فاطمه زهراءاسلام كي مثالي خاتون
 

15
حصّہ اوّل

ولادت سے ازدواج تك

16
ہر انسان كى شخصيت ايك حد تك اس كے خاندان او راپنے ماں، باپ كے اخلاق اور جس ماحول ميں وہ نشو و نما پاتا ہے اس سے اس كى زندگى وابستہ ہوا كرتى ہے، ماں، باپ ہى ہوتے ہيں كہ جو كسى انسان كى شخصيت كى داغ بيل ڈالتے ہيں اور اسے اپنے روحى قالب اور اخلاق ميں ڈھال كر معاشرہ كے سپرد كرتے ہيں كہ در حقيقت كہا جاسكتا ہے كہ ہر ايك فرزند اپنے ماں باپ كے اسوہ كا پورا آئينہ دار ہوتا ہے_
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ عليہا كے باپ كى تعريف و توصيف وضاحت اور تشريح كى محتاج نہيں ہے كيونكہ پيغمبر اسلام(ص) كا فوق العادہ شخصيت كا مالك ہونا اور آپ كى عظمت روحى اور پسنديدہ اخلاق اور بلند ہمت اور فداكارى كسى مسلمان فرد پر بلكہ كسى بھى با اطلاع انسان پر مخفى نہيں ہے آپ كى عظمت كے لئے اتنا ہى كافى ہے كہ خداوند عالم نے آپ كے بارے ميں ارشاد فرمايا ہے كہ اے محمد(ص) آپ تو خلق عظيم كے مالك ہيں_
اگر ہم يہاں پيغمبر اسلام(ص) كى تعريف اور توصيف اور اخلاق كا ذكر كرنا شروع كرديں تو اصل مطلب سے دور ہٹ جائيں گے_

فاطمہ (ع) كى ماں
آپ كى والدہ ماجدہ جناب خديجہ بنت خويلد تھيں، جناب خديجہ

17
قريش كے ايك شريف او رمعزز خاندان ميں پيدا ہوئي اور اسى ماحول ميں پرورش پائي_ آپ كے خاندان كے سارے افراد دانشمند اور اہل علم تھے اور وہ خانہ كعبہ كى حمايت كرنے والوں ميں شمار ہوتے تھے_
جس زمانے ميں يمن كے بادشاہ تبّع نامى نے حجر اسود كو خانہ كعبہ سے اكھاڑ كر يمن لے جانے كا ارادہ كيا تھا تو جناب خديجہ كے والد ہى تھے جو ان كے دفاع كے لئے كھڑے ہوئے تھے اور آپ كى فداكارى اور مبارزہ كے نتيجے ميں تبّع نے اپنے ارادے كو ترك كرديا اور حجر اسود سے معترض نہ ہوا_(1)
اس سے معلوم ہوتا ہے كہ جناب خديجہ كے خاندان والے صاحب فكر، گہرى سوچ كے مالك اور جناب ابراہيم عليہ السلام كے دين كے گرويدہ تھے_

