امام حسن عسكري (ع) كے بارے ميں چند باتيں | |||||
آج كي رات امام عسكري عليہ السلام كي ولادت باسعادت كي رات ھے، عيد كي رات ھے اور ھمارے گيارھويں امام حسن عسكري عليہ السلام كے دنيا ميں تشريف لانے كي رات ھے چناچہ اسي مناسبت سے ھم حضرت امام زمانہ (عجل اللہ تعاليٰ فرجہ) كي خدمت اقدس ميں ھديہ تبرك پيش كرتے ھيں۔ ميں اس نشست ميں امام عسكري عليہ السلام كے بارے ميں كچھ باتيں عرض كرنا چاھتا ھوں۔ آپ كا دور انتھائي پريشانيوں اور مشكلات كا دور ھے۔ امام زمانہ عليہ السلام كي ولادت كا زمانہ جوں جوں نزديك ھوتا جارھا تھا سلاطين جور كي طرف آئمہ پر سختياں بڑھتي جارھي تھيں۔ امام حسن عسكري عليہ السلام سامرا ميں سكونت پزير تھے۔ اسي وقت مركز خلافت يھي شھر تھا۔ معتصم كے زمانہ حكومت ميں مركز خلافت بغداد سے سامرا منتقل ھو گيا۔ كچھ مدت يھي مركز رھا۔ اس كے بعد دو مرتبہ بغداد بنا۔ اس كي وجہ يہ تھي كہ معتصم كے فوجي لوگوں پر بے تحاشہ ظلم كرتے، بے گناھوں كو بلا وجہ سے ستاتے پريشان كرتے تھے۔ لوگوں نے مظالم سے تنگ آكر شكايت كي۔ شروع شروع ميں معتصم نے پروانہ كي ليكن، پھر عوام نے اس مركز كي منتقلي پر رضا مند كر ليا۔ اس كي ايك اور وجہ بھي تھي كہ فوج اور مردوں ميں فاصلہ رھے۔ اس ليے مركز سامرا آگيا۔ امام حسن عسكري عليہ السلام اور امام ھادي عليہ السلام كو مجبوراً سامرا آنا پڑا۔ آپ "العسكر يا العسكرى محلہ" ميں رھائش پذير ھوئے۔ ھوسكتا ھے كہ وھاں فوج رھتي ھو اور آپ كو نظر بند كيا گيا ھو۔ امام حسن عسكري عليہ السلام جب شھيد ھوئے تو آپ كا سن مبارك ۲۸سال تھا۔ آپ كے والد گرامي كي عمر مبارك شھادت كے وقت ۴۲برس تھي۔امام حسن عسكري عليہ السلام كا دور امامت چھ سال ھے۔ تاريخ بتاتي ھے كہ آپ ان چھ سالوں كے دوران يا تو قيد ميں رھے اگر كچھ دنوں كيلئے آزادي ملي تو پھر بھي آپ كو پابنديوں ميں ركھا گيا۔ لوگوں كا آپ كو ملنا جلنا اور آپ سے ملاقات كرنا بھي ممنوع تھا۔ يوں سمجھ ليجئے كہ آپ كي زندگي قيديوں سے بھي زيادہ پريشان كن تھي۔ كبھي كبھي امام حسن عسكري عليہ السلام كو دربار مين بلوا كر پريشان كيا جاتا تھا۔ عجيب و غريب صورت حال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھٹن ھي گھٹن، كوئي بھي نھيں ھے كہ امام حسن عسكري عليہ السلام كي دلجوئي كرے۔ ان كر بناك لمحوں ميں امام عليہ السلام نے كس طرح وقت پاس كيا ھوگا؟ يہ تو امام ھي جانتے ھيں۔ يوں تو ھمارے تمام آئمہ طاھرين عليھم السلام تمام لوگوں سے ممتاز تھے، ليكن ھر امام تمام خوبيوں كي موجودگي ميں ايك الگ خوبي بھي ركھتا تھا۔ جيسا كہ امام حسن عسكري عليہ السلام كا رعب و جلال اور شان و شوكت اتني زيادہ تھي ديكھنے والے ديكھتے ھي رہ جاتے تھے۔ آپ سكون و وقار كے ساتھ قدم ركھتے، انتھائي شائستگي وشفتگي كے ساتھ بات كرتے۔ متانت كے ساتھ تبسم فرماتے تھے۔ جب آپ گفتگو كرتے تو علم وعرفان كي بارش برس پڑتي تھي۔ آپ كا دشمن كے سامنے آيا موم ھوگيا۔ اس وقت كا جابر سے جابر شخص بھي آپ كي طرف آنكھ كر كے ديكھنے اور بات كرنے كي جرات نہ كرسكتا تھا۔ اس سلسلے مين جناب محدث قمي نے اپني كتاب "الانوار البھيہ" ميں ايك واقعہ نقل كيا ھے يا اس كو روايت كيا ھے۔ احمد بن عبداللہ حافان يہ وزير المعتمد علي اللہ كا بيٹا تھا۔ انھوں نے اپنے آباؤ اجداد سے واقعہ نقل كيا ھے بھت ھي عجيب و غريب واقعہ ھے۔ امام حسن عسكري عليہ السلام قيد با مشقت كي سزا بھگت رھے تھا۔ اس وقت كے حكمرانوں اور لوگوں ميں يہ بات عام تھي كہ اسي امام كي صلب ميں بارھويں لعل ولايت نے ظھور فرمانا ھے۔ جيسا سلوك فرعون نے بني اسرائيل كے ساتھ كيا تھا اس سے بدتر اس عظيم الشان امام كے ساتھ روا ركھا گيا۔ فرعون كو نجوميوں نے بتايا تھا كہ بني اسرائيل ميں ايك بچہ پيدا ھوگا وھي بچہ تمھارے اقتدار كے زوال كا باعث بنے گا۔ فرعون كے فوجي لڑكوں كو مارتے گئے اور بچيوں كو رھنے ديا۔ بار آور خواتين پر جاسوس عورتيں مقرر كي گئيں۔ يھي صورت حال امام حسن عسكري عليہ السلام كے دور امامت ميں پيدا ھو گئي۔ جناب مولوي نے كيا خوب شعر كھا ھے ۔ حملہ بردي سوي دربندان غيب تا ببندي راہ بر مردان غيب يہ بھي كتنا بے وقوف تھا كہ اگر جاسوس كي خبر صحيح بھي ھو كيا وہ حكم الھي كو روك سكتا ھے؟ جب امام حسن عسكري عليہ السلام شھيد ھوئے تو چند جاسوس عورتوں كو آپ كے گھر تفتيش كے ليے بھيجا گيا۔ ان كو بتانے والوں نے بتايا ديا كہ امام حسن عسكري عليہ السلام كا "محمد"نام سے بيٹا پيدا ھوچكا ھے۔ ليكن اللہ تعاليٰ كے حكم و مھرباني سے ابھي تك يہ راز انتھائي پوشيدہ ھے يھاں تك كہ ولادت كے وقت كسي كو بھي خبر نہ تھي۔ امام مھدي عليہ السلام چھ سال كے تھا كہ والد گرامي كا سايہ اٹھ گيا۔ چند خاص مومنوں كے علاوہ اس معصوم شھزادے كے بارے ميں كسي كو خبر نہ تھي ۔ كبھي كبھار حكومت كي جاسوس عورتيں امام عليہ السلام كے گھر ميں جاتيں كہ شايد ان كو امام مھدي (عج) نظر آجائيں اور ان كو اسي وقت قتل كر ديا جائے ليكن جسے اللہ ركھے اسے كون چكھے۔ اللہ تعاليٰ كي تقدير كا مقابلہ تو نھيں كيا جاسكتا۔ اور نہ ھي كوئي مقابلہ كرنے كي جسارت كرسكتا ھے۔ امام حسن عسكري عليہ السلام كي شھادت كے دن پوليس نے امام عليہ السلام كے گھر كو چاروں طرف سے گھير ليا۔ كثير تعداد ميں جاسوس عورتيں خانہ امام ميں داخل ھو گئيں شايد اسي گھر ميں كوئي بار آور خاتون ھو؟ تلاشي لينے كے بعد عورتوں كو ايك كنيز نظر آئي ان كو اس پر شك گزار اس كو گرفتار كر كے زندان ميں ڈالا گيا۔ ايك سال تك وہ بيچاري زندان كي سلاخوں كے پيچھے بند رھي ليكن جب سال گزر گيا تو ان كو پتہ چلا كہ يہ خاتون بے قصور ھے۔ بالآخر اس عورت كو رھا كر ديا گيا ۔ امام حسن عليہ السلام كي والدہ ماجدہ كا نام نامى"حديث" تھا ان كو جدہ بھي كھا جاتا ھے۔ چونكہ يہ بي بي سركار امام زمانہ عليہ السلام كي جدہ ھيں اس ليے ان كو جدہ كے لقب سے ياد كيا جاتا ھے۔ تاريخ ميں كچھ ايسي خواتين بھي ھيں كہ جن كو "جدہ" كھا جاتا ھے۔ اصفھان ميں دو ديني مدارس "جدہ"كے نام سے ركھے گئے ھيں۔ يہ بي بي جدہ كے نام سے شھرت ركھتي تھيں۔ يہ معظّمہ بھت ھي عظمت و رفعت، رتبہ و منزلت كي مالكہ تھيں۔ جناب محدث قمي رضوان اللہ عليہ نے اپني كتاب الانوار البھيہ ميں لكھا ھے ۔ يہ بي بي امام حسن عسكري عليہ السلام كي شھادت كے بعد مركزي شخصيت كے طور پر زندگي گزار رھي تھيں۔ شيعہ خواتين آپ كي خدمت اقدس ميں حاضر ھو كر اپنے اپنے مسائل حل كراتي تھيں۔ چونكہ امام حسن عسكري عليہ السلام ۲۸ برس كي عمر ميں شھيد ھوئے تھے، اس لحاظ سے اس بي بي كي عمر ۶۵ برس كے لگ بھگ لگتي ھے ۔ بھت ھي جليل القدر خاتون تھيں۔ آپ خواتين كے ذريعہ تمام مومنين، مومنات كے علمي و روحاني مسائل حل كرتي تھيں۔ ايك شخص بيان كرتا ھے كہ ميں امام جواد (ع) كي صاجزادي جناب حليمہ خاتون كے در اقدس پر گيا۔ يہ بي بي امام حسن عسكري عليہ السلام كي پھوپھي تھيں دروازہ پر كھڑے ھو كر ميں نے مسئلہ امام كي بابت آپ سے سوال كيا، تو بي بي نے فرمايا گيارھويں امام حسن عسكري عليہ السلام ھيں۔ اور بارھويں امام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھوڑي خاموش ھوگئيں پھر فرمايا ان كا فرزند اجمند۔ ۔ ۔۔ ۔ جو كہ اب لوگوں كي نظروں سے اوجھل ھے وہ آخري امام ھے۔ ميں نے عرض كيا بي بي اگر ھم اپنے امام وقت سے ملاقات نہ كر سكيں تو شرعي مسائل كے بارے ميں كس سے سوال كريں؟ آپ نے فرمايا جدہ كي طرف رجوع كريں۔ ميں نے كھا كہ آقا اس دنيا سے چلے گئے ھيں اور ايك خاتون كے بارے ميں وصيت كر گئے ھيں۔ فرمايا امام حسن عسكري عليہ السلام نے وھي كام كيا ھے جو حضرت امام حسين عليہ السلام نے كيا تھا۔ حقيقت ميں امام عالي مقام كے وصي امام سجاد عليہ السلام تھے ليكن امام زين العابدين عليہ السلام كي بيماري كي باعث آپ نے اكثر وصيتيں اپني بھن جناب زينب سلام اللہ عليھا سے كي ھيں، يھي كام امام حسن عسكري عليہ السلام كو كرنا پڑا، كيونكہ آپ كے نائب تو امام مھدي عليہ السلام ھيں ليكن وہ پردہ غيبت ميں ھيں اس ليے ديني و شرعي مسائل كي بابت جدہ كي طرف رجوع كيا جاتا تھا ۔ عدل و انصاف
وعد اللہ الذين آمنو و عملو الصالحات يستخلقنھم في الارض كما استخلف الذين من قبلھم وليمكنن لھم دينھم الذي ارتضيٰ لھم وليبد لنھم من بعد خوفھم امنا يعبدونني لا يشركون بي شياءً ومن كفر بعد ذلك فاولئك ھم الفاسقون 33
"اے ايماندارو! تم ميں سے جن لوگوں نے ايمان قبول كيا اور اچھے اچھے كام كئے ان سے خدا نے وعدہ ليا ھے كہ وہ ان كو (ايك نہ ايك دن) روئے زمين پر ضرور اپنا نائب مقرر كرے گا جس طرح ان لوگوں كو نائب بنايا جو ان سے پھلے گزر چكے ھيں اور جس كو اس نے ان كے ليے پسند فرمايا ھے (اسلام) اس پر انھيں ضرور ضرور پوري قدرت دے گا اور ان كے خائف ھونے كے بعد (ان كے خوف كو) امن سے ضرور بدل دے گا كہ وہ (اطمينان سے) ميري ھي عبادت كرتے رھيں گے اور كسي كو ھمارا شريك نہ بناليں اور جو شخص اس كے بعد بھي نا شكري كرے تو ايسے ھي لوگ بدكار ھيں۔" تمام انبياء اكرام (ص) اللہ تعاليٰ كي طرف سے لوگوں ميں ھي مبعوث ھوئے ھيں ان كي تشريف آوري كے دو بنيادي مقاصد تھے۔ ايك مقصد تو يہ تھا كہ اللہ تعاليٰ و مخلوق كے درميان صحيح طريقے سے رابطہ قائم ھو، دوسرے لفظوں ميں اپنے معبود حقيقي اور خالق حقيقي كے سوا كسي كي پرستش اور عبادت نہ كي جائے جيسا كہ كلمہ طيبہ ميں كھا گيا ھے: "لاالہ الا اللہ " كوئي معبود نھيں سوائے اللہ تعاليٰ كے ۔" انبياء كرام كي بعثت كا دوسرا مقصد انسانيت كے مابين اچھا اور سازگار ماحول پيدا كرنا اور ان كو اچھے طريقے سے رھنے كي تعليم دينا گويا تعليم و تربيت انساني زندگي كا اھم حصہ ھے، ان تمام نبيوں، رسولوں نے بني نوع انسان كو عملي طور پر تلقين كي ھے كہ وہ عدل و انصاف، پيار و محبت اور ايك دوسرے كي خدمت كے جذبے كے ساتھ زندگي بس كريں۔ قرآن مجيد نے ان دو اھداف كو وضاحت كے ساتھ بيان كيا ھے۔ پھلے مقصد كي بابت خاتم الانبياء كے بارے ميں ارشاد خداوندي ھے: يا يھا النبي انا ارسلناك شاھداً و مبشراً نذيراً و داعياً الي اللہ باذنہ وسراجاً منيرا" اے نبي (ص) ! ھم نے آپ كو (لوگوں كا) گواہ اور (نيكيوں كو بھشت كي) خوشخبري دينے والا اور (بروں كو) عذاب سے ڈرانے والا اور خدا كي طرف سے اسي كے حكم سے بلانے والا (ايمان وھدايت كا) روشن چراغ بنا كر بھيجا۔" مقصد بعثت كو كچھ اس طرح بيان كيا گيا ھے: "لقد ارسلنا رسلنا بالبينات وانزلنا معھم الكتاب والميزان ليقوم الناس بالقسط" 34 "ھم نے يقيناً اپنے پيغمبروں كو واضح و روشن معجزے دے كر بھيجا اور ان كے ساتھ ساتھ كتاب اور (انصاف كي) ترازو نازل كي تاكہ لوگ انصاف پر قائم رھيں ۔" قرآن مجيد نے كھلے لفظوں اور پوري و ضاحت كے ساتھ بتايا ھے كہ انبياء كرام كي بعثت كا مقصد لوگوں ميں عدل و انصاف كو نافذ كرنا ھے۔ آخري آيت ميں ارشاد الٰھي ھے كہ ھم نے ان كو كتاب، دستور اور منشور كے ساتھ ساتھ ميزان بھي ديا ھے تاكہ وہ لوگوں كو عادلانہ نظام كے قيام كي تلقين كريں۔ گويا عدل و انصاف ھي انسانيت كي خوشحالي اور بقاء كا سب سے بڑا ذريعہ ھے ۔ عدالت روشني بھي ھے اور زندگي بھى، اگر يہ نہ ھوتي تو انسانيت ايك دوسرے كي زيادتيوں كا شكار ھو كر صفحہ ھستي سے مٹ جاتي۔ تمام انبياء كرام اس عظيم مقصد كو لے كر انسانوں ھي ميں تشريف لائے، ان كا ايك مقصد تھا، ايك مشن تھا ايك ذمہ داري تھي وہ تھي عدالت ھي عدالت ۔ ۔ ۔ ۔ قرآن مجيد نے تعليم و تربيت اور عدالت كو انتھائي اھميت كے ساتھ بيان كيا ھے ۔ ايك اور مسئلہ پر عرض كرنا چاھتا ھوں وہ يہ كہ آيا عدالت كلي مراد ھے يا عدالت عمومى؟ يعني كيا اور ايسا دور كبھي آئے گا كہ اس پوري كائنات ميں ھر طرح كے طلم و ستم، جنگوں، نفرتوں، لڑائيوں اور چپقلشوں كا خاتمہ ھوا اور ھر طرح كي برائي كا خاتمہ ھو؟ كيا آنے والي صديوں، يا مستقبل ميں اس قسم كي گھڑي آئے گي كہ جس ميں امن ھي امن ھو؟ھماتے دوسرے مسلمان بھائيوں كا عقيدہ ھے كہ مكمل طور پر ھمہ جھت عدالت كبھي كبھي قائم نھيں ھوگى، كيونكہ اين خيال است و محال يہ دنيا بھت پست ھے اور اس كے باسي بھت ظلم ھيں۔ يھاں پر تاريكيوں، پريشانيوں، دكھوں كے سوا كچھ بھي نھيں ھے۔ يہ نھيں ھوسكتا كہ اس ميں عدل و انصاف مكمل طور پر نافذ ھو۔ ھرطرح كے جرائم اور مظالم ھوتے رھيں گے۔ عدالت تو صرف آخرت ميں ھوگي جو كہ اللہ تعاليٰ خود نافذ فرمائے گا اور خود ھي فيصلہ كرے گا، كچھ غير اسلامي طبقہ بھي اس طرح كي سوچ ركھتا ھے، ليكن شيعہ مذھب كھتا ھے كہ آپ كو مايوس نھيں ھونا چاھيے۔ ظلم و ستم، جھگڑا و فساد عارضي چيزيں ھيں۔ انھوں نے ايك نہ ايك روز ختم ھونا ھي ھے۔ عدالت ضرور نافذ ھو كر رھے گي يہ روشنى، يہ اميد صرف اور صرف مذھب شيعہ ميں ھے۔ ديگر مذھب و اديان اس طرح عقيدہ نھيں ركھتے۔ ھمارے نزديك انسانيت كا مستقبل تاريك نھيں بلكہ روشن ھے۔ عدالت كا قيام اور ارتقاء ايك نہ ايك دن ضرور عمل ميں لايا جائے گا۔ قرآن مجيد بھي ھمارے اس موقف كي تائيد كرتے ھوئے نويد دے رھا ھے كہ كائنات كا مستقبل روشن ھے اس سے متعلق متعدد آيات موجود ھيں۔ ان ميں ايك آيت يھي ھے جس كو ميں نے عنوان مجلس قرار ديا ھے۔ قرآن مجيد نے انبياء كرام كي بعثت كے دو اھم مقاصد بيان كيے ھيں۔ ايك توحيد اور دوسرا عدالت كا نفاذ اور اجراء ۔ سب سے پھلے تو انسان كا اپنے معبود حقيقي كے ساتھ رابطہ، دوسرا انسانوں كو ايك دوسرے كے ساتھ مل جل كر رھنا چاھيے، بني نوع انسانوں كو عدل وانصاف كے تقاضوں كو مد نظر ركھتے ھوئے زندگي گزاراني لوگوں يہ بات ياد كراني چاھيے كہ ھميں ايك نہ ايك روز اس خالق اكبر كے حضور پيش ھونا ھے، اس ليے ھميں اس كي رضا كيلئے كام كرنا چاھيے۔ يہ ايك حتمي امر ھے كہ اس جھاں مين انسان نے ايك عادلانہ نظام كو اپني آنكھوں سے ديكھنا ھے ۔ ايك ايسا نظام جس ميں عدالت ھي عدالت ھوگي۔ تمام تر تاريكياں ختم ھوجائيں گي۔ ھر طرف روشنيوں كي حكمراني ھوگي عدالت كي معطر ھوا تھكي ماندہ اسنانيت كو سكون فراھم كر گي۔ ھماري بحث كا مقصد يہ ھے كہ ايك روز ضرور ھي ايك مستقبل اور ھمہ جھت عدالت قائم ھوگي۔ اسلام بھي يہ كھتا ھے كہ ھم تين موضوعات پر بحث كريں گے۔ سب سے پھلے تو ديكھنا يہ ھے عدالت كيا ھے؟ دوسري بات يہ ھے كہ كيا عدالت انسان كي فطرت ميں شامل ھے؟ يا فطرت ميں شامل نھيں ھے؟ يا جس وقت انسان عدالت كے كھڑے ميں كھڑا ھوگا كيا ہ زبردستي طور پر ھوگا يا اس كي اس ميں رضا بھي شامل ھوگى؟ تيسري بات كہ عدالت عملي ھوگي يا نھيں، اگر ھوگي تو كس طريقے سے ھوگى؟۔ عدالت كيا ھے؟
پھلي بات تو يہ ھے كہ عدالت كيا چيز ھے؟ شايد اس كي تعريف و تشريح بيان كرنے كي ضرورت ھي نہ پڑے۔ كيونكہ ھم ميں سے ھر شخص ظلم سے بخوبي واقف ھے اور عدالت ظلم كے مقابلے ميں ايك حقيقت كا نام ھے۔ دوسرے لفظوں ميں ھر شخص اپني ضروريات اور خواھش لے كر دنيا ميں آيا ھے اور انھيں ضروريات كو پورا كرنے كيلئے وہ زندگي بھر مصروف كار رھتا ھے۔ عدالت كا معني يہ ھے كہ ھر شخص كو اپنا حق ملے كہ ظلم كے برعكس ھے۔ ظلم يہ ھے كہ حقدار كو حق نہ ديا جائے يا كسي كو بے جاستانا، يا پريشان كرنا بھي ظلم كے زمرے ميں آتا ھے۔ قديم زمانوں ميں ايسے لوگ بھي تھے جو عدالت كو سرے ھي سے مانتے تھے۔ قديم يونان كے فلاسفہ اور يورپ كے مفكرين نے بھي اس موقف كي تائيد كي ھے۔ ان كے نزديك عدالت نامي چيز كا كوئي وجود ھي نھيں ھے اور عدالت كا تعلق طاقت سے ھے۔ قانون كا مقصد يہ ھے كہ انسان سے زبردستي طور پر فيصلے منوائے جائيں۔ ميں ان مفكرين كا جواب نھيں دينا چاھتا ورنہ اپني گفتگوں كا مقصد بھي كھو بيٹھوں گا۔ دراصل عدالت حقيقي ھے اور يہ خلقت سے اخذ شدہ ھے چونكہ خلقت حقيقت ھے اور جو بھي موجود ھے وہ حقدار ھے۔ انسان كو اس كي محنتوں، كاوشوں كا صلہ ملنا چاھيے۔ عدالت كا معني يہ ھے كہ حقدار كو حق ملنا چاھيے۔ متذكرہ بالا عبارت ميں جو سوالات پيش كئے گئے ھيں ان كي كوئي حقيقت نھيں ھے۔ بے معني سي گفتگو كا معني ھي كيا ھوسكتا ھے؟
كيا عدالت فطري امر ھے؟
ميري بحث كا دوسرا حصہ ا س امر سے متعلق ھے كہ كيا انسان عدالت كي طرف فطري ميلان ركھتا ھے كہ نھيں؟ ايك مثال دے كر آپ كو بات سمجھانے كي كوشش كرتا ھوں، آپ نے اس اجتماع ميں شركت كي ھے۔ آپ لكھے ھوئے بيزز كو ديكھيں كہ درميان ميں "لا الہ الا اللہ" لكھا ھوا ھے اور دائيں طرف "محمد رسول اللہ" اور بائيں طرف "علي ولي اللہ" درج ھے۔ كالے رنگ كا ستارہ نظر آرھا ھے يہ بي بي فاطمۃ الزھرا سلام اللہ عليھا كي عصمت كو بيان كرتا ھے۔ دوسري طرف بارہ اماموں كے نام لكھے ھوئے ھيں۔ قرآني آيات كو ديكھئے يہ سب آسماني شعار ھيں۔ كھيں پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم كےلكھے ھوئے فرامين نظر آرھے ھيں، تو كھيں پر مولائے كائنات عليہ السلام كے ارشادات درج ھيں، كھيں پر امام حسين عليہ السلام كے اقوال زرين لكھے ھيں اور كھيں پر امام حسين عليہ السلام كے ارشادات نظر آرھے ھيں۔ ان خوبصورت فرامين كو انتھائي خوبصورت انداز كے ساتھ تحرير كيا گيا ھے۔ آپ ان خوبصورت تحريوں كو ديكھ كر، پڑھ كر خوش ھوتے ھيں۔ ان كو پسند كرنے پر كسي نے آپ كو مجبور تو نھيں كيا ھے؟ اچھي اور عمدہ تحريريں تھيں، آپ كو پسند آگئيں۔ ھر انسان ميں يہ قوت موجود ھے كہ جب بھي وہ اچھي اور خوبصورت چيز كو ديكھتا ھے تو اسے پسند كرتا ھے، يا اس كي خوبصورتي كي تعريف كرتا ھے اب اس كے ليے كسي قانون كي ضرورت نھيں ھے نہ ھي وہ اس كے ليے كسي كي پابندي قبول كرتا ھے۔ يہ ايك فطري امر ھے اور فطرت پر كسي كو كسي قسم كا زور نھيں ھے۔ اس نوعيت كے تمام امور انساني فطرت كے تابع ھيں۔ علم دوستي اور اس طرح كي دوسري چيزيں بھي بشري فطرت ميں شامل ھيں۔ اب سوال يہ ھے كہ كيا عدالت كو پسند كرنا، يا عادل ھونا، يا عادل شخص سے محبت كرنا، انساني فطرت ميں شامل نھيں ھے۔ يہ ضروري نھيں ھے كہ اس ميں انسان كو كس قسم كا ذاتي قائدہ بھي نہ ھو پھر بھي وہ عدالت كو پسند كرے گا۔ يھاں تك كہ بعض عادل حكمرانوں كي كئي نسلوں تك قومي ھيرو كے طور پر جانا پھچانا جاتا ھے۔ اس موضوع پر مزيد بحث كرنے كيلئے ھم مزيد آگے قدم بڑھاتے ھيں ديكھتے ھيں كہ ا س كے بارے ميں دوسرے دانشور حضرات كيا كھتے ھيں؟
نيچہ اور ماكياول كے نظريات
بعض دانشوروں كا خيال ھے كہ انساني فطرت ميں ا س قسم كي قوت سرے ھي سے موجود نھيں ھے۔ يورپ كے اكثر فلاسفر يھي سوچ ركھتے ھيں۔ ان كا كھنا ھے كہ عدالت كا تصور كمزور طبقہ كا ايجاد كردہ نعرہ ھے۔ جب يہ لوگ طاقتور افراد كے مقابلے ميں آتے ھيں بے بس ھو كر عدل و انصاف كا نعرہ بلند كرنے لگ جاتے ھيں۔ ان كے بقول عدالت اچھي چيز ھے انسان كو عادل ھونا چاھيے۔ اس قسم كي باتيں زباني جمع خرچي كے سوا كچھ بھي نھيں ھيں، كيونكہ آج كا كمزور شخص كل طاقتور بن جائے تو وہ پسماندہ طبقہ كے خلاف جارجيت كا ارتكاب كرنے لگ جاتا ھے ۔ جرمن فلاسفر نيچہ كھتا ھے كہ مجھے ھنسي آتي ھے كہ لوگوں كو عدالت كي آواز بلند كرتے ھوئے ديكھتا ھوں، سوچتا ھوں اگر اس شخص كے پاس دولت اور طاقت آجائے تو نہ جانے يہ كيا سے كيا كر گزرے۔ ان فلاسفر كے نزديك انسانوں كو عدالت پر يقين ھي نھيں ھے۔ يہ جو باتيں سننے ميں آتي ھيں يہ سب خالي خولي نعرے ھي تو ھيں ۔
يہ تمام مفكرين اور دانشور انساني فطرت ميں عدالت كے وجود كے قائل ھي نھيں ھيں۔ پھر يہ حضرات دو گروھوں ميں بٹ جاتے ھيں۔ ايك گروہ كھتا ھے كہ انسان كو عدالت كے پيچھے آروزو كي تمنا كرتے ھوئے نھيں بھاگنا چاھيے، بلكہ اسے قوت و طاقت بنانا چاھيے۔ عدالت تو برائے نام چيز ھے۔ اس كي آرزو بھي نھيں كرني چاھيے، اور نہ ھي اس كے پيچھے دوڑنا چاھيے۔ اس كا مختصر خلاصہ يہ ھے كہ يہ دونوں گروہ عدالت كي بجائے طاقت كو ترجيح ديتے ھيں۔ ان كے نزديك عدالت نامي چيز كا كوئي تصور بھي نھيں ھے ۔ برٹرنڑرسل كا نظريہ
