فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
 

ولادت فاطمہ (ع)
جناب خديجہ كى حاملگى كى مدت ختم ہوئي اور ولادت كا وقت آپہنچا، جناب خديجہ دردز ہ ميں تڑپ رہى تھيں اسى دوران كسى كو اپنى سابقہ سہيليوں اور قريش كى عورتوں كے پاس روانہ كيا اور پيغام ديا كہ پرانے كينہ كو فراموشى كردو اور اس خطرناك موقع پر ميرى فرياد رسى كرو اور بچے كى ولادت ميں ميرى مدد كو آو، تھوڑى دير كے بعد وہ شخص روتے ہوئے جناب خديجہ كے پاس واپس آيا اور كہا كہ جس كے گھر كا دروازہ ميں نے كھٹكھٹايا اس نے مجھے اندر نہيں آنے ديا اور تمہاى خواہش كو رد كرتے ہوئے سب نے يك زبان كہا كہ خديجہ سے كہہ دو كہ تم نے ہمارى نصيحت قبول نہ كى تھى اور ہماى مرضى كے خلاف ايك فقير يتيم سے شادى كرلى تھى اس لئے نہ ہم تمہارے گھر آسكتے ہيں اور نہ تمہارى مدد كرسكتے ہيں_
جب جناب خديجہ نے كينہ پرور عورتوں كا يہ زبانى زخم لگانے والا پيغام سنا تو تمام سے چشم پوشى كرتے ہوئے اپنے خالق دو جہان خدا كى طرف متوجہ ہوگئيں اس وقت اللہ كے فرشتے اور جنت كى حوريں اور آسمانى عورتوں آپ كى مدد كے لئے آئيں اور آپ اللہ تعالى كى غيبى مدد سے بہرہ ور ہوئيں اور جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا نے جو آسمانى نبوت كا چمكتا ہوا ستارہ تھا اس جہاں ميں قدم ركھا اور اپنے نور ولايت سے مشرق و مغرب كو روشن

29
اور منور كرديا _(1)

پيدائشے كى تاريخ
جناب فاطمہ (ع) كى پيدائشے كى تاريخ ميں علماء كے درميان اختلاف ہے ليكن علماء شيعہ كے درميان مشہور ہے كہ آپ جمعہ كے د ن بيس جمادى الثانى بعثت كے بعد پانچويں سال ميں پيدا ہوئيں_
اگر چہ اكثر سنى علماء نے آپ كى پيدائشے كو بعثت كے پہلے بتلايا ہے جنانچہ عبدالرحمن بن جوزى تذكرة الخواص كے ص 306 پر رقمطراز ہے كہ تاريخ نويسوں نے لكھا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) اس سال متولد ہوئيں كہ جس سال قريش مسجدالحرام كى تعمير ميں مشغول تھے يعنى بعثت سے پانچ سال پہلے_
محمدبن يوسف حنفى نے اپنى كتاب درالسمطين كے ص 175 پر لكھا ہے كہ فاطمہ (ع) اس سال متولد ہوئيں كہ جس سال قريش خانہ كعبہ كى تعمير ميں مشغول تھے اور اس وقت پيغمبر عليہ السلام كا سن مبارك پنتيس سال كا تھا_
ابوالفرج مقاتل الطالبين كے ص 30 پر لكھتے ہيں كہ فاطمہ (ع) بعثت سے پہلے اس سال متولد ہوئيں كہ جس سال خانہ كعبہ تعمير ہوا_
مجلسي نے بحارالانوار كى جلد 43 كے ص 213 پر لكھا ہے كہ ايك دن عبداللہ بن حسن خليفہ ہشام بن عبدالملك كے دربار ميں گئے كہ جہاں پہلے سے اس دربار ميں كلبى بھى موجود تھا ہشام نے عبداللہ سے كہا كہ فاطمہ (ع) كى كتنى عمر تھي؟ عبداللہ نے اس كے جواب ميں كہا تيس سال، ہشام نے يہى سوال بعينہ كلبى سے كيا تو اس نے جواب ميں كہا،
---------
1) دلائل الامامہ_ ص 5_ بحارالانوار_ ج 43 _ ص 2 اور ج 16_ ص 80_
30
پنتيس سال_ ہشام جناب عبداللہ كى طرف متوجہ ہوئے اور كہا كہ آپ نے كلبى كى بات سني؟ كلبى كى معلومات نسب كے بارے ميں خاصى ہيں___ جناب عبداللہ نے جواب ديا اے اميرالمومنين ميرى ماں كا حال آپ مجھ سے پوچھيں اور كلبى كى ماں كے حالات اس سے ليكن شيعہ علماء كى اكثريت نے جيسے ابن شہر آشوب نے جلد 3 كے ص 397 پر كلينى نے كافى كى جلد 1 كے ص 149 پر، محدث قمى نے منتہى الامال كى جلد 1 كے ص 97پر، محمدتقى سپہر نے ناسخ التواريخ كے ص 17 پر، على ابن عيسى نے كشف الغمہ كى جلد 2 كے ص 75پر، طبرى نے دلائل الامامة كے ص 10 پر، فيض كاشانى نے وافى كے جلد1 كے ص 173 پر ان تمام علماء اور دوسرے ديگر علماء نے لكھا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) بعثت كے پانچ سال بعد متولدئيں ان علماء كا مدرك و دليل وہ روايات ہيں جوانہوں نے آئمہ اطہار سے نقل كى ہيں_
ابوبصير نے روايت كى ہے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے فرمايا كہ فاطمہ سلام اللہ عليہا بيس جمادى الثانى كو جب كہ پيغمبر اكرم(ص) كى پنتاليس سلا كى عمر مبارك تھى اس دنيا ميں تشريف لائيں، آٹھ سال تك باپ كے ساتھ مكہ ميں رہيں، دس سال تك باپ كے ساتھ مدينہ ميں زندگى گزارى باپ كے بعد پچہتر دن زندہ رہيں اور تين جمادى الثانى گيارہ ہجرى كو وفات پاگئيں_
ليكن قارئين پر يہ بات مخفى نہيں ہے كہ آپ كى وفات كا تين جمادى الثانى كو ہونا آپ كا پيغمبر(ص) كے بعد پچھتر دن زندہ رہنے كے ساتھ درست قرار نہيں پاتا بلكہ پيغمبر(ص) كے بعد 95 دن زندہ رہنا معلوم ہوتا ہے لہذا ہوسكتا ہے كہ سبعين عربى ميںكہ جس كے معنى ستر كے ہيں لفظ تسعين سے كہ جس كے معنى نوے كے ہيں اشتباہ ميں نقل كيا گيا ہو_
حبيب سجستانى كہتے ہيں كہ ميں نے امام محمد باقر عليہ السلام سے سنا كہ آپ نے فرمايا كہ جناب فاطمہ (ع) دختر پيغمبر اسلام(ص) ، رسول اللہ (ص) كى بعثت كے پانچ سال بعد متولد ہوئيں اور

