امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت (1)
 

اس وقت ھم مسئلہ امامت و خلافت پر گفتگو كر رھے ھيں۔ مسئلہ صلح امام حسن عليہ السلام پر بات چيت ھوچكي امام رضا (ع) كي ولي عہدي كے بارے ميں ھم گفتگو كريں گے۔ اس سلسلے ميں كئي سوالات بھي پيدا ھوتے ھيں، جن كا جواب دينا بہت ضروري ھے ۔ حضرت امير (ع) حضرت امام حسن عليہ السلام اور حضرت امام رضا عليہ السلام، حضرت امام صادق عليہ السلام كي خلافت حقہ كے بارے ميں كچھ اعتراضات سننے كو آئے ھيں، ميں چاھتا ھوں ان كا تفصيل كے ساتھ جواب دوں، ايسا جواب كہ جس كے بعد كسي قسم كا ابھام نہ رھے۔ ليكن ميں اس وقت امام جعفر صادق (ع) كے بارے ميں گفتگو كروں گا۔ امام عليہ السلام كے بارے ميں دو سوالات ھمارے سامنے پيش كئے گئے ھيں۔ پہلا سوال يہ ھے كہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كا دور امامت بني اميہ كي حكومت كے آخري ايام اور بني عباس كے اوائل اقتدار ميں شروع ھوتا ھے۔
سياسي اعتبار سے امام عليہ السلام كے لئے بھترين موقعہ ھاتھ ميں آيا۔ بني عباس نے تو اس موقعہ پر بھر پور طريقے سے فائدہ اٹھا ليا۔ امام عليہ السلام نے ان سنھري لمحوں سے استفادہ كيوں نھيں كيا؟ بني اميہ كا اقتدار زوال پذير تھا۔ عربوں اور ايرانىوں، ديني اور غير ديني حلقوں ميں بني اميہ كے بارے ميں شديد ترين مخالفت وجود ميں آچكي تھي۔ ديني حلقوں ميں مخالفت كي وجہ ان كا علانيہ طور گناھوں كا ارتكاب كرنا تھا۔ ديندار طبقہ كے نزديك بني اميہ فاسق وفاجر اور نالائق لوگ تھے؟ اس كے علاوہ انھوں نے بزرگان اسلام اور ديگر ديني شخصيات پر جو مظالم ڈھائے ھيں وہ انتھائي قابل مذمت اور لائق نفرت تھے۔ اس طرح كي كئي مخالف وجوھات نفرت واختلاف كا باعث بن چكي تھيں" خاص طور پر امام حسين عليہ السلام كي شھادت نے بني اميہ كے ناپاك اقتدار كو خاك ميں ملا ديا۔ پھر رھي سھي كسر جناب زيد بن علي ابن الحسين اور يحييٰ بن زيد كے انقلابات نے نكال دي۔ مذھبي اور ديني اعتبار سے ان كا اثر و رسوخ بالكل ناپيد ھوگيا تھا۔ بني اميہ علانيہ طور پر فسق وفجور كے مرتكب ھوئے تھے، عياشي اور شرابخوري ميں تو انھوں نے بڑے بڑے رنگين مزاج حكمرانوں كو پيچھے چھوڑ ديا تھا۔ يھي وجہ ھے كہ لوگ ان سے سخت نفرت كرتے تھے۔ اور ان كو لادين عناصر سے تعبير كيا جاتا تھا۔ كچھ حكران ظلم و ستم كے حوالے سے بہت ظالم وسفاك شمار كيے جاتے تھے ان ميں ايك نام سلاطين بني اميہ كا ھے۔ عراق ميں حجاج بن يوسف اور خراسان ميں چند حكمرانوں نے ايرانى عوام پر مظالم ڈھائے۔ وہ لوگ بني اميہ كے مظالم كو ان مظالم كا سر چشمہ قرار ديتے تھے۔ اس لئے شروع ھي سے اسلام اور خلافت ميں تفريق قائم كي گئي خاص طور پر علويوں كي تحريك خراسان ميں غير معمولي طور پر مؤثر ثابت ھوئي ۔ اگر چہ يہ انقلابي لوگ خود تو شھيد ھوگئے ليكن ان كے خيالات اور ان كي تحريكوں نے مردہ قوموں ميں جان ڈال دي۔ اور ان كے نتائج لوگوں پر بہت اچھے مرتب ھوئے۔
جناب زيد بن زين العابدين (ع) نے كوفہ كي حدود ميں انقلاب برپا كيا وھاں كے لوگوں نے ان كے ساتھ عھد و پيمان كيا اور آپ كي بيعت كى، ليكن چند افراد كے سوا كوفيوں نے آپ كے ساتھ وفا نہ كى، جس كي وجہ سے اس عظيم سپوت اور بھادر و جري نوجوان كو بڑي بيدردي كے ساتھ شھيد كر ديا گيا۔ ان ظالموں نے آپ كي قبر پر دو مرتبہ پاني چھوڑ ديا تاكہ لوگوں كو آپ كي قبر مبارك كے بارے ميں پتہ نہ چل سكے، ليكن وہ چند دنوں كے بعد پھر آئے قبر كو كھود كر جناب زيد كي لاش كو سولي پر لٹكا ديا اور كچھ دنوں تك اسي حالت ميں لٹكتي رھي اور كہا پر وہ لاش خشك ھوگئي۔ كہا جاتا ھے كہ جناب زيد كي لاش چار سالوں تك سولي پر لٹكتي رھي۔ جناب زيد كا ايك انقلابي بيٹا تھا ان كا نام يحييٰ تھا ۔انھوں نے انقلاب برپا كيا ليكن كامياب نہ ھوسكے اور خراسان چلے گئے۔ پھر جناب يحييٰ بني اميہ كے ساتھ جنگ كرتے ھوئے شھيد ھوگئے۔ آپ كي محبت لوگوں كے دلوں ميں گھر كرتي چلي گئي۔ آپ كي شھادت كے بعد خراسان كے عوام كو پتہ چلا كہ خاندان رسالت كے ان نوجوانوں نے ايك ظالم حكومت كے خلاف جھاد كيا اور خود اسلام اور مسلمانوں كا دفاع كرتے ھوئے شھيد ھوگئے۔ ا س زمانے ميں خبريں بہت دير سے پھنچا كرتي تھيں۔ جناب يحييٰ نے امام حسين عليہ السلام اور جناب زيد كي شھادت كو از سر نو زندہ كر ديا۔ لوگوں كو بعد ميں پتہ چلا كہ آل محمد (ص) نے بني اميہ كے خلاف كس پاكيزہ مقصد كے تحت قيام كيا تھا۔
مورخين لكھتے ھيں جب جناب يحييٰ شھيد ھوئے تو خراسان كے عوام نے ستر (۷۰) روز تك سوگ منايا۔ اس سے معلوم ھوتا ھے انقلابي سوچ ركھنے والے لوگوں كا اثر پھلے ھي سے تھا ليكن جوں جوں وقت گزرتا جاتا ھے لوگوں كے اذھان ميں انقلابي اثرات گھر كرتے جاتے ھيں۔ ايك انقلابي اپنے اندر كئي انقلاب ركھتا ھے۔ بہر حال خراسان كي سرزمين ايك بڑے انقلاب كيلئے سازگار ھوگئي۔ لوگ بني اميہ كے خلاف كھلے عام نفرت كرنے لگے۔

بني اميہ كے خلاف عوامي رد عمل اور بني عباس
بنو عباس نے سياسي حالات سے فائدہ اٹھاتے ھوئے خود كو خوب مستحكم و مضبوط كيا، يہ تين بھائي تھے ان كے نام يہ ھيں۔ ابراھيم امام، ابو العباس سفاح اور ابو جعفر منصور يہ تينوں عباس بن عبدالمطلب كي اولاد سے ھيں۔ يہ عبداللہ كے بيٹے تھے۔ عبداللہ بن عباس كا شمار حضرت علي عليہ السلام كے اصحاب ميں سے ھوتا ھے۔ اس كا علي نام سے ايك بيٹا تھا۔ اور علي كے بيٹے كا نام عبداللہ تھا" پھر عبداللہ كے تين بيٹے تھے۔ ابراھيم، ابو العباس سفاح اور ابو جعفر، يہ تينوں بہت ھي با صلاحيت، قابل ترين افراد تھے۔ ان تينوں بھائيوں نے بني اميہ كے آخري دور حكومت ميں بھر پور طريقے سے فائدہ اٹھايا۔ وہ اس طرح كہ انھوں نے خفيہ طور پر مبلغين كي ايك جماعت تيار كي اور پس پردہ انقلابي پروگرام تشكيل دينے ميں شب و روز مصروف رھے۔ اور خود حجاز و عراق اور شام ميں چھپے رھے، ان كے نمائندے اطراف و اكناف ميں پھيل كرامويوں كے خلاف پروپيگنڈا كرتے تھے، خاص طور پر خراسان ميں ايك عجيب قسم كا ماحول بن چكا تھا۔ ليكن ان كي تحريك كا پس منظر منفي تھا يہ كسي اچھے انسان كو اپنے ساتھ نہ ملاتے۔ يہ آل محمد (ص) كے گھرانے ميں صرف ايك شخصيت كا نام استعمال كر كے لوگوں كو اپني طرف متوجہ كرتے۔ اس سے معلوم ھوا كہ عوام كي توجہ كا مركز آل محمد (ص) ھي تھے۔ ان عباسيوں نے ايك كھيل كھيلا كہ ابو مسلم خراساني كا نام استعمال كيا اس سے ان كا مقصد ايرانى عوام كو اپني طرف متوجہ كرنا تھا۔
وہ قومي تعصب پھيلا كر بھي لوگوں كي ھمدردياں حاصل كرنا چاھتے تھے، وقت كي قلت كے پيش نظر ميں اس مسئلہ پر مزيد روشني نھيں ڈالنا چاھتا، البتہ ميرے اس مدعا پر تاريخي شواھد ضرور موجود ھيں۔ ان كو بھي لوگ بالكل پسند نھيں كرتے تھے۔ ليكن بني اميہ سے نجات حاصل كرنے كيلئے وہ ان كو اقتدار پر لے آنا چاھتے تھے۔ بني اميہ ھر لحاظ سے اپنا مقام كھو چكے تھے، اگر چہ بني اميہ ظاھري طور پر خود كو مسلمان كہلواتے تھے۔ ليكن ان كا اسلام سے دور تك واسطہ نہ تھا۔ خراسان ميں ان كا اثر و رسوخ بالكل نہ تھا كہ لوگوں كو اس وقت كي حكومت كے خلاف اكٹھا كر سكيں اور خراسان كي فضا ميں ايك خاص قسم كا تلاطم پيدا ھو چكا تھا، اگر چہ يہ لوگ چاھتے تھے كہ خلافت اور اسلام ھر دونوں كو اپنے پروگرام سے خارج كر ديں، ليكن نہ كرسكے، اور يہ اسلام كي بقاء اور مسلمانوں كي ترقي كا نام استعمال كر كے آگے بڑھتے گئے اور سال ۱۲۹كے پہلے دن مرو كے ايك قصبے"سفيد نج" ميں اپنے قيام كا رسمي طور پر اعلان كيا۔ عيد الفطر كا دن تھا۔ نماز عيد كے بعد اس انقلاب كا اعلان كيا گيا، انھوں نے اپنے پرچم پر اس آيت كو تحرير كيا اور اسي آيہ كو اپنے انقلابي اھداف كا ماٹو قرار ديا:
"اذن للذين يقاتلون بانھم ظلموا وان اللہ علي نصرھم لقدير" 25
"جن (مسلمانوں) سے (كفار) لڑا كرتے تھے چونكہ وہ (بہت) ستائے گئے اس وجہ سے انھيں بھي (جھادكي) اجازت دے دي گئي اور خدا تو ان لوگوں كي مدد پر يقيناً قادر (و توانا) ھے۔"
پھر انھوں نے سورہ حجرات كي آيہ نمبر ۱۳كو اپنے منشور ميں شامل كيا ارشاد خداوندي ھے:
"يا ايھاالناس انا خلقناكم من ذكر و انثيٰ و جعلناكم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اكرمكم عنداللہ اتقكم"
لوگو ھم نے تو سب كو ايك مرد اور ايك عورت سے پيدا كيا اور ھم نے تمھارے قبيلے اور برادرياں بنائيں تاكہ ايك دوسرے كو شناخت كر سكيں اس ميں شك نھيں كہ خدا كے نزديك تم سب سے بڑا عزت دار وھي ھے جو بڑا پرھيز گار ھو۔"
اس آيت سے بني نوع انسان كو سمجھايا جارھا ھے كہ اسلام اگر كسي كو دوسرے پر ترجيح ديتا ھے تو وہ اس كا متقي ھونا ھے۔ چونكہ اموي خاندان عربوں كو غير عربوں پر ترجيح ديتے تھے اسلام نے ان كے اس نظريہ كي نفي كر كے ايك بار پھر اپنے دستور كي تائيد كي ھے كہ خانداني و جاھت، مالي آسودگي كو باعث فخر سمجھنے والو! تقويٰ ھي معيار انسانيت ھے۔
ايك حديث ھے اور اس كو ميں نے كتاب اسلام اور ايران كا تقابلي جائزہ ميں نقل كيا ھے كہ پيغمبر اكرم (ص) نے فرمايا ھے يا ايك صحابي نے نقل كيا ھے كہ ميں نے خواب ميں ديكھا كہ سفيد رنگ كے گوسفند كالے رنگ كے گوسفند ميں داخل ھوگئے اور يہ ايك دوسرے سے ملے ھيں اور اس كے نتيجہ ميں ان كي اولاد پيدا ھوئي ھے۔ پيغمبر اكرم (ص) نے اس خواب كي تعبير ان الفاظ ميں فرمائي كہ عجمي اسلام ميں تمھارے ساتھ شركت كريں گے، اور آپ لوگوں ميں شادياں كريں گے۔ آپ كي عورتيں ان كے مردوں اور ان كي عورتيں آپ كے مردوں كے ساتھ بياھي جائيں گي۔ يعني آپ لوگ ايك دوسرے كے ساتھ رشتے كريں گے۔ ميں نے اس جملہ سے يہ سمجھا كہ آپ (ص) نے فرمايا كہ ميں ديكھ رھا ھوں كہ ايك روز تم عجم كے ساتھ اور عجم تمھارے ساتھ اسلام كي خاطر جنگ كريں گے يعني ايك روز تم عجم كے ساتھ جنگ كر كے انھيں مسلمان كريں گے اور ايك روز عجم تمھارے ساتھ لڑيں گے اور تمھيں اسلام كي طرف لوٹائيں گے اس حديث كا مفھوم يھي ھے كہ اس قسم كا انقلاب آئے گا۔
بني عباس انتھائي مضبوط پروگرام اور ٹھوس پاليسي پر عمل كرتے ھوئے تحريك كو پروان چڑھا رھے تھے۔ ان كا طريقہ كار بہت عمدہ اور منظم تھا انھوں نے ابو مسلم كو خراسان اپنے مقصد كي تكميل كيلئے بھيجا تھا۔ وہ يہ ھر گز نھيں چاھتے تھے كہ انقلاب ابو مسلم كے نام پر كامياب ھو بلكہ انھوں نے چند مبلغوں كو خراسان بھيجا كہ جاكر لوگوں ميں اچھے انداز ميں تقريريں كر كے عوام كو امويوں كے خلاف اور عباسيوں كے حق ميں جمع كريں۔ ابو مسلم كے نسب كے بارے ميں آج تك معلوم نھيں ھو سكا تاريخ ميں تو يھاں تك بھي پتہ نھيں ھے كہ ابو مسلم ايرانى تھے يا عربى؟ پھر اگر ايرانى تھے تو پھر كيا اصفھاني تھے يا خراسانى؟ وہ ايك غلام تھا اس كي عمر ۲۴برس كي تھي كہ ابراھيم امام نے اس غير معمولي صلاحيتوں كو بھانپ ليا اور اس كو تبليغ كے لئے خراسان روانہ كيا تاكہ وہ خراسان كے عوام كے اندر ايك انقلاب برپا كر دے۔ اس نوجوان ميں قائدانہ صلاحيتيں بھر پور طريقے سے موجود تھيں۔ يہ شخص سياسي لحاظ سے تو خاصا با صلاحيت تھا ليكن حقيقت ميں بہت برا انسان تھا۔ اس ميں انسانيت كي بوتك نہ آتي تھي۔ ابو مسلم حجاج بن يوسف كي مانند تھا، اگر عرب حجاج پر فخر كرتے ھيں تو ھم بھي ابو مسلم پر فخر كرتے ھيں۔
حجاج بہت ھي زيرك اور ھوشيار انسان تھا۔ اس ميں قائدانہ صلاحتيں كوٹ كوٹ كر بھري ھوئي تھيں، ليكن وہ انسانيت كے حوالے سے بہت ھي پست اور كمينہ شخص تھا۔ اس نے اپنے زمانہ اقتدار ميں بيس ھزار آدمي قتل كيے اور ابو مسلم كے بارے ميں مشھور ھے كہ اس نے چھ لاكھ آدمي قتل كيے۔ اس نے معمولي بات پر اپنے قريبي دوستوں كو بھي موت كے گھاٹ اتارديا اور اس نے يہ نھيں ديكھا كہ يہ ايرانى ھے يا عربي كہ ھم كہہ سكيں كہ وہ قومي تعصب ركھتا تھا۔
ميں نھيں سمجھتا كہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام نے اس تحريك ميں كسي قسم كي مداخلت كي ھو، ليكن بنو عباس نے بڑھ چڑھ كر حصہ ليا۔ ان كا يہ نعرہ تھا كہ وہ بني اميہ سے خلافت ھر صورت ميں لے كر رھيں گے۔ اس كيلئے وہ كسي قسم كي قرباني سے دريغ نھيں كريں گے۔ يھاں پر قابل ذكر بات يہ ھے كہ بنو عباس كے پاس دو اشخاص ايسے ھيں كہ جو شروع سے لے كر آخر تك تحريك عباسيہ كي قيادت كرتے رھے۔ ايك عراق ميں تھا اور وہ پس پردہ كام كررھا تھا اور دوسرا خراسان ميں، اور جو كوفہ ميں تھا وہ تاريخ ميں ابو سلمہ خلال كے نام سے مشھور ھے اور جو خراسان ميں تھا اس كا نام ابو مسلم ھے۔ ميں پھلے عرض كر چكا ھوں كہ اس كو بني عباس نے خراسان روانہ كيا اور اس نے بہت كم مدت ميں بے شمار كاميابياں سميٹيں۔ ابو سلمہ كي حيثيت صدر اور ابو مسلم كي ايك وزير كي تھي۔ يہ پڑھا لكھاشخص، سمجھدار سياستدان اور بھترين منتظم تھا۔ گفتگو كرتے وقت دوسروں كو متأثر كر ديتا۔ يھي وجہ ھے كہ ابو مسلم ابو سلمہ سے حسد كرتا تھا۔ جب اس نے خراسان ميں اپني تحريك كا آغاز كيا تو ابو سلمہ كو درميان سے ھٹا ديا اور ابو عباس سفاح كے نام ابو سلمہ كےخلاف ڈھير سارے خط لكھ ڈالے، اور اس كو خطرناك شخص كے طور پر متعارف كروايا اور كھا كہ اس كو تحريك سے خارج كر ديجئے۔ اس نے اسي قسم كے خطوط بني عباس كے مختلف اشخاص كي طرف ارسال كيے۔
ليكن سفاح نےاس كے اس مطالبے كو مسترد كر ديا اور كھہ ديا كہ وہ مخلصانہ طويل خدمات كے صلے ميں ابو سلمہ كےخلاف كسي قسم كا قدم نھيں اٹھا سكتے۔ پھر اعتراض كرنے والوں نے سفاح سے شكايت كي كہ ابو سلمہ اندر سے كچھ ھے اور باھر سے كچھ اور، وہ چاھتا ھے كہ آل عباس سے خلافت لے كر آل ابي طالب (ع) كے حوالے كرے۔ يہ سن كر سفاح نے كھا مجھ پر اس قسم كے الزام كي حقيقت ثابت نہ ھوسكي اگر ابو سلمہ اس طرح كي سوچ ركھتا ھے كہ وہ ايك انسان كي حيثيت سے اس طرح كي غلطي كرسكتا ھے۔ وہ ابو سلمہ كے خلاف جتني بھي كوششيں كرتا تھا كار گر ثابت نہ ھوتي تھيں۔ كيونكہ ابو سفاح ابو سلمہ اس كو كسي نہ كسي حوالے سے نقصان دے سكتا ھے۔ اس لئے اس نے اس كے قتل كا منصوبہ بنا ليا۔ ابو سلمہ كي عادت تھي كہ وہ سفاح كے ساتھ رات گئے تك رھتا وہ دونوں ايك دوسرے كے ساتھ باتيں كرتے ايك رات وہ سفاح سے ملاقات كر كے واپس آرھا تھا كہ ابو مسلم كے ساتھيوں اس كو قتل كر ديا۔ چونكہ سفاح كے كچھ آدمي اس قتل ميں شريك تھے اس لئے ابو سلمہ كا خون كسي شمار ميں نہ آسكا۔ يہ واقعہ سفاح كے اقتدار كے ابتدائي دنوں ميں پيش آيا۔ اس سانحہ كي كچھ وجوھات ھوسكتي ھيں۔ ان ميں كچھ محركات يہ بھي ھيں۔

ابو سلمہ كا خط امام جعفر صادق (ع) اور عبد اللہ محض كے نام
مشھور مورخ مسعودي نے مروج الذھب ميں لكھا ھے كہ ابو سلمہ اپني زندگي كے آخري لمحات ميں اس فكر ميں مستغرق رھتا تھا كہ خلافت آل عباس سے لے كر آل ابي طالب (ع) كے حوالے كرے۔ اگر چہ وہ شروع ميں آل عباس كيلئے كام كرتا رھا۔۱۳۲ھ ميں جب بني عباس نے رسمي طور پر اپني حكومت كي داغ بيل ڈالي اس وقت ابراھيم امام شام كے علاقہ ميں كام كرتا تھا ليكن وہ منظر عام پر نھيں آيا تھا۔ وہ بھائيوں ميں سے بڑا تھا۔ اس لئے اس كي خواھش تھي كہ وہ خليفہ وقت بنے ليكن وہ بني اميہ كے آخري دور ميں خليفہ مروان بن محمد كے ہتھے چڑھ گيا اور اس كو يہ فكر دامن گير ھوئي كہ اگر اس كے خفيہ ٹھكانے كا كسي كو پتہ چل گيا تو وہ گرفتار كر ليا جائے گا۔ چنانچہ اس نے ايك وصيت نامہ لكھ كر مقامي كسان كے ذريعے اپنے بھائيوں كو بھجوايا۔ وہ كوفہ كے نواحي قصبے حميمہ ميں مقيم تھے، اس نے اس وصيت نامے ميں اپنے سياسي مستقبل كے بارے ميں اپني حاليہ پاليسي كے بارے ميں اعلان كيا اور اپنا جانشين مقرر كيا اور اس ميں اس نے يہ لكھا كہ اگر ميں آپ لوگوں سے جدا ھوگيا تو ميرا جانشين سفاح ھوگا (سفاح منصور سے چھوٹا تھا) اس نے اپنے بھائيوں كو حكم ديا كہ وہ يھاں سے كوفہ چلے جائيں اور كسي خفيہ مكان ميں جاكر پناہ ليں اور انقلاب كا وقت قريب ھے۔ اس كو قتل كرديا گيا اور اس كا خط اس كے بھائيوں كے پاس پھنچايا گيا۔ وہ وھاں سے چھپتے چھپاتے كوفہ چلے آئے اور ايك لمبے عرصے تك وھيں پہ مقيم رھے۔ ابو سلمہ بھي كوفہ ميں چھپا ھوا تھا اور تحريك كي قيات كررھا تھا دو تين مھينوں كے اندر اندر يہ لوگ رسمي طور پر ظاھر ھوئے اور جنگ كر كے بہت بڑي فتح حاصل كي۔
مورخين نے لكھا ھے كہ اس انقلاب كے بعد ابراھيم امام كو قتل كرديا گيا۔ حكومت سفاح كے ھاتھ ميں آگئي۔ اس واقعہ كے بعد ابو سلمہ كو پريشاني لاحق ھوئي اور وہ سوچنے لگا كہ خلافت كيوں نہ آل عباس سے لے كر آل ابو طالب كے حوالے كي جائے۔ اس نے دو عليحدہ عليحدہ خطوط لكھے ايك خط امام جعفر صادق عليہ السلام كي خدمت ميں روانہ كيا اور دوسرا خط عبداللہ بن حسن بن حسن بن علي بن ابي طالب (ع) كے نام ارسال كيا۔ (حضرت امام حسن (ع) كے ايك بيٹے كا نام حسن تھا جسے حسن مثنيٰٰ سے ياد كيا جاتا ھے يعني دوسرے حسن، حسن مثني كربلا ميں شريك جھاد ھوئے ليكن زخمي ھوئے اور درجئہ شھادت پر فائز نہ ھو سكے۔
اس جنگ ميں ان كي ماں كي طرف سے ايك رشتہ داران كے پاس آيا اور عبيد اللہ ابن زياد سے سفارش كي كہ ان كو كچھ نہ كہا جائے۔ حسن مثنيٰ نے اپنا علاج معالجہ كرايا اور صحت ياب ھوگئے۔ ان كے دو صاجزادے تھے ايك كانام عبداللہ تھا۔ عبداللہ ماں كے لحاظ سے امام حسين عليہ السلام كے نواسے تھے اور باپ كي طرف سے امام حسن عليہ السلام كے پوتے تھے۔ آپ دو طريقوں سے فخر كرتے ھوئے كھا كرتے تھے كہ ميں دو حوالوں سے پيغمبر اسلام (ص) كا بيٹا ھوں۔ اسي وجہ سے ان كو عبداللہ محض كھا جاتا تھا۔ يعني خالصتاً اولاد پيغمبر، عبداللہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور امامت ميں اولاد امام حسن عليہ السلام كے سربراہ تھے، جيسا كہ امام جعفر صادق عليہ السلام اولاد امام حسين عليہ السلام كے سربراہ تھے۔)
ابو سلمہ نے ايك شخص كے ذريعہ سے يہ دو خطوط روانہ كيے، اور اس كو تاكيد كي كہ اس كي خبر كسي كو بھي نہ ھو۔ خط كا خلاصہ يہ تھا كہ خلافت ميرے ھاتھ ميں ھے۔ خراسان بھي ميرے پاس ھے اور كوفہ پر بھي ميرا كنٹرول ھے، اور اب تك ميري ھي وجہ سے خلافت بني عباس كو ملي ھے۔ اگر آپ حضرات راضي ھوں تو ميں حالات كو پلٹ ديتا ھوں يعني وہ خلافت آپ كو دے ديتا ھوں۔

امام (ع) اور عبداللہ محض كا رد عمل
قاصد وہ خط سب سے پھلے امام جعفر صادق عليہ السلام كي خدمت ميں لے آيا۔ رات كي تاريكي چھا چكي تھي۔ اس كے بعد عبداللہ محض كو ابو سلمہ كا خط پھنچايا گيا۔ جب اس نے يہ خط حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كي خدمت اقدس ميں پيش كيا تو عرض كي مولا يہ خط آپ كے ماننے والے ابو سلمہ كا ھے۔ حضرت نے فرمايا ابو سلمہ ھمارا شيعہ نھيں ھے۔ قاصد نے كہا آپ مجھے ھر صورت ميں جواب سے نوازيں۔آپ نے چراغ منگوايا آپ نے ابو سلمہ كا خط نہ پڑھا اور اس كے سامنے وہ خط پھاڑ كر جلا ديا اور فرمايا اپنے دوست (ابو سلمہ) سے كھنا كہ اس كا جواب يھي ھے اس كے بعد حضرت نے يہ شعر پڑھا ؂

ايا موقدانارا لغيرك ضوءھا
يا حاطبافي غير حبلك تحطب

"يعني آگ روشن كرنے والے اور، اس كي روشني سے دوسرے مستفيد ھوں۔ اے وہ كہ جو صحرا ميں لكڑياں اكٹھي كرتا ھے اور تو خيال كرتا ھے كہ يہ تو اپني رسي ميں ڈالي ھيں تجھے يہ خبر نھيں ھے تو نے جتني بھي لكڑياں جمع كي ھيں اس كو تيرے دشمن اٹھا كر لے جائيں گے۔"
اس شعر سے حضرت كا مقصد يہ تھا كہ ايك شخص محنت كرتا ھے ليكن اس كي محنت سے استفادہ دوسرے لوگ كرتے ھيں گويا آپ كھہ رھے تھے كہ ابو سلمہ بھي كتنا بد بخت شخص ھے كہ اس نے حكومت كي تشكيل دينے كيلئے بہت زيادہ محنت كي ھے ليكن اس سے فائدہ دوسروں نے اٹھايا ھے يا اس شعر كا مطلب يہ تھا كہ اگر ھم خلافت كے لئے محنت كرتے ھيں اور وہ نا اھل ھاتھوں ميں چلي جاتي ھے۔
كتنے افسوس اور دكھ كي بات ھے حضرت نے خط كو جلا ديا اور اس قاصد كو جواب نہ ديا ابو سلمہ كا قاصد وھاں سے اٹھا اور عبداللہ محض كے پاس آيا اور ان كو ابو سلمہ كا خط ديا۔ عبد اللہ خط كو پڑھ كر بے حد مسرور ھوئے۔ مورخ مسعودي نے لكھا ھے كہ عبداللہ صبح ھوتے ھي اپنے گھوڑے پر سوار ھو كر حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كے در دولت پر آئے۔ امام عليہ السلام نے ان كا احترام كيا، حضرت جانتے تھے كہ عبداللہ كے آنے كي وجہ كيا ھے؟ فرمايا لگتا ھے كہ آپ كوئي نئي خبر لے كر آئے ھيں۔ عبداللہ نے عرض كي جي ھاں ايسي خبر كہ جس كي تعريف و توصيف بيان نہ كي جاسكے۔ (نعم ھو اجل من ان يوصف) يہ خط ابو سلمہ نے مجھے بھيجا ھے انھوں نے اس خط ميں تحرير كيا ھے كہ خراسان كے تمام شيعہ اس بات پر مكمل طور پر تيار ھيں كہ خلافت و ولايت ھمارے سپرد كرديں۔ انھوں نے مجھ سے درخواست كي ھے كہ ان كي يہ پيشكش قبول كر لوں۔ يہ سن كر امام عليہ السلام نے فرمايا:
"ومتي كان اھل خراسان شيعۃ لك؟"
خراسان والے آپ كے شيعہ كب بنے ھيں؟"
انت بعثت ابا مسلم الي خراسان؟"
كيا آپ نے ابو مسلم كو خراسان بھيجا ھے؟"
آپ نے خراسان والوں سے كہا ھے كہ وہ سياہ لباس پہنيں اور ماتمي لباس كو اپنا شعار بنائيں۔ كيا يہ خراسان سے آئے ھيں يالائے گئے ھيں؟تم تو ايك آدمي كو بھي نھيں پھچانتے؟ امام عليہ السلام كي باتيں سن كر عبداللہ ناراض ھو گئے۔ انسان جب كوئي چيز پسند كرے اور اس كي خوشخبري سننے كے بعد كوئي اور بات سننا گوار نھيں كرتا۔ گويا يہ انسان كي سرشت ميں شامل ھے۔ اس نے حضرت امام جعفر صادق سے بحث كرني شروع كردي اور حضرت سے كہا كہ آپ كيا چاھتے ھيں:
"انما يريد القوم ابني محمدا لانہ مھدي ھذہ الامۃ"
يہ ميرے بيٹے محمد كو خلافت دينا چاھتے ھيں آُپ نے فرمايا كہ خدا كي قسم اس امت كا امام مھدي آپ كا بيٹا محمد نھيں ھے اگر اس نے قيام كيا تو قتل كيا جائے گا۔ يہ سن كر عبداللہ اظھار ناراضگي كرتے ھوئے بولا آپ خواہ مخواہ ھماري مخالفت كر رھے ھيں۔ امام عليہ السلام نے فرمايا بخدا ھم تمھاري خير خواھي اور بھلائي كے سوا اور كچھ نھيں چاھتے۔ آپ كا مقصد كبھي پورا نھيں ھوگا۔ اس كے بعد امام عليہ السلام نے فرمايا كہ بخدا ابو سلمہ نے بالكل اسي طرح كا خط ھماري طرف بھي روانہ كيا ھے ليكن ھم نے پڑھنے كي بجائے اس كو آگ ميں جلا ديا۔ عبداللہ ناراض ھو كر چلے گئے۔ ان حالات كو ديكھ كر بخوبي اندازہ لگايا جاسكتا ھے كہ اس وقت سياسي فضا كس قدر مكدر تھى، بني عباس كي تحريك كامياب ہوتي ھے؟ ابو مسلم اس وقت خاصا فعال ھوتا ھے۔ اور وہ ابو سلمہ جيسے انقلابي شخص كو قتل كراديتا ھے۔ سفاح بھي اس كي حمايت كرنے لگ جاتا ھے۔ پھر ايسا ھوا كہ ابو سلمہ كا قاصد ابھي مدينہ سے كوفہ نہ پھنچا تھا كہ ابو سلمہ قتل ھو چكا ھوتا ھے۔ اسي وجہ سے عبداللہ محض كا جواب ابو سلمہ كے ھاتھوں تك نہ پھنچ سكا۔

