متوکل کے ساتھ
متوکل خاندان نبوت کا سب سے زیادہ سخت دشمن تھا وہ ان سے بغض عداوت رکھنے میں مشہور تھا۔
اس نے امام حسین سید الشہدا کی قبر مطہر کو منہدم کیا ۔امام حسین کی قبر کی زیارت کرنے سے منع کیا، زیارت کرنے والوں پر مصیبتیں ڈھائیں، مورخین کا کہنا ہے کہ اس نے علو یوں پر سب سے زیادہ ظلم وستم ڈھائے اور بنی امیہ اہل بیت سے دشمنی وعداوت رکھنے میں مشہور تھے۔
متو کل کے سینہ میں کینہ ودشمنی آگ اس وقت زیادہ بھڑکتی تھی جب وہ مسلمانوں سے امام کے بلند مرتبہ کے بارے میں سنتا تھا اور مسلمان اپنے دلوں میں ان کا مقام بنا ئے ہوئے تھے، تو اس کی ناک پھول جاتی تھی ،اس کا جادو ٹوٹ جاتا تھا، ہم اس سر کش کے ساتھ میں امام کی زندگی سے متعلق بعض واقعات ذیل میںنقل کررہے ہیں ۔
امام کی شکایت
ایک بے دین شخص نے عبد اللہ بن محمد جو مدینہ میں متوکل کا والی تھا اس سے امام کی شکایت کی جومندرجہ ذیل خطرناک امور پر مثتمل تھی :
١۔عالم اسلام کے مختلف گوشوں سے امام کے پاس بہت زیادہ مال آتا ہے جس سے عباسی حکومت سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلحہ خریدا جاتا ہے ۔
..............
١۔وسائل الشیعہ، جلد ٤، صفحہ ٧٥٠۔
٢۔وسائل الشیعہ ،جلد ٥ ،صفحہ ٢٩٨۔
٢۔ تمام اسلامی مقامات پر امام کی بہت زیادہ محبت اور تعظیم کی جانے لگی ہے ۔
٣۔امام کی طرف سے قیام کا خطرہ ہے لہٰذا اسے اجازت دیدی جائے کہ وہ امام کو اسیر کرکے سخت قید خانوں میں ڈال دے ۔
امام کاشکایت کی تکذیب کرنا
جب امام کو اپنے خلاف اس کی چغلخوری کا علم ہوا۔۔۔
تو آپ نے والی مدینہ کا منصوبہ باطل کرنے کے سلسلہ میں قدم اٹھایا اور متوکل کو ایک خط تحریر کیا جس میں اس کے عامل کے بغض وکینہ ،اس کے برے معاملہ اور اس کی چغلخوری کی تکذیب کرتے ہوئے تشریح فرمائی اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ وہ متوکل کے خلاف کوئی بُرا قصدوا رادہ نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی اس کی حکومت کے خلاف خروج کرنا چاہتے ہیں جب امام کا یہ خط متوکل کے پاس پہنچا تو وہ امام سے مطمئن ہوگیا اور جس چیز کی امام کی طرف نسبت دی گئی تھی اس نے اس کی تکذیب کی ۔
متوکل کا امام کے پاس خط
متوکل نے امام کے خط کے جواب میں ایک خط لکھا جس میں اس نے اپنے والی کو اس کے منصب و عہدے سے معزول کردیا تھا اورآپ کو سامرا آکروہاں رہنے کی دعوت دی:
اما بعد:اے حاکم آپ کی قدر کی معرفت رکھتا ہے، آپ کی قرابت کی رعایت کرتا ہے ،آپ کے حق کو واجب جا نتا ہے ،آپ اور آپ کے اہل بیت کے امور کے متعلق تقدیر میں وہی لکھا ہے جس کو اللہ صلاح سمجھتا ہے ،آپ کی عزت کو پائیدار رکھے ،جب تک آپ کے پروردگار کی رضا ہے آپ اور ان کو اپنے امن و امان میں رکھے اور جو آپ اور ان پر واجب فرمایا ہے اس کو ادا کریں ۔
