٥ ۔ ا للہ کی ا طا عت ا و ر عبا د ت
آپ اپنے زمانہ کے سب سے زیادہ عبادت گذار تھے یہاں تک کہ آپ کو عبد صالح اور مجتہدین کی زینت کے لقب سے یاد کیا جانے لگا،کسی شخص کو آپ کی طرح عبادت کر تے نہیں دیکھا گیا، راویوں کا کہنا ہے :جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کی آنکھوں سے اشک جا ری ہوجاتے اور اللہ کے خوف سے آپ کا دل مضطرب و پریشان ہو جاتا ۔
آپ کی عبادت کے چند نمونے یہ ہیں کہ جب آپ مسجد میں رات کے پہلے حصہ میں داخل ہوتے توایک سجدہ بجالاتے جس میں بڑے ہی غمگین انداز میں یہ کہتے :''میرے گناہ بڑے ہو گئے ہیں تو تیری عفو بھی اچھی ہو گی اے تقویٰ اور مغفرت والے خدا ''،اور آپ صبح تک اللہ سے توبہ اور خشوع والے یہی کلمات ادا کر تے رہتے ۔(٢)
آپ نماز شب پڑھتے اور اس کو صبح کی نماز تک طول دیتے ،اس کے بعد نماز صبح بجالاتے ، پھر سورج طلوع ہونے تک تعقیبات نماز پڑھتے ،اس کے بعد سجدے میں چلے جاتے اور زوال آفتاب کے قریب
..............
٢۔وفیات الاعیان ،جلد ٤،صفحہ ٩٣۔کنز اللغہ ،صفحہ ٧٦٦۔
تک سجدہ سے سر نہیں اٹھا تے تھے ۔(١)
شیبانی سے روایت ہے :میں دس سے کچھ زیادہ دن تک امام مو سیٰ کاظم کی مصاحبت میں تھا آپ طلوع آفتاب کے بعد سے زوال آفتاب(٢) تک سجدہ کر تے تھے ۔جب ہارون نے آپ کو ربیع کے قید خانہ میں ڈالا تو وہ ملعون اطلاع کیلئے اپنے محل کے اوپر سے امام کو دیکھتا تھا اور اس کو امام وہاں نظر نہیں آتے تھے، اس کو صرف ایک مخصوص مقا م پر ایک پڑا ہوا کپڑا نظر آتا تھا جو اپنی جگہ سے بالکل ہٹتا نہیں تھا ۔ ہارون نے ربیع سے کہا :وہ کیا کپڑا ہے جس کو میں ہر دن ایک خاص مقام پر پڑا ہوا دیکھتا ہوں ؟
ربیع نے جلدی سے کہا :اے امیر المو منین وہ کپڑا نہیں ہے وہ امام مو سیٰ بن جعفر ہیں جو ہر دن طلوع آفتاب سے لیکر زوال آفتاب تک سجدہ کر تے ہیں ۔
ہارون متعجب ہوا اور اس نے میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا :آگاہ ہو جائو یہ بنی ہاشم کے زاہدوں میں سے ہیں ۔
ربیع نے ہارون سے مخاطب ہو کر کہا :اے بادشاہ! تو نے امام کو کیوں قید میں ڈالاہے ؟
ہارون نے اس کی طرف سے منھ موڑ تے ہوئے کہا :امام کو قید میں ڈالنا ضروری تھا ۔
سندی بن شاہک کی بہن سے وارد ہوا ہے کہ جب امام اس کے بھا ئی کے قید خانہ میں تھے تو اس کا کہنا ہے :یہ یعنی امام مو سیٰ کاظم جب نماز عشاء سے فارغ ہو جاتے تو رات ڈھلنے تک خدا کی حمد و ثنا و تمجید اور اس سے دعا کرتے اس کے بعد طلوع فجر تک قیام و نماز میں مشغول رہتے ،پھر صبح کی نماز ادا فرماتے ،اس کے بعد طلوع آفتاب تک خدا کا ذکر فرماتے ،پھر چاشت کے وقت تک بیٹھتے ، اس کے بعد سوجاتے ،اور زوال سے پہلے بیدار ہو جاتے ،اس کے بعد وضو کرکے نماز ظہر و عصربجالاتے ، اس کے بعد ذکر خدا کرتے یہاں تک کہ نماز مغرب کا وقت آجاتا تو آپ نماز مغرب بجالاتے اس کے بعد نماز مغرب و عشاء کے مابین نماز ادا کرتے اور داعی اجل کو لبیک کہنے تک آپ کا یہی طریقہ ٔ کار تھا ۔(٣)
..............
