خراسان کی طرف
امام رضا خانہ ٔ خدا کوالوداع کہنے کے بعد خراسان کی طرف چلے ،جب آپ شہر بلد پہنچے تو وہاں کے لوگوں نے آپ کا انتہا ئی احترام و اکرام کیا امام کی ضیافت اور ان کی خدمات انجام دیں جس پر آپ نے شہربلد والوںکا شکریہ ادا کیا ۔
امام نیشاپور میں
امام کا قافلہ کسی رکا وٹ کے بغیر نیشا پور پہنچا ،وہاں کے قبیلے والوں نے آپ کا بے نظیر استقبال کیا ، علماء اور فقہا آپ کے چاروں طرف جمع ہو گئے ،جن میں پیش پیش یحییٰ بن یحییٰ ،اسحاق بن راہویہ ،محمد بن رافع اور احمد بن حرب وغیرہ تھے ۔جب اس عظیم مجمع نے آپ کو دیکھا تو تکبیر و تہلیل کی آوازیں بلندکرنے لگے ، اور ایک کہرام برپاہوگیا ،علماء اور حفّاظ نے بلند آواز میں کہا :اے لوگو ! خاموش ہو جائو اور فرزند رسول ۖ کو تکلیف نہ پہنچا ئو ۔
جب لوگ خا موش ہو گئے تو علماء نے امام سے عرض کیا کہ آپ اپنے جد بزرگوار رسول اسلامۖ سے ایک حدیث بیان فر ما دیجئے تو امام نے فرمایا :''میں نے مو سیٰ بن جعفر سے انھوں نے اپنے والد بزرگوار جعفر بن محمد سے ،انھوں نے اپنے والد بزرگوار محمد بن علی سے ،انھوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن الحسین
سے ،انھوں نے اپنے والد بزرگوار حسین بن علی سے انھوں نے اپنے والد بزرگوار علی بن ابی طالب سے اور انھوں نے نبی اکرم ۖ سے نقل کیا ہے کہ خدا وند عالم حدیث قدسی میں فرماتا ہے :
''لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ حِصْنِیْ ،فَمَنْ قَالَھَا دَخَلَ حِصْنِیْ ،وَمَنْ دَخَلَ حِصْنِیْ اَمِنَ مِنْ عَذَابِیْ وَلٰکِنْ بِشُرُوْطِھَاوَأَنَا مِنْ شُرُوْطِھَا ''۔(١)
''لا الٰہ الّا اللہ میرا قلعہ ہے ،جس نے لا الٰہ اِلّا اللہ کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوگیا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہو گیا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہو گیا لیکن اس کی کچھ شرطیں ہیں اور اُن ہی شرطوں میں سے ایک شرط میں ہو ں''۔
اس حدیث کو بیس ہزار(٢)سے زیادہ افراد نے نقل کیا ،اس حدیث کو حدیث ذہبی کا نام دیا گیا چونکہ اس حدیث کو سنہر ی روشنا ئی (یعنی سونے کا پانی )سے لکھا گیا،سند کے لحاظ سے یہ حدیث دیگر تمام احادیث میں سے زیادہ صاحب عظمت ہے ۔
احمد بن حنبل کا کہنا ہے :اگر اس حدیث کو کسی دیوانہ پر پڑھ دیا جائے تو وہ صحیح و سالم ہو جا ئے گا ۔(٣) اور بعض ساما نی حکام نے یہ وصیت کی ہے کہ اس حدیث کو سونے کے پا نی سے لکھ کر اُ ن کے ساتھ اُن کی قبروں میں دفن کر دیا جائے ''۔(٤)
مامون کا امام کا استقبال کر نا
مامون نے امام رضا کا رسمی طور پر استقبال کر نے کا حکم دیا ،اسلحوں سے لیس فوجی دستے اور تمام لوگ امام کے استقبال کیلئے نکلے ،سب سے آگے آگے مامون ،اس کے وزراء اور مشیر تھے ، اُس نے آگے بڑھ کر امام سے مصافحہ اور معانقہ کیا اور بڑی گرمجوشی کے ساتھ مرحبا کہا ،اسی طرح اس کے وزیروں نے بھی کیا اور مامون نے امام کو ایک مخصوص گھر میں رکھا جو مختلف قسم کے فرش اورخدم و حشم سے آراستہ کیا گیا تھا۔
..............
