آپ کی نصیحتیں
امام نے ابراہیم بن ابی محمود کو یوں وصیت فرمائی:''مجھے میرے والد بزرگوار نے انھوں نے اپنے آباء و اجداد سے اور انھوں نے رسول اسلام ۖ سے نقل کیا ہے :جس نے کسی کہنے والے کی بات کان لگا کر سنی اس نے اس کی عبادت کی ،اگراس کہنے والے کی گفتگوخدا ئی ہے تو اُ س نے خدا کی عبادت کی اور اگراس کی گفتگو شیطانی ہے تو اس نے ابلیس کی عبادت کی یہاں تک کہ آپ نے فرمایا :اے ابو محمود کے فرزند : میںنے جو کچھ تم کو بتایا ہے اس کو یاد رکھو کیونکہ میں نے اپنی اس گفتگو میں دنیا و آخرت کی بھلا ئی بیان کر دی ہے''۔(١)
اس وصیت میں بیان کیا گیا ہے کہ اہل بیت کی اتباع اُن کے طریقہ ٔ کار کی اقتدا اور ان کی سیرت سے ہدایت حاصل کرنا واجب ہے ،بیشک اس میں نجات ہے اور ہلاکت سے محفوظ رہنا ہے اور اللہ کی راہ میں بڑی کا میابی ہے ۔
٢۔مالدار اور فقیر کے درمیان مساوات
امام رضا علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو سلام کے ذریعہ مالدار اور فقیر کے درمیان مساوات کر نے کی سفارش فرما ئی ہے :''جوشخص مسلمان فقیرسے ملاقات کرتے وقت اس کو دولت مند کو سلام کر نے کے علاوہ کسی اورطریقہ سے سلام کر ے تو خداوند عالم اس سے غضبناک ہونے کی صورت میں ملاقات کرے گا'' ۔(٢)
٣۔مومن کے چہرے کا ہشاش بشاش ہونا
امام رضا نے اپنے اصحاب کو وصیت فرما ئی کہ مو من کا چہرہ ہشاش بشاش ہونا چا ہئے اس کے بالمقابل اس کا چہرہ غیظ و غضب والا نہیں ہو نا چاہئے امام فرماتے ہیں :
..............
١۔وسائل الشیعہ، جلد ١٨صفحہ ٩٢۔
٢۔وسائل الشیعہ ،جلد ٨ صفحہ ٤٤٢۔
''جس نے اپنے مومن بھا ئی کو خوش کیا اللہ اس کے لئے نیکیاں لکھتا ہے اور جس کے لئے اللہ نیکیاں لکھ دے اس پر عذاب نہیں کرے گا''۔ (١)
یہ وہ بلند اخلاق ہیں جن کی ائمہ اپنے اصحاب کو سفارش کیا کرتے تھے تاکہ وہ لوگوں کیلئے اسوئہ حسنہ قرار پا ئیں ۔
٤۔عام وصیت
امام نے اپنے اصحاب اور باقی تمام لوگوں کو یہ بیش قیمت وصیت فرما ئی :''لوگو ! اپنے اوپر خدا کی نعمتوں کے سلسلہ میں خدا سے ڈرو ،خدا کی مخالفت کے ذریعہ خدا کی نعمتوں کو خود سے دور نہ کرو ،یاد رکھو کہ خدا و رسول پر ایمان اور آل رسول میں سے اولیائے الٰہی کے حقوق کے اعتراف کے بعد کسی ایسی چیز کے ذریعہ تم شکر الٰہی بجا نہیں لاسکتے جو اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہو کہ تم اپنے مومن بھائیوں کی اُس دنیا کے سلسلہ میں مدد کروجو اُن کے پروردگار کی جنت کی جانب تمہارے لئے گذر گاہ ہے جو ایسا کرے گا وہ خاصانِ خدا میں سے ہوگا ''۔(٢)
اس وصیت میں تقوائے الٰہی ،بھا ئیوں کی مدد اور اُ ن کے ساتھ نیکی کرنے کی سفارش کی گئی ہے ۔
کلمات قصار
امام رضا کے حکمت آمیز کلمات قصارچمکتے ہوئے ستاروں کی طرح حکمتوں سے پُر ہیں :
١۔امام نے فرمایا ہے :''اگر کو ئی ظالم و جابر بادشاہ کے پاس جائے اور وہ بادشاہ ان کو اذیت و تکلیف دے تو اس کو اس کو ئی اجر نہیں ملے گا اور نہ ہی اِس پر صبر کرنے سے اس کو رزق دیا جا ئے گا ''۔(٣)
٢۔امام رضا کا فرمان ہے :''لوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے ''۔(٤)
٣۔امام رضا فرماتے ہیں :''لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں عافیت کے دس جزء
..............
