فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
 

62
حضرت زہرا عليہا السلام كا جہيز
پيغمبر اسلام(ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا ابھى اٹھو ارو اس زرہ كو جو تم نے حضرت زہرا (ع) كے لئے مہر قرار دى ہے، بازار ميں جا كر فروخت كردو اور اس كى قيمت ميرے پاس لے آؤ تا كہ ميں تمہارے لئے جہيز اور گھر كے اسباب مہيا كروں_
چنانچہ حضرت على عليہ السلام نے زرہ كو بازار ميں لے جا كر فروخت كرديا، مختلف روايات ميں اس كى قيمت چار سو سے لے كر پانچ سو درہم تك بتائي گئي ہے_ واضح رہے كہ بعض روايات كى بنا پر جناب عثمان نے آپ كى زرہ خريدى اور بعد ميں حضرت على (ع) كو ہديہ كردي_(1)
حضرت على عليہ السلام زرہ كى قيمت لے كر پيغمبر خدا(ص) كى خدمت ميں پيش كي، رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جناب ابوبكر، سلمان فارسى اور بلال كو بلوايا اور كچھ درہم انہيں دے كر فرمايا كہ اس مقدار سے جناب فاطمہ (ع) كے لوازمات اور اسباب زندگى خريد كر لاؤ اور اس سے كچھ درہم اسماء كو ديئے اور فرمايا كہ اس سے عطر اور خوشبو مہيا كرو او رجو درہم باقى بچے وہ جناب ام سلمہ كے پاس ركھ ديئے گئے_
ابوبكر كہتے ہيں كہ جب ميں نے درہم كو گنا تو سترسٹھ درہم تھے اور اس سے ميں نے يہ اسباب اور لوازمات خريدے_
1_ ايك سفيد قميص_
2_ ايك بڑى چادر سر ڈھانپنے كے لئے (يعنى برقعہ)_
--------
1) بحار الانوار_ ج 43_ ص 130_
63
3_ ايك سياہ خيبرى حلہ_
4_ ايك چار پائي جو كھجور كے ليف سے نبى ہوئي تھي_
5_ دو عدد توشك ، گدے كہ ايك ميں گوسفند كى پشم بھرى گئي اور دوسرى ميں كجھور كے پتے بھرے گئے_
6_ چار عدد تكيہ جو گوسفند كے چمڑے سے بنائے گئے تھے كہ جن كو اذخر نامى خوشبودار گھاس سے بھرا گيا تھا_
7_ ايك عدد چٹائي ہجرى نامي_
8_ ايك عدد دستى چكي_
9_ ايك تانبہ كا پيالہ_
10_ پانى بھر نے كے لئے ايك عدد چمڑے كى مشك_
11_ كپڑا دھونے كے لئے ايك عدد تھال_
12_ دودھ كے لئے ايك عدد پيالہ_
13_ پانى پينے كا ايك عدد برتن _
14_ ايك پشمى پردہ_
15_ ايك عدد لوٹا_
16_ ايك عدد كٹى ا برتن جسے صراحى (سبو) كہا جاتا ہے_
17_ فرش كرتے كے لئے ايك عدد چمڑا_
18_ ايك عدد كوزے_
19_ ايك عدد عبا_(1)
جب جناب زہرا (ع) كا جہيز جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے سامنے لے
--------
1) مناقب شہر ابن آشوب _ ج 2 ص 353 و كشف الغمہ_ ج 1 ص 359_
64
آئے تو آپ كى آنكھوں سے آنسو جارى ہوگئے اور اپنے سر كو آسمان كى طرف بلند كر كے فرمايا اے خدا اس شادى كو مبارك كر كہ جس كے اكثر برتن مٹى كے ہيں_

مسلمانوں كے لئے درس