31
آپ كى وفات كے وقت اٹھارہ سال پچہتر دن عمر مبارك كے گزرچكے تھے، يہ اصول كافى كى جلد 1 ص 457 پر موجود ہے_ ايك روايت كے مطابق آپ كى شادى نو سال كى عمر ميں كى گئي_
سعيد بن مسيب نے كہا ہے كہ ميں نے زين العابدين عليہ السلام كى خدمت ميں عرض كى كہ پيغمبر عليہ السلام نے جناب فاطمہ (ع) كى شادى حضرت على عليہ السلام كے ساتھ كس سن ميں كى تھى آپ(ع) نے فرمايا ہجرت كے ايك سال بعد، اس وقت ہجرت فاطمہ (ع) نو سال كى تھيں، يہ روضہ كافى طبع نجف اشرف 1385 ہجرى كے ص 281 پر موجود ہے_
اس قسم كى احاديث سے مستفاد ہوتا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) رسول خدا(ص) كى بعثت كے بعد متولد ہوئيں_ صاحب كشف الغمہ___ نے ايك روايت نقل كى ہے كہ جس ميں دو متضاد چيزوں كو جمع كرديا ہے كيونكہ انہوں نے نقل كيا كہ امام محمد باقر عليہ السلام نے فرمايا كہ جناب فاطمہ (ع) رسول اللہ(ص) كى بعثت كے پانچ سال بعد متولد اور وہ دہ سال تھا كہ جس ميں قريش خانہ كعبہ تعمير كرنے ميں مشغول تھے اور آپ كى عمر وفات كے وقت اٹھارہ سال پچھتر دن تھي_ يہ كشف ا لغمہ كى جلد 2 ص 75 پر موجود ہے_
آپ خود ملاحظہ كر رہے ہيں كہ اس حديث ميں واضح تناقض موجود ہے كيوں كہ ايك طرف تو اس ميں يہ كہا گيا ہے كہ جناب فاطمہ (ع) رسول كى بعثت كے پانچ سال بعد متولد ہوئيں اور وفات كے وقت آپ كى عمر اٹھارہ سال و پچھتر دن تھى اور دوسرى طرف اسى روايت ميں يہ كہا گيا ہے كہ آپ كى ولادت كے وقت قريش خانہ كعبہ تعمير كر رہے تھے_ يہ دونوں مطلب جمع نہيں ہوسكتے كيونكہ خانہ كعبہ كى تعمير اور تجديد پيغمبر عليہ السلام كى بعثت كے پانچ سال پہلے ہوئي تھى نہ بعثت كے بعد_
بہرحال اس حديث ميں اشتباہ ہوا ہے لفظ قبل البعثہ كو بعد البعثہ نقل كيا گيا ہے يا ''قريش تنبى البيت'' يعنى قريش خانہ كى تعمير كر رہے تھے كہ جملہ راوى نے اپنى طرف

32
سے اضافہ كرديا ہے كہ جسے امام عليہ السلام نے نہيں فرمايا ہوگا_ كعفمى نے مصباح ميں لكھا ہے كہ فاطمہ (ع) جمعہ كے دن بيس جمادى الثانى بعثت كے دوسرے سال دنيا ميں تشريف لائيں يہ بحار الانوار جلد 43 كے ص 9 پر بھى موجود ہے_
ان اقوال كے نقل كرنے سے يہ واضح ہوگيا كہ علماء اسلام كے درميان جناب فاطمہ (ع) كى ولادت كے سلسلے ميں بہت زيادہ اختلاف ہے ليكن چونكہ اہلبيت كے افراد آپ كى ولادت بعثت كے پانچ سال بعد مانتے ہيں لہذا ان كا قول سنى تاريخ نويسوں پر مقدم ہوگا_ كيونكہ آئمہ اطہار اور پيغمبر كے اہلبيت اور حضرت زہرا(ع) كى اولاد دوسروں كى نسبت اپنى والدہ كے سن اور عمر مبارك سے زيادہ باخبر ہيں_
اگر كوئي يہاں يہ اعتراض اٹھائے كہ جناب خديجہ نے بعثت كے دسويں سال ميں وفات پائي ہے اور اس وقت آپ كى عمر پينسٹھ سال تھى لہذا جناب فاطمہ (ع) كى ولادت اگر بعثت كے پانچ سال بعد مانى جائے تو لازم آئے گا كہ جناب خديجہ انسٹھ سال كى عمر ميں جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہوئي ہوں جو قابل قبول نہيں ہے، كيا اس عمر ميں حاملہ ہونا تسليم كيا جاسكتا ہے؟
اس اعتراض كا جواب ديا جاسكتا ہے، پہلے تو يہ كہ يہ قطعى ن ہيں كہ آپ كى عمر وفات كے وقت پينسٹھ سال كى تھى بلكہ ابن عباس كے قول كے مطابق آپ كى عمر جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہونے كے وقت اڑتاليس سال كى بنتى ہے كيونكہ اين عباس نے فرمايا ہے كہ جناب خديجہ نے اٹھائيس سال كى عمر ميں جناب رسول خدا(ص) كے ساتھ شادى كى تھى جيسے كشف الغمہ كى جلد2 كے ص 139 پر مرقوم ہے، ابن عباس كا قول دوسروں پر مقدم ہے كيونكہ پيغمبر اسلام(ص) كے رشتہ دار ہيں اور آپ كے داخلى ا مور كو دوسروں كى بہ نسبت بہتر جانتے ہيں_
اس روايت كى روسے جناب خديجہ جناب رسول خدا كى بعثت كے وقت