ايك تحقيق
اس واقعہ كو جس خوبي كے ساتھ مسعودي نے لكھا ھے اتنا اور كسي مورخ نے نھيں لكھا۔ ميرے نزديك ابو سلمہ كا مسئلہ بہت واضح ھے كہ وہ شخص سياستدان تھا۔ وہ امام جعفر صادق عليہ السلام كے شيعوں ميں ھر گز نہ تھا۔ مطلب صاف ظاھر ھے كہ وہ ايك مرتبہ آل عباس كيلئے كام كرتا ھے اور دوسري مرتبہ وہ اپني پاليسي بدل ليتا ھے۔ دراصل عوام كي اكثريت يہ نھيں چاھتي تھي كہ خلافت خاندان رسالت سے باھر كسي دوسرے شخص كے پاس جائے۔ آل ابي طالب ميں دو شخصيات اھم شمار كي جاتي تھيں ايك حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام اور دوسرے جناب عبداللہ محض، ابو سلمہ ان دونوں شخصيات كے ساتھ دينداري اور خلوص كي وجہ سے يہ كام نھيں كر رھا تھا وہ چاھتا تھا كہ خلافت بدلنے سے اس كے ذاتي مفادات محفوظ رھيں۔ ابھي اس كو امام جعفر صادق عليہ السلام اور عبد اللہ محض كي طرف سے جواب موصول نہ ھوا تھا كہ ابو سلمہ قتل ھو گيا۔ جب ميں يہ بات كرتے ھوئے لوگوں كو سنتا ھوں تو مجھے حيرانگي ھوتي ھے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے ابو سلمہ كے خط كا جواب كيوں نھيں دياتھا اور اس كي دعوت قبول كيوں نھيں كي تھى؟ ا سكا جواب بھي صاف ظاھر ھے كہ يھاں پر بھي حالات سازگار نہ تھے۔
صورت حال نہ روحاني لحاظ سے اچھي تھي اور نہ ظاھري لحاظ سے بھتر تھي بلكہ امام عليہ السلام نے جو بھي اقدامات كيے وہ حقيقت پر مبني تھے ھم پہلے بھي كہہ چكے ھيں كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے شروع ھي سے بني عباس كي كسي قسم كي حمايت نھيں كي۔ دراصل آپ نہ امويوں كے حق ميں تھے اور نہ عباسيوں كے حق ميں۔ يہ دو خاندان اور موروثي حكمران ذاتي مفاد كے علاوہ كوئي سوچ نہ ركھتے تھے۔ ھم نے كتاب الفرج اصفھاني سے استفادہ كيا۔ اس سلسلے ميں جتني ابو الفرج نے تفصيل لكھي ھے اتنا اور كسي مورخ نے نھيں لكھا۔ ابو الفرج اموي مورخ تھے۔ اور سني المذھب تھے ان كو اصفھان ميں سكونت ركھنے كي وجہ سے اصفھاني كہا جاتا ھے۔ حقيقت ميں يہ اصفھاني نہ تھے بلكہ اموي تھے اگر چہ يہ اموي مورخ تھے ليكن انھوں نے تاريخ نويسي ميں اعتدال قائم ركھا اس لئے جناب شيخ مفيد (رح) نے اپني كتاب ارشاد ميں ابو الفرج سے روايات نقل كي ھيں۔

ھاشمي رھنماؤں كي خفيہ ميٹنگ
دراصل بات يہ ھے كہ شروع ميں يہ طے پايا تھا كہ امويوں كے خلاف تحريك شروع كي جائے۔ بني ھاشم كے سركردہ ليڑر ابواء مقام پر جمع ھوگئے تھے۔ يہ مقام مكہ و مدينہ كے درميان واقع ھے۔ (ابواء يہ ايك تاريخ جگہ ھے يہ وہ جگہ ھے جھاں پيغمبر اكرم (ص) كي والدہ ماجدہ نے انتقال فرمايا تھا۔) حضور (ص) پاك كي عمر پانچ سال كے لگ بھگ تھي بي بي اپنے اس عظيم صاجزادے كو اپنے ھمراہ لائي تھيں۔ حضرت آمنہ كے رشتہ دار مدينہ ميں آباد تھے۔ اس لئے حضور پاك مدينہ والوں كے ساتھ ايك خاص نسبت ركھتے تھے۔ بي بي مدينہ سے ھوكر واپس مكہ جارھي تھيں كہ راستہ ميں مريض ھوئيں اور وھيں پر انتقال فرمايا اس جگہ كو مورخين نے ابواء كے نام سے ياد كيا ھے۔ حضورپاك (ص) اپني ماں كي كنيز خاص بي بي ام ايمن كے ساتھ مدينہ چلے گئے اور آپ كي والدہ ماجدہ كو ابواء ھي ميں سپرد خاك كيا گيا۔ آپ نے عالم غربت ميں اپني عظيم ماں كي المناك رحلت كو اپني آنكھوں سے ديكھا اور عمر بھر آپ اس غم كو نہ بھلا سكے۔ يھي وجہ ھے كہ آپ ۵۳ سال كي عمر ميں مدينہ واپس لوٹ آئے اور اپني زندگي كے آخري دس سال مدينہ ھي ميں گزارے۔ آپ ايك موقعہ پر اثناء سفر ميں ابواء نامي جگہ سے گزرے تو آپ چند لمحوں كيلئے اپنے صحابہ سے جدا ھوگئے اور ايك خاص جگہ پر رك گئے ۔ دعا پڑھي اس كے بعد زار وقطار رونے لگے۔ صحابہ كرام نے تعجب كيا كہ حضور پاك (ص) رونے كي وجہ كيا ھے؟ آپ نے فرمايا يہ ميري والد ماجدہ كي قبر اطھر ھے۔ آج سے پچاس سال قبل جب ميں پانچ سالہ بچہ تھا تو يھيں پر والدہ محترمہ كا انتقال ھوا تھا۔ آپ پچاس سالوں كے بعد اس مقام پر گئے اور دعا پڑھي اور اس كے بعد اپني انتھائي عزيز ترين ماں كي ياد ميں بہت ھي زيادہ روئے"۔ چناچہ ابواء كے مقام پر ھونے والي خفيہ ميٹنگ ميں اولاد امام حسن (ع) عبداللہ محض اور آپ كے دونوں صاجزادے محمد و ابراہيم موجود تھے۔ اسي طرح بني عباس كي نمائندگي كرتے ھوئے ابراہيم امام، ابوالعباس سفاح، ابو جعفر منصور اور ان كے چند بزرگوں نے شركت كي۔ اس وقت عبداللہ محض نے گفتگو كا آغاز كرتے ھوئے كہا كہ اے بني ھاشم! اس وقت لوگوں كي نگاھيں آپ كي طرف لگي ھوئي ھيں۔ اور عوام كي آپ سے بہت زيادہ اميديں وابستہ ھيں۔ اللہ تعاليٰ نے آپ كو يھاں پر اكٹھے ھونے كا موقعہ بخشا ھے لھذا سب مل جل كر اس نوجوان (عبداللہ محض كے بيٹے) كي بيعت كريں۔ ان كو اپني تحريك كا قائد منتخب كريں۔ اور امويوں كے خلاف وسيع پيمانے پر جنگ كا آغاز كريں۔ يہ واقعہ ابو سلمہ كے واقعات سے پھلے كا ھے۔ تقريباً انقلاب خراسان سے بارہ سال قبل۔ اس وقت اولاد امام حسن عليہ السلام اور بنو عباس كي مشتركہ خواھش تھي كہ وہ ايك دوسرے كے ساتھ متحد ھو كر امويوں كا مقابلہ كريں۔

محمد نفس زكيہ كي بيعت
بني عباس كا شروع سے يہي پروگرام تھا كہ وہ آل علي عليہ السلا ميں ايسے نوجوان كو اپنے ساتھ ملائے ركھيں كہ جو لوگوں ميں مقبول ھو اور لوگ اس كي وجہ سے ايك پليٹ فارم پر جمع ھوسكتے ھوں۔ جب ان كي تحريك كامياب ھو جائے گي تو اس نوجوان كو درميان ميں سے ھٹا ديا جائے گا۔ اس كام كيلئے انھوں نے محمد نفس زكيہ كو منتخب كيا ۔ محمد جناب عبداللہ محض كے صاحبزادے تھے ۔ عبد اللہ بہت ھي متقي اور پرھيز گار اور انتھائي خوبصورت شخصيت كے مالك تھے۔ ان كا بيٹا محمد كردار و گفتار اور شكل و صورت ميں ھو بھو اپنے باپ كي تصوير تھا۔ اسلامي روايات ميں ھے كہ جب ظلم حد سے بڑھ جاتا ھے تو اولاد پيغمبر (ص) ميں سے ايك نوجوان ظاھر ھوتا ھے اور اپنے جد امجد كي طرح اسي كا نام بھي محمد ھوگا اسي طرح اسلامي تحريكيں چلتي رہيں گي اور اولاد زھرا (ع) ميں سے ايك سيد زادہ انقلابي جد وجھد كي قيادت كرتا رھے گا۔ اولاد امام حسن عليہ السلام كے دل ميں يہ خيال پيدا ھوا كہ امت كا مھدي يھي محمد ھے۔ بنو عباس كے نزديك بھي يھي محمد مھدي كے طور پر نمودار ھوئے تھے۔ يہ بھي ھو سكتا ھے كہ انھوں نے سازش كر كے ان كو مھدي وقت مان لياھو؟
بہر حال ابو الفرج نقل كرتے ھيں كہ عبداللہ محض نے لوگوں سے خطاب كرتے ھوئے مزيد كھا ھميں متحد ھو كر ايك ايسے نوجوان كي قيادت ميں كام شروع كردينا چاھيے كہ جو اس مظلوم ملت كو ظالموں كے شكنجوں سے نجات دے سكے۔ ا سكے بعد بولے ايھا الناس اے لوگو! ميري بات غور سے سنو ان ابني ھذا ھو المھدي كہ ميرا بيٹا محمد ھي مھدي دوراں ھے۔ آپ سب مل كر ان كي بيعت كريں۔ اس اثناء ميں منصور بولا كہ مھدي كے عنوان سے نھيں البتہ يہ نوجوان موجودہ دور ميں قيادت كے فرائض احسن طريقے سے نبھا سكتا ھے۔ آپ سچ كھہ رھے ھيں ھم سب كو اس نوجوان كي بيعت كرني چاھيے۔ ميٹنگ كے تمام شركاء نے ايك زبان ھو كر اس كي تصديق كي اور ايك ايك كركے انھوں نے محمد كي بيعت كي۔ اس كے بعد انھوں نے امام جعفر صادق عليہ السلام كو پيغام بھيجا كہ آپ بھي تشريف لائيں۔ جب حضرت تشريف فرما ھوئے سب نے حضرت كا استقبال كيا۔ عبداللہ محض جو صدر مجلس تھے نے اپنے پہلو ميں حضرت كو جگہ دي۔ اس كے بعد انھوں نے امام عليہ السلام كي خدمت ميں رپورٹ پيش كي اور كہا جيسا كہ آپ بخوبي جانتے ھيں كہ ملكي و سياسي حالات مخدوش ھيں لھذا وقت كا تقاضا يہ ھے كہ ھم ميں سے كوئي شخص اٹھے اور امت و ملت كي قيادت كرے۔ اس ميٹنگ كے تمام شركاء نے ميرے بيٹے محمد كي بيعت كي ھے ۔كيونكہ ھمارے نزديك مھدي دوراں يہي محمد ھي ھيں۔ لھذا آپ ان كي بيعت كريں۔ فقال جعفر لا تفعلوا امام عليہ السلام نے فرمايا نھيں تم ايسا نہ كرو:
"فان ھذا الامر ثم يات بعد ان كنت تري ان ابنك ھذا ھو المھدي فليس بہ ولا ھذا اوانہ"
رھي بات مھدي عليہ السلام كے ظھور كي تو يہ وقت ظھور نھيں ھے۔ اے عبداللہ اگر تم خيال كرتے ھو كہ تمھارا يہ بيٹا محمد مھدي ھے تو تم سخت غلطي پر ھو، تمھارا بيٹا ھر گز مھدي نھيں ھے اس وقت مھدي عليہ السلام كا مسئلہ نھيں ھے اور نہ ھي ان كي آمد اور ظھور كا وقت ھوا ھے۔"
وان كنت انما يريد ان تخرجہ غضبا للہ وليامر بالمعروف وينہ عن المنكر فانا واللہ لا ندعك فانت شيخنا ونبايع ابنك في الامر "
حضرت نے اپنا موقف واضح كرتے ھوئے فرمايا اگر تم مھدي كے نام پر بيعت لے رھے ھو تو ميں ھرگز بيعت نھيں كروں گا۔ كيونكہ يہ سراسر جھوٹ ھے يہ مھدي نھيں ھے اور نہ ھي مھدي (ع) كے ظھور كا وقت ھوا ھے ليكن اگر آپ نيكي كے فروغ اور برائيوں اور ظلم كے خاتمے كے لئے جھاد كريں گے تو ھم آپ لوگوں كا ھر طرح سے ساتھ ديں گے۔"
امام عليہ السلام كے اس فرمان سے آپ كا موقف كھل كر سامنے آجاتا ھے۔ آپ نے نيكيوں كي ترويج اور برائيوں كے خاتمہ كے لئے ساتھ دينے كا وعدہ تو كيا ليكن آپ نے ان كي غلط پاليسيوں كي مخالفت كردي كہ يہ محمد مھدي نھيں ھے۔ جب آپ نے بيعت كا انكار كيا تو عبداللہ ناراض ھوگئے۔ جب آپ نے عبداللہ كي ناراضگي كو ديكھا تو فرمايا ديكھو عبداللہ ميں آپ سے كہہ رھا ھوں كہ تمہارا بيٹا محمد مھدي نھيں ھيں ھم اھل بيت كے نزديك يہ ايك ايسا راز ھے كہ جس كو ھم ھي جانتے ھيں ھمارے سوا كوئي اور نھيں جانتا كہ وقت كا امام كون ھے اور مھدي (ع) كون ھوگا؟ ياد ركھو تمھارا يہ بيٹا بہت جلد قتل كر ديا جائے گا۔ ابو الفرج نے لكھا ھے كہ عبداللہ سخت ناراض ھوئے اور كھا خير آپ نے جو كھنا تھا كہہ ديا ليكن ھمارا نظريہ يھي ھے كہ محمد مھدي وقت ھے، آپ حسد اور خانداني رقابت كے باعث اس قسم كي باتيں كر رھے ھيں۔
"فقال واللہ ماذاك يحملني ولكن ھذا واخوتہ وابنانھم دونكم وضرب يدہ ظھر ابي العباس"
امام جعفر صادق عليہ السلام نے اپنا دست مبارك ابو العباس كي پشت پر مارتے ھوئے فرمايا يہ بھائي مسند خلافت پر فائز ھو جائيں گے اور آپ اور آپ كے بيٹے محروم رھيں گے۔"
اس كے بعد آپ نے عبداللہ حسن كے كندھے پر ھاتھ ركھ كر فرمايا:
"ما ھي اليك ولا الي ابنيك"
تم اور تمھارے بيٹے خلافت تك نھيں پھنچ سكيں گے۔"
ان كو قتل ھونے سے بچائيے۔ بنو عباس آپ كو خلافت تك پھنچنے نھيں ديں گے۔ اور تمھارے دونوں بيٹے قتل كر دئيے جائيں گے۔ اس كے بعد امام عليہ السلام اپني جگہ سے اٹھ كھڑے ھوئے۔ آپ نے اپنا ايك ھاتھ عبدالعزيز عمران زھري كے كندھے پر ركھتے ھوئے اس سے كہا:
"ارايت صاحب الرداء الاصغر؟"
كيا آپ نے اس شخص كو ديكھا ھے كہ جس نے سبز قبا پہني ھوئي تھى؟"
(آپ كي اس سے مراد ابو جعفر منصور تھي) وہ بولا نعم جي ھاں آپ نے فرمايا خدا كي قسم ھم جانتے ھيں كہ يھي شخص مستقبل قريب ميں عبداللہ كے بيٹوں كو قتل كردے گا۔
يہ سن كر عبدالعزيز سخت متعجب ھوا اور اپنے آپ سے كھنے لگا يہ لوگ آج تو اس كي بيعت كر رھے ھيں اور كل اسے قتل كرديں گے؟ آپ نے فرمايا ھاں عبدالعزيز ايسا ھي ھوگا عبدالعزيز نے كہا ميرے دل ميں تھوڑا سا شك گزرا ھو سكتا ھے امام عليہ السلام نے حسد وغيرہ كي وجہ سے ايسا كھا ھو ليكن خدا كي قسم ميں نے اپني زندگي ھي ميں ديكھ ليا كہ ابو جعفر منصور نے عبداللہ كے دونوں بيٹوں كو قتل كرديا۔ دوسري طرف حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام محمد سے بے حد پيار كرتے تھے۔ ابوالفرج كے بقول
"كان جعفر بن محمد اذا راي محمد بن عبداللہ بن الحسن تغر غرت عيناہ"
كہ امام عليہ السلام كي نگاہ مبارك جب محمد پر پڑتي تو آپ كي آنكھو سے بے ساختہ آنسو چھلك پڑتے اور فرمايا كرتے:
"بنفسي ھو ان الناس فيقولون فيہ انہ لمقتول ليس ھذا في كتاب علي من خلفاء ھذہ الامۃ"
ميري جان قربان ھو اس پر لوگ جو اس كے بارے ميں مھدي ھونے كے قائل ھيں وہ غلطي پر ھيں۔ يہ نوجوان قتل كيا جائے گا ھمارے پاس حضرت علي عليہ السلام كي ايك كتاب موجود ھے اس ميں محمد كا نام خلفاء ميں شامل نھيں ھے۔"
اس سے معلوم ھوتا ھے كہ شروع ميں تحريك كا آغاز ھي مھدويت كے نام پر ھوا ھے ليكن امام جعفر صادق (ع) نے اس كي سخت مخالفت كي اور فرمايا اگر يہ تحريك نيكيوں كے فروغ اور برائيوں كے خاتمہ كے لئے ھے تو پھر ھم اس كے ساتھ ھر طرح كا تعاون كريں گے ليكن ھم محمد كو مھدي كے طور پر تسليم نھيں كرسكتے، رھي بات بنو عباس كي تو ان كا مطمع نظر سياسي و حكومتي مفادات حاصل كرنے كے سوا كچھ نھيں ھے ۔

