خوشبوئے حیات
 

حضر ت ا ما م علی نقی علیہ ا لسلا م
امام علی نقی ائمہ ہدیٰ کی دسویںکڑی ہیں آپ کنوز اسلام اور تقوی وایمان کے ستاروں میں سے ہیں ،آپ نے طاغوتی عباسی حکمرانوںکے سامنے حق کی آوازبلندکی،اورآپ نے اپنی زندگی کے ایک لمحہ میں بھی ایسی مادیت قبول نہیںکی جس کاحق سے اتصال نہ ہو،آپ نے ہرچیزمیں اللہ کی اطاعت کی نشاندہی کرائی۔۔۔ہم ذیل میں آپ کے بارے میں مختصر طورپرکچھ بیان کر رہے ہیں:

ولادت باسعادت
اس مولود مبارک سے دنیاروشن ومنور ہوگئی،آپ مقام بصریا(١)میںپیداہوئے، امام محمد تقی نے اس مولود مبارک کی ولادت با سعادت پرتمام شرعی رسومات انجام دلوائیں،داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی اور ائمہ ہدیٰ کی اتباع کرتے ہوئے عقیقہ میں گوسفند ذبح کیا۔
آپ کی ولادت باسعادت ٢٧ ذی الحجہ ٢١٢ ھ میں ہوئی۔

اسم گرامی
حضرت امام محمد تقی نے تبرکاً آپ کا اسم مبارک اپنے جدبزرگوارامیرالمومنین علی کے نام پر علی رکھا،چونکہ آپ فصاحت وبلاغت،جہاداوراللہ کی راہ میں مصائب برداشت کرنے میںاُن (امام علی )کے مشابہ تھے اورآپ کی کنیت ابوالحسن رکھی،جس طرح آپ کے کریم القاب مرتضیٰ،عالم اور فقیہ وغیرہ ہیں ۔
..............
١۔ بصریاوہ دیہات ہے جس کو امام موسیٰ بن جعفر نے بسایا تھا جو مدینہ سے تین میل دور ہے ۔

آپ کی پرورش
امام علی نقی نے اس خا ندان میں پرورش پائی جو لو گو ں کے ما بین ممتاز حیثیت کا حا مل تھا ان کا سلوک منور و روشن اور ان کے آداب بلندو با لا تھے، ان کا چھو ٹا بڑے کی عزت اور بڑا چھو ٹے کا احترا م کر تا تھا ،مو رخین کے نقل کے مطابق اس خاندان کے آداب یہ ہیں: حضرت امام حسین اپنے بھا ئی امام حسن کی جلالت اورتعظیم کی خا طران کے سا منے کلا م نہیں کر تے تھے، روا یت کی گئی ہے کہ امام زین العابدین سید السا جدین اپنی تر بیت کر نے وا لیوں کے سا تھ ان کے التماس کر نے کے با وجود کھا نا نوش نہیں فر ما تے تھے اور ان کو اس با ت کے ڈر سے منع کر دیتے تھے کہ کہیں میری نظر اس کھا نے پر نہ پڑجا ئے جس پر مجھ سے پہلے ان کی نظر پڑگئی ہو تو اس طرح اُ ن کے نا فر ما ن قرارپا ئیں گے دنیا میں وہ کو نسا ادب ان آداب کے مشا بہ ہو سکتا ہے جو انبیا ء کے آدا ب ان کے بلندو بالا سلوک اور ان کے بلند اخلا ق کی حکا یت کر رہا ہے ؟
امام علی نقی علیہ السلام نے اپنے والد بزر گوار حضرت امام محمد تقی کے زیر سایہ پر ور ش پائی جو فضا ئل و آداب کی کائنات تھے، آپ ہی نے اپنے فر زند پر اپنی رو ح اخلا ق اور آداب کی شعا عیں ڈالیں ۔

بچپن میں علم لدنی کے ما لک آپ کی غیرمعمولی استعداد
حضرت امام علی نقی علیہ السلام اپنے عہد طفولیت میں بڑے ذہین اور ایسے عظیم الشان تھے جس سے عقلیں حیران رہ جا تی ہیں یہ آپ کی ذکا وت کا ہی اثر تھا کہ معتصم عبا سی نے امام محمد تقی کو شہیدکر نے کے بعد عمر بن فر ج سے کہا کہ وہ امام علی نقی جن کی عمر ابھی چھ سا ل اور کچھ مہینے کی تھی ان کے لئے ایک معلم کا انتظام کر کے یثرب بھیج دے اس کو حکم دیا کہ وہ معلم اہل بیت سے نہا یت درجہ کا دشمن ہو، اس کو یہ گمان تھا کہ وہ معلم امام علی نقی کو اہل بیت سے دشمنی کر نے کی تعلیم دے گا ،لیکن اس کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ائمہ طا ہر ین بندوں کے لئے خدا کاتحفہ ہیںجن کواس نے ہرطرح کے رجس و پلیدی سے پاک قراردیا ہے ۔
جب عمر بن فر ج یثر ب پہنچا اس نے وہاں کے وا لی سے ملا قا ت کی اور اس کو اپنا مقصد بتایا تو اس نے اس کا م کیلئے جنیدی کا تعا ر ف کر ا یا چو نکہ وہ علوی سا دات سے بہت زیا دہ بغض و کینہ اور عدا وت رکھتا تھا ۔ اس کے پاس نمائندہ بھیجا گیاجس نے معتصم کا حکم پہنچا یا تو اس نے یہ با ت قبول کر لی اور اس کے لئے حکومت کی طر ف سے تنخواہ معین کر دی گئی اور جنیدی کو اس امر کی ہدا یت دیدی گئی کہ ان کے پاس شیعہ نہ آنے پائیں اور ان سے کو ئی را بطہ نہ کر پا ئیں، وہ امام علی نقی کو تعلیم دینے کے لئے گیا لیکن امام کی ذکا وت سے وہ ہکا بکا رہ گیا ۔ محمد بن جعفر نے ایک مر تبہ جنیدی سے سوال کیا : اس بچہ (یعنی امام علی نقی )کا کیا حا ل ہے جس کو تم ادب سکھا ر ہے ہو ؟
جنیدی نے اس کا انکار کیااور امام کے اپنے سے بزر گ و بر تر ہو نے کے سلسلہ میں یوں گو یا ہو ا: کیا تم ان کو بچہ کہہ رہے ہو !!اور ان کو سردار نہیں سمجھ ر ہے ہو، خدا تمہا ری ہدا یت کر ے کیا تم مدینہ میں کسی ایسے آدمی کو پہچا نتے ہو جو مجھ سے زیا دہ ادب و علم رکھتا ہو ؟
اس نے جوا ب دیا :نہیں
سنو !خدا کی قسم جب میں اپنی پوری کو شش کے بعد ان کے سا منے ادب کا کو ئی با ب پیش کرتا ہوں تو وہ اس کے متعلق ایسے ابواب کھول دیتے ہیں جن سے میں مستفید ہوتا ہوں ۔ لوگ یہ گمان کر تے ہیں کہ میں ان کو تعلیم دے رہا ہوں لیکن خدا کی قسم میں خود ان سے تعلیم حا صل کر ر ہا ہو ں ۔
زما نہ گذر تا رہا، ایک روز محمد بن جعفر نے جنیدی سے ملا قا ت کی اور اس سے کہا :اس بچہ کا کیا حا ل ہے ؟
اس با ت سے اس نے پھر نا پسندیدگی کا اظہار کیا اور امام کی عظمت کا اظہا رکر تے ہو ئے کہا :کیا تم اس کو بچہ کہتے ہو اور بزر گ نہیں کہتے جنیدی نے انھیںایسا کہنے سے منع کر تے ہوئے اس سے کہا : ایسی بات نہ کہو خدا کی قسم وہ اہل زمین میں سب سے بہتراور خدا کی مخلوق میں سب سے بہترہیں،میں نے بسا اوقات ان کے حجرے میں حاضرہوکران کی خدمت میں عرض کیا!یہاں تک کہ میںان کوایک سورہ پڑھاتا تو وہ مجھ سے فرماتے :''تم مجھ سے کون سے سورہ کی تلاوت کرانا چاہتے ہو؟''،تومیں ان کے سامنے ان بڑے بڑے سوروںکاتذکرہ کرتاجن کوانھوںنے ابھی تک پڑھا بھی نہیں تھاتو آپ جلدی سے اس سورہ کی ایسی صحیح تلاوت کرتے جس کو میںنے اس سے پہلے نہیں سناتھا،آپ دائودکے لحن سے بھی زیادہ اچھی آواز میں اس کی تلاوت فرماتے ،آپ قرآن کریم کے آغاز سے لے کر انتہا تک کے حافظ تھے یاآپ کوسارا قرآن حفظ تھااورآپ اس کی تاویل اور تنزیل سے بھی واقف تھے ۔
جنیدی نے مزیدیوںکہا:اس بچہ نے مدینہ میں کالی دیوارروںکے مابین پرورش پائی ہے اس علم کبیر کی ان کوکون تعلیم دے گا؟اے خدائے پاک وپاکیزہ ومنزہ!!جنیدی نے اہل بیت کے متعلق اپنے دل سے بغض وکینہ وحسد وعدوات کونکال کرپھینک دیااوران کی محبت وولایت کادم بھرنے لگا۔(١)
اس چیزکی اس کے علاوہ اور کوئی وجہ نہیں بیان کی جاسکتی کہ مذہب تشیع کاکہنا ہے کہ خدا نے ائمہ طاہرین کوعلم وحکمت سے آراستہ کیااوران کو وہ فضیلت وبزرگی عطاکی جودنیامیںکسی کونہیں دی ہے۔

علویوںکاآپ کی تعظیم کرنا