١۔وسائل الشیعہ ،جلد ٨ صفحہ٤٨٣۔
٢۔در تنظیم ،صفحہ ٢١٥۔
٣۔تاریخ یعقوبی ،جلد ٣صفحہ ١٨١۔
٤۔بحارالانوار ،جلد ٧٨ صفحہ ٣٣٥۔
ہوں گے جس میں نو حصے لوگوں سے الگ رہنے میں ہوں گے اور ایک حصہ خا مو شی میں ہو گا ''۔(١)
٤۔امام رضا فرماتے ہیں :''بخیل کے لئے چین و سکون نہیں ہے اور نہ ہی حسود کے لئے لذت ہے ،ملو ل رنجیدہ شخص کے لئے وفا نہیں ہے اور جھوٹے کے لئے مروَّت نہیں ہے ''۔(٢)
٥۔امام رضا فرماتے ہیں :''جس نے مو من کو خوش کیا خدا قیامت کے دن اُس کو خو شحال کرے گا''۔(٣)
٦۔امام رضا فرماتے ہیں :''مو من، مومن کاسگا بھا ئی ہے ،ملعون ہے ملعون ہے جس نے اپنے بھائی پر الزام لگایاملعون ہے ، ملعون ہے جس نے اپنے بھا ئی کو دھوکہ دیا ، ملعون ہے ،ملعون ہے جس نے اپنے بھا ئی کو نصیحت نہیں کی ،ملعون ہے ملعون ہے جس نے اپنے بھائی کے اسرارسے پردہ اٹھایا ،ملعون ہے ملعون ہے جس نے اپنے بھا ئی کی غیبت کی ہے ''۔(٤)
آپ کو تمام زبانوں کاعلم
امام تمام ز بانیں جانتے تھے، ابو اسما عیل سندی سے روایت ہے :میں نے ہندوستان میں یہ سنا کہ عر ب میں ایک اللہ کی حجت ہے، تو اُ س کی تلاش میں نکلا لوگوں نے مجھ سے کہا کہ وہ امام رضا ہیںمیں اُ ن کی بارگاہ میں حاضر ہوا جب آپ کی بارگاہ میں پہنچاتومیں نے آپ کو سندھی زبان میں سلام کیا امام نے سندھی زبان میں ہی سلام کا جواب دیا ،میں نے آپ کی خدمت مبارک میں عرض کیا: میں نے سنا ہے کہ عرب میں ایک اللہ کی حجت ہے اور اسی حجت کی تلاش میں آپ کے پاس آیا ہوں تو امام نے فرمایا :''میں ہی اللہ کی حجت ہوں ''،اس کے بعد فرمایا :''جو کچھ تم سوال کرنا چاہتے ہو سوال کرو ' 'میں نے آپ سے متعدد مسائل دریافت کئے تو آپ نے میری زبان میں ہی اُن کا جواب بیان فرمایا ۔(٥)
..............
