خوشبوئے حیات
 

امام کا متوکل کے لئے بد دعا کرنا
امام علی نقی متوکل کی سختیوں سے تنگ آگئے ، اُس نے اپنی سنگد لی کی بنا پر امام پر ہر طرح سے سختیاں کیں اُ س وقت امام نے اللہ کی پناہ ما نگی اور ائمہ اہل بیت کی سب سے اجلّ و اشرف دعا کی جس کو مظلوم کی ظالم پر بد دعا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ دعائوں کے خزانہ میں سے ہے ،اس دعا کو ہم اپنی کتاب
حیاة الامام علی نقی میں ذکر کر چکے ہیں ۔ائمہ طا ہرین کی اس مختصر سوانح حیات میں اس کو بیان کرنے کی کو ئی ضرورت نہیں ہے ۔

امام کا متوکل کے ہلاک ہونے کی خبر دینا
متوکل نے مجمع عام میں امام علی نقی کی شان و منزلت کم کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے اپنائے ، اُ س نے اپنی رعایا کے تمام افراد کو امام کے پاس چلنے کا حکم دیا ،انھوں نے ایسا ہی کیا ،گر می کا وقت تھا ،گر می کی شدت کی وجہ سے امام اُن کے سامنے پسینہ میں شرابور ہوگئے ،متوکل کے دربان نے جب امام کو دیکھا تو فوراً آپ کو دہلیز میں لا کر بٹھایا رومال سے امام کا پسینہ صاف کر نے لگا اور یہ کہہ کر حزن و غم دور کرنے لگا:ابن عمک لم یقصدک بھذ ا دون غیرک ۔۔۔تیرے چچا زاد بھائی کا اس سے تیرے علاوہ اور کو ئی ارادہ نہیں ہے ۔
امام نے اس سے فرمایا :''ایھا عنک ''،اُس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرما ئی : ( َ تَمَتَّعُوا فِی دَارِکُمْ ثَلَاثَةَ َیَّامٍ ذَلِکَ وَعْد غَیْرُ مَکْذُوب)۔(١)
''اپنے گھروں میں تین دن تک اور آرام کرو کہ یہ وعدئہ الٰہی ہے جو غلط نہیں ہو سکتا ہے '' ۔
زراقہ کا کہنا ہے کہ میرا ایک شیعہ دوست تھا جس سے بہت زیادہ ہنسی مذاق کیا کرتا تھا، جب میں اپنے گھر پہنچا تو میں نے اس کو بلا بھیجا جب وہ آیا تو میں نے امام سے سنی ہو ئی خبر اس تک پہنچا ئی تو اس کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور اس نے مجھ سے کہا :دیکھو جو کچھ تمہارا خزانہ ہے اس کو اپنے قبضہ میں لے لو ،چونکہ متوکل کو تین دن کے بعد موت آجا ئے گی یا وہ قتل ہو جا ئے گا ، اور امام نے شہادت کے طور پر قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی ہے ،معلم کی بات زراقہ کی سمجھ میں آگئی اور اُس نے کہا : میرے لئے اس بات پر یقین کرنے میں کو ئی ضرر نہیں ہے، اگر یہ بات صحیح ہے تو میں نے یقین کر ہی لیا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو اس میں میرا کوئی نقصان نہیں ہے ۔میں متوکل کے گھر پہنچا ،اور وہاں سے اپنا سارا مال لے کر اپنے جاننے والے ایک شخص کے پاس رکھ دیا ،اور تین دن نہیں گذرے تھے کہ متوکل ہلاک ہوگیا ،یہ سبقت زراقہ کی راہنما ئی اور اس
..............
١۔سورئہ ہود، آیت ٦٥۔
سے امامت سے سخت لگائو کا سبب بن گئی ۔(١)