33
تينتاليس سال كى عمر ميں ہوں گى اور جب جناب فاطمہ (ع) كا تولد پانچويں بعثت ميں ہو تو جناب خديجہ كى عمر اس وقت اڑتاليس سال كى ہوگى كہ جس ميں عورت كا حاملہ ہونا عا دى ہوا كرتا ہے_
اگر ہم ابن عباس كے قول كو تسليم نہ كريں تب بھى جواب ديا جاسكتا ہے كہ اگر جناب خديجہ نے جيسے كہ مشہور ہے چاليس سال كى عمر ميں جناب رسول خدا(ص) كے ساتھ شادى كى تھى اور آپ كى عمر جناب فاطمہ (ع) سے حاملہ ہونے كے وقت انسٹھ سال كى ہو گى تو بھى يہ عمر قريش كى عورتوں كے لئے حاملہ ہونے كى عادت كے خلاف نہيں ہے، كيونكہ تمام فقہاء نے لكھا ہے كہ قريش كى عورتوں ساٹھ سال تك صاحب عادت رہتى ہيں اور اس وقت تك حاملہ ہوسكتى ہيں اور يہ بھى واضح ہے كہ جناب خديجہ قريش خاندان كى ايك اعلى فرد تھيں_
اگر چہ يہ ٹھيك ہے كہ عورت كا اس سن ميں حاملہ ہونا بہت نادر اور كم ہوا كرتا ہے ليكن___ محال نہيں ہے بلكہ اس كى مثال اس دنيا ميں بھى موجود ہے، جيسے ايك عورت كہ جس كا نام اكرم موسوى تھا، بندر عباس كے سرخون نامى جگہ پر اس نے توام دو بچے جنے اور اس كى عمر اس وقت پينسٹھ سال كى تھى اور اس كے شوہر كى عمر چوہتر سال تھي_
روزنامہ اطلاعات كو ايك ڈاكٹر نے بتلايا كہ ہميں پيدائشے كى عمر كى ڈاكٹرى لحاظ سے جو كم سے كم عمر بتلائي جاتى ہے وہ يہ ہے كہ عورت چار سال اور ساتھ مہينے كى حاملہ ہوئي ہے اور سب سے زيادہ عمر كى ماں اس دنيا ميں سرسٹھ سال كى ہوچكى ہے_ يہ مطلب ايران كے اخبار اطلاعات كے 28 بہمن 1351 شمسى ميں موجود ہے_
ايك عورت جس كا نام شوشنا ہے جو اصفہان كى رہنے والى تھى چھياسٹھ سال كى عمر ميں حاملہ ہوئي اور ايك لڑكے كو جنم ديا اس كے شوہر يحيى نامى نے اخبار نويسوں كو بتلايا كہ ميرے اس عورت سے آٹھ بچے ہيں چار لڑكے اور چار لڑكياں، سب سے چھوٹا

34
پچيس سال كا ہے اور سب بڑا لڑكا پچاس سال كا ہے _ اسے اخبار اطلاعات نے 20 ارديبہشت 1351، شمسى كے پرچے ميں نقل كيا ہے_
اس كے بعد كيا مانع ہوسكتا ہے كہ جناب خديجہ بھى انہيں كمياب اور نادر افراد ميں سے ايك ہوں كہ جو اس عمر ميں حاملہ ہوگئي ہيں_
آخر ميں ايك اور نكتہ طرف متوجہ ہونا بھى ضرورى ہے كہ جو اختلاف جناب فاطمہ زہرا(ع) كى ولادت كے سال ميں موجود ہے اس كا اثر آپ(ع) كى عمر پر بھى پڑے گا اور آپ كى عمر ميں شادى اور وفات كے وقت ميں بھى قہراً اختلاف ہوجائے گا اسى واسطے اگر آپ كى پيدائشے بعثت كے پانچ سال پہلے تسليم كى جائے تو آپ كى عمر شادى كے وقت تقريباً اٹھارہ سال اور وفات كے وقت اٹھائيس سال ہوگى اور اگر آپ كى پيدائشے بعثت كے پانچ سال بعد مانى جائے تو پھر آپ كى عمر شادى كے وقت نو سال اور وفات كے و قت اٹھارہ سال كى ہوگي_

جناب رسول خدا(ص) اور جناب خديجہ كى آرزو
خلقت كے اسرار ميں سے ايك راز يہ ہے كہ ہر انسان چاہتا ہے كہ اس كى اولاد اور لڑكا ہوتا تا كہ اسے اپنى حسب منشاء تربيت كرے اور اپنى يادگار چھوڑ جائے_ انسان فرزند كو اپنے وجود كا باقى رہنا شمار كرتا ہے اور مرنے كے وقت آپ كو فناء اور ختم ہوجانا نہيں جانتا، ليكن وہ آدمى جس كا كوئي فرزند نہ ہو تو وہ اپنى زندگى كو مختصر اور موت كے آپہنچنے سے اپنے آپ كو ختم سمجھتا ہے شايد پيدائشے كو يوں سلسلہ نسل انسانى كى بقاء كا وسيلہ قرار ديا گيا ہوتا كہ نسل انسانى نابودى اور منقرض ہوجانے سے محفوظ رہ جائے_
جى ہاں پيغمبر(ص) اور جناب خديجہ بھى اس قسم كى تمنا ركھتے تھے، وہ خديجہ جو خداپرستي

