خوشبوئے حیات
 

عبادت
امام منتظر کی عبادت خود ان کے اُن آباء و اجداد ائمہ ٔ طا ہرین کی عبادت کے مانند تھی ، جنھوں نے اپنی زندگی اللہ کے لئے ہبہ کر دی تھی ،انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا ، صائم النہار او ر قائم اللیل کی حالت میں خدا سے لو لگاتے تھے ،ہمیشہ نماز ،دعا اور قرآن کی قرائت کیا کرتے تھے ،اسی منور و روشن راستہ پر امام منتظر گامزن رہیں گے ،راویوں نے آپ کی وہ دعا ئیں بھی نقل کی ہیں جو آپ نماز کے قنوت میں پڑھا کرتے تھے ،یہ دعا ئیں خدا سے لو لگانے اور اس سے توبہ کرنے کی طرف رغبت دلاتی ہیں، ہم نے اُن میں سے بعض دعا ئیں اپنی کتاب ''حیاةالامام مہدی ''میں ذکر کی ہیں ۔

غیبت ِ صغریٰ
امام منتظر پر یہ خدا وند عالم کا خاص لطف و کرم ہے کہ اُس نے آپ کو اُن ظالم بنی عباس سے محجوب کردیا جنھوں نے آپ کا خاتمہ کرنے کی کو ششیں کی تھیں ،آپ اُن کے درمیان سے رُوپوش ہوگئے اور اُن کو خبر تک نہ ہو سکی ،جس طرح جب قریش آپ کے جد امجد کو قتل کرنا چا ہتے تھے تو آنحضرت ۖ اُ ن کے درمیان سے چلے گئے اور اُن کو خبر تک نہ ہو ئی ،اب ہم اپنی بحث میں امام زمانہ کی غیبت صغریٰ کے بارے میں مختصر طور پر کچھ بیان کرتے ہیں :

غیبت کا زمانہ
غیبت صغریٰ کا آغاز ٢٦٠ ھ امام حسن عسکری کی(١) شہادت کے بعد ہوا آپ اسی وقت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوگئے مگر یہ کہ آپ نے کچھ مو منین اور صالحین سے ملاقات کا کچھ سلسلہ جا ری رکھا ۔
..............
١۔مرآة الجنان، جلد ٢،صفحہ ٤٦٢۔تاریخ خمیس ،جلد ٢،صفحہ ٣٤٧۔تاریخ ابن وردی ،جلد ١،صفحہ ٣٦٩۔

جہاں آپ رو پوش ہوئے
امام سامرا میں واقع ایک گھر میں پوشیدہ ہوئے جس میں آپ کے جد اور والد بزرگوار کا مرقد مطہر ہے ۔
بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ شیعوں سے بغض و کینہ رکھنے والے افراد نے یہ کہہ دیا کہ آپ سامراء یا کسی اور جگہ سرداب میں غائب ہوئے ،وہ ہر رات سامرا میں واقع سرداب کے دروازے پر کھڑے ہوکر امام کا نام لیکر آواز دیتے اور ان کو باہر آنے کی دعوت دیتے یہاں تک کہ ستارے چھُپ جاتے ،اس کے بعد وہ وہاں سے چلے جاتے ،اور اپنا امر آنے والی رات پر مو قوف کر دیتے اور وہ ہمیشہ اسی عہد پر باقی رہتے ۔(١)
یہ ایسی خارق العادہ باتیں ہیں جن کی کو ئی سند نہیں ہے ۔۔یہ باتیں اہل بیت او ر اُن کے شیعوں سے حقد و کینہ رکھنے پر دلالت کر تی ہیں لیکن سامرا میں جو سرداب مو جود ہے اس میں تین اماموں نے نماز ادا کی ہے جو اس مخلوق پر اللہ کی حجت ہیں اور علمائے شیعہ اور ان کے مورّخوں میں سے کسی ایک نے بھی یہ بیان نہیں کیا ہے کہ آپ اسی سرداب یا کسی دوسرے سرداب میں رو پوش ہوئے جس کو دین سے کچھ سروکار نہ رکھنے والے بعض لوگوں نے بیان کیا ہے اور ہم نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب ''حیاةالامام محمد المہدی '' میں بیان کیا ہے ۔

آپ کے عظیم و بزرگ سفیر
امام منتظر نے نیک علماء اور صالحین کو اپنا سفیر منتخب فرمایا جو آپ اور آپ کے شیعوں کے درمیان واسطہ ہوتے تھے ،اور اُن کا کام مسا ئل شرعیہ کو امام کی خدمت میں لیجانا اور ان کا جواب لانا ہوتا تھا ۔
آپ کے بزرگ وکیل یہ ہیں :

١۔عثمان بن سعید
یہ امام کے پہلے وکیل تھے جو ثقہ ،زکی اور امین تھے ،آپ نے اس سرکش متوکل کے زمانہ میں ائمہ کی خدمت کی جب جب اس نے امام علی نقی علیہ السلام پر اقتصا دی پا بندی لگا دی تھی ،امام تک حقوق شرعیہ پہنچانے کو منع کر دیا تھا اس وقت عثمان بن سعید حقوق شرعیہ کو گھی کے برتنوں میں رکھ کر امام علی نقی کی خدمت اقدس
..............
١۔مقدمہ ابن خلدون، صفحہ ٣٥٩۔
میں پہنچایا کرتے تھے ،امام علی نقی علیہ السلام کے بعد آپ کے فرزند ارجمند امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت اقدس میں رہے ،اور اُ ن سے اقتصادی پابندی کو دور کردیا اور عثمان بن سعید اور آپ کے شیعوں کے درمیان رابطہ کا کام انجام دیتے تھے ،آپ امام کی مطلق نیابت اور عام وکالت کے عام عہدہ پر فا ئز تھے آپ امام کے پاس اُن کے حقوق اور رسائل پہنچاتے تھے ۔

آپ کی وفات
آپ نے حضیرئہ قدس میں اتنقال کیا اور بغداد میں رصافہ کی طرف اپنی آخری آرامگاہ میں دفن ہوئے اور مو منین آپ کی قبر کی زیارت کے لئے آتے ہیں ۔

امام کی طرف سے ان کی تعزیت پیش کرنا
امام منتظرنے اس عظیم شخصیت کے فقدان پر محمد بن عثمان کے پاس اس عالم جلیل کے تعزیت نامہ میں یہ کلمات بھیجے :''انّا للّٰہ و اِنَّا الیہ راجعون !ہم امر الٰہی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اور اس کے فیصلہ پر راضی ہیں ۔تمہارے باپ نے نہایت ہی سعیدانہ زندگی گذاری ہے ،اور ایک قابل تعریف موت پا ئی ہے ،خدا اُن پر رحمت نازل کرے اور انھیں ان کے اولیاء اور آقائوں سے ملحق کردے، انھوں نے امور ائمہ میں برابر قرب الٰہی کے لئے کو شش کی ،خدا اُن کے چہرے کو خو ش کرے ،اور ان کی لغزشوں کو معاف فرمائے اور تمہارے ثواب میں اضافہ کرے اور تمھیں صبر جمیل عطا فرمائے یہ مصیبت تمہارے لئے مصیبت ہے اور میرے لئے بھی مصیبت ہے ،اس فراق سے تم مضطرب ہو گئے ہو اور میں بھی مضطرب ہو گیا ہوں،خدا انھیں آخرت میں خوش رکھے، ان کی سعادت و نیک بختی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ اللہ نے انھیں تمہارا جیسا فرزند عطا کیا ہے جو اُن کا جا نشین اور قائم مقام ہے اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرتا ہے ،میں اس امر پر خدا کی حمد کرتا ہوں ،پاکیزہ نفوس تم سے اور خدا نے تمھیں جو شرف دیا ہے اس سے خو ش ہیں،خدا تمہاری نصرت و مدد کرے ، تمھیں طاقت و قوت عطا کرے اور توفیقات کرامت فرمائے ۔وہی تمہارا سر پرست ،محافظ اور نگراں رہے گا '' ۔(١)
..............
١۔بحارالانوار، جلد ١٣،صفحہ ٩٦۔
امام کے یہ کلمات اپنے نائب کے حزن و الم پر دلالت کر تے ہیں جو آپ کے نائب کے ایمان کی علامت ہے اور امام نے اُن کے فرزندکو اپنا نائب معین فرمایا جو تمام صفات کمال کے حامل تھے ۔