١۔عیون اخبار الرضا، جلد ٢صفحہ ١٥٣۔علماء کے نزدیک اس حدیث کی بڑی اہمیت ہے ،اور انھوں نے اس کو متواتر اخبار میں درج کیا ہے ۔
٢۔اخبار الدول، صفحہ ١١٥۔
٣۔صواعق المحرقہ، صفحہ ٩٥۔
٤۔اخبار الدول ،صفحہ ١١٥۔
مامون کی طرف سے امام کو خلافت پیش کش
مامون نے امام کے سامنے خلافت پیش کی ،اس نے رسمی طور پر یہ کام انجام دیااور امام کے سامنے یوں خلافت پیش کر دی :اے فرزند رسول ۖ مجھے آپ کے فضل ، علم ،زہد ،ورع اور عبادت کی معرفت ہوگئی ہے ، لہٰذا میں آپ کو اپنی خلافت کاسب سے زیادہ حقدار سمجھتا ہوں ۔
امام نے جواب میں فرمایا:''میں دنیا کے زہد کے ذریعہ آخرت کے شر سے چھٹکارے کی امید کر تا ہوں اور حرام چیزوں سے پرہیز گاری کے ذریعہ اخروی مفادات کا امید وارہوں ،اور دنیا میں تواضع کے ذریعہ اللہ سے رفعت و بلندی کی امید رکھتا ہوں ۔۔۔''۔
مامون نے جلدی سے کہا :میں خود کو خلافت سے معزول کر کے خلافت آپ کے حوالہ کر ناچا ہتا ہوں ۔
امام پر مامون کی باتیں مخفی نہیں تھیں ،اس نے امام کو اپنے سیاسی اغراض و مقاصد کی وجہ سے خلافت کی پیشکش کی تھی ،وہ کیسے امام کے لئے خود کو خلافت سے معزول کر رہا تھا ،جبکہ اُ س نے کچھ دنوں پہلے خلافت کے لئے اپنے بھائی امین کو قتل کیا تھا ؟
امام نے مامون کو یوں قاطعانہ جواب دیا :''اگر خلافت تیرے لئے ہے تو تیرے لئے اس لباس کو اُتار کر کسی دو سرے کو پہنانا جا ئز نہیں ہے جس لباس کو اللہ نے تجھے پہنایا ہے ،اور اگر خلافت تیرے لئے نہیں ہے تو تیرے لئے اس خلافت کو میرے لئے قرار دینا جا ئز نہیں ہے ''۔
مامون برہم ہو گیا اور غصہ میں بھرگیا ،اور اس نے امام کو اس طرح دھمکی دی :آپ کو خلافت ضرور قبول کر نا ہو گی ۔۔۔
امام نے جواب میں فرمایا :''میں ایسا اپنی خو شی سے نہیں کروں گا ۔۔''۔
امام کو یقین تھا کہ یہ اُس (مامون )کے دل کی بات نہیں ہے ،اور نہ ہی اس میں وہ جدیت سے کام لے رہا ہے کیونکہ مامون عباسی خا ندان سے تھا جو اہل بیت سے بہت سخت کینہ رکھتے ،اور انھوں نے اہل بیت علیہم السلام کا اس قدر خون بہا یا تھا کہ اتنا خون کسی نے بھی نہیں بہا یا تھا تو امام اُس پر کیسے اعتماد کرتے ؟
ولیعہدی کی پیشکش
جب مامون امام سے خلافت قبول کرنے سے مایوس ہو گیا تو اس نے دوبارہ امام سے ولیعہدی کی پیشکش کی تو امام نے سختی کے ساتھ ولیعہدی قبول نہ کرنے کا جواب دیا ،اس بات کو ہوئے تقریباً دو مہینے سے زیادہ گذر چکے تھے اور اس کا کو ئی نتیجہ نظر نہیں آرہا تھا اور امام حکومت کا کو ئی بھی عہدہ و منصب قبول نہ کرنے پر مصر رہے ۔
امام کو و لیعہد ی قبو ل کر نے پر مجبو ر کر نا
جب مامون کے تمام ڈپلومیسی حربے ختم ہو گئے جن سے وہ امام کو ولیعہدی قبول کر نے کیلئے قانع کر نا چا ہتا تھا تو اُس نے زبر دستی کا طریقہ اختیار کیا ،اور اس نے امام کو بلا بھیجا ،تو آپ نے اُس سے فرمایا:''خدا کی قسم جب سے پروردگار عالم نے مجھے خلق کیامیں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔۔۔اور مجھے نہیں معلوم ،کہ تیرا کیا ارادہ ہے ؟''۔