جناب زہرا عليہا السلام اور حضرت على عليہ السلام كى شادى اسلامى نمونہ كا سب سے اہم اور احساس ترين شادى ہوسكتى ہے كيونكہ جناب زہر ا عليہا السلام كے والد جزيزة العرب كى بہت بڑى شخصيت بلكہ جہان اسلام كى اہم شخصيت اور برگزيدہ پيغمبر تھے_لڑكى كى بھى بہترين او رعاقل ترين اور تربيت شدہ اور باكمال تھى اور نبائے بشريت كى چار عورتوں ميں سے ايك ہيں اور داماد بھى حسب و نسب كے لحاظ سے عرب كے معزز خاندان سے تھے، علم اور كمال اور شجاعت كے لحاظ سے تمام مردوں پر برترى ركھتے ہيں آپ رسول خدا(ص) كے جانشين اور وزير اور مشير ہيں اور لشكر اسلام كے سپہ سالار ہيں، اس قسم كى شادى كو خاص اہتمام اور شان و شوكت كے ساتھ منعقد ہونا چاہيئے تھا ليكن جيسا آپ ملاحظہ كرچكے ہيں يہ تقريب بہت سادى سے انجام پذير ہوئي اسلام كى مثالى خاتون كا جہيز جو مہيا كيا گيا وہ آپ ملاحظہ كرچكے ہيں اس سے زيادہ تعجب خيز بات يہ ہے كہ يہى مختصر جہيز بھى خود حضرت زہرا عليہا السلام كے حق مہر سے خريدا گيا يوں نہيں كيا گيا كہ حق مہر كو محفوظ كرليا گيا ہو اور لڑكى كے باپ نے ہزاروں مصائب اور دوسرے اپنى لڑكى كے لئے جہيز اپنى جيب سے مہيا كيا ہو_
پيغمبر خدا(ص) جيسے بھى ہوتا اگر چہ فرض ہى لے كر كيوں نہ ہوتا يوں كرسكتے تھے كہ بہت آبرومندانہ جہيز اس زمانے كے معمول كے مطابق اپنى اكلوتى عزيزترين بيٹى كے لئے مہيا كرتے اور يوں كہتے كہ ميں خدا كا پيغمبر ہوں مجھے اپنى شان كا خيال ركھنا ضرورى ہے ميرى بيٹى دنيا كہ بہترين عورتوں ميں سے ايك عورت ہے اس كى عظمت اور عزت كا احترام

65
كيا جانا چاہيئے اور اس كى خوشحالى كے اسباب فراہم كرنے چاہئيں ميرے داماد كے خدمات او رجہاد كسى پر مخفى نہيں اس كا احترام اور اس كے زحمات كى قد ردانى اس كى آبرو كے لحاظ سے بہترين وسائل اور اسباب مہيا كر كے مجھے كرنى چاہيئے_
ليكن پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كو جہيز ميں مقابلہ اور زيادتى كے ضرر اور مفاسد كا معاشرہ ميں علم تھا اور آپ كو علم تھا كہ اگر مسلمان اس مصيبت ميں گرفتار ہوگئے تو انہيں عمومى فقر اور اقتصادى ديو اليہ اور كثرت طلاق اور جوانوں كا شادى كرنے كا رجحان كم ہوجائے گا اور روز بروز بے زن جوانوں اور بے شوہر لڑكيوں كى زيادتى اور جرائم اور جنايات كى كثرت مختلف قسم كے فحشا اور اعصابى بيماريوں كا وجود ميں آنا جيسے مصائب ميں گرفتار ہونا پڑے گا اسى لئے اس مثالى شادى كہ جس كے منتظمين اسلام كى پہلى اور دوسرى شخصيت تھيں كمال سادگى سے عمل ميں لائي گئي، تا كہ يہ ملت اسلاميہ اور مسلمانوں كے زمام داروں كے لئے عمل درس واقع ہو_
حضرت على عليہ السلام بھى ان كوتاہ فكر جوانوں ميں سے نہ تھے كہ جو مال اور دولٹ كے اكٹھے كرنے كے لئے شادى كرتے ہيں كہ اگر جہيز ميں كچھ كمى ہو تو ہر روز اپنى بيوى كے لئے درد سر بنے رہتے ہيں اور اسے بے جا ڈانٹ ڈپٹ اور اعتراضات سے ازدواجى زندگى كو متزلزل كرديتے ہيں اور زندگى باصفا اور گرم كو بے محل طفلانہ بہانوں سے انس ا ور محبت كے گھر كو اختيار قيد خانے ميں تبديل كرديتے ہيں حضرت على عليہ السلام ملت اسلامى كے امام و پيشوا تھے اور چاہتے تھے كہ اس قسم كے غلط افكار سے مبارزہ كيا جائے مال اور دولت آپ كى نگاہ ميں كچھ قيمت نہ ركھتے تھے_

66
حضرت على (ع) كے گھر كا اثاثہ
حضرت على عليہ السلام نے مندرجہ ذيل اسباب حجلہ عروسى كے لئے مہيا كر ركھے تھے_
1_ ايك لكڑى كى جس پر كپڑے اور پانى كى مشك ٹانگى جاسكے_
2_ گوسفند كى كھال_
3_ ايك عدد تكيہ_
4_ ايك عدد مشك_
5_ ايك عدد آٹے كى چھلني_ (1)

عروسى كے متعلق گفتگو
حضرت على عليہ السلام فرماتے ہيں كہ ايك مہينہ تقريباً گزر گيا اور ميں حيا كرتا تھا كہ پيغمبر (ص) سے جناب فاطمہ (ع) كے بارے ميں تذكرہ كروں ليكن جب بھى تنہائي ہوتى تو جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ، يا على كتنى نيك اور زيبا تم كو رفيقہ حيات نصيب ہوئي ہے، جو دنيا كى عورتوں سے افضل ہے ايك دن ميرے بھائي عقيل ميرے پاس آئے اور كہا:
بھائي جان ہم آپ كى شادى سے بہت خوش حال ہيں، كيوں رسول خدا(ص) سے خواہش كرتے كہ فاطمہ (ع) كو آپ كے گھر روانہ كريں؟ تا كہ آپ كى شادى كى خوشى سے ہمارى آنكھيں ٹھنڈى ہوں، ميں نے جواب ديا ميں بہت چاہتا ہوں كہ رخصتى كرلاؤں ليكن پيغمبر اسلام(ص)
--------
1) بحار الانوار_ ج 43_ ص 114_
67
سے شر م كرتا ہوں عقيل نے كہا تمہيں خدا كى قسم ابھى ميرے ساتھ آؤ تا كہ پيغمبر اسلام(ص) كى خدمت ميںچليں
_
حضرت على (ع) جناب عقيل كے ساتھ رسول خدا(ص) كے گھر كى طرف روانہ ہوئے استے ميں جناب ام ايمن سے ملاقات ہوگئي ان سے واقعہ كو بيان كيا تو جناب ام ايمن نے كہا كہ آپ مجھے اجازت ديجئے ميں رسول خدا(ص) سے اس بارے ميں گفتگو كروں گي، كيونكہ اس قسم كے معاملے ميں عورتوں كى گفتگو زيادہ موثر ہوا كرتى ہے، جب ام ايمن اور دوسرى عورتيں اصل معاملہ سے مطلع ہوئيں تو تمام كى تمام پيغمبر (ص) كى خدمت ميں مشرف ہوئيں اور عرض كى يا رسول اللہ(ص) ہمارے ماں باپ آپ پر قربان جائيں_ ہم ايك ايسے موضوع كے لئے آپ كى خدمت ميں حاضر ہوئي ہيں كہ اگر جناب خديجہ زندہ ہوتيں تو بہت زيادہ خوشحال ہوتيں_ جناب پيغمبر خدا(ص) نے جب خديجہ كا نام سنا تو آپ كے آنسو نكل آئے اور فرمايا كہ خديجہ كہاں اور خديجہ جيسا كون، جب لوگ مجھے جھٹلانے تھے تو خديجہ ميرى تصديق كرتى تھيں_ دين خدا كى ترويج كى خاطر اپنا تمام مال ميرے اختيار دے ركھا تھا_ خديجہ وہ عورت تھى كہ جن كے متعلق اللہ تعالى نے مجھ پر وحى نازل كى كہ خديجہ كو بشارت دوں كہ خدا اس كو بہشت ميں زمرد كا بنا ہوا گھر عطا فرمائے گا_