خديجہ كى تجارت
گرچہ تاريخ نے جناب خديجہ كى زندگى كے جزئيات محفوظ نہيں كہے ليكن جو كچھ بعض تاريخوں سے ملتا ہے اس سے آپ كى شخصيت واضح ہوجاتى ہے_
ملتا ہے كہ جناب خديجہ نے جوانى كى ابتداء ميں عتيق بن عامر نامى شخص سے شادى كى ليكن تھوڑے ہى عرصہ كے بعد عتيق فوت ہوگيا اور جناب خديجہ كے لئے بہت زيادہ ماں و دولت چھوڑ گيا_ آپ نے ايك مدت تك شوہر نہيں كيا ليكن بنى تميم كے ايك بڑے آدمى ہند بن بناس سے آپ نے بعد ميں شادى كرلي، ليكن يہ مند بھى جوانى كے عالم ميں فوت ہوگيا اور جناب خديجہ كے لئے كافى ثروت چھوڑ گيا_
ايك ايسى بات كہ جس سے جناب خديجہ كى بزرگى اور بلند ہمتى اور آزادى اور
----------
1) الروض الانف_ ج 2 _ ص 213_
18
استقلال نفس كا اندازہ لگايا جاسكتا ہے وہ يہ ہے كہ جناب خديجہ كو پہلے شوہر اور دوسرے شوہر سے جو بے پناہ دولت ملى تھى اسے آپ نے يوں ہى روك نہيں ركھا تھا اور نہ ہى اسے ربا، اور سود پر اٹھا ديا تھا كہ جو اس زمانے ميں مروج اور عام كار و ربار شمار ہوتا تھا بلكہ آپ نے اسے تجازت ميں لگا ديا اور اس كے لئے آپ نے ديانت دار افراد كو ملازم ركھا اور ان كے ذريعہ سے تجارت كرنى شروع كردي_ آپ نے جائز تجازت كے ذريعے بہت زيادہ دولت كمائي، لكھا ہے كہ ہزاروں اونٹ آپ كے نوكروں كے ہاتھوں ميں تھے كہ جن سے وہ مصر، شام، حبشہ ميں تجارت كرتے تھے_ (1)
ابن ہشام لكھتے ہيں كہ جناب خديجہ ايك شريف اور مالدار عورت تھيں وہ ايسى سرمايہ دار تھيں كہ جو تجارت كيا كرتى تھيں، بہت سے افراد ان كے يہاں ملازمت كرتے تھے، جو آپ كے لئے تجارت كيا كرتے تھے_ (2)
يہ واضح رہے كہ اتنے بڑے كار و بار كو چلانا اور وہ بھى اس زمانے ميں اور بالخصوص جريرہ العرب ميں كوئي معمولى كام نہ تھا اور وہ بھى ايك عورت كے لئے اور اس زمانے ميں جب كہ عورتيں تمام اجتماعى حقوق سے محروم تھيں اور بہت سنگدل مرد اپنى بے گناہ لڑكيوں كو زندہ دفن كرديتے تھے، لامحالہ يہ بزرگوار عورت ايك غيرعادى ذہن اور شخصيت اور استقلال نفسانى كى مالك ہونى چاہيئے كہ جس كے پاس كافى معلومات ہوں گے تا كہ وہ اتنى بڑى وسيع و عريض تجارت كو چلاسكے_
-------------------
1) بحار الانوار_ 16_ ص 22_
2) سيرة بن ہشام_ ج1 _ ص 199_
19
مستقل مزاج عورت
جناب خديجہ كى روشنى زندگى كا برجستہ نكتہ آپ كا جناب رسول خدا(ص) سے ازدواج كا قصّہ ہے، جب آپ كے پہلے اور دوسرے شوہر وفات پاگئے تو آپ ميں ايك مستقل مزاجى اور مخصوص قسم كى آزادى پيدا ہوگئي، آپ عاقل ترين اور رشيد ترين مردوں سے جو تجارت ميں ماہر تھے شادى كرنے پر بھى حاضر نہيں ہوتى تھيں حالانكہ آپ سے شادى كرنے كے خواشمندوں ميں خاندانى لحاظ سے نجيب اور بہت زيادہ سرمايہ دار ہوتے تھے اور اس بات پر تيار تھے كہ آپ كے لئے بہت زيادہ گراں مہر ادا كر كے بھى شادى كرليں ليكن آپ بہت سختى سے شادى كى مخالفت كيا كرتى تھيں_ ليكن دلچسپ و جاذب نظر نكتہ يہ ہے كہ يہى خديجہ جو اشراف عرب اور سرمايہ داروں سے شادى كرنے پر تيار نہ ہوتى تھيں، كمال شوق اور فراخ دلى سے جناب محمد(ص) كے ساتھ جو يتيم اور تہى دست تھے شادى كرليتى ہيں_
جناب خديجہ ان عورتوں ميں سے نہ تھى كہ جس كا چاہنے والا كوئي نہ ہو بلكہ تاريخ سے معلوم ہوتا ہے كہ آپ كے خواستگار بڑى شخصيت كے مالك اور معزز لوگ تھے بلكہ بادشاہ اور سرمايہ دار آپ كے پاس شادى كرنے كى خواہش لے كر آتے اور آپ ان سے شادى كرنے پر راضى نہ ہوتى تھيں، ليكن پيغمبر اسلام عليہ اسلام كے ساتھ ازدواج كرنے پر نہ فقط راضى ہوئيں بلكہ خود انہوں نے بہت زيادہ اصرار اور علاقہ مندى سے اس كى پيش كش كى اور حق مہر كو بھى اپنے مال سے ہى قرار ديا جاب كہ يہى چيز آپ كے لئے استہزاء اور سرزنش كا باعث بھى بني_
جب كہ ديكھا يہ جاتا ہے كہ عورتيں اكثر مال اور زندگى كى آرائشے اور تجملات سے بہت