متوکل کی ہلاکت
امام کے ذریعہ متوکل کی تین دن کے بعد ہلاکت کی خبر کے بعد متوکل ہلاک ہو گیا یہاں تک کہ اس کا بیٹا منتصر اس پر حملہ کرنے والوں میں شامل تھا ،٤ شوال ٢٤٧ ھ (٢)بدھ کی رات میں ترکیوں نے اُس پر دھا وا بول دیا جن کا سپہ سالار باغر ترکی تھا ،اُن کے پاس ننگی تلواریں تھیں ،حالانکہ متوکل نشہ میں پڑا ہوا تھا ،فتح بن خاقان نے اُ ن سے چیخ کر کہا :وائے ہو تم پریہ امیر المو منین ہے ،انھوں نے اس کی کو ئی پروا نہیں کی ،اُس نے خود کو متوکل کے اوپر گرا دیا کہ شاید وہ اس کو چھوڑ دیں لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہ کیا اور دونوں کے جسموں کے اس طرح ٹکڑے کر دئے کہ دونوں میں سے کسی ایک کی لاش پہچا نی نہیں جا رہی تھی ،دونوں کے بعض گوشت کے ٹکڑوں سے شراب ٹپک رہی تھی ،دونوں کو ایک ساتھ دفن کر دیا گیا ،اس طرح اہل بیت کے سب سے سخت دشمن متوکل کی زند گی کا خاتمہ ہوا ۔
ابراہیم بن احمد اسدی نے متوکل کے بارے میں پڑھے :
ھَکذا فَلتکُن منا یا الکرامِ
بین نا ٍ وَمِزھَرٍ ومَدامِ

بَینَ کَاسَیْنِ أَرْوَتَاہُ جَمِیْعاً
کَأْسٍ لِذَاتِہِ وَکَأْسِ الحِمَامِ

یَقِظُ فِی السُّرُوْرِ حَتیّٰ اَتَاہُ
قدَّرَ اللّٰہُ حَتْفُہُ فِی المَنَامِ

وَالْمَنَایا مَراتب یتفاضَدْن
وَبِالْمُرْھَفَاتِ مَوْتُ الکِرَامِ

لَمْ یَدْرِ نَفْسُہُ رَسُوْلُ المَنَاَیا
بِصُنُوْفِ الْأَوْجَاعِ وَالاَسْقَامِ

ھَابَہ مُعْلِناًفَدَبَّتْ اِلَیْہِ
فِیْ سُتُوْرِ الدُّجیٰ یَدُالْحُسَامِ (٣)

''بزرگوں کی موت اسی طرح بانسری ،باجے اور شراب کے درمیان ہونا چا ہئے ۔
..............
١۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٥۔
٢۔تاریخ ابن کثیر،جلد ١٠، صفحہ ٣٤٩۔
٣۔زہر الآداب، جلد ١ ،صفحہ ٢٢٧۔
ایسے دو پیالوں کے درمیان ہو نا چا ہئے جنھوں نے اُس کو سیراب کر دیا ہو ۔
ایک پیالہ لذّتوں کا ہو اور ایک پیالہ موت کا ہو ۔
وہ خو شی کے عالم میں بیدار تھے ،یہاں تک کہ خدا کی مقدر کردہ موت نے اس کو نیند کے عالم میں آلیا ۔
درد اور بیماری کی وجہ سے قاصد موت کے آنے پراس کو کچھ احساس تک نہیں ہوا ۔
اس کو علی الاعلان موت آگئی اور تا ریکیوں کے پردے میں دست شمشیر اس کی طرف بڑھ گیا ''۔
شاعر نے اِن اشعار کے ساتھ اس کا مرثیہ پڑھا جو اُ س کی خواہش نفس کی عکا سی کر رہے ہیں ، اُس کی موت شراب کے جام ،مو سیقی کے آلات و ابزار طبل و ڈھول کے درمیان میں ہو ئی ،اس کو بیماریوں اور دردوں نے ذلیل و مضطرب نہیں کیا بلکہ ترکیوں نے اپنی تلواروں سے اس کی روح کو اس کے بدن سے جدا کر دیا ،اُس نے دردو آلام کا چھوٹا سا گھونٹ پیا ،اس سے پہلے شعراء بادشاہوں کا مر ثیہ پڑھا کر تے تھے جس کے فقدان سے امت اپنی معاشرتی اصلاحات اور عدل و انصاف کو کھو دیتی تھی ۔
بہر حال علویوں اور شیعوں کو اس سخت بیماری سے نجات ملی ،اس کے بعد منتصر نے حکومت کی باگ ڈور سنبھا لی ،اس نے اپنے باپ کے بر عکس انقلاب کی قیادت کی ،اس نے حکومت قبول کی ، اُس کی حکومت کا خو شی سے استقبال کیا گیا ،حکومت کی باگ ڈور سنبھا لنے کے بعد اُس نے علویوں پر احسان کر نا شروع کیا اُس نے علویوں کے لئے مندرجہ ذیل چیزیں انجام دیں :
١۔دنیائے اسلام کے کریم رہبر و قائد امام حسین کی زیارت میں ہونے والی رکاوٹوں کو دور کیا ، اس نیکی کیلئے لوگوں کو ترغیب دلا ئی ،جبکہ اس کے باپ نے زیارت پر پابندی لگا رکھی تھی اور زائرین کی مخالفت میں ہر طرح کے سخت قوانین نافذ کئے تھے ۔
٢۔علویوں کو فدک واپس کیا ۔
٣۔حکومت نے علویوں کے چھینے ہوئے اوقاف واپس کئے ۔
٤۔علویوں کی برا ئی کرنے والے مدینہ کے والی صالح بن علی کو معزول کیا ،اس کے مقام پر علی بن الحسن کو والی بنایا اور اس کو علویوں کے ساتھ احسان و نیکی کر نے کی تا کید کی ۔(١)
علوی خاندان پر ان تمام احسانات کو دیکھ کر شاعروں نے اُ س کی تعریف اور شکریہ میں اشعار پڑھے، یزید بن محمد بن مہلبی کا کہنا ہے :
وَلَقَدْ بَرَزَتَ الطَّالِبِیَّةَ بَعْدَ مَا
ذَمُّوا زَمَاناً قَبْلَھَا و زَمَانا

