خوشبوئے حیات
 

حضرت امام رضا علیہ السلام
امام رضا اللہ کے نور کاٹکڑا،اسکی رحمت کی خوشبو اور ائمہ طاہرین کی آٹھویںکڑی ہیںجن سے اللہ نے رجس کو دوررکھااوران کو اس طرح پاک وپاکیزہ رکھاجو پاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے ۔ مامون نے ائمہ طاہرین کے متعلق اپنے زمانہ کے بڑے مفکروادیب عبداللہ بن مطرسے سوال کرتے ہوئے کہا: اہل بیت کے سلسلہ میںتمہاری کیا رائے ہے ؟
عبداللہ نے ان سنہرے لفظوں میں جواب دیا:میں اس طینت کے بارے میں کیاکہوں جس کا خمیر رسالت کے پانی سے تیار ہوااوروحی کے پانی سے اس کو سیراب کیاگیا؟ کیا اس سے ہدایت کے مشک اور تقویٰ کے عنبر کے علاوہ کوئی اورخوشبو آسکتی ہے ؟
ان کلمات نے مامون کے جذبات پر اثرکیا اس وقت امام رضا بھی موجود تھے، آپ نے عبداللہ کامنھ موتیوں سے بھر دینے کا حکم صادر فرمایا ۔(١)
وہ تمام اصلی ستون اور بلند و بالا مثالیں جن کی امام عظیم سے تشبیہ دی گئی ہے، آپ کے سلوک ، ذات کی ہو شیاری اور دنیا کی زیب و زینت سے رو گردانی کرنا سوائے اُن ضروریات کے جن سے انسان اللہ سے لولگاتا ہے، یہ سب اسلام کی دولتوں میں سے ایک دولت ہے۔۔۔ہم ان میں سے بعض خصوصیات اختصار کے طور پر بیان کرتے ہیں:
..............
١۔حیاةالامام رضا ، جلد ١،صفحہ ١٠۔

آپ کی پرورش
امام نے اسلام کے سب سے زیادہ باعزت وبلند گھرانہ میں پرورش پائی ،کیونکہ یہ گھر وحی کا مرکز ہے ۔۔۔
یہ امام موسیٰ بن جعفر کا بیت الشرف ہے جو تقویٰ اور ورع وپرہیزگاری میں عیسیٰ بن مریم کے بیت الشرف کے مشابہ ہے ،گویا یہ بیت الشرف عبادت اور اللہ کی اطاعت کے مراکز میں سے تھا، جس طرح یہ بیت الشرف علوم نشرکرنے ا ور اس کو لوگوں کے درمیان شائع کرنے کا مرکزتھا اسی بیت الشرف سے لاکھوں علماء ، فقہائ،اور ادباء نے تربیت پائی ہے ۔
اسی بلند وبالا بیت الشرف میں امام رضا نے پرورش پائی اور اپنے پدر بزرگوار اور خاندان کے آداب سے آراستہ ہوئے جن کی فضیلت ،تقویٰ اور اللہ پر ایمان کے لئے تخلیق کی گئی ہے ۔

آپ کا عرفان اور تقویٰ
امام رضا کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدارتھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا، اس لئے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰہی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ہوگیااور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیااگرامام اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ہرگناہ کی تائید کی تو آ پ کا مقام اس کے نزدیک بہت عظیم ہوتا ۔اسی بناء پرمامون نے بہت جلد ہی آپ کو زہر دے کر آپ کی حیات ظاہری کا خاتمہ کردیا۔

آپ کے بلند وبالااخلاق
امام رضا بلند و بالا اخلاق اور آداب رفیعہ سے آراستہ تھے اور آپ کی سب سے بہترین عادت یہ تھی کہ جب آپ دسترخوان پر بیٹھتے تھے تو اپنے غلاموںیہاںتک کہ اصطبل کے رکھوالوںاور نگہبانوں تک کو بھی اسی دستر خوان پر بٹھاتے تھے۔ (١)
ابراہیم بن عباس سے مروی ہے کہ میں نے علی بن موسیٰ رضا کو یہ فرماتے سنا ہے :
ایک شخص نے آپ سے عرض کیا :خداکی قسم آپ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے ہیں ۔۔۔
امام نے یہ فرماتے ہوئے جواب دیا:اے فلاں! مت ڈر،مجھ سے وہ شخص زیادہ اچھا ہے جو سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے اور اس کی سب سے زیادہ اطاعت کرے ۔خدا کی قسم یہ آیت نسخ نہیں ہوئی ہے۔
امام اپنے جدرسول اعظم کے مثل بلند اخلاق پر فائز تھے جو اخلاق کے اعتبار سے تمام انبیاء سے ممتاز تھے ۔