امام علی نقی علوی سادات کی تعظیم وتکریم کے احاطہ میں رہے ،انھوں نے ہی آپ کے بلند مرتبہ کو پہچانا،آپ کوواجب الطاعةامام تسلیم کیاہے (یعنی جن کی اطاعت کرناواجب قراردیاگیاہے) راویوںنے امام موسیٰ بن جعفر کے فرزندزیدسے روایت کی ہے، آپ چھوٹے سے سن میں ہی بہت بڑے تیرانداز تھے، زید امام کے نگہبان عمربن فرج سے اجازت لے کرامام سے ملاقات کرنے کیلئے جاتے ،وہ ان کو اجازت دیتا تو داخل ہوتے اورامام کے سامنے بڑی ہی تعظیم وتکریم کے ساتھ ادب سے بیٹھتے ،ایک مرتبہ جب آپ امام سے ملاقات کیلئے گئے تو امام تشریف نہیںرکھتے تھے توآپ(زید) خودمجلس کی صدارت کرنے لگے،جب امام علی نقی تشریف لائے توزیداپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے اوران کواپنی جگہ بٹھایااورامام علی نقی کاچھوٹاسن ہونے کے باوجودآپ ان کے سامنے بڑے ہی ادب واحترام کے ساتھ بیٹھ گئے ،گویاکہ آپ (زید)امام کی عظمت اور امام کے واجب الطاعةہونے کے معترف تھے۔ (٢)
حضرت امام علی نقی کی تعظیم صرف علوی سادات ہی نہیںکرتے تھے بلکہ ہرطبقہ کاشخص آپ کی تعظیم وتکریم کرتا تھا ،محمد بن حسن اشترسے روایت ہے:میں اپنے والدبزرگوارکے ساتھ لوگوںکے مجمع میں متوکل کے دروازے پرتھاحالانکہ مجمع میں طالبی،عباسی اورجعفری خاندان کے افراد تھے ،ہم لوگ کھڑے ہی تھے کہ اتنے میںابوالحسن تشریف لائے تومجمع آپ کی عزت وجلالت کی وجہ سے ہٹ گیا ،یہاںتک کہ آپ محل میںداخل ہوگئے ۔بعض بغض وکینہ رکھنے والوں نے کہا:اس بچہ کو کیوںراستہ دے رہے ہو؟وہ ہم سے اشرف اور سن میں ہم سے بڑانہیںہے،خداکی قسم جب یہ باہر نکلیںگے تو ہم ان کوراستہ نہیںدیںگے۔۔۔
..............
١۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ٢٤۔٢٦۔
٢۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ٢٦۔
مومن ابوہاشم جعفری نے یوںجواب دیا:خداکی قسم تم ان کے سامنے ذلت و حقارت سے پا برہنہ چلوگے ۔
جب امام محل سے باہرتشریف لائے تولوگوںکی تکبیروتہلیل کی آوازیںبلندہوئیںاور سب نے آپ کااحترام واکرام کیا،ابوہاشم نے مجمع کی طرف متوجہ ہوکرکہا:کیاتم یہ سوچتے ہوکہ ان کا کوئی احترام نہیں کرے گا؟
وہ امام کی بناء پر اپنی حیرت وپسندیدگی کوقابومیںنہ رکھ سکے اورکہنے لگے :خداکی قسم ہم بے قابوہوکرپیادہ ہوگئے ۔(١)
اسی طرح امام کی شخصیت نے لوگوںکے قلوب کوتعظیم کے لئے بھردیاتھا،آپ کی جلالت وبزرگی کاجھک کر استقبال کرتے تھے ،آپ کی یہ ہیبت کسی ملک وسلطنت کی وجہ سے نہیںتھی بلکہ یہ اللہ کی اطاعت اور دنیامیںاس کازہدوتقویٰ اختیارکرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ،یہ آپ کی اس عظیم ہیبت کاہی نتیجہ تھاکہ جب آپ سرکش وباغی متوکل کے محل میں داخل ہوتے تھے تومحل کاہرآدمی آپ کی جلالت وبزرگی کی تعظیم کرتے ہوئے آپ کی خدمت کرنے کے لئے کھڑاہوجاتا وہ آپ کی خاطرپردے ہٹانے ،دروازے کھولنے اور اس طرح کے دوسرے محترمانہ امورانجام دینے میں ایک دوسرے پرسبقت کرتے تھے۔(٢)

آپ کاجودوکرم
حضرت امام محمد تقی کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ لوگوںمیںسب سے زیادہ سخی اورسب سے نیکی و احسان کرنے والے تھے۔آپ کے جودوکرم کے بعض واقعات ذیل میںدرج کئے جاتے ہیں:
١۔اسحاق جلّاب سے روایت ہے:میں نے یوم الترویہ (٨ ذی الحجہ)امام علی نقی کے لئے بہت زیادہ گوسفندخریدلے جن کوآپ نے تمام دوستوںواحباب (٣)میں تقسیم فرمادیا۔شیعوںکے بزرگ
..............