حاکم نے عبد اللہ بن محمد ،جس کو جنگ اور مدینة الرسول ۖمیں نماز پڑھانے کا والی بنایا تھا،اس کے عہدے سے بر طرف کردیا جب اس نے آپ کے حق کے سلسلہ میں لا علمی کا اظہار کیا،آپ کی قدر کو ہلکا سمجھا،جب آپ نے اس کو لائق سمجھااور اس کی طرف امر منسوب کیااور بادشاہ کو آپ کے اس سے بریٔ الذمہ ہونے کا علم ہوا ،آپ اپنے کردار و اقوال میں صدق نیت کے مالک ہیں ، اور آپ نے خود کو اس کا اہل نہیں بنایا جس کی آپ کو چا ہت تھی ،بادشاہ نے محمد بن فضل کو والی بنادیا ہے اور اس کو آ پ کی عزت و اکرام کرنے کا حکم دیدیا ہے ،آپ کے امر اور مشورہ کو ماننے کے لئے کہا ہے ،یہی اللہ اوربادشاہ کے نزدیک مقرب بھی ہے ،بادشاہ آپ کے دیدار کا مشتاق ہے ،اگر آپ اپنے اہل بیت اور چاہنے والوں کی زیارت و ملاقات کرنا چا ہتے ہیں تو جب بھی آپ چا ہیں چلے جائیں ،جہاں چا ہیں ٹھہر جا ئیں ،جس طرح چا ہیں سیر کریں ،اور اگر آپ چا ہیں بادشاہ کے والی یحییٰ بن ہر ثمہ اور اس کے ساتھ لشکر کو اپنے ساتھ سیر کے لئے لے جا سکتے ہیں ،ہم نے اس کو آپ کی اطاعت کرنے کی اجازت دیدی ہے ،بادشاہ اپنی موت تک آپ کا اللہ سے خیر خواہ ہے ،اس کے بھائیوں ،اولاد ، اہل بیت اور اس کے خواص میں سے کو ئی ایسا نہیں ہے جس کے ساتھ اس کے مقام و منزلت سے زیادہ مہربانی کی جائے ، ان کی بات قابل تعریف نہیں ہے ،نہ ہی ان کا کو ئی نظریہ ہے ، ان سے زیادہ کو ئی مہر بان نہیں ہے ،وہ سب سے زیادہ نیک ہیں اور ان کے مقابلہ میں تمہارے لئے قابل اطمینان ہیں ، والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ۔۔۔
یہ خط ابراہیم بن عباس نے جما دی الثانی ٢٤٣ ھ میں تحریر کیا ۔ (١)
امام علی نقی کا سامرا پہنچنا
متوکل نے یحییٰ بن ہرثمہ کو امام کو مدینہ لانے کیلئے بھیجااور اس سے کہاکہ حکومت کے خلاف امام کے قیام پر دقیق نظر رکھے ۔
یحییٰ کسی چیز کا قصد کئے بغیر مدینہ پہنچا ،امام سے ملاقات کی اور آپ کی خدمت میں متوکل کا خط پیش کیا جب مدینہ والوں کو اس بات کی خبر ہو ئی تو وہ امام کے بارے میں متوکل سر کش کے خوف سے نالہ و فریادکرنے لگے ،مدینہ والے امام سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے ،کیونکہ مدینہ کے علماء آپ کے علوم سے مستفیض ہوتے تھے ،امام غریبوں پر احسان کرتے تھے ،اورآپ دنیا کی کسی چیز سے بھی رغبت نہیں رکھتے تھے (٢ ) یحییٰ نے ان کو تسکین دلا ئی اور قسم کھا ئی کہ امام کو کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔
امام نے مدینہ میں اپنے اہل بیت سے خدا حافظ کیا ،یحییٰ نے امام کی خدمت کرنا شروع کیاتو وہ دنیا
..............