امام جعفر صادق (ع) كے دور امامت كي چند خصوصيات
يھاں پر ھم جس لازمي نكتے كا ذكر كرنا چاھتے ھيں وہ يہ ھے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام كا دور امامت اسلامي خدمات كے حوالے سے بے نظير اور بھترين دور ھے۔ آپ كے دور ميں مختلف قسم كي تحريكوں نے جنم ليا، بے شمار انقلابات رونما ھوئے ۔ امام عليہ السلام كے والد گرامي حضرت امام محمد باقر عليہ السلام كا انتقال ۱۱۴كو ھوا۔ آپ اس وقت امام وقت مقرر ھوئے اور ۱۴۸ تك زندہ رھے۔ ظھور اسلام سےليكر اب تك دو تين نسليں حلقہ اسلام ميں داخل ھو چكي تھيں۔ سياسي و تمدني لحاظ سے بے تحاشا ترقي ھوئي۔ اور كچھ ايسي جماعتيں بھي وجود ميں آئيں جو خدا كي منكر تھيں۔ زنديق اس دور ميں رونما ھوئے يہ لوگ خدا، دين اور پيغمبر كے مخالف تھے۔ بني عباس كي طرف سے ان بے دين عناصر كو ھر لحاظ سے آزادي حاصل تھي۔ صوفياء بھي اسي دور ميں ظاھر ھوئے اور كچھ ايسے فقھا بھي پيدا ھوئے كہ جو فقہ كو قياس كي طرف لے گئے۔ اس دور ميں مختلف نظريات ركھنے والے لوگ، جماعتيں پيدا ھوئيں۔ اس نوع كي تبديلي اور جدت وندرت پہلے ادوار ميں نہ تھي۔
امام حسين (ع) اور امام جعفر صادق (ع) كے زمانوں كا زمين و آسمان كا فرق ھے۔ امام حسين عليہ السلام كے دور ميں بہت زيادہ گھٹن تھي اور مشكل ترين دور تھا اس لئے امام عالي مقام نے اپنے دور امامت ميں حديث كے پانچ چھ جملے بيان فرمائے اس كے علاوہ كوئي حديث نظر نھيں آتى، ليكن امام جعفر صادق عليہ السلام كا دور امام تعليمي وتربيتي حوالے سے بھترين دور تھا۔ آپ نے فرصت كے ان لمحوں سے فائدہ اٹھاتے ھوئے بہت كم مدت ميں چار ھزار فضلاء تيار كيے۔ لھذا اگر ھم فرض كريں (جو كہ غلط ھے) كہ امام جعفر صادق عليہ السلام كو وھي حالات پيش آتے جو امام حسين عليہ السلام كو پيش آئے تھے تو پھر بھي امام جعفر صادق عليہ السلام علمي كارنامے انجام ديتے؟ ھم نے پھلے عرض كيا ھے كہ آئمہ طاھرين كي حيات طيبہ كا انداز ايك جيسا ھوتا ھے اور آپ كي شھادت وھي رنگ لاتي جو كہ امام حسين (ع) كي لائي ھے۔ اگر چہ آپ ايك وقت درجئہ شھادت پر فائز بھي ھوئے ليكن آپ كو قدرت نے خوب موقعہ فراھم كيا كہ آپ نے علمي و ديني لحاظ سے غير معمولي كارنامے سر انجام ديئے۔ آج امام جعفر صادق عليہ السلام كا نام پوري دنيا ميں ايك بہت بڑے مصلح كے طور پر مانا جانا جاتا ھے۔ امام عليہ السلام كے بارے ميں اگلي نشست ميں كچھ مزيد باتيں عرض كروگا۔ ان شاء اللہ۔

امام جعفر صادق (ع) اور مسئلہ خلافت (2)
ھم نے گزشتہ تقرير ميں عرض كيا ھے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور امامت ميں مسئلہ خلافت بھر پور طريقے سے سامنے آيا اس كي وجہ يہ ھے كہ آپ كے دور ميں حالات نے كچھ اس طرح كروٹ لي كہ طالبان حكومت داعيان خلافت ايك بار پھر پورے جوش وخروش كے ساتھ ميدان عمل ميں آگئے ليكن مصلحت وقت كے تحت امام جعفر صادق عليہ السلام نے گوشہ نشيشي اختيار كر لي۔ آپ كے دور امامت ميں سب سے بڑا فائدہ يہ ھوا كہ امويوں كي حكومت كا مكمل طور پر خاتمہ ھوا۔ پھر ابو سلمہ خلال اور ابو مسلم جيسے انقلابي لوگ پيدا ھوئے۔ ابو سلمہ كو وزير آل محمد (ع) اور ابو مسلم كو امير آل محمد (ص) كے لقب سے ياد كيا گيا ھے۔ يھي نوجوان امويوں كي حكومت كے خاتمے كا باعث بنے اگرچہ انھوں نے عباسيوں كو اقتدار حكومت سونپنے ميں بھر پور كردار ادا كيا تاھم ابو سلمہ ايسا نوجوان ھے كہ جو آخر ميں اس چيز كي خواھش ركھتا تھا كہ اقتدار آل علي (ع) كو منتقل كيا جائے۔ انھوں نے اسي مقصد كي تكميل كيلئے ايك خط امام جعفر صادق عليہ السلام اور عبداللہ محض كے نام بھي ارسال كيا تھا ان دونوں شخصيات ميں عبداللہ حكومت ملنے پر خوش اور آمادہ تھے ليكن امام جعفر صادق عليہ السلام نے ابو سلمہ كي اس پيش كش كو ذرہ بھر اھميت نہ دي۔ يھاں تك آپ نے اس كے خط كو بھي نہ پڑھا جب آپ كي خدمت ميں چراغ لايا گيا تو امام عليہ السلام نے اس خط كو نہ فقط پھاڑ ديا بلكہ اسے جلا بھي ديا اور فرمايا اس خط كا جواب يھي ھے اس سے متعلق ھم تفصيل سے گفتگو كر چكے ھيں۔
امام جعفر صادق عليہ السلام نے سياسي و حكومتي امور ميں دلچسپي لينے اور ان ميں مداخلت كرنے كي بجائے گوشہ نشيني كو ترجيح دي اور آپ اقتدار كو سنبھالنے كي ذرا بھر خواھش نہ ركھتے تھے اور نہ ھي اس كے لئے كسي قسم كي كوشش كا سوال پيدا ھوتا ھے كہ امام عليہ السلام اگر كوشش كرتے تو اقتدار كو اپنے ھاتھ ميں لے سكتے تھے۔ اس كے باوجود آپ خاموش كيوں رھے؟ اس عدم دلچسپي كي وجہ كيا ھوسكتي ھے؟ جبكہ فضا بھي امام كے حق ميں تھي۔ بالفرض اگر اس مقصد كے لئے آپ شھيد بھي ھو جاتے تو شھادت بھي آل محمد (ص) كے لئے سب سے بڑا اعزاز ھے۔ ان سوالات كا جواب ديتے ھوئے، ايك بار پھر ھم امام جعفر صادق عليہ السلام كي ھمہ جھت شخصيت كے بارے ميں كچھ روشني ڈالتے ھيں تاكہ حقيقت پوري طرح سے روشن ھو جائے۔ ھم نے پہلے عرض كيا ھے كہ اگر امام حسين عليہ السلام اس دور ميں ھوتے تو آپ كا انداز زندگي بالكل امام جعفر صادق عليہ السلام اور ديگر آئمہ طاھرين (ع) جيسا ھوتا چونكہ امام حسين عليہ السلام اور ديگر اماموں كے دور ھائے امامت ميں فرق تھا اس لئے ھر امام نے مصلحت و حكمت عملي اپناتے ھوئے امن و آشتي كا راستہ اختيار كيا۔ ھماري گفتگو كا محوريہ نھيں ھے كہ امام عليہ السلام نے اقتدار كيوں نھيں قبول كيا؟ بلكہ بات يہ ھے كہ آپ چپ كيوں رھے اور ميدان جنگ ميں آكر اپني جان جان آفرين كے حوالے كيوں نھيں كى؟

امام حسين (ع) اور امام صادق (ع) كے ادوار ميں باھمي فرق
ان دو اماموں كا آپس ميں ايك صدي كا فاصلہ ھے۔ امام حسين عليہ السلام كي شھادت سال ۶۱ ھجري كو ھوئي اور امام صادق عليہ السلام كي شھادت ۱۴۸ كو واقع ھوئي گويا ان دو اماموں كي شھادتيں ۸۷ سال ايك دوسرے سے فرق ركھتي ھيں۔ اس مدت ميں زمانہ بہت بدلا، حالات نے كروٹ لي اور دنيائے اسلام ميں گونا گوں تبديلياں ھوئيں۔ حضرت امام حسين عليہ السلام كے دور ميں صرف ايك مسئلہ خلافت تھا كہ جس پر اختلاف ھوا دوسرے لفظوں ميں ھر چيز خلافت ميں سموئي ھوئي تھى، اور خلافت ھي كو معيار زندگي سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت اختلاف كا مقصد اور بحث كا ما حصل يہ تھا كہ كس كو "امير امت" متعين كيا جائے اور كس كو نہ كيا جائے۔ اسي وجہ سے خلافت كا تصور زندگي كے تمام شعبوں پر محيط تھا۔ معاويہ سياسي لحاظ سے بہت ھي طاقتور اور ظالم شخص تھا۔ اس كے دور حكومت ميں سانس لينا بھي مشكل تھا۔ لوگ حكومت وقت كے خلاف ايك جملہ تك نہ كہہ سكتے تھے۔ تاريخ ميں ملتا ھے كہ اگر كوئي شخص حضرت علي عليہ السلام كي فضيلت ميں كوئي حديث بيان كرنا چاھتا تو وہ اپنے اندر خوف محسوس كرتا تھا اور اس كو دھڑكا سا لگا رھتا كہ كھيں حكومت وقت كو پتہ نہ چل جائے۔ نماز جمعہ كے اجتماعات ميں حضرت علي عليہ السلام پر كھلے عام تبرا كيا جاتا تھا۔ امام حسن عليہ السلام اور امام حسين عليہ السلام كي موجودگي ميں منبر پر حضرت امير عليہ السلام پر (نعوذ باللہ) لعنت كي جاتي تھي۔ جب ھم امام حسين عليہ السلام كي تاريخ كا مطالعہ كرتے ھيں تو معلوم ھوتا ھے كہ اس وقت كا موسم كس قدر پتھريلا اور سخت تھا؟
كيسا عجيب دور تھا كہ امام حسين عليہ السلام جيسے امام سے ايك حديث، ايك جمعہ، ايك مكالمہ ايك خطبہ اور ايك تقرير اور ايك ملاقات كا ذكر نھيں ھے۔ عجيب قسم كي گھٹن تھي۔ لوگوں كو آپ سے ملنے نھيں ديا جاتا تھا۔آپ نے پچاس سالوں ميں كتني تلخياں ديكھيں۔ كتني پابندياں برداشت كيں۔ يہ صرف امام حسين عليہ السلام ھي جانتے ھيں يھاں تك آپ سے تين جملے بھي حديث كے نقل نھيں كيے گئے۔ آپ ھر لحاظ سے مصائب ميں گھرے ھوئے تھے۔يہ دور بھي گزر گيا جانے والے چلے گئے اور آنے والے آگئے بني اميہ كي حكومت ختم ھوئي اور بنو عباس كي حكومت شروع ھوئي اس وقت لوگوں ميں علمي و فكري لحاظ سے كافي تبديلي ھو چكي تھي۔ لوگ فكري لحاظ سے آزادي محسوس كرتے تھے۔ اس دور ميں جس تيزي سے علمي وفكري ترقي ھوئي اس كي تاريخ ميں كوئي نظير نھيں ھے۔ اسلامي تعليمات كي نشر واشاعت پر وسيع پيمانے پر كام ھونے لگا مثال كے طور پر علم قرات، علم تفسير، علم حديث، علم فقہ اور ديگر ادبي سرگرمياں عروج پر ھونے لگيں يھاں تك كہ طب، فلسفہ، نجوم اور رياضي وغيرہ جيسے علوم منظر عام پر آنے لگے۔
يہ سب كچھ تاريخ ميں موجود ھے كہ حالات كا رخ بدلنے سے لوگوں ميں علمي وفكري شعور پيدا ھوا۔ باصلاحيت افراد كو اپني صلاحيتيں آزمانے كا موقعہ ملا۔ يہ علمي فضا اور تعليمي ماحول امام محمد باقر عليہ السلام اور امام جعفر صادق عليہ السلام كے زمانوں سے قبل وجود تك نہ ركھتا تھا۔ يہ سب كچھ صرف حالات بدلنے سے ھوا كہ لوگ اچانك علم و عمل، فكر و نظر كي باتيں سننے لگے اور پھر كيا ھوا كہ چھار سو علم كي روشني پھيلتي چلي گئي۔ اب اگر بنو عباس پابندي عائد كرنا بھي چاھتے تو ان كے بس سے باھر تھا۔ كيونكہ عربوں كے علاوہ دوسري قوميں مشرف بہ اسلام ھوچكي تھيں۔ ان قوموں ميں ايرانى غير معمولي حد تك روشن فكر تھے۔ ان ميں جوش و جذبہ بھي تھا اور علمي صلاحيت بھي۔ مصري اور شامى لوگ بھي فكري اعتبار سے خاصے زرخيز تھے۔ ان علاقوں ميں دنيا كے مختلف افراد آكر آباد ھوئے۔ پھر دنيا كے لوگوں كي آمد و رفت نے اس خطے كو علم و ادب كا گھوارا بنا ديا۔ مختلف قوميں، مختلف نظريات اور پھر بحث مباحثوں سے فضا ميں حيرت انگيز تبديلي رونما ھوئي۔ يھاں پر اسلام اور مسلمانوں كو غلبہ حاصل ھو چكا تھا۔ لوگ چاھتے تھے كہ اسلام كے بارے ميں زيادہ سے زيادہ معلومات حاصل كريں۔ دوسري طرف عرب قرآن مجيد ميں كچھ زيادہ غور و خوض نہ كرتے تھے، ليكن دوسري قوموں ميں قرآني تعليمات حاصل كرنے كے بارے ميں بہت زيادہ جذبہ كار فرما تھا۔ اس دور ميں قرآن مجيد كے ترجمہ، تفسير اور مفاھيم پر خاصہ كام ھوا اور لوگ قرآن مجيد كو بنيادي حيثيت دے كر بات كرتے تھے۔

