مسئلہ ولي عھدي امام رضا (ع) (۱)
 

آج ھماري بحث كا مركز انتھائي اھم مسئلہ ھے وہ ھے مسئلہ امامت و خلافت۔ اس كو ھم حضرت امام رضا عليہ السلام كي ولي عھدي كي طرف لے آتے ھيں۔ تاريخي لحاظ سے يہ مسئلہ بہت بڑي اھميت كا حامل ھے۔ مامون امام رضا عليہ السلام كو مدينہ سے سرزمين خراسان "مرو"ميں لے آيا اور آپ كو اپنا ولي عھد مقرر كر ديا۔ يا ولي عھد دونوں لفظوں كا معني و مفھوم ايك ھي ھے۔ يہ اس دور كي اصطلاح ميں استعمال ھوتا تھا۔ ميں نے چند سال قبل اس مسئلہ پر غور كيا تھا كہ يہ كلمہ كس تاريخ كي پيداوار ھے۔ صدر اسلام ميں تو تھا ھي نھيں۔ جب موضوع ھي نہ تھا تو پھر لغت كيسى؟ پھر يہ بات ميري سمجھ ميں آئي كہ اس قسم كي اصطلاح آنے والے زمانوں ميں استعمال ميں لائي گئي۔ سب سے پھلے معاويہ نے اس اصطلاح كو اپنے بيٹے يزيد كے لئے استعمال كيا، ليكن اس نے اس كا كوئي خاص نام نھيں ركھا تھا، بلكہ اس نے يزيد كےليے بيعت كا لفظ استعمال كيا تھا۔ اس ليے ھم اس لفظ كو اس دور كي پيداوار سمجھتے ھيں۔ امام حسن عليہ السلام كي صلح كے وقت بھي يہ لفظ زير بحث آيا۔ تاريخ كھتي ھے كہ امام عليہ السلام نے خلافت معاويہ كے حوالے كردي اور امام عليہ السلام كے نزديك حاكم وقت كو اپنے حال پہ رھنے دينا ھي وقت كا اھم تقاضا تھا۔ ممكن ھے كہ كچھ لوگ اعتراض كريں كہ اگر امام حسن عليہ السلام نے ايسا كيا ھے تو دوسرے آئمہ كو بھي كرنا چاھيے تھا ايك امام كا اقدام صحيح ھے اور دوسروں كا نھيں؟
امام حسن عليہ السلام اور امام رضا عليہ السلام كو حكام وقت كے ساتھ كسي قسم كا سمجھوتہ نھيں كرنا چاھيے۔ يہ دونوں پرچم جھاد بلند كرتے ھوئے شھيد ھو جاتے تو بھتر تھا؟اب ھم نے انھيں اعتراضات كا جواب دينا ھے۔ تاكہ بدگمانيوں كا خاتمہ ھو اور لوگوں كو حقائق كے بارے ميں پتہ چل سكے۔ امام حسن عليہ السلام كي صلح كے بارے ميں ھم روشني ڈال چكے ھيں ۔ اب ھم امام رضا عليہ السلام كے دور امامت ميں پيش آنے والے تاريخي واقعات كو بيان كرتے ھيں۔ اور ان كے بارے ميں تجزيہ كرتے ھيں كہ آخر كيا وجہ ھے كہ امام رضا عليہ السلام نے مامون كي ولي عھدي قبول فرمائى؟

علويوں كے ساتھ عباسيوں كا رويہ
مامون عباسي سلطنت كا وارث ھے۔ عباسيوں نے شروع ھي ميں علويوں كے ساتھ مقابلہ كيا يھاں تك كہ بھت سے علوي عباسيوں كے ھاتھوں قتل بھي ھوئے ۔ اقتدار كے حصول كے ليے جتنا ظلم عباسيوں نے علويوں پر كيا اور امويوں سے كسي صورت ميں كم نہ تھا بلكہ ايك لحاظ سے زيادہ تھا۔ چونكہ اموي خاندان پر واقعہ كربلا كي ذمہ داري عائد ھوتي ھے اس ليے امويوں كو ظالم ترين تصور كيا جاتا ھے۔ عباسيوں نے جتنا ظلم علويوں پر كيا ھے وہ بھي اپني جگہ پر بہت زيادہ تھا، دوسرے عباسي خليفہ نے شروع شروع ميں اولاد امام حسين (ع) پر بيعت كے بھانے سے حد سے زيادہ مظالم كئے ۔ بھت سے سادات كو چن چن كر قتل كيا گيا۔ كچھ زندانوں ميں قيد و بندي كي صعوبتيں برداشت كرتے رھے۔ ان بيچاروں كو كھانے پينے كےلئے نھيں ديا جاتا تھا۔ بعض سادات پر چھتيں گرا كر ان كو شھيد كيا جاتا تھا۔ وہ كونسا ظلم تھا جو عباسيوں نے سادات پر روانہ ركھا۔ منصور كے بعد جو بھي خليفہ آيا اس نے اس پاليسي پر عمل كيا۔ مامون كے دور ميں پانچ چھ سيد زادوں نے انقلابي تحريكيں شروع كيں۔ ان كو مروج الذھب، مسعودى، كامل ابن اثير ميں تفصيل كےساتھ بيان كيا گيا ھے۔ تاريخ كي بعض كتب ميں تو سات آٹھ انقلابي شھزادوں كا ذكر ملتا ھے ۔
عباسيوں اور علويوں كے درميان دشمني بغض وكينہ كي حد تك چلي گئي تھي۔ كرسي خلافت كے حصول كيلئے عباسيوں نے ظلم كي انتھا كر دى، يھاں تك كہ اگر عباسي خاندان كا كوئي فرد عباسي خلافت كا مخالف ھوجاتا تو اس كو بھي فوراً قتل كر ديا جاتا۔ ابو مسلم عمر بھر عباسيوں كے ساتھ وفاداريوں كا حق نبھاتا رہا ليكن جو نھي اس كے بارے ميں خطرے كا احساس كيا تو اسي وقت اس كا كام تمام كر ديا۔ برمكي خاندان نے ھارون كے ساتھ وفا كي انتھا كردي تھي ۔ انھوں نے اس كي خاطر غلط سے غلط كام بھي كئے اور ان دونوں خاندانوں كي دوستي تاريخ ميں ضرب المثل كا درجہ ركھتي ھے ۔ ليكن ايك چھوٹے سے سياسي مسئلہ كي وجہ سے اس نے يحييٰ كو مروا ديا اور اس كے خاندان كو چين سے رھنے نہ ديا تھا۔ پھر ايسا وقت بھي آيا يھي مامون اپنے بھائي امين كے ساتھ الجھ پڑا۔ سياسي اختلاف اتنا بڑھا كہ نوبت لڑائي تك پھنچ گئي ۔ بالآخر مامون كامياب ھوگيا اور اس نے اپنے چھوٹے بھائي كو بڑي بے دردي كے ساتھ قتل كرديا۔ بدلتا رنگ ھے آسمان كيسے كيسے ۔
پھر حالات نے رخ بدلا، بھت تبديلي آئى، ايسي تبديلي كہ جس پر مورخين بھي حيران ھيں۔ مامون خليفہ امام رضا عليہ السلام كو مدينہ سے بلواتا ھے۔ حضرت كے نام پيغام بھجواتا ھے كہ آپ خلافت مجھ سے لے ليں۔ جب آپ تشريف لاتے ھيں تو كھتا ھے كہ بھتر ھے آپ ولي عھدي ھي قبول فرمائيں اگر نہ كيا تو آپ كے ساتھ يہ يہ سلوك كيا جائے گا۔ معاملہ دھمكيوں تك جاپھنچا۔ يہ مسئلہ اتنا سادا اور آسان نھيں ھے كہ جس آساني كےساتھ بيان كيا جاتا ھے، بھت ھي مشكل حالات تھے۔ امام عليہ السلام ھي بھتر جانتے تھے كہ كونسي حكمت عملي اپنائي جائے ۔
جرجي زيدان تاريخ تمدن كي چوتھي جلد ميں اس مسئلہ پر تفصيل كے ساتھ گفتگو كرتا ھے۔ اس كے بارے ميں ميں بھي تفصيلي بات چيت كروں گا۔ جرجي زيد ايك بات كا اعتراف ضرور كرتا ھے كہ بني عباس كي سياست بھي انتھائي منافقانہ اور خفيہ طرز كي سياست تھي۔ وہ اپنے قريبي ترين عزيزوں اور رشہ داروں سے بھي سياسي داؤ پيچ پوشيدہ ركھتے تھے۔ مثال كے طور پر آج تك اس بات كا پتہ نھيں چل سكا كہ مامون امام رضا عليہ السلام كو اپنا ولي عھد بنا كر كيا حاصل كرنا چاھتا تھا؟ كيا وجہ تھي كہ وہ آل محمد (ع) كے ايك ايسے فرد كو اپنا نائب مقرر كر رھا تھا كہ جو وقت كا امام (ع) بھي تھا اور يہ دل ھي دل ميں خاندان رسالت (ع) كے ساتھ سخت دشمني ركھتا تھا؟

امام رضا (ع) كي ولي عھدي اور تاريخي حقائق
امام رضا عليہ السلام كي ولي عھدي كا مسئلہ راز رھے يا نہ رھے ليكن ملت جعفريہ كے نزديك اس مسئلے كي حقيقت روز روشن كي طرح واضح ھے۔ ھمارے اس موقف كي صداقت كےليے شيعہ مورخين كي روايات ھي كافي ھيں جيسا كہ جناب شيخ مفيد (رح) نے اپني كتاب ارشاد، جناب شيخ صدوق نے اپني كتاب عيون اخبار الرضا ميں نقل كيا ھے ۔ خاص طور پر عيون ميں امام رضا عليہ السلام ھي كي ولي عھدي كے بارے ميں متعدد روايات نقل كي گئي ھيں۔ قبل اس كے ھم شيعہ كتب سے كچھ مطالب بيان كريں۔ اھلسنت كے ابو الفرج اصفھاني كي كتاب مقاتل الطالبين سے دلچسپ تاريخي نكات نقل كرتے ھے، ابو الفرج اپنے عھد كا بہت بڑا مورخ ھے يہ اموي خاندان سے تعلق ركھتا ھے ۔ يہ ايك حقيقت ھے يہ آل بابويہ كے زمانے ميں زندگي بسر كرتا رھا۔ چونكہ يہ اصفھان كا رھنے والا ھے اس ليے اس كو اصفھاني كھا جاتا ھے۔ ابو الفرج سني المذھب ھے۔ شيعوں سے اس كا كسي قسم كا تعلق نھيں ھے۔ اور نہ ھي اس كو شيعوں سے كسي قسم كي ھمدردي تھي۔ پھر يہ شخص كچھ اتنا زيادہ نيك بھي نہ تھا كہ كھيں كہ اس نے تقويٰ اور پرھيز گاري كو سامنے ركھتے ھوئے حقائق كو بيان كيا ھے۔ مشھور كتاب الآغاني كا مصنف بھي يھي ابو الفرج اصفھاني ھي ھے۔ الآغاني اغنيۃ كي جمع ھے اور اس كا معني ھے آوازيں۔
اس كتاب ميں موسيقي كے بارے ميں مكمل تعارف، كوائف اور تاريخ تحقيقي انداز ميں پيش كي گئي ھے۔ اٹھارہ جلدوں پر مشتمل يہ كتاب موسيقي كا انسائيكلوپيڑيا ھے ۔ كھا جاتا ھے كہ ابو الفرج كا ايك ھم عصر عالم صاحب بن عباد سفر پر كھيں بھي جاتا تھا۔ ابو الفرج كي چند كتابيں اس كے ھمراہ ھوتي تھيں۔ وہ كہا كر تھا كہ ابو الفرج كي كتابوں كے ھوتے ھوئے اب مجھے دوسري كتابوں كي ضرورت نہ رھي۔ الآغاني اس قدر جامع اور تحقيقي كتاب ھے كہ اس كو پڑھ كر كسي دوسري كتاب كي احتياج نھيں رھتي ۔ يہ موضوع كے اعتبار سے منفرد كتاب ھے۔ اس ميں موسيقي اور موسيقي كاروں كے بارے ميں پوري وضاحت كے ساتھ گفتگو كي گئي ھے۔ علامہ مجلسي (رح)، الحاج شيخ عباس قمي (رح)، نے بھي الآغاني كو الفرج كي تصنيف قرار ديا ھے۔ ھم نے كھا ھے كہ ابو الفرج كي ايك كتاب مقاتل الطالبين ھے (جو كہ كافي مشھور ھے) اس ميں انھوں نے اولاد ابي طالب كے مقتولوں ك تاريخ بيان كي ھے۔ اس ميں اولاد ابي طالب كي انقلابي تحريكوں اور ان كي المناك شھادتوں كے بارے ميں تفصيل كے ساتھ مختلف تاريخي پھلوؤں پر روشني ڈالي گئي ھے۔ شھادت كے اس باب ميں علوي سادات كي اكثريت ھے۔ البتہ كچھ غير علوي بھي شھيد ھوئے ھيں۔ اس نےكتاب كے دس صفحے امام رضا عليہ السلام كي ولي عھدي كے ساتھ خاص كيے ھيں۔ اس كتاب كا جب ھم مطالعہ كرتے ھيں۔ تو ديكھتے ھيں كہ اس كے مطالب اور شيعہ قلمكاروں كي تحريريں اس موضوع كي بابت تقريباً ايك جيسي ھيں۔
آپ ارشاد كا مطالعہ كرليں اور مقاتل الطالبين كو پڑھ ليں ان دونوں كتابوں مين آپ كو كچھ زيادہ فرق محسوس نھيں ھوگا۔ اس ليے ھم شيعہ سني حوالوں سے اس مسئلہ پر بحث كريں گے ليكن اس سے قبل ھم آتے ھيں مامون كي طرف وہ كونسا عامل تھا كہ جس كي وجہ سے وہ امام رضا عليہ السلام كو ولي عھدي بنانے پر تيار ھوا؟اگر تو اس نے يہ سوچا كہ ھوسكتا ھے كہ وہ مرجائے يا قتل ھوجائے تو جانے سے پھلے خلافت امام رضا عليہ السلام كے سپرد كر جائے۔ ھم اس كو اس ليے نھيں مانيں گے كہ اگر اس كي امام عليہ السلام كے بارے ميں اچھي نيت ھوتي تو وہ ان كو زھر دے كر شھيد نہ كرتا۔ شيعوں كے نزديك اس قول كي كوئي اھميت نھيں ھے كہ مامون امام كے بارے ميں اچھي نيت ركھتا تھا، بعض مورخين نے مامون كو شيعہ كے طور پر تسليم كيا ھے كہ وہ آل علي عليہ السلام كا بحد احترام كرتا تھا ليكن سوال يہ ھے كہ اگر وہ واقعي ھي مخلص، مومن تھا تو اپني خلافت سے دست بردار ھو كر اس نے مسند خلافت امام عليہ السلام كے سپرد كيوں نہ كر دى؟اگر وہ سادات كا محبّ تھا تو امام عليہ السلام كو زھر كيوں دى؟

