مسئلہ ولي عھدي امام رضا (ع) (۲)
 

ھم امام رضا عليہ السلام كي ولي عھدي كے بارے ميں گفتگو كر رھے تھے۔ اس نشست مين بھي ھم اس اھم تاريخي موضوع پر مزيد روشني ڈالنے كي كوشش كريں گے۔ جرجي زيدان كي طرح كچھ مورخين نے كہلے لفظوں ميں كہا ھے كہ بنو عباس كي سياست نيكيوں كو چھپانا اور حقائق كو دبانا تھا۔ جس كي وجہ سے تاريخ ميں سے كچھ چيزيں ايسي بھي رہ گئ ھيں جن كے بارے ميں آج تك پتہ نھيں چل سكا۔ يہ ايك حقيقت ھے كہ ولي عھدي كا مسئلہ امام رضا عليہ السلام سے شروع نھيں ھوا يعني امام رضا عليہ السلام نے ولي عھد بننے كي نہ خواھش ظاھر كي اور نہ آپ دلي طور پر مامون كا نائب خليفہ بننا چاھتے تھے اور نہ ھي امام وقت كے شايان شان تھا۔ دراصل شروع ھي اس مسئلہ كو انتھائي راز ميں ركہا گيا تھا۔ مامون خراسان ميں تھا۔ خراسان اس زمانے ميں روس كے ساتھ ملتا جلتا تھا۔ مامون وھاں سے چند افراد كو مدينہ روانہ كرتا ھے۔ كس ليے امام رضا عليہ السلام كو بلوانے كيلئے۔
امام رضا عليہ السلام كي خراسان ميں آمد كا پروگرام تك نہ تھا اور آپ كو ان راستوں، شھروں، علاقوں اور ديھاتوں سے گزار كر لايا گيا كہ جھاں آپ كے ماننے اور جاننے والے موجود نہ تھے۔ دوسرے لفظوں ميں امام رضا عليہ السلام پوليس كے كڑے پھرے ميں قيد كر كے لايا جارھا تھا۔ جب آپ مرو پھنچے تو آپ كو ايك الگ مكان ميں لايا گيا۔ مامون اور امام عليہ السلام كے مابين پہلي جو گفتگو تھي وہ يہ تھي كہ ميں آپ كو خلافت كي باگ دوڑ دينا چاھتا ھوں۔ پھر كہا كہ اگر آپ يہ قبول نہ فرمائيں تو ولي عھدي كا منصب ضرور قبول كريں۔ آپ نے سخت انكار كيا۔ اب سوال يہ ھے امام عليہ السلام كے انكار كي وجہ كيا ھے؟ اس سلسلے ميں ھم روايات كي طرف چلتے ھيں ديكھتے ھيں وہ كونسي وجوھات تھيں جن كي وجہ سے امام عليہ السلام كو انكار كرنا پڑا؟ عيون اخبار الرضا مين ذكر ھوا ھے كہ مامون نے امام رضا عليہ السلام سے كہا ميں سوچ رھا ھوں كہ مسند خلافت چھوڑ كر اسے آپ كے حوالے كروں اور آپ كي بيعت كروں۔ امام عليہ السلام نے فرمايا تم خلافت كے مستحق ھو كہ نھيں؟ اگر حقدار ھو تو اللہ تعاليٰ كي طرف سے يہ تمہارے پاس امانت ھے اسے ھر صورت ميں اپنے پاس ركھو اگر اس پر تمہارا حق نھيں ھے تو پھر بھي اس پر قابض رھو؟ اس سے امام كا مقصد يہ تھا اگر خلافت تمہارا حق نھيں ھے تو يزيد كے بيٹے معاويہ كي طرح اعلان كرو كہ ميں حقدار نھيں ھوں۔ ميرے آباء واجداد نے غلطي كرتے ھوئے مجبوراً عنان حكومت ميرے ھاتھ مين دي ھے۔ معاويہ بن يزيد نے كہا تھا كہ ميرے باپ دادا نے خلافت غصب كر كے اس پر ناجائز طور پر قبضہ جمايا تھا ار ميں جامہ خلافت كو اتار كر واپس جارھاھوں۔ اگر تم بھي خلافت دينا چاھتے ھو تو اسي طرح كرو۔ سب سے پہلے تو آپ كو اپنے آباء و اجداد اور ان كے انداز حكومت كو ناجائز اور غلط كہنا ھوگا۔ ھارون نے جب يہ بات سني تو اس كے چھرے كا رنگ فق ھوگيا اور گفتگو كو بدلتے ھوئے اچھا چھوڑو اس بات كو شايد آپ كي كوئي مجبوري ھے ۔
پھر مانون نے كہا كہ آپ كو ھماري شوريٰ ميں شركت تو كرنا پڑے گي۔ مامون ايك پڑھا لكھا شخص تھا۔ حديث، تاريخ، فلسفہ، ادبيات پر اسے مكمل عبور حاصل تھا۔ طب و نجوم پر بھي خاص مہارت ركھتا تھا۔ آپ اسے وقت كا قابل ترين شخص بھي كھہ سكتے ھيں۔ شايد سلاطين وخلفاء ميں مامون جيسا قابل اور لائق شخص پيدا ھي نھيں ھوا ھو۔ اس نے دليل كا سھارا پكڑتے ھوئے كھا كہ آپ كے دادا علي عليہ السلام نے بھي شوريٰ ميں شموليت اختيار ك تھى؟
اس وقت كي شوريٰ مين چھ آدمي تھے۔ فيصلہ اكثريت كے پاس تھا۔ اس وقت كسي نے دھمكي دي تھي كہ اگر شوريٰ كے فيصلے سے كسي نے انكار كيا تو ابو طلح انصاري اس كا سر قلم كر دے گا۔ يہ صورت حال بھي اس جيسي ھے۔ لھذا آپ اپنے دادا علي عليہ السلام كي پيروي كرتے ھوئے ھمارے فيصلے كو قبول كريں۔ ايك لحاظ سے مامون امام عليہ السلام كو سمجھانے كي ايك لاحاصل كوشش كر رھا تھا كہ آپ كے دادا علي عليہ السلام نے خلافت كو اپنا حق جاننے ھوئے بھي شوريٰ كے فيصلوں كو تسليم كيا حالانكہ علي عليہ السلام كو اس وقت احتجاج كرنا چاھيے تھا، اور آپ شوريٰ ميں شامل ھي نہ ھوتے اور اس وقت تك اپنا احتجاج جاري ركھتے جب تك كہ ان كو اپنا حق نہ مل جاتا، ليكن آپ نے كسي قسم كا احتجاج نہ كيا بلكہ اپني مرضي سے ھي شوريٰ كے اجلاس ميں شركت كى، اور اپني خوشي سے خليفہ كے انتخاب ميں حصہ ليا۔