20
زيادہ دلچسپى ركھتى ہيں اور ان كى انتہائي خواہش ہوتى ہے كہ مال دار اور آبرومند شوہر انہيں نصيب ہوتا كہ اس كے گھر ميں آرام اور عيش اور نوش كى زندگى كى بسر كريں تو يہ چيز واضح ہوجاتى ہے كہ جناب خديجہ شادى كرنے ميں كوئي اعلى فكر اور سوچ ركھتى تھيں اور كسى غير معمولى برجستہ شوہر كے انتظار ميں تھيں، معلوم ہوتا ہے كہ جناب خديجہ مال دار شوہر نہيں چاہتى تھيں بلكہ وہ كسى روحانى لحاظ سے برجستہ شخصيت كى تلاش ميں تھيں كہ جو اس جہاں كو بدبختى اور جہالت كے گرداب سے نجابت دينے والا ہو_
تاريخ ہميں بتلاتى ہے كہ جناب خديجہ نے بعض دانشمندوں سے سن ركھا تھا كہ جناب محمد (ص) پيغمبر آخرالزمان ہوں گے اور آپ كو اس مطلب سے عقيدت بھى ہوچكى تھى جب آپ نے جناب محمد(ص) كو اپنى تجارت كا امين منتخب كيا اور شايد ايسا بھى امتحان لينے كے لئے كيا ہو تا كہ دانشمندوں كى پيش گوئي كو اس ذريعے سے آزما سكيں تو اپنے غلام ميرہ كو تجارت كے سفر كا ناظر قرار ديا اور اس غلام نے آكر اس سفر كے دوران جنا ب محمد(ص) كے واقعات اور حوادث عجيبہ كو جناب خديجہ كے سامنے نقل كيا تب اس نجيب اور شريف عورت نے اپنى مطلوب كو گمشدہ شخصيت اور متاع كو پاليا تھا اسى لئے جناب خديجہ نے خود آنحضور(ص) كے سامنے اظہار كرديا كہ اے محمد(ص) ميں نے تجھے شريف اور امين اور خوش خلق اور سچا پايا ہے ميرى خواہش ہے كہ ميں آپ سے شادى كروں_
جناب محمد(ص) نے اس واقعہ كا ذكر اپنے چچاوں سے كيا وہ خواستگارى كى غرض سے جناب خديجہ كے چچا كے پاس گئے اور اپنے مقصد كا ايك خطبے كے درميان اظہار كيا، جناب خديجہ كے چچا ايك دانشمند انسان تھے چاہتے تھے كہ اس كا جواب ديں، ليكن اچھى طرح بات نہ كرسكے تو خود جناب خديجہ فرط شوق سے فصيح زبان سے