ام سلمہ نے عرض كى كہ ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ جتنا بھى خديجہ كے متعلق فرمائيں وہ درست ہے خدا ہم كو ان كے ساتھ محشور فرمائے، يا رسول اللہ(ص) آپ كے بھائي اور چچازاد بھائي چاہتے ہيں كہ اپنى بيوى اپنے گھر نے جائيں_ آپ(ص) نے فرمايا وہ خود اس بارے ميں مجھ سے كيوں بات نہيں كرتے؟ عرض كہ وہ حيا كرتے ہيں، جناب پيغمبر خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے ام ايمن سے فرمايا كہ ابھى على (ع) كو ميرے پاس حاضر كرو_

68
جب حضرت على (ع) آپ كى خدمت ميں مشرف ہوئے تو فرمايا اے على چاہتے ہو كہ اپنى بيوى اپنے گھر لے جاؤ؟ آپ نے عرض كيا ہاں يا رسول اللہ(ص) آپ نے فرمايا كہ خدا مباركے كرے، آج رات يا كل رات رخصتى كے اسباب فراہم كردوں گا_
اس كے بعد آپ نے عورتوں سے فرمايا كہ فاطمہ (ع) كو زينت كرو اور خوشبوں لگاؤ اور ايك كمرہ ميں فرش بچھا دو تا كہ اس كى رخصتى كے آداب بجالاؤں _(1)

رخصتى كا جشن
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حضرت على (ع) سے فرمايا كہ عروسى ميں وليمہ ديا جائے اور ميں دوست ركھتا ہوں كہ ميرى امت شاديوں ميں وليمہ ديا كرے_ سعد اس مجلس ميں موجود تھے، انہوں نے عرض كى كہ ايك گوسفند ميں آپ كو اس جشن كے لئے ديتا ہوں، دوسرے اصحاب نے بھى حسب استطاعت اس ميں مدد كى جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے بلال سے فرمايا ايك گوسفند لے آو اور حضرت على (ع) سے فرمايا كہ اس حيوان كو ذبح كرو، آپ نے دس درہم بھى انہيں ديئے اور فرمايا اس سے كچھ گھي، خرما، كشك لے آو اور روٹى بھى مہيا كرو اس كے بعد حضرت على عليہ السلام سے فرمايا كہ جسے چاہتے ہو كھانا كھانے كى دعوت دے دو_ حضرت على عليہ السلام نے اصحاب كے ايك بہت بڑے گروہ كو دعوت دي_ گوشت پكايا گيا اور گھى اور خرما اور كشك كے ذريعے غذا حاضر كى گئي_
چونكہ مہمانوں كى تعداد زيادہ تھى اور پذيرائي كے اسباب تھوڑے تھے تو جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حكم ديا كہ مہمان دس، دس ہو كر اندر آئيں اور كھانا
--------
1) بحار الانوار_ ج 43_ ص 130 و 132_
69
كھائيں_ اس جشن ميں جناب عباس اور حضرت حمزہ اور حضرت على (ع) اور جناب عقيل مہمانوں كى پذيرائي كر رہے تھے، دسترخوان بچھايا گيا اور اصحاب دس، دس ہو كر اندر آتے اور رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اپنے دست مبارك سے غذا نكالتے اور مہمانوں كے سامنے ركھتے، جب سير ہو جاتے تو باہر چلے جاتے اور دوسرے دس آدمى اندر آجاتے اس طرح سے بہت زيادہ لوگوں نے كھانا كھايا اور جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے دست مبارك كى بركت سے تمام لوگ سيرہوگئے اس كے بعد آپ نے حكم ديا كہ جو غذا بچ رہى ہے وہ فقرا اور مساكين كے گھروں كو ''جو وليمہ ميں حاضر نہ ہوسكتے تھے'' پہنچائي جائے اور حكم ديا كہ ايك برتن ميں حضرت زہرا(ع) اور حضرت على عليہ السلام كے لئے غذا ركھى جائے _(1)

حجلہ كى طر ف
پيغمبر خدا(ص) كى عورتوں نے جناب فاطمہ (ع) كو آراستہ كيا آپ كو عطر اور خوشبو لگائي، پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے حضرت على (ع) كو بلايا اور اپنے دائيں جانب بٹھايا اور جناب فاطمہ (ع) كو اپنے بائيں جانب بٹھايا، اس كے بعد دونوں كو اپنے سينے سے لگايا اور دونوں كى پيشانى كو بوسہ ديا دلہن كا ہاتھ پكڑا اور داماد كے ہاتھ ميں ديا اور حضرت على عليہ السلام سے فرمايا كہ فاطمہ (ع) اچھى رفيقہ حيات ہے اور جناب فاطمہ (ع) سے فرمايا كہ على (ع) بہترين شوہر ہيں_
اس كے بعد عورتوں كو حكم ديا كہ دولھا، دلھن كو خوشى اور جوش و خروش سے حجلہ كى طر ف لے جائيں ليكن اس قسم كا كوئي كلام نہ كريں كہ جس سے اللہ ناراض ہوتا ہو
--------
1) بحارالانوار_ ج 43 ص 132 و 137 و 114و 106_
70
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى عورتوں نے جوش و خروش سے اللہ اكبر كہتے ہوئے فاطمہ (ع) اور على (ع) كو حجلہ تك پہنچايا رسول خدا(ص) بھى اس كے پيچھے آپہنچے اور حجلہ ميں وارد ہوگئے اور حكم ديا كہ پانى كا برتن حاضر كيا جائے تھوڑا سا پانى لے كر آپ نے جناب فاطمہ (ع) كے جسم پر چھڑ كا اور حكم ديا كہ باقى پانى سے وضو كريں اور منھ دھوئيں اس كے بعد ايك اور پانى كا برتن منگوايا اور اسے كچھ پانى حضرت على عليہ السلام كے جسم پر چھڑكا اورحكم ديا كہ باقى پانى سے وضو كريں اور منھ دھوئيں اس كے بعد آپ نے دلھن اور داماد كا بوسہ ليا اور آسمان كى طرف ہاتھ اٹھا كر كہا_ اے خدا_ اس شادى كو مبارك فرما اور ان سے پاك و پاكيزہ نسل وجود ميں آئے_
جب آپ نے چاہا كہ حجلہ سے باہر جائيں تو جناب فاطمہ (ع) نے آپ كا دامن پكڑليا اور رونا شروع كرديا، آپ نے فرمايا ميرى پيارى بيٹي، ميں نے بردبار تريں اور دانشمندترين انسان سے تيرى شادى كى ہے_
اس كے بعد آپ اٹھ كھڑے ہوئے اور حجلہ كے درواز پر آكر دروازے كے عتبے كو پكڑ كر فرمايا كہ خدا تمہيں اور تمہارى نسل كو پاك و پاكيزہ قرار دے، ميں تمہارے دوستوں كا دوست ہوں اور تمہارے دشمنوں كا دشمن، اب رخصت ہوتا ہوں اور تمہيں خداوند عالم كے سپرد كرتا ہوں_ حجلے كے دروازے كو بند كيا اور عورتوں سے فرمايا كہ سب اپنے گھروں كو چلى جائيں اور يہاں كوئي بھى نہ رہے_ تمام عورتيں چلى گئيں_
جب پيغمبر اسلام(ص) نے باہر جانا چاہا تو ديكھا كہ ايك عورت وہاں باقى ہے پوچھا تم كون ہو مگر ميں نے نہيں كہا كہ سب چلى جاؤ_
اس نے عرض كى ميں اسماء ہوں، آپ نے توفرمايا كہ سب چلى جاؤ ليكن ميں جانے سے معذور ہوں كيونكہ جب جناب خديجہ اس جہان سے كوچ فرما رہى تھيں تو ميں نے ديكھا

71
كہ وہ رور رہى ہيں، ميں نے عرض كيا آپ بھى روتى ہيں؟ حالانكہ تم دنيا كہ عورتوں سے بہترين عورت ہو، اور رسول خدا(ص) كى بيوى ہو، اللہ تعالى نے تجھے بہشت كا وعدہ ديا ہے_ آپ نے كہا ميں اس لئے رو رہى ہوں كہ جانتا ہوں لڑكى كى خواہش ہوتى ہے كہ شب زفاف اس كے پاس كوئي ايسى عورت ہو جو اس كى محرم راز ہو اور اس كى ضروريات كو پورا كرے، ميں دنيا سے جارہى ہوں ليكن مجھے ڈر ہے كہ فاطمہ (ع) شب زفاف كوئي محرم نہ ركھتى ہوگى اور اس كا كوئي مدد گار نہ ہوگا اس وقت ميںنے خديجہ سے عرض كيا گہ اگر كيا كہ اگر ميں فاطمہ (ع) كے شب زفاف تك زندہ رہى تو تم سے وعدہ كرتى ہوں كہ ميں اس كے پاس رہوں گى اور اس سے مادرى سلوك آپ كے آنسو جارى ہوگئے اور فرمايا تجھے خدا كى قسم تم اسى غرض سے يہاں رہ گئي ہو؟ عرض كيا ہاں_ پيغمبر(ص) نے فرمايا تم اپنے ودعدہ پر عمل كرو_(1)
--------
1) بعض روايات كى بنا پر جب چو تھے دن پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم جناب فاطمہ (ع) كے گھر گئے تو آپ(ص) (ص) نے اسماء سے ملاقات كي، بہرحال يہ داستان اسماء بہت سے تاريخ نويسوں نے لكھى ہے اور اس ميں نسبت بھى اسماء بنت عميس كى طرف اس واقعہ كى دى ہے، ليكن اگر يہ واقعہ صحيح ہو تو وہ عورت اسماء بنت عميس نہيں ہوسكتيں كيونكہ اس وقت اسماء جناب جعفر طيار كى زوجہ تھيں اور آپ كے ساتھ حبشہ ميں موجود تھيں جناب فاطمہ (ع) كى شادى كے وقت مدينہ ميں موجود نہ تھيں مدينہ ميں آپ خيبر كے فتح ہونے كے بعد آئيں، لہذا وہ عورت جو جناب فاطمہ (ع) كے پاس شب زفاف ميں رہيں وہ يا اسماء بنت يزيد بن سكن انصارى يا سلمى جو اسماء بنت عميس كى بہن تھيں ہوگي_ بہرحال صاحب كشف الغمہ لكھتے ہيں اس عورت كے نام ميں مورخين كو اشتباہ ہوا ہے_
72
فاطمہ كا ديدار
پيغمبر صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم زفاف كى رات كى صبح كو دودھ برتن ميں لئے ہوئے جناب فاطمہ (ع) كے حجلہ ميں گئے اور وہ برتن جناب فاطمہ (ع) كے ہاتھ ميں ديا اور فرمايا تمہارا باپ تم پر قربان ہو اس كو پيئو، اس كے بعد حضرت على (ع) سے فرمايا تمہارے چچا كہ بيٹا تم پر قربان ہو تم بھى پيئو_ (1)
حضرت على عليہ السلام سے پوچھا بيوى كيس تھي؟ عرض كيا اللہ كى بندگى ميں بہترين مددگار_ جناب فاطمہ (ع) سے پوچھا كہ شوہر كيسے تھے؟ عرض كيا بہترين شوہر_ (2)
پيغمبر(ص) اس كے بعد چار دن تك جناب فاطمہ (ع) كے گھر تشريف نہيں لے گئے اور جب چو تھے دن جناب فاطمہ (ع) كے حجلہ ميں تشريف لے گئے تو آپ سے خلوت ميں پوچھا، تيرا شوہر كيسا ہے؟ عرض كى ا بّا جان مردوں ميں سے بہترين شوہر اللہ نے مجھے عطا كيا، ليكن قريش كى عورتيں ميرے ديدار كے لئے آئيں تو بجائے مبارك باد دينے كے ميرے دل پر غم كى گرہ چھوڑ گئيں اور كہنے لگيں تمہارے باپ نے تمہارا نكاح ايك فقير و تہى دست انسان سے كيا ہے، حالانكہ مال دار اور ثروت مندمرد تمہارے خواستگار تھے_ جناب رسول خدا(ص) نے اپنى بيٹى كى تسلى دى اور فرمايا اے نور چشم تمہارے باپ اور شوہر فقير نہيں ہيں خدا كى قسم زمين كے خزانے كى چاہياں ميرے سامنے پيش كى گئيں ليكن ميں نے اخروى نعمات كو دنيا كے مال اور ثروت پر ترجيح دي، عزيزم ميں نے تيرے لئے ايك ايسا شوہر منتخب كيا ہے جس نے