35
اور بشريت كى نجات كے لئے كسى قربانى سے دريغ نہ كرتى تھيں اور پيغمبر كے مقدس ہدف كو آگے بڑھانے ميں مال اور دولت اور رشتہ داروں اور دوستوں سے بھى قطع تعلقى سے گريز نہ كرتى تھي، بغير كسى قيد و شرط كے جناب رسول خدا(ص) كى خواہشات كے سامنے سر تسليم خم كرچكى تھيں يقينا ان كى بھى يہ خواہش ہوگى كہ جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے صاحب فرزند ہوں تا كہ وہ دين اسلام كا حامى اور اس كى اشاعت اور ترويج ميں اور اسے آنحضرت كے عالى ہدف تك پہنچانے ميں كوشاں ہو_
پيغمبر اسلام(ص) جانتے تھے كہ انسان كے لئے موت يقينى ہے آپ تھوڑى اور مختصر مدت ميں اتنے بڑے ہدف كو بطور كامل جارى نہيں كرسكتے اور تمام جہان كے بشر كو گمراہى كے گرداب سے نہيں نكال سكتے فطرى بات ہے كہ آپ كا دل بھى چاہتا ہو گا كہ ايسے ايثار كرنے والے افراد جو ان كى اپنى نسل سے ہوں موجود ہو جائيں_
جناب محمد مصطفى (ص) اور جناب خديجہ اس قسم كى ضرور تمنا اور خواہش ركھتے ہوں گے ، ليكن افسوس كہ جو لڑكے آپ كے پيدا ہوئے تھے كہ جنہيں عبداللہ اور قاسم كے نام سے موسوم كيا گيا تھا وہ بچپن ہى ميں فوت ہوگئے جتنا دكھ جناب رسول خدا(ص) اور جناب خديجہ كو ان كى وفات سے ہوا تھا اتنا ہى ان كے دشمن خوش اور شاد ہوئے تھے كيونكہ وہ پيغمبر اسلام (ص) كى نسل كو ختم ہوتا ديكھ رہے تھے، كبھى دشمن آپ كو ابتر يعنى لاولد كے نام سے پكارتے تھے_
جب آپ كے فرزند عبداللہ فوت ہوئے تو عاص بن وائل بجائے اس كے كہ آپ كو آپ كے فرزند كى موت پر تسلى ديتا مجمع عام ميں آپ كو ابتر اور لاولد كہتا تھا اور كہتا تھا كہ جب محمد(ص) مرجائيں گے تو ان كا كوئي وارث نہ ہوگا_ وہ زبان كے زخم سے جناب پيغمبر اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم

36
اور جناب خديجہ كا دل زخمى كيا كرتا تھا_ (1)

كوثر
خداوند عالم نے پيغمبر اكرم(ص) كو بشارت دى كہ ہم آپ كو خير كثير عطا كريں گے_ اللہ تعالى نے دشمنوں كے جواب ميں سورہ كوثر كو نازل فرمايا اور اس ميں فرمايا كہ اے محمد(ص) ہم نے آپ كو كوثر عطا كيا پس تم خدا كے لئے نماز پڑھو اور قربانى دو، آپ كا دشمن ہى لاولد ہے نہ كہ آپ_ (2)
پيغمبر اسلام(ص) كو يقين تھا كہ اللہ كا وعدہ كبھى غلط نہيں ہوتا مجھ سے پاكيزہ نسل اور اولاد وجود ميں آئے گا جو تمام جہان كى نيكيوں كا سرچشمہ اور منبع ہوگي_ جب اللہ تعالى كا وعدہ پورا ہوا اور جناب فاطمہ زہرا(ع) دنيا ميں تشريف لائيں اور آپ كے نور ولايت سے جہان روشن ہوا تو جناب رسول خدا(ص) كو اطلاع دى گئي كہ خداوند عالم نے جناب خديجہ كو ايك لڑكى عنايت فرمائي ہے، آپ كا دل اس بشارت سے خوشى اور شادمانى سے لبريز ہوگيا، آپ لڑكي___ ہونے سے نہ صرف غمگين نہ ہوئے بلكہ اس وسيلے سے آپ كا دل مطمئن ہوگيا اور اللہ تعالى كى خوشخبرى كے آثار كا مشاہدہ فرمانے لگے_
جى ہاں پيغمبر اكرم(ص) ان كوتاہ فكر اور جاہليت كے زمانے كے ان نادانوں ميں سے نہ تھے جو لڑكى كے وجود پر شرمندہ ہوتے تھے، او رغصے كو فرو كرنے كے لئے اس كى بے گناہ ماں كو گالياں اور ظلم كا نشانہ بناتے تھے لوگوں
----------
1) سيرہ ابن ہشام_ ج 2 _ ص 34_ تفسير جوامع الجامع_ مولفہ طبرسي_ ص 529_
2) سورہ كوثر_

37
سے منھ چھپانے تھے _(1)
پيغمبر اسلام(ص) اس لئے مبعوث ہوئے تھے كہ لوگوں كے غلط رسم و رواج اور بيہودہ افكار ''كہ جس كى وجہ سے عورتوں كى قدر و قيمت كے قائل نہ تھے اور انہيں معاشرے كافر و حساب نہ كرتے تھے اور بے گناہ لڑكيوں كو زندہ در گور كرديتے تھے'' سے مقابلہ اور مبارزہ كريں اور لوگوں كو بتاديں كہ عورت بھى معاشرہ كى حساس فرد ہے اس پر بہت بڑا وظيفہ اور مسئوليت عائد ہوتى ہے وہ بھى معاشرہ كى عظمت اور ترقى كے لئے كوشش كرے اور ان وظائف كو جو اس كى خلقت كى مناسب سے اس پر عائد كئے گئے بجالائے_
جى ہاں اللہ تعالى نے عملى طور سے عالم كى عورت كى قدر و قيمت سمجھائي ہے_ يہى وجہ ہے كہ پيغمبر اسلام(ص) كى ذريت اور پاك نسل كو ايك لڑكى ميں قرار ديا اور اس طرح مقدر فرمايا كہ امام اور دين اسلام كے رہبر اور پيشوا تمام كے تمام جناب فاطمہ اطہر كى نسل سے وجود ميں آئيں اللہ تعالى نے اس طرح ان نادان لوگوں كے منھ پر جو لڑكى كو اپنى اولاد شمار نہيں كرتے تھے بلكہ اس كے وجود كو موجب عار اور رننگ سمجھتے تھے مضبوط طمانچہ مارا_