لھذا اب بھي وھي صورت حال ھے بھتر يہ ھوگا كہ آپ ھماري شوريٰ ميں آجائيں ليكن آپ كي خاموش اور انكار كے بعد اس نے دھمكي آميز رويہ اپناتے ھوئے امام عليہ السلام كو ولي عھد بننے پر مجبور كيا۔ يہ نظريہ قطعي طور پر درست نھيں ھے كہ امام عليہ السلام نے ڈر اور خوف كي وجہ سے ولي عھدي كا منصب قبول كيا ھے۔ دراصل يہ سب كچھ مسلمانوں كے اجتماعي مفاد كيلئے كيا گيا۔ دوسرا آپ نے امامت كي ذمہ دارياں بھي دوسرے امام كي طرف منتقل كرنا تھيں۔ اس كے علاوہ اور بھي شرعي ذمہ دارياں تھيں جن كو امام عليہ السلام نے نبھانا تھا۔ اگر تاريخي حقائق كو ديكھا جائے تو يہ بات پايہ ثبوت تك پھنچ جاتي ھے كہ آپ نے مامون كي پيشكش كو ٹھكراديا تھا۔ آپ كا ايك بار ٹھكرانا اس بات كي دليل ھے كہ امام عليہ السلام مامون كي خلافت كو جائز سمجھتے تھے نہ اس كي كسي قسم كي مدد كرنے كو تيار تھے۔ پھر مصلحت كے ساتھ آپ كو خاموش اختيار كرنا پڑي۔
تيسرا مسئلہ جو كہ بھت اھم ھے كہ امام عليہ السلام نے اس پر شرط عائد كي كہ ميں خلافت اور حكومت كے كاموں ميں مداخلت نھيں كروں گا، اس صورت ميں مجھے نائب خليفہ مقرر كرنا ھے تو كر لو، ميرے نام پر سكہ جاري كرنا ھے تو كر لو۔ ميرا نام استعمال كرتے ھوئے خطبہ پڑھنا ھے تو پڑھ لو، ليكن عملي طور پر مجھے اس سے دور ركھو۔ ميں نہ عدالتى، حكومتى، امور ميں دخل اندازي كروں گا اور نہ كسي كو مقرر اور معطل كرنے ميں حصہ لوں گا۔ اس كے علاوہ آپ نے حكومت كا سركاري پروٹوكول بھي قبول نہ كيا۔ اس لحاظ سے آپ اس كو سمجھا رھے تھے كہ وہ اس كي حكومت كے خير خواہ نھيں ھيں اور نہ ھي اس خلافت كو جائز سمجھتے ھيں۔
ايك روز مامون نے ملك كے سركردہ افراد، سياسي ومذھبي شخصيات كو مدعو كيا۔ سب كو سبز لباس پھننے كي تلقين كي گئي۔ فضل بن سھل نے سبز لباس تجويز كيا۔ اس كي وجہ يہ تھي كہ عباسيوں كا پسنديدہ رنگ كالا تھا۔ فضل نے لوگوں كو حكم ديا كہ وہ سبز لباس پھن كر كانفرس ميں شركت كريں۔كھا جاتا ھے يہ رنگ مجوسيوں كا پسنديدہ رنگ تھا ليكن ميں نھيں سمجھتا كہ يہ بات كسي حد تك سچي ھو؟ چناچہ وقت مقررہ پر سب شركاء پھنچ گئے۔ جلسہ كي كاروائي شروع ھوئي۔ سب سے پھلے امام عليہ السلام كي ولي عھدي كي رسم ادا كي گئي۔ اس سلسلے ميں مامون كے بيٹے عباس نے امام عليہ السلام كي بيعت كى، اس سے قبل وہ اپنے باپ كا ولي عھد تھا۔اس كے بعد ايك ايك كر كے لوگ آتے رھے بيعت كرتے رھے۔ پھر شعراء، خطباء كي باري آئي۔ انھوں نے اپنے اپنے انداز ميں انتھائي خوبصورت اشعار كھہ كے محفل كو پر كيف بنا ديا۔ اس كے بعد امام عليہ السلام كو خطاب كي دعوت دي گئي۔ آپ اپني نشست سے اٹھ كر سٹيج پر تشريف لائے۔ اور ڈيڑھ سطر پڑھ كر اپنا خطبہ مكمل كر ليا آپ نے فرمايا ھم (اھلبيت اطھار (ع)، ھمارے آئمہ) آپ لوگوں پر حق ركھتے ھيں كہ تمھارے سربراہ مقرر ھوں۔ اس كا مفھوم يہ تھا كہ خلافت ھمارا حق ھے۔ اس كے علاوہ اور كچھ نھيں۔ آپ پر ھمارا اور ھمارا آپ پر حق ھے۔ آپ كا ھم پر حق يہ ھے كہ ھم آپ كے سب حقوق كي حفاظت كريں اور امور زندگي ميں آپ كي مدد كريں، اور آپ كا فرض يہ ھے كہ ھماري پيروي كريں اور ھم سے رھنمائي ليں۔ آپ لوگوں نے جب ھي ھميں خليفہ برحق كے طور پر تسليم كر ليا تو ھم پر لازم ھے كہ اپنے وظيفہ كو احسن طريقے سے نبھائيں۔ علامه مجلسي ميں يوں عبارت درج ھے:
"لنا عليكم حق برسول اللہ ولكم علينا حق بہ فاذا انتم اديتم الينا ذلك وجب علينا الحق لكم" 31
اس كا مفھوم اور معني اوپر درج كيا جاچكا ھے دوسرے لفظوں ميں ھم اس كي تعبير كچھ اس طرح كرسكتے ھيں كہ امام عليہ السلام لوگوں سے يہ كھہ رھے تھے خلافت ھمارا حق ھے تمھارے حق يہ ھے، كہ خليفہ آپ كے مسائل كو ھل كرے۔ آپ پر فرض ھے كہ ھمارا ھميں حق ديں اور ھم اس ذمہ داري كو نجوبي انجام ديں گے۔
اس ميں آپ نے مامون كا نام تك نہ كيا اور نہ ھي اس كا شكريہ ادا كيا۔ اس طرح محسوس ھو رھا تھا كہ جس طرح امام عليہ السلام مامون كي ولي عھدي كے خلاف بول رھے ھوں۔ پھر آپ نے عملي طور پر بھي كر دكھايا۔ مامون كے حكومتى امور ميں مداخلت نہ كي اور نہ كسي قسم كا شاھي اعزاز ليا جب كہ مامون نے عرض كي تھي كہ آپ نماز عيد ميں سركاري طور پر شركت فرمائيں، ليكن آپ نے اس سے انكار كرتے ھوئے فرمايا تھا كہ كيا آپ سے معاھدہ نھيں ھوا كہ ميں حكومتى امور ميں مداخلت نہ كروں گا۔ جب اس نے اصرار كيا كہ ميں اپنے جد بزرگوار كي سنت پر عمل كرتے ھوئے گھر سے باھر نكلتا ھوں اس نے كھا ٹھيك ھے۔ چناچہ امام عليہ السلام جب عمل كرتے ھوئے گھر سے باھر قدم ركھتے ھيں اور پورے شھر ميں كھلبلي سي مچ جاتي ھے ۔ مامون نے خطرہ محسوس كرتے ھوئے امام عليہ السلام كو واپس گھر بھجواديا۔