آپ کا زہد
امام نے اس پرمسرت اورزیب وزینت والی زندگی میں اپنے آباء عظام کے مانند کردار پیش کیا جنھوںنے دنیا میں زہداختیارکیا،آپ کے جدبزرگوارامام امیرالمومنین نے اس دنیاکو تین مرتبہ طلاق دی جس کے بعد اس سے رجوع نہیں کیاجاسکتا۔
محمد بن عباد نے امام کے زہدکے متعلق روایت کی ہے :امام گرمی کے موسم میں چٹائی پر بیٹھتے ، سردی کے موسم میں ٹاٹ پربیٹھتے تھے ،آپ سخت کھر درا لباس پہنتے تھے، یہاں تک کہ جب آپ لوگوں سے ملاقات کے لئے جاتے تو پسینہ سے شرابور ہوجاتے تھے ۔(٢)
دنیا میں زہد اختیار کرنا امام کے بلند اور آشکار اور آپ کے ذاتی صفات میں سے تھا،تمام راویوں اور مورخین کا اتفاق ہے کہ جب امام کو ولی عہد بنایاگیا تو آپ نے سلطنت کے مانند کوئی بھی مظاہرہ نہیں فرمایا،حکومت وسلطنت کو کوئی اہمیت نہ دی،اس کے کسی بھی رسمی موقف کی طرف رغبت نہیں فرمائی، آپ کسی
..............
١۔نورالابصار، صفحہ١٣٨۔
٢۔عیون اخبار الرضا ،جلد ٢صفحہ ١٧٨۔مناقب ،جلد ٤،صفحہ ٣٦١۔
بھی ایسے مظاہرے سے شدیدکراہت کرتے تھے جس سے حاکم کی لوگوں پر حکومت وبادشاہت کا اظہار ہوتا ہے چنانچہ آپ فرماتے تھے :
لوگوںکاکسی شخص کی اقتداکرنااس شخص کیلئے فتنہ ہے اور اتباع کرنے والے کیلئے ذلت و رسوائی ہے ۔

آپ کے علوم کی وسعت
امام رضا اپنے زمانہ میں سب سے زیادہ اعلم اور افضل تھے اور آپ نے ان (اہل زمانہ) کو مختلف قسم کے علوم جیسے علم فقہ،فلسفہ ،علوم قرآن اور علم طب وغیرہ کی تعلیم دی۔ہروی نے آپ کے علوم کی وسعت کے سلسلہ میں یوںکہا ہے :میں نے علی بن موسی رضا سے زیادہ اعلم کسی کو نہیں دیکھا، مامون نے متعددجلسوںمیں علماء ادیان ،فقہاء شریعت اور متکلمین کو جمع کیا،لیکن آپ ان سب پر غالب آگئے یہاں تک کہ ان میں کوئی ایسا باقی نہ رہا جس نے آپ کی فضیلت کا اقرار نہ کیاہو،اور میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا ہے: ''میں ایک مجلس میں موجود تھا اور مدینہ کے متعدد علماء بھی موجود تھے ،جب ان میں سے کوئی کسی مسئلہ کے بارے میں پوچھتا تھا تو اس کو میری طرف اشارہ کردیتے تھے اور مسئلہ میرے پا س بھیج دیتے تھے اور میں اس کا جواب دیتا تھا ''۔(١)
ابراہیم بن عباس سے مروی ہے :میں نے امام رضا کونہیںدیکھامگریہ کہ آپ نے ہر سوال کا جواب دیا ہے ۔(٢)،میں نے آپ کے زمانہ میں کسی کو آپ سے اعلم نہیں دیکھااور مامون ہر چیز کے متعلق آپ سے سوال کرکے آپ کا امتحان لیتاتھااورآپ اس کا جواب عطافرماتے تھے ۔(٣)
مامون سے مروی ہے :میں اُن (یعنی امام رضا )سے افضل کسی کو نہیں جانتا۔ (٤)
بصرہ،خراسان اور مدینہ میں علماء کے ساتھ آپ کے مناظرے آپ کے علوم کی وسعت پردلالت
کرتے ہیں ۔دنیاکے جن علماء کو مامون آپ کا امتحان لینے کے لئے جمع کرتا تھا وہ ان سب سے زیادہ آپ پر یقین اور آپ کے فضل وشرف کا اقرار کرتے تھے ،کسی علمی وفدنے امام سے ملاقات نہیں کی مگر یہ کہ اس نے آپ کے فضل کا اقرار کرلیا۔مامون آپ کو لوگوںسے دور رکھنے پر مجبور ہوگیاکہ کہیں آپ کی وجہ سے لوگ اس سے بدظن نہ ہوجائیں۔
..............
١۔کشف انعمہ، جلد٣ صفحہ١٠٧۔
٢۔ایک نسخہ میں الاعلم آیاہے۔
٣۔ حیاة الامام الجواد صفحہ٤٢۔
٤۔اعیان الشیعہ ،جلد٤ صفحہ٢٠٠۔
اقوال زرین
امام نے متعدد غررحکم،آداب ،وصیتیںاوراقوال ،ارشاد فرماتے جن سے لوگ استفادہ کرتے تھے یہ بات اس چیز پردلالت کرتی ہے کہ آپ اپنے زمانہ میں عالم اسلامی کے سب سے بڑے استاد تھے اور آپ نے حکمت کے ذریعہ مسلمانوں کی تہذیب اور ان کی تربیت کے لئے جدوجہد کی ہے ہم ان میں سے بعض چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