مامون اور تشيع
مامون ايك ايسا حكمران ھے كہ جس كو ھم خلفاء سے بڑھ كر بلكہ پوري دنيا كے حكمران سے بڑھ كر عالم، دانشور مانتے ھيں۔ وہ اپنے دور كا نابغہ انسان تھا۔ يہ ايك عجيب اتفاق ھے كہ وہ فكري و نظرياتي لحاظ سے مذھب شيعہ سے زيادہ متاثر تھا۔ شايد يھي وجہ ھے كہ وہ امام عليہ السلام كے علمي ليكچرز ميں باقاعدگي كے ساتھ شركت كرتا تھا۔ وہ سني علماء كے دروس ميں بھي جاتا تھا۔ اھل سنت كے ايك معروف عالم ابن عبدالبر بيان كرتے ھيں كہ ايك روز مامون نے چاليس سني علماء كو ناشتے پر بلايا اور ان كو بحث و مباحثہ كي بھي دعوت دي۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آقائے محمد تقي شريعتي نے اپنے كتاب خلافت و ولايت ميں نقل كرتے ھوئے كھا ھے كہ جس خوبصورتي كے ساتھ مامون نے مسئلہ خلافت پر دلائل ديئے ھيں اتنے كسي اور عالم نے نھيں ديئے ھوں گے۔ مامون نے علماء كےساتھ خلافت امير المومنين پر بحث مباحثہ كيا اور سب كو مغلوب كر ديا۔
شيعہ روايات ميں آيا ھے اور جناب سيخ عباس قمي (رح) نے بھي اپني كتاب منتھي الآمال ميں لكھا ھے كہ كسي نے مامون سے پوچھا كہ آپ نے شيعہ تعليمات كس سے حاصل كي ھيں؟ كھنے لگا والد ہارون سے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ كھنا چاھتا تھا كہ ہارون بھي مذھب شيعہ كو اچھا اور برحق مذھب سمجھتا تھا۔ وہ امام موسيٰ كاظم عليہ السلام كے ساتھ ايك خاص قسم كي عقيدت ركھتا ھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ميں اپنے بابا سے كھا كرتا تھا كہ ايك طرف آپ امام عليہ السلام سے محبت كا دم بھرتے ھيں اور دوسرے طرف ان كو روحاني و جسماني اذيتيں بھي ديتے ھيں؟ تو وہ كھا كرتا تھا "الملك عقيم" عرب ميں ايك ضرب المثل ھے كہ اقتدار بيٹے كو نھيں پھچانتا، تو اگر چہ ميرا بيٹا ھے ليكن ميں يہ ھرگز برداشت نہ كروں گا كہ تو ميري حكومت كے خلاف ذرا بھر اقدام كرے۔ حكومت، كرسي اور اقتدار كي خاطر ميں تيرا سر قلم كرسكتا ھوں۔ مامون آئمہ كا دشمن تھا اس ليے اس كو شيعہ كھنا زيادتي ھوگى، يا پھر وہ كوفہ والوں كي مانند بے وفا تھا جو امام حسين عليہ السلام كو دعوت دے كر اپنا عھد توڑ بيٹھے اور يزيدي قوتوں كے ساتھ مل گئے۔
اس ميں كوئي شك نھيں ماموں ظالم تھا ليكن اس علم كا كيا فائدہ جو اسے استاد كي تعظيم كا درس بھي نہ دے۔ كچھ مؤرخين كا كھنا ھے كہ ماموں نے خلوص نيت سے امام رضا عليہ السلام كو حكومت كي دعوت دي تھي اور امام عليہ السلام كي موت طبعي تھي۔ ليكن ھم شيعہ اس بات كو ھرگز تسليم نھيں كرتے مصلحت وقت كے مطابق آپ نے ولي عھدي كو قبول فرمايا تھا۔ اس كا مقصد يہ نھيں ھے كہ امام عليہ السلام مامون كي حكومت كو حق مانتے اور جانتے ھوں امام عليہ السلام ايك روز بھي مسند حكومت پر نھيں بيٹھے۔ يو نھي وقت ملا آپ علوم اسلامي كي ترويج كرتے، غريبوں اور بے نواؤں كي خدمت كرتے۔ رھي بات مامون كي تو حكومت اور اقتدار كے بھوكے يہ خليفے كسي سے مخلص نہ تھے۔ انھوں نے سياسي مفادات كي خاطر بڑے بڑے مخلص دوستوں كو قتل كروا ديا تھا يھاں تك كہ اپني اولاد پر بھي اعتبار نہ كيا۔