ماں كا دودھ
جب جناب فاطمہ زہرا(ع) كو ايك پارچہ ميں ليپٹ كر جناب خديجہ كے دامن ميں ركھا گيا تو آپ بہت خوش ہوئيں اور اپنے پستانوں كو اس تازہ مولود كے چھوٹے سے منھ ميں دے كر اپنے عمدہ اور بہترين دودھ سے سيراب كيا اور يہ ايك
-----------
1) سورہ نحل آيتہ 58_
38
ايسا رويہ تھا كہ جس سے جناب فاطمہ (ع) نے اچھى طرح نمو اور رشد پايا_ (1)
جى ہاں جناب خديجہ ان خودپسند اور نادان عورتوں ميں سے نہ تھيں كہ جو بغير كسى عذر اور بہانے كے اپنے نو مولود كو ماں كے دودھ سے (كہ جسے اللہ تعالى نے مہيا كيا ہے) محروم كرديتى ہيں_ جناب خديجہ كو خود علم تھا يا پيغمبر اسلام(ص) سے سن ركھا تھا كہ بچوں كى غذا اور صحت كے لئے كوئي غذا بھى ماں كے دودھ كے برابر نہيں ہوسكتى كيونكہ ماں كا دودھ ہى اس كے ہاضمہ كى مشيزى اور اس كے خاص مزاج كے لئے كاملاً مناسب اور سازگار ہوا كرتا ہے جو بچے ميں اللہ نے وديعت كر ركھى ہے، بچہ نو مہينے تك ماں كے رحم ميں ماں كى غذا اور ہوا اور خون ميں شريك رہتا ہے اور بلاواسطہ ماں سے رزق حاصل كرتا ہے اسى لئے ماں كے دودھ كے اجزائے تركيبى بچے كے مزاج سے كاملاً مناسب ہوتے ہيں اس كے علاوہ ماں كے دودھ ميں كسى قسم كى ملاوٹ كا شائبہ نہيں ہوسكتا اور اس ميں زچگى كے جراثيم جو بيمارى كا موجب ہوسكتے ہيں نہيں ہوا كرتے _(2)
جناب خديجہ كو علم تھا كہ ماں كا پر محبت دامن او رمہر مادرى اور بچے كا ماں كے پستانوں سے دودھ پينا كون سے نقوش بچے كى آئندہ زندگى پر چھوڑتے ہيں سعادت او رنيك بختى ميں كتنے قابل توجہ اثرات نقش بناتے ہيں اسى لئے آپ نے يہ اختيار كيا كہ جناب فاطمہ زہرا(ع) كو اپنى آغوش محبت ميں پرورش اور تربيت كرے اور اپنے پاك دودھ ''جو شرافت، نجابت، علم، فضيلت، بردباري، فداكاري، شجاعت كا منبع اور سرچشمہ ہے'' سے غذا دے_ سچ ہے مگر جناب خديجہ كے دودھ كے علاوہ
----------
1) دلائل الامامہ_ ص 9_
2) وافي_ ج 2_ ص 207_

39
كوئي اور دودھ اس قسم كا پاك عنصر اور شجاعت اور مزاج معرفت كى تربيت كرسكتا تھا كہ باغ نبوت كے پر بركت ميوہ كو ثمردار بناديا؟

دودھ پينے كا زمانہ
جناب فاطمہ زہرا(ع) كے دودھ پينے كا زمانہ اور آپ كا بچپن بہت خطرناك ماحول اور اسلام كے انقلابى زمانے ميں گزرا كہ جس نے بلاشك آپ كى حساس روح پر بہت شاندار اثرات چھوڑے اس واسطے كہ دانشمندوں كے ايك گروہ كے نزديك يہ مطلب پايہ ثبوت كو پہنچ چكا ہے كہ بچے كى تربيت كا ماحول اور محيط اور اس كے ماں باپ كے افكار اس كى روح اور شخصيت پر كاملاً اثر انداز ہوتے ہيں اسى لئے ہم مجبور ہيں كہ ابتداء اسلام كے اوضاع او رحوادث كا بطور اجمال ذكر كريں تا كہ قارئين فوق العادہ اوضاع اور بحرانى دور كو ملاحظہ كرسكيں كہ جس ميں پيغمبر اسلام(ص) كى دختر گرامى قدر نے نشو و نما اور تربيت حاصل كى ہے_
پيغمبر اسلام(ص) چاليس سال كى عمر ميں پيغمبرى كے لئے مبعوث بر رسالت ہوئے ابتدا دعوت ميں آپ كو بہت مشكلات اور خطرناك اور سخت حوادث كا سامنا كرنا پڑا آپ نے يك و تنہا عالم كفر اور بت پرستى سے مقابلہ كيا آپ نے كئي سال تك خفيہ تبليغ كى اور دشمنوں كے خوف سے اپنى دعوت اور تبليغ كو على الاعلان كرنے كى جرات نہ كرسكتے تھے بعد ميں آپ كو خداوند عالم سے حكم ملاكہ لوگوں كو دين كى طرف بلانے كى كھلى دعوت دو اور مشركين كى پرواہ مت كرو اور ان سے مت ڈرو _(1)
پيغمبر اكرم(ص) نے اللہ تعالى كے اس حكم كے بعد اپنى دعوت كو عام كرديا اور اجتماع عام
---------
1) سورہ حجر آيت 94_
40
ميں لوگوں كو اسلام كے مقدس آئين كى طرف دعوت دينى شروع كى دن بدن مسلمانوں كى تعداد ميں اضافہ ہونا شروع ہوگيا_
جب پيغمبر اكرم(ص) كى تبليغ على الاعلان ہونے لگى تو دشمنوں كے آزار و اذيت ميں بھى شدت آگئي، وہ مسلمان كو شكنجے كرتے اور ان پر ظلم و ستم ڈھاتے بعض مسلمانوں كو حجاز كے سورج كى تپتى دھوپ ميں ريت پر لٹا كر ان كے سينے پر بہت بھارى پتھر ركھ ديتے اور بعض مسلمانوں كو قتل كرديتے تھے_
مسلمانوں پر اتنا سخت عذاب اور سختى كى گئي كہ وہ بہت تنگ آچكے تھے اور مجبور ہوگئے تھے كہ وہ اپنے گھر بار چھوڑ كر كسى دوسرے ملك كى طرف ہجرت كرجائيں چنانچہ مسلمانوں كے ايك گروہ نے جناب رسول خدا سے اجازت لى اور حبشہ كى طرف روانہ ہوگيا_(1)
جب كفار اپنى سختى اور ظلم اور آزار و اذيت سے اسلام كى پيشرفت اور وسعت كو نہ روك سكے اور انہوں نے ديكھ ليا كہ مسلمانوں تكاليف كو برداشت كرليتے ہيں ليكن اسلام كے عقيدے سے دست بردار نہيں ہوتے تو انہوں نے ايك مشاورتى اجتماع كيا اور تمام نے انفاق سے طے كيا كہ جناب محمد(ص) كو قتل كرديا جائے_
جب جناب ابوطالب(ع) كو ان كے خطرناك منصوبے كا علم ہوا تو آپ نے جناب رسول خدا(ص) كى جان كى حفاظت كى مختصر يہ كہ بنى ہاشم كے ايك گروہ كے ساتھ ايك درہ ميں كہ جس كا نام شعب ابوطالب ہے منتقل ہوگئے_
جناب ابوطالب(ع) اور باقى تمام بنى ہاشم جناب رسول خدا(ص) كى جان كى حفاظت كرتے تھے_ جناب حمزہ جو رسول خدا(ص) كے چچا تھے رات بھر تلوار كھينچے آپ كى حفاظت
----------
1) سيرہ ابن ہشام_ ج 1 ص 244_ تاريخ كامل ج 2_ ص 51_