١۔بحارالانوار، جلد ١٣، صفحہ ١٣١۔ اعیان الشیعہ ،جلد ٤ ،صفحہ ٢٧٥،دوسرا حصہ ۔
٢۔بحارالانوار ،جلد ١٣، صفحہ ١٢٩۔
٣۔حیاةالامام علی نقی ،صفحہ ٢٤٣۔
افراد کی جماعت کاایک وفدآپ کے پاس پہنچاجس میں ابوعمروعثمان بن سعید، احمد بن اسحاق اشعری اور علی بن جعفر ہمدانی تھے ،احمد بن اسحق نے آپ سے اپنے مقروض ہونے کے متعلق عرض کیا توآپ نے اپنے وکیل عمروسے فرمایا:''ان کواورعلی بن جعفر کوتین تین ہزاردیناردیدو''،آپ کے وکیل نے یہ مبلغ ان دونوں کوعطاکردی۔
ابن شہرآشوب نے اس علوی کرامت بیان پر یہ حاشیہ لگایا:(یہ وہ معجزہ ہے جس پر بادشاہوں کے علاوہ اور کوئی قادر نہیں ہوسکتا اور ہم نے اس طرح کی عطا وبخشش کے مثل کسی سے نہیں سنا ہے ۔(١)
امام نے ان بزرگ افراد پر اس طرح کی بہت زیادہ جودوبخشش کی اور انہیں عیش وعشرت میں رکھااور یہ فطری بات ہے کہ بہترین بخشش کسی نعمت کا باقی رکھناہے ۔
٢۔ابوہاشم نے امام سے اپنی روزی کی تنگی کا شکوہ کیا اور امام نے آپ پر گذرنے والے فاقوںکا مشاہدہ فرمایاتوآپ نے اس کے رنج وغم کودورکرنے کیلئے اس سے فرمایا!''اے ابوہاشم! تم خودپر خدا کی کس نعمت کاشکریہ اداکرناچاہتے ہو؟اللہ نے تجھے ایمان کارزق دیااوراس کے ذریعہ تیرے بدن کوجہنم کی آگ پرحرام قراردیا،اس نے تجھے عافیت کارزق عطاکیاجس نے اللہ کی اطاعت کرنے پرتیری مددکی اور تجھے قناعت کارزق عطاکیاجس نے تجھے اصراف سے بچایا''۔
پھر آپ نے اس کو سو درہم دینے کا حکم صادر فرمایا۔(٢)
امام علی نقی نے لوگوں کو جو نعمتیں دی ہیںیہ وہ بہت بڑی نعمتیں ہیںجو اللہ نے اپنے بندوں کوعطا کی ہیں ۔

امام کا اپنے مزرعہ (زراعت کرنے کی جگہ )میں کام کرنا
امام اپنے اہل و عیال کی معیشت کیلئے مزرعہ میں کام کر تے تھے ،علی بن حمزہ سے روایت ہے :
میں نے امام علی نقی کو مزرعہ میں کام کرتے دیکھا جبکہ آپ کے قدموں پر پسینہ آرہا تھا ۔میں نے آپ کی خدمت با برکت میں عرض کیا :میری جان آپ پر فدا ہو! کام کرنے والے کہاں ہیں ؟
..............
١۔المناقب، جلد٤، ص٤٤١۔
٢۔امالی صدوق ،صفحہ ٤٩٨۔
امام نے بڑے ہی فخر سے اس کے اعتراض کی تنقید کر تے ہوئے یوں فرمایا: ''زمین پربیلچہ سے کام ان لوگوں نے بھی کیاجو مجھ سے اور میرے باپ سے بہتر تھے ؟''۔
وہ کون تھے ؟
''رسول اللہ ۖ ،امیر المو منین اور میرے آباء سب نے اپنے ہاتھوں سے کام کیا ،یہ انبیاء مرسلین ،اوصیاء اور صالحین کا عمل ہے ''۔(١)
ہم نے یہ واقعہ اپنی کتاب ''العمل و حقوق العامل فی الاسلام ''میں ذکر کیا ہے ۔اسی طرح ہم نے کام کی اہمیت پر دلالت کرنے والے دوسرے واقعات کا تذکرہ بھی کیا ہے اور یہ بھی بیان کیا ہے کہ یہ انبیاء اور صالحین کی سیرت ہے ۔

آپ کا زہد
حضرت امام علی نقی نے اپنی پوری زند گی میں زہد اختیار کیا ،اور دنیا کی کسی چیز کو کو ئی اہمیت نہیں دی مگر یہ کہ اس چیز کا حق سے رابطہ ہو ،آپ نے ہر چیز پر اللہ کی اطاعت کو ترجیح دی۔ راویوں کا کہنا ہے کہ مدینہ اور سامراء میں آپ کے مکان میں کو ئی چیز نہیں تھی ،متوکل کی پولس نے آپ کے مکان پر چھاپا مارا اور بہت ہی دقیق طور پر تلاشی لی لیکن ان کو دنیا کی زند گی کی طرف ما ئل کر نے والی کو ئی چیز نہیں ملی ،امام ایک کھلے ہوئے گھر میں بالوں کی ایک ردا پہنے ہوئے تھے ،اور آپ زمین پر بغیر فرش کے ریت اور کنکریوں پر تشریف فرما تھے ۔
سبط احمد جوزی کا کہنا ہے : بیشک امام علی نقی دنیا کی کسی چیز سے بھی رغبت نہیں رکھتے تھے ، آپ مسجد سے اس طرح وابستہ تھے جیسے اس کالازمہ ہوں ،جب آپ کے گھر کی تلاشی لی تو اس میں مصاحف ، دعائوں اور علمی کتابوں کے علاوہ اور کچھ نہیں پایا ۔
حضرت امام علی نقی اپنے جد امیرالمو منین کی طرح زندگی بسر کر تے تھے جو دنیا میں سب سے زیادہ زاہد تھے ،انھوں نے دنیا کو تین مرتبہ طلاق دی تھی جس کے بعد رجوع نہیں کیا جاتا ہے ،اپنی خلافت کے دوران
..............
١۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٤٦۔
انھوں نے مال غنیمت میں سے کبھی اپنے حصہ سے زیادہ نہیں لیا ،آپ کبھی کبھی بھوک کی وجہ سے اپنے شکم پر پتھر باندھتے تھے،وہ اپنے ہاتھ سے لیف خرما کی بنا ئی ہو ئی نعلین پہنتے تھے، اسی طرح آپ کا حزام ''تسمہ '' بھی لیف خرما کاتھا ،اسی طریقہ پر امام علی نقی اور دوسرے ائمہ علیہم السلام گامزن رہے انھوں نے غریبوں کے ساتھ زندگی کی سختی اور سخت لباس پہننے میں مواسات فرما ئی ۔

آپ کا علم
حضرت امام علی نقی علمی میدان میں دنیا کے تمام علماء سے زیادہ علم رکھتے تھے ،آپ تمام قسم کے علوم و معارف سے آگاہ تھے ،آپ نے حقائق کے اسرار اور مخفی امور کو واضح کیا ،تمام علماء و فقہاء شریعت اسلامیہ کے پیچیدہ اور پوشیدہ مسا ئل میں آپ ہی کے روشن و منور نظریے کی طرف رجوع کرتے تھے ،آپ اور آپ کے آباء و اجداد کا سخت دشمن متوکل بھی جس مسئلہ میں فقہا میں اختلاف پاتا تھا اس میں آپ ہی کی طرف رجوع کر تا تھا اور سب کے نظریات پر آپ کے نظریہ کو مقدم رکھتا تھاہم ذیل میں وہ مسائل پیش کررہے ہیں جن میں متوکل نے امام کی طرف رجوع کیا ہے :
١۔متوکل کا ایک نصرا نی کاتب تھا جس کی بات کو وہ بہت زیادہ مانتا تھا ،اس سے خالص محبت کرتا تھا ،اس کا نام لیکر نہیں پکارتا تھا بلکہ اس کو ابو نوح کی کنیت سے آواز دیا کر تاتھا، فقہا ء کی ایک جماعت نے اس کو ابو نوح کی کنیت دینے سے منع کرتے ہوئے کہا :کسی کافر کومسلمان کی کنیت دینا جا ئز نہیں ہے ، دوسرے ایک گروہ نے اس کو کنیت دینا جا ئز قرار دیدیا،تو اس سلسلہ میں متوکل نے امام سے استفتا کیا۔امام نے اس کے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعدیہ آیت تحریر فرما ئی :(تَبَّتْ یَدَا َبِی لَہَبٍ وَتَبَّ )،(١) ''ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیں اور وہ ہلاک ہو جا ئے ''۔امام علی نقی نے آیت کے ذریعہ کافرکی کنیت کے جواز پردلیل پیش فرما ئی اور متوکل نے امام کی رائے تسلیم کر لی ۔(٢)
٢۔متوکل نے بیماری کی حالت میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے نذر کی کہ اگر میں اچھا ہو گیا تو درہم کثیرصدقہ دونگا ،جب وہ اچھا ہو گیا تو اُس نے فقہا ء کو جمع کر کے اُ ن سے صدقہ کی مقدار کے سلسلہ میں سوال
..............