٢۔عثمان بن سعید
محمد بن عثمان کو امام منتظر کی نیابت کا شرف حاصل ہوا جو ثقات شیعہ اور جیّدعلماء میں سے تھے وہ ثقہ ٔجمیع میں اپنے پدر بزرگوار کے قائم مقام تھے ،شیعوں کے تمام خطوط اور حقوق اُن تک پہنچتے ، اور وہ اُن کو امام منتظر تک پہنچاتے تھے ،توقیع کی صورت میں امام کا جواب اُن تک پہنچاتے تھے ، امام نے اُن کے بارے میں محمد بن ابراہیم اہوازی کو یوں تحریر فرمایا :
''لم یزل (اے محمد )ثقَتنا فی حیاة الاب رضی اللّٰہ عنہ وأَرضاہ،ونَضَّر َوَجْہَہُ یَجْرِیْ عِنْدَنَامَجْرَاہُ ،وَیَسُدَّ مَسَدَّہ،وَعَنْ اَمْرِنَایَأْمُرُالْاِبْنُ وَبِہِ یَعْمَلُ،تَوَلَّاہُ اللّٰہُ فَانْتَہِ الیٰ قَوْلِہِ''۔(١)
''یہ فرزند اپنے باپ کے زمانہ سے ہی ہمارا معتمد تھاخدا اس سے خوش رہے اور اسے خوش رکھے اور اس کے چہرے کو روشن رکھے یہ اب ہمارے لئے اپنے باپ کا نائب اور جا نشین ہے ۔یہ ہمارے ہی حکم سے حکم دیتا ہے اور ہمارے ہی احکام پر عمل کرتا ہے ،خدا اسے جملہ آفات سے محفوظ رکھے ۔''!
آپ نے حضیرۂ قدس میں آخری جما دی الاول ٣٠٥ ھ میں انتقال کیا ۔(٢)

٣۔حسین بن روح
یہ امام منتظر کے تیسرے نائب ہیں آپ تقویٰ ،صلاح وفور علم اور عقل میں بہت بڑی شخصیت تھے اور محمد بن عثمان کے انتقال کے بعد آپ کو نیابت کا شرف حاصل ہوا جس کی طرف آپ نے رہنما ئی کی کہ جب شیعہ یہ سوال کریں کہ آپ کا قائم مقام کون ہے ؟تو یہ ابوالقاسم حسین بن روح بن ابی بحر نو بختی میرے قائم مقام ہیں ۔تمہارے اور صاحب امر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے مابین سفیر ہیں ،آپ کے وکیل ،ثقہ اور امین ہیں ،تم اپنے امور میں ان کی طرف رجوع کرنا ،اپنے تمام اہم کاموں میں اُن پر اعتماد کرنا اور اس کا
..............
١۔حیاةالامام محمد المہدی ،صفحہ ١٢٤۔
٢۔حیاةالامام محمدالمہدی ،صفحہ ١٢٦۔
میں نے حکم دیا اور اپنا پیغام پہنچادیا ۔۔۔(١)
آپ اور حق کے دشمنوں کے درمیان متعدد مناظرے ہوئے جن میں حسین بن روح نے اپنے دشمن پر غلبہ حا صل کیا ،اس سے محمد بن ابراہیم بن اسحاق کو بہت زیادہ تعجب ہوا تو اُس نے حسین بن روح سے کہا :آپ نے یہ سب مطالب اپنے پاس سے بیان کئے ہیں یا ائمہ ٔ ہدیٰ سے اخذ کئے ہیں ؟ حسین بن روح
نے جواب دیا :اے محمد بن ابراہیم !اگر میں آسمان سے زمین پر گر پڑوں یا مجھے پرندہ اُچک لے یا ہوا کسی دور افتادہ جگہ لے جائے ،یہ مجھے اس بات کے مقابل میں زیادہ پسند ہے کہ دین خدا کے سلسلہ میں اپنی طرف سے کو ئی فیصلہ کروں بلکہ اصل یہی ہے اور امام زمانہ سے یہی سنا گیا ہے ۔۔۔۔(٢)
آپ امام کے ٢١ یا ٢٢ سال تک نائب یا سفیر رہے ،آپ شیعوں کے مرجع ،امام اور شیعوں کے درمیان واسطہ تھے ،آپ کچھ دن مریض رہے یہاں تک کہ آپ ٣٢٦ ھ (٣) ،میں موت کی نیند سوگئے آپ کی تجہیز و تکفین ہو ئی اور ننگے پیروں تشییع جنازہ ہو ئی ،آپ بغداد میں تجارت کے مرکز شورجہ بازار میں اپنی ابدی آرام گاہ میں دفن ہوئے ۔

٤۔علی بن محمد سَمَری
امام کی نص و روایت کے ذریعہ آپ امام کے عام نائب قرار پائے ،آپ امام کے آخری نائب ہیں ، آپ نے صدق اور اخلاص کے ذریعہ نیابت کے فرائض انجام دئے ،راویوں کا کہنا ہے : انھوں نے اپنی وفات سے پہلے امام کا ایک خط شیعوں کے سامنے پیش کیا جس میں بسم اللہ کے بعد یوں تحریر تھا:''اے علی بن محمد !اللہ تمہارے بارے میںبھا ئیوں اور دوستوں کو صبر جمیل عطا فرمائے ،تمھیں معلوم ہونا چا ہئے کہ تم کو چھ دن کے بعد موت آجا ئے گی ،تم اپنے تمام امور انجام دے لو ،اور آئندہ کیلئے اپنا کو ئی قائم مقام اور جانشین تلاش و تجویز نہ کرو ،کیونکہ غیبت کبریٰ واقع ہو گئی ہے اور جب تک خدا حکم نہیں دے گا ظہور نہیں ہوگا،یہ ظہور بہت طویل مدت کے بعد ہوگاجب قلوب سخت ہوجا ئیں گے ،زمین ظلم و جور سے بھر جا ئے گی ، عنقریب لوگوں میں جو مجھ سے ملاقات
..............
١۔منتخب الاثر، صفحہ ٣٩٧۔
٢۔منتخب الاثر ،صفحہ ٣٩٧۔غیبة شیخ طوسی، صفحہ ٣٨٦۔
٣۔منتخب الاثر ،صفحہ ٣٩٢۔
کا ادعا کرے وہ جھوٹا ہوگاولاحول ولاقوة الاباللّٰہ العلی العظیم ۔۔۔''۔(١)
اس خط میں غیبت ِ کبریٰ میں امام سے ملاقات کا دعویٰ کرنے والے کی نفی کی گئی ہے اور اس کو جھوٹا اور تہمت لگانے والا کہا گیا ہے، یہ بات بالکل یقینی ہے کہ یہ امام کی خدمت میں مشرف ہوئے اور اس حدیث کو نیک مو منین کے کانوں تک پہنچایا اس حدیث کی متعدد تا ویلیں کی گئی ہیں، شاید ان میں سب سے بہترین توجیہ یہ ہو کہ اِن نواب اربعہ کے بعد امام کی نیابت کا دعویٰ کرنے والا جھوٹا ہے، شاید یہ توجیہ واقع اور حقیقت سے زیادہ نزدیک ہو۔
علی بن محمد سَمَری کچھ دنوں تک مریض رہے تو بعض شیعوں نے اُن کے پاس جاکر سوال کیا :آپ کے بعد آپ کا وصی کون ہے ؟
انھوں نے جواب دیا :اللہ اپنے امر کو پہنچانے والا ہے ۔
آپ ١٥ شعبان ٣٢٩ ھ میں انتقال کرگئے ۔ (٢)

فقہا ء کی ولایت
امام منتظر نے شیعوں میں سے فقہاء عظام کو اپنا ولی اور نائب قرار دیا ،شیعوں کو اُن سے رجوع کرنے اور اُن سے فیصلہ چاہنے کا حکم دیا اور شیخ مفید کی طرف آنے والے خط میں یوں آیا ہے : ''و اماالحوادث الواقعة فارجعواالیٰ روات حدیثنافانّھم حجتی علیکم،واناحجة اللّٰہ علیکم ''
''پیش آنے والے واقعات میں تم ہماری احا دیث بیان کرنے والوں کی طرف رجوع کرنا،چونکہ یہ تم پر بہترین حجت ہیں اور میں تم پر اللہ کی حجت ہوں''۔ (٣)
ہم اس سلسلہ میں اپنی کتاب ''حیاةالامام محمد المہدی ''میں ذکر کرچکے ہیں ۔

غیبت کبریٰ
امام منتظر کی نیابت فقہائے عظام نے سنبھالی ،یہی علماء احکام کے سلسلہ میں جو فتویٰ دیتے ہیں، شیعہ
اُن ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔یہ بات بھی شایانِ ذکر ہے کہ علماء اور متقین کے چند گروہ ،امام کی نظروں کے سامنے تھے ،اُن ہی میں سے عالم کبیر اور ثقہ و امین شیخ مفید تھے آپ کے پاس متعدد مراسلے (خطوط)تھے ،آپ کے پاس تین خطوط لکھے جن میں سے بعض کا ہم نے اپنی کتاب ''حیاةالامام محمدالمہدی ' ' میں تذکرہ کیا ہے ۔
..............
١۔معجم رجال حدیث، جلد ١٣، صفحہ ١٨٦ ۔ ٢۔غیبة شیخ طوسی، صفحہ ٢٤٢۔
٣۔وسائل الشیعہ کتاب القضا ،جلد ١٨،صفحہ ١٠١۔