١۔ارشاد ،صفحہ ٣٧٥۔٣٧٦۔
٢۔مرآة الزمان ،جلد ٩صفحہ ٥٥٣۔
میں آپ کے تقویٰ ،عبادت ،اور زہد سے متعجب ہوا ،آپ کی سواری مقام بیداء پر پہنچی اور اس کے بعد آپ نے یاسریہ میں قیام کیا تو وہاں پر اسحاق بن ابراہیم نے آپ سے ملاقات کی اور جب امام کے یاسریہ پہنچنے کی خبر شا ئع ہو ئی تو یاسریہ کے رہنے والوں نے آپ کا زبر دست استقبال کیا ،حالات کے ڈر کی وجہ سے امام کو رات کے وقت بغداد میں داخل کیا گیا کہ کہیں امام کے دیدار کے پیاسے شیعہ امام کا زبر دست طریقہ سے استقبال نہ کر لیں ۔
یحییٰ بغداد کے حاکم اسحق بن ابراہیم ظاہری کے پاس آیا اور اس کو امام کے مقام و منزلت کا تعارف کرایا ، اور جو کچھ اس نے آپ کا زہد ،تقویٰ اور عبادت دیکھی تھی سب کچھ اس کو بتایا ۔اسحاق نے اس سے کہا : بیشک یہ شخص (امام علی نقی )فرزند رسول ہیں ،تونے متوکل کے منحرف ہونے کو پہچان لیا ہے ،اگر تو نے اُن کے متعلق کو ئی بات اُس تک پہنچا ئی تو وہ انھیں قتل کر دے گا اور قیامت کے دن نبی کا غصہ تیرے سلسلہ میں زیادہ ہو جا ئے گا ۔
اسحاق نے اس کو امام کے حق میں کو ئی بھی بُری بات متوکل تک نقل کرنے سے ڈرایاچونکہ متوکل اہلبیت کا سخت اور بے شرم دشمن تھا ، یحییٰ نے جلدی سے جواب دیا :خدا کی قسم میں کسی چیز کو نہیں جانتا جس کا میں انکار کروں میں اُن سے بہترین امر کے علاوہ کسی اور چیز سے واقف نہیں ہوں ۔
پھر امام علی نقی کی سواری بغداد سے سامرا ء کی طرف چلی جب امام سامرا پہنچے تو یحییٰ جلدی سے حکومت کی ایک بہت بڑی شخصیت تُرکی کے پاس پہنچا او ر اُس کو امام کے سامرا ء پہنچنے کی اطلاع دی تو تر کی نے یحییٰ کو امام کے متعلق متوکل کو کو ئی بھی بُری بات نقل کرنے سے ڈراتے ہوئے کہا :اے یحییٰ! خدا کی قسم ، اگر امام کاایک بال بھی بیکا ہوگیا تو اس کاذمہ دارتوہوگا ۔
یحییٰ بغداد کے وا لی اور تر کی غلام کی امام کے سلسلہ میں موافقت سے متعجب ہوا اور اس نے امام کی حفاظت کرنا واجب سمجھا ۔(١)
..............