شيخ مفيد و شيخ صدوق كي آراء
ايك اور مفروضہ كہ جسے جناب شيخ مفيد (رح) اور جناب شيخ صدوق (رح) نے تسليم كيا ھے كہ مامون شروع ميں امام رضا عليہ السلام كو اپنا نائب بنانے ميں مخلص تھا ليكن بعد ميں اس كي نيت بدل گئي۔ ابو الفرج، جناب صدوق (رح)، شيخ مفيد (رح) نے اس واقعہ كو تفصيل كے ساتھ بيان كيا ھے۔ مامون كھتا ھے كہ ايك روز مجھے اپنے بھائي امين نے بلوايا (مامون اس وقت امين كا ولي عھد تھا) ليكن ميں نہ گيا۔ كچھ لمحوں كے بعد اس كے سپاھي آئے كہ ميرے ھاتھ باندھ كر مجھے خليفہ امين كے پاس لے جائيں۔ خراسان كے نواحي علاقوں ميں بھت سي انقلابي تحريكيں سر اٹھارھيں تھيں۔ ميں نے اپنے سپاھيوں كو بھيجا كہ ان كے ساتھ مقابلہ كريں ليكن ھميں اس لڑائي ميں شكست ھوئي۔ اس وقت ميں نے تسليم كر ليا كہ اپنے بھائي كا مقابلہ نھيں كرسكتا۔ ايك دن ميں نے خدا سے توبہ كي مامون نے جس شخص كو يہ بات بتائي وہ اس كو اس كمرے ميں لے گيا كہ ميں نے اس كمرے كو دھلوايا پاك وپاكيزہ لباس پھنا۔ اور اللہ تعاليٰ سے منت ماني كہ اگر ميں تندرست ھو گيا تو خلافت اس شخص كو دے دوں گا جس كا وہ حقدار ھے۔
اسي جگہ پر جتنا مجھے قرآن مجيد ياد تھا ميں نے پڑھا اور چار ركعتيں ادا كيں۔ يہ كام مين نے انتھائي خلوص كے ساتھ كيا۔ اس عمل كے بعد ميں نے اپنے اندر انھوني سي طاقت محسوس كي۔ اس كے بعد ميں نے كبھي كبھي كسي محاذ پر شكست نھيں كھائي ۔ سيستان كے محاذ پر ميں نے اپني فوج بھيجي وھاں سے فتح و كامياب كي خبر ملي پھر طاھر بن حسين كو اپنے بھائي كے مقابلہ ميں بيجھا وہ بھي كامياب ھوا ۔ مسلسل كاميابيوں كے بعد ميں اللہ سے كيا ھوا وعدہ پورا كرنا چاھتا تھا۔ شيخ صدوق اور ديگر شيعہ مورخين و محدثين نے اس امر كي تائيد كي ھے اور لكھا ھے كہ چونكہ مامون نے نذر ماني تھي اسلئے اس نے امام رضا عليہ السلام كو اپنا ولي عھد مقرر كيا تھا اس كي اور وجہ كوئي نھيں ھے ايك احتمال تو يہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