ليكن دوسرا گروہ اس قسم كي باتيں نھيں كرتا ان كا كھنا ھے كہ عدالت كے نھيں پيچھے دوڑنا چاھيے۔ ليكن يہ بات مسلم ھے كہ انسان كا فائدہ صرف اور صرف عدالت ميں مضمر ھے۔ مسڑراسل كا بھي يھي نظريہ ھے وہ انساني دوستي كے تصور كو دوسرے كاموں پر ترجيح ديتا ھے۔ ان كا نظريہ ھے كہ انسان چونكہ فطري طور پر منفعت پرست پيدا ھوا ھے، اس ليے سوچنے كي ضرورت ھے كہ آيا عدالت برقرار كي جائے؟ كيا انسان عدالت پسند ھے؟ ان تمام تر سوالات كا جواب دينے كے ليے ايك كام كرنا ضروري ھے كہ انسان علمى، عقلي اور فكرى صلاحتيوں ميں نكھار پيدا كريں۔ يھاں تك كہ انسانيت درست سمت كي طرف رواں دواں ھوجائے، چونكہ عدالت كے بغير كوئي شخص كسي قسم كے فائدہ حاصل نھيں كرسكتا۔ اس ليے عدالت كے تصور كو عملي جامہ پھنانا از بس ضروري ھے۔ اگر آپ سوچ سمجھ كر فيصلہ كريں تو آپ لازمي اس نتيجہ پر پھنچيں گے كہ عدالت ميں ھي سب كے فائدے موجود ھيں۔ مسڑرسل عدالت كو ذاتي طور پر نھيں مانتے ليكن وہ كھتا ھے كہ عدالت سے انسان كو فكر و دانش كو تقويت حاصل ھوتي ھے اس ليے عدالت كا قيام ايك لازمي امر ھے ۔
نھيں مسڑراسل!! ھر گز نھيں! يہ ايك مسلمہ حقيقت ھے كہ يہ تھيوري قطعي طور پر قابل نھيں ھے۔ مثال پيش كرتا ھوں كہ ميں ايك كمزور آدمي ھوں اپنے ھمسايہ سے اس ليے ڈرتا ھوں كہ وہ مجھ سے زيادہ طاقتور ھے۔ ليكن ايك وقت ايسا بھي آتا ھے كہ ميں طاقتور ھو جاتا ھوں اب ميں اس سے اس ليے نھيں ڈرتا كہ وہ مجھ سے كمزور ھے اس وقت ميں كس طرح عادل ھوسكتا ھوں؟ ميرا علم مجھے كس طرح عادل بنا سكتا ھے؟ آپ نے كھا ھے كہ انسان مفاد پرست ھے۔ ادھر علم كھتا ھے كہ مفاد كے ليے بھي عدالت كو مد نظر ركھنا چاھيے۔ يہ اس وقت ھو گا كہ ميں مد مقابل كے سامنے خود كو طاقتور خيال كرتا ھوں، ليكن جب خود كو مد مقابل كے سامنے طاقتور نھيں سمجھتا تو كس طرح عادل ھوسكتا ھوں؟ لھذا راسل كا فسلفہ انسان دوستي كے تمام تقاضوں كے خلاف ھے۔ وہ دنيا كے تمام تر طاقتور لوگوں كو جواز فراھم كرتا ھے كہ وہ جتنا بھي غريبوں، مظلوموں پر ظلم كرسكتے ھيں كريں ۔ ماركسيزم كا نظريہ
ان گروھوں ميں تيسرا گروہ بھي ھے جو كھتا ھے كہ عدالت عملي ھے ليكن انسان كے ذريعہ سے نھيں ۔ ۔ ۔ ۔ انسان عدالت كو برقرار ركھ سكتا ھے۔ يہ كام انسان كا نھيں ھے اور نہ ھي انسان كي اس لحاظ سے تربيت كي جاسكتي ھے كہ وہ دل و جان سے عدالت كي آرزو ركھے اور نہ ھي علم و دانش انسان كو عدالت كي جستجو كا درس ديتي ھے۔ آپ عدالت كے پيچھے نھيں دوڑ سكتے ۔ اگر آپ عدالت كو تلاش كرتے ھيں تو يہ سراسر جھوٹ ھے۔ آپ سرے ھي سے عدالت كے طالب نھيں ھيں۔ اگر تم سوچتے ھو تمھاري عقل ايك روز تمھيں عدالت كي طرف بلائے گي تو يہ تمھاري بھول ھے۔ ليكن حالات انسان كو خود بخود عدالت كي طرف لے جائيں گے۔ معاشي و اقتصادي ضروريات انسان كو آگے بڑھاتے ھيں۔ سو شلزم كے نزديك حالات كي وجہ سے عدالت وجود ميں آتي ھے۔ آپ اگر چاھيں يا نہ چاھيں عدالت كو نافذ نھيں كرسكتے۔ انداز كيجئے۔ كہ آيا ميري عقل مجھے عدالت كي طرف لے جائے گي آيا ميري تربيت مجھے عدالت كي ضرورت كا احساس دلائے گى؟ وہ كھتے ھيں يہ سب باتيں جھوٹي ھيں ۔
اسلام كا نظريہ
اسلام كھتا ھے كہ عدالت انسان كي فطرت ميں شامل ھے جو لوگ عدالت سے گريزاں ھيں وہ ابھي تك منزل ارتقاء تك نھيں پھنچے۔ اگر انسان كي صحيح طريقے پر تربيت كي جائے اور اس كي تربيت كرنے والا اچھا انسان ھو تو وہ فطري طور پت عدالت كو ھي پسند كرے گا، جس طرح انسان خوبصورت اور عمدہ چيز كو پسند كرتا ھے۔ اسي طرح وہ عدالت كو بھي پسنديدگي كي نظر سے ديكھتا ھے۔ ھم مسلمان مفادات كي خاطر اپنے مذھب اور دين كو پسند نھيں كرتے، بلكہ اسے اس ليے پسند كرتے ھيں كہ يہ مذھب ھم مسلمانوں كو زندگي كے كسي موڑ پر تنھا اور بے سھارا نھيں چھوڑتا۔ ھماري تاريخ ميں ايسے افراد بھي پيدا ھوئے ھيں كہ جو خود بھي عادل تھے اور عدالت كو پسند كرتے تھے۔ ليكن انھوں نے ذاتي منفعت كو ذرا بھر ترجيح نہ دى، وہ عدالت كو بھت زيادہ چاھتے تھے، اور عدالت كي خاطر اپني جانوں كا نذرانہ بھي پيش كيا يہ لوگ اپنے اپنے دور ميں بے مثال انسان تھے۔ انھوں نے حتمي المقدور بني نوع انسان كو سيدھے راستے پر چلنے كي ھدايت كي۔ اب اگر ھم ان جيسا كردار ادا نھيں كرسكتے تو كم از كم ان كے نقش قدم پر چلتے ھوئے عادلانہ نظام كے قيام كيلئے راہ ھموار تو كر سكتے ھيں ۔