نظريات كي جنگ
اچانك پھر كيا ھوا كہ عقائد و نظريات كا بازار گرم ھوگيا، سب سے پھلے تو تفسير قرآن، قرات اور آيات قراني پر بحث ھونے لگي۔ ايك ايسي جماعت پيدا ھوئي كہ جو لوگوں كو علم قرات، اور الفاظ، حروف كي صحيح ادائيگي كے بارے ميں تعليم دينے لگى، اس وقت قرآن مجيد كي اشاعت و طباعت ايسي نہ تھي كہ جيسا كہ ھمارے دور ميں ھے۔ ان ميں سے ايك شخص كھتا تھا ميں قرات كرتا ھوں اور يہ روايت فلاں بن فلاں صحابي سے نقل كرتا ھوں اور ان كي اكثريت حضرت علي عليہ السلام تك پھنچتي تھي۔ دوسرے افراد مختلف شخصيات سے روايت كرتے اسي طرح بحثوں اور مذاكروں كا سلسلہ عروج تك جا پھنچا۔ يہ لوگ مساجد ميں جاكر لوگوں كو قرآن مجيد كي تعليم ديتے۔ عربوں كي نسبت غير عرب زيادہ شوق و ذوق سے شركت كرتے تھے، اس كي وجہ يہ ھے كہ عجمي لوگ قرآن مجيد كو پڑھنے اور سمجھنے ميں زيادہ دلچسپي ليتے تھے۔ ايك قرات كے استاد مسجد ميں آكر لوگوں كو درس قرآن ديتے اور ان كے ارد گرد لوگوں كا ايك ھجوم جمع ھوجاتا۔ اتفاق سے قرات ميں بھي اختلاف پيدا ھوگيا پھر قرآن مجيد كے معاني پر اختلاف پيدا ھوگيا، كوئي كچھ معني كرتا اور كوئي كچھ ۔ اسي طرح احاديث كے بارے ميں بھي مختلف آراء تھيں۔ حافظ احاديث كو بہت زيادہ احترام كي نظر سے ديكھا جاتا تھا۔ وہ مساجد و محافل ميں بڑے فخر و انبساط سے احاديث نقل كرتا اور لوگوں كو نئے اسلوب كے ساتھ حديثيں بيان كرتا۔ نقل احاديث كے مراحل بھي بيان كرتا كہ يہ حديث ميں نے فلاں سے سني اور اس نے فلاں سے اور فلاں نے پيغمبر اكرم (ص) سے نقل كي ھے پھر اس كا معني و مفھوم يہ ھے۔
ان ميں قابل احترام طبقہ فقھاء كا تھا لوگ ان سے فقھي مسائل پوچھتے تھے جيسا كہ اب بھي لوگ علماء سے شرعي و فقھي مسائل دريافت كرتے ھيں۔فقھاء كي ايك كثير تعداد مختلف علاقوں ميں پھيل گئي۔ لوگوں كو آسان طريقے سے بتايا جاتا تھا كہ يہ چيز حلال ھے اور يہ حرام يہ چيز پاك ھے اور يہ نجس يہ كاروبار صحيح ھے اور يہ ناجائز وغيرہ وغيرہ، مدينہ بہت بڑا علمي مركز تھا اور دوسرا بڑا مركز كوفہ ميں قائم تھا۔ جناب ابو حنيفہ كوفہ ميں تھے بصرہ بھي علمي لحاظ سے كافي اچھي شھرت كا حامل تھا۔ اس كے بعد امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور امامت ميں اندلس فتح ھوا تو يھاں پر بھي علمي مركز قائم ھوگيا دوسرے لفظوں ميں يوں سمجھئے كہ ھر اسلامي شھر علم و عمل كا مركز كھلاتا تھا كھا جاتا تھا كہ فلاں فقيھہ كا يہ نظريہ ھے اور فلاں فقيھہ يہ فرماتے ھيں مختلف مكاتب فكر كي موجودگي ميں اختلاف رائے كا پيدا ھونا ضروري امر تھا۔ چنانچہ فقھي ميدان ميں بھي عقائد كي جنگ چھڑ گئي اور يہ روز بروز زور پكڑتي گئي۔ ان تمام اختلافات سے بڑھ كر اختلاف "علم كلام" كا تھا۔
پہلي صدي ھي ميں متكلم حضرات كي آمد شروع ھوگئي جيسا كہ ھم امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور ميں ديكھتے ھيں كہ "متكلمين" آپس ميں بحث مباحثہ كرتے اور امام جعفر صادق عليہ السلام كے بعض شاگرد علم كلام ميں خاص مھارت ركھتے تھے اور اعتراض كرنے والوں كو بڑے شائستہ طريقے سے جواب ديتے تھے۔ يہ لوگ خدا، صفات خدا اور قرآن مجيد كي ان آيات سے متعلق بحث و تمحيص كرتے جو خدا كے بارے ميں ھوا كرتي تھيں۔ كہا جاتا تھا كہ خدا كي فلاں صفت عين ذات ھے يا نھيں، كيا وہ حادث ھے يا قديم؟ نبوت اور وحي كے بارے ميں بحث كي جاتي تھى، شيطان كو بھي بحث ميں لايا جاتا ھے كہ يہ كون ھے؟ اور كھاں سے آيا ھے اس كا كام كيا ھے اور اس كے شر سے كيسے بچا جاسكتا ھے؟ پھر ايمان اور عمل پر روشني ڈالي جاتي قضا وقدر، جبر و اختيار پر گفتگو ھوتي۔ غرض كہ علم كلام كے ماھرين كے مابين نوك جھونك ھوتي رھتي اور مباحثوں كا يہ طويل سلسلہ بڑھتا چلا گيا اور آج تك موجود ھے اور قيامت تك رھے گا ليكن بحث كے وقت انسان انتھا پسندانہ رويے كو ترك كركے صلح و آشتي اور پرامن رويے كو اپنے سامنے ركھے۔ ان بحثوں كا نتيجہ تھا كہ ايك خطرناك ترين گروہ پيدا ھو گيا۔ ان كو آپ زنديق، لا مذھب كھہ سكتے ھيں۔ يہ لوگ خدا اور اديان كے قائل نہ تھے۔ ان كو ھر لحاظ سے مكمل آزادي تھى، يہ مكہ و مدينہ، مسجد الحرام يھاں تك مسجد الحرام اور مسجد النبي ميں بيٹھ كر اپنے عقائد كي ترويج كرتے تھے۔
اگر چہ وہ ھمارے نزديك ايك بے دين كي سي حيثيت ركھتے ھيں ليكن وہ پڑھے لكھے ضرور تھے، ان كے سينوں ميں علم اور ان كے ذھنوں ميں فكر تھى، جو انھيں كچھ سوچنے اور بولنے پر مجبور كر رھي تھي يہ اور بات ھے كہ وہ سيدھي راہ سے بھٹك گئے تھے۔ ان ميں كچھ سرياني زبان بولتے تھے اور كچھ يوناني زبان جانتے تھے، كچھ ايرانى تھے كہ فارسي بولتے تھے۔ كچھ ھندي زبان جانتے تھے۔ سر زمين ھند سے كافي زنديق منگوائے گئے تھے۔ يہ ايك الگ بحث ھے كہ زنديقيوں كا وجود كھاں سے شروع ھوا اور اس كي وجہ كيا ھے؟اس دور كي ايك اور بات كہ لوگ افراط وتفريط كا شكار ھوگئے تھے۔ كچھ لوگ صوفيوں اور خشك مقدس مولويوں كے روپ ميں سامنے آگئے۔ يہ صوفي حضرات بھي حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور امامت ميں وارد ھوئے۔ انھوں نے بہت جلد اپنا ايك مستقل اور الگ گروہ بنا ليا۔ يہ كھلے عام تبليغ كرتے تھے۔
يہ لوگ اسلام كے خلاف كوئي بات نہ كرتے بلكہ لوگوں كو يہ باور كرانے كي كوشش كرتے تھے كہ اصل اسلام وھي ھے كہ جو يہ كھہ رھے ھيں۔ ان خشك مقدس مولويوں نے لوگوں ميں عجيب قسم كا نظريہ پيدا كرنے كي بھر پور كوشش كي۔ ان كا ظاھري صالحانہ، عابدانہ اور زاھدانہ انداز اختيار كرنا زبردست كشش كا باعث بنا اور يہ خالص اور حقيقي دين اسلام كے ليے زبر دست خطرے كا باعث تھا خوارج بھي اسي نظريہ كي پيداوار ھيں۔

امام جعفر صادق (ع) اور مختلف مكاتب فكر
ھم ديكھتے ھيں كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے اتني بڑي مشكلات اور پريشانيوں كے باوجود مختلف فكر سے تعلق ركھنے والے افراد كي اسلامي طريقے سے تربيت كرنے كي بھر پور كوششيں كيں۔ قرآت اور تفسير ميں امام عليہ السلام نے انتھائي قابل ترين شاگرد تيار كيے جو لوگوں كو قرآن مجيد كي صحيح طريقے سے تعليم ديتے اور ان كو صحيح تفسير سے متعارف كراتے، جہاں كہيں كسي قسم كي غلطي ديكھتے فوراً پكار اٹھتے اور بروقت اصلاح كرنے كي كوشش كرتے۔ پھر ايسے ھونھار طلبہ بھي ميدان ميں آئے جو علم حديث ميں پوري طرح سے مھارت ركھتے۔ نا سمجھ لوگوں كو بتايا جاتا كہ حديث صحيح ھے اور يہ صحيح نھيں ھے۔ اس حديث كا سلسلہ پيغمبر اسلام (ص) تك پھنچتا ھے اور يہ حديث من گھڑت ھے۔
فقھي مسائل كے حل اور لوگوں كي شرعي احكام ميں تربيت كے ليے آپ كے لائق ترين شاگردوں نے بھر پور كردار ادا كيا۔ جولوگ فقہ سے نا آشنائي ركھتے يہ نوجوان طلبہ قريہ قريہ جاكر لوگوں كو حلال وحرام اور ديگر مسائل فقھي كي تعليم ديتے۔ يہ ايك عجيب اتفاق ھے كہ برادران اھل سنت كے تمام بڑے مذھبي رھنما كسي نہ كسي حوالے سے امام جعفر صادق عليہ السلام سے علمي فيض حاصل كرتے رھے ھيں۔تاريخ كي تمام كتب ميں درج ھے كہ جناب ابو حنيفہ دو سال تك امام عليہ السلام سے پڑھتے رھے ھيں۔ جناب ابو حنيفہ كا ايك قول بھت مشھور ھے اور يہ قول تمام كتب اھل سنت ميں موجود ھے كہ ملت حنفيہ كے سر براہ جناب ابو حنيفہ نے فرمايا كہ
"لولا السنتان لھلك نعمان"
"اگر ميں نے وہ دو سال امام عليہ السلام كي شاگردي ميں نہ گزارے ھوتے تو ميں ھلاك ھوجاتا۔"
جناب ابو حنيفہ كا اصل نام نعمان ھے۔ كتب ميں آپ كو نعمان بن ثابت بن زوطي بن مرزبان، كے نام سے ياد كيا گيا ھے۔ آپ كے آباؤ اجداد ايرانى تھے۔
اسي طرح اھلسنت كے دوسرے امام جناب مالك بن انس امام جعفر صادق عليہ السلام كے ھم عصر تھے۔ جناب مالك نے بھي امام عليہ السلام سے كسب فيض كيا اور عمر بھر اس پر فخر كرتے رھے۔ امام شافعي كا دور بعد كا دور ھے انھوں نے جناب ابو حنيفہ كے شاگردوں، مالك بن انس اور احمد بن حنبل سے استفادہ كيا۔ ليكن ان كے اساتذہ كا سلسلہ امام جعفر صادق عليہ السلام سے جا ملتا ھے۔ اپنے وقت كے چند علماء، فقہاء، محدثين امام جعفر صادق عليہ السلام كي علمي و ديني فيوضيات سے مستفيض ھوئے۔ امام عليہ السلام كے حلقہ درس ميں علماء و فضلاء كا ھمہ وقت ٹھٹھ لگا رھتا تھا۔ اب ميں اھل سنت كے بعض علماء كے امام جعفر صادق عليہ السلام كے بارے ميں تاثرات پيش كرتا ھوں اس اميد كے ساتھ كہ ھمارے محترم قارئين اسے پسند فرمائيں گے۔