١۔مرآة الزمان، جلد ٩،صفحہ ٥٥٣۔مروج الذہب ،جلد ٤،صفحہ ١١٤۔تذکرة الخواص، صفحہ ٣٥٩۔
امام خان صعالیک میں
متوکل نے عوام الناس کی نظرمیں آپ کی شان و وقار و اہمیت کو کم کر نے کے لئے آپ کو ''خان صعالیک ''''فقیروں کے ٹھہرنے کی جگہ ''میںرکھا ،صالح بن سعید نے امام سے ملاقات کی ، وہاں کے حالات دیکھ کر بہت رنجیدہ و ملول ہوئے اور آپ سے یوں گویا ہوئے:
میری جان آپ پر فدا ہو انھوں نے ہر طریقہ سے آپ کا نور بجھانے کا ارادہ کر رکھا ہے آپ کی شان میں ایسی کو تا ہی کی جا رہی ہے کہ آپ کو اس مقام پر ٹھہرا دیا ہے ۔
امام نے اس کی محبت اور اخلاق کا شکریہ ادا کیاجس سے اس کا رنج و الم کم ہوا اور جب اُس نے امام کے اس معجزہ کا مشاہدہ کیاجو اللہ نے اپنے اولیا اور انبیاء کو عطا فرمایا ہے تو اس کو قدرے سکون ہوا اور اس کا حزن و غم دور ہو گیا ۔۔۔(١)
امام کی متوکل سے ملاقات
یحییٰ نے جلد ہی متوکل کو امام کی بہترین حیات و سیرت سے آگاہ کردیا اور یہ بتایا کہ میں نے امام کے گھر کی تلاشی لی تو اُس میں مصاحف اور دعائوں کی کتابوں کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ،اُن پر جو جنگ کرنے کی تہمت لگا ئی ہے وہ با لکل غلط ہے ،متوکل باغی و سرکش کا غصہ کافور ہو گیا تو اُ س نے امام کو اپنے پاس لانے کا حکم دیا،جب امام اس کے پاس پہنچے تو اُس نے آپ کا بہت زیادہ احترام واکرام کیا(٢)لیکن آپ کو سامرا میں رہنے پر مجبور کیا تاکہ وہ آپ کی حفاظت کرسکے ۔
متوکل کا اچھے شاعر کے متعلق سوال کرنا
متوکل نے علی بن جہم سے سب سے اچھے شاعر کے متعلق پوچھا تو اُ س نے متوکل کو بعض دورجاہلیت
..............
١۔الارشاد، صفحہ ٣٧٦۔
٢۔مرآة الزمان، جلد ٩صفحہ ٥٥٣۔
جاہلیت اور دور اسلام کے شعرا ء کے نام بتائے ،متوکل اُن سے قانع نہیں ہوا تو اُس نے اس سلسلہ میں امام سے مخاطب ہو کر سوال کیا تو امام نے فرمایا:''حما نی ''(١ )جس نے یہ اشعار کہے ہیں :
''لقدْ فاخرتنا ف قریش عصابةُ
بِمَطِّ خدودٍ وَاَمْتِدَادِ أصَابِعِ
فَلَمَّا تَنَازَعْنا المَقَالَ قَضیٰ لَنَا
عَلَیْھِمْ بِمَا نَھویٰ نِدَائَ الصَّوَامِعِ
تَرَانَا سُکُوتاً وَالشَّھِیْدُ بِفَضْلِنَا
عَلَیْھِمْ جَھِیْرُ الصَّوْتِ فِکُلِّ جَامِعِ
فَاِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ اَحْمَدَ جَدُّنَا
وَنَحْنُ بَنُوْہُ کَالنَّجُوْمُ الطَّوَالِعِ''
'' قریش کے سلسلہ میں ایک جماعت نے تکبر کی بنا پر ہمارے ساتھ فخر و مباہات کیاجب ہم نے اُن سے مناظرہ کیا تو اس نے ہمارے حق میں فیصلہ کیا تم ہم کو خاموش دیکھتے ہو جبکہ ہر سجدہ میں صدائے اذان کا بلند ہونا ہماری فضیلت کی گوا ہی دیتا ہے کیونکہ رسول ۖخداہمارے نانا ہیں اور ہم چمکتے ستاروں کی مانند اُن کی اولاد ہیں ''۔
متوکل نے امام سے مخاطب ہو کر کہا :اے ابوالحسن گرجہ گھروں سے کیا آوازیںآتی ہیں ؟
امام نے جواب میں فر مایا :اشھد ان لاالٰہ الَّااللّٰہ واشھد أَنَّ محمداًرسول اللہ وَ مُحَمَّدُ جَدِّْ أَمْ جَدُّکَ ؟'' ۔''میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کو ئی خدا نہیں ہے ،اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور محمد ۖ میرے جد ہیں یا تیرے جد ہیں ''؟
متوکل طاغوت غیظ و غضب میں بھر گیا اور اُ س نے لرزتی ہو ئی آواز میں کہا :وہ آپ کے جد تھے اسی لئے آپ سے دور ہو گئے ۔(٢)
متوکل امام سے ناراض ہو گیا،اس کے دل میں امام کے خلاف بغض و عناد بھر گیا اور اس نے امام
مخالفت میں مندرجہ ذیل امور انجام دئے :
..............