١۔سورئہ مسد، آیت ١۔
٢۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ٢٣٩۔
کیا فقہاء میں صدقہ دینے کی مقدار کے متعلق اختلاف ہو گیا ،متوکل نے اس سلسلہ میں امام سے فتویٰ طلب کیا تو امام نے جواب میں ٨٣دینار صدقہ دینے کے لئے فرمایا ،فقہا ء نے اس فتوے سے تعجب کا اظہار کیا ، انھوں نے متوکل سے کہا کہ وہ امام سے اس فتوے کا مدرک معلوم کرے تو امام نے اُن کے جواب میں فرمایا : خداوند عالم فرماتا ہے :( لَقَدْ نَصَرَکُمْ اﷲُ فِی مَوَاطِنَ کَثِیرَةٍ )، (١)''بیشک اللہ نے کثیر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے ''اور ہمارے سب راویوں نے روایت کی ہے کہ سرایا کی تعداد ٨٣ تھی ۔(٢)
امام نے جواب کے آخر میں مزید فرمایا :''حب کبھی امیر المو منین اچھے نیک کام میں اضافہ فرماتے تھے تو وہ اُن سب کے لئے دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ منفعت آور ہوتا تھا ''۔(٣)
٣۔اور جن مسا ئل میں متوکل نے امام کی طرف رجوع کیا اُن میں سے ایک مسئلہ یہ ہے کہ متوکل کے پاس ایک ایسے نصرانی شخص کو لایا گیا جس نے مسلمان عورت سے زنا کیا تھا ،جب متوکل نے اُس پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا تو وہ مسلمان ہو گیا ،یحییٰ بن اکثم نے کہا :اس کے ایمان کے ذریعہ اُ س کا شرک اور فعل نابودہو گیا ،بعض فقہا ء نے اُس پر تین طرح کی حد جاری کرنے کا فتویٰ دیا ،بعض فقہا ء نے اس کے خلاف فتویٰ دیا ،تو متوکل نے یہ مسئلہ امام علی نقی کی خدمت میں پیش کیا،آپ نے جواب میں فرمایا کہ اس کو اتنا مارا جائے کہ وہ مرجائے ،یحییٰ اور بقیہ فقہاء نے اس کا انکار کرتے ہوئے کہا :ایسا کتاب و سنت میں نہیں آیا ہے ۔ متوکل نے ایک خط امام کی خدمت میں تحریر کیا جس میں لکھا : مسلمان فقہا اس کا انکار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب خدا اور سنتِ رسول میں نہیں آیا ہے۔ لہٰذا آپ ہمارے لئے یہ بیان فرما دیجئے کہ آپ نے یہ فتویٰ کیوں دیا ہے کہ اس کو اتنا مارا جائے جس سے وہ مرجائے ؟
امام نے جواب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کے بعد یہ آیت تحریر فر ما ئی :
(فَلَمَّاجَائَتْہُمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَرِحُوابِمَا عِنْدَہُمْ مِنْ الْعِلْمِ وَحَاقَ بِہِمْ مَاکَانُوا بِہِ یَسْتَہْزِئُون فَلَمَّارََوْا بَْسَنَا قَالُواآمَنَّا بِاﷲِ وَحْدَہُ وَکَفَرْنَابِمَاکُنَّا بِہِ مُشْرِکِینَ )۔(٤)
..............
١۔سورئہ توبہ، آیت ٢٥۔
٢۔تاریخ اسلام ِذہبی ،چھبیسویں طبقہ کے رجال ۔تذکرة الخواص ،صفحہ ٣٦٠۔
٣۔المنتظم، جلد ١٢، صفحہ ٢٦۔
٤۔سورئہ غافر، آیت ٨٣۔٨٤۔
''پھر جب اُن کے پاس رسول معجزات لیکر آئے تواپنے علم پر ناز کرنے لگے ،اور نتیجہ میں جس بات کا مذاق اڑارہے تھے اسی نے اپنے گھیرے میں لے لیا ہے ۔پھر جب انھوں نے ہمارے عذاب کو دیکھا تو کہنے لگے کہ ہم خدائے یکتا پر ایمان لائے ہیں اور جن باتوں کا شرک کیا کرتے تھے سب کا انکار کررہے ہیں ''۔
اور متوکل نے امام کا نظریہ تسلیم کر لیا۔(١)

آپ کے اقوال زرّیں
امام علی نقی نے کچھ نورانی کلمات کا مجموعہ بیان فرمایا ہے جس میں مختلف تربیتی اور فطری اسباب بیان فرمائے ہیں جو عالم اسلام میں تفکر کی سب سے بہترین دولت شمار کئے جاتے ہیں :
١۔امام علی نقی کا فرمان ہے: ''خیر (اچھا ئی )سے بہتر خود اس کا انجام دینے والا ہے ،جمیل سے صاحب جمال خود اس کا کہنے والا ہے ،اور علم عمل کرنے والے ترجیح رکھتا ہے۔۔۔ ''۔
امام نے اِن کلمات کے ذریعہ اُن اشخاص کی توصیف کی ہے جو اِن صفات سے آراستہ ہیں :
الف:نیک کام کرنے والا اخلاقی ارزشوں کے لحاظ سے اچھا ئی سے بہتر ہے ۔
ب۔اچھی بات کہنے والا ،چونکہ یہ شخص لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے ۔
ج۔اپنے علم پر عمل کرنے والا ،علم پر ترجیح رکھتا ہے ،بیشک علم عمل کے لئے وسیلہ اور تہذیب چاہتا ہے ،جب علم پر عمل ہوتا ہے تو اس کی رسالت کا حق ادا ہوجاتا ہے ،علم محفوظ ہوجاتا ہے ،اس کی شان و منزلت بڑھ جا تی ہے اور یہ علم سے بہتر ہے ۔
٢۔امام علی نقی کا فرمان ہے:کرامت سے نا آشنا شخص کی بہتری اس میں ہے کہ وہ ذلیل ہوجائے ''۔
یہ کلمہ کتنا زیبا ہے کیونکہ جو شخص کرامت انسا نی سے نا آشنا ہے اور انسا نی اقدار کی خبر نہیں رکھتا اس کی بہتری اسی میں ہے کہ اس سے رو گردانی کی جائے ۔
٣۔امام علی نقی کا فرمان ہے:''سب سے بڑا شر بری عادت ہے ''۔
..............