چناچہ ان شواھد سے يہ ثابت ھوگيا كہ آپ كي ولي عھدي كا منصب قبول كرنا امام عليہ السلام كي مرضي كے خلاف تھا۔ زبردستي طور پر آپ كو اقرار كرنے پر مجبور كيا گيا۔ پھر آپ نے مصلحت كے تحت اس منصب كو قبول تو كر ليا ليكن حكومت كے كسي مسئلہ ميں مداخلت نہ كي اور نہ ھي كسي لحاظ سے شريك اقتدار ھوئے اور آپ نے اس انداز سے كنارہ كشي كي كہ دشمن كي تمام كوششوں پر پاني پھر گيا۔ اور آپ نے عملي طور پر ثابت كر ديا كہ حق و باطل، دن اور رات ايك جگہ پر جمع نھيں ھو سكتے ۔

مشكوك مسائل
اب تك ھم نے كچھ مسائل پر بحث كي ھے دراصل يہ مشكوك نظر آتے ھيں۔ وہ اس طرح كہ اس قسم كي باتوں پر يقين نھيں آتا۔ پھر علماء و مورخين كا بھي آپس ميں اختلاف ھے كہ بھلا كيسے ھوسكتا ھے كہ مامون امام (ع) كو مدينہ سے مرو بلائے اور اپنے خاندان كو نظر انداز كر كے خلافت آل محمد (ع) كے سپرد كر دے؟ سوچنے كي بات ھے كہ يہ كام اس نے اپني مرضي سے كيا ھے يا فضل بن سھل كے مشورے سے ھوا ھے۔ بعض مورخين نے اس كو فضل كا تجويز كردہ منصوبہ قرار ديا ھے۔ ليكن يہ قول انتھائي كمزور ھے۔ جرجي زيدان نے بھي امام كي ولي عھدي كے مشورہ كو فضل كا پروگرام تسليم كيا ھے۔ ان كے بقول فضل بن سھل شيعہ تھا وہ اور دل جان سے آل محمد عليھم السلام كو خلافت سپرد كرنا چاھتا تھا۔ اگر يہ قول صحيح ھوتا تو امام رضا عليہ السلام فضل كے ساتھ ھر طرح كا تعاون كرتے تھے تو پھر آپ كو جان سے مار دينے كي دھمكي كيوں دي جارھي تھي۔
اگر آپ نے ولي عھدي قبول ھي كرلي تھي تو كھل كر حكومتى امور ميں مداخلت كرتے۔ پروٹوكول سے لطف اندوز ھوتے اور كوشش كركے مامون سے مسند خلافت لے ھي ليتے؟ البتہ يھاں پر بھي ايك اعتراض اٹھتا ھے۔ وہ يہ كہ اگر امام عليہ السلام اور فضل بن سھل ايك دوسرے كے تعاون سے مامون سے خلافت لے ليتے تو پھر بھي فضا خوشگوار نہ ھوسكتي تھى؟ خراسان ايك اسلامي مملكت تھي۔ عراق، حجاز، يمن، مصر، شام الگ الگ رياستيں تھيں، ان لوگوں كے خيالات اور حالات اھل ايران سے جدا تھے۔ بلكہ ان ملكوں كے لوگ ايرانيوں كے زبردست مخالف تھے۔ بالفرض اگر امام رضا عليہ السلام خراسان كے حاكم ھوتے اور بغداد ميں كوئي اور مد مقابل ھوتا اور امام كي ولي عھدي كي خبر بغداد تك پھنچتي اور بني عباس كو اس كا پتا چلتا تو وہ مامون كو معزول كر كے ابراھيم كو اميدوار كھڑا كركے اس كي بيعت كر ليتے۔ اس وقت بھت بڑا انقلاب برپا ھوسكتا تھا۔ يہ لوگ ضرور اس بات كا احتجاج كرتے كہ ھم نے ايك سو سال محنت كي ھے، اور بے تحاشہ تكليفيں ديكھيں ھيں۔ اب اس آساني سے علويوں كو خلافت كيوں دے ديں۔ بغداد ميں احتجاج برپا ھو جاتا اور گردو نواح كے لوگ بھي امام عليہ السلام كي مخالفت ميں متحد ھو سكتے تھے ۔۔يہ بات بھي حقيقت سے بھت دور ھے اس كو كسي صورت ميں قبول نھيں كيا جاسكتا كہ فضل بن سھل شيعہ ھونے كي بناء پر امام عليہ السلام كو مسند خلافت پر لانا چاھتا تھا۔ سب سے پھلے تو ولي عھدي كا مسئلہ اس كا تجويز كردہ نھيں تھا، دوسرا اس كا شيعہ ھونا وہ بھي ترديد سے خالي نھيں ھے۔ كيونكہ وہ نو مسلم تھا۔ وہ ايران كو زمانہ سابق والے ايران كي طرف لانا چاھتا تھا۔ وہ نجوبي جانتا تھا كہ چونكہ ايراني لوگ پكے مسلمان ھيں وہ اس قدر آساني سے كوئي بات قبول نہ كريں گے۔ وہ اسلام كے نام پر عباسي خليفہ سے خلافت لے كر امام رضا عليہ السلام كو دينا چاھتا تھا، پھر وہ امام رضا عليہ السلام كو گونا گوں مشكات ميں ڈالنا چاھتا تھا۔ اگر يہ بات درست ھے تو امام عليہ السلام كےليے محتاط رھنا ضروري اور آپ نے انتھائي محتاط انداز ميں قدم ركھا ۔
كيونكہ فضل كے ساتھ چلنا اور تعاون كرنا مامون كي نسبت زيادہ مشكل اور خطرناك تھا۔ اس كے مقابلے ميں مامون جو بھي تھا اور جسا بھي تھا فضل سے اچھا تھا۔، كيونكہ مامون ايك مسلم خليفہ تھا۔ ايك اور بات عرض كرنا چاھتا ھوں وہ يہ كہ تمام خلفاء ايك جيسے نہ تھے۔ يزيد اور مامون ميں زمين آسمان كا فرق ھے ۔ مامون ايك تو پڑھا لكھا دانشور اور علم دوست تھا۔ بھترين حاكم، بھترين سياسدان تھا۔ اس نے جو فلاحي ورفاھي كام كيے شايد كيسي اور عباس خليفے نے نہ كئے ھوں؟
آج كل جو علمي واسلامي ترقي مسلم قوموں ميں موجود ھے اس ميں ھارون و مامون كي كوششيں بھي شامل ھيں۔ يہ روشن فكر اور جديد سوچ ركھنے والے حكمران تھے، آج بھت سے اسلامي كارنامے ان دونوں سلاطين كے مرھون احسان ھيں۔ يہ تو تھا اس كي شخصيت كا مثبت پھلو، ليكن اس كا منفي پھلو يہ تھا كہ اقتدار كے ليے اپنے بيٹے كو بھي قتل كرنے كا قائل تھا۔ يہ جس امام عليہ السلام كو اچھا سمجھتا تھا اس نے اپنے ھاتھ سے انھيں زھر دے كر مرواديا۔ بات كھيں سے كھيں چلي گئي۔