41
كيا كرتے تھے، آپ(ص) كے دشمن پيغمبر خدا(ص) كے قتل كرنے سے نااميد ہوگئے تو انہوں نے شعب ابوطالب ميں نظر بند افراد پر اقتصادى باؤ ڈالنا شروع كرديا ا ور ان سے خريد و فروخت پر پابندى عائد كردي_ مسلمانوں تين سال تك اس درہ ميں قيد رہے اس ميں بھوك اور تكاليف اور سخت جلادينے والى گرمى برداشت كرتے رہے اور مختصر خوارك پر جو انہيں چورى چھپے حاصل ہوتى تھى گزر اوقات كرتے رہے اور بسا اوقات بچوں كى بھوك سے فرياديں بلند ہوجايا كرتى تھيں_
جناب فاطمہ زہرا(ع) اس قسم كے خطرناك ماحول اور وحشت ناك و محيط اور اس قسم كے بحرانى حالات ميں دنيا ميں آئيں اور اس قسم كے حالات ميں تربيت پائي، جناب خديجہ كبرى نے اس قسم كے حالات اور شرائط ميں اپنے پيارے نو مولود كو دودھ پلايا كافى مدت جناب زہرا(ع) كے دودھ پينے كى اسى درے ميں گزرى اور اسى جگہ آپ كا دودھ بھى چھڑايا گيا، آپ نے اسى جلانے والے ريگستان ميں راہ چلنا سيكھا جب آپ نے بولنا سيكھا تو بچوں كا بھوك سے آہ و فغاں كرنا اسى جگہ سنا اسى گھٹے ہوئے ماحول ميں غذا كے قحط كو ديكھا جب آپ آدھى رات كو جاگ اٹھتيں تو ديكھتيں كہ آپ كے رشتہ دار برہنہ شمشير لئے ہوئے آپ كے باپ كى حفاظت كر رہے ہيں_
تين سال تك جناب زہرا(ع) نے اس جلادينے والى وادى كے سوا اور كچھ نہ ديكھا اور خارجى دنيا سے بے خبر رہيں_
جناب زہرا(ع) كى عمر پانچ سال كى تھى جب پيغمبر اكرم(ص) اور بنى ہاشم كو اس درے ''شعب ابوطالب'' سے نجات ملى اور يہ سب اپنے گھروں كو واپس لوٹ آئے، نئي زندگى كے نظارے اور آزادى كى نعمت اور كھانے پينے ميں وسعت اور اپنے مكان ميں رہنا جناب زہرا(ع) كے لئے نئے ماحول كى حيثيت ركھتا تھا اور آپ كے لئے باعث مسرت تھا_

42
ماں كى وفات
افسوس صد افسوس كہ جناب فاطمہ (ع) كے خوشى كے دن زيادہ دير تك نہ رہ سكے آپ نے آزاد ما حول ميں سانس لينا چاہا تھا كہ آپ كى مہربان ماں جناب خديجہ كا انتقال ہوگيا_
ابھى ايك سال بھى نہ گزرا تھا كہ پيغمبر(ص) اور آپ كے اصحاب شعب كى قيد سے آزاد ہوئے تھے كہ جناب خديجہ اس دنيا سے رخصت ہوگئيں _(1)
اس جانگداز حادثہ نے كس قدر جناب فاطمہ (ع) كے دل پر اثر كيا اور آپ كے اميد كے پودہ كو پمردہ كرديا اور آپ كى روح كو شديد صدمہ پہنچا، جناب فاطمہ ز ہرا(ع) ايسے ناقبل برداشت حادثہ كا ہرگز احتمال بھى نہ ديتى تھيں_

نتيجہ
بچپن كے غير معمولى واقعات اور تلخ حوادث نے بغير كسى شك و شبہ كے جناب زہرا(ع) كى حساس روح پر اثر چھوڑا اور آپ كى آئندہ زندگى اور نفسيات اور افعال كا ربط نہيں واقعات سے مرتبط ہے جو آپ كو بچپن ميں پيش آئے اور آپ كى شخصيت نے اسى سرچشمہ سے آغاز كيا، مندرجہ ذيل اثرات انہيں واقعات سے بطور نتيجہ اخذ كئے جاسكتے ہيں_
1_ جو شخص اس قسم كے پمردہ ماحول ميں نشو و نما پائے اور زندگى كے آغاز ميں ہى اتنے پڑے واقعات سے دوچار ہو تو لامحالہ وہ افسردہ خاطر اور غمگين ہى رہا كرتا ہوگا
-------
1) مناقب ابن شہر آشوب_ ج1_ ص 174_
43
اسى لئے جناب فاطمہ (ع) كے حالات ميں لكھا ہے كہ آپ ہميشہ محزون اور غمگين رہا كرتى تھيں_
2_ جو شخص اس قسم كے بحرانى ماحول ميں پروان چڑھا ہو، يہاں تك كہ دودھ پينے اور بچپن كى عمر قيد خانے ميں گزارى ہو اور جب سے آپ نے اپنے آپ كو پہچاننا شروع كيا ہو اپنے آپ كو قيد خانے ميں ديكھے اور يہ ديكھے كہ اس كے ماں باپ كس فداكارى اور ايثار سے اپنے ہدف اور مقصد كا دفاع كر رہے ہيں اور اپنے مقصد تك رسائي كے لئے ہر سختى اور تكليف كو برداشت كرليتے ہيں ليكن اپنے مقصد كو چھوڑنے پر تيار نہيں ہوتے تو لامحالہ اس قسم كى شخصيت سخت جان، مبارز اور صاحب مقصد ہى ابھر كر سامنے آئے گى اور اپنے مقصد تك رسائي كے لئے قيد اور تكاليف اور مظالم كى پرواہ نہيں كرے گى اور ميدان نہيں چھوڑے گي_
3_ فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا ديكھ رہى تھيں كہ اس كے ماں باپ دين كى اشاعت اور خداپرستى كے لئے كتنے مصائب اور تكاليف برداشت كر رہے ہيں، انسانيت كى نجات اور ہدايت كے لئے كتنى قربانياں دے رہے ہيں آپ كو مسلمان سے يہى اميد ہوگى كہ وہ اس كى وفات كے بعد ان كى قدر كريں اور آپ كے ہدف اور مقصد كو آگے بڑھانے ميں سعى اور كوشش سے كام ليں اور جو راستہ آپ ان كے لئے معين كرگئے اس سے منحرف نہ ہوں_