١۔شرح شافیہ مؤلف ابو فراس ،جلد ٢،صفحہ ١٦٧۔
بیشک سب سے بڑی مصیبت بری عادت ہے، اس سے انسان عظیم شرّ میں مبتلا ہوجاتا ہے جس سے متعدد مصیبتیں اور مشکلیں پیدا ہو جا تی ہیں ۔
٤۔امام علی نقی کا فرمان ہے:''جہالت اور بخل سب سے بری عا دتیں ہیں۔۔۔''۔
اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جہالت اور بخل بری عا دتیں ہیں ،یہ دونوں انسان کو اس کے پروردگار سے دور کردیتی ہیں اوروہ اُن دونوں کے ساتھ حیوان سائم کی طرح زندگی بسر کرتا ہے ۔
٥۔امام علی نقی کا فرمان ہے:''نعمتوں کا انکار سستی کی علامت ہے اور ردّو بدل کا سبب ہوتا ہے ''۔
بیشک جس نے کفرانِ نعمت کیا اور نعمتوں کا شکر ادا نہیں کیا وہ کا ہل ہے ،منعم کے دائرہ ٔ اطاعت سے خارج ہے ۔جیسا کہ نعمتوںپراکڑنانعمتوںکے زوال کا کا سبب ہوتا ہے ۔
٦۔امام علی نقی کا فرمان ہے:''لڑا ئی جھگڑا پرانی صداقت ''بھا ئی چارگی ''کو ختم کر دیتا ہے مورد اعتماد معاملات کو منحل کر دیتا ہے ،جھگڑے کی کم سے کم حد یہ ہے کہ ایک دوسرے پر برتری طلب کی جائے ، جبکہ برتری طلبی جدا ئی کے اسباب کی بنیاد ہے۔۔ ۔''۔(١)
مراء مجادلہ کو کہتے ہیں جو صداقت کی ریسمان کو توڑ دیتا ہے ،محبت و مودّت کو منحل کر دیتا ہے اور دونوں کے درمیان بغض و عداوت کورائج کر دیتا ہے ۔

امام کے امتحان کے لئے متوکل کا ابن سکیت کو بلانا
متوکل نے ایک بہت بڑے عالم دین یعقوب بن اسحاق جو ابن سکیت کے نام سے مشہور تھے کو امام علی نقی سے ایسے مشکل مسائل پوچھنے کی غرض سے بلایا جن کو امام حل نہ کر سکیں اور اُ ن کے ذریعہ سے امام کی تشہیر کی جا سکے ۔ابن سکیت امام علی نقی کا امتحان لینے کیلئے مشکل سے مشکل مسائل تلاش کرنے لگا کچھ مدت کے بعد وہ امام سے سوالات کرنے کیلئے تیار ہو گیا تو متوکل نے اپنے قصر (محل )میں ایک اجلاس بلایاتو ابن سکیت نے امام علی نقی سے یوں سوال کیا :
اللہ نے حضرت موسیٰ کو عصا اور ید بیضا دے کر کیوں مبعوث کیا ،حضرت عیسیٰ کو اندھوں ، برص کے
..............
١۔حیاة الامام علی نقی ، صفحہ ١٥٨۔١٦٠۔
مریض اور مردوں کو زندہ کرنے کے لئے کیوں مبعوث کیا، اور حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کو قرآن اور تلوار دے کر کیوں مبعوث کیا ؟
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے جواب میں یوں فرمایا :''اللہ نے حضرت مو سیٰ کو عصا اور ید بیضا دے کر اس لئے بھیجا کہ ان کے زمانہ میں جادو گروں کا بہت زیادہ غلبہ تھا ،جن کے ذریعہ ان کے جادو کومغلوب کردے، وہ حیرا ن رہ جا ئیںاور ان کے لئے حجت ثابت ہو جا ئے ،حضرت عیسیٰ کواندھوں اور مبروص کوصحیح کرنے اور اللہ کے اذن سے مردوں کو زندہ کرنے کیلئے مبعوث کیا کیونکہ ان کے زمانہ میں طبابت اور حکمت کا زور تھا، خدا وند عالم نے آپ کو یہ چیزیں اس لئے عطا کیں تاکہ ان کے ذریعہ اُن کو مغلوب کردیں اور وہ حیران رہ جا ئیں ،اور حضرت محمد ۖ کوقرآن اور تلوار دے کر اس لئے مبعوث کیا کیونکہ آپ ۖ کے زمانہ میں تلوار اور شعر کا بہت زیادہ زور تھااور وہ نورانی قرآن کے ذریعہ ان کے اشعار پر غالب آگئے اور زبردست تلوار کے ذریعہ ان کی تلواروں کو چکا چوندکردیا اور ان پر حجت تمام فرما دی ۔۔۔''۔
