فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
 

49
حصّہ دوم

جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كى شادي

50
جناب فاطمہ (ع) پيغمبر خدا(ص) كى لڑكى اور اپنے زمانے كى ممتاز خواتين سے تھيں قريش كے اصل اور شريف خاندان سے آپ كے والدين تھے_ جمال ظاہرى اور روحانى كمالات اور اخلاق آپ نے اپنے ماں باپ سے ورثہ ميں پايا تھا، آپ انسانى كمالات كے اعلى ترين كمالات سے مزين تھيں آپ كے والد كى شخصيت دن بدن لوگوں كى نگاہوں ميں بلند ہو رہى تھى آپ كى قدرت اور عظمت بڑھ رہى تھى اس لئے آپ كى دختر نيك اختر كى ذات بزرگان قريش اور باعظمت شخصيات اور ثروت مند حضرات كى نگاہوں ميں مورد توجہ قرار پاچكى تھي_ تاريخ ميں ہے كہ اكثر اوقات بزرگان آپ كى خواستگارى كرتے رہتے تھے ليكن پيغمبر اسلام(ص) بالكل پسند نہيں فرماتے تھے، آنحضرت ان لوگوں سے اس طرح پيش آتے تھے كہ انہيں معلوم ہوجاتا تھا كہ پيغمبر اسلام نے ناراض ہيں_(1)
جناب رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) كو على (ع) كے لئے مخصوص كرديا تھا اور آپ چاہتے تھے كہ حضرت على (ع) كى طرف سے اس كى پيشكش كى جائے_(2)
---------
1) كشف الغمہ_ ج 1_ ص 253_
2) كشف الغمہ_ ج1_ ص 354_

51
پيغمبر اسلام(ص) خداوند عالم كى طرف سے مامور تھے كہ نور كا عقد نور سے كريں _(1)
لكھا ہے كہ جناب ابوبكر بھى خواستگاروں ميں سے ايك تھے، ايك دن وہ اسى غرض سے جناب رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض كى يا رسول اللہ ميں چاہتا ہوں كہ آپ سے وصلت كروں، كيا ممكن ہے كہ فاطمہ (ع) كا عقد آپ مجھ سے كرديں؟ جناب رسول خدا(ص) نے فرمايا كہ فاطمہ (ع) ابھى كمسن ہے اور اس كے لئے شوہر كى تعيين خدا كے ہاتھ ميں ہے ميں اللہ كے حكم كا منتظر ہوں_ جناب ابوبكر مايوس ہوكر واپس لوٹے راستے ميں ان كى ملاقات جناب عمر سے ہوگئي تو اپنے واقعہ كو ان سے بيان كيا جناب عمر نے ان سے كہا كہ پيغمبر اسلام(ص) نے تمہارے مطالبے كو رد كرديا ہے_ اور آپ (ص) نہيں چاہتے تھے كہ اپنى دختر تجھے ديں_
جناب عمر بھى ايك دن جناب فاطمہ (ع) كى خواستگارى كى غرض سے پيغمبر اسلام(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے اور اپنا مدعيان بيان كيا_ پيغمبر خدا(ص) نے انھيں بھى يہى جواب ديا كہ فاطمہ (ع) كمسن ہے اور اس كے شوہر كا معين كرنا اللہ كے ہاتھ ميں ہے، كئي دفعہ ان دونوں صاحبان نے خواستگارى كى درخواست كى جو قبول نہيں كى گئي_
عبدالرحمن بن عوف او رجناب عثمان بن عفان جو دونوں بہت بڑے سرمايہ دار تھے پيغمبر اسلام(ص) كے پاس خواستگارى كے لئے حاضر ہوئے، عبدالرحمن نے عرض كى يا رسول اللہ(ص) اگر فاطمہ (ع) كى شادى مجھ سے كرديں تو ميں سو سياہ اونٹ آبى چشم كہ جن پر مصرى كتان كے كپڑوں سے بارلادا گيا ہو اور دس ہزار دينار بھى حق مہر دينے كے لئے حاضر ہوں جناب عثمان نے عرض كيا كہ ميں بھى حاضر ہوں كہ اتنا ہى مہر ادا كروں اور مجھے عبدالرحمن پر ايك فضيلت يہ بھى حاصل ہے كہ ميں اس سے پہلے ايمان لايا ہوں_
پيغمبر اسلام(ص) ان كى گفتگو سے سخت غضبناك ہوئے اور انہيں يہ سمجھانے كے لئے
---------
1) دلائل الامامہ_ ص 19_