مامون نے جلدی سے کہا : میرا کو ئی ارادہ نہیں ہے ۔
''میرے لئے امان ہے ؟''
ہاں آپ کے لئے امان ہے ۔
''تیرا ارادہ یہ ہے کہ لوگ یہ کہیں :''علی بن مو سیٰ نے دنیا میں زہد اختیار نہیں کیا،بلکہ دنیا نے ان کے بارے میں زہد اختیار کیا ،کیا تم نے یہ نہیں دیکھا کہ انھوں نے خلافت کی طمع میں کس طرح ولیعہدی قبول کر لی ؟''۔
مامون غضبناک ہو گیا اور اُس نے امام سے چیخ کر کہا :آپ ہمیشہ مجھ سے اس طرح ملاقات کرتے ہیں جسے میں ناپسند کر تا ہوں ،اور آپ میری سطوت جانتے ہیں ،خدا کی قسم یا تو ولیعہدی قبول کر لیجئے ورنہ میں زبر دستی کر وں گا ،قبول کر لیجئے ورنہ میں آپ کی گردن مار دوں گا ۔
امام نے خدا کی بارگاہ میں تضرّع کیا :''خدایا تونے مجھے خو دکشی کرنے سے منع فرمایا ہے جبکہ میں اس وقت مجبور و لا چار ہو چکا ہوں ،کیونکہ عبداللہ مامون نے ولیعہدی قبول نہ کرنے کی صورت میں مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے ،میں اس طرح مجبور ہو گیا ہوں جس طرح جناب یوسف اور جناب دانیال مجبور ہوئے تھے ،کہ اُن کو اپنے زمانہ کے جابر حاکم کی ولایت عہدی قبول کر نی پڑی تھی ۔
امام نے نہایت مجبوری کی بنا پرولی عہدی قبول کر لی حالانکہ آپ بڑے ہی مغموم و محزون تھے ۔
امام کی شرطیں
امام نے مامون سے ایسی شرطیں کیںجن سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ آپ کو اس منصب کے قبول کرنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے ۔وہ شرطیں مندرجہ ذیل ہیں :
١۔آپ کسی کو ولی نہیں بنا ئیں گے ۔
٢۔کسی کو معزول نہیں کر یں گے ۔
٣۔کسی رسم و رواج کو ختم نہیں کریں گے ۔
٤۔حکومتی امور میں مشورہ دینے سے دور رہیں گے ۔
مامون نے اِن شرطوں کے اپنے اغراض و مقاصد کے متصادم ہونے کی وجہ سے تسلیم کر لیا، ہم نے اس عہد نامہ کی نص و دلیل اور شرطوں کواپنی کتاب ''حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا '' میں نقل کیا ہے۔
امام کی بیعت
مامون نے امام رضا کو ولی عہد منتخب کرنے کے بعد اُن کی بیعت لینے کی غرض سے ایک سیمینار منعقد کیاجس میں وزرائ، فوج کے کمانڈر،حکومت کے بڑے بڑے عہدیداراور عام لوگ شریک ہوئے ،اور سب سے پہلے عباس بن مامون ،اس کے بعد عباسیوں اور ان کے بعد علویوں نے امام کی بیعت کی ۔
لیکن بیعت کا طریقہ منفرد تھا جس سے عباسی بادشاہ مانوس نہیں تھے ،امام نے اپنا دست مبارک بلند کیا جس کی پشت امام کے چہرئہ اقدس کی طرف تھی اور اس کا اندرونی حصہ لوگوں کے چہروںکی طرف تھا ، مامون یہ دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گیا ،اور امام سے یوں گو یا ہوا :آپ بیعت کیلئے اپنا ہاتھ کھولئے ۔
امام نے فرمایا :''رسول اللہ ۖ اسی طرح بیعت لیا کر تے تھے ''۔(١)
..............
١۔مقاتل الطالبین ،صفحہ ٤٥٥۔
شاید آپ نے اپنے قول کو خدا کے اس قول سے نسبت دی ہو :
(یداللّٰہِ فَوْقَ اَیْدِیْھِمْ )۔ (١ ) '' اُن کے ہاتھوں کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے ''۔
لہٰذا بیعت کرنے والے کا ہاتھ نبی اور امام کے ہاتھ سے اوپر ہونا صحیح نہیں ہے ۔(٢)
اہم قوانین
١۔مامون نے امام رضا کو ولی عہد منتخب کرتے وقت مندرجہ ذیل اہم قوانین معین کئے :
١۔ لشکر کو پورے سال تنخواہ دی جا ئے گی ۔
٢۔عباسیوں کو کالا لباس نہیں پہنا یا جا ئے گا بلکہ وہ ہرا لباس پہنیں گے ،چونکہ ہر ا لباس اہل جنت کا لباس ہے اور خداوند عالم کا فرمان ہے :(وَیَلْبَسُونَ ثِیَابًاخُضْرًا مِنْ سُندُسٍ وَِسْتَبْرَق)۔(٣)
''اور یہ باریک اور دبیز ریشم کے سبز لباس میں ملبوس ہوں گے ''
٣۔درہم و دینار پر امام رضا کا اسم مبارک لکھا جا ئے گا ۔
مامون کا امام رضا سے خوف
ابھی امام رضا کو ولی عہد بنے ہوئے کچھ ہی مدت گذری تھی کہ مامون آپ کی ولیعہدی کو ناپسند کرنے لگا،چاروں طرف سے افراد آپ کے گرد اکٹھا ہونے لگے اور ہر جگہ آپ کے فضل و کرم کے چرچے ہونے لگے ہر جگہ آپ کی فضیلت اور بلند شخصیت کی باتیں ہونے لگیں اورلوگ کہنے لگے کہ یہ خلافت کے لئے زیادہ شایانِ شان ہیں ،بنی عباس چور اور مفسد فی الارض ہیں ،مامون کی ناک بھویں چڑھ گئیں اس کو بہت زیادہ غصہ آگیا ،اور مندرجہ ذیل قانون نافذ کر دئے :
١۔اُس نے امام کیلئے سخت پہرے دار معین کر دئے ،کچھ ایسے فو جی تعینات کئے جنھوں نے امام کا جینا دو بھر کر دیا اور نگہبانوں کی قیادت ہشام بن ابراہیم راشدی کے سپُرد کر دی وہ امام کی ہر بات مامون
تک پہنچا تا تھا ۔
..............
١۔سورئہ فتح ،آیت ١٠۔
٢۔حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا ،جلد ٢،صفحہ ٣٠٣۔
٣۔سورئہ کہف ،آیت ٣١۔
٢۔اُس نے شیعوں کو امام کی مجلس میں حا ضر ہو کر آپ کی گفتگو سننے سے منع کر دیا ،اس نے اِس کام کے لئے محمد بن عمر و طوسی کو معین کیا جو شیعوں کو بھگاتا اور ان کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتا تھا ۔
٣۔علماء کو امام سے رابطہ رکھنے اور اُن کے علوم سے استفادہ کرنے سے منع کیا ۔
امام کو قتل کرنا
مامون نے امام کو قتل کرنے کی سازش کی ،اور اُس نے انگور یا اَنار(١) میں زہر ملا کر دیا جب امام نے اُس کو تنا ول فرمایاتو زہر آپ کے پورے بدن میں سرایت کر گیا اور کچھ ہی دیر کے بعد آپ کی روح پرواز کرگئی جو ملائکہ کے حصار میں خدا تک پہنچی اور ریاض خلد میں انبیاء کی ارواح نے آپ کا استقبال کیا ۔
امام اللہ کے بندوں تک رسالت الٰہی کا پیغام پہنچا کر دار فا نی سے کو چ فر ما گئے ،آپ مامون کی حکومت کے کسی کام میں بھی شریک نہیں ہوئے جبکہ مامون نے آپ کو ہر طرح سے ستایا تھا۔