دوسرا احتمال
دوسرا احتمال يہ ھے كہ يہ اقدام يا يہ سوچ مامون كي طرف سے نہ تھي بلكہ يہ منصوبہ فضل بن سھل نے بنايا تھا۔ اس كے پاس دور عھدوں كا اختيار تھا، اور مامون كا قابل اعتماد وزير تھا (مامون كے ايك وزير كا نام فضل بن سھل تھا يہ دو بھائي تھے دوسرے كا نام حسن بن سھل تھا۔ يہ دونوں خالصتاً ايراني اور مجوسي الاصل تھے) ۔ برمكيوں كے دور ميں فضل تعليم يافتہ اور تجربہ كار سياستدان كے طور پر تسليم كيا جاتا تھا۔ علم نجوم ميں خاصي دسترس ركھتا تھا۔ برمكيوں كے پاس آكر مسلمان ھو گيا۔ مؤرخين نے لكھا ھے كہ اس كا باپ مسلمان تھا۔ بعض نے يہ لكھا ھے كہ يہ سب مجوسي تھے۔ اور انھوں نے اكٹھے ھي اسلام قبول كيا۔ اس كے بعد فضل نے ترقي كي اور چند دنوں كے اندر اندر اسے بہت بڑي وزارت كا قلمدان مل گيا۔ گويا وزير اعظم نامزد ھو گيا اس وقت۔ ميں وزير نہ ھوا كرتے تھے، سب كچھ فضل ھي كے پاس تھا۔ مامون كي فوج اكثريت ايراني تھے۔ عرب فوج نہ ھونے كے برابر تھے۔ اس كي ايك وجہ يہ بھي ھوسكتي ھے كہ چونكہ مامون خراسان ميں تھا اور امين عرب ميں تھا اور ان دونوں كے درميان جنگ جاري رھتي تھي۔
عرب امين كو پسند كرتے تھے اور مامون خراسان ميں رھنے كي وجہ سے ايرانيوں كو پسند تھا۔ مسعودى نے مروج الذھب، التنبيہ والاشراف ميں لكھا ھے كہ مامون كي ماں ايراني تھي۔ اس ليے ايراني قوم اس كو پسند كرتي تھي۔ آھستہ آھستہ حكومت كے تمام تر اختيارات فضل كے پاس منتقل ھوگئے اور مامون كے آلہ كار كے طور پر رہ گيا) فضل نے مامون سے كھا كہ آپ نے اب تك آل علي عليہ السلام پر بے تحاشا مظالم كيے ھيں اب بھتر يہ ھے كہ اولاد علي عليہ السلام ميں اس وقت سب سے افضل شخص امام رضا عليہ السلام موجود ھيں ان كو لے آئيں اور اپنے ولي عھد كے طور پر ان كو متعارف كروائيں۔ مامون دلي طور پر اس پر راضي نہ تھا چونكہ فضل نے بات كي تھي اس ليے وہ اس كو ٹال نہ سكتا تھا اس ليے ھم كھہ سكتے ھيں كہ امام رضا عليہ السلام كا ولي عھدي نامزد كرنا فضل بن سھل كے پرگراموں ميں سے ايك پروگرام تھا۔
اب سوال يہ ھے كہ فضل شيعہ تھا اور حضرت امام رضا عليہ السلام سے عقيدت ركھتا تھا؟يا وہ پرانے مجوسانہ عقائد پر باقي تھا وہ چاھتا تھا كہ خلافت بنو عباس سے لے كر كسي اور كے حوالے كر دے يا وہ خلافت كو كھلونا بنانا چاھتا تھا كيا وہ حضرت امام رضا (ع) كيلئے مخلص تھا يا كہ نھيں؟ اگر يہ فضل كا منصوبہ تھا وہ ماموں سے زيادہ خطرناك ثابت ھوسكتا تھا كيونكہ مامون جيسا بھي تھا كم از كم مسلمان تو تھا۔ يہ بھي ھوسكتا ھے كہ وہ ايران كو دنيائے اسلام كي فھرست سے نكال كر مجوسيت ميں لے جانا چاھتا ھو۔ بھر كيف يہ تھے وہ سوالات جو مختلف جھتوں سے مختلف افراد كي طرف سے اٹھائے گئے۔ ميں يہ كبھي نھيں كھوں گا كہ تاريخ كے پاس ان سوالات كا كوئي حتمي جواب بھي ھو ۔
ممتاز مورخ جرجي زيدان فضل بن سھل كي صلاحيتوں كا اعتراف كرتے ھوئے كھتا ھے كہ امام رضا عليہ السلام كو ولي عھد بنانا فضل ھي كا كارنامہ ھے، چونكہ فضل ايك شيعہ تھا اس ليے امام رضا عليہ السلام سے محبت ايك فطري امر تھا۔ ليكن ھم جرجي كے اس نظريئے كي اس ليے ترديد كرتے ھيں كہ يہ بات تواريخ كي كتب ميں ثابت نھيں ھوسكي۔ روايات ميں ھے كہ حضرت امام رضا عليہ السلام فضل كے سخت مخالف تھے۔ آپ مامون سے بڑھ كر فضل كي مخالفت كيا كرتے تھے بلكہ اس كو مسلمانوں كے ليے بھت بڑا خطرہ محسوس كرتے تھے كبھي كبھار آپ مامون كو فضل سے خبردار كيا كرتے تھے فضل اور اس كا بھائي در پردہ امام رضا عليہ السلام كے خلاف سازشيں كيا كرتے تھے۔ چناچہ يھاں پر دو احتمال ھمارے سامنے آتے ھيں۔ ايك يہ كہ ولي عھدي كا پروگرام مامون كا ايجاد كردہ تھا اور مامون منت كو پورا كرتے ھوئے مولا رضا عليہ السلام كو خلافت دينا چاھتا تھا اس كے بعد اس نے يہ ارادہ ترك ولي عھدي بنانے كا پروگرام بناليا۔
شيخ صدوق اور ھمارے دوسرے علماء نے اس نظريہ كو تسليم كيا ھے ۔ دوسرا احتمال يہ ھے كہ سارا منصوبہ فضل بن سھل كا تيار كردہ تھا۔ بعض مؤرخين كھتے ھيں كہ فضل ايك مخلص ترين شيعہ تھا اور بعض كا كھنا ھے كہ نھيں وہ ايك بد باطن شخص تھا اور اس كے عزائم انتھائي خطرناك تھے ۔

تيسرا احتمال

الف) شايد ايرانيوں كو خوش كرنا مقصود ھو
ايك احتمال اور ھے كہ ولي عھدي كا پروگرام درحقيقت، مامون ھي كا تھا۔ مامون شروع ھي سے مخلص نہ تھا وہ سب كچھ سياست اور سازش كے طور پر كر رھا تھا۔ بعض مورخين نے لكھا ھے كہ چونكہ ايراني قوم شيعہ تھي اور امام عليہ السلام اور آل محمد (ع) سے دلي عقيدت ركھتے تھے، اس ليے مامون نے ايرانيوں كو اپني طرف متوجہ كرنے اور ان كي ھمدردياں حاصل كرنے كيلئے يہ قدم اٹھايا۔ جس روز مامون نے حضرت رضا عليہ السلام كو اپنا ولي عھد مقرر كيا اس دن اس نے اعلان كيا كہ امام كو رضا كے لقب سے ياد كيا جائے تاكہ ايرانيوں نے نوے سال قبل "الرضا من آل محمد (ع) " كے نام سے انقلابي تحريك شروع كي تھي اس كي ياد تازہ ھوجائے ۔
اپنے آپ سے كھنے لگا كہ پھلے تو ايرانيوں كو راضي كر لوں اس كے بعد امام رضا (ع) كے بارے بھي سوچ لوں گا۔ ايك وجہ اور بھي ھے مامون اٹھائيس (۲۸) سالہ نوجوان تھا اور حضرت كي عمر پچاس سال كے لگ بھگ تھي۔ شيخ صدوق (رح) كے مطابق حضرت كا سن منارك ۴۷سال تھا شايد يھي قول معتبر ھو۔ مامون نے سوچا ھوگا كہ ظاھري طور پر امام كي ولي عھدي ميرے لئے نقصان دہ نھيں ھے كيونكہ امام (ع) بيس سال مجھ سے بڑے ھيں يہ چند سال اور زندہ رھيں گے اور مجھ سے پھلے انتقال كر جائيں گے۔ چانچہ مامون كي سياسي چال تھي كہ امام عليہ السلام كو ولي عھد مقرر كركے ايرانيوں كي ھمدردياں حاصل كرے ۔

ب) علويوں كي انقلابي تحريك كو خاموش كرنا
بعض مورخين نے لكھا ھے كہ مامون نے يہ اقدام علويوں كو خاموش كرنے كيلئے كيا ھے۔ علوي اس وقت بھت زيادہ انقلابي سرگرميوں ميں مصروف تھے اور اس حوالے سے ان كو ملك بھر ميں ايك خاص شھرت حاصل تھي۔ سال ميں چند مرتبہ ملك كے كسي كونے پا گوشے ميں وہ حكومت كے خلاف تحريك شروع كرتے تھے۔ مامون كو علويوں كو راضي كرنے كيلئے يہ اقدام كرنا پڑا۔ اس كو يقين تھا جب وہ آل محمد (ع) ميں كسي محترم فرد كو اپني حكومت ميں شامل كر لے گا ايك تو عوامي رد عمل ميں كمي واقع ھوجائے گي دوسرا وہ اس سے علويوں كو راضي كر لے گا يا وہ اس سے علوي سادات سے اسلحہ لے لے گا۔
جب وہ امام رضا عليہ السلام كو اپنے قريب لے آيا تو بھت سے انقلابيوں كو اس نے معاف كر ديا۔ امام رضا عليہ السلام كے بھائي كو بھي بخش ديا۔ ايك لحاظ سے فضا خوشگوار ھوگئي دراصل يہ اس كي شاطرانہ چال تھي كہ خلافت يا دوستي كا حوالہ دے كر تمام انقلابي تحريكوں اور مسلح تنظيموں كو خاموش كرنے ميں كامياب ھوجائے گا۔ پھر موقع پر ايك ايك كركے انقلابيوں كو ٹھكانے لگا دے گا۔ اب علوي سادات بھي كچھ نھيں كرسكتے تھے اگر كسي قسم كا قدم اٹھاتے تو لوگوں نے كھنا تھا كہ اب وہ اپنے بزرگ اور آقا امام رضا عليہ السلام كے خلاف لڑ رھے ھيں۔