وَرَدَدْتَ اُلْفَةَ ہَاشِمٍ فَرَأَیْتَھُمْ
بَعْدَ الْعَدَاوَةِ بَیْنَھُمْ اِخْوَاناً

آنَسْتَ لَیْلَھُمْ وَجُدْتَ عَلَیْھِمْ
حَتیّٰ نَسُوا الْأَحْقَادَ وَالْأَضْغَانا

لَوْ یَعْلَمُ الأَسْلَافُ کَیْفَ بَرَرْتَھُم
لَرَأَوْکَ أَثْقَلَ مَنْ بِھَا مِیْزَانا(٢)

''تم نے علویوں کے ساتھ اچھا برتائو کیا جبکہ اس سے پہلے ان کی مذمت ہو چکی تھی ۔
تم نے ہاشم کی محبت کو پلٹادیا جس کی بنا پر دشمنی کے بعد تم نے ان کو دوست پایا۔
تم نے راتوں میں ان سے انس اختیار کیا اور اُن پر سخاوت کی یہاں تک کہ وہ کینوں اور دشمنی کو بھول گئے۔
اگر گذشتہ بزرگان کو تمہارے حسن سلوک کا علم ہوجائے تو وہ تم کو بہت آبرو مند سمجھیں گے ''۔
منتصر نے نبی ۖ کے خاندان کے اس سلسلہ کو جا ری رہنے دیا جس کو اس کے گذشتہ بزرگ عباسیوں نے ہر چند منقطع کرنے کی کو شش کی تھی ،اُ ن سے ہر طرح کے ظلم و ستم اور کشت و خون کو دور کیا لیکن افسوس کہ اُس کا عمر نے ساتھ نہ دیا طبیب نے ترکوں کے دھوکہ میں آکر اس کو زہر دیدیا جس سے وہ فوراً مر گیا ،(٣) اُس کے مر نے کی وجہ سے لوگوں سے خیر کثیر ختم ہو گیا ، اس نے علویوں کو دینی آزا دی دی تھی اور اُن سے ظلم و ستم کو دور کیا تھا ۔

امام پر قاتلانہ حملہ
امام ،معتمد عباسی پر بہت گراں گذر رہے تھے ،امام اسلامی معاشرہ میں عظیم مرتبہ پر فائز تھے جب امام کے فضا ئل شائع ہوئے تو اس کو امام سے حسد ہو گیا اور جب مختلف مکاتب فکر کے افراد اُن کی علمی صلاحیتوں
..............
١۔تاریخ ابن اثیر، جلد ٥،صفحہ ٣١١۔
٢۔مروج الذھب، جلد ٤،صفحہ ٨٣۔
3۔تاریخ خلفاء سیوطی، صفحہ ٣٥٧۔
اور دین سے اُن کی والہانہ محبت کے سلسلہ میں گفتگو کرتے تووہ اور جلتا اُس نے امام کو زہر ہلاہل دیدیا ، جب امام نے زہر پیا تو آپ کا پورا بدن مسموم ہو گیا اور آپ کے لئے بستر پر لیٹنا لازم ہوگیا(یعنی آپ مریض ہو گئے )آپ کی عیادت کے لئے لوگوں کی بھیڑ اُمڈ پڑی ،منجملہ اُن میں سے ابوہاشم جعفری نے آپ کی عیادت کی جب اُ نھوںنے امام کو زہر کے درد میں مبتلا دیکھا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ،اور مندرجہ ذیل اشعار پر مشتمل قصیدہ نظم کیا :
مَا دتِ الدنیا فُؤاد العلیلِ
وَاعْتَرَتْنِیْ مَوَارِدُ اللأْوائِ

حِینَ قِیْلَ الْاِمَامُ نِضُوْ عَلِیْل
قُلْتُ نَفْسِیْ فَدَتْہُ کُلَّ الفِدَائِ

مَرِضَ الدِّیْنُ لَاعْتِلَالِکَ وَاعْتَدْ لَ
وَغَارَتْ نُجُوْمُ السَّمَائِ

عَجَباً اِنْ مُنِیْتَ بِالدَّائِ وَالسُّقْمِ
وَأَنْتَ الاِمَامُ حَسْمُ الدَّائِ

أَنْتَ أَسِیْ الأَدْوَائَ فِ الدِّیْنِ والدُّنْیَا

وَمُحْی الأَمْوَاتِ وَالْأَحَیَائِ (١)
'' دنیا نے میرے بیمار قلب کو ہلا کر رکھ دیا اور مجھے وا دی ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔
جب مجھ سے کہا گیا امام کی حالت نہایت نازک ہے تو میں نے کہا میری جان اُن پر ہر طرح قربان ہے ۔
آپ کے بیمار ہونے کی وجہ سے دین میں کمزوری پیدا ہو گئی اور ستارے ڈوب گئے۔
تعجب کی بات ہے کہ آپ بیمار پڑگئے جبکہ آپ کے ذریعہ بیماریوں کا خاتمہ ہوتا ہے ۔
آپ دین و دنیا میں بہترین دوا اور مردوں کو زندہ کرنے والے ہیں ''۔
آپ کی روح پاک ملائکہ ٔ رحمن کے سایہ میں خدا کی بارگاہ میں پہنچ گئی ،آپ کی آمد سے آخرت روشن و منور ہو گئی ،اور آپ کے فقدان سے دنیا میں اندھیرا چھا گیا ،کمزوروں اور محروموں کے حقوق سے دفاع کرنے والے قائد ور ہبر نے انتقال کیا ۔

تجہیز و تکفین
آپ کے فرزند ارجمند کی امام حسن عسکری نے آپ کی تجہیز و تکفین کی ،آپ کے جسد طاہر کو غسل
..............
١۔اعلام الوریٰ ،صفحہ ٣٤٨۔
دیا،کفن پہنایا،نماز میت ادا فر ما ئی ،جبکہ آپ کی نکھوں سے آنسو رواں تھے آپ کا جگر اپنے والد بزرگوار کی وفات حسرت آیات پر ٹکڑے ٹکڑے ہوا جا رہا تھا ۔

تشییع جنازہ
سامرا ء میں ہر طبقہ کے افراد آپ کی تشییع جنازہ کیلئے دوڑ کر آئے ،آپ کی تشییع جنازہ میں آگے آگے وزراء ،علماء ،قضات اور سر براہان لشکر تھے ، وہ مصیبت کا احسا س کر رہے تھے اور وہ اس خسارہ کے سلسلہ میں گفتگو کر رہے تھے جس سے عالم اسلام دو چار ہوا اور اس کا کو ئی بدلہ نہیں تھا ، سامراء میں ایسا اجتماع بے نظیر تھا ،یہ ایسا بے نظیر اجتماع تھا جس میں حکومتی پیمانہ پر ادارے اور تجارت گاہیں وغیرہ بند کر دی گئی تھیں ۔

ابدی آرام گاہ
امام علی نقی کا جسم اقدس تکبیر اور تعظیم کے ساتھ آپ کی ابدی آرامگاہ تک لایا گیاآپ کوخود آپ کے گھرمیں دفن کیا گیاجو آپ کے خاندان والوں کے لئے مقبرہ شمار کیا جاتا تھا ،انھوں نے انسانی اقدار اور مُثُل علیا کو زمین میں چھپا دیا ۔
آپ کی عمر چا لیس سال تھی آپ نے ٢٥ جما دی الثانی ٢٥٤ ھ میں پیر کے دن وفات پا ئی (١)اسی پر ہمارے امام علی نقی کے سلسلہ میں گفتگو کا اختتام ہوتا ہے ۔
..............
١۔نورالابصار ،صفحہ ١٥٠۔کشف الغمہ ،جلد ٣صفحہ ١٧٤۔