١۔حما نی سے مراد یحییٰ بن عبد الحمید کو فی ہے جو بغداد میں تھے ،ان کے سلسلہ میں متعدد افراد نے گفتگو کی ہے جیسے سفیان بن عیینہ ابو بکر بن عیاش ،اور وکیع ۔خطیب نے ان کا اپنی کتاب تاریخ بغداد میں تذکرہ کیا ہے اور ان کے بارے میں یحییٰ بن معین سے روایت نقل کی ہے ان کا کہنا ہے:یحییٰ بن عبد الحمید حما نی ثقہ ہیںاور حما نی سے مروی ہے :''معاویہ دین اسلام پر نہیں مرا '' سامراء میں ٢٢٨ ھ میںاُن کا انتقال ہوا ،وہ محدثین میں سے مرنے والے پہلے شخص تھے ،اس کے متعلق الکنی والالقاب، جلد ٢،صفحہ ١٩١ میں آیا ہے ۔
٢ ۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٤١۔
١۔امام کے گھر پر حملہ
متوکل نے چند سپاہیوں کو رات میں امام کے گھر پر حملہ اور آپ کو گر فتار کرنے کا حکم دیا ، سپاہی اچانک امام کے گھر میں داخل ہو گئے اور انھوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ امام بالوں کا کُرتا پہنے اور اُون کی چا در اوڑھے ہوئے تنہا ریگ اور سنگریزوں(١) کے فرش پر رو بقبلہ بیٹھے ہوئے قرآن کی اس آیت کی تلاوت فرمارہے ہیں :
(َمْ حَسِبَ الَّذِینَ اجْتَرَحُوا السَّیِّئَاتِ َنْ نَجْعَلَہُمْ کَالَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَائً مَحْیَاہُمْ وَمَمَاتُہُمْ سَائَ مَا یَحْکُمُونَ )۔(٢)
''کیا برائی اختیار کرلینے والوں نے یہ اختیار کرلیا ہے کہ ہم انھیں ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کے برابر قرار دیدیں گے کہ سب کی موت و حیات ایک جیسی ہو یہ اُن لوگوں نے نہایت بدترین فیصلہ کیا ہے ''۔
سپاہیوں نے اسی انبیاء کے مانند روحا نی حالت میںامام کو متوکل کے سامنے پیش کیامتوکل اس وقت ہاتھ میں شراب کا جام لئے ہوئے دستر خوان پر بیٹھا شراب پی رہا تھا جیسے ہی اُ س نے امام کو دیکھا تو وہ امام کی مذمت میںشراب کا جام امام کو پیش کرنے لگا امام نے اس کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا :''خدا کی قسم میرا گو شت اورخون کبھی شراب سے آلودہ نہیں ہوا ''۔
متوکل نے امام سے کہا :میرے لئے اشعار پڑھ دیجئے ؟
امام نے فرمایا:''میں بہت کم اشعار پڑھتا ہوں'' ۔
متوکل نہ مانا اور اُس نے اصرار کرتے ہوئے کہا ضرور پڑھئے ۔امام علی نقی نے مندرجہ ذیل اشعار پڑھے جن کو سُن کر حزن و غم طاری ہو گیا اور وہ گریہ کرنے لگا :
..............