ج) امام رضا (ع) كو نھتا كرنا
ايك احتمال يہ بھي ھے كہ امام رضا عليہ السلام كي ولي عھدي كا منصوبہ مامون ھي نے تيار كيا تھا اس سے وہ سياسي فوائد حاصل كرنا چاھتا تھا، وہ امام رضا عليہ السلام كو نھتا كرنا چاھتا تھا۔ ھماري روايت ميں ھے كہ ايك روز حضرت امام رضا عليہ السلام نے مامون سے فرمايا كہ تمھارا مقصد كيا ھے؟ جيسا كہ آپ لوگ جانتے ھيں كہ جب كوئي فرد منفي سوچ ركھتا ھو اور حكومت وقت پر تنقيد كرتا ھو تو وہ خود كو مضبوط كرنے كي كوشش كرتا ھے يھي حال اقوام عالم كا ھے سب سے پھلے تو حكومتيں قوم كو نھتا كرتي ھيں، جب ان سے ھر قسم كا اسلحہ واپس لے ليا جاتا وہ ناكارہ ھوجاتي ھيں تو پھر ظلم كا بازار كھل جاتا ھے اور اپنے مخالفوں كو ھر طرح سے كچل ديتي ھيں۔ اس وقت عوام كا رخ آل علي عليہ السلام كي طرف تھا۔ لوگوں كي دلي خواھش تھي كہ امام رضا عليہ السلام مضب خلافت پر بيٹھيں اور اس غير آباد دنيا كو آباد كرديں۔ ھر طرف ھريالي ھي ھريالي ھو اور عدل وانصاف كي حكمراني ھو۔ ظلم كي اندھيري رات چھٹ جائے اور عدل كا سويرا ھو۔
ليكن مامون نے امام عليہ السلام كو ولي عھد بنا كر لوگوں كو يہ باور كرانے كي كوشش كي كہ حكومت كے ھاتھ مضبوط ھيں۔ امام عليہ السلام بھي حكومت كے ساتھ ھيں وہ ھر لحاظ سے امام (ع) كونھتا كرنا چاھتا تھا، اس كي كوشش تھي كہ امام (ع) حكومت ميں شامل ھونے كي وجہ سے اپنا ذاتي اثر رسوخ كھو بيھٹيں گے۔ اب تاريخ كے ليے يہ بھي بھت بڑا مسئلہ ھے كہ وہ اس نتيجہ تك پھنچ سكے كہ ولي عھدي كا مسئلہ مامون كا ايجاد كردہ ھے يا فضل كو كوئي منصوبہ تھا؟ پھر اگر فضل كا منصوبہ تھا تو اس كي وجہ كيا ھوسكتي تھى؟ اگر اس كي نيت صحيح تھي تو كيا اپنے موقف پر قائم رھا ھے؟اگر وہ حسن نيت ركھتا تھا تو اس كي سياست كيا تھى؟ تاريخ ان سوالات كا جواب دينے سے قاصر ھے۔ شيخ صدوق (رح) كا موقف تو يہ ھے مامون كي نيت شروع ميں تو ٹھيك تھي ليكن بعد ميں اس كا ارادہ بدل گيا اس كي وجہ انھوں نے يہ بيان كي ھے كہ لوگ جب پريشاني ومشكل سے دوچار ھوتے ھيں تو وہ حق كي طرف لوٹ آتے ھيں اور اچھي اچھي باتيں كرتے ھيں ليكن جب وہ مشكل سے نجات حاصل كر ليتے ھيں تو اپنے كيے ھوئے وعدوں كو بھول جاتے ھيں جيسا كہ ارشاد خداوندي ھے ۔
"فاذا ركبوا في الفلك دعوا اللہ مخلصين لہ الدين فلما نجينھم اليٰ البر اذا ھم يشركون" 30
"پھر جب يہ لوگ كشتي ميں سوار ھوتے ھيں تو نھايت خلوص سے اس كي عبادت كرنے والے بن كر خدا سے دعا كرتے ھيں پھر جب انھيں خشكي ميں (پھنچا كر) نجات ديتا ھے تو فوراً شرك كرنے لگتے ھيں۔"
مامون كو جب مشكلات نے گھيرا تو اس نے يہ منت مان لي تھي ليكن جب وہ مشكلات سے نكل آيا تو سب كچھ بھول گيا۔ بھتر يہ ھے كہ ھم حضرت امام رضا عليہ السلام كے بارے ميں تحقيق كريں اور تاريخ كے مسلمہ مكات پر نظر دوڑائيں تو حقيقت كھل كر عياں ھوجائے گي۔ ميرے خيال ميں اس تحقيق سے مامون كي نيتوں اور منصوبوں كا بھي پتہ لگانا مشكل نہ ھوگا۔