اگر حقيقت حال ايسي ھو كہ جسا كہ ھم نے بيان كي ھے كہ ولي عھدي كا مسئلہ فضل كا تجويز كردہ ھو تو امام عليہ السلام اور تمام مسلمانوں كے حق ميں بھتر نہ تھا، كيونكہ فضل بن سھل كي نيت درست نہ تھي۔ ھماري شيعہ روايات كے مطابق امام رضا عليہ السلام فضل بن سھل سے سخت نفرت كرتے تھے۔ جب فضل اور مامون كے مابين اختلاف ھوجاتا تو امام عليہ السلام مامون كي حمايت كرتے تھے۔ روايات ميں ھے كہ فضل اور ھشام بن ابراھيم حضرت امام رضا عليہ السلام كي خدمت اقدس ميں حاضر ھوئے اور عرض كي كہ خلافت تو حق آپ كا ھے يہ سب غاصب ھيں۔ آپ اگر ساتھ ديں تو ھم مامون كا كام تمام كرديتے ھيں۔ اس كے بعد آپ رسمي طور پر خليفہ ھوجائيں گے۔ حضرت نے ان دونوں كي اس تجويز كو سختي سے مسترد كر ديا جس سے انھوں نے سمجھا كہ انھوں نے ايسي بات كركے بھت بڑي غلطي كي ھے۔ اس كے بعد يہ دونوں فوراً مامون كے پاس آئے اور كھا كہ ھم امام عليہ السلام كے پاس گئے۔ اور ان كا امتحان لينے كيلئے ھم نے ان سے كھا كہ آپ اگر ھمارا ساتھ ديں تو ھم مامون كو قتل كر سكتے ھيں، ليكن امام عليہ السلام نے انكار كرديا۔ اس كا مقصد يہ ھے كہ وہ آپ كے ساتھ مخلص ھيں۔ چند دنوں كے بعد جب مامون كي امام سے ملاقات ھوئي تو مامون نے فضل اور ھشام كي بات امام عليہ السلام كو بتلائى، تو امام عليہ السلام نے فرمايا يہ دونوں جھوٹ كھتے ھيں يہ واقعتاً آپ كے دشمن ھيں۔ اس كے بعد آپ عليہ السلام نے مامون سے فرمايا ان دونوں سے احتياط كيا كرو يہ كسي وقت بھي تمھيں نقصان پھنچا سكتے ھيں۔
روايات كے مطابق حضرت علي ابن موسيٰ رضا عليہ السلام مامون كي نسبت فضل بن سھل سے زيادہ خطرہ محسوس كرتے۔ ان حقائق كو ديكھ كر ھم كھہ سكتے ھيں كہ ولي عھدي كي تجويز فضل ھي كي تھي۔ يہ نيا نيا مسلمان ھوا تھا۔ اس نے سلام كا نام لے كر بھت بڑا فائدہ حاصل كيا ۔ اور ترقي كرتے كرتے وزارت عظميٰ كے عھد پر پھنچ گيا۔ امام عليہ السلام اس شخص كي اس اس تجويز كو قطعي طور پر اچھا نھيں سمجھتے تھے۔ كيونكہ آپ كو ان كي نيتوں پر شك تھا بلكہ آپ كو اس بات كا يقين تھا كہ فضل اسلام اور امام عليہ السلام كا نام استعمال كر كے ايران كو صديوں پيچھے كي طرف دھكيلنا چاھتا ھے۔
چناچہ ھم ديكھتے ھيں كہ اگر فضل كي تجويز كار آمد ھوتي تو امام عليہ السلام مامون كےخلاف فضل ھي كي حمايت كرتے۔ امام عليہ السلام شروع ھي سے فضل كو ايك مفاد پرست، سازشي انسان سمجھتے تھے۔ ايك اور فرض كہ اگر يہ تجويز مامون كي تھي تو سوچنے كي بات ھے كہ مامون نے ايسا كيوں كيا ھے۔ اس كي نيت اچھي تھي يا برى؟ اگر اس كي نيت اچھي تھي تو كيا اپنے اس فيصلے پر برقرار رھا يا فيصلہ بدل ليا؟ اگر يہ كھيں كہ وہ حسن نيت ركھاتا تھا اور آخر تك اسي پر قاقئم رھا تو يہ بات بالكل ھي قابل قبول نھيں ھے۔ يہ نكتہ كسي حد تك درست ھے كہ وہ شروع ميں تو مخلص تھا ليكن بعد ميں بدل گيا۔ شيخ مفيد اور شيخ صدوق كا نظريہ بھي يھي تھا۔ جناب شيخ صدوق اپني مشھور كتاب عيون اخبار الرضا ميں لكھتے ھيں كہ مامون شروع ميں امام كي ولي عھدي كے بارے ميں اچھي نيت ركھتا تھا كيونكہ اس نے واقعي طور پر منت ماني تھي۔
وہ اپنے بھائي امين كے ساتھ الجھ گيا تھا۔ اس نے منت ماني تھي كہ اگر خدا نے اس اس كے بھائي امين پر فتح اور غلبہ ديا تو وہ خلافت كو اس كے حقدار كے سپرد كر دے گا۔ امام رضا عليہ السلام نے بھي اس كي پيشكش كو اس ليے ٹھكرا ديا كہ اس نے جزبات ميں آكر يہ فيصلہ كيا۔ وقت گزرنے كے ساتھ ساتھ يہ شخص اپنے تمام ارادے تمام قسميں توڑ ڈالے گا۔ ليكن كچھ مورخين نے يہ لكھا ھے كہ وہ شروع ھي سے اچھي نيت نہ ركھتا تھا۔ يہ اس كي ايك سياسي چال تھي۔ اب ديكھنا يہ ھے كہ اس كي سياسي چال كيا تھى؟ كيا وہ امام عليہ السلام كے ذريعہ سے علويوں كي تحريك كو كچلنا چاھتا تھا؟ يا امام رضا عليہ السلام كو بدنام كرنا چاھتا تھا۔ اس كي ايك وجہ يہ بھي ھوسكتي ھے كہ امام عليہ السلام ايك گوشہ ميں خاموشي كے ساتھ زندگي بسر كر رھے تھے اور مامون پر سخت تنقيد كيا كرتے تھے۔
اس ليے اس نے منصوبہ بنايا كہ حضرت كو حكومت ميں شامل كر كے تنقيد كا سلسلہ بند كرے۔ جيسا كہ عام طور پر تمام سياستدان كرتے ھيں اور وہ اپنے مخالفوں كو اپنے ساتھ ملا كر ان كي عوامي مقبوليت كو ختم كر ديتے ھيں۔ دوسري طرف سياسي اھداف و نظريات بدلنے والوں كي جاني قرباني بھي ديني پڑتي ھے كيونكہ دشمن بالآخر دشمني ھي ھوتا ھے۔ ھمارے اس مدعا كي تائيد يہ روايات بھي كرتي ھيں كہ امام عليہ السلام نے ايك مرتبہ مامون سے كھا تھا كہ ميں بخوبي جانتا ھوں كہ تم مجھے حكومت ميں شامل كركے ميري روحاني ساكھ خراب كرنا چاھتے ھو۔ يہ سن كر مومون غصے ميں آگيا اور اس نے سخت ناراضگي كا اظھار كيا، اور بولا آپ كيسي باتيں كرتے ھيں اس قسم كي باتيں مجھ سے منسوب كيوں كرتے ھيں؟

