خوشبوئے حیات
 

حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام
حضرت امام ابو محمد حسن عسکری ،ائمہ اہل بیت کی گیارہویں کڑی ہیں جنھوں نے رسالتِ اسلام اور اس کے اغراض و مقاصد اور ارزش و اہمیت کی بنیاد ڈالی ہے۔
یہ امام عظیم، اللہ کے بندوں پر اس کی رحمت و بخشش ہیں ،اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشا نی ہیں آپ ہی نے منحرف عباسی حکومت کا مقابلہ کیا ،مسلمانوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کر نے کے لئے جد و جہد کی ،ہم اختصار کے طور پر آپ کی شان کے متعلق چند باتیں ذیل میںبیان کر رہے ہیں:

آپ کا نسب
امام کا نسب شریف خاندان نبوت ہے جس کے ذریعہ اللہ نے مسلمانوں کو عزت دی ، جنھوں نے حق اور عدل کی بنیاد رکھی ،اور حق و عدل کو زمین کے تمام شعبوں میں رائج کیا ،ہمارے خیال میں کو ئی بھی ایسا خاندان نہیں ہے جس نے خاندان نبوت کی طرح حق کی خدمت اور لوگوں کے درمیان فضیلت نشر کرنے پر عمل کیا ہو ۔
بیشک امام حسن عسکری کا شجرئہ نسب رسول اللہ ۖ اور ان کے شہر علم کے دروازے حضرت امیر المو منین سے ہے ۔شاعر کہتا ہے :
نسب کأنَّ علیہ من شمس الضحیٰ
نوراً ومن فلق الصَّباح عَمُوداً

''آپ کا نسب اس طرح ہے گویا آپ پر وقت چاشت کی دھوپ پڑ رہی ہے اور سفیدیٔ صبح کا ستون قائم ہے ''۔
اور وتری کا کہنا ہے :
ما ذا یقول الما دحون َ بوصْفِھِمْ
وَھُمُ السُّرَاطُ خَلَائِفُ الْمُخْتَارِ؟

ضُرِبَتْ قُبَابُ فَخَارِھِمْ وَسُمُوِّھِمْ
بَیْنَ البُتُوْلِ الطُّھْرِ وَالْمُخْتَارِ

''مدح و ثنا کرنے والے اہل بیت کی شان میں کیا کہنا چا ہتے ہیںاہل بیت تو رسول ۖ کے جانشین ہیں اور ان کی رگوں میں فا طمہ اطہر اور علی مرتضیٰ کا خون دوڑ رہا ہے '' ۔
بیشک آپ امام علی نقی بن امام محمد تقی بن علی بن مو سیٰ الرضابن امام مو سیٰ الکاظم بن جعفر صادق بن امام محمد باقر بن امام علی بن الحسین بن امام حسین بن علی بن ابی طالب سلام اللہ علیہم کے فرزند ہیں ،وہ ائمہ ٔ ہدیٰ ،مصابیح الدجیٰ اور اعلام التقیٰ ہیںجن سے اللہ نے ہر رجس کو دور رکھا اور اس طرح پا ک و پاکیزہ رکھا جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے اور نبی نے اُن کو نجات کی کشتی ،بندوں کی پناہ گاہ اور باب حطّہ قرار دیا جو بھی اس میں داخل ہوا وہ آمنین میں قرار پائے گا ۔

ولادت
عالم اسلام سلیل نبوت (فرزند )اور بقیہ امامت کی ولادت سے روشن و منور ہو گیا ،راویوں میں آپ کی جائے ولادت کے سلسلہ میں اختلاف ہے ایک قول یہ ہے کہ آپ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے (١) ، دوسرا قول یہ ہے کہ آ پ سامراء (٢)میں پیدا ہوئے ،اور آپ کس زمانہ میں یا کس وقت پیدا ہوئے اس سلسلہ میں بھی راویوں میں اختلاف ہے اور اس سلسلہ میں بعض اقوال یہ ہیں :
١۔آپ ربیع الاول ٢٣٠ ھ میں پیدا ہوئے (٣)
٢۔ ٢٣١ ھ میں پیدا ہوئے ۔(٤)
..............
١۔اخبار الدول ،صفحہ ١١٧۔بحر الانساب ،صفحہ ٢۔
٢۔تذکرة الخواص ،صفحہ ٣٢٤۔
٣۔تاریخ ابو اا لفدا ،جلد ٢صفحہ ٤٨۔
٤۔نجوم الزاہرہ، جلد ٣،صفحہ ٣٢۔
٣۔ ٢٣٢ ھ میں پیدا ہوئے ۔(١)
٤۔ ٢٣٣ ھ میں پیدا ہوئے ۔(٢)

آپ کی ولادت پرشرعی رسومات
حضرت امام علی نقی کو جیسے ہی امام حسن عسکری کی ولادت با سعادت کی خبر دی گئی تو آپ نے شرعی رسومات انجام دینے میں بڑی سرعت سے کام لیا ،آپ نے بچہ کے دائیں کام میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی ،امام نے اپنے فرزند کا خدا کے نور سے ایسے کلمات توحید کا اقتباس کرتے ہوئے استقبال کیا جن کوہر زمانہ اور ہر جگہ پر مسلمان اپنی زبان پر جا ری کرتے ہیں :'' اﷲ اکبر لا الٰہ اِلَّا اللّٰہ ''۔
امام علی نقی نے ولادت کے ساتویں دن امام حسن عسکری کاسر منڈایا اور ان کے سر کے بالوںکے وزن کے برابر سونا یا چاندی مسکینوں کو صدقہ دیااور اسی وقت اسلامی سنت پر عمل کرتے ہوئے عقیقہ کیا جس میں دو سال کاگوسفند ذبح کیا بچہ کا نا م حسن رکھا جو آپ کے چچا حسن جنت کے جوانوں کے سردار کا اسم مبارک ہے ۔آپ(امام حسن عسکری )کی کنیت ابو محمد رکھی، یہ آپ کے فرزند امام المنتظر کا اسم گرا می ہے جو زمین میں محرو موں اور مستضفعین کی آرزو ہیں ۔(٣)

آپ کی پرورش
امام عسکری نے اللہ کے نز دیک سب سے با عزت گھر میں پر ورش پائی وہ بیت امامت جس کے اہل سے پر ور دگار عالم نے ہر طرح کے رجس کو دور رکھا اور ان کو اس طر ح پاک وپاکیزہ رکھا جو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔
اس بیت معظم کے متعلق شبراوی کا کہنا ہے کہ خدا کی قسم یہ بیت شریف بے بہادُرّ ہے ،بہت ہی عظیم نسب ہے ،نورانی نسب قابل فخر اوربلند مرتبہ ہے ،یہ سب صاحب کرامت ہیں یہ شجرہ میں کنگھی کے
..............
١۔بحر الانساب صفحہ ٢۔اخبار الدول صفحہ ١٦٧۔الاتحاف بحب الاشراف صفحہ ٨٦۔
٢۔دائرة المعارف بستا نی جلد ٧صفحہ ٤٥۔
٣۔حیاةالامام حسن عسکری ، صفحہ١٩۔
دانوں کی طرح برابر طیب و طاہر ہیں ،عظمت کے حصے اُن پر تقسیم کر دئے گئے ہیں اور اُ ن میں صفات کمال نہایت درجہ مو جود ہیں ۔(١)

اللہ سے امام کاخوف
امام حسن عسکری کمسنی میں اللہ سے خوف رکھتے تھے ،مورّخین نے روایت کی ہے کہ ایک شخص کا امام حسن عسکری کے پاس سے گذر ہوا جبکہ آپ بچوں کے ایک طرف کھڑے ہوئے رو رہے تھے، اس شخص نے کہا :اے نو نہال !مجھے بڑا افسوس ہے کہ تم اس لئے رو رہے ہو کہ تمہارے پاس وہ کھلونے نہیں ہیں جو اِن بچوں کے پاس ہیں :سنو !میں ابھی آپ کیلئے وہ کھلونے خرید کر لاتا ہوں جن سے یہ بچے کھیل رہے ہیں ؟
امام حسن عسکری نے فرمایا:''نہیں ،ہم کھیلنے کے لئے نہیں پیدا ہوئے ۔۔۔''۔
وہ شخص مبہوت ہوکر رہ گیا اور اس نے امام سے کہا :ہم کس لئے پیدا کئے گئے ؟
امام نے فرمایا:''ہم علم اور عبادت کے لئے خلق ہوئے ہیں ''۔
اس شخص نے سوال کیا :آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا کہ ہماری غرض خلقت علم و عبادت ہے ؟
امام نے خداوند عالم کے اس فرمان کی تلاوت فرمائی :(أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثاً)''۔(٢)''کیا تمہارا خیال یہ تھا کہ ہم نے تمھیں بیکار پیدا کیا ہے ''۔
وہ شخص ہکّا بکَّا رہ گیا اور اس نے اسی حیرا نی کے عالم میں امام سے سوال کیا !اے فرزند! تمھیں کیسے معلوم تم تو بہت کمسن ہو ؟
امام نے فرمایا:''میں نے اپنی والدہ کو دیکھا ہے کہ وہ بڑی لکڑیوں کو جلانے سے پہلے چھوٹی لکڑیاں جلاتی ہیں، میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میںچھوٹی لکڑیوں کی طرح جہنم کا ایندھن نہ بن جا ئوں ''۔(٣)
..............
١۔الاتحاف بحب الاشراف، صفحہ ٨٦۔
٢۔سورئہ مومنون ،آیت ١١٥۔
٣۔دائرة المعارف بستانی، جلد ٧،صفحہ ٤٥۔جوہرة الکلام فی مد ح السادة الاعلام ،صفحہ ١٥٥۔
کیا تم نے امام سے کمسنی کے عالم میں اس ایمان کے منفعل ہونے کا مشاہدہ کیا یہ آپ کی ذات اور اقدارمیںسے ہے ؟

آپ اپنے پدر بزگوار کے ساتھ
امام حسن عسکری علیہ السلام زکی ابو محمد ہمیشہ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ رہے ،اور سفر و حضر میں اُن سے بالکل جدا نہیں ہوئے ،اورامام علی نقی اپنے فرزند ارجمند کے سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں :
''ابو محمد ،آل محمد میں بہترین ہیں ،اُن کی حجت قابل وثوق ہے ،یہ میرے بڑے فرزند ہیں اور میرے جا نشین ہیں امامت ان کی جانب منتقل ہو گی ''۔(١)
یہ کلمات بہترین صفات کے ترجمان ہیں چنانچہ آپ آل محمد ۖ میں بہترین طبیعت کے مالک ہیں آپ کی حجت قابل وثوق ہے ۔
آپ ہی پر خلافت اور امامت کی انتہا ہو ئی ،اور آپ میں یہ تمام فضائل و کمالات موجود تھے۔

آپ کی عبادت
امام حسن عسکری اپنے زمانہ کے تمام لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت کیا کر تے تھے ،ان میں سب سے زیادہ توبہ اور اللہ کی اطاعت کر تے تھے ،آپ زیادہ تر روزہ رکھتے ،رات میں میں نمازیں پڑھتے قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور دعا پڑھتے ۔
محمد شا کری کا کہنا ہے :امام ابو محمد محراب میں سجدہ ریز تھے جبکہ میں خواب و بیداری کے عالم میں تھا(٢) آپ کی روح خدا سے لو لگائے تھی ،آپ کو دنیا کی کسی چیز سے کو ئی سر وکار نہیں تھا ،آپ کی قنوت میںپڑھی جانے والی دعا ئیں اس بات پر دلالت کر تی ہیں کہ امام خدا کی بارگاہ میں توبہ کیا کرتے تھے ،اسی طرح نماز کے بعد پڑھی جانے والی دعائیں بھی آپ سے نقل ہو ئی ہیں جن کا تذکرہ ہم نے اپنی کتاب
''حیاةالامام حسن عسکری '' میںکیا ہے ۔
..............
١۔اعیان الشیعہ ،جلد ٤،صفحہ ٢٩٥،تیسرا حصہ ۔
٢۔حیاةالامام حسن عسکری ،صفحہ ٤٠۔

حلم
آپ لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم اور غصہ پی جانے والے تھے ،عباسی حکومت نے آپ کو قید خانہ میں ڈال دیا آپ اتنے صابر تھے کہ ذرا سا بھی شکوہ زبان پر نہ لائے ،اور کسی ایک سے بھی قید خانہ کی سختیوں اور مشکلات کی شکایت نہیں فرما ئی ۔

کرم
امام ابو محمد (حسن عسکری )لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ،آپ غریبوں پر بہت زیادہ احسان کیا کرتے تھے ،آپ کا اپنے معین کردہ حقوق شرعیہ وصول کرنے والوں سے فقیروں ،محروموں اصلاح ذات البین اور اُن کے علاوہ (١)لوگوں کو فائدہ پہنچانے والوں پر انفاق کا معاہدہ تھا ۔آپ کے فیض کرم کے متعلق مورخین نے محمد بن علی بن ابراہیم بن امام مو سیٰ بن جعفر سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے ہیں : ہمارا زندگی بسر کرنا دشوار ہو گیا تو میرے والد نے کہا چلو ہم اس شخص ''یعنی ابو محمد ''کے پاس چلتے ہیں جن کی ہم نے بہت زیادہ تعریفیں سنی ہیں ،میں نے اُن سے عرض کیا :کیا آپ انھیں پہچانتے ہیں ؟میرے والد صاحب نے کہا : نہیں پہچانتا اور نہ ہی میں نے آج تک اُن کو دیکھا ہے اُن کا کہنا ہے:ہم چل پڑے ،راستہ میں میرے والد نے کہا :ہم کو پانچ سو درہم کی ضرورت ہے دوسو درہم لباس وغیرہ کیلئے ،دوسو درہم آٹا اور خورد و نوش کیلئے ،اور سو درہم اور دوسرے مخارج کیلئے ۔میں نے اپنے دل میں کہا :کاش امام مجھے تین سو درہم عنایت فر ما دیں ،میں سو درہم سے اپنی سواری خریدوں گا ، سو درہم خرچ کروں گا اور سو درہم سے لباس وغیرہ مہیاکروں گا۔جب ہم پہاڑ سے گذر کر امام کے دروازے پر پہنچے تو گھر سے ایک بچہ نے نکل کر کہا :علی بن ابراہیم اور اُن کے بیٹے کو اندر بلا لو جب ہم نے اندر جا کر سلام کیا تو اُس بچہ نے میرے والد سے کہا : ''اے علی! تم نے اتنی دیر کیوں لگا ئی ؟''
اے میرے سید و آقا میں آپ سے ملاقات کرنے میں شرم محسوس کر رہاتھا ۔
..............
١۔حیاةالامام حسن عسکری ، صفحہ ٤٠۔
امام میرے اور میرے بیٹے کے پاس کچھ دیر ٹھہرے اور پھر ہم دونوں کو خدا حافظ کہہ کر چلے گئے ، کچھ دیر کے بعد امام کا غلام آیا اُس نے علی بن ابراہیم کو پانچ سو درہم کی تھیلی دیتے ہوئے کہا :دو سو درہم لباس ،دو سو درہم آٹا وغیرہ اور سو درہم خرچ کے لئے ہیں ،اورمجھ کو تین سو درہم کی تھیلی دیتے ہوئے کہا : سودرہم سواری ،سو درہم لباس اور سو درہم خرچ کے لئے ہیں ۔اور اب پہاڑ کی طرف سے نہ جانا ،محمد نے امام
کے حکم کے مطابق سوراء کی طرف سے راستہ طے کیا اور اس کے تمام امور اچھے طریقے سے انجام پا ئے ،اور اس کا دولت مندوں میں شمار ہونے لگا ۔(١)
مورّخین نے مشکلات اور سختیوں میں زندگی گذار نے والے اور محرومین کے ساتھ آپ کی سخاوت اور احسانات کے متعدد واقعات نقل کئے ہیں ۔

علم
محققین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام حسن عسکری اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے ،آپ صرف احکام شریعت اور احکام دین ہی میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل نہیں تھے بلکہ تمام علوم و معارف میں سب سے زیادہ افضل اور اعلم تھے ۔
عیسائی ڈاکٹر بختیشوع نے اپنے شاگرد سے امام کے متعلق کہا ہے : وہ ہمارے درمیان آج سب سے زیادہ اعلم ہیں ''۔(٢)
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ اعلم ہیں ،آپ علوم پر اس طرح مسلّط ہیں جتنا کوئی اور نہیں ہو سکتا اور یہ شیعوں کا نظریہ ہے کہ ائمہ اہل بیت کو خداوند عالم نے علوم کی تمام اقسام کا علم عطا کیا ہے ۔

بلند اخلاق یا کریمانہ اخلاق
امام حسن عسکری کے بلند و بالا اخلاق اور آداب ،اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشا نی تھے ، آپ
..............
١۔کشف الغمہ ،جلد ٣،صفحہ ٣٠٠۔
٢۔حیاةالامام حسن عسکری ،صفحہ ٣٨۔
دوست اور دشمن سے خو ش روئی سے پیش آتے ،امام کے مکارم اخلاق آپ کے دشمن اور کینہ و حسد کرنے والوں پر ایسے اثر انداز ہوتے کہ ان کے بغض و دشمنی کو آپ سے محبت میں بدل دیتے ، آپ کے اخلاق سے علی بن اوتانش بہت متأثر ہوا حالانکہ وہ آل نبی کا سخت دشمن تھا مگر اب جب بھی وہ امام سے ملتا تو اپنا منھ پھرالیتا آپ کی جلالت و تعظیم و بزرگی کی وجہ سے وہ اپنی نظریں اوپر نہیں اٹھاتا تھا اور لوگوں کے درمیان امام کے سلسلہ میں اچھی باتیں کیا کرتا تھا ۔(١)
امام حسن عسکری علیہ السلام اپنے بلند و بالا اخلاق میں رسالت ِ اسلامیہ کی ایک خوشبو تھے اور رسول اعظم ۖ کے ثمرات میں سے ایک میوہ تھے ۔(٢)
..............
١۔کشف الغمہ ،جلد ٣،صفحہ ٢۔
٢۔حیاةالامام حسن عسکری ، صفحہ ٤٢۔