تاريخ كيا كھتي ھے؟

1۔ مدينہ سے امام (ع) كي خراسان ميں آمد
تاريخ نے اس بات كو تسليم كيا ھے كہ امام رضا عليہ السلام كو مدينہ سے (مرو) خراسان بلوانے پر آپ سے مشورہ نھيں كيا گيا تھا۔ گويا آپ اپني مرضي سے نھيں آئے تھے بلكہ لائے گئے تھے۔ مورخين ميں سے ايك نے بھي يہ نھيں لكھا كہ امام كو خراسان لانے سے قبل كوئي خط و كتابت كي گئي ھو۔ يا كسي شخص كے ذريعہ آپ تك پيغام بھجوايا گيا ھو، آپ كو آمد مقصد بالكل نھيں بتايا گيا تھا جب آپ "مرو" ميں تشريف لائے تو پہلي بار مسئلہ ولي عھدي پيش كيا گيا۔ اس طرح امام سميت آل ابي طالب حكومتي اھلكاروں كي نظر ميں تھے، يھاں تك كہ جس راسے سے امام (ع) كو لايا گيا وہ راستہ بھي دوسرے راستوں سے مختلف تھا۔ پہلے ھي سے پروگرام طے پايا تھا كہ امام (ع) كو شيعہ نشين علاقوں سے نہ گزارا جائے۔ كيونكہ بغاوت كا خطرہ تھا ۔ اس ليے مامون نے حكم ديا امام (ع) كو كوفہ كے راستے سے نہ لايا جائے بلكہ بصرہ خوزستان سے ھوتے ھوئے نيشاپور لايا جائے۔ پوليس كے اھل كار حضرت امام رضا عليہ السلام كے ادھر ادھر بہت زيادہ تھے۔ پھر آپ كے دشمنوں، مخالفوں كو آپ ساتھ تعينات كيا گيا۔ سب سے پہلے تو جو پوليس افسر آپ كي نگراني كر رھا تھا وہ مامون كا خاص گماشتہ اور وفادار تھا۔ اس كا نام جلودي تھا۔ امام عليہ السلام سے كينہ و بغض ركھتا تھا، يھاں تك كہ جب مسئلہ ولي عھدي مرو ميں پيش كيا گيا تو اس جلودي نامي شخص نے اس كي سخت مخالفت كي۔ مامون نے اسے خاموش رھنے كو كہا ليكن اس نے كہا كہ ميں اس كي بھر پور مخالفت كروں گا۔ جلودي اور دوسرے آدميوں كو زندان ميں ڈالا گيا پھر اسي مخالفت اور دشمني كي وجہ سے ان كو قتل كرديا گيا۔
(جلودي بہت بي ملعون شخص تھا اس نے مدينہ ميں علويوں كے خلاف جنگ لڑي ليكن اس كو شكست ھوئي۔ ھارون نے اسي جلودي كو حكم ديا تھا كہ آل ابي طالب (ع) كا تمام مال، زيورات اور لباس وغيرہ لوٹ لے۔ يہ سادات كے دروازے پر آيا ليكن امام رضا عليہ السلام نے فرمايا كہ ميں تجھے اندر نھيں جانے دوں گا۔ اس نے بہت اصرار ليا۔ امام (ع) نے فرمايا يہ ھو ھي نھيں سكھتا۔اس نے كہا ميري يہ ڈيوٹي ميں شامل ھے ۔ آپ نے فرمايا تو ادھر ھي ٹھر جا جو كہتا ھے وہ ھم خود ھي تجھے ديتے ھيں۔ اس كے بعد حضرت خود اندر تشريف لے گئے آپ نے بيبيوں سے فرمايا آپ كے پاس جو چيز بھي ھے كپڑے، زيورات وغيرہ وہ سب مجھے دے دو تاكہ ميں جلودي كو دے دوں)
مورخين نے اس كے بارے ميں لكھا ھے كہ ايك روز ھارون نے حضرت امام (ع) اور فضل كي موجودگي ميں جلودي كو اپنے دربار ميں بلوايا اور اس سے كہا كہ اپنے موقف پر نظر ثاني كرے۔ ليكن جلودي اور اس كے ساتھيوں نے كہا كہ ھم سوفي صد اس بات كي مخالفت كريں گے بلكہ ايك شخص نے بد تميزي بھي كي۔ ھارون نے حكم ديا ان ميں سے جو بھي ھماري بات نہ مانے ان كا سر قلم كر ديا جائے۔ چنانچہ دوافراد كو اس وقت قتل كر ديا گيا۔ جلودي كي باري ائي۔ امام رضا عليہ السلام نے ھارون سے فرمايا كہ اسے معاف كر دو ليكن جلودي نے كہا اے امير! ميري آپ سے ايك درخواست ھے وہ يہ ھے كہ اس شخص يعني (امام (ع)) كي سفارش ميرے بارے ميں قبول نہ كيجئے۔ مامون نے كہا تيري قسمت خراب ھے۔ ميں امام (ع) كي سفارش قبول نہيں كرتا۔ اس نے تلوار اٹھائي اس وقت جلودي كو ڈھير كر ديا۔ بھر حال امام رضا عليہ السلام كو خراسان لايا گيا۔ تمام سادات ايك جگہ پر اور امام رضا عليہ السلام ايك جگہ پر ۔ ۔ ۔۔ ۔ ليكن پوليس كے سخت پہروں ميں تھے اس وقت مامون نے كہا آقا ميں آپ كو اپنا ولي عھد مقرر كرنا چاھتا ھوں۔ يہ بات تاريخ كي مسلمہ حقائق ميں سے ھے۔

2- امام رضا عليہ السلام كا انكار
جيسا كہ ھم نے كہا كہ مدينہ ميں حضرت سے ولي عھدي كي بات بھي نہ كي گئي اور نہ اس سے متعلق كوئي مشورہ ليا گيا "مرو" ميں جب آپ كو ولي عھدي كي بابت بتايا گيا تو آپ نے شديد انكار كيا۔ ابو الفرج نے مقاتل الطالبين ميں لكھا ھے كہ مامون نے فضل بن سہل اور حسن بن سہل كو امام (ع) كے پاس بھيجا جب ان دونوں بھائيوں نے آپ كي ولي عھدي كے بارے ميں بتايا تو آپ نے فرمايا ايسا نھيں ھوگا اور تم لوگ يہ كھا كہہ رھے ھو؟ انھوں نے كہا ھم مجبور ھيں ھميں اوپر سے حكم ھوا ھے كہ اگر آپ نے انكار كيا تو آپ كا سر قلم كر ديں گے۔ شيعہ علماء نے بار بار اس تاريخي جملہ كو ذكر كيا ھے كہ انكاري كي صورت ميں آپ كو اسي وقت قتل كر ديا جاتا ليكن مورخين نے يہ بھي لكھا ھے حضرت نے قبول نہ فرمايا۔ يہ دونوں مامون كے پاس گئے دوسرا مرتبہ مامون خود حضرت كے پاس آيا اور بات چيت كي۔ آخر ميں امام (ع) كو قتل كي دھمكي بھي دي۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور كہا آپ اس عھدے كو قبول كيوں نھيں كرتے؟كيا آپ كے دادا علي (ع) نے مجلس شورايٰ ميں شركت نہ كي تھى؟ اس سے وہ كہتا چاھتا تھا كہ آپ جو كچھ كہہ رھے ھيں يہ تمھارا خانداني شيواہ ھے ۔
دوسرے لفظوں ميں جب حضرت علي عليہ السلام نے شورايٰ ميں شركت فرمائي تو خليفہ كے انتخاب ميں دخل اندازي كى، اور يہ مانتے اور جانتے ھوئے خاموش ھوگئے كہ خلافت اللہ كي طرف سے انہي كا حق ھے۔ اور آپ نے آنے والے لمحوں كا انتظار كيا۔ پس جب آپ كے دادا علي نے شوريٰ كے فيصلوں كو تسليم كيا ھے تو آپ ھماري مشاورتي كميٹي ميں شموليت اختيار كيوں نھيں كرتے؟ امام عليہ السلام نے مجبور ھو كر قبول كر ليا اور خاموش ھوگئے۔ البتہ آپ كے سوال كا جواب باقي ھے جو كہ ھم نے اپني اس گفتگو ميں دينا ھے كہ جب امام عليہ السلام نے انكار كر ديا تھا تو اپنے اس موقف پر قائم رھتے اگر چہ اس كے ليے آپ كو جان بھي قربان كرني پڑتي ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ كر ليتے۔ امام حسين عليہ السلام نےيزيد كي بيعت سے انكار كر كے اپني مظلومانہ شھادت كو قبول كر ليا۔ ليكن يزيديت كے سامنے اپنا سر نہ جھكايا۔ جب انكار ھي كيا تھا تو انكار ھي رھنے ديتے؟اس سوال كا جواب ھم اس گفتگو ميں ديں گے۔