١۔کشف الغمہ صفحہ ٢٧٦۔
٢۔حیاةالامام مو سیٰ بن جعفر ، جلد ١،صفحہ ١٤٠۔
٣۔تاریخ ابو الفداء ،جلد ٢،صفحہ ١٢۔
کثرت سجود کی بنا پر آپ کے اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے پڑ گئے تھے اور آپ کا ایک غلام تھا جو آپ کی پیشا نی اور ناک کے اوپر سے گھٹے کا گوشت کا ٹتا تھا اسی سلسلہ میں بعض شاعروں نے یوں کہا ہے :
طَالَتْ لِطُوْلِ سُجُوْدِہِ ثَفَنَاتُہُ
ِذْ أَقْرَحَتْ لِجَبِیْنِہِ الْعِرْنِیْنَا
فَرَأ یٰ فَرَاغَةَ سِجْنِہِ أُمْنِیَّةً
نِعْمَةً مَشْکُوْرَةً فِیْنَا(١)
''کثرت سجود کی وجہ سے آپ کے اعضاء سجدہ پر بیشمار گھٹے پڑ گئے تھے ۔
اسی لئے آپ نے قید خانہ کی فراغت کو اپنے لئے آرزو قرار دیا یہ قید خانہ آپ کیلئے نعمت ثابت ہوا ''۔
یہ آپ کی عبادت کے چند نمونے تھے جو آپ کے آباء و اجداد کی عبادت کی حکایت کرتے ہیں جنھوں نے مخلص طور پر خدا وند عالم سے تو بہ کی ،اور ہم نے امام کاظم کی عبادت کے متعلق تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب ''حیاةالامام موسیٰ کاظم ''میں ذکر کر دیا ہے ۔
٦ ۔ حلم اور غصہ کو پی جانا
امام مو سیٰ کاظم کے نمایاں صفات میں سے ایک صفت حلم اور غصہ کو پی جانا تھی ،جوشخص آپ سے برا ئی سے پیش آتا اس کو معاف کر دیتے ،جو آپ کے ساتھ تجاوز کرتا اس سے خو شروئی سے ملتے ، آپ تجاوز کرنے والوں کے ساتھ بھی احسان کرتے کہ آپ ان کے اندر سے انانیت اور شر کا قلع و قمع کردیتے تھے ، مورخین نے آپ کے عظیم حلم کایہ واقعہ نقل کیا ہے کہ روایت کی گئی ہے کہ عمر بن خطاب کی نسل میں سے ایک شخص امام کو بہت زیادہ برا بھلا کہتا اور آپ پر بے انتہاسب و شتم کرتا تھا ،امام کے بعض شیعوں نے اس کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تو آپ نے ان کو ایسا کر نے سے منع فرمایااور قتل کئے بغیر اس کا حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا ،آپ نے اس کے رہنے کی جگہ معلوم کی تو آپ کو بتایا گیا : مدینہ کے اطراف میں اس کا کھیت ہے امام اپنی سواری پر بیٹھ کر نا آشنا طور پر اس کے مزرعہ(کھیت) پر پہنچ گئے تو اس کو وہیں پر موجود پا یا جب آپ اس کے نزدیک پہنچے تو اس عمری نے آپ کو پہچان لیا اور آگ ببولا ہو گیا کیونکہ امام کے گدھے نے
..............