امام نے اپنے حکیمانہ جواب کے ذریعہ ان معجزوں کے ذریعہ انبیاء کی تائید فرما ئی جو اس زمانہ کے لحاظ سے بہت ہی مناسب تھے، اللہ نے اپنے رسول حضرت مو سیٰ کی عصا دے کر تائید فرما ئی جو ایک خطرناک اژدھا بن کر جادو گر وں کی اژدھے کی شکل میں بنا ئی ہوئی رسیوں اور لکڑیوںکو نگل گیاتو وہ مو سیٰ کی طرح کی طرح معجزہ لانے سے عاجز آگئے اور وہ علی الاعلان موسیٰ کی نبوت پر ایمان لے آئے ،اسی طرح اللہ نے آپ کو ید بیضاء عطا کیا تھاجونور اورروشنی میں سورج کے مثل تھااور یہ معجزہ آپ کی سچا ئی کی ایک نشانی تھا۔
لیکن پروردگار عالم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اندھوں کو بینائی ،مبروص کو شفااور مردوں کو زندہ کرنے کی تائید فرما ئی کیونکہ آپ کے زمانہ میں طب کا زور اوج کمال پر تھالہٰذا اطباء آپ کا مثل لانے سے عاجز آگئے ۔
پروردگار عالم نے خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کی قرآن کریم کے جاودانہ فصیح و بلیغ معجزہ کے ذریعہ تا ئید فرما ئی جس میں انسان کی کرامت اور اس کی امن دار حیات کو منظم طریقہ سے بیان کیا گیا ہے ، یہاں تک کہ بلغائے عرب اس کے ہم بحث اور اس کا مثل نہ لا سکے ۔۔۔جیسا کہ اللہ نے امیر المو منین علی کی کاٹنے والی تلواردے کر تا ئید فرما ئی تھی جو عرب کے سر کشوں کے مشرکین کے سروں کو کا ٹتی جاتی تھی ،اور بڑے بڑے بہادر اس کا مقابلہ کرنے سے ڈرتے ہوئے کہا کرتے تھے :علی کی تلوار کے علاوہ جنگ سے فرار کرنا ننگ ہے وہ اس کو ندتی ہو ئی بجلی کے مانند تھی جومشرکین اور ملحدین کے ستونوں کوتباہ و برباد کر دیتی تھی ۔
بہر حال ابن سکیت نے امام سے سوال کیا کہ حجت کسے کہتے ہیں ؟آپ نے فرمایا :''العقل یُعرفُ بہ الکاذبَ علی اللّٰہ فیُکذَّبُ''۔
ابن سکیت امام کے ساتھ مناظرہ کرنے سے عاجز رہ گیایحییٰ بن اکثم نے اس کو پکارا تو اس نے جواب دیا:ابن سکیت اور اس کے مناظروں کو کیا ہو گیا ہے یہ صاحب ِ نحو ،شعر اور لغت تھا۔(١ )
امام اپنے زمانہ میں صرف شریعت کے احکام میں ہی اعلم نہیں تھے بلکہ آپ تمام علوم و معارف میں اعلم تھے اور ہم نے اُن بحثوں کو اپنی کتاب ''حیاةالامام علی نقی ''میں تحریر کیاہے۔

عبادت
ائمہ ہدی علیہم السلام کی ایک صفت خدا وند عالم سے تو بہ کرنا ہے کیونکہ خدا سے محبت ان کے اعضا و جوارح میں مجذوب ہوگئی ہے ،وہ اکثر ایام میں روزہ رکھتے ہیںراتوں میں نمازیں پڑھتے ہیں،اللہ سے مناجات کرتے ہیںاور اس کی کتاب قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے ،شاعر ابوفراس حمدانی نے ائمہ ہدیٰ اور ان کے دشمن عبا سیوں کے درمیان موازنہ کیا ہے ۔
تُمْسی الِّتلاوةُ فی اییاتھم أَبدا
وفی بیوتکم الاوتارُوَالنُّغَمُ

''ان کے گھروں میں ہمیشہ رات کو تلاوت کی جا تی ہے جبکہ تمہارے گھروں میں ساز و گانا بجایاجاتا ہے ''۔
حضرت امام علی نقی کے مانند عباد ت تقوی ٰاور دین کے معاملہ میں اتنا پا بند انسان کوئی دکھا ئی نہیں دیتا، راویوں کا کہنا ہے :امام نے کبھی بھی کوئی بھی نافلہ نماز ترک نہیں کی آپ مغرب کی نافلہ نماز کی تیسری رکعت میں سورئہ الحمد اور سورئہ حدید اس آیت :(وعلیم بذات الصدور ) (٢)تک پڑھتے تھے اور چوتھی
رکعت میں سورئہ الحمد اور سورئہ حجرات (١ )کی آخری آیات کی تلاوت کرتے تھے، امام سے دورکعت نماز نافلہ منسوب کی گئی ہے جس کی پہلی رکعت میں آپ سورئہ فاتحہ اور سورئہ یس کی تلاوت کرتے تھے اور دوسری رکعت میں سورئہ فاتحہ اور سورئہ رحمن (٢ )پڑھتے تھے، ہم آپ کی قنوت اورنماز صبح اور نماز عصر کے بعد پڑھی جانے والی دعائوں کو (حیاةالامام علی نقی ) میں بیان کرچکے ہیں ۔
..............
١۔حیاةالامام علی نقی ، صفحہ ٢٤٢۔٢٤٣۔
٢۔سورئہ حدید آیت ٦۔