21
گويا ہوئيں اور كہا اے چچا گرچہ آپ گفتگو كرنے ميں مجھ سے سزاوارتر ہيں ليكن آپ مجھ سے زيادہ صاحب اختيار نہيں ہيں اس كے بعد كہنے لگيں:
اے محمد(ص) ميں اپنى تزويج آپ سے كر رہى ہوں اور اپنا حق مہر ميں نے اپنے ماں ميں قرار ديا ہے آپ اپنے چچا سے كہہ ديں كہ عروسى كے وليمہ كے لئے اونٹ ذبح كريں _ (1)
تاريخ كہتى ہے كہ جناب خديجہ نے اپنے چچازاد بھائي ورقہ ابن نوفل كو واسطہ قرار ديا تا كہ وہ آپ كى شادى جناب محمد(ص) سے كراديں_ جب ورقہ نے جناب خديجہ كو يہ بشارت سنائي كہ ميں نے جناب محمد(ص) اور ان كے رشتہ داروں كو آپ سے شادى كرنے پر راضى كرليا ہے تو جناب خديجہ نے اس كى اس بہت بڑى خدمت پر اسے ايك خلعت عطا كيا كہ جس كى قيمت پانچ سوا شرفى تھي_
جب جناب محمد(ص) آپ كے گھر سے باہر نكلنے لگے تو جناب خديجہ نے عرض كى كہ ميرا گھر آپ كا گھر ہے اور ميں آپ كى كنيز ہوں، آپ جس وقت چاہيں اس گھر ميں تشريف لائيں _(2)
پيغمبر عليہ السلام كے لئے يہ شادى بہت اہميت كے حال تھى كيونكہ ايك طرف تو آپ خود فقير اور خالى ہاتھ تھے ، اسى وجہ سے، اور دوسرى بعض وجوہ سے آپ بچپن سال كى عمر تك شادى نہ كرسكے تھے، اور دوسرى طرف آپ كے پاس كوئي گھر نہ تھا اور تنہا تھا اور تنہائي كا آپ كو احساس ہوا كرتا تھا، اس مبارك شادى سے آپ كا فقر دور ہوگيا اور آپ كو ايك بہترين مشير و غمگسار بھى مل گيا_
-----------
1) تذكرة الخواص_ ص 202_ بحارالانوار _ ج16 ص 14_
2) بحارالانوار_ ج 16_ ص 65_
22
فداكار عورت
جى ہاں جناب محمد صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور جناب خديجہ نے باصفا اور گرم زندگى كى بنياد ڈالي_
پہلى عورت جو جناب رسول خدا(ص) پر ايمان لائيں جناب خديجہ تھيں، اس باعظمت خاتون نے تمام مال اور بے حساب ثروت كو بغير كسى قيد اور شرط كے جناب رسولخدا(ص) كے اختيار ميں دے ديا، جناب خديجہ ان كوتاہ فكر عورتوں ميں سے نہ تھيں جو معمولى مال اور استقلال كے ديكھنے سے اپنے شوہر كى پر واہ نہيں كرتيں اور اپنے مال كو شوہر پر خرچ كرنے سے دريغ كرتى ہيں_ جناب خديجہ پيغمبر عليہ السلام كے عالى مقصد سے باخبر تھيں اور آپ سے عقيدت بھى ركھتى تھيں لہذا اپنے تمام مال كو آنحضرت(ص) كے اختيار ميں دے ديا اور كہا كہ آپ جس طرح مصلحت ديكھيں اس كو خدا كے دين كى ترويج اور اشاعت ميں خرچ كريں_
ہشام نے لكھا ہے كہ جناب رسول خدا(ص) كو جناب خديجہ سے بہت زيادہ محبت تھى آور آپ ان كااحترام كرتے تھے اور اپنے كاموں ميں ان سے مشورہ ليتے تھے وہ اور رشيد اور روشن فكر خاتون آپ كے لئے ايك اچھا وزير اور مشير تھيں پہلى عورت جو آپ پر ايمان لائيں جناب خديجہ تھيں، جب تك آپ زندہ رہيں جناب رسول خدا(ص) نے دوسرى شادى نہيں كي_ (1)
جناب رسول خدا(ص) فرمايا كرتے تھے كہ جناب خديجہ اس امت كى عورتوں ميں سے بہترين عورت ہيں_ (2)
-------------
1), 2) تذكرة الخواص سبط ابن جوزي_ چھاپ نجف 1382_ ص 302_
23
جناب عائشےہ فرماتى ہيں كہ جناب پيغمبر عليہ السلام جناب خديجہ كا اتنى اچھائي سے ذكر كرتے تھے كہ ايك دن ميں نے عرض كر ہى ديا كہ يا رسول اللہ (ص) خديجہ ايك بوڑھى عورت تھيں اللہ تعالى نے اس سے بہتر آپ كو عطا كى ہے_ پيغمبر اسلام(ص) غضبناك ہوئے اور فرمايا خدا كى قسم اللہ نے اس سے بہتر مجھے عطا نہيں كي، خديجہ اس وقت ايمان لائيں جب دوسرے كفر پر تھے، اس نے ميرى اس وقت تصديق كى جب دوسرے ميرى تكذيب كرتے تھے اس نے بلاعوض اپنا مال ميرے اختيار ميں دے د يا جب كہ ميرے مجھے محروم ركھتے تھے، خدا نے ميرى نسل اس سے چلائي _ __جناب عائشےہ كہتى ہيں كہ ميں نے مصمم ارادہ كرليا كہ اس كے بعد خديجہ كى كوئي بر ائي نہيں كروں گى _(1)
روايات ميں وارد ہوا ہے كہ جب جبرئيل پيغمبر(ص) پر نازل ہوتے تھے تو عوض كرتے تھے كہ خدا كا پيغام جناب خديجہ كو پہنچا ديجئے اور ان سے كہہ ديجئے كہ بہت خوبصورت قصر بہشت ميں تمہارے لئے بنايا گيا ہے_ (2)