عقل کی فضیلت
اللہ نے انسان کو سب سے افضل نعمت عقل کی دی ہے جس کے ذریعہ انسان اور حیوانات کو جدا کیا جاتا ہے اور امام نے بعض احادیث میں عقل کے متعلق گفتگو کی ہے جیسے :
١۔امام رضا کا فرمان ہے :''ہر انسان کا دوست اس کی عقل ہے اور جہالت اس کی دشمن ہے'' ۔(١)
یہ حکمت آمیز کلمہ کتنازیباہے کیونکہ عقل ہرانسان کا سب سے بڑادوست ہے جو اس کو محفوظ رکھتی ہے اور دنیوی تکلیفوںسے نجات دلاتی ہے اور انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ جہالت ہے جو اس کو اس دنیا کی سخت مشکلات میں پھنسادیتی ہے ۔
٢۔امام کافرمان ہے :''سب سے افضل عقل انسان کا اپنے نفس کی معرفت کرنا ہے ''۔(٢ )
بیشک جب انسان اپنے نفس کے سلسلہ میں یہ معرفت حاصل کرلیتاہے کہ وہ کیسے وجود میں آیا اوراس کا انجام کیا ہوگا تو وہ عام اچھائیوں پر کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ برائیوںکو انسان سے دور کردیتا ہے
..............
١۔اصول کافی ،جلد١ صفحہ١١ ،وسائل، جلد١١ صفحہ١٦١۔
٢۔اعیان الشیعہ ،جلد٤ صفحہ١٩٦۔
اور اس کو نیکیوںکی طرف راغب کرتا ہے اور یہی چیز اس کے خالق عظیم کی معرفت پر دلالت کرتی ہے ۔
جیساکہ حدیث میں وارد ہوا ہے :''من عرف نفسہ فقد عرف ربہ''۔
''جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی معرفت حاصل کرلی''۔

محاسبۂ نفس
امام کافرمان ہے :''جس نے اپنے نفس کا حساب کیا اس نے فائدہ اٹھایااور جو اپنے نفس سے غافل رہا اس نے گھاٹا اٹھایا''۔(١)
بیشک انسان کا اپنے نفس کا حساب کرنا کہ اس نے کون سے اچھے کام کئے ہیں اور کون سے برے کام انجام دیئے ہیں اور اس کااپنے نفس کو برے کام کرنے سے روکنا، اور اچھے کام کرنے کی طرف رغبت دلانا تو یہ اس کی بلندی نفس ،فائدہ اور اچھائی پر کامیاب ہونے کی دلیل ہے ،اور جس نے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے سے غفلت کی تو یہ غفلت انسان کو ایسی مصیبت میں مبتلا کردیتی ہے جس کے لئے قرار وسکون نہیں ہے ۔

کارو بار کی فضیلت
امام فرماتے ہیں :''اپنے اہل وعیال کے لئے کوئی کام کرنا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے مانند ہے ،یہ وہ شرف ہے جسے انسان کسب کرتا ہے اور ایسی کوشش ہے جس پر انسان فخر کرتا ہے ''۔(٢)

سب سے اچھے لوگ
امام سے سب سے اچھے اورسب سے نیک لوگوں کے بارے میں سوال کیاگیاتوآپ نے فرمایا: ''وہ لوگ جب اچھے کام انجام دیتے ہیں تو ان کو بشارت دی جاتی ہے ،جب ان سے برے کام ہوجاتے ہیںتووہ استغفار کرتے ہیں،جب ان کو عطاکیاجاتا ہے تو شکراداکرتے ہیں جب کسی مصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں تو معاف کردیتے ہیں ''۔(٣)
یہ حقیقت ہے کہ جب انسان ان اچھے صفات سے متصف ہوجاتا ہے تو اس کا سب سے افضل اور نیک لوگوں میں شمار ہوتا ہے اور وہ کمال کی چوٹی پر پہنچ جاتا ہے ۔
..............
١۔اصول کافی، جلد ٢صفحہ ١١١۔
٢۔تحف العقول ،صفحہ ٤٤٥۔
٣۔تحف العقول ،صفحہ٤٤٥۔