حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام
بیشک حضرت امام موسیٰ بن جعفر کی زندگی نور ،کرامت اورحسن سلوک کا سرچشمہ ہے،ان کا فیض دائم ہے جس میں رسول ۖکی روحا نیت ،جہاد،روش اور پا بندی دین کی جلوہ نما ئی با لکل مجسم شکل میں موجود ہے۔آپ کی سیرت و کردار کے مختصر حالات مندرجہ ذیل ہیں :
علمی طاقت وقوّت
راویوںاور محققین کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ اپنے زمانہ کے اعلم تھے ،آپ علوم ومعارف کی بڑی طاقت وقوت کے مالک تھے ، علماء اور راوی آپ کے علوم کے چشمے سے سیراب ہوئے ، وہ امام کے زرین اقوال اور آداب کے متعلق جو فتویٰ دیتے اس کو لکھنے میں ایک دوسرے پر سبقت کرتے تھے،ائمہ اہل بیت میں سب سے پہلے تشریع اسلام میں حلال وحرام کے باب کا آغاز کیا۔(١)
آپ کے زمانہ میں آپ کے مدرسہ سے بڑے بڑے علماء اور فقہاء فارغ التحصیل ہوئے، ہم نے اپنی کتاب ''حیاةالامام موسیٰ بن جعفر ''میں آپ کے اصحاب اور آپ سے حدیث نقل کرنے والے راویوںکی تعداد(٣٣١)بیان کی ہے ،ان علماء میں سے بعض آپ ہی کے دور میں علمی میدان میں فعال ہوئے جیسے بعض علماء نے امامت کے منکر اور دوسرے تمام فرق ومذاہب کے علماء کے ساتھ مناظرے کے میدان میں قدم رکھا جن میںسب سے نمایاں آپ کے صحابی ہشام بن حکم تھے ،انھوں نے برامکہ کے ساتھ بڑے اچھے مناظرے کئے اور بلاط عباسی میں امامت کے متعلق شیعوں کے مذہب کو اصل دلیل وبرہان کے
..............
١۔الفