذمہ دارى ڈال دى ہے اور اس قسم كى اہم مسئوليت اس كے سپرد كردى ہے_
|