امام جعفر صادق (ع) كے بار ے ميں جناب مالك كے تاثرات
جناب مالك بن انس مدينہ ميں رھائش پزير تھے۔ نسبتاً خود پسند انسان تھے۔ ان كا كھنا ھے كہ ميں جب بھي حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كي خدمت ميں حاضر ھوتا تو آپ كو ھميشہ اور ھر وقت ھنستا مسكراتا ھوا پاتا۔
"وكان كثير التبسم"
آپ كے ھونٹوں پر ھميشہ مسكراھٹ كے پھول كھلے ھوئے ھوتے تھے۔"
گويا آپ كو ميں نے ھميشہ خوش اخلاق پايا۔ آپ كي ايك عادت يہ تھي كہ جب آپ كے سامنے پيغمبر اسلام (ص) كا نام مبارك ليا جاتا تو آپ كے چھرے كا رنگ يكسر بدل جاتا۔ ميں اكثر اوقات امام عليہ السلام كے پاس آتا رھتا تھا۔ آپ اپنے زمانے كے عابد و زاھد انسان تھے۔ تقويٰ و پرھيز گاري اور راستبازي ميں آپ كا كوئي ثاني نھيں تھا۔ جناب مالك ايك واقعہ نقل كرتے ھوئے كھتے ھيں كہ ميں ايك مرتبہ امام عليہ السلام كے ھمراہ تھا جب ھم مدينہ سے نكل كر مسجد الشجرہ پر پھنچے تو ھم نے احرام باندھ ليا ھم چاھتے تھے كہ لبيك كھيں اور رسمي طور پر محرم ھو جائيں، چنانچہ ھم نے لبيك كھنا شروع كيا اور احرام باندھا تو ميري نگاہ امام عليہ السلام پر پڑي تو ميں نے ديكھا كہ آپ كے چھرہ اقدس كا رنگ يكسر بدل گيا ھے، اور آپ كا بدن كانپ رھا ھے۔ يوں لگتا تھا كہ شايد سواري سے گر جائيں۔ خدا خوفي كي وجہ سے آپ پر عجيب قسم كي كيفيت طاري تھي۔ ميں نے عرض كيا اے فرزند رسول (ص) ! اب آپ لبيك كھہ ھي ديں تو آپ نے فرمايا ميں كيا كھوں اور كيسے كھوں اگر ميں لبيك كھتا ھوں؟ تو مجھے جواب ملے كہ لا لبيك تو اس وقت ميں كيا كروں گا؟ اس روايت كو آقا شيخ عباس قمي اور دوسرے مورخين نے اپني كتب ميں نقل كيا ھے۔ اس روايت كے راوي جناب مالك بن انس ھيں جو اھل سنت حضرات كے بہت بڑے امام ھيں جناب مالك كا كھنا ھے كہ:
"ما رات عين ولا سمعت اذن ولا خطر علي قلب بشر افضل من جعفر بن محمد"
آنكھ نے نھيں ديكھا كان نے نھيں سنا اور كسي كے خيال خاطر ميں نھيں آيا كہ كوئي مرد امام جعفر صادق عليہ السلام سے افضل نظر سے گزرا ھو۔"
محمد شھرستاني جو كتاب الملل والنحل كے مصنف ھيں آپ پانچويں ھجري ميں بہت بڑے عالم، متكلم، فلاسفي ھو كر گزرے ھيں۔ ديني و مذھبي اور فلسفيانہ اعتبار سے يہ كتاب دنيا بھر ميں مشھور ھے۔ مصنف كتاب ايك جگہ پر امام جعفر صادق عليہ السلام كا تذكرہ كرتے ھوئے لكھتا ھے كہ:
"ھو ذو علم غرير"
كہ آپ كا علم ٹھاٹھيں مارتا ھوا سمندر تھا۔"
وادب كامل في الحكمۃ"
حكمت ميں ادب كامل تھے۔"
وزھد في الدنيا وورع تام عن الشھوات"
آپ غير معمولي پر متقي و پرھيز گار تھے آپ خواھشات نفساني سے دور رھتے تھے۔"
"ويفيض عليٰ الموالي لہ اسرار العلوم ثم (دخل العراق)"
آپ سرزمين مدينہ ميں رہ كر دوستوں اور لوگوں كو علم كي خيرات بانٹتے تھے۔" پھر آپ عراق تشريف لے آئے يہ مصنف امام عليہ السلام كي سياست سے كنارہ كشي پر تبصرہ كرتے ھوئے لكھتا ھے۔"
ولا نازع في الخلافۃ احدا"
"كہ آپ نے خلافت كے مسئلہ پر كسي سے كسي قسم كا اختلاف ونزاع نہ كيا۔"
اس كنارہ گيري كي وجہ يہ تھي كہ چونكہ آپ علم و معرفت كے سمندر ميں غوطہ زن رھتے تھے اس ليے دوسرے كاموں كے ليے آپ كے پاس وقت ھي نہ تھا۔ ميں محمد شھرستاني كي توجيہ كو صحيح نھيں سمجھتا۔ ميرا مقصود اس سے يہ ھے كہ اس نے كھلے لفظوں ميں امام كي غير معمولي معرفت كا اعتراف كيا ھے لكھتا ھے۔
"ومن غرق في بحر المعرفۃ لم يقع في شط"
كہ جو دريائے معرفت ميں ڈوبا ھوا ھو وہ خود كو كنارے پر نھيں لے آئے گا" اس كے نزديك خلافت و حكومت ايك سطحي سي چيزيں ھيں جبكہ علم و معرفت كي بات ھي كچھ اور ھے۔
"ومن تعليٰ اليٰ ذروۃ الحقيقۃ لم يخف من حط"
كہ جو حقيقت كي بلند و بالا چوٹيوں پر پھنچ جائے وہ نيچے كي طرف آنے سے كيسے ڈرے گا۔"
با وجوديكہ شھرستاني شيعوں كا مخالف شخص ھے، ليكن امام جعفر صادق عليہ السلام كے بارے ميں مدحت سرائي كر رھا ھے۔ اس نے اپني كتاب الملل و النحل ميں شيعوں كے خلاف بہت زيادہ زھر اگلا ھے۔ ليكن اس نے امام عليہ السلام كو بہت ھي اچھے لفظوں كے ساتھ ياد كيا ھے۔ اگر چہ يہ دشمن تھا ليكن حقيقت كو ماننے پر مجبور ھو گيا۔ يہ نہ مانتا تو كيسے نہ مانتا؟ امام جعفر صادق عليہ السلام جيسا كوئي ھوتا تو يہ سامنے لاتا۔ سورج كا بھلا چراغوں سے كيسے مقابلہ كيا جاسكتا ھے؟ اب بھي دنيا ميں ايسے علماء موجود ھيں جو شيعيت كے سخت دشمن ھيں۔ ليكن امام جعفر صادق عليہ السلام كا بيحد احترام كرتے ھيں۔ وہ كھتے ھيں كہ شيعہ حضرات سے جن باتوں پر ھمارا اختلاف ھے۔ وہ امام جعفر صادق عليہ السلام سے بيان كردہ باتوں ميں نھيں ھے كيونكہ صادق آل محمد عليھم السلام ايك انتھائي باكمال شخصيت و بے نظير حيثيت كے مالك انسان تھے اور آپ كي علمي خدمات اور ديني احسانات كو كبھي اور كسي طور بھي نھيں بھلايا جاسكتا۔
احمد آمين كي رائے فجر الاسلام، ضحيٰ الاسلام، ظھر الاسلام، يوم الاسلام يہ احمد آمين كي معروف ترين كتب ھيں۔ احمد آمين ھمارے ھم عصر عالم دين ھيں۔ اور يہ شيعوں كے سخت مخالف ھيں۔ ان كو مذھب شيعہ كے بارے ميں ذرا بھر علم نھيں ھے۔ سني سنائي باتوں كو وجہ اعتراض بناكر شيعوں كے خلاف اپني كتابوں ميں انھوں نے بھت كچھ لكھا ھے۔ حالانكہ اس سطح اور اس پائے كے عالم دين كو حق كو سامنے ركھ كر حقيقت پسندي كا مظاھرہ كرنا چاھيے تھا۔ ليكن انھوں نے امام جعفر صادق عليہ السلام كي جتني تعريف كي ھے اتني كسي اور سني عالم نے نھيں كي۔ امام عليہ السلام كے فرامين اور ارشادات كي تفسير و تشريح اس انداز ميں كي ھے كہ كوئي عالم دين بھي نہ كر سكے۔ اس كي وجہ يہ ھے كہ انھوں نے امام جعفر صادق عليہ السلام كي سيرت اور تاريخ كا مطالعہ كيا ھے۔ ملت اسلاميہ، مذھب جعفريہ كے بارے ميں ذرا بھر بھي تحقيق كرنے كي زحمت گوارا نہيں كي۔ كاش وہ شيعوں كے بارے ميں حقيقت پسندي سے كام ليتے اور ايك عظيم اور شريف ملت پر الزامات عائد كر كے اپني كتب كے صفحات كو سياہ نہ كرتے؟

جاحظ كا اعتراف
ميرے نزديك جاحظ كي علمي صلاحيت اور ديني قابليت دوسرے سني علماء سے بڑھ كر ھے۔ يہ شخص دوسري صدي كے اواخر اور تيسري صدي كے اوائل كا سب سے بڑا عالم ھے۔ يہ شخص ذھانت ومطانت كا عظيم شاھكار ھونے كےساتھ ساتھ غير معمولي حد تك صاحب مطالعہ تھا۔ جاحظ نہ صرف اپنے عھد كا بہت بڑا اديب ھے بلكہ ايك بہت بڑا محقق اور مورخ بھي ھے انھوں نے حيوان شناسي پر ايك كتاب الحيوان تحرير كي تھي آج يہ كتاب يورپي سائنسدانوں كے نزديك بہت اھميت ركھتي ھے۔ بلكہ ماھرين حيوانات اس كتاب پر نئے نئے تحقيقات كر رھے ھيں۔ جانوروں اور حيوانات كے بارے ميں اس سے بڑھ كر كوئي كتاب نھيں ھے۔ يہ كتاب اس دور ميں لكھي گئي جب يونان اور غير يونان ميں جديد علوم نے اتني ترقي نہ كي تھي۔ اس وقت ان كے پاس كسي قسم كا موادنہ تھا۔ انھوں نے اپني طرف سے حيوانات پر تحقيق كر كے دنيا بھر كے جديد و قديم ماھرين كو ورطئہ حيرت ميں ڈال ديا ھے۔
جاحظ ايك متعصب سني عالم ھے۔ انھوں نے شيعوں كے ساتھ مناظرے بھي كئے اور انتھا پسندي كے باعث شيعہ حضرات ان كو ناصبي بھي كھتے ھيں۔ ليكن ميں ذاتي طور پر كم از كم ان كو ناصبي نھيں كھہ سكتا۔ يہ شخص امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور كا عالم ھے۔ ھوسكتا ھے اس نے امام عليہ السلام كا آخري دور پايا ھو؟ شايد يہ اس وقت بچہ ھو يا يہ بھي ھوسكتا ھے كہ امام عليہ السلام كا دور ايك نسل قبل كا دور ھو۔ كھنے كا مقصد يہ ھے كہ اس كا دور اور امام عليہ السلام ايك دوسرے كے بہت قريب ھے۔ بھر حال جاحظ امام جعفر صادق (ع) كے بارے ميں اظھار خيال كرتے ھوئے لكھتا ھے كہ:
"جعفر بن محمد الذي ملأ الدنيا علمہ و فقھہ"
كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے پوري دنيا كو علم و دانش اور معرفت و حكمت سے پر كرديا ھے۔"
ويقال ان ابا حنيفۃ من تلامذتہ و كذلك سفيان الثورى"
كہا جاتا ھے كہ جناب ابو حنيفہ اور سفيان ثوري كا شمار امام عليہ السلام كے شاگردان خاص ميں سے ھوتا ھے سفيان ثوري بہت بڑے فقيھہ اور سوفي ھو كر گزرے ھيں۔

مير علي ھندي كا نظريہ
مير علي ھندي ھمارے ھم عصر سني عالم ھيں وہ امام جعفر صادق عليہ السلام كے بارے ميں اظھارے خيال كرتے ھوئے لكھتے ھيں كہ
"لا مشاحۃ ان انتشار العلم في ذلك الحين قد ساعد علي فك الفكر من عقالہ"
علوم كا پھيلاؤ اس زمانے ميں ممكن بنايا گيا اور لوگوں كو فكري آزادي ملي اور ھر طرح كي پابندياں ختم كردي گئيں۔"
فاصبحت المناقشات الفلسفيۃ عامۃ في كل حاضرۃ من حواضر العالم الاسلامى"
"دنيا بھر كے اسلامي حلقوں ميں علمي و عقلي اور فلسفيانہ مباحث كو رواج ملا۔"
جناب ھندي مزيد لكھتے ھيں كہ:
"ولا يفوتنا ان نشير الي ان الذي تزعم تلك الحركۃ ھو حفيد علي ابن ابي طالب المسمي بالامام الصادق"
ھم سب كو يہ بات ھرگز نھيں بھولني چاھيے كہ جس عظيم شخصيت نے دنيائے اسلام ميں فكري انقلاب كي قيادت كي ھے وہ حضرت علي ابن ابي طالب عليہ السلام كے پوتے ھيں اور انكا نام نامي امام صادق (ع) ھے۔"
وھو رجل رحب افق التفكير"
وہ ايسے انسان تھے كہ جن كا افق فكري بہت بلند ھے يعني جن كي فكري وسعت كي كوئي حد نہ تھي۔"
"بعيد اغوار العقل"
ان كي عقل و فكر بہت گھري تھي ۔"
"ملم كل المام بعلوم عصرہ"
آپ اپنے عھد كے تمام علوم پر خصوصي توجہ ركھتے تھے۔ جناب ھندي مزيد كھتے ھيں ۔"
ويعتبر في الواقع ھو اول من اسس المدارس الفلسفيۃ المشھورۃ في الاسلام"
در حقيقت سب سے پھلے جس شخصيت نے جديد علمي مراكز قائم كيے ھيں وہ امام جعفر صادق عليہ السلام ھي ھيں۔"
ولم يكن يحضر حلقته العلميۃ اولئك الذين اصبحوا مؤسسي المذاھب الفقھيۃ فحسب بل كان يحضرھا طلاب الفسفۃ والمتفلسفون من انحاء الواسعۃ"
وہ كہتا ھے كہ آپ نہ صرف ابو حنيفہ جيسي بزرگ شخصيت كے استاد تھے بلكہ جديد علوم كي بھي طلبہ كو تعليم ديا كرتے تھے گويا جديد ترقي امام عليہ السلام كي مرھون منت ھے۔

احمد زكي صالح كے خيالات
كتاب امام صادق عليہ السلام ميں آقائے مظفر احمد زكي صالح ماھنامہ الرسالۃ العصريہ سے نقل كرتے ھيں كہ شيعہ فرقہ كي علمي پيشرفت تمام فرقوں سے زيادہ ھے۔ كھا جاتا ھے كہ علوم كي ترقي اور پيشرفت ميں اھل ايران كا بھت بڑا عمل دخل ھے۔ يہ اس وقت كي بات ھے كہ جب ايران ميں شيعوں كي اكثريت نہ تھي۔ ابھي ھم اس كے بارے ميں بحث نھيں كرتے يہ پھر كبھي سھي يہ مصري لكھتا ھے:
"من الجلي الواضح لدي كل من درس علم الكلام الفرق الشيعۃ كانت انشط الفرق الاسلاميۃ حركۃ"
كہ واضح سي بات ھے كہ ھر وہ شخص جو ذرا بھر علمي شعور ركھتا ھے وہ اس بات كا معترف ھے كہ شيعہ فرقہ كي مذھبي و علمي پيشرفت تمام فرقوں سے زيادہ ھے۔"
وكانت اوليٰ من اسس المذاھب الدينيۃ علي اسس فلسفيۃ حتيٰ ان البعض ينسب الفلسفۃ خاصۃ بعلي بن ابي طالب"
"يعني شيعہ پہلا اسلامي مذھب ھے كہ جو ديني مسائل كو فكري و عقلي بنيادوں پر حل كرتا ھے۔ شيعہ يعني امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور امامت ميں مختلف علوم كو عقلي و فكري لحاظ سے پركھا جاتا تھا۔ اس كي بھترين دليل يہ ھے كہ اھل تسنن كي احاديث كي ان كتابوں (صحيح بخارى، صحيح مسلم، جامع ترمذى، سنن ابي داؤد و صحيح نسائي) ميں صرف اور صرف فروعي مسائل كو پيش كيا گيا ھے۔ دوسرے لفظوں ميں بتايا گيا ھے كہ وضو كے احكام يہ ھيں، نماز كے مسائل كچھ اس طرح كے ھيں۔ روزہ، حج، جھاد، وغيرہ كے احكام يہ ھيں۔ مثال كے طور پر پيغمبر اسلام (ص) نے سفر ميں اس طرح عمل فرمايا ھے ليكن آپ اگر شيعہ كي احاديث كي كتب كا مطالعہ كريں تو آپ ديكھيں گے شيعہ احاديث ميں سب سے پھلے عقل و جھل كے بارے ميں گفتگو كي گئي ھے، ليكن اھل سنت حضرات كي كتب ميں اس طرح كي باتيں موجود نھيں ھيں۔ ميں يہ كھنا چاھتا ھوں كہ اس كي بنياد صرف امام جعفر صادق عليہ السلام ھيں، بلكہ امام صادق عليہ السلام كے ساتھ ساتھ اس ميں تمام آئمہ طاھرين عليھم السلام كي كوشش بھي شامل ھيں۔ اس كي اصل بنياد تو خود حضرت پيغمبر اكرم (ص) كي ذات گرامي ھے۔ اس عظيم مشن كا آغاز حضرت رسالت مآب صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے كيا تھا اور اسے آگے آل محمد (ص) نے بڑھايا ھے۔
چونكہ امام جعفر صادق (ع) كو كام كرنے كا خوب موقعہ ملا ھے اس ليے آپ نے اپنے آباءو اجداد كي علمي ميراث كو كما حقہ محفوظ ركھا ھے۔ اور اس عظيم ورثہ كو قيامت تك آنے والي نسلوں كيلئے ثمر آور بناديا۔ ھماري احاديث كي كتب ميں كتاب العقل والجھل كے بعد كتاب التوحيد آتي ھے۔ ھمارے پاس توحيد الٰھي كے بارے ميں ھزاروں مختلف احاديث موجود ھيں۔ ذات خداوندى، معرفت الٰھى، فضاء و قدر، جبر و اختيار سے متعلق ملت جعفريہ كے پاس نہ ختم ھونے والا ذخيرہ احاديث موجود ھے۔ شيعہ قوم فخر سے كھہ سكتي ھے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام اور ھمارے جليل القدر ديگر آئمہ طاھرين نے جتنا ھميں ديا ھے اتنا كسي اور پيشوا نے اپني ملت كو نھيں ديا۔ اس ليے ھم كھہ سكتے ھيں كہ فكرى، علمي اور عقلي و نظرياتي لحاظ سے امام جعفر صادق عليہ السلام نے نئے علوم كي بنياد ركھ كر بني نوع انسان پر بہت بڑا احسان كيا ھے۔