چند اعتراضات
ايك مفروضہ يا سوال يہ بھي ھے كہ حضرت امام رضا عليہ السلام فضل (جو كہ شيعہ تھا) كے ساتھ تعاون كرتے تو بھتر تھا، پھر آپ نے خلافت كو دلي طور پر قبول كيوں نھيں كيا؟ ھميں يھيں سے اصل قضيہ يا مسئلہ كو سمجھنا چاھيے كہ ھم ايك نكتہ نظر سے نھيں بلكہ ايك غير جانبدار شخص كے طور پر سوچتے ھيں كہ حضرت امام رضا عليہ السلام ديندار شخص تھے يا دينا دار؟اگر ديندار تھے تو جس وقت آپ كو خلافت مل رھي تھي تو آپ فضل كے ساتھ تعاون كرتے اگر دنيا دار تھے تو بھي اس كے ساتھ ھر ممكن مدد كرتے ليكن آپ نے اس كے ساتھ تعاون نہ كر كے ثابت كر ديا كہ يہ مفروضہ بھي غلط ھے ۔
ليكن اگر يہ مفروضہ ھو كہ فضل اسلام كو نقصان پھنچانا چاھتا تھا، تو امام عليہ السلام كا اقدام بالكل صحيح تھا، كيونكہ حضرت نے دوسرے اشخاص ميں سے اس شخص كو چنا جو برائي كے لحاظ سے كم تھا، وہ تھا مامون كي ولي عھد كو قبول كرنا (وہ بھي شرط عائد كر كے قبول كيا) ۔
سب سے بڑا اعتراض يہ ھے كہ اگر ولي عھدي كي دعوت دينا مامون كي تجويز كردہ تھي تو امام عليہ السلام كو ھر حال ميں مامون كي دعوت قبول نھيں كرنے چاھيے تھي بلكہ اس كے خلاف بھر پور طريقے سے جھاد كرتے۔ اس معاھدے سے جان دے دينا بھتر تھا اور آپ كسي لحاظ سے بھي حكومت ميں شموليت اختيار نہ كرتے؟ يھاں پر اس وقت انصاف كرنے كي ضرورت ھے۔ اگر امام اپني جان قربان كر ديتے تو كيا شرعي لحاظ سے بھتر تھا؟ بسا اوقات جان بچانا واجب ھے۔ اور كبھي جان قربان نہ كرنا جرم ھے۔ مصلحت كا تقاضا يہ تھا كہ آپ لوگوں كي اصلاح اور ھدايت كے ليے زندہ رھتے۔
آپ نے اس مدت ميں ديني علوم كي ترويج و اشاعت كي طرف بھر پور كوشش كي۔ ظلم كے خلاف عملي طور پر آواز اٹھانا، امام عليہ السلام كي موجودگي ميں عباسي خلفاء بھي اسلام اور مسلمانوں كے خلاف جسارت كرنے كي جرآت نہ كرسكتے تھے۔ ليكن جب مسئلہ بھت سنگين صورت اختيار كر جائے جيسا كہ يزيد نے امام حسين عليہ السلام سے بيعت طلب كي تھي تو آپ نے بيعت كرنے سے جان دينے كو ترجيح دے دي۔ يہ واقعہ اس وقت ظھور پزير ھوا جب معاشرہ انساني كو اس قسم كي قرباني كي اشد ضرورت تھي۔ دوسرے لفظوں ميں دنيائے اسلام كو بيدار كرنے اور امر بالمعروف اور نھي عن المنكر كے تقاضيوں كو پورا كرنے كيلئے وھي كچھ كرنا ضروري تھا جو كہ حضرت امام حسين عليہ السلام نے كيا۔ ليكن امام رضا عليہ السلام كا زمانہ كچھ اور تھا۔ ھمارے سبھي آئمہ نے جام شھادت نوش كيا۔ اگر اپنے آپ كو موت كے منہ ميں ڈالتے تو بات اور تھي ليكن اكثر آئمہ كو زھر دے كر شھيد كر ديا گيا۔ شيعہ روايات كي رو سے اكثر آئمہ كي شھادت زھر كے ذريعہ ھوئي ھے ۔
يہ تو بے اختيار كي صورت ميں تھا۔ اب اگر ايك شخص كو اختيار ديا جائے كہ جان قربان كر دے يا وہ كام كرے جو كہ قاتل لينا چاھتا ھے؟ مثال كے طور پر اگر مجھے اختيار ديا جائے كہ غروب سے پھلے قتل ھو جاؤ يا فلاں كام انجام دے دو، تو ظاھر ھے زندگي كو ترجيح دوں گا۔ امام رضا عليہ السلام بھي دو كاموں ميں صاحب اختيار تھے يا قتل ھوجاتے يا ولي عھدي كا منصب قبول كر ليتے؟ آپ نے اگر قتل كو ترجيح دي ھوتي تو تاريخ آپ كو كسي صورت ميں معاف نہ كرتي۔ آپ نے دو صورتوں ميں سے جو بھتر تھي اس كو اختيار كيا۔ آپ نے وقتي طور پر ولي عھدي كي حامي تو بھر لي ليكن مامون اور اس كي حمايت كي كسي طرح بھي حمايت نہ كي اور نہ ھي سركاري امور ميں تعاون كيا ۔

آئمہ اطھار (ع) كي نظر ميں خلفاء كے ساتھ تعاون كرنا
يہ ايك حقيقت ھے كہ ھمارے آئمہ اطھار عليھم السلام باوجوديكہ عباسي خلفاء كے سخت مخالف تھے اور اكثر اوقات لوگوں كو ان كے ساتھ كام كرنے سے منع كرتے تھے ليكن جب اسلامي اھداف اور ديني مقاصد كے فائدے كي بات ھوتي تو آپ اپنے ماننے والوں كو حكومت وقت كے ساتھ تعاون كرنے پر تشويق كرتے تھے۔ صفوان جمال امام موسيٰ كاظم كا مانے والا ھے۔ سفر حج كے ليے ھارون كو اونٹ كرائے پر ديتا ھے، امام عليہ السلام كي خدمت ميں آتا ھے، حضرت اس سے كھتے ھيں ايك كام كے سوا آپ كے سب كام ٹھيك ھيں۔ صفوان عرض كرتا ھے وہ كونسا؟ آپ ارشاد فرماتے ھيں كہ ميں نے حج كے ليے اس كو اونٹ ديئے ھيں آپ نے فرمايا تمھيں ايسا نھيں كرنا چاھيے تھا كيونكہ تو نے اس سے كرايہ لينا ھے۔ عرض كي جي ھاں اب تمھاري خواھش ھے كہ يہ خيريت سے واپس لوٹے اور تو اس سے اپنا كرايہ وصول كرے، كسي ظالم كي خيريت اور زندہ رھنے كي خواھش كرنا ھي تو گناہ ھے۔ صفوان امام عليہ السلام كا پكا عقيدتمند تھا۔ اس كي ھارون كے ساتھ پراني دوستي تھي۔ اس نے دنياوي مقاصد كو ٹھكرا كر امام كا حكم مانا اور آخرت كو ترجيح دي۔ ھارون كو بتايا جاتا ھے كہ صفوان نے اپنے اونٹ بيچ ديئے ھيں۔ صفوان كو دربار ميں بلوا كر پوچھتا جاتا ھے يہ تو نے كيا كيا؟ صفوان كھتا ھے چونكہ ميں بوڑھا ھو چكا ھوں ميرے بچے يہ كام نھيں كرسكتے اس ليے اپنے اونٹوں كو بيچ ديا ھے۔ ھارون بڑا چالاك شخص تھا، كھنے لگا اس كي وجہ بتاؤ؟كہ تو نے يہ كام كيوں انجام ديا؟يہ سب كچھ امام موسيٰ كاظم عليہ السلام كي وجہ سے كيا ھے۔ صفوان بولا نھيں ايسي بات كوئي نھيں۔ ھارون نے كھا مجھے بے وقوف مت بنا۔ اگر تمھارے اور ميرے درميان دوستي كا پرانا رشتہ نہ ھوتا تو ابھي اور اسي وقت تيرا سر قلم كر ديتا۔