--------
1) كشف الغمہ_ ج 7 ص 99_
2) بحارالانوار_ ج 43 ص 117_

73
تمام لوگوں سے پہلے اسلام كا اظہار كيا اور جو علم و حلم اور عقل كے لحاظ سے تمام لوگوں پر برترى ركھتا ہے_ خداوند عالم نے تمام لوگوں سے مجھے اور تيرے شوہر كو چنا ہے_ بہت بہترين شوہر والى ہو اس كى قدر كو سمجھو اور اس كے حكم كى مخالفت نہ كرو_ اس كے بعد حضرت على عليہ السلام كو بلايا اور فرمايا كہ اپنى بيوى كے ساتھ نرمى اور مہربانى سے پيش آنا، تمہيں معلوم ہونا چاہيئےہ فاطمہ (ع) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے جو شخص اسے اذيت دے گا وہ مجھے اذيت دے گا اور جو اسے خوشنود كرلے گا، وہ مجھے خوشنود كرے گا، ميں تم سے رخصت ہوتا ہوں اور ميں تمہيں خدا كے سپرد كرتا ہوں_(1)
علامہ مجلسى عليہ الرحمة نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ (ع) كا عقد ماہ مبارك ميں ہوا، پہلى يا چھ ذى الحجہ كو آپ كى رخصتى ہوئي _(2)
حضرت على عليہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا نے تھوڑى مدت اپنے گھر ميں جو جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا زندگى بسر كي، ليكن يہ فاصلہ جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم پر دشوار تھا ايك دن آپ جناب فاطمہ (ع) كے گھر تشريف لے گئے اور فرمايا كہ ميرا ارادہ ہے كہ تمہيں اپنے
--------
1) جو مطالب حضرت على عليہ السلام اور جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كى شادى ميں ذكر ہوئے ہيں انہيں ان كتابوں ميں ديكھا جاسكتا ہے_ كشف الغمہ ج 1_ مناقب شہر ابن آشوب ج3_ تذكرة الخواص_ ذخائر العقبى _ دلائل الامامة_ سيرة ابن ہشام_ مناقب خوارزمى ينابيع المودة_ بحارالانوار، ج 43_ ناسخ التواريخ جلد حضرت فاطمہ زہرا(ع) _ اعلام الورى مجمع الزوائر، ج 9_
2) بحارالانوار، ج 43 ص 136_

74
نزديك بلالوں، آپ نے عرض كى حادثہ بن نعمان سے بات كيجئے كہ وہ اپنا مكان ہميں دے دے، آپ نے فرمايا حادثہ بن نعمان اپنى منازل ہماے لئے خالى كر كے خود بہت دور چلاگيا ہے، اب مجھے اس سے شرم آتى ہے_ جناب حارث كو جب اس كى خبر ہوئي تو وہ جناب رسول خدا كى خدمت ميں مشرف ہوا اور عرض كى يا رسو ل اللہ(ص) ميں اور ميرا مال آپ كے اختيار ميں ہے ميں چاہتا ہوں كہ آپ فاطمہ (ع) كو ميرے گھر منتقل كرديں_ جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كو حارثہ كے مكان ميں منتقل كرديا_(1)
--------
1) طبقات ابن سعد، ج 8 بخش 1 ص 14_