١۔انوارالبھیہ، صفحہ ٩٣۔
اس کی زراعت کو نقصان پہنچا دیا تھا ،امام نے اس سے نرمی سے گفتگو کر نا شروع کی اور اس سے فرمایا :''تمہارا اس میں کتنا نقصان ہوا ہے ؟''۔
اس نے کہا :سو دینار ۔۔۔
''تم اس سے کتنے منافع کی امید رکھتے تھے ؟''۔
اس نے کہا : میں علم غیب نہیں رکھتا یعنی نہیں جانتا ۔
امام نے فرمایا :'' میں یہ سوال کر رہا ہوں کہ تجھے تقریباً اس سے کتنا منافع ہوتا ؟''۔
اس نے کہا : تقریباً دوسو دینا ر۔
امام نے اس کو تین سو دینار دیتے ہوئے فرمایا :''یہ تمہاری اس زراعت کا ہر جانا ہے ''۔
عمری امام کے حق میں زیادتی کرنے سے شرمندہ ہو گیا اور وہ مسجد نبی ۖ کی طرف دوڑ کر گیا، جب امام وہاں تشریف لائے تو اس نے کھڑے ہوکر بلند آواز میں کہا :خدا وند عالم بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں قرار دے ۔۔۔
عمری کے دوستوں نے جب یہ ماجرا دیکھا تو اس تبدیلی کے سلسلہ میں گفتگو کر نے لگے، اس نے امام کی بلند عظمت کے سلسلہ میں جواب دیا امام نے اس کے دوستوں و ساتھیوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا : ''کیا تمہارا ارادہ بہتر تھا یا جو ارداہ میں نے کیا ''۔ (١)
آپ کے حلم کا ہی واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ اپنے دشمنوں کی ایک جماعت کے پا س سے گذرے جس میں ابن ھیّاج بھی تھا، اس نے اپنے ایک ساتھی کو ایسا کرنے کیلئے ابھارا کہ وہ امام کے مرکب کی لگام پکڑ کر یہ ادعا کرے کہ یہ مرکب میرا ہے تو وہ شخص امام کے مر کب کے پاس آیا اور اس نے آپ کے مر کب کی لگام پکڑ کر یہ ادعا کیا کہ یہ مر کب میرا ہے امام مرکب سے نیچے تشریف لائے اور وہ مر کب اسی کو عطا کر دیا ۔(٢)
امام کاظم اپنی اولاد کو زیور حلم سے آراستہ ہونے کی یوں سفارش کر تے تھے:''اے میرے بیٹے ،
..............
١۔تاریخ بغداد، جلد ١،صفحہ ٢٨۔٢٩۔کشف الغمہ ،صفحہ ٢٤٧۔
٢۔حیاةالامام مو سیٰ کاظم ، جلد ١،صفحہ ١٥٧۔
میں تمہیںوصیت کر تا ہوں کہ جس نے اسے یاد رکھا اُس نے فائدہ اٹھایا ،جب کو ئی گفتگو کرے اور وہ تمہارے دائیں کان پر گراں گذر رہی ہو توتم اسے بائیں کان کے حوالہ کردوتو میں اس سے تمہارے لئے معذرت خواہ ہوں اور فرمایا:میں اس کا عذر قبول کرنے کے سلسلہ میںہر گز کچھ نہیں کہتا'' ۔(١)
یہ وصیت امام کے حلم ،وسیع اخلاق اور بلند و بالا صفات کی عکا سی کر رہی ہے ۔
٧ ۔مکارم اخلاق
اسلام مکارم اخلاق لے کر آیا ہے ،اور اس نے اپنے نورانی پیغام میں مکارم اخلاق کو ایک بنیادی و معتبر قانون قرار دیا ہے رسول اسلام ۖ کا فرمان ہے :''اِنّ بُعِثْتُ لِاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْاَخْلَاقِ'' ''میں مکارم اخلاق کو تمام کر نے کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں '' ،رسول اسلام ۖ انسانیت کریمہ کے لئے بلند اخلاق پر فا ئز تھے ،اور آپۖ کے بعد آپ ۖ کے ائمہ ٔ ہدیٰ نے معالم اخلاق اور محاسن اعمال کی تاسیس میں بلند کردار ادا کیا اُنھوں نے اپنے اصحاب کیلئے بہترین نقوش چھوڑے ۔
امام ان بہترین صفات کی طرف ہمیشہ متوجہ رہے اور اپنے اصحاب کو ان بہترین صفات کے زیور سے آراستہ کیا تاکہ وہ معاشرہ کے لئے بہترین ہادی و پیشوا قرار پا ئیں ،ہم اس سلسلہ میں آپ سے منقول چند چیزیں ذیل میں نقل کر رہے ہیں :
سخا و ت اور حُسن خلق
امام نے اپنے اصحاب کو سخاوت اور حُسنِ خُلق کے زیور سے آراستہ ہونے کی ترغیب دلا ئی چنانچہ امام فرماتے ہیں :
''حُسن خلق والا شخص خدا کے جوار میں ہے ،خدا اس کو جنت میں داخل کرے گا ،اور اللہ نے نبی کو سخی بنا کر مبعوث کیا ہے ،او ر میرے والد بزرگوارنے ہمیشہ مجھے سخاوت اور حُسن خلق کی سفارش فرمائی ہے ''۔
..............