اسلام كا پہلا خانوادہ
اسلام ميں پہلا گھر اور كنبہ كہ جس كى بنياد پڑى وہ جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم اور خديجہ كا گھر تھا، اس گھر كا خانوادہ تين افراد پر مشتمل تھا_ جناب رسول خدا(ص) ، جناب خديجہ اور حضرت على عليہ السلام، يہ گھر انقلاب اسلامى كہ جو عالمى انقلاب كامركز تھا اس پر بہت زيادہ ذمہ دارى عايد ہوتى تھى اس كے وظائف بہت زيادہ سخت تھے كيونكہ اسے كفر اور بت پرستى سے نبرد آزما ہونا تھا_
----------
1) تذكرة الخواص_ ص 303_
2) تذكرة الخواص_ ص 302_
24
توحيد كے دين كو دنيا ميں پھيلانا تھا، تمام عالم ميں ايك گھر سے سوا اور كوئي اسلامى گھر موجود نہ تھا، ليكن توحيد كى پہلى چھاونى كے فداكار سپاہيوں كا مصمم يہ ارادہ تھا كہ دينا (والوں) كے دلوں كو فتح كر كے ان پر عقيدہ توحيد كا پرچم لہرائيں گے_ يہ طاقتور چھاؤنى ہر قسم سے ليس اور مسلح تھي، جناب رسول خدا(ص) ان كے سردار تھے كہ جن كے متعلق اللہ تعالى فرماتا ہے كہ اے محمد (ص) تو خلق عظيم كا مالك ہے _(1)
آپ جناب خديجہ كو بہت چاہتے تھے اور ان كااحترام كرتے تھے، يہاں تك كہ ان سہيليوں كو معزز سمجھتے تھے_
انس كہتے ہيں كہ جب كبھى آپ(ص) كے لئے ہديہ لايا جاتا تھا تو آپ(ص) فرماتے كہ اسے فلاں عورت كے گھر لے جاؤ كيونكہ وہ جناب خديجہ كى سہيلى تھيں_ (2)
اس گھر كى داخلى مدير اور سردار جناب خديجہ تھيں وہ جناب رسول خدا(ص) كے مقصد اور مقدس ہدف پر پورا ايمان ركھتى تھيں اور اس مقدس ہدف تك پہنچنے كے لئے كسى بھى كوشش و فداكارى سے دريغ نہيں كرتى تھيں_ اپنى تمام دولت كو جناب رسول خدا(ص) كے اختيار ميں دے ركھا تھا اور عرض كيا تھا كہ يہ گھر اور اس كا تمام مال آپ كا ہے اور ميں آپ كى كنيز اور خدمت گزار ہوں مصيبت كے وقت جناب رسول خدا(ص) كو تسلى ديا كرتيں، اور ہدف تك پہنچنے كى اميد دلايا كرتيں، اگر كفار آپ كو آزار اور تكاليف پہنچاتے اور آپ گھر ميں داخل ہوتے تو آپ(ص) جناب خديجہ كى محبت اور شفقت كى وجہ سے تمام پريشانيوں كو فراموش كرديتے تھے، سخت حوادث او رمشكلات ميں اس باہوش اور رشيد خاتون سے مشورہ كيا كرتے تھے_
----------
1) سورہ قلم آيت 4_
2) سفينة البحار_ ج 1_ ص 380_
25
جى ہاں اس مہر و محبت كے ماحول كے بعد پيغمبر(ص) كا ارادہ مستحكم ہوجاتا تھا، اس قسم كے فداكار ماں باپ كے باصفا گھر اور گرم خانوادگى ميں جناب فاطمہ زہراء سلام اللہ عليہا متولد ہوئيں_