ھمارے آئمہ اس حد تك خلفاء كے ساتھ تعاون كرنے سے بھي منع كرتے تھے ليكن جب كبھي اسلامي تعليمات اور ديني مقاصد كي بات ھوتي تو آپ اپنے ماننے والوں كو حكم ديتے كہ جاؤ اور ظلم كے ساتھ رہ كر مظلوموں كي مدد كرو۔ صفوان كا معاملہ خالصتاً ھارون كے ساتھ مدد كرنا تھا ۔ ايك شخص سركاري عھدے پر رہ كر غريبوں، مسكينوں اور يتيموں كي مدد كرتا ھے تو كام شرعي لحاظ سے جائز ھے، بلكہ ايسے اشخاص اور افراد ك موجودگي پر معاشرہ كے ليے نعمت تصور كي جاتي ھے۔ ھمارے آئمہ (ع) كي سيرت، قرآن مجيد ھميں اس كي اجازت ديتا ھے ۔

حضرت امام رضا (ع) كا ايك استدلال
بعض لوگوں نے حضرت امام رضا (ع) كي پاليسي پر اعتراض كيا تو آپ نے فرمايا كہ آيا پيغمبروں كي شان بلند ھے يا ان كے اوصياء كى؟ كھا گيا پيغمبروں كي۔ فرمايا كيا مشرك بادشاہ برا ھے يا فاسق مسلمان بادشاہ؟ كھا مشرك بادشاہ۔ فرمايا كہ كوئي تعاون كرنيكي خواھش كرتا ھے وہ بھتر ھے يا زبردستي طور پر تعاون كرانا بھتر؟ كھا تقاضا كرنے والا۔ فرمايا حضرت يوسف پيغمبر تھے عزيز مصر كافر و مشرك تھا آپ نے خود ھي اس سے تقاضا كيا تھا كہ:
"اجعلني علي خزائن الارض اني حفيظ عليم" 32
"(يوسف نے عزيز مصر سے كھا) مجھے ملكي خزانے پر مقرر كيجئے۔ ميں اس كا امانتدار خزانچي اور اس كے حساب كتاب سے واقف ھوں۔"
حضرت يوسف عليہ السلام اس عھد سے حسن استفادہ كرنا چاھتے تھے۔ عزيز مصر كافر تھا اور مامون فاسق مسلمان تھا۔ يوسف پيغمبر تھے اور ميں وصي پيغمبر ھوں۔ انھوں نے تقاضا كيا اور مجھے مجبور كيا گيا۔
ادھر حضرت امام كاظم عليہ السلام ايك طرف صفوان جمال كو ھارون كو اونٹ كرائے پر دينے سے منع كر رھے ھيں، دوسري طرف علي بن يقطين (كہ جو مومن تھا اور تقيہ كئے ھوئے تھا۔) حضرت اس كي ھر طرح سے تشويق كرتے ھوئے اس سے فرماتے ھيں كہ اس عھدے پر كام كرتے رھو۔ ليكن خفيہ طور پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ كسي كو يہ پتہ نہ چلے كہ تم شيعہ ھو، وضو كرو تو ان جيسا، نماز بھي انھي كے طريقہ پر انجام دو، اپنے شيعہ ھونے كو حد سے زيادہ راز ميں ركھو۔ آپ كا اھم عھدے پر موجود رھنا ھي ضروري ھے، كيونكہ تمھاري وجہ سے ھمارے حقدار مومنوں كي مشكلات دور ھو رھي ھيں۔
عام طور پر ھماري حكومتوں ميں بھي ايسا ھوتا رھتا ھے كہ مختلف پارٹياں اپنے اپنے مقاصد ك يتكميل كيلئے اپنے نمائندگان ھر دور حكومت ميں معين كرتے ھيں۔ مذھبي جماعتيں بھي اپنے مذھبي نظريات كي تبليغ اور تحفظ كے ليے ھر جگہ اپنے مبلغ بھيجتي ھيں ۔ حق اور انصاف كي بات يہ ھے كہ ھمارے تمام آئمہ اطھار كي حكمت عملي ايك جيسي تھى، وہ ھر كام ديندارى، خدا خوفي اور پرھيز گاري كے جزبہ كے تحط انجام ديتے تھے۔ يہ تمام حضرت بنو اميہ، بنو عباس كي حكومتوں كے ساتھ مدد كرنے سے منع كرتے تو سخت منع كرتے تھے۔اس كي وجہ يہ تھي ظالم حكومت كو فائدہ دينا ھي در اصل ظلم كي مدد كرنا ھے ۔
ليكن جب اسلام اور مسلمانوں كے فائدہ كي بات ھوتي تو آپ اپنے ماننے والوں كي خوب حوصلہ افزائي كرتے جيسا كہ علي بن يقطين اور اسماعيل بن بزيع كي مخلصانہ خدمات كو سراھا گيا۔ ھماري شيعہ روايات ميں حيرت انگيز طور پر ان كي تعريف و توصيف كي گئي۔ ان كو اولياء اللہ (دوستان خدا) كي فھرست ميں شامل كيا گيا ھے۔ جناب شيخ انصاري نے اپني شھرا آفاق كتاب مكاسب ميں ولايت جائز كے بارے ميں ان روايات كو نقل كيا ھے۔

ولايت جائز ظالم كي حكومت
ھماري فقہ كي كتب "ولايت جائز بھت اھم مسئلہ ھے۔ فقہ ميں ھے كہ ظالم حكومت ميں كسي سركاري عھدہ كو قبول كرنا ذاتي طور پر حرام ھے۔ ليكن ھمارے فقھا نے فرمايا ھے كہ اگر چہ ذاتي حد تك حرام ھے، ليكن بعض امور ميں مستجب اور بعض ميں واجب ھے مجتھدين نے لكھا ھے كہ اگر امر بالمعروف اور نھي عن المنكر اور تبليغي فرائض كي ادائيگي حكومتى عھدہ قبول پر موقوف ھو تو عھدہ قبول كرنا واجب ھے۔ عقلي تقاضا بھي يھي ھے كہ اقتدار سے فائدہ اٹھاتے ھوئے اپنے ارفع واعليٰ اھداف كو حاصل كيا جائے۔ اور اس سے آدمي اپنے دشمنوں كو بھي كمزور كرسكتا ھے۔ سياسي پارٹياں اور مالي لحاظ سے مضبوط لوگ اپنے آدمي مختلف عھدوں اور سركاري شعبوں ميں ركھتے ھيں۔ اس ليے كہ ان سے استفادہ كيا جائے ھم ديكھتے ھيں كہ امام رضا عليہ السلام نے ولي عھدي كا منصب قبول كر كے حكومت كا ايك كام بھي نہ كيا بلكہ آپ نے اس سے علمي و ديني مقاصد پورےكيے۔ اگر آپ كو يہ عھد نہ ملتا تو آپ كي علمي لياقت، مذھبي صلاحيت دب كر رہ جاتي۔ جس طرح اس وقت كي حكومت حضرت علي عليہ السلام سے ديني مسائل حل كراتي تھى، اس طرح مامون كي حكومت امام رضا عليہ السلام سے مشورہ كر كے لوگوں كي شرعي ذمہ دارياں پوري كرتي۔ امام جعفر صادق عليہ السلام كو كام كرنے كا موقعہ ملا آپ نے علم و عمل كي ترقي و پيشتر ميں وہ كارنامے نماياں انجام دئے كہ جو رھتي دنيا تك ياد رھيں گے۔
حضرت صادق آل محمد عليھم السلام نے بنو عباس اور بنو اميہ كي باھمي چپلقش كي وجہ سے خوب فائدہ اٹھايا۔ آپ نے بھت كم عرصہ ميں چار ھزار طلبہ پيدا كركے ملت اسلاميہ پر بھت بڑا احسان كر ديا۔ اسي طرح مامون چونكہ ايك دانشور حكمران تھا اس نے مختلف مذاھب كے علماء كو اپنے دربار ميں بلوا كر امام رضا عليہ السلام سے مباحثے كرائے۔ اس عرصے ميں آپ نے علوم اسلامي كي ترويج و اشاعت ميں بھر پور طريقے سے حصہ ميں اس عھدہ پر فائز نہ ھوتے تو كما حقہ خدمت نہ كر سكتے۔ امام عليہ السلام نے ولي عھدي كے منصب سے ذاتي فوائد حاصل نہ كئے۔ البتہ علمي و ديني خدمت كے حوالے سے آپ نے اپني علمي صلاحيتوں كا لوھا منواتے ھوئے تعليم و تربيت كا سلسلہ جاري ركھا ھے۔ اور يوں طالبان علم كي جستجوئے علم پوري ھوتي رھي۔

سوال و جواب
سوال: جب معاويہ نے يزيد كو اپنا ولي عھد منتخب كيا تو اس كي سب نے مخالفت كي۔ اس مخالفت كي وجہ يزيد كا فسق و فجور نہ تھا بلكہ لوگ بنيادي طور پر اس كي ولي عھدي كے مخالفت تھے۔ تو پھر كيا مومون خلافت ميں كسي كا ولي عھد بننا كيسے جائز ھوگيا؟
جواب: سب سے پھلے تو يہ كھنا ھر گز غلط ھے كہ يزيد كي صرف ولي عھدي كي مخالفت ھوئي ھے بلكہ مخالفت تو اس بات كي ھوئي كہ دنيا اسلام ميں پھلي بار بدعت وجود ميں آئي۔ امام حسين عليہ السلام نے بدعت بكے خلاف آواز بلند كي۔ اس وقت يزيد اسلامي تعليمات كو تقريباً كالعدم قرار دے چكا تھا۔ يزيد كا رويہ اور انداز فكر كافروں، مشركوں اور منافقوں سے بھي بدتر تھا۔ اس بد كردار شخص كے بد كرداروں سے انسانيت بھي شرماتي تھي۔ امام رضا عليہ السلام نے خود ولي عھدي كے تصور كي مخالفت كرتے ھوئے فرمايا تھا يہ ولي عھدي كيا چيز ھے بلكہ يہ خلافت تو ھمارا حق ھے۔ آپ نے مامون سے بھي كھا تھا مامون ذرا يہ تو بتا كہ خلافت تيرا حق ھے يا كسي اور كا ھے؟ اگر يہ غير كا مال ھے تو تو دينے كا حق نھيں ركھتا۔
سوال: آپ فرض كريں كہ اگر فضل بن سھل واقعي طور پر شيعہ تھا كہ اس نے حضرت كو ولي عھد بنانے ميں بھر پور كردار ادا كيا ھے۔ اس كے بعد اس نے مامون كي حكومت كي جڑوں كو كھوكھلا كيا۔ اب يھاں پر ايك سوال اٹھتا ھے كہ حضرت نے ايك مدت تك مامون كے حكومتى امور كا جائز قرار ديتے ھوئے اس كے ساتھ تعاون كيا حالانكہ حضرت علي عليہ السلام كي سيرت گواہ ھے كہ آپ ظالم كے كسي كام پر راضي ھونے كو بھت بڑا گناہ سمجھتے تھے۔
جواب: لگتا ھے يہ جنو سوال اٹھايا گيا ھے سوچ سمجھ كر نھيں اٹھايا گيا ھے آپ نے كھا ھے كہ فضل بن سھل شيعہ تھا، اور حضرت مامون كي حكومتى سطح پر مدد كرتے رھے اور يہ كام جائز نھيں ھے، كيونكہ حضرت امري عليہ السلام نے معاويہ كي حكومت كو تسليم نہ كيا تھا۔ بات يہ ھے كہ مامون كي نسبت امام رضا عليہ السلام اور ماومن كي نسبت حضرت علي عليہ السلام كے ما بين بھت فرق ھے۔ حضرت امير عليہ السلام كا مسئلہ يہ تھا كہ حضرت علي عليہ السلام كي نيابت ميں كام كر ے۔
بھلا علي عليہ السلام جيسا عظيم امام معاويہ جيسے شخص كو كس طرح اپنا خليفہ مقرر كر سكتا ھے؟ امام رضا عليہ السلام نے تو ايكي روز بھي مامون كے ساتھ كسي قسم كي مدد نہ كي۔ يھاں پر ايك مثال پيش كرنا چاھتا ھوں وہ يہ نھے ميں نلكے كي ٹوٹي كھول ديتا ھوں اور پاني آپ كے صحن ميں جمع ھو جاتا ھے اور آپ كا نقصان ھو جاتا ھے۔ اس نقصان كا ضامن ميں ھوں نہ كہ نلكا،، نہ ميں ٹوٹي كھولتا اور نہ آپ كا نقصان ھوتا؟ پھر كسي اور وقت ميں گلي سے گزرتا ھوں ديكھتا ھوں كہ وھاں پر نلكا كھلا ھوا ھے اور آپ كي ديوار تك پھنچا ھوا ھے۔ يھاں پر ميري اخلاقي ذمہ داري يہ ھے كہ نلكا كو بند كركے آپ كي خدمت كروں، اور آپ كو نقصان سے بچالوں۔ يھاں پر پاني كا بند كرنا مجھ پر واجب نھيں ھے۔ ميں نے عرض كي ھے كہ ان دو باتوں ميں آپس ميں بھت بڑا فرق ھے۔ ايك كسي كے ھاتھ ميں اپنا ھاتھ دے ديتا ھے كہ جو چاھو كرتے رھو، اور ايك شخص دوسرے شخص كے كسي كام ميں حصہ نھيں ليتا ھے بلكہ اس كو برے كاموں سے بھي روكنا ھے۔ اس صورت ميں دوسرا شخص اگر گناہ كرتا ھے تو اس كي ذمہ داري گناہ كے مرتكب پر ھوگي۔ معاويہ چاھتا تھا كہ حضرت علي عليہ السلام اس كي حكومت كو تسليم كريں۔