52
كہ ميںمال سے محبت نہيں ركھتا آپ نے ايك مٹھى سنگريزوں كى بھرلى اور عبدالرحمن كى طرف پھينكتے ہوئے فرمايا كہ تم خيال كرتے ہو كہ ميں مال كا پرستار ہوں اور اپنى ثروت و دولت سے مجھ پر فخر و مباہات كرنا چاہتے ہو كو مال و دولت كے دباؤ سے ميں فاطمہ (ع) كا عقد تجھ سے كردوں گا_ (1)

حضرت على (ع) كى پيشكش
اصحاب پيغمبر(ص) نے اجمالاً محسوس كرليا تھا كہ پيغمبر خدا(ص) كا دل چاہتا ہے كہ فاطمہ (ع) كا عقد على (ع) سے كرديں ليكن حضرت على (ع) كى طرف سے اس كى پيشكش نہيں ہو رہى تھى ايك دن جناب عمر اور ابوبكر اور سعدبن معاذ و ايك گروہ كے ساتھ مسجد ميں بيٹھے ہوئے تھے اور مختلف موضوعات پر بحث كر رہے تھے اسى دوران جناب فاطمہ (ع) كا ذكر بھى آگيا، ابوبكر نے كہا كہ كافى عرصہ سے عرب كے اعيان اور اشراف فاطمہ (ع) كى خواستگارى كر رہے ہيں ليكن پيغمبر (ص) نے كسى بھى درخواست كو قبول نہيں فرمايا اور ان كے جواب ميں يہى فرماتے تھے كہ فاطمہ سلام اللہ عليہا كا شوہر معين كرنا خداوند عالم كے ہاتھ ميں ہے_
ابھى تك على ابن ابى طالب عليہ السلام كى طرف سے فاطمہ (ع) كى خواستگارى نہيں كى گئي ميں گمان كرتا ہوں كہ على عليہ السلام كى طرف سے اس اقدام نے كرنے كى وجہ ان كى تہى دست ہونا ہے ميرے سامنے يہ مطلب واضح ہے كہ خدا اور پيغمبر(ص) نے فاطمہ (ع) كو حضرت على (ع) كے لئے معين كر ركھا ہے_
اس كے بعد ابوبكر نے جناب عمر اور سعد سے كہا اگر تم آمادہ ہو تو ہم مل كر على (ع) كے پاس چليں اور ان كے سامنے اس موضوع كو پيش كريں اور اگر وہ شادى كرنے كي
---------
1) مناقب شہر ابن آشوب_ ج2_ ص 345_ تذكرة الخواص_ ص306_
53
طرف مائل ہوں اور تہى دست ہونے كى بنياد پر وہ شادى نہ كر رہے ہوں تو ہم ان كى مدد كريں سعد بن معاذ نے اس پيشكش كو بسر و چشم قبول كيا اور ابوبكر كو اس كام ميں تشويق دلائي_
سلمان فارسى كہتے ہيں كہ جناب عمر او رابوبكر اور سعد بن معاذ اسى غرض سے مسجد سے باہر آئے اور حضرات على عليہ السلام كى جستجو ميں چلے گئے ليكن آپ كو انہوں نے گھر پہ نہ پايا اور معلوم ہوا كہ آپ ايك انصارى كے باغ ميں اونٹ كے ذريعے ڈول كھينچ كر خرمے كے درختوں كو پانى دے رہے ہيں يہ لوگ اس طرف گئے_ حضرت على عليہ السلام نے فرمايا كہ كہاں سے آرہے ہيں اور ميرے پاس كس غرض سے آئے ہو؟ ابوبكر نے كہا اے على (ع) تم كمالات كے لحاظ سے ہر ايك سے بالاتر ہو ہم سب آپ كے مقا اور وہ علاقہ جو رسول خدا(ص) كو تم سے ہے اس سے آگاہ ہيں، بزرگان اور اشراف قريش حضرت فاطمہ (ع) كى خواستگارى كے لئے جاچكے ہيں، ليكن تمام لوگوں كى باتوں كو پيغمبر اكرم(ص) نے رد فرمايا ہے اور يہ فرمايا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) كا شوہر معين كرنا خداوند عالم كے ہاتھ ميں ہے ہم گمان كرتے ہيں كہ خدا اور اس كے رسول(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو آپ كے لئے مخصوص كيا ہے دوسرا اور كوئي بھى شخص اس سعادت پر افتخار كى صلاحيت نہيں ركھتا ہيں يہ خبر نہيں ہوسكى كہ آپ اس اقدام ميں كيوں كوتاہى كر رہے ہيں؟
حضرت على عليہ السلام نے جب ابوبكر كى يہ گفتگو سنى تو آپ كى آنكھوں ميں آنسو بھرآئے اور فرمايا اے ابوبكر تم نے ميرے احساسات اور اندرونى خواہشات كو ابھارا ہے اور اس كى طرف توجہ دلائي ہے كہ جس سے ميں غافل تھا_ خدا كى قسم تمام دنيا حضرت فاطمہ (ع) كى خواستگار ہے اور ميں بھى علاقہ مند ہوں جو چيز مجھے اس اقدام سے روكے ہوئے ہے وہ ہے فقط ميرا خالى ہاتھ ہونا_ ابوبكر نے كہا يا على (ع) آپ يہ بات نہ كريں كيونكہ پيغمبر خدا(ص) كى نگاہ ميں دنيا اور مال دنيا كى كوئي قيمت نہيں ہے ميرى رائے ہے كہ جتنى جلدي