جابر بن حيان
ايك وقت ايسا آيا كہ ايك نئي اور حيرت انگيز خبر نے پوري دنيا كو ورطئہ حيرت ميں ڈال ديا وہ تھي جابر بن حيان كي علمي دنيا ميں آمد ۔ تاريخ اسلام كے اس عظيم ھيرو كو جابر بن حيان صوفي بھي كھا جاتا ھے۔ اس دانائے راز نے علمي انكشاف اور سائنسي تحقيقات كے حوالے سے ايك نئي تاريخ رقم كر كے مسلمانوں كا سر فخر سے بلند كر ديا۔ ابن النديم نے اپني مشھور كتاب الفھرست ميں جناب جابر كو ياد كرتے ھوئے لكھا ھے كہ جابر بن حيان ايك سو پچاس علمي وفلسفي كتب كے مصنف و مؤلف ھيں۔ كيمسٹري جابر بن حيان كے فكري احسانات كا صلہ ھے۔ ان كو كيمسٹري كي دنيا ميں باپ اور باني كا درجہ ديا جاتا ھے۔ ابن النديم كے مطابق جناب جابر حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كے دسترخوان علم سے خوشہ چيني كرنے والوں ميں سے ايك ھيں۔
ابن خلكان ايك سني رائٹر ھيں۔ وہ جابر بن حيان كے بارے ميں لكھتے ھيں كہ كيمسٹري كا يہ باني امام جعفر صادق عليہ السلام كا شاگر تھا۔ دوسرے مورخين نے بھي كچھ اس طرح كي عبارت تحرير كي ھے۔ لطف كي بات يہ ھے كہ جن جن علوم كي جناب جابر نے بنياد ركھي ھے وہ ان سے پھلے بالكل وجود ھي نہ ركھتے تھے۔ پھر كيا ھوا كہ جابر بن حيان نے نئي نئي اختراعات ايجاد كر كے جديد ترين دنيا كو حيران كر ديا۔ اس موضوع پر اب تك سينكڑوں كتابيں اور رسالہ جات شائع ھو چكے ھيں۔ دنيا بھر كے سائنسدان اور ماھرين نے جناب جابر كي جديد علمي خدمات كو بيحد سراھتے ھوئے كھا ھے كہ اگر جابر نہ ھوتے تو پوري انسانيت اتنے بڑے علم سے محروم رھتي۔ ايران كے ممتاز دانشور جناب تقي زادہ نے جابر بن حيان كي علمي وديني خدمات پر انھيں زبردست خراج تحسين پيش كيا ھے۔ ميرے خيال ميں جابر كے متعلق بھت سي چيزيں مخفي اور پوشيدہ ھيں۔ تعجب كي بات يہ ھے كہ شيعہ كتب ميں بھي جناب جابر جيسے عظيم ھيرو كا تذكرہ بھت كم ھوا ھے۔ يھاں تك كہ بعض شيعہ علم رجال اور حديث كي كتابوں ميں اسي بزرگ ھستي كا نام كھيں پہ استعمال نھيں ھوا۔ ابن النديم شائد شيعہ ھو اس لئے انھوں نے جناب جابر كا نام اور تذكرہ خاص اھتمام اور احترام كے ساتھ كيا ھے۔ يہ ايك حقيقت ھے كہ پوري دنيا كو بالآخر ماننا پڑا كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے جس طرح لائق و فائق علماء تيار كئے ھيں اتنے اور كسي مذھب نے پيشوا نھيں كئے۔

ھشام بن الحكم
امام جعفر صادق عليہ السلام كے ايك اور معروف شاگرد كا نام ھشام بن الحكم ھے۔ يہ شخص واقعتاً نابغہ روزگار ھے، اپنے دور كے تمام دانشوروں پر ھميشہ ان كو برتري حاصل رھي ھے۔ آپ جب بھي كسي موضوع پر بات چيت كرتے تو سننے والوں كو مسحور كر ديتے۔ اس مرد قلندر كي زبان ميں عجيب تاثير تھي۔ جناب ھشام سے بڑے بڑے علماء آكر شوق وذوق كے ساتھ بحث و مباحثہ كرتے اور سمندر علم كي جولانيوں اور طوفان خيزيوں كو ديكھ كر وہ اپنے اندر ايك خاص قسم كا اطمينان و سكون حاصل كرتے۔ يہ سب كچھ ميں اھل سنت بھائيوں كي كتب سے پيش كر رھا ھوں۔ ابو الھزيل علاف ايك ايرانى النسل دانشور تھے۔ آپ علم كلام كے اعليٰ پايہ كے ماھر تسليم كيے جاتے تھے۔ شبلي نعماني تاريخ علم كلام ميں لكھتا ھے كہ ابو الھزيل كے مقابلے ميں كوئي شخص بحث نھيں كرسكتا تھا۔ ليكن يھي ابو الھزيل ھشام بن الحكم كے سامنے آنے كي جرأت نہ كرتا تھا۔ جناب ھشام نے جديد علوم ميں جديد تحقيق كو رواج ديا۔ آپ نے طبعيات كے بارے ميں ايسے ايسے اسرار و رموز كو بيان كيا ھے كہ وہ لوگوں كے وھم و خيال ميں بھي نہ تھے۔ ان كا كھنا ھے كہ رنگ و بو انساني جسم كا ايك مستقل جزو ھے اور وہ ايك ايسي چيز ھے جو فضا ميں پھيل جاتي ھے۔
ابو الھزيل ھشام كے شاگردوں ميں سے تھا اور وہ اكثر اپني علمي آراء ميں اپنے استاد محترم جناب ھشام كا حوالہ ضرور ديا كرتے تھے۔ اور ھشام امام جعفر صادق عليہ السلام كي شاگردي پر نہ فقط فخر كيا كرتے تھے بلكہ خود كو "خوش نصيب" كھا كرتے تھے۔ جيسا كہ ھم نے پھلے عرض كيا ھے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے تعليم و تربيت اور تھذيب و تمدن كے فروغ اور احياء كے ليے شب و روز كام كيا۔ فرصت كے لمحوں كو ضروري اور اھم كاموں پر استعمال كيا، چونكہ ھمارے آئمہ ميں سے كسي كو كام كرنے كا موقعہ ھي نہ ديا گيا۔ امام جعفر صادق عليہ السلام واحد ھستي ھيں كہ جنھوں نے بہت كم عرصے ميں صديوں كا كام كر دكھايا۔ پھر امام رضا عليہ السلام كو بھي علمي و ديني خدمات كے حوالے سے كچھ كام كرنے كا موقعہ ميسر آيا۔ ان كے بعد فضا بدتر ھوتي چلي گئى، حضرت امام موسيٰ كاظم عليہ السلام كا دور انتھائي مصيبتوں، پريشانيوں اور دكھوں كا دور ھے۔ آپ پر حد سے زيادہ پابندياں عائد كر دي گئيں، بغير كسي وجہ اور جرم و خطا كے آپ كو زندگي بھر زندانوں ميں رہ كر اسيرانہ زندگي بسر كرني پڑي۔
ان كے بعد ديگرائمہ طاھرين عليھم السلام عالم جواني ميں شھيد كر ديئے گئے۔ ان كا دشمن بھي كتنا بزدل تھا كہ اكثر كو زھر كے ذريعہ شھيد كر ديا گيا۔ ان پر عرصہ حيات ا س ليے تنگ كر ديا تھا كہ وہ علم و عمل كے فروغ اور انسانيت كي فلاح و بھبود كے ليے كام نہ كر سكيں۔ امام جعفر صادق عليہ السلام كو ايك تو كام كرنے كا موقع مل گيا دوسرا آپ نے عمر بھي لمبي پائي تقريباً ستر (۷۰) سال تك زندہ رھے۔
اب يہ صورت حال كس قدر واضح ھو گئي ھے كہ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام اور حضرت امام حسين عليہ السلام كے ادوار ميں كتنا فرق تھا؟ امام عالي مقام عليہ السلام كو ذرا بھر كام كرنے كا موقعہ نہ مل سكا، يعني حالات ھي اتنے نا گفتہ بہ تھے كہ مصيبتوں اور مجبوريوں كي وجہ سے سخت پريشان رھے۔ پھر انتھائي بے دردي كے ساتھ آپ كو شھيد كر ديا گيا، ليكن آپ كي اور آپ كے ساتھيوں كي مظلوميت نے پوري دنيا ميں حق و انصاف كا بول بالا كر ديا اور ظالم كا نام اور كردار ايك گالي بن كر رہ گيا۔
امام حسين عليہ السلام كے ليے دو ھي صورتيں تھيں ايك يہ كہ آپ خاموش ھو كر بيٹھ جاتے اور عبادت كرتے دوسري صورت وھي تھي جو كہ آپ نے اختيار كى، يعني ميدان جھاد ميں اتر كر اپني جان جان آفرين كے حوالے كر دي۔ امام جعفر صادق عليہ السلام كو حالات و واقعات نے كام كرنے كا وقت اور موقعہ فراھم كر ديا۔ شھادت تو آپ كو نصيب ھوني تھي۔ آپ كو جو نھي موقعہ ملا آپ نے چھار سو علم كي شمعيں روشن كر كے جگہ جگہ روشني پھيلا دي۔ علم كي روشني اور عمل كي خوشبو نے ظلمت و جھالت ميں ڈوبي ھوئي سوسائٹي كو از سر نو زندہ كر كے اسے روشن و منور كر ديا۔ عرض كرنے كا مقصد يہ ھے كہ آئمہ اطھار (ع) كي زندگي كا مقصد اور مشن اور طريقہ كار ايك جيسا ھے۔ دوسرے لفظوں ميں اگر امام صادق عليہ السلام نہ ھوتے تو امام حسين عليہ السلام بھي نہ ھوتے۔ اسي طرح امام حسين (ع) نہ ھوتے تو امام صادق (ع) نہ ھوتے۔ يہ ھستياں ايك دوسرے كے ساتھ لازم و ملزوم كي حيثيت ركھتي ھيں۔ امام حسين عليہ السلام نے ظلم اور باطل كے خلاف جھاد كرتے ھوئے شھادت پائي۔ پھر آنے والے آئمہ اطھار (ع) نے ان كے فلسفہ شھادت اور مقصد قيام كو عملي لحاظ سے پايہ تكميل تك پھنچايا۔
امام جعفر صادق (ع) نے اگر چہ حكومت وقت كے خلاف علانيہ طور پر جنگ شروع نھيں كي تھي۔ ليكن يہ بھي پوري دنيا جانتي ھے كہ آپ حكام وقت سے نہ فقط دور رھے بلكہ خفيہ طور پر ان كے ساتھ بھر پور مقابلہ بھي كيا۔ ايك طرح كي امام عليہ السلام سرد جنگ لڑتے رھے۔ آپ (ع) كي وجہ سے اس وقت كے ظالم حكمرانوں كي ظالمانہ كاروائيوں كي داستانيں عام ھوئيں اور ان كي آمريت كا جنازہ اس طرح اٹھا كہ مستحق لعن و نفريں ٹہرے، يھي وجہ ھے كہ منصور كو مجبور ھو كر كھنا پڑا كہ:
"ھذا الشجي معترض في الحلق"
كہ جعفر بن محمد ميرے حلق ميں پھنسي ھوئي ھڈي كے مانند ھيں۔ ميں نہ ان كو باھر نكال سكتا ھوں اور نہ نگلنے كے قابل رھا ھوں نہ ميں ان كا عيب تلاش كركے ان كو سزادے سكتا ھوں، اور نہ ان كو برداشت كرسكتا ھوں۔"
يہ سب كچھ ديكھتے ھوئے كہ وہ جو كچھ بھي كر رھے ھيں وہ ھمارے خلاف ھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔برداشت كر رھا ھوں۔ مجھے پتہ ھے كہ امام عليہ السلام نے ھمارے خلاف لوگوں كو ايك نہ ايك دن اكٹھا كر ھي لينا ھے۔ اس كے باوجود بھي ميں اتنا بے بس ھوں كہ ان كے خلاف ذرا بھر اقدام نھيں كرسكتا۔
اس سے پتہ چلتا ھے كہ امام عليہ السلام نے اپني حسن سياست اور بھترين حكمت عملي كي بدولت اپنے مكار، عيار اور با اختيار دشمن كو بے بس كيے ركھا۔ ھم سب پر لازم ھے كہ اپنے دشمنوں، مخالفوں كے مقابلے ميں ھمہ وقت تيار ھيں۔ ھوشياري و بيداري كے ساتھ ساتھ ھمارا قومي و ملي اتحاد بھي وقت كي اھم ضرورت ھے۔ ھمارا بزدل دشمن گھات لگائے بيٹھا ھے۔ وہ كسي وقت بھي ھميں نقصان پھنچا سكتا ھے۔ جوں جوں وقت گزرتا جارھا ھے۔ طاقت و غلبہ كے تصور كي اھميت بڑھتي جارھي ھے۔ خوش نصيب ھيں وہ لوگ جو وقت كي نبض تھام كر سوچ سمجھ كر آگے بڑھتے ھيں اور پھر بڑھتے چلے جاتے ھيں۔