١۔فصول مہمہ ،صفحہ ٢٢۔
صبر
امام اپنے اصحاب کو خطرناک حا دثوں میں بھی صبر کی تلقین فرما تے تھے کیونکہ آہ و فغاں کرنے سے وہ اجر ختم ہوجاتا ہے جس کا خداوند عالم نے صابرین سے وعدہ کیا ہے ۔
امام مو سیٰ کاظم فرماتے ہیں :
''المصیبةُ لاتکون مصیبة یستوجبُ صاحبھا أَجْرَھا اِلَّابالصبروالاسترجاع عند الصدمةِ''۔
''صا حب مصیبت ،مصیبت پر اسی وقت اجر کا مستحق ہوتاہے جب وہ مصیبت پر صبر کرے اور صدمہ کے وقت کلمہ ٔ استرجاع ''اِناَّ لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ''بھی کہے ''۔
آپ ہی کا فرفرمان ہے :''اِنَّ الصبرَعلیٰ االبلائِ اَفْضَلُ مِنَ الْعَافِیَةِ عِنْدَ الرَّخَائِ ''۔
''مصیبت پر صبر کرنا آسانی کے وقت عافیت سے افضل ہے ''۔
صمت و و قا ر
آپ اپنے اصحاب کو صمت و وقار کی تاکید کرتے اور اس کے فائدے بیان کرتے :''صمت و وقار حکمت کے ابواب میں سے ایک باب ہے ،صمت سے محبت پیدا ہو تی ہے اور یہ ہر خیر و بھلائی کی دلیل ہے ''۔
عفو ا و ر ا صلا ح
آپ اپنے اصحاب سے فرماتے جو شخص تمہارے ساتھ برا ئی کرے اس کو معاف کردو ،اسی طرح آپ اپنے اصحاب کو لوگوں کے درمیان اصلاح کر نے کی ترغیب دلاتے ،ان کے سامنے محسنین اور مصلحین کی عاقبت و انجام بیان فرماتے اور اللہ کے نزدیک اُن کااجریوں بیان فرماتے تھے: ''قیامت کے دن ایک منا دی ندا دیگا جس کا اللہ پر اجر ہے وہ کھڑا ہوجائے تو عفو و در گذر اور اصلاح کرنے والوں کے علاوہ کوئی اورکھڑا نہیں ہو گا ''۔
قو ل خیر
آپ اپنے اصحاب کو نیک گفتگو کرنے اور لوگوں کو امر بالمعروف کرنے کی سفارش فرماتے تھے آپ نے ابوالفضل بن یونس سے فرمایا :''خیر کی تبلیغ کر و ،اچھی بات کہو اور اِمَّعَہ نہ بنو ''۔(١)
سوال کیا گیا :اِمَّعہ کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا :''یہ نہ کہو کہ میں لوگوں کے ساتھ ہوں اور میں لوگوں میں سے ایک شخص کے مانند ہوں ،بیشک رسول اللہ ۖ کا فرمان ہے :اے لوگو !یہ دونوں بلند و بالا اور روشن راستے ہیں ایک خیر کا راستہ اور دوسرا شر کا راستہ ،تمہارے لئے شر کا راستہ خیر کے راستہ سے زیادہ محبوب نہ ہو ''۔
شکر نعمت
آپ نے اپنے اصحاب کو اللہ کی نعمت اور اس کے شکر کے اظہار کرنے کی تاکید فر ما ئی :''اللہ کی نعمتوں کے بارے میں گفتگو کرنا شکر ہے اور ان کو یاد نہ کرنا کفر ہے ،تم نعمتوں سے خدا کا شکر کرکے اپنے پروردگار سے رابطہ رکھو ،اپنے اموال کو زکوٰة کے ذریعہ محفوظ رکھو ،دعا کے ذریعہ بلاو مصیبت کو دور کرو ،دعا بلائوں کو دور کر نے کے لئے سپر ہے اور اس سے انسان محکم و مضبوط ہوتا ہے ۔۔۔''۔
٨ ۔آپ کے زرین اقوال
امام کے متعدد حکیمانہ اقوال ہیں جن میں آپ نے اخلاقی اور معاشرتی طریقے بیان فرمائے ہیں ہم ذیل میں آپ کے چند اقوال بیان کر رہے ہیں :
١۔امام کاظم فرماتے ہیں :''تم بہترین صدقہ کے ذریعہ کمزوروں کی مدد کر و ''۔
٢۔امام کاظم فرماتے ہیں:مو من پہاڑ سے بھی زیادہ عزیز ہے ،پہاڑ بیلچہ وغیرہ سے ٹوٹ جاتا ہے اور مو من کا دین کسی چیز سے بھی نہیں ٹوٹ سکتا ''۔
٣۔آپ نے محمد بن فضل سے فرمایا :''یامحمد کذِّب سمعک وبصرک عن اخیک وان شھد عندک خمسون قسامة،وقال لک قولافصدِقہ وکذبھم ،ولا تذیعنَّ شیئاً یُشِیْنُہُ''۔
''اے محمد تم اپنے بھا ئی کے بارے میں اپنی قوت سماعت اور بصارت کی تکذیب کرو اگر چہ
..............