١۔تحف العقول ،صفحہ ٤٤٦۔
٢۔تحف العقول ،صفحہ ٤٤٦۔
٣۔وسائل الشیعہ ،جلد ١٢ صفحہ ٥٨٧۔
٤۔وسائل الشیعہ ،جلد ٨ صفحہ ٥٦٣۔
٥۔حیاةالامام علی بن موسیٰ الرضا ، جلد ١صفحہ ٣٨۔
ابو صلت ہروی سے روایت ہے :امام رضا لوگوں سے اُن ہی کی زبا ن میں کلام کیا کرتے تھے ۔ میں نے امام سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا :''اے ابو صلت میں مخلوق پر اللہ کی حجت ہوں اور اللہ کسی قوم پر ایسی حجت نہیں بھیجتا جو اُن کی زبان سے آشنا نہ ہو ،کیا تم نے امیر المو منین کا یہ کلام نہیں سُنا: ہم کو فصل خطاب عطا کیا گیا ہے ؟کیا وہ زبانوں کی واقفیت کے علاوہ کچھ اور ہے ؟''۔(١)
یاسر خادم سے روایت ہے :امام رضا علیہ السلام کے بیت الشرف میں صقالبہ اور روم کے افراد تھے، امام ابو الحسن اُن سے بہت قریب تھے ،میں نے آپ کو اُن سے صقلبی اور رومی زبان میں گفتگو کرتے سنا ہے اور وہ اُس کو لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے ۔(٢)
اسی چیز کو شیخ محمد بن الحسن حرّ نے اس شعر میں قلمبند کیا ہے:
وَعِلْمُہُ بِجُمْلَةِ اللُّغَاتِ
مِنْ أَوْضَحِ الاِعْجَازِ وَالآیَاتِ (٣)
''تمام زبانوں سے آپ کی آشنا ئی آپ کا واضح معجزہ اور نشا نی ہے ''۔
واقعات و حادثات
امام رضا متعدد واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ہی اُن کی خبر دیدیا کر تے تھے، اس سے شیعوں کے اس عقیدے کی تا ئید ہو تی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ائمہ اہل بیت علیہم السلام کو اسی علم سے نوازاہے جس سے اپنے رسول اور انبیاء کو نوازا ہے، اُن ہی میں سے امام نے یہ خبر دی تھی :مامون انپے بھائی امین بن زبیدہ کو قتل کرے گا ،جس کو اس شعر میں نظم کیا گیا ہے :
فَاِنَّ الضِّغْنَ بَعْدَ الضِّغْنِ یَفْشُو
عَلَیْکَ وَیُخْرِجُ الدَّ ائَ الدَّ فِیْنَا (٤)
''بیشک کینہ کے بعد کینہ مسلسل کینہ کرنے سے تمہارے اوپر راز فاش ہو جا ئے گااور دبے ہوئے کینے ابھر آئیں گے ''۔
..............
١۔مناقب ،جلد ٤صفحہ ٣٣٣۔
٢۔مناقب ،جلد ٤صفحہ ٣٣٣۔
٣۔نزھة الجلیس ،جلد ٢صفحہ ١٠٧۔
٤۔جوہرة الکلام ،صفحہ ١٤٦۔
ابھی کچھ دن نہیں گذرے تھے کہ مامون نے آپ کے بھا ئی امین کو قتل کردیا۔
امام نے ایک خبر یہ دی تھی کہ جب محمد بن امام صادق نے مامون کے خلاف خروج کیا تو امام رضا نے ان سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے فرمایا :اے چچا اپنے پدر بزرگوار اور اپنے بھائی (امام کاظم) کی تکذیب نہ کرو ،چونکہ یہ امر تمام ہونے والا نہیں ہے ،تو اُس نے یہ بات قبول نہیں کی اور علی الاعلان مامون کے خلاف انقلاب برپا کر دیاکچھ دن نہیں گذرے تھے کہ مامون کا لشکر جلو دی کی قیادت میں اس سے روبروہوا اُس نے امان ما نگی تو جلو دی نے اس کو امان دیدی ،اور اس نے منبر پر جاکر خود کو اِس امر سے الگ کر تے ہوئے کہا :یہ امر مامون کے لئے ہے ۔(١)
امام رضا نے برامکہ کی مصیبت کی خبر دی تھی ،جب یحییٰ برمکی ان کے پاس سے گذرا تو وہ رومال سے اپنا چہرہ ڈھانپے ہوئے تھا ۔امام نے فرمایا :یہ بیچارے کیا جانیں کہ اس سال میں کیا رونما ہونے والا ہے۔۔۔ اس کے بعد امام نے مزید فرمایا:مجھے اس بات پرتعجب ہے کہ یہ خیال کر تا ہے کہ میں اور ہارون اس طرح ہیں ، یہ فرماکر آپ نے اپنے بیچ اور انگو ٹھے کے پاس کی انگلی کو ایک دوسرے سے ملاکر اشارہ کیا۔(٢)
ابھی کچھ دن نہیں گذرے تھے کہ جو کچھ امام نے فرمایا تھا وہ واقع ہوا ،یہاں تک کہ رشید نے برامکہ پر دردناک عذاب اور مصیبتیں ڈھا ئیں ،رشید نے خراسان میں وفات پائی اور بعدمیں امام رضا کواسی کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔
یہ وہ بعض واقعات ہیں جن کی امام رضا نے خبر دی تھی اور ہم نے ایسے متعدد واقعات ''حیاةالامام رضا ''میں ذکر کر دئے ہیں ۔
آپ کی جود و سخا
مو رّخین نے آپ کی جود و سخا کے متعدد واقعات نقل کئے ہیں جن میں سے کچھ یوں ہیں :
١۔جب آپ خراسان میں تھے تو آپ اپنا سارا مال فقراء میں تقسیم کر دیا کر تے تھے ،عرفہ کا دن تھا،
..............
١۔حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا ، جلد ١صفحہ ٣٩۔
٢۔الاتحاف بحب الاشراف، صفحہ ٥٩۔
اور آپ کے پاس کچھ نہیں تھا ،فضل بن سہل نے اس پر ناراضگی کااظہار کرتے ہوئے کہا :یہ گھاٹے کا سودا ہے۔ امام نے جواب میں فرمایا :''اس میں فائدہ ہے ،اس کو تم گھاٹا شمار نہ کروجس میں فائدہ نہ ہو''۔(١)
اگر کو ئی شخص اجر الٰہی کی امید میں فقیروں کے لئے انفاق کر تا ہے تو یہ گھاٹا نہیں ہے، بلکہ گھاٹا تو وہ ہے کہ بادشاہوں اور وزیروں کے لئے ان کے سیاسی اورذاتی کاموں میں خرچ کیاجائے ۔
٢۔ آپ کا ایک مشہور و معروف واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص نے آپ کی خدمت با برکت میں آکر عر ض کیا :میں آپ اور آپ کے آباء و اجداد کا چا ہنے والا ہوں ،میں حج کر کے واپس آرہا ہوں ،میرے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے اور جو کچھ ہے بھی اس سے کچھ کام حل ہونے والا نہیں ہے، اگر آپ چا ہیں تو میں اپنے شہر واپس پلٹ جائوں، جب میرے پاس رقم ہو جا ئے گی تو میں اُس کو آپ کی طرف سے صدقہ دیدوں گا، امام نے اُس کو بیٹھنے کا حکم دیا اور آپ لوگوں سے گفتگو کرنے میں مشغول ہو گئے جب وہ سب آپ سے رخصت ہو کر چلے گئے اور آپ کے پاس صرف سلیمان جعفری اور خادم رہ گئے تو امام اُن سے اجازت لیکر اپنے بیت الشرف میں تشریف لے گئے، اس کے بعد اوپر کے دروازے سے باہر آکر فرمایا : ''خراسانی کہاں ہے ؟''،جب وہ کھڑا ہوا تو امام نے اُس کو دو سو دینار دئے اور کہا کہ یہ تمہارے راستے کا خرچ اور نفقہ ہے اور اِ ن کو میری طرف سے صدقہ نہ دینا وہ شخص امام کی عطا کردہ نعمت سے مالا مال اور خوش ہو کر چلا گیا ۔سلیمان نے امام کی خدمت میںیوں عرض کیا : میری جان آپ پر فدا ہو آپ نے احسان کیا اور صلۂ رحم کیا تو آپ نے اس سے اپنا رُخِ انور کیوں چھپایا ۔
امام نے جواب میں فرمایا :''میں نے ایسا اس لئے کیا کہ میں سوال کرنے والے کے چہرہ میں ذلت کے آثاردیکھنا نہیں چا ہتا کہ میں اس کی حاجت روا ئی کر رہا ہوں ،کیا تم نے رسول خدا ۖ کا یہ فرمان نہیں سُنا کہ :چھُپ کر کی جانے والی نیکی ستّر حج کے برابر اورعلی الاعلان برائی انجام دینے والامتروک شمار ہوتاہو۔ کیا تم نے شاعر کا یہ شعر نہیں سنا :
مَتیٰ آتہِ یَوماً لِاَطْلُبَ حَاجَةً
رَجَعْتُ اِلیٰ أَھْلِْ وَوَجْھْ بِمَائِہِ (٢)
''جب میں ایک دن کسی حاجت کے لئے اس کے پاس آئوںتو میں اپنے اہل و عیال کے پاس پلٹا تو میری عزت اُن کی عزت سے وابستہ تھی ''۔
..............
١۔حیاةالامام محمد تقی ،صفحہ ٤٠۔
٢۔حیاةالامام علی بن مو سی الرضا ، جلد ١صفحہ ٣٥۔
قا رئین کرام کیاآپ نے امام رضا کی اس طرح انجام دی جانے والی نیکی ملاحظہ فر ما ئی ؟یہ صرف اور صرف اللہ کی خوشنودی کے لئے ہے ۔
٣۔ایک فقیر نے آپ کے پاس آکر عرض کیا :مجھے اپنی حیثیت کے مطابق عطا کر دیجئے ۔
''لایسَعُنِیْ ذَلِکَ ۔۔۔''۔''مجھ میںاتنی طاقت نہیں ہے ''۔
بیشک امام کی حیثیت کی کو ئی انتہا نہیں ہے ،امام کے پاس مال و دولت ہے ہی نہیں جو کسی اندازہ کے مطابق عطا کیا جائے ،فقیر نے اپنی بات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا :یعنی میری مروت کی مقدار کے مطابق ۔۔۔
امام نے مسکر اکر اس کی بات قبول کرتے ہوئے فرمایا :''ہاں اب ضرور عطا کیا جا ئے گا ۔۔۔'' ۔
پھر اس کو دو سو دینار دینے کا حکم صادر فر مایا ۔(١)
یہ آپ کی سخاوت کے کچھ نمونے تھے ،اور ہم نے اِ ن میں سے کچھ نمونے اپنی کتاب حیاة الامام رضا میں بیان کر دئے ہیں ۔
عبادت
امام اللہ کی یاد میں منہمک رہتے اور خدا سے نزدیک کرنے والے ہر کام کو انجام دیتے تھے آپ کی حیات کا زیادہ تر حصہ عبادت میں گذرا جو نور، تقویٰ اور ورع کا نمونہ تھا، آپ کے بعض اصحاب کا کہنا ہے : میں نے جب بھی آپ کو دیکھا تو قرآن کی یہ آیت یاد آگئی :( کَانُوا قَلِیلاً مِنْ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُونَ )۔(٢)
''یہ رات کے وقت بہت کم سوتے تھے ''۔
شبراوی نے آپ کی عبادت کے متعلق کہا ہے :آپ وضو اور نماز والے تھے ،آپ ساری رات با وضو رہتے ،نماز پڑھتے اور شب بیداری کرتے یہاں تک کہ صبح ہو جا تی ۔
اور ہم نے آپ کی عبادت اور قنوت و سجود میں دعا کے متعلق اپنی کتاب ''امام علی بن مو سیٰ الرضا
..............
١۔مناقب ،جلد ٤، صفحہ ٣٦١۔ ٢۔سورئہ ذاریات، آیت ١٧ ۔
کی سوانح حیات میں ''مفصل طور پر تذکرہ کر دیا ہے ۔
آپ کی ولی عہدی
عباسی دور میں سب سے اہم واقعہ یہ رو نما ہوا کہ مامون نے امام رضا کو اپنا ولیعہد بنا دیا یعنی وہ عباسی خلافت جو علوی سادات سے دشمنی رکھتی تھی اس میںتبدیلی واقع ہو گئی اور اس بڑے واقعہ کاخاص و عام دونوں میں گفتگوو چرچاہوا اور سب مبہوت ہو کر رہ گئے، وہ سیا سی روش جس میں عباسیوں نے علویوں کا بالکل خاتمہ کر دیا تھا ،اُ ن کے جوانوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا ،اُن کے بچوں کو دجلہ میں غرق اور شیعوں کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر قتل کردیاتھا۔۔۔عباسیوں سے علویوں کی دشمنی بہت آشکار تھی ،یہ دشمنی محبت و مودت میں کیسے بدل گئی ،عباسی اُن کے حق کے معترف ہو گئے اور عبا سی حکومت کا اہم مر کز اُن (علویوں ) کو کیسے سونپ دیا، اسی طرح کی تمام باتیں لوگوں کی زبانوں پر تھیں ۔