ليكن مامون كي خواھش يہ تھي كہ امام رضا عليہ السلام اس كي حكومت كے مقابلے ميں خاموش رھيں۔ باقي رھي يہ بات كہ امام عل يہ السلام مامون كي حكومت ميں چپ كيون رھے، خاموشي اختيار كيوں كى؟ عرض ھے آپ كسي بڑي مصلحت كے تحت خاموش تھے اور اسلام و مسلمانوں كي خدمت كے حوالے سے ماحول سازگار ھو رھا تھا۔ كسي عظيم مصلحت كي خاطر انتظار كر لينے ميں ھرج ھي كيا ھے ليكن معاو ي۹ہ كا مسئلہ ايك تو اور نوعيت كا تھا دوسرا امام علي عليہ السلام فرماتے ھيں كہ ميں نھيں چاھتا كہ ظالم كي كحكومت ايك دن بھي رھے۔ اما علي عليہ السلام معاويہ كي حكومت پر خاموش رھتے تو معاويہ روز بروز طاقتور ھوتا ليكن يھاں پر صبر كيا جا رھا ھے مامون روز بروز كمزور ھوا، امام رضا عليہ السلام مضبوط ھوئے چنانچہ ان دو مسئلوں كا ايك دوسرے بپر قياس نھيں كيا جا سكتا۔
سوال: ميرا آہ سےت سوال يہ ھے كہ آپ نے كھا ھے كہ امام رضا عليہ السلام كو زھر نھيں ديا گيا تھا ليكن حقيقت يہ ھے كہ جوں جوں وقت گزرتا جا رھا تھا لوگوں كو معلوم ھو رھا تھا، خلافت كے حقدار كے حقدار حضرت امام رضا عليہ السلام ھيں، اس لئے مامون نے مجبور ھوكر حضرت كو زھر دے ديا۔ اس كي دليل يہ ھے كہ حضرت امام رضا عليہ السالام نے ۵۲ سال كي عمر ميں دنيا سے كوچ فرمايا۔ آپ كي زندگي بالكل پاك و پاكيزہ تھي آپ كي صحت كو كسي قسم كا خطرہ نہ تھا۔ حديث ميں ھے كہ:
"ما منا الا مقتول و مسموم"
"كہ ھم آئمہ ميں سے ھر فرد يا تو قتل ھوا ھے يا زھر سے شھيد كيا گيا ھے۔"
يہ بات شيعہ مورخين كے نزديك مسلم حقيقت كا درجہ ركھتي ھے اب اگر مروج الزھب كے مصنف مسعودي نے غلطي كي ھے تو اس ميں حقائق كو تو مسخ نھيں كيا جا سكتا۔ ذرا اس مسئلہ كے بارے ميں كچھ وضاحت فرمائيے؟
جواب: ميں نے كبھي نھيں كھا اور نہ ھي ميرا عقيدہ ھے كہ امام رضا عليہ السلام كو زھر سے شھيد نھيں كيا گيا، بلكہ آپ نے ميرے سوال كو ميرا نظريہ سمجھ ليا۔ حقيقت يہ ھے كہ امام عليہ السلام كو اس ليے زھر سے شھيد كيا گيا كہ آپ كي مقبوليت عوام ميں بڑھتي جارھي تھي اور مامون كو اپنا اقتدار خطرے ميں نظر آيا تو اس نے يہ بيمانہ حركت كردي۔ امام عليہ السلام كي شھادت كي دوسري وجہ يہ تھي كہ بغداد ميں انقلابي تحريك كا خطرہ تھا لوگوں كي نظريں امام عليہ السلام كي وجہ خراسان پرچمي ھوئي تھيں۔ اس ليے اس نے امام عليہ السلام كو زھر دے كر شھيد كر ديا۔ اس وقت مامون كي عمر ۲۸ سال اور امام عليہ السلام كي ۵۵ سال تھي۔ شروع شروع ميں حضرت نے مامون سے فرمايا تھا كہ تم ابھي جوان ھو اور ھم عمر ميں تم سے بڑے ھيں۔ اس ليے ھم تم سے اس دنيا سے پھلے كوچ كريں گے مامون نے بدلتے ھوئے ماحول كو ديكھ كر اپني عافيت اس ميں سمجھي كہ حضرت امام رضا عليہ السلام كو فضل كے درميان سے ھٹا ديا جائے۔
چنانچہ فضل جب حمام ميں گيا تو چند مسلح افراد نے اندر گھس كر اس كا كام تمام كر كے اس كے جسم كے ٹكڑے ٹكڑے كر ديئے، بعد ميں مشھور كيا گيا كہ فضل كو خانداني رقابت اور ذاتي جھگڑوں كي وجہ سے قتل كر ديا گيا ھے۔ اس كا بھي رائيگان چلا گيا، حالانكہ فضل كے قتل كي سازش مامون ھي كي تيار كردہ تھي۔ فضل كے قتل كے بعد يہ پوري طرح سے ملك اور سياست پر حاوي ھوگيا۔ جاسوسوں كے ذريعے اس كو بغداد كي سياسي صورت حال معلوم ھوتي رھي۔ جب اس نے محسوس كيا كہ حضرت امام رضا عليہ السلام اور علوي سادات كي موجودگي ميں وہ بغداد ميں نھيں جاسكتا تو اس نے امام رضا عليہ السلام كے قتل كا منصوبہ بنايا اور زھر دے كر آپ كو شھيد كر ديا۔ اس ليے ھم كھہ سكتے ھيں اور ھمارے اس مؤقف كي تائيد ميں تاريخ كي سينكڑوں كتابيں بھري پڑي ھيں كہ امام عليہ السلام طبعي موت نھيں مرے بلكہ زھر كے ذريعے شھادت واقع ھوئى، ليكن اھل سنت كے كچھ مورخين نے لكھا ھے كہ حضرت طوس ميں بيمار ھوئے اور وھيں پہ فوت ھوئے۔ جن مورخين نے امام عليہ السلام كي طبعي موت كے بارے ميں لكھا ھے دراصل وہ خبر اسي كي پيداوار ھے تاكہ سفاك قاتل مامون كے بيھمانہ جرم پر پردہ ڈالا جاسكے ۔

--------------------------------------------------------------------------------

31.بحار الانوار، ج ۴۹، ص 146
32.سورہ يوسف، ۵۵.