54
ہوسكے آپ اس كام ميں اقدام كريں اور جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كى خواستگارى كى درخواست ديں_(1)

اندرونى جذبہ بيدار ہوتا ہے
حضرت على عليہ السلام پيغمبر اسلام(ص) كے گھر ہى پلے اور جوان ہوئے تھے، آپ(ص) جناب فاطمہ (ع) كو اچھى طرح پہچانتے تھے اور آپ كے اخلاق اور نفسيات سے پورى طرح آگاہ تھے، دونوں پيغمبر خدا(ص) اور جناب خديجہ كے تربيت يافتہ تھے اور ايك ہى گھر ميں جوان ہوئے تھے_(2)
حضرت على عليہ السلام جانتے تھے كہ حضرت فاطمہ (ع) جيسى عورت اور نہيں مل سكے گى آپ تمام كمالات اور فضائل سے آراستہ ہيں اور آپ انہيں تہہ دل سے چاہتے تھے اور يہ بھى جانتے تھے كہ ہميشہ مناسب وقت ہاتھ نہيں آيا كرتا ليكن اسلام كى بحرانى كيفيت اور مسلمانوں كى اقتصادى زبوں حالى نے على كو اس دلى خواہش سے روك ركھا تھا اور آپ ميں سوائے ازدواج كے تمام افكار موجود تھے_
حضرت على (ع) نے ابوبكر كى پيش كش پر تھوڑا سا غور كيا اور اس معاملے كے تمام اطر اف اور جوانب پر غور كيا ايك طرف آپ كا خالى ہاتھ ہونا اور اپنى اور تمام مسلمانوں كى اقتصادى زبوں حالى اور عمومى گرفتارى ديكھ رہے تھے اور دوسرى طرف يہ بھى جان چكے تھے كہ آپ كے ازدواج كا وقت آپہنچا ہے كيونكہ آپ كى عمر تقريباً اكيس سال يا اس سے زيادہ ہوچكى تھي_(2)
--------
1) بحارالانوار_ ج43_ ص 125_
2) مناقب شہر ابن آشوب_ ج2_ ص 180_
3) ذخائر عقبى _ ص 26_