آسمانى دستور
ايك دن جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم ابطح ميں بيٹھے ہوئے تھے كہ جبرئيل نازل ہوئے اور عرض كى كہ خداوند عالم نے آپ پر سلام بھيجا ہے اور فرمايا ہے كہ چاليس دن رات آپ جناب خديجہ سے عليحدگى اختيار كرليں اور عبادت اور تہجد ميں مشغول رہيں، پيغمبر اسلام(ص) اللہ تعالى كے حكم كے مطابق چاليس دن تك جناب خديجہ كے گھر نہ گئے اور اس مدت ميں رات كو نماز اور عبادت ميں مشغول رہتے تھے اور دن ميں روزے ركھتے تھے_
آپ(ص) نے عمار كے توسط سے جناب خديجہ كو پيغام بھيجا كہ اے معزز خاتون ميرا تم سے كنارہ كشى كرنا كسى دشمنى اور كدورت كى وجہ سے نہيں ہے تم پہلے كى طرح ميرے نزديك معزز اور محترم ہو بلكہ اس عليحدگى اور كنارہ گيرى ميں پروردگار كے حكم كى پيروى كر رہا ہوں، خدا مصالح سے آگاہ ہے اے خديجہ تم بزرگوار خاتون ہو اللہ تعالى ہر روز كئي مرتبہ تيرے وجود سے اپنے فرشتوں پر فخر كرتا ہے، رات كو گھر كا دروازہ بند كر كے اپنے بستر پر آرام كيا كرو ميں اللہ كے حكم كا منتظر ہوں ميں اس مدت ميں فاطمہ بنت اسد كے گھر رہوں گا_
جناب خديجہ پيغمبر اسلام(ص) كى ہدايات كے مطالق عمل كرتيں، ليكن اس مدت ميں اپنے محبوب كى جدائي ميں غمگين رہتے ہوئے رويا كرتيں_
جب اسى طرح چاليس دن مكمل ہوگئے تو اللہ تعالى كى طرف سے فرشتہ نازل ہوا

26
اور بہشت سے غذا لايا او رعرض كى آج رات اس بہشتى غذا كو تناول كيجئے_ رسول خدا(ص) نے اس روحانى اور بہشتى غذا سے ا فطار كيا جب آپ نماز اور عبادت كے لئے كھڑے ہوئے تو جبرئيل نازل ہوئے اور عرض كى اے رسول اكرم (ص) آج رات مستحبى نماز كو رہنے ديجئے اور جناب خديجہ كے پاس تشريف لے جايئےيونكہ اللہ تعالى نے ارادہ كر ركھا ہے كہ آپ صلب سے ايك پاكيزہ بچہ خلق فرمائے_
پيغمبر اكرم(ص) جلدى ميں جناب خديجہ كے گھر كى طرف روانہ ہوے_ جناب خديجہ فرماتى ہيں كہ اس رات بھى ميں حسب معمول دروازہ بند كر كے اپنے بستر پر آرام كر رہى تھى كہ اچانك دروازہ كھٹكھٹائے ، پيغمبر عليہ السلام كى دلنشين آواز ميرے كانوں ميں آئي كہ آپ فرما رہے تھے كہ دروازہ كھولو، ميں محمد(ص) ہوں، ميں نے جلدى سے دروازہ كھولا آپ خندہ پيشانى كے ساتھ گھر ميں داخل ہوئے اور بہت زيادہ وقت نہيں گزرا تھا كہ فاطمہ سلام اللہ عليہا كا نور باپ كے صلب سے ماں كے رحم ميں منتقل ہوا _ (1)