یہ مطلب بھی بیان ہونا چاہئے کہ مامون نے یہ اقدام اس لئے نہیں کیا تھا کہ یہ علویوں کا حق ہے اور وہ خلافت کے زیادہ حقدار ہیں، بلکہ اُ س نے کچھ سیاسی اسباب کی بنا پرولایت کا تاج امام رضا کے سر پر رکھا ،جس کے کچھ اسباب مندرجہ ذیل تھے :
١۔مامون کا عباسیوں کے نزدیک اہم مقام نہیں تھا،اور ایسا اس کی ماں مراجل کی وجہ سے تھا جو اس کے محل کے پڑوس اور اس کے نوکروں میں سے تھی، لہٰذاوہ لوگ مامون کے ساتھ عام معاملہ کرتے تھے ، وہ اس کے بھا ئی امین کا بہت زیادہ احترام کر تے تھے ،کیونکہ اُ ن کی والدہ عباسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی ، لہٰذا مامون نے امام رضا کو اپنی ولیعہدی سونپ کر اپنے خاندان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی تھی ۔
٢۔مامون نے امام کی گردن میں ولیعہدی کا قلادہ ڈال کر یہ آشکار کرنا چا ہاتھا کہ امام دنیا کے زاہدوں میںسے نہیں ہیں، بلکہ وہ ملک و بادشاہت اور سلطنت کے خواستگار ہیں،اسی بنا پر انھوں نے ولیعہدی قبول کی ہے، امام پر یہ سیاست مخفی نہیں تھی، لہٰذا آپ نے مامون سے یہ شرط کی تھی کہ نہ تومیں کسی کو کوئی منصب دو ںگا ،نہ ہی کسی کو اس کے منصب سے معزول کریں گے، وہ ہر طرح کے حکم سے کنارہ کش رہوںگا امام کی اِن شرطوں کی وجہ سے آپ کازاہدہوناواضح گیا۔
٣۔مامون کے لشکر کے بڑے بڑے سردار شیعہ تھے لہٰذا اس نے امام کو اپنا ولیعہد بنا کر اُن سے اپنی محبت و مودت کا اظہار کیا ۔
٤۔عباسی حکومت کے خلاف بڑی بڑی اسلامی حکومتوں میں انقلاب برپا ہو چکے تھے اور عنقریب اُس کا خاتمہ ہی ہونے والا تھا ،اور اُ ن کا نعرہ ''الد عوة الی الرضا من آل محمد ''تھا ،جب امام رضا کی ولیعہدی کے لئے بیعت کی گئی توانقلابیوں نے اس بیعت پر لبیک کہی اور مامون نے بھی اُن کی بیعت کی، لہٰذا اس طرح سے اُ س کی حکومت کودرپیش خطرہ ٹل گیا ،یہ ڈپلو میسی کا پہلا طریقہ تھا اور اسی طرح مامون اپنی حکومت کے ذریعہ اُن رونما ہونے والے واقعات پر غالب آگیا ۔
اِن ہی بعض اغراض و مقاصد کی وجہ سے مامون نے امام رضا کو اپنا ولی عہد بنایا تھا ۔
فضل کا امام رضا کو خط لکھنا
مامون نے اپنے وزیر فضل بن سہل سے کہا کہ وہ امام کو ایک خط تحریر کرے کہ میں نے آپ کو اپنا ولیعہدمقر ر کردیا ہے ۔خط کا مضمون یہ تھا :
علی بن مو سیٰ الرضا کے نام جوفرزند رسول خدا ۖہیں رسول ۖ کی ہدایت کے مطابق ہدایت کر تے ہیں ،رسول کے فعل کی اقتدا کر تے ہیں ،دین الٰہی کے محافظ ہیں ،وحی خدا کے ذمہ دار ہیں ،اُ ن کے دوست فضل بن سہل کی جا نب سے جس نے اُن کے حق کو دلانے میں اپنا خون پسینہ ایک کیا اور دن رات اس راہ میں کو شش کی ،اے ہدایت کرنے والے امام آپ پر صلوات و سلام اور رحمت الٰہی ہو ،میں آپ کی خدمت میں اس خدا کی حمد بجالاتا ہوں جس کے سوا کو ئی معبود نہیں اور اس سے دعا کر تا ہوں کہ اپنے بندے محمد ۖ پر درود بھیجے ۔