١۔دائرة معارف بیسویں صدی ہجری، جلد ٦،صفحہ ٤٣٧۔٢۔سورئہ جا ثیہ، آیت ٢١۔
''باتُواعلیٰ قُلَلِ الأَجْبَالِ تَحْرُسُھُمْ
غُلْبُ الرِّجَالِ فَما أَغْنَتْھُمُ الْقُلَلُ
وَاسْتُنْزِلُوا بَعْدَ عِزٍّ عَنْ مَرَاتِبِھِمْ
فَاُوْدِعُوا حُفَراً یَابِئْسَ مانَزَلُوا
ناداھُم صارِخُ مِنْ بَعْدِ مَاقُبِرُوا
أَیْنَ الأَسِرَّةُ وَالتَّیْجَانُ وَالْحِلَلُ؟
أَیْنَ الوُجُوْہُ الَّتِیْ کانَتْ مُنَعّمَةً
مِنْ دُوْنِھَا تُضْرَ بُ الاَسْتَارُ وَالْکِلَلُ؟
فَأَفْصَحَ الْقَبْرُ عَنْھُمْ حِیْنَ سَأَلَھُمْ
تِلْکَ الْوُجُوْہُ عَلَیْھَا الدُّوْدُ یَقْتَتِلُ
قدْطَالما أَکَلُوْا دَھْراً وَمَا شَرِبُوْا
فأَصْبَحُوْا بَعْدَ طُوْلِ الأَکْلِ قَدْ أُکِلُوْا''
'' زمانہ کے رؤسا ء و سلاطین جنھوں نے پہاڑوں کی بلندیوں پرپہروں کے اندر زندگی گزاری تھی ۔
ایک دن وہ آگیا جب اپنے بلند ترین مراکز سے نکال کر قبر کے گڈھے میں گرا دئے گئے جو اُن کی بد ترین منزل ہے ۔
اُن کے دفن کے بعد منادی غیب کی آواز آئی کہ وہ تخت و تاج و خلعت کہاں ہے اور وہ نرم و نازک چہرے کہاں ہیں جن کے سامنے بیش قیمت پردے ڈالے جاتے تھے ؟
تو بعد میں قبر نے زبانِ حال سے پکار کر کہاکہ آج اُن چہروں پر کیڑے رینگ رہے ہیں۔
ایک مدت تک مال دنیا کھاتے رہے اور اب انھیںکیڑے کھا رہے ہیں ''۔
متوکل جھومنے لگا ،اس کا نشہ اُتر گیا،اُس کی عقل نے کام کر نا چھوڑ دیا،وہ زار و قطار رونے لگا،اس نے اپنے پاس سے شراب اٹھوادی ،بہت ہی انکساری کے ساتھ امام سے یوں گویا ہوا :اے ابوالحسن کیا آپ مقروض ہیں ؟
امام نے جواب میں فرمایا:''ہاں ،میں چار ہزار درہم کا مقروض ہوں'' ۔
متوکل نے امام کو چار ہزار درہم دینے کا حکم دیااورامام آپ کے بیت الشرف پر پہنچا دیا ۔ (١)
یہ واقعہ خدا وند عالم کے حرام کردہ تمام گناہوں کا ار تکاب کرنے والے سر کشوں سے امام کے جہاد کرنے کی عکا سی کرتا ہے ،امام نے اس کے ملک اور سلطنت کی کو ئی پروا نہ کرتے ہوئے اس کو نصیحت فر ما ئی
..............