حمل كا زمانہ
جناب خديجہ ميں آ ہستہ آہستہ حاملہ ہونے كے آثار نمودار ہونے لگے اور خديجہ كو تنہائي كے درد و رنج سے نجات مل گئي اور آپ اس بچے سے جو آپ كے شكم مبارك ميں تھا مانوس رہنے لگيں_
امام جعفر صادق عليہ السلام فرماتے ہيں كہ جب سے جناب خديجہ نے جناب رسولخدا(ص)
------------
1) بحارالانوار_ ج 16 ص 78_

27
سے شادى كى تھى تب سے مكّہ كى عورتوں نے آ پ سے روابط آمد و رفت اور سلام و دعا ختم كرديئے تھے اور ان كى يہ كوشش ہوتى تھى كہ آپ كے گھر ميں كوئي بھى عورت نہ آنے پائے مكّہ كى بڑى شخصيت كى مالك خواتين نے جناب خديجہ كو تنہا چھوڑ كر آپ سے الفت و محبت كو ختم كردى تھى اسى وجہ سے آپ اندوہناك اور غمناك رہتى تھيں اور آہستہ آہستہ آپ تنہائي كے غم سے نجات مل گئي تھى اور آپ اس بچے سے جو آپ كے شكم مبارك ميں تھا مانوس رہنے لگيں تھيں اور اسى سے راز و نياز كر كے خوش وخرم رہتى تھيں_
جناب جبرئيل حضرت محمد(ص) اور جناب خديجہ كو بشارت دينے كے لئے نازل ہوئے او ركہا يا رسول اللہ وہ بچہ كہ جو جناب خديجہ كے شكم مبارك ميں ہے وہ ايك با عظمت لڑكى ہے كہ جس سے تيرى نسل قائم رہے گى اور وہ دين كے ان پيشواؤں اور اماموں كى كہ جو وحى كے خاتمے كے بعد تيرے جانشين ہوں گے ماں ہوگي_ جناب رسول صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے اللہ تعالى كى اس بشارت كو جناب خديجہ سے بيان كيا اور اس خبر سے جو دل كو خوش كرنے والى تھى آپ كو خشنود كيا_(1)
جى ہاں وہ خديجہ كہ جس نے توحيد اور خداپرستى كے لئے اپنا سب كچھ قربان كرديا تھا اور ہر قسم كى محرومى اور سختى كو برداشت كر نے پر تيار ہوگئي تھيں اور اپنى بے پناہ دولت كو اسى مقدس غرض كے لئے وق كر ركھا تھا اپنے دوست اور غمگسار چھوڑ چكى تھيں، جناب محمد(ص) اور ان كے بزرگ مقدس ہدف كو سوائے اللہ كے ہر چيز پر ترجيح ديتى تھيں، جب آپ نے رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى مبارك زبان سے
-----------
1) دلائل الامامہ_ ص 8_
28
اس قسم كى بشارت سنى كہ جس سے اللہ تعالى نے اسے قسم كى بڑى سعادت سے نوازا كہ جس سے دين كے معصوم پيشوا پيدا ہوں گے تو آپ كا دل خوشى سے باغ باغ ہوگيا_ اور آپ كى فداكارى كى حس كو اس سے زيادہ تحريك ملى اور اپنے خدا اور اس بچے سے جو ان كے شكم مبارك ميں تھا مانوس رہنے لگيں_