اما بعد :
امید وار ہوں کہ خدا نے آپ کو آپ کا حق پہنچا دیا اور اُس شخص سے اپنا حق لینے میں مدد کی جس نے آپ کو حق سے محروم کر رکھا تھا، میں امید وار ہوں کہ خدا آپ پر مسلسل کرم فرما ئی کرے ، آپ کو امام اور وارث قرار دے ،آپ کے دشمنوں اور آپ سے روگردانی کرنے والوںکو سختیوں میں مبتلا کرے ،میرا یہ خط امیر المو منین بندئہ خدا مامون کے حکم کی بنا پر پیش خد مت ہے میں آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں تاکہ آپ کا حق واپس کر سکوں ،آپ کے حقوق آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں ،میں چا ہتا ہوں کہ اس طرح آپ مجھ کو تمام عالمین میں سعا دتمندترین قرار دیں اور میں خدا کے نزدیک کامیاب ہو سکوں ،رسول خدا ۖ کے حق کو ادا کر سکوں ،آپ کا معاون قرار پائوں ،اور آپ کی حکومت میں ہر طرح کی نیکی سے مستفیض ہو سکوں ، میری جان آپ پر فدا ہو ،جب میرا خط آپ تک پہنچے اور آپ مکمل طور پر حکومت پر قابض ہو جا ئیں یہاں تک کہ امیر المو منین مامون کی خدمت میں جاسکیں جو کہ آپ کو اپنی خلافت میں شریک سمجھتا ہے ،اپنے نسب میں شفیع سمجھتا ہے اور اس کو اپنے ما تحت پر مکمل اختیار حا صل ہے تو آپ ایسی روش اختیار کریں جس کی وجہ سے خیر الٰہی سب کے شامل حال ہو جائے اور ملائکہ ٔ الٰہی سب کی حفاظت کریں اور خدا اس بات کا ضامن ہے کہ آپ کے ذریعہ امت کی اصلاح کرے اور خدا ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین ذمہ دارہے اور آپ پر خدا کا سلام اور رحمت و برکتیں ہوں ۔(١)
اس خط میں آپ کے کریم و نجیب القاب اوربلند و بالا صفات تحریر کئے گئے ہیں جس طرح کہ امام کی جانب خلافت پلٹائے جانے کا ذکر کیا گیاہے ۔
یہ سب مامون کی مہربانی ا ور اس کی مشقتوں سے بنے ،مامون یہ چا ہتا تھا کہ امام بہت جلد خراسان آکر اپنی خلافت کی باگ ڈور سنبھال لیں ،امام نے اس خط کا کیا جواب دیاہمیں اس کی کو ئی اطلاع نہیں ہے جو عباسی حکومت کے ایک بڑے عہدے دار کے نام لکھا گیا ہواور اس سے بڑا گمان یہ کیا جا رہا ہے کہ امام نے اپنے علم و دانش کی بناپر اس لاف و گزاف(بے تکے ) ادّعا اور عدم واقعیت کا جواب تحریر ہی نہ فر ما یاہو ۔
مامون کے ایلچیوں کا امام کی خدمت میں پہنچنا
مامون نے امام رضا کو یثرب سے خراسان لانے کیلئے ایک وفد بھیجا اور وفد کے رئیس سے امام کو بصرہ اور اہواز کے راستے یاپھر فارس کے راستہ سے لانے کا عہد لیااور ان سے کہا کہ امام کو کوفہ اور قم (٢)کے راستہ سے نہ لیکر آئیں جس طرح کہ امام کی جانب خلافت پلٹائے جانے کا بھی ذکر ہے ۔(٣ )
..............
١۔حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا ، جلد ٢صفحہ ٢٨٤۔
٢۔عیون اخبار الرضا ،جلد ٢صفحہ ١٤٩۔حیاةالامام علی بن مو سیٰ الرضا ، جلد ٢صفحہ ٢٨٥۔
٣۔حیاةالامام علی بن موسیٰ الرضا ،جلد ٢،صفحہ ٢٨٥۔اعیان الشیعہ ،جلد ٢صفحہ١٨ ۔
مامون کے اتنے بڑے اہتمام سے یہ بات واضح و آشکار تھی کہ امام کو بصرہ کے راستہ سے کیوں لایا جائے اور کو فہ و قم کے راستہ سے کیوں نہ لایا جائے ؟چونکہ کو فہ اور قم دونوں شہر تشیع کے مرکز تھے ،اور مامون کو یہ خوف تھا کہ شیعوں کی امام کی زیادہ تعظیم اور تکریم سے اُس کا مرکز اور بنی عباس کمزور نہ ہو جا ئیں ۔
وفد بڑی جد و جہد کے ساتھ یثرب پہنچا اُ س کے بعد امام کی خد مت میں پہنچ کر آپ کو مامون کا پیغام پہنچایا،امام نے جواب دینا صحیح نہیں سمجھا،آپ کو مکمل یقین تھا کہ مامون نے آپ کو خلافت اور ولی عہدی دینے کے لئے نہیں بُلایا ہے بلکہ یہ اُس کی سیاسی چال ہے اور اس کا مقصد آپ کا خاتمہ کرنا تھا ۔
امام زند گی سے مایوس ہو کر بڑے ہی حزن و الم کے عالم میں اپنے جد رسول اللہ ۖ کی قبر کی طرف آخری وداع کیلئے پہنچے ،حالانکہ آپ کے رُخِ انور پرگرم گرم آنسو بہہ رہے تھے ، مخول سجستا نی امام کی اپنے جد کی قبر سے آخری رخصت کے سلسلہ میں یوں رقمطراز ہیں:جب قاصدامام رضا کو مدینہ سے خراسان لانے کیلئے پہنچا تو میں مدینہ میں تھا ،امام اپنے جد بزرگوار سے رخصت ہونے کیلئے مسجد رسول میں داخل ہوئے اور متعدد مرتبہ آپ کو وداع کیا،آپ زار و قطار گریہ کر رہے تھے ،میں نے امام کی خدمت اقدس میں پہنچ کر سلام عرض کیا، آپ نے سلام کا جواب دیااور میں نے اُن کی خدمت میں تہنیت پیش کی تو امام نے فرمایا :مجھے چھوڑ دو ،مجھے میرے جد کے جوار سے نکالا جا رہا ہے ،مجھے عالم غربت میں موت آئے گی ، اور ہارون کے پہلو میں دفن کر دیا جا ئے گا ۔مخول کا کہنا ہے :میں امام کے ساتھ رہا یہاں تک کہ امام نے طوس میں انتقال کیا اور ہارون کے پہلو میں دفن کر دئے گئے ۔(١)
خا نہ خدا کی طرف
امام رضا خراسان جانے سے پہلے عمرہ کرنے کے لئے خانہ ٔ کعبہ کے لئے چلے ،حالانکہ آپ کے ساتھ آپ کے خاندان کی بزرگ ہستیاں تھیں جن میں آپ کے فرزند ارجمند امام جواد محمد تقی بھی تھے ،جب آپ بیت اللہ الحرام پہنچے تو آپ نے طواف کیا ،مقام ابراہیم پر نماز ادا کی ،سعی کی اس کے بعد تقصیر کی، امام محمد تقی بھی اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ساتھ عمرہ کے احکام بجا لا رہے تھے، جب آپ (امام محمد تقی )عمرہ کے
احکام بجا لاچکے تو بڑے ہی غم و رنجیدگی کے عالم میں حجر اسماعیل کے پاس بیٹھ گئے ، امام رضا کے خادم نے آپ سے اٹھنے کے لئے کہا تو آپ نے انکار فرمادیا ،خادم نے جلدی سے جا کر امام رضا کو آپ کے فرزند ارجمند کے حالات سے آگاہ کیا تو آپ خود (امام رضا )امام محمد تقی کے پاس تشریف لائے اور اُ ن سے چلنے کے لئے فرمایا ،تو امام محمد تقی نے بڑے ہی حزن و الم میں یوں جواب دیا :میں کیسے اٹھوں ،جبکہ اے والد بزرگوار میں نے خانۂ خدا کو خدا حافظ کہدیا جس کے بعد میں کبھی یہاں واپسی نہیںہوگی ''۔(2)
امام محمد تقی اپنے والد بزرگوار کو دیکھ رہے تھے کہ آپ کتنے رنج و الم میں ڈوبے تھے ،جس سے آپ پریہ بات ظاہر تھی کہ یہ میرے والد بزرگوار کی زند گی کے آخری ایام ہیں ۔
..............
١۔اعیان الشیعہ ،جلد ٤،صفحہ ١٢٢،دو سرا حصہ ۔
2۔حیاة الامام علی بن موسیٰ الرضا ، جلد ٢،صفحہ ٢٨٧۔
|