55
انہيں اس عمر ميں ازدواج كرنا ہى چاہيئےور فاطمہ (ع) جيسا اور رشتہ بھى نہيں مل سكے گا اگر يہ سنہرا وقت ہاتھ سے نكل گيا تو پھر اس كا تدارك نہيں كيا جاسكے گا_

على (ع) خواستگارى كے لئے جاتے ہيں
جناب ابوبكر كى پيشكش نے حضرت على عليہ السلام كى روح كو اس طرح بيدار كرديا تھا كہ آپ كا اندرونى جذبہ محبت شعلہ ور ہو اور آپ سے پھر اس كام كو آخر تك پہنچانا ممكن نہ ہوسكا كہ جس ميں آپ مشغول تھے، آپ نے اونٹ كو اس كام سے عليحدہ كيا اور گھر واپس آگئے آپ نے غسل كيا اور ايك صاف ستھرى عبا پہنى اور جوتے پہن كر جناب رسول خدا(ص) كى خدمت ميں حاضر ہوئے_
پيغمبر اكرم(ص) اس وقت جناب ام سلمہ كے گھر تشريف فرما تھے_ حضرت على عليہ السلام جناب ام سلمہ كے گھر گئے اور دروازہ كھٹكھٹايا، پيغمبر اكرم(ص) نے جناب ام سلمہ سے فرمايا كہ دروازہ كھولو دروازہ كھٹكھٹا نے والا وہ شخص ہے كہ جس كو خدا اور رسول(ص) دوست ركھتے ہيں اور وہ خدا اور اس كے رسول (ص) كو دوست ركھتا ہے_ ام سلمہ نے عرض كيا كہ يا رسول اللہ ميرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں كہ يہ كون ہے كہ جسے آپ نے بغير ديكھے ہوئے اس قسم كا فيصلہ ان كے حق ميں كرديا ہے؟
آپ(ص) نے فرماى اے امّ سلمہ چپ رہو يہ ايك بہادر اور شجاع انسان ہے جو ميرا چچازاد بھائي ہے اور سب لوگوں سے زيادہ ميرے نزديك محبوب ہے جناب ام سلمہ اپنى جگہ سے اٹھيں اور گھر كا دروازہ كھول ديا، حضرت على (ع) گھر ميں داخل ہوئے اور سلام كيا اور پيغمبر خدا(ص) كے سامنے بيٹھ گئے اور شرم كى وجہ سے سر نيچے كئے ہوئے تھے اور اپنے ارادے كو ظاہر نہ كرسكے، تھوڑى دير تك دونوں چپ رہے اور آخر الامر پيغمبر اسلام(ص) نے