ماں كى وفات كے بعد
بعثت كے دسويں سال بہت تھوڑے فاصلے پر جناب ابوطالب اور جناب خديجہ كى يكے بعد ديگرے وفات ہوجاتى ہے_(1)
---------
1) مناقب شہر ابن آشوب_ ج1_ ص 174_
43
ان دو غم انگيز واقعات نے جناب پيغمبر خدا(ص) كى روح كو صدمہ پہنچايا اور آپ نے اس سال كا نام عام الحزن ركھا_(1)
كيونكہ ايك طرف تو آپ كا ايك غم گسار اور داخلى و خارجى امور ميں مشير اور آپ كى اولاد كى ماں جناب خديجہ كا انتقال ہوجاتا ہے اور دوسرى طرف آپ كا ايك بہت بڑا حامى اور مددگار اور مدافع جناب ابوطالب اس دنيا سے رخصت ہو جاتے ہيں، جس سے آپ كى يكدم داخلى اور خارجى اوضاع دگرگوں ہوجاتى ہيں_
ان دو حاميوں كے فوت ہوجانے سے دشمنوں كے حوصلے بلند ہوگئے اور اس طرح آپ كو تكاليف دينا شروع كرديں كبھى آپ كو پتھر مارتے اور كبھى آپ كے سر و صورت پر خاك ڈالتے اور كبھى برا بھلا كہتے او ركبھى آپ كے جسم مبارك كو زخمى كرتے اكثر اوقات آپ غمگين اور پمردہ گھر ميں داخل ہوتے اور اپنى بيٹى سے ملاقات كرتے، جب كہ جناب فاطمہ (ع) اپنى ماں كے فراق ميں مرجھائے ہوئے چہرے سے اشكبار ہوتيں، جناب فاطمہ (ع) جب كبھى گھر سے باہر جاتيں تو ناگوار حوادث سے دوچار ہوتيں كبھى ديكھتيں كہ لوگ آپ كے باپ كو اذيت دے رہے ہيں اور آپ كو برا بھلاكہہ رہے ہيں_ ايك دن ديكھا كہ دشمن مسجدالحرام ميں بيٹھے آپ كے والد كے قتل كا منصوبہ بنا رہے ہيں_ روتے ہوئے گھر واپس آئيں اور دشمنوں كے منصوبے سے باپ كو آگاہ كيا_(2)
ايك دن مشركين ميں سے ايك آدمى نے جناب رسول خدا (ص) كو گلى ميں ديكھا تو كوڑا كركٹ اٹھا كر آپ كے چہرے اور سر پر ڈال ديا_ پيغمبر(ص) نے اسے كچھ نہ كہا اور گھر چلے
----------
1) مناقب شہر ابن آشوب_ ج 1_ ص 174_
2) مناقب شہر ابن آشوب_ ج1_ ص 71_

45
گئے_ آپ كى دختر جناب فاطمہ (ع) جلدى سے آئيں اور پانى لاكر اشك بار آنكھوں سے آپ كے سر مبارك كو دھويا_ پيغمبر خدا(ص) نے فرمايا: بيٹى روو مت، مطمئن رہو خدا تيرے باپ كو دشمنوں كے شر سے محفوظ ركھے گا، اور كاميابى عطا فرمائے گا_(1)
ايك دن پيغمبر خدا(ص) مسجد ميں نماز ميں مشغول تھے، مشركين كا ايك گروہ آپ كا مذاق اڑا رہا تھا اور آپ كو اذيت دينا چاہتا تھا، ان مشركين ميں سے ايك نے اونٹ ذبح كيا تھا، اس كى اوجھڑى اٹھاكر ''جو كثافت اور خون سے پر تھي'' آپ كى پشت مبارك پر جب آپ سجدے ميں تھے ڈال ديا_ جناب فاطمہ (ع) اس وقت مسجد ميں موجود تھيں جب آپ نے يہ منظر ديكھا تو آپ كو بہت قلق ہوا اور آپ كى پشت مبارك سے اوجھڑى كو ہٹا كر دور پھينك ديا_ پيغمبر اسلام(ص) نے سجدہ سے سر اٹھايا اور نماز كے بعد اس گروہ پر نفرين كي_(2)
جى ہاں جناب زہرا(ع) نے اپنے بچپن ميں اس قسم كے ناگوار واقعات ديكھے اور اپنے باپ كى ان ميں مدد كي، اور اپنے كے لئے مادرى سلوك كيا كرتى تھيں_
جناب خديجہ كے انتقال كے بعد بہت سے گھر كے كام كاج كى ذمہ دارى جناب فاطمہ (ع) كے كندھے پر آن پڑى تھي_ كيونكہ يہ توحيد كا وہ پہلا گھر تھا جس كا سردار مرچكا تھا، اس گھر ميں جناب فاطمہ (ع) كے علاوہ اور كوئي مددگار موجود نہ تھا، تاريخ سے يہ واضح نہيں ہوتا كہ اس زمانے ميں پيغمبر خدا(ص) كے گھر كى حالت كيسى رہى اور ان كى زندگى كس طرح گزري_ ليكن بصيرت كى آنكھوں سے اس گھر كى رقت بار حالت كو ديكھا جاسكتا ہے_
--------
1) تاريخ طبري_ ج 2_ ص 344_
2)مناقب شہر ابن آشوب_ ج1_ ص 60_