علي ابن ابي طالب عليہ السلام كي ذات گرامي ك وديكھ ليجئے آپ نہ فقط انسان كامل تھے بلكہ پوري نوع انسان كيلئے نمونہ عمل بھي ھيں۔ حضرت علي عليہ السلام اور آپ كي محبت كا دم بھرنے والوں نے زندگي كے تمام شعبوں ميں كردار و گفتار كے حوالے سے انمٹ نقوش چھوڑے ھيں۔ اب بھي ديندار طبقہ عدالت كو بيحد پسند كرتا ھے۔ ان كي اولين خواھش عدالت كا نفاذ و اجراء ھي ھے۔ آنے والي نسلوں ميں بھي يھي جذبہ كار فرما رھے گا۔ بھت سے لوگوں كا خيال ھے كہ حضرت امام مھدي عليہ السلام كا دور مبارك مشكلات اور سختيوں كا دور ھوگا۔ حالانكہ يہ بالكل ھي غلط ھے۔ آپ كا دور حكومت عملى، فكرى، اخلاقي غرض كہ ھر لحاظ سے انتھائي ترقي اور خوشحال كا دور ھوگا۔ عدالت اپنے عروج كو پھنچے گي۔ يہ دين اسلام جو ھم تك پھنچا ھے اس نے حضرت حجت كے ظھور كو عدل مكي سے تعبير كيا ھے ۔ اصول كافي كي حديث ميں ھے جب قائم آل محمد عليہ السلام ظھور كريں گے كہ تو رحمتوں اور بركتوں كي بارش برسے گى، لوگوں كے اذھان حد سے زيادہ ترقي كريں گي قوت فكر كے غير معمولي اضافہ كے ساتھ ساتھ قوت عمل بھي حيرت انگيز طور پر بڑھے گي۔ آپ كے ظھور كے بعد بھيڑيئے اور گوسفند كي ديرينہ رقابت بالكل ختم ھو جائے گي۔ يھاں تك كہ بھيڑيئے بھي ايك دوسرے سے صلح كركے آرام و سكون سے زندگي بسر كريں گے۔ اب سوال يہ ھے كہ كونسے بھيڑيئے؟ جنگلوں ميں رھنے والے خونخوار بھيڑيئے يا انساني شكل و صورت ميں چلنے پھرنے والے بھيڑيئے؟ دراصل ھر طرح كے خونخوار جانور اپنا وحشي پن چھوڑ ديں گے، ظلم و ستم كا مكمل خاتمہ ھوگا۔ اب آتے ھيں آپ كي عمر مبارك كي طرف۔ كيا امام عليہ السلام اب تك زندہ ھيں اور آپ كي طولاني عمر كا كيا راز ھے؟ اور آپ كب تك زندہ رھيں گے؟ امام زمانہ (عج) كي لمبي عمر كا راز كيا ھے؟
بھت سے لوگ ايسے بھي ھيں كہ جو امام زمانہ عليہ السلام كي طولاني عمر كے بارے ميں سن كر تعجب كا اظھار كرنے لگ جاتے ھيں۔ ان كا كھنا ھے كہ بھلا ايك شخص ايك ھزار دو سو سال كس طرح زندہ رہ سكتا ھے؟ يہ تو قانون فطرت كے خلاف ھے ان لوگوں كا خيال ھے كہ اب تك جتنے بھي دنيا ميں كام ھوئے ھيں وہ فطرت كے عين مطابق ھيں دوسرے لفظوں مين آج كے جديد علوم مبني پر حقيقت ھيں۔ ان كے نزديك انساني زندگي كے تمام تر تغيرات و معمولات غير فطري ھيں۔ كيا روئے زمين پر حيات انساني كا وجود علومطبعيات كے ساتھ مطابق ركھتا ھے؟ انسان نے سب سے پھلے جو قدم ركھا ھے وہ كونسے طبعي و فطري قانون كے مطابق تھا؟ جديد علوم كي رو سے جاندار سے ھميشہ جاندار چيز جنم ليتي ھے۔ يہ كبھي نھيں ھوتا كہ غير جاندار سے جاندار چيز پيدا ھو۔ سائنس اس كا اب تك جواب نہ دے سكي۔ سب سے پھلي چيز جاندار نے روئے زمين پر كيسے اور كس طرح قدم ركھا؟پھر دو انسانوں سے تخليق كا عمل كيسے آگے بڑھا؟
اس كے بعد وہ كھتے ھيں تخليق كا عمل شروع ھي سے دو حصوں ميں بٹ گيا، ايك بناتات اور دوسرا حيوانات، نباتات كا سلسلہ خلقت اور ھے اور حيوانات كا اور بعض امور مين ايك دوسرے كي ضد ھيں۔ ايسا بھي ھے كہ گھاس ھو اور حيوان نہ ھو۔ اور حيوان ھو اور گھاس نہ ھو۔ درخت پودے يہ سب جاندار چيزيں ھيں، ان كا ماحول كو صحت مند اور پرفضا بنانے ميں بھت بڑا كردار ھے۔ آج تك سائنس يہ نہ بتا سكي كہ يہ سلسلہ كب اور كس طرح شروع ھوا تھا۔ جس طرح سائنس انساني تخليق كے بارے ميں حيران ھے، اس طرح وہ نباتات كے بارے ميں بھي سرگرداں ھے۔ بعد كے كچھ مراحل كے متعلق تو كچھ حد تك معلومات حاصل كي گئي ھيں۔ ليكن تخليق كے آغاز كي بابت سائنسدان آج تك كوئي نتيجہ نھيں نكال سكے۔ انسان كے اندر ايك بھت بڑي كائنات پوشيدہ ھے۔ اس كي زندگي كا ھر راز ابھي تك پوري طرح سے كھل كر سامنے نہ آسكا۔ انسان كي تخليق اور قوت مشاھدہ، پختگي شعور اور قوت گويائى، ديگر محسوسات اپني جگہ پر قدرت كا عظيم شاھكار ھيں۔ كيا وحي كوئي معمولي كام ھے؟ وہ وحي جو انسان كے پاس پھنچ كر غير معمولي خبريں اور امور كي نشاندھي كرتي رھي كيا وہ انسان كے ايك ھزار تين سو سال تك زندہ رھنے سے كيا كم ھے؟ دراصل يہ ايك فطري امر اور قدرتي عمل ھے۔ يہ قانون فطرت تو ھے جو انساني صلاحيتوں كو بروئے كار لا كر جديد سے جديد كام لے رھا ھے۔ آج انسان نئي سے نئي ايجادات سامنے لا رھا ھے۔ جدتوں، ندرتوں كي دنيا رنگ برنگي روشنيوں ميں بكھر چكي ھے، اور جديد تحقيق كا سلسلہ مزيد جاري و ساري ھے۔ بلكہ لمبي عمر پانے كے نئے نئے فارمولے ايجاد كئے جارھے ھيں۔ كوئي شخص يہ نھيں كھہ سكتا كہ قانون فطرت يہ ھے كہ انسان ايك سو سال، پچاس سال يا دو سو سال ہا پانچ سو سال زندہ رھے۔ ھوسكتا ھے كہ كسي وقت ايسا بھي ھو كہ انسان كي لمبي عمر كا راز حاصل كيا جائے۔ اللہ تعاليٰ ھميشہ اپني قدرت نمائي اور اپنے معجزات لوگوں كو دكھلاتا رھتا ھے۔ ايك ايسي صورت پيدا ھوتي ھے كہ ھم اس كانون فطرت كے ساتھ موازنہ نھيں كر سكتے۔ خدا كي باتيں خدا ھي جانے، اس ليے يہ ايسا موضوع نھيں ھے كہ اس ميں مزيد بحث و تمحيض كي جائے۔ يا نعوذ باللہ اس ميں شك و شبہ كيا جائے۔ دين اور دنيا سب كے ليے، اور اس كا مقصد يہ ھے كہ انسان اپني چشم بصيرت كھولے، اور اپنے شعور كي دنيا آباد كرے، اور اپني فكر كو محدود ماحول سے نكال كر وسيع و عريض فضاؤں ميں لے جائے۔ ميں نے عرض كيا تھا كہ امام مھدي عليہ السلام كے دور مبارك ميں انسان علم و حكمت، فكر و نظر، عقل و شعور غرضيكہ زندگي كے تمام شعبوں ميں ترقي كر گا۔ ا سكے بارے مين ھم مزيد مطالب بيان كرنا چاھتے ھيں آپ كي صرف اور صرف توجہ در كار ھے ۔ حضرت امام مھدي (عج) كے دور حكومت كي خصوصيات
شيعہ سني علماء و مورخين كا اتفاق ھے كہ پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آل وسلم نے ارشاد فرمايا ھے كہ
لو لم يبق من الدنيا الا يوم واحد لطول اللہ ذلك اليوم حتيٰ يخرج رجل من ولدى" يعني اگر فرض كريں كہ دنيا ميں سے ايك دن سے زيادہ وقت نہ رہ گيا ھو تو اللہ تعاليٰ اس كو اتنا طولاني كر دے گا كہ ميرے بيٹے قائم آل محمد عليہ السلام ظھور كريں گے۔" اس كا مقصد يہ ھے كہ يہ ايك يقيني اور حتمي امر ھے كہ اگر دنيا ختم ھونے والي ھو تو بھي امام مھدي عليہ السلام نے تشريف لانا ھے۔ اس روايت كو اھلسنت اور اھل تشيع دونوں فرقوں نے متفقہ طور پر تسليم كيا ھے۔ ھمارے بعض احباب جب ديكھتے ھيں كہ حجاز سے آئے ھوئے ھمارے مھمانان گرامي جناب شيخ خليل الرحمن ھميشہ امام زمانہ عليہ السلام كے بارے ميں گفتگو كرتے رھتے ھيں تو يہ لوگ تعجب كرتے ھيں كہ يہ شيعہ بھي نھيں ھيں ليكن امام عليہ السلام كے ظھور كي باتيں كر رھے ھيں۔ واقعتاً يہ حضرات امام زمانہ (ع) كے ظھور كے منتظر ھيں۔ دراصل يہ بات كسي ايك فرقے كے ساتھ خاص نھيں ھے بلكہ تمام مسلمانوں كا اس پر اتفاق ھے كہ امام مھدي عليہ السلام ايك نہ ايك دن ضرور ظھور فرمائيں گے۔ اس سے آگے چل كر ديكھتے ھيں كہ پيغمبر اكرم صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم امام مھدي عليہ السلام كے دور حكومت كو انساني ارتقاء كے آخري سٹيج سے تبصرہ كرتے ھوئے فرماتے ھيں: "المھدي يبعث في امتي علي اختلاف من الناس والزلازل" كہ حضرت مھدي عليہ السلام اس حالت ميں تشريف لائيں گے كہ لوگوں كے درميان شديد اختلافات اور زلزلے آئيں گے۔ ان زلزلوں سے مراد يہ ھے كہ لوگوں پر خطرات كے بادل منڈ لائيں گے۔ "فيملاء الارض قسطا و عدلاً كما ملئت ظلماً وجورا" كہ جب پيمانہ ظلم و جور بھر چكے گا تو آپ تشريف لا كر دنيا كو عدل وانصاف سے پر كرديں گے۔ "يرضي عنہ ساكن السماء و ساكن الارض" كہ ان سے خدائے آسمان راضي ھے اور مخلوق خدا بھي اور لوگ شكر خداوندي بجالاتے ھوئے كھيں گے كہ اب ظلم و ستم ختم ھوگيا ھے۔ اس كے بعد آپ نے ارشاد فرمايا: "يقسم المال صحاحا" كہ حضرت مھدي عليہ السلام لوگوں ميں مال و دولت صحيح طريقے سے تقسيم كريں گے ۔ پوچھا گيا۔ يا رسول اللہ وہ كيسے؟آپ نے فرمايا عدل و انصاف كے ساتھ برابر حصوں ميں تقسيم كريں گے۔ "و يملا اللہ قلوب امۃ محمد غني و يسعھم عدلہ"۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ 35 اور اللہ تعاليٰ امت اسلام كے دلوں كو غني كر دے گا۔ ان كے دل بھي دنياوي آسائشوں اور الآئشوں سے بھر جائيں گے اور مالي وسائل كے لحاظ سے بھي وہ بے نياز ھو جائيں گے غربت و افلاس كا مكمل طور پر خاتمہ ھو گا۔ ھر طرح كي رقابتيں، دشمنياں ختم ھوں گي۔ حضرت علي عليہ السلام نھج البلاغہ ميں فرماتے ھيں: "حتي تقوم الحرب بكم علي ساق باديا نواجذھا مملوئۃ اخلافھا حلوا رضاعھما علقما عاقبتھا" "يعني (اس داعي حق سے پھلے) يھاں تك نوبت پھنچے گي كہ جنگ اپنے پيروں پر كھڑي ھوجائے گى، دانت نكالے ھوئے اور تھن بھرے ھوئے، جن كا دودھ شيرين و خوش گوار معلوم ھوگا ليكن اس كا انجام تلخ و ناگوار ھوگا۔" الاوفي غدو سياتي غد بما لا تعرفون" ھاں كل اور يہ كل بھت نزديك ھے كہ ايسي چيزوں كو لے كر آجائے جنھيں ابھي تك تم نھيں پھچانتے ۔ "يا خذ الوالي من غيرھا عما لھا علي مساوي اعمالھا" حاكم و والي جو اس جماعت ميں سے نھيں ھوگا تمام حكمرانوں سے ان كي بدكرداروں كي وجہ سے مواخذہ كر گا۔ "و تخرج لہ الارض افاليذ كبدھا" اور زمين اس كے سامنے اپنے خزانے انڈيل دے گي۔ "و تلقي اليہ سلماً مقاليدھا" اور اپني كنجياں اس كے آگے ڈال دے گي۔ "فيريكم كيف عدل السيرۃ" چانچہ وہ تمھيں دكھائے گا كہ حق و عدالت كي روشني كيا ھوتي ھے۔ "و يحيي ميت الكتاب والسنۃ" اور وہ دم توڑ چكنے والي كتاب و سنت پھر سے زندہ كر دے گا۔ ايك اور جگہ پر فرمايا كہ : "اذا قام القائم حكم بالعدل" جب قائم آل محمد عليہ السلام تشريف لائيں گے تو عدل و انصاف پر مبني حكومت قائم كريں گے۔ ھمارے ھر امام كا ايك مخصوص لقب ھے جيسا كہ امير المومنين كا علي مرتضيٰ (ع)، امام حسن كا حسن مجتبيٰ (ع)، امام حسين (ع) كا سيد الشھداء اور دوسرے آئمہ السجاد، الباقر، الصادق، الكاظم، الرضا، التقى، النقى، الزكى، العسكرى، لقب سے اس طرح امام زمانہ كا قائم ھے۔ يعني قيام كرنے والا، انقلاب برپا كرنے والا۔ عدل و انصاف كو نافذ كرنے والا، گويا ھمہ گير انقلاب اور عدالت آپ كي ذات اقدس كے ساتھ لازم و ملزوم ھيں۔ "وارتفع في ايامہ الجور" آپ كے دور حكومت ميں ظلم وجود كا نام و نشان تك نہ رھے گا۔ "وامنت بہ السبل" تمام راستے امن و سلامتي كي علامت بن جائيں گے۔" يعني دريائى، زميني اور ھوائي سفر محفوظ ترين ھوجائے گا۔ چونكہ عدل و انصاف كے نہ ھونے كي وجہ سے جرائم ھنم ليتے ھيں ليكن جب عدل برقرار ھوگا، تو جرائم خود بخود ختم ھوجائيں گے۔ پھر عدالت كا تصور انساني زندگي كا لازمي حصہ ھے، اسلئے بدامني كا سوال ھي پيدا نھيں ھوتا۔ "واخرجت الارض بركاتھا" زمين اپني تمام بركتوں اور اپنے تمام خزانوں كو باھر لے آئے گي۔ "ولا يجد الرجل منكم يومئذ موضعا لصدقتہ ولا برہ" (يھاں تك كہ) لوگوں ميں صدقہ خيرات لينے والا (اور مانگنے والا) نہ ملے گا۔ "وھو قولہ تعاليٰ والعاقبۃ للمتقين" ارشاد خداوندي ھے كہ اچھا انجام اور كاميابي نيكوكاروں ھي كيلئے ھے: اس وقت كے لوگوں كے ليے سب سے مشكل يہ ھوگي كہ ان كو صدقہ دينے كے ليے كوئي فقير و نادار نھيں ملے گا، گويا غربت و افلاس كا نام تك نہ رھے گا۔ امام عليہ السلام توحيد كے بارے ميں فرماتے ھيں: "حتيٰ يوحدوا اللہ ولا يشرك بہ شياء" كہ سب كے سب توحيد پرست بن جائيں گے شرك كا مكمل طور پر خاتمہ ھوگا۔ "و تخرج العجوزۃ الضعيفۃ من المشرق تريد المغرب لا يؤذيھا احد" ايك بوڑھي خاتون مشرق سے لے كر مغرب تك بھي اگر اكيلا سفر كرے گي تو اسے كوئي گزندتك نہ پھنچا سكے گا۔ امام عليہ السلام كے بے نظير عادلانہ نظام كے بارے ميں كتابوں بھت كچھ موجود ھے كہ آپ جب حكومت الٰھيہ كو تشكيل ديں گے تو لوگوں كو ھر طرح كا تحفظ حاصل ھوگا۔ بركتوں، رحمتوں كا نزول ھوگا، عوام مين دولت كي مساوي تقسيم ھوگي۔ بے پناہ و سائل موجود ھوں گے۔ ھر چيز كي فراواني ھوگي۔ برائيوں كا مكمل طور پر خاتمہ ھوگا۔ اس وقت انسان گناھوں سے نفرت كرے گا۔ چھوٹ، غيبت، تھمت، اور ظلم كے ناموں كو لوگ بھول جائيں گے۔ آخر يہ كيا ھے اور كيوں ھوگا؟ جيسا كہ ميں نے عرض كيا ھے كہ اسلام كھتا ھے كہ انسانيت كا انجام عدالت كا قيام ھي ھے۔ اس دور ميں عدالت سب سے زيادہ پسنديدہ چيز سمجھي جائے گي۔ انسان كي روحاني طاقت ميں بے پناہ اضافہ ھوگا۔ اس كي تعليم و تربيت پايہ تكميل تك پھنچے گي۔ وہ حكومت عالمي امن كے قيام كا سب سے بڑا اداعي ھوگا۔ ايمان اپني پوري قوت سے جلوہ گر ھوگا۔ خدا پرستي اور خدا شناسي اپنے آخري نقطہ تك پھنچے گي۔ قرآن مجيد كو سب سے بڑا مقام ملے گا۔ اس ليے ھم مسلمان خوش قسمت ھيں كہ دنيائے كفر انسانيت كے بارے جتنا مايوس كن رويہ اختيار كرتي ھے، ھم اس سے كھيں زيادہ آخرت پر يقين ركھتے ھيں۔ ھمارا عقيدہ ھے كہ قيامت كے آنے سے پھلے ايك عظيم اسلامي حكومت قائم ھوگى، ايسي حكومت كہ جس ميں عدل و انصاف كے سوا دوسري چيز موجود نہ ھوگي۔ مسڑر اسل اپنى، "نئي اميديں" ميں لكھتا ھے كہ آج دانشوروں ميں سے اكثر اپني اميديں ختم كر چكي ھے، كہ جديد دنيا كي جديد سوچ ركھنے والوں كا خيال ھے كہ نئي ٹيكنا لوجي اتني زيادہ ترقي كر چكي ھے كہ انسان كا خاتمہ بھي اس كي وجہ سے ھوگا ايك يورپي دانشور كے بقول انسان نے اپنے ھاتھ سے اپني قبر بنا ركھي ھے اگر ايٹمي بٹن پر انغلي ركھ دي جائے كہ پوري دنيا جل كر بھسم ھوجائے گي۔ واقعتاً اگر ھميں خدا اور غيبي طاقت پر يقين نہ ھو اور قرآن كي بشارت پر ھمارا ايمان نہ ھو تو ھم بے اطميناني و بے سكوني كا شكار ھو جائيں۔ آپ آج كي ترقي يافتہ دنيا كو ديكھ ليں تو خيال كريں كہ وہ حق پر ھيں، ليكن يہ ترقي عارضي اور فنا ھونے والي ھے۔ جب ھيرو شيما ميں ايٹمي اسلحہ سے انساني تباھي كو ديكھ ليں تو ترقي كے نام سے نفرت ھونے لگے گي۔ آج آپ جديد ايٹمي ٹيكنا لوجي كو ديكھ ليجئے كہ سائنسدانوں نےانساني تباھي و بربادي كے ليے كيا سے كيا كر ركھا ھے، ھياں تك كہ دنيا اس جگہ پر آكھڑي ھوئي ھے كہ جس ميں فاتح مفتوح، غالب مغلوب كا تصور ھي نھيں ھے۔ اگر تيسري عالمي جنگ شروع ھوجائے تو اب يہ كوئي نھيں كھہ سكے گا كہ آيا امريكہ جنگ جيت جائے گا يا روس يا چين فتح حاصل كر ليں گے۔ اگر تيسري عالمي جنگ چھيڑ جائے تو چيز مغلوب ھوگي وہ ھے اسنانيت اور جو چيز غالب ھے اس كا كوئي وجود نھيں ھے ليكن ھم مسلما كھتے ھيں كہ ان تمام تر ايٹمي و سائنسي طاقتوں كے اوپر ايك طاقت ھے قرآن مجيد كي سورہ آل عمران آيت نمبر ۱۰۳ ميں ارشاد ھے: "وكنتم علي شفا حفرۃ من النار فأنقذكم منھا" اور تم (گويا) ھوئي آگ كي بھٹي (دوزخ) كے لب پر (كھڑے تھے) اور گرنا چاھتے تھے، كہ خدا نے تم اس سے بچايا ليا ۔ اور ھميں يہ بھي كھا گيا ھے كہ : "افضل الاعمال انتظار الفرج" كہ تمام اعمال ميں سے سب سے بھتر عمل، ايك مكمل كشائش اور فتح كا انتظار كرنا ھے۔" وہ اس ليے كہ يہ ايك اعلي معيار كي ايماني طاقت ھے، جو ھميں اميد دلاتي ھے اور كاميابي كي نويد بھي۔ بار الٰھا ھميں امام زمانہ عليہ السلام كے حقيقي غلاموں اور ماننے والوں ميں شمار فرما! خداوند ھميں ايسا شعور عطا فرما كہ جس سے ھم ان كي حكومت برحق كا صحيح طريقے سے ادراك كر سكيں۔ "اللھم انا رغب اليك في دولۃ كريمۃ تعزبھا الاسلام واھلہ وتذل بھا النفاق واھلہ وتجعلنا فيھا من الدعاۃ اليٰ طاعتك و القادۃ اليٰ سبيلك" -------------------------------------------------------------------------------- 33.نور، ۵۵. 34.سورہ حديد، ۲۵. 35.اعلام الوريٰ، ص۴۰۱. |