56
اس سكوت كو توڑا اور ___ فرمايا يا على گو يا كسى كام كے لئے ميرے پاس آئے ہو كہ جس كے اظہار كرنے سے شرم كر رہے ہو؟ بغير كسى ہچكچا ہٹ كے اپنى حاجت كو بيان كرو اور مطمئن ہو جاؤ كہ تمہارى خواہش قبول كى جائے گي_
حضرت على (ع) نے عرض كيا يا رسول اللہ(ص) ميرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ميں آپ كے گھر ميں جو ان ہوا ہوں اور آپ كے لطف و كرم سے ہى مستفيد رہا ہوں آپ نے ميرى تربيت ميں ماں اور باپ سے بھى زيادہ كوشش فرمائي ہے اور آپ كے وجود مبارك كى بركت سے ميں نے ہدايت پائي ہے يا رسول اللہ خدا كى قسم ميرى دنيا و آخرت كى پونجى آپ ہيں اب وہ وقت آپہنچا ہے كہ اپنے لئے كسى رفيقہ حيات كا انتخاب كروں اور خانوادگى زندگى كو تشكيل دوں تا كہ اس سے مانوس رہوں اور اپنى تكاليف كو اس كى وجہ سے كم كرسكوں، اگر آپ مصلحت ديكھيں تو اپنى دختر جناب فاطمہ (ع) كو ميرے عقد ميں دے ديں كہ جس سے مجھے ايك بہت بڑى سعادت نصيب ہوگي_
پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اس قسم كى پيشكش كے منتظر تھے آپ كا چہرہ انور خوشى اور سرور سے جگمگا اٹھا اور فرمايا كہ صبر كرو ميں فاطمہ (ع) سے اس كى اجازت لے لوں_ پيغمبر اسلام(ص) جناب فاطمہ(ص) كے پاس تشريف لے گئے او فرمايا تم كو بہتر جانتى ہو وہ خواستگاى كے لئے آپے ہيں آيا تم اجازت ديتى ہو كہ ميں تمہارا ان سے عقد كردوں؟ جناب فاطمہ (ع) شرم كى وجہ سے ساكت رہيں اور كچھ نو بوليں_ پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے آنجناب كے سكوت كو رضايت كى علامت قرار ديا _(1)
----------
1) بحار الانوار_ ج 43_ ص 127_ ذخائر العقبى _ ص 29_
57
موافقت
پيغمبر خدا(ص) اجازت لينے كے بعد حضرت على (ع) كے پاس آئے اور مسكرات ہوئے فرمايا يا على (ع) شادى كے لئے تمہارے پاس كچھ ہے؟ حضرت على (ع) نے جواب ديا يا رسول اللہ (ص) ميرے ماں باپ آپ پر قربان جائيں، آپ ميرى حالت سے پورى طرح آگاہ ہيں ميرى تمام دولت ايك تلوار اور ايك زرہ اور ايك اونٹ ہے آپ نے فرمايا كہ تم ايك جنگجو سپاہى اور جہاد كرنے والے ہو بغير تلوار كے خدا كى راہ ميں جہاد نہيں كرسكتے تلوار تمہارى پہلى كھينچ كر اپنى اور اپنے گھر كى اقتصادى اور مالى حالت سنوار سكو اور مسافرت ميں اس پر سامان لاد سكو صرف ايك چيز ہے كہ جس سے صرف نظر كرسكتے ہو اور وہ ہے تمہارى زرہ ميں بھى تم پر سختى نہيں كرتا اور اسى زرہ پر اكتفا كرتا ہوں، يا على اب جب كہ معاملہ يہاں تك آپہنچا ہے كيا چاہتے ہو تمہيں ايك بشارت دوں اور ايك راز سے آگاہ كروں؟
حضرت على عليہ السلام نے عرض كى جى ہاں يا رسول اللہ ميرے ماں باپ آپ بر قربان ہوں آپ ہميشہ خوش زبان اور نيك خواہ رہے ہيں_ آپ نے فرمايا كہ قبل اس كے كہ تم ميرے پاس آؤ جبرئيل نازل ہوئے اور كہا اے محمد(ص) اللہ تعالى نے تجھے بندوں سے منتخب كيا ہے اور رسالت كے لئے چنا ہے_ على (ع) كو منتخب كيا اور انہيں تمہارا بھائي اور وزير قرار ديا ہے تمہيں اپنى دختر كا ا ن سے نكاح كردينا چاہيئے ان كے ازدواج كى محفل عالم بالا ميں فرشتوں كے حضور ترتيب دى جاچكى ہے خداوند عالم دو پاكيزہ نجيب طيب و طاہر اور نيك فرزند انہيں عطا كرے گا_ اے على (ع) ابھى جبرئيل واپس نہيں گئے تھے كہ تم نے ميرے گھر كا دروازہ آن كھٹكھٹايا ہے_
--------
1) بحارالانوار_ ج43_ ص 127_
58
خطبہ عقد
پيغمبر خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا اے على (ع) تم جلدى سے مسجد ميں جاوں ميں بھى تمہارے پيچھے آرہا ہوں تا كہ تمام لوگوں كے سامنے عقد كى تقريب اور خطبہ عقد بجالاؤ، على (ع) خوش اور مسرورمسجد روانہ ہوگئے_ جناب ابوبكر او رعمر سے راستے ميں ملاقات ہوگئي تمام واقعہ سے ان كو آگاہ كيا اور كہا كہ رسول خدا(ص) نے اپنى دختر مجھ سے تزويج كردى ہے اور ابھى ميرے پيچھے آرہے ہيں تا كہ لوگوں كے سامنے عقد كے مراسم انجام ديں_
پيغمبر خدا(ص) جب كہ آپ كا چہرہ خوشى اور شادمانى سے چمك رہا تھا مسجد ميں تشريف لے گئے او رخدا كى حمد و ثناء كے بعدفرمايا: اے لوگو آگاہ رہو كہ جبرئيل مجھ پر نازل ہوئے ہيں اور خداوند عالم كى طرف سے پيغام لائے ہيں كہ حضرت على عليہ السلام اور جناب فاطمہ (ع) كے ازدواج كے مراسم عالم بالا ميں فرشتوں كے حضور منعقد كئے جاچكے ہيں اور حكم ديا ہے كہ زمين پر بھى يہ مراسم انجام ديئے جائيں ميں تم كو گواہ قرار ديتا ہوں، آپ اس كے بعد بيٹھ گئے اور حضرت على (ع) سے فرمايا اٹھو اور خطبہ پڑھو_
حضرت على عليہ السلام كھڑے ہوئے اور فرمايا كہ ميں خداوند عالم كا اس كى نعمتوں كا شكر ادا كرتا ہوں اور ايسى گواہى ديتا ہوں جو اس ذات كو پسند ہو كہ اس كے علاوہ كوئي خدا نہيں اور ايسا درود ہو جناب محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم پر جو آپ كے مقام اور درجہ كو بالاتر كردے_ لوگو ميرے اور فاطمہ (ع) كے ازدواج سے اللہ راضى ہے اور اس كا حكم ديا ہے لوگو رسول خدا(ص) نے فاطمہ (ع) كا عقد مجھ سے كرديا ہے اور ميرى زرہ كو بطور مہر قبول فرمايا ہے آپ ان سے پوچھ ليں اور گواہ ہوجائيں_

59
مسلمانوں نے پيغمبر اسلام(ص) كى خدمت ميں عرض كى يا رسول اللہ(ص) آپ نے فاطمہ (ع) كا عقد على عليہ السلام سے كرديا ہے؟ رسول خدا(ص) نے جواب ميں فرمايا ہاں_ تمام حاضرين نے دعا كے لئے ہاتھ اٹھائے اور كہا كہ خدا اس ازدواج كو تمہارے لئے مبارك قرار دے اور تم دونوں كے درميان محبت اور الفت پيدا كردے_
جلسہ عقد ختم ہوا تو پيغمبر (ص) گھر واپس لوٹ آئے اور عورتوں كو حكم ديا كہ فاطمہ (ع) كے لئے خوشى اور مسرت كا جشن برپا كريں (1) عقد كے مراسم پہلى يا چھٹى ذى الحجہ (2) دوسرى يا تيسرى ہجري(3) كو انجام پايا_

داماد كا انتخاب
اسلام مسلمانوں سے كہتا ہے كہ اگر كوئي جوان تمہارى لڑكى كى خواستگارى كے لئے آئے تو تم اس كى تمام چيزوں سے پہلے دينى اور اخلاقى حالت كا جائزہ لو با ايمان اور پاك دامن اور خوش اخلاق ہو تو اس سے رشتہ كردو_ اسلام كا عقيدہ يہ ہے كہ ازدواج كے لئے مال اور ثروت كو معيار نہيں بنانا چاہيئے_ اسلام كہتا ہے كہ مال و ثروت ہى انسان كو صرف خوش بخت نہيں بناتا، داماد كے فضائل اور كمالات نفسانى اور دينى جذبہ مال اور ثروت پر برترى ركھتا ہے، كيوں كہ باايمان اور خوش رفتار اگر چہ فقير اور تہى دست
----------
1) اس قسمت كے مطالب اور مضامين كو ان كتابوں ميں ديكھا جاسكتا ہے، كشف الغمہ_ ج1 ص 253 و 7 25_ مناقب ابن شہر آشوب ج 2_ ذخائر العقبى _ تذكرة الخواص_ دلائل الامامہ مناقب خوارزمى ص 247_ بحار الانوار_ ج 43 ص 92و 145_
2) مناقب شہر ابن آشوب ج 3 ص 349_
3) بحار الانوار_ ج 43 _ ص 6 و 7_

60
ہى كيوں نہ ہو وہ اس عياش اور ہوسباز اور لاابالى سرمايہ دار سے جو گھر كى آسائشے كے اسباب فراہم كرتا ہے كئي درجہ بہتر ہے_
پيغمبر اسلام(ص) نے فرمايا ہے جب كوئي تمہارى لڑكى كى خواستگارى كے لئے آتے تو اگر تمہيں اس كا اخلاق اور دين _ پسند ہو تو اس سے رشتہ كردو اور اس كو منفى جواب نہ دو اور اگر تمہارى شاديوں كا معيار اس كے خلاف ہو تو نہ تمہارے لئے بہت زيادہ مصائب كا موجب ہوگا_(1)
پيغمبر(ص) نے يہ مطلب صرف لوگوں كو بتلايا ہى نہيں بلكہ خود بھى اس پر عمل كيا_ آپ نے حضرت على (ع) كے فضائل اور كمالات اور اخلاق كو ديكھ كر انہيں عبدالرحمن اور عثمان جيسے سرمايہ داروں پر ترجيح دى اور ان(ع) كے فقير اور تہى دست ہونے كے نقض اور عيب شمار نہ كيا_

حضرت زہرا عليہا السلام كا مہر
1_ ايك زرہ كہ جس كى قيمت چارسو يا چارسو اسى يا پانچ سو درہم تھي_
2_ يمنى كتان كا ايك جوڑا_
3_ ايك گوسفند كى كھال رنگى ہوئي _(2)
-------
1) مناقب ابن شہر آشوب ج 3 ص 251_
2) وافى كتاب النكاح ص 15_

61
عملى سبق
اسلام زيادہ مہر كو ملت كے لئے مصلحت نہيں ديكھتا اور سفارش كرتا ہے كہ اگر داماد كے دين اور اخلاق كو تم نے پسند كرليا ہے تو پھر مہر ميں سختى سے كام نہ لو اور تھوڑے مہر پر قناعت كرلو_
پيغمبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں ميرى امت كى بہترين عورتيں وہ ہيں جو خوبصورت اور كم مہر والى ہوں_(1)
امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا ہے كہ عورت كى برائي اس ميں ہے كہ اس كا مہر بہت زيادہ ہو_(2)
اسلام كا عقيدہ يہ ہے كہ زيادہ مہر زندگى كو لوگوں پر سخت كرديتا ہے اور بہت زيادہ مشكلات كا ملت كے لئے موجب ہوتا ہے_ مہر ميں آسانى كر كے جواوں كو ازدواج زندگى كى طرف مائل كرنا چاہيئےا كہ ہزاروں اجتماعى مفاسد اور روحى امراض سے روكا جاسكے_ زيادہ مہر داماد كى زندگى كو ابتدا ہى ميں متزلزل كرديتا ہے اور مياں بيوى كى محبت پر بھى بر اثر ڈالتا ہے (مياں بيوى كى محبت ميں خلوص پيدا نہيں ہونے ديتا) جوانوں كو شادى كى طرف سے بے رغبت كرديتا ہے_ پيغمبر اسلام (ص) لوگوں كو خود عمل كر كے سمجھا رہے ہيں كہ زيادہ مہر اسلامى معاشرے كے لئے واقعاً مصلحت نہيں ركھتا اسى لئے تو آپ نے اپنى عزيزترين بيٹى كا معمول مہر پر جيسا كہ بيان كيا گيا حضرت على (ع) سے نكاح كرديا يہاں تك كہ كوئي چيز بطور قرض بھى على (ع) كے ذمّہ نہيں سونپي_
---------
1) وافى كتاب النكاح_ ص 15_
2) وافى كتاب النكاح_ ص 15_