3۔ امام رضا عليہ السلام كي شرط
مورخين نے لكہا ھے كہ امام عليہ السلام نے ايك شرط عائد كي كہ ولي عھدي كا منصب ميں اس صورت ميں قبول كروں گا كہ حكومتي اور سركاري معاملات ميں كسي قسم كي مداخلت نہ كروں گا اور كوئي ذمہ داري بھي نہ لوں گا۔ در حقيقت آپ مامون كے كسي كام ميں تعاون نھيں كرنا چاھتے تھے۔ گويا آپ ايك طرح كي مامون كي مخالفت كر رھے تھے۔ يہ ايك طرح كا احتجاج تھا اور احتساب بھي۔ مامون نے امام عليہ السلام كي يہ شرط مان لي ليكن امام عليہ السلام نماز عيد ميں بھي شركت نھيں كرتے تھے۔ ايك دفعہ مامون نے امام عليہ السلام سے كہا كہ آپ اس عيد پر ضرور تشريف لائيں۔ آپ نے فرمايا يہ ميرے معاھدے كے خلاف ھے۔ مامون بولا لوگ ھمارے خلاف طرح طرح كي باتيں بناتے ھيں، اس مرتبہ آپ ھر حالت ميں شركت فرمايئے۔ حضرت نے فرمايا ٹھيك ھے آپ نے ايسي صورت ميں مامون كي دعوت قبول فرمائي كہ مامون اور فضل كو شرمندگي اٹھانا پڑى، كيونكہ آپ كي وجہ سے ايك بہت بڑے انقلاب كے برپا ھونے كا خطرہ تھا۔ اسي خوف اور خدشے كي بناء پر آپ راستہ ھي ميں واپس بھيج ديا گيا اور آپ كو باھر اس ليے نھيں جانے ديا گيا كہ اگر آپ عيد كے اجتماع ميں شركت كرتے ھيں تو لوگوں كا انبوہ كثير آپ كي بيعت كر كے حكومت وقت كے خلاف اٹھ كھڑا ھو گا۔

4۔ ولي عھدي كے اعلان كے بعد امام (ع) كا رويہ
اس مسئلہ سے بھي اھم مسئلہ ولي عھدي كے اعلان كے بعد امام رضا عليہ السلام كا مامون كے ساتھ بے غرضانہ رويہ اختيار كرنا ھے۔ اس كے بارے مين اھل سنت اور اھل تشيع كے علماء اور مورخين نے كہلے لفظوں ميں اظہار خيال كيا ھے۔ جب امام رضا عليہ السلام كو ولي عھد نامزد كيا جاچكا تو آپ نے ڈيڑھ سطر كا خطبہ ارشاد فرمايا۔ آپ نے اپني پاليسي كہل كر بيان كي آپ نے اس خطبہ ميں نہ مامون كا نام ليا اور چھوٹا سا شكريہ بھي ادا نہ كيا۔ حالانكہ سركاري پروٹوكول كے مطابق آپ مامون كا نام لينے كے ساتھ ساتھ شكريہ بھي ادا كرنا چاھيے تھا۔ ابو الفرج بيان كرتے ھيں كہ مامون نے ايك دن اعلان كيا كہ فلاں روز ملك بھر كے عوام ايك جگہ پر جمع ھوں اور علانيہ طور پر امام رضا عليہ السلام كي بيعت كي جائے چنانچہ ايك بہت اجتماع ھوا، اس ميں مامون نے امام عليہ السلام كے ليے كرسي صدارت بچھوائي۔ سب سے پھلے مامون كے بيٹے عباس نے بيعت كي پھر علوي سيد كو موقعہ بيعت ديا گيا۔ اس طرح ايك عباسي اور ايك علوي بيعت كے ليے آتے جاتے رھے اور ان بيعت كرنے والوں كو بھترين انعامات بھي ديئے گئے۔ آپ نے بيعت كيلئے دوسرے طريقے ركھے ھوئے تھے۔ امام عليہ السلام نے فرمايا نھيں ايسا نھيں ھوگا۔ ميرے جد بزرگوار پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم اس طريقے سے بيعت ليتے تھے لوگوں نے آپ كے ھاتھوں پر ھاتھ ركھ كر بيعت كى، خطباء، شعراء اور مقررين نے اپنے الفاظ اور اپنے اپنے انداز ميں سركار رضا (ع) كي مدح سرائي كي۔ بعض شعراء نے مامون كو بھي سراھا اس كے بعد مامون نے امام رضا عليہ السلام سے كھا:
قم فاخطب الناس وتكلم فيھم"
آپ اٹھ كر لوگوں سے خطاب كريں مامون كو يہ توقع تھي كہ امام عليہ السلام اس كے حق ميں توصيفي كلمات ادا فرمائيں گے۔
"فقال بعد حمد اللہ والثناء عليہ"

--------------------------------------------------------------------------------

30.عنكبوت ۶۵.