١۔مرآة الجنان ،جلد ٢،صفحہ ٩٦٠۔تذکرة الخواص، صفحہ ٣٦١۔الاتحاف بحب الاشراف ،صفحہ ٦٧۔
اللہ کے عذاب سے ڈرایا ،دنیا سے مفارقت کے بعد کے حالات کا تعارف کرایا،اس کا لشکر ،سلطنت اور تمام لذتیں قیامت کے دن اس سے اس کے افسوس کرنے کو دفع نہیں کر سکتیں ،اسی طرح آپ نے اس کو یہ بھی بتایا کہ انسان کے مرنے کے بعد اُس کے دقیق بدن کا کیا حال ہوگا ،یہ حشرات الارض کا لقمہہوجائے گا ۔
متوکل نے کبھی اس طرح کا مو عظہ سُنا ہی نہیں تھا بلکہ اُ س کے کا نوں میں تو گانے بجانے کی آوازیں گونجاکر تی تھیں ،اس کو اس حال میں مو ت آگئی کہ گانے بجانے والے اس کے ارد گرد جمع تھے ،اُ س نے تو اپنی زند گی میں کبھی خدا سے کئے ہوئے عہد کو یاد کیا ہی نہیں تھا ۔
٢۔امام پراقتصادی پا بندی
متوکل نے امام پر بہت سخت اقتصا دی پا بندی عائد کی ،شیعوں میں سے جو شخص بھی امام کو حقوق شرعیہ یا دوسری رقومات ادا کرے گا اس کو بے انتہاسخت سزا دینا معین کر دیا ،امام اور تمام علوی افراد متوکل کے دور میںاقتصادی لحاظ سے تنگ رہے ،مو منین حکومت کے خوف سے آپ تک حقوق نہیں پہنچا پاتے تھے ، مومنین اپنے حقوق شرعیہ ایک روغن فروش کے پاس پہنچا دیتے تھے اور وہ اُن کو آپ کے لئے بھیج دیا کرتا تھا اور حکومت کو اس کی کو ئی خبر نہیں تھی ،اسی وجہ سے امام کے بعض اصحاب کو دہا نین(روغن فروش ) کے لقب سے یاد کیاگیا ہے ۔(١)
٣۔ امام کو نظر بند کرنا
متوکل نے امام کو نظر بند کرنے اور قید خانہ میں ڈالنے کا حکم دیدیا ،جب آپ کچھ مدت قید خانہ میں رہے تو صقر بن ابی دلف آپ سے ملاقات کیلئے قید خانہ میںآیا ،نگہبان نے اُس کا استقبال کیا اور تعظیم کی ، دربان جانتا تھا کہ یہ شیعہ ہے تو اُ س نے کہا :آپ کا کیا حال ہے اور آپ یہاں کیوں آئے ہیں ؟
خیر کی نیت سے آیاہوں ۔۔۔
شاید آپ اپنے مولا کی خبر گیری کے لئے آئے ہیں ؟
میرے مو لا امیر المو منین ،یعنی متوکل ۔
..............
١۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٢ ۔٢٦٤۔
دربان نے مسکراتے ہوئے کہا :خا موش رہئے ،آپ کے حقیقی اور حق دار مو لا (یعنی امام علی نقی )، مت گھبرائو میں بھی شیعہ ہی ہوں ۔
الحمد للّٰہ ۔
کیا آپ امام کا دیدار کرنا چا ہتے ہیں ؟
ہاں ۔۔۔
ڈاکیہ کے چلے جانے تک تشریف رکھئے ۔۔۔
جب ڈاکیہ چلا گیا تو دربان نے اپنے غلام سے کہا :صقر کا ہاتھ پکڑ کر اُ س کمرہ میں لے جائو جہاں پر علوی قید ہیں اور اِن دونوں کو تنہا چھوڑ دینا ،غلام اُن کا ہاتھ پکڑ کر امام کے پاس لے گیا ،امام ایک چٹا ئی پر بیٹھے ہوئے تھے اور وہیں پر آپ کے پاس قبر کھدی ہو ئی تھی متوکل نے اس سے امام کوڈرانے کا حکم دیا، امام نے صقر سے فرمایا:اے صقر کیسے آنا ہوا ؟
صقر :میں آپ کی خبر گیری کے لئے آیا ہوں ۔
صقر امام کے خوف سے گریہ کرنے لگے تو امام نے ان سے فرمایا :''اے صقر مت گھبرائو وہ ہم کو کو ئی گزند نہیں پہنچا سکتا ۔۔۔''۔
صقر نے ہمت با ندھی ،خدا کی حمد و ثنا کی ،اس کے بعد امام سے کچھ شرعی مسا ئل دریافت کئے اور امام نے ان کے جوابات بیان فرمائے اور صقر امام کو خدا حافظ کرکے چلے آئے ۔(١)
..............
١۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٦٣۔٢٦٤۔
|