46
پيغمبر اسلام(ص) نے جناب خديجہ كے بعد سورہ سے شادى كرلي_ اس كے علاوہ اور كئي عورتيں تھيں_ جو تمام كى تمام جناب فاطمہ (ع) سے اظہار محبت كيا كرتى تھيں، ليكن پھر بھى ايك يتيم بچے كے لئے بہت سخت گزرتا ہے جب وہ اپنى ماں كى جگہ كو خالى ديكھے اور اس كى جگہ كسى اور عورت كو رہتا ديكھے_ سوكن خواہ كتنى ہى مہربان اور اچھى كيوں نہ ہو پھر بھى وہ محبت اور خالص شفقت جو ماں كى طرف سے ہوتى ہے وہ اس بچے كو نہيں دے سكتي_ صرف ماں ہى ہے كہ جو ناز و نعمت، شفقت و محبت سے بچے كے دل كو تسكين دے سكتى ہے_
جناب فاطمہ (ع) كو جس شدت سے محرومى كا احساس ہو رہا تھا اسى شدت سے پيغمبر(ص) بھى آپ سے اظہار محبت فرماتے تھے، كيونكہ پيغمبر خدا(ص) جانتے تھے كہ فاطمہ (ع) كو ماں كى كمى كا احساس ہے اور اس كمى كو پورا ہوتا چاہيئے، اس وجہ سے اور دوسرى كئي وجوہ كى بناء پر روايت ميں وارد ہوا كہ پيغمبر(ص) جب تك اپنى بيٹى كو نہ چوم ليتے رات كو نہيں سوتے تھے_(1)
يہ تھوڑے سے آٹھ سال كے واقعات ہيں جو پيغمبر(ص) كى بيٹى جناب فاطمہ (ع) پر مكہ معظمہ ميں وارد ہوئے ہيں_
واضح رہے اگر چہ اس قسم كے واقعات اور حوادث جو كسى بچے كى روح پر وارد ہوں تو اس كے اعصاب كو مختل كرديتے ہيں اور اس كى فكر صلاحيت اور جسمى قوت كو كم كردينے كے لئے كافى ہوا كرتے ہيں ليكن اس قسم كا حكم ہر ايك انسان كے لئے كرنا صحيح نہيں ہے_
كيونكہ يہى ناگوار واقعات اور دائمى گرفتارياں اور متصل مبارزہ ممتاز اور شائستہ انسانوں كى روح كو تقويت پہنچاتے ہيں اور اس كى اندرونى استعداد اور پوشيدہ
------
1) كشف الغمہ_ ج2_ ص 93_
47
صلاحيتوں كو اجاگر كرتے ہوئے مشكلات كے مقابلے كے لئے ثابت قدم بنا ديتے ہيں_ جب تك پتھر پر غير معمولى حرارت معدن ميں وارد نہ ہو وہ خالص اور بيش بہا قيمت سونا بن كر نہيں نكلتا_
جى ہاں جناب زہرہ(ع) كى زندگى كے دوران خطرناك حوادث اور بحرانى اوضاع نے آنجناب كى روح كو نہ صرف ضعيف نہيں كيا بلكہ الٹا اپنے وجود كے گوہر كو صيقل كر كے تابناك و درخشان بناديا اور آپ كو ہر قسم كے حالات سے مبارزہ كرنے كے لئے آمادہ اور طاقتور بناديا تھا_

فاطمہ (ع) مدينہ كى طرف
پيغمبر خدا(ص) بعثت كے تيرھويں سال جان كے خطرے كى وجہ سے مجبور ہوگئے كہ مكّہ كو چھوڑ ديں اور مدينہ كى طرف ہجرت كرجائيں_ چنانچہ آپ نے جاتے وقت حضرت على (ع) اور حضرت فاطمہ (ع) كو خداحافظ كہا اور حضرت على (ع) سے فرمايا كہ لوگوں كى امانتيں واپس كر كے ميرى دختر فاطمہ (ع) اور اپنى ماں فاطمہ بنت اسد اور چچا حمزہ كى بيٹى فاطمہ كو اور دوسرى مستورات كو ساتھ لے كر مدينہ كى طرف جلد از جلد چلے آنا، ميں تمہارا انتظار كروں گا آپ(ص) نے يہ فرمايا اور مدينہ كى طرف روانہ ہوگئے_
حضرت على (ع) بھى پيغمبر كے دستور كے مطابق جناب فاطمہ (ع) اور دوسرى مستورات كو سوار كر كے مدينہ كى طرف روانہ ہوگئے_ راستہ ميں ابو واقد اونٹوں كو چلانے والے_ اونٹوں كو تيزى كے ساتھ چلا رہے تھے_ حضرت على عليہ السلام نے ان سے فرمايا كہ عورتوں كے ساتھ نرمى كرو اور اونٹوں كو آہستہ چلاؤ، كيونكہ عورتيں كمزور ہوا كرتى ہيں جو سختى كو برداشت نہيں كرسكتيں، ابو واقد نے عرض كى كہ ميں دشمنوں سے ڈرتا ہوں كوئي ہمارا تعاقب نہ كر رہا ہو جو ہم تك آپہنچے حضرت على عليہ السلام نے جواب ديا پيغمبر(ص) نے مجھ

48
فرمايا كے تجھے دشمن كى طرف سے كوئي اذيت نہ پہنچے گي_
جب آپ ''ضجنان'' كے قريب پہنچے تو آٹھ سوار پيچھے سے آئے حضرت على عليہ السلام نے عورتوں كو محفوظ اور امن كى جگہ كرديا اور تلوار لے كر ان دشمنوں پر حملہ كرديا اور ان كو پراگندہ و متفق كرديا پھر عورتوں كو سوار كيا اور مدينہ كى طرف روانہ ہوگئے_ پيغمبر اسلام(ص) جب ''قبا'' پہنچے تو وہاں بارہ دن تك ٹھہرے رہے يہاں تك كہ حضرت على عليہ السلام جناب فاطمہ (ع) اور دوسرى مستورات كو لے كر آنحضرت كى خدمت با بركت سورہ سے شادى كى اور جناب فاطمہ (ع) كو ان كے گھر لے گئے اس كے بعد آپ نے جناب ام سلمہ سے نكاح كيا اور جناب فاطمہ (ع) كو ان كے سپرد كيا تا كہ آپ ان كى سرپرستى اور نگاہ دارى كريں جناب ام سلمہ كہتى ہيں كہ پيغمبر اكرم(ص) نے جناب فاطمہ (ع) كو ميرے سپرد كيا تا كہ ميں ان كى تربيت ميں كوشش كروں، ميں بھى آپ كى تربيت اور راہنمائي ميں كوتاہى نہيں كرتى تھى ليكن خدا كى قسم آپ مجھ سے زيادہ با ادب اور سمجھدار تھيں_(2)
----------
1) مناقب شہر ابن آشوب_ ج 1_ ص175، 183_
2) دلائل الامامہ_ ص 11_