علمي پيشرفت كے اصل محركات
جيسا كہ ھم نے پہلے بھي عرض كيا ھے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام كے دور امامت ميں غير معمولي طور پر ترقي ھوئي ھے۔ معاشرہ ميں فكر و شعور كو جگہ ملي گويا سوئي ھوئي انسانيت ايك بار پھر پوري توانائي كے ساتھ جاگ اٹھى، بحثوں، مذاكروں اور مناظروں كا سلسلہ شروع ھوگيا تھا۔ انھي مذاكرات سے اسلام كو بہت زيادہ فائدہ ھوا، علمي ترقي اور پيشرفت كے تين بڑے محركات ھميں اپني طرف متوجہ كرنے ھيں۔ پھلا سبب يہ تھا كہ اس وقت پورے كا پورا معاشرہ مذھبي تھا۔ لوگ مذھبي و ديني نظريات كے تحت زندگي گزار رھے تھے۔
پھر قرآن و حديث ميں لوگوں كو علم حاصل كرنے كي ترغيب دي گئي تھي۔ لوگوں سے كھا گيا تھا كہ جو جانتے ھيں وہ نہ جاننے والوں كو تعليم ديں، حسن تربيت كي طرف بھي اسلام نے خصوصي توجہ دي ھے۔ يہ محرك تھا كہ جس كي وجہ سے علم و دانش كي اس عالمگير تحريك كو بہت زيادہ ترقي ھوئي۔ ديكھتے ھي ديكھتے قافلے كے قافلے اس كا رواں علم ميں شامل ھوگئے۔ دوسرا عامل يہ تھا كہ مختلف قوموں، قبيلوں، علاقوں اور ذاتوں سے تعلق ركھنے والے لوگ مشرف بہ اسلام ھو چكے تھے۔ ان افراد كو تحصيل علم سے خاص لگاؤ تھا۔ تيسرا محرك يہ تھا كہ اسلام كو ھي وطن قرار ديا گيا يعني جھاں اسلام ھے اس شھر، علاقے اور جگہ كو وطن سمجھا جائے۔ اس كا سب سے بڑا فائدہ يہ ھوا كہ اس وقت جتنے بھي ذات پات اور نسل پرستي تصورات تھے وہ اسي وقت دم توڑ گئے۔ اخوت وبرادري كا تصور رواج پكڑنے لگا۔ ايك وقت ايسا بھي آيا كہ اگر استاد مصري ھے تو شاگرد خراساني يا شاگرد مصري ھے تو استاد خراسانى، ايك بہت بڑا ديني مدرسہ تشكيل ديا گيا۔ آپ كے حلقہ درس ميں نافع، عكرمہ جيسے غلام بھي درس ميں شركت كرتے ھيں، پھر عراقى، شامى، حجازى، ايرانى، اور ھندي طلبہ كي رفت و آمد شروع ھوگئي۔ ديني ادارے كي تشكيل سے لوگوں كا آپس ميں رابط بڑھا اور اس سے ايك ھمہ گير انقلاب كا راستہ ھموار ھوا۔ اس زمانے ميں مسلم، غير مسلم ايك دوسرے كے ساتھ رھتے۔ رواداري كا يہ عالم تھا كہ كوئي بھي كسي كے خلاف كوئي بات نھيں كرتا تھا۔ عيسائىوں كے بڑے بڑے پادري موجود تھے۔ وہ مسلمانوں اور ان كے علماء كا دلي طور پر احترام كرتے بلكہ غير مسلم مسلمانوں كے علم و تجربہ سے استفادہ كرتے۔ پھر كيا ھوا؟ كہ دوسري صدي ميں مسلمانوں كي اقليت اكثريت ميں بدل گئي ۔ اس لحاظ سے مسلمانوں كا عيسائىوں كے ساتھ روداري كا مظاھرہ كرنا كافي حد تك مفيد ثابت ھوا۔ حديث ميں بھي ھے كہ اگر آپ كو كسي علم يا فن كي ضرورت پڑے اور مسلمانوں كے پاس نہ ھو تو وہ غير مسلم سے بھي حاصل كر سكتے ھيں۔ نھج البلاغہ ميں اس چيز كي تاكيد كي گئي ھے اور علامہ مجلسي (رح) نے بحار ميں تحرير فرمايا كہ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كا ارشاد گرامي ھے كہ:
"خذوا الحكمۃ ولو من مشرك"
"يعني اگر آپ كو مشرك سے بھي علم و حكمت حاصل كرنا پڑے تو وہ ضرور حاصل كريں"۔
اور ايك حديث ميں ھے كہ:
"الحكمۃ ضالۃ المؤمن ياخذھا اينما وجدھا"
"يعني حكمت مومن كا گم كردہ خزانہ ھے اس كو حاصل كرو چاھے جھاں سے بھي ملے۔"
بعض جگھوں ميں يہ بھي كھا گيا ھے كہ:
"ولو من يد مشرك"
كہ خواہ پڑھانے والا مشرك ھي كيوں نہ ھو۔"
قرآن مجيد ميں ارشاد خداوندي ھے:
"يؤتي الحكمۃ من يشاء ومن يوت الحكمۃ فقد اوتي خيراً كثيراً" 26
"اور جس كو (خدا كي طرف سے) حكمت عطا كي گئي تو اس ميں شك ھي نھيں كہ اسے خوبيوں كي بڑي دولت ھاتھ لگي۔"
واقعاً صحيح ھے كہ علم مومن كا گمشدہ خزانہ ھے اگر انسان كي كوئي چيز گم ھو جائے تو وہ اس كے لئے كتنا پريشان ھوتا ھے اور ا س كو كس طرح تلاش كرتا ھے۔ مثال كے طور پر آپ كي ايك قيمتي انگوٹھي ھو اگر وہ گم ھوجائے، تو آپ جگہ جگہ چھان ماريں گے اور اگر وہ آپ كو مل جائے تو بھت زيادہ خوشي ھوگي۔ علم سے زيادہ قيمتي چيز كونسي ھوسكتي ھے اس كو تلاش كرنے اور طلب كرنے كيلئے انسان كو اتني محنت كرني چاھيے۔ اس كے ليے ضروري نھيں ھے كہ تعليم دينے والا اور فن سيكھانے والا مومن و مسلمان ھي ھو، بلكہ آپ علوم اور جديد ٹيكنالوجي كافروں، مشركوں سے بھي حاصل كر سكتے ھيں۔ حضرت علي عليہ السلام كا ارشاد گرامي ھے "مومن علم كو كافر كے پاس عارضي مال كے طور پر ديكھتا ھے اور خود كو اس كا اصلي مالك سمجھتا ھے" اور وہ خيال كرتا ھے كہ علم كا لباس مومن ھي كو جچتا ھے كافر كو نھيں۔
جيسا كہ ھم نے پہلے عرض كيا ھے كہ مسلمانوں كا غير مسلموں كے ساتھ اچھا سلوك كرنا اس بات كا سبب بنا كہ وہ تحقيق و تلاش كرتے ھوئے دائرہ اسلام ميں داخل ھو گئے۔ ايك وقت تھا كہ مسلمان، عيسائى، يھودى، مجوسي وغيرہ سب ايك جگہ، ايك شھر، ايك محلّہ ميں رھتے تھے۔ وہ انتھا پسندي كا مظاھرہ كرنے كي بجائے ايك دوسرے سے استفادہ كرتے تھے۔ يہ بات پورے معاشرے كے ليے مفيد ثابت ھوئي۔ مشہور مور خ جرجي زيدان نے اس وسعت قلبي كو انساني معاشرہ بالخصوص مسلمانوں كے ليے نيك شگون قرار ديا ھے۔ وہ سيد رضي كے واقعہ كو نقل كرتے ھوئے لكھتا ھے كہ سيد رضي اپنے دور كے بہت بڑے عالم دين تھے بلكہ غير معمولي طور پر درجہ اجتھاد پر فائز تھے۔ آپ سيد مرتضي علم الھديٰ كے چھوٹے بھائي تھے جب ان كے ھم عصر عالم دين ابو اسحٰق صابي نے انتقال كيا تو رضي نے ان كي شان مين ايك قصيدہ كھا۔ ابو اسحٰق صابي مسلمان نہ تھے يہ مجوسي فرقے سے ملتے جلتے خيالات كے حامل تھے۔ يہ بھي ھوسكتا ھے كہ وہ عيسائى ھوں۔ يہ اعليٰ پايہ كے اديب، ممتاز دانشور تھے۔ اديب ھونے كے ناطے سے قرآن مجيد سے بہت زيادہ عقيدت ركھتے تھے۔ وہ اپني تحرير و تقرير ميں قرآن مجيد كي متعدد آيات كا حوالہ ديا كرتے تھے۔ ماہ رمضان ميں دن كو كوئي چيز نھيں كھاتے تھے۔ كسي نے ان سے پوچھ ليا كہ آپ ايك غير مسلم ھيں تو رمضان ميں دن كو كھاتے پيتے كيوں نھيں ھيں تو كھا كرتے تھے كہ ادب كا تقاضا يہ ھے كہ ھم افراد معاشرہ كا احترام كرتے ھوئے ان كي مذھبي اقدار كا احترام كريں چنانچہ سيد رضي نے كہا۔

ارايت من حملوا علي الاعواد
ارايت كيف خبا ضياء النادى

كيا آپ نے ديكھا كہ يہ كون شخص تھا كہ جس كو لوگوں نے تابوت ميں ركھ كر اپنے كندھوں پر اٹھا ركھا تھا؟ كيا آپ نے سمجھا ھے كہ ھماري محفلوں كا چراغ بجھ گيا ھے؟ يہ ايك پہاڑ تھا جو گرگيا كچھ لوگوں نے سيد رضي پر اعتراض كيا كہ آپ ايك سيد، اولاد پيغمبر اور بزرگ عالم دين ھوتے ھوئے ايك كافر كي تعريف كي ھے؟ فرمايا جي ہاں:
"انما رثيت علمہ"
كہ ميں نے اس كے علم كا مرثيہ كھا ھے۔"
وہ ايك بہت بڑا عالم تھا، دانشمند تھا ميں نے اس پر اس ليے مرثيہ كھا كہ اھل علم ھم سے جدا ھو گيا ھے، اگر اس زمانے ميں ايسا كيا جائے تو لوگ اس عالم كو شھر بدر كرديں گے۔ جرجي زيدان كھتا ھے كہ ايك جليل القدر عالم دين نے حسن اخلاق اور رواداري كا مظاھرہ كر كے اپني خانداني عظمت اور اسلام كي پاسداري كا عملي ثبوت ديا ھے۔ سيد رضي حضرت علي عليہ السلام كے ايك لحاظ سے شاگر تھے۔ كہ انھوں نے مولا امير المومنين عليہ السلام كے بكھرے ھوئے كلام كو جمع كر كے نھج البلاغہ كے نام سے ايك ايسي كتاب تاليف كي كہ جسے قرآن مجيد كے بعد بہت زيادہ احترام كي نگاہ سے ديكھا جاتا ھے۔ سيد رضي اپنے جد امجد پيغمبر اسلام (ص) اور حضرت علي عليہ السلام كي تعليمات سے بھت زيادہ قريب تھے۔ اسي ليے تو كھتے ھيں كہ علم و حكمت جھاں كھيں بھي ملے اسے لے لو۔ يہ تھے وہ محركات كہ جن كي وجہ سے لوگوں ميں فكري و نظرياتي اور شعوري طور پر پختگي پيدا ھوئي اور تعليم و تربيت، علم و عمل كے حوالے سے جتني بھي ترقي ھے يہ سب كچھ حضرت امام جعفر صادق عليہ السلام كي مھربانيوں كا نتيجہ ھے۔ پس ھماري گفتگو كا نتيجہ يہ ھوا كہ اگر چہ امام جعفر صادق عليہ السلام كو ظاھري حكومت نھيں ملي اگر مل جاتي تو آپ اور بھي بھتر كارنامے انجام ديتے ليكن آپ كو جس طرح اور جيسا بھي كام كرنے كا موقعہ ملا آپ نے كوئي لمحہ ضائع كئے بغير بے شمار قابل ستائش كام كيے۔ مجموعي طور پر ھم كھہ سكتے ھيں كہ مسلمانوں كے جتنے بھي علمي و ديني كارنامے تاريخ ميں موجود ھيں وہ سب صادق آل محمد عليہ السلام كے مرہون منت ھيں۔
شيعہ تعليمي مراكز تو روز روشن كي طرح واضح ھيں۔ اھل سنت بھائيوں كے تعليمي و ديني مراكز ميں امام عليہ السلام كے پاك و پاكيزہ علوم كي روشني ضرور پھنچي ھے۔ اھل سنت حضرات كي سب سے بڑي يونيورسٹي الازھر كو صديوں قبل فاطمي شيعوں نے تشكيل ديا تھا اور جامعہ ازھر كے بعد پھر اھل تسنن كے مدرسے اور ديني ادارے بنتے چلے گئے۔ ان لوگوں كے اس اعتراض (كہ امام عليہ السلام ميدان جنگ ميں جھاد كرتے تو بھتر تھا؟) كا جواب ھم نے دے ديا ھے ان كو يہ بات بھي بغور سنني چاھيے كہ اسلام جنگ كے ساتھ كبھي نھيں پھيلا بلكہ اسلام تو امن و سلامتي كا پيامبر ھے۔ مسلمان تو صرف دفاع كرنے كا مجاز ھے، آپ اسے جھاد كے نام سے بھي تعبير كر سكتے ھيں۔ امام عليہ السلام كي حلم و بردباري اور حسن تدبر نے نہ فقط ماحول كو خوشگوار بنايا بلكہ لوگوں كو شعور بخشا، علم جيسي روشني سے مالا مال كر ديا، اسلام اور مسلمانوں كي عظمت و رفعت ميں اضافہ ھوا۔
باقي رھا يہ سوال كہ ائمہ طاھرين (ع) عنان حكومت ھاتھ ميں لے كر اسلام اور مسلمانوں كي بخوبي خدمت كر سكتے تھے انھوں نے اس موقعہ سے فائدہ نھيں اٹھايا پر امن رھنے كے باوجود بھي ان كو جام شھادت نوش كرنا پڑا؟ تو اس كا جواب يہ ھے كہ حالات اس قدر بھي سازگار و خوشگوار نہ تھے كہ آئمہ اطھار (ع) كو حكومت و خلافت مل جاتى؟ امام عليہ السلام نے حكمرانوں سے ٹكرانے كي بجائے ايك اھم تعميري كام كي طرف توجہ دي۔ علماء فضلاء، فقھاء اور دانشور تيار كر كے آپ نے قيامت تك كے انسانوں پر احسان عظيم كر ديا۔ وقت وقت كي بات ھے آئمہ طاھرين عليھم السلام نے ھر حال، ھر موقعہ پر اسلام اور مظلوم طبقہ كي بھر پور طريقے سے ترجماني كي۔ حضرت امام رضا عليہ السلام كو مامون كي مجلس ميں جانے كا موقعہ ملا آپ نے سركاري محفلوں اور حكومتي ميٹنگوں ميں حق كي كھل كر ترجماني كي اور جيسے بھي بن پڑا غريبوں اور بے سھارا لوگوں كي مددكي۔ امام رضا عليہ السلام دو سال تك مامون كے قريب رھے۔ اس دور ميں آپ سے كچھ نہ كچھ احاديث نقل كي گئيں اس كے بعد آپ كي كوئي حديث نظر نھيں آتي۔ دوسرے لفظوں ميں مامون كے دور ميں آپ كو دين اسلام كي ترويج كيلئے كام كرنے كا موقعہ ملا اس كي وجہ مامون كي قربت ھے اس كے بعد پابنديوں كا دور شروع ھو گيا۔ آپ جو كرنا چاھتے تھے وہ بندشوں اور ركاوٹوں كي نظر ھو گيا۔ پھر آپ كو جام شھادت نوش كرنا پڑا۔ جو آپ كے باپ دادا كے ورثہ ميں شامل تھا۔

ايك سوال اور ايك جواب
سوال:كيا جابر بن حيان نے ذاتي طور پر امام جعفر صادق عليہ السلام سے علم حاصل كيا تھا؟
جواب:ميں نے عرض كيا ھے كہ يہ ايك سوال ھے جو تاريخ ميں واضح نھيں ھے ابھي تك تاريخ يہ فيصلہ نہ كر سكي كہ جابر بن حيان نے سوفي صد امام جعفر صادق عليہ السلام سے درس حاصل كيا ھے۔ البتہ كچھ ايسے مورخين بھي ھيں جو جابر كو امام عليہ السلام كا شاگردتسليم نھيں كرتے ۔ان كا كہنا ھے كہ جابر كا زمانہ امام عليہ السلام كے بعد كا دوران ھے ان كے مطابق جابر امام عليہ السلام كے شاگردوں كا شاگرد ھے۔ ليكن بعض كھتے ھيں كہ جابر نے براہ راست امام عليہ السلام سے كسب فيض كيا ھے۔ جابر نے ان علوم ميں مھارت حاصل كي ھے كہ جو پھلے موجود نہ تھے، اس سے ظاھر ھوتا ھے كہ امام جعفر صادق عليہ السلام نے مخلتف شعبوں ميں اپنے ھونھار شاگرد تيار كيے تھے جس كا مقصد يہ تھا كہ اس سمندر علم سے ھر كوئي اپني اپني پياس بجھا كر جائے۔
جيسا كہ حضرت امير عليہ السلام نے كميل بن زياد سے فرمايا ھے:
"ان ھھنا لعلما جما لو اصبت لہ حملۃ" 27
آپ نے اپنے سينہ اقدس كي طرف اشارہ كيا اور فرمايا ديكھو يھاں علم كا بڑا ذخيرہ موجود ھے كاش! اس كے اٹھانے والے مجھے مل جاتے۔"ھاں كوئي تو ايسا؟ جو ذہين تو ھے نا قابل اطمينان ھے اور دنيا كے ليے دين كو آلہ كار بنانے والا ھے۔ يا جو ارباب حق ودانش كا مطيع تو ھے مگر اس كے دل كے گوشوں ميں بصيرت كي روشني نھيں ھے يا ايسا شخص ملتا ھے كہ جو لذتوں پر مٹا ھوا ھے يا ايسا شخص جو جمع آوري و ذخيرہ اندوزي پر جان ديئے ھوئے ھے۔

--------------------------------------------------------------------------------
25.حج، ۳۹.
26.بقرہ، ۲۶۹.
27.نھج البلاغہ، ۱۳۹.