امام کی جس طرح تشیع جنازہ ہو ئی اس کی خراسان کی تاریخ میںکو ئی نظیر نہیں ملتی ،تمام حکومتی دفاتر ، اور تجارت گا ہیں وغیرہ رسمی طور پر بند کر دی گئیں ،اور ہر طبقہ کے لوگ امام کے جسم مطہر کی تشیع جنازہ کے لئے نکل پڑے ۔آگے آگے مامون ،اُس کے وزیر ،حکومت کے بڑے بڑے عہدیدار اور لشکر کے کمانڈر تھے ، مامون ننگے سر اور ننگے پیر تھا وہ بلند آواز سے کہہ رہا تھا :مجھے نہیں معلوم کہ مجھ پر اِن دونوں مصیبتوں میں سے کو نسی بڑی مصیبت ہے ؟آپ مجھ سے جدا ہوگئے یا لوگ مجھ پر یہ تہمت لگا رہے ہیں کہ میں نے آپ کو دھوکہ دے کر قتل کر دیا ہے ؟
مامون نے خود کو امام کے قتل سے بری ٔ الذمہ ہونے کیلئے نالہ و فریاد اور حزن و الم کا اظہار کیا ؟ لیکن بہت جلد اس کی اس ریاکاری کا پردہ فاش ہو گیا اور سب پر واضح ہو گیا کہ وہ خود مجرم ہے ۔
امام کا جسم اطہر تکبیر و تعظیم کے سایہ میں لیجایا گیا اور مامون نے آپ کو ہارون کے نزدیک آپ کی ابدی آرامگاہ میں سپرد خاک کر دیا ،آپ کے دنیا سے رخصت ہونے کے ساتھ ساتھ انسانیت کے لئے
باعث عزت صفاتِ حسنہ رخصت ہو گئے ۔
..............
١۔ہم نے امام پر حملے کو مفصل طور پرحیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا ، میں تحریر کر دیا ہے ۔
امام کو اس مقدس و طاہر بقعہ میں دفن کردیا گیا ،آپ کامرقد مطہر خراسان میں انسانی کرامت کا مظہر بن گیا ،آپ کا مرقدمطہر اسلام میں بہت باعزت ہے ،لوگوں نے امام رضا کے مرقد مطہر جیسا با حشمت ، عزت اور کرامت کامرقد کسی اور ولی اللہ کا مرقدنہیں دیکھا ،مامون سے امام رضا کو ہارون کے قریب دفن کرنے کی وجہ دریافت کی گئی تو اس نے کہا :تاکہ خداوند عالم میرے والد کو امام رضا کے جوار کی وجہ سے بخش دے ،شاعر مفکر اسلام دعبل خزا عی نے اس بات یوں شعر میں نظم کیا ہے :
قَبْرَانِ فِ طُوْس:خَیْرِ النَّاسِ کُلِّھِمْ
وَقَبْرُ شَرِّھِمْ ھٰذَا مِنَ الْعِبَرِ
مَا یَنْفَعُ الرِّجْسَ مِنْ قُرْبِ الزَّکِِّ وَلَا
عَلیٰ الزَّکِِّ بِقُرْبِ الرِّجْسِ مِنْ ضَرَرِ
ھَیْھَاتَ کُلُّ امْرِئٍ رَھْنُ بِمَا کَسَبَت
لَہُ یَدَاہُ فَخُذْمَا شِئْتَ أَوْ فَذَرِ
''طوس میں دو قبریں ہیں ایک بہترین مخلوق کی ایک بد ترین مخلوق کی یہ عبرت کا مقام ہے۔
پاکیزہ شخص کی قربت، پلید گی کو کو ئی فائدہ نہیں پہنچا تی اور نہ ہی آلود گی سے نزدیک ہونے کی وجہ سے پاکیزہ شخص کو نقصان پہنچتا ہے ۔
ہر شخص اپنے کئے کا ذمہ دار ہے تو جو چاہو لے لو ،جو چاہو چھوڑ دو ''۔
بہر حال امام رضا کے اس دنیا سے چلے جانے سے دنیا ئے اسلام میں ایمان و ہدایت کے چراغ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گیااور مسلمان اپنے قائد اعظم اور امام سے محروم ہو گئے ،اناللہ وانا الیہ راجعون ۔
|