١۔الاِمع اور الاِمعہ( کسرہ و تشدیدی کے ساتھ ) ۔کہا گیا ہے :اس کی اصل یہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ۔
تمہارے سامنے پچاس اچھے افراد ہی کیوں نہ گوا ہی دیں ،اور تمہارے سامنے اس کی تصدیق کے لئے کہیںاور تکذیب کریں اور تم اس کے متعلق کو ئی بری بات شائع نہ کرو ''۔
٤۔امام کاظم فرماتے ہیں:''معرفت کے بعد سب سے افضل عبادت انتظار فرج ہے ''۔
٥۔امام کاظم فرماتے ہیں:''مو من ترازو کے پلڑوں کے مانند ہے جتنا اس کا ایمان بڑھتا جائے گا اتنی ہی اس کی آزمائش کے لئے اس کی مصیبتیں اور بلائیں زیادہ ہو تی جا ئیں گی ''۔
٦۔امام کاظم فرماتے ہیں:''امانت ادا کرنا اور سچ بولنا رزق کے سبب ہیں اور خیانت و جھوٹ بولنا فقر و نفاق کے سبب ہیں ''۔
٧۔امام کاظم فرماتے ہیں:جب لوگ ایسے گناہوں کے بارے میں گفتگو کریں جن کو وہ انجام نہیں دیتے ہیں خداوند عالم اُن کیلئے ایسی مصیبتیں ایجاد کرے گا جن کو وہ شمار نہیں کر سکتے ہیں ''۔(١ )
..............
١۔حیاةالامام مو سیٰ کاظم ،جلد١،صفحہ ٢٧٥۔٢٧٩۔
امام ہارون کے قید خانہ میں
جب امام کے فضل و علم اور مکارم اخلاق مشہور ہوگئے اور ہر طرف آپ کے متعلق گفتگو ہونے لگی تو ہارون کو یہ بہت گراںگزراکیو نکہ وہ علویوں سے بہت زیادہ کینہ رکھتا تھا ،اس نے مشاہدہ کیا کہ علوی امام مو سیٰ کاظم کا بہت زیادہ احترام کر تے ہیں ہارون اس وقت مدینہ میں تھا اس نے نبی اکرم ۖ کو سلام کیا اور یہ کہا :اے رسول خدا ۖ میرے ماں باپ آپ فدا ہو جا ئیں میں اپنے ارادہ پر آپ ۖ سے معذرت چا ہتا ہوں ،میں مو سیٰ بن جعفر کو قید کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں ،کیونکہ مجھے یہ ڈر ہے کہ کہیں آپ کی امت میں فساد برپا ہوجائے اور اُن میں خو ن خرابہ ہو ۔(٢)
اس نے ایک سپا ہی امام کو گرفتار کر نے کیلئے روانہ کیا جب وہ امام کے پاس پہنچا تو آپ اپنے جد بزرگوار کی قبر کے پاس نماز پڑھنے میں مشغول تھے تو آپ نے نماز تمام کرنے کے بعد رسولۖ اللہ سے یوں شکایت کی :''یارسول اللہ ۖ میں آپ سے اس کی شکایت کر تا ہو ں ۔۔۔''۔ (٣)
امام کو بڑی ذلت و خواری کے ساتھ گرفتار کر کے ہارون کے پاس لایا گیا جب آپ اس کے سامنے پہنچے تو اُس نے آپ کو بہت بُرا بھلا کہا اور آپ کو٢٠ شوال ١٧٩ ھ میںقیدکیاگیا۔(4)
..............
٢۔بحارالانوار ،جلد ،١٧صفحہ ١٩٦۔
٣۔مناقب ،جلد ٢،صفحہ ٣٨٥۔
4۔حیاةالامام مو سیٰ کاظم ،جلد ٢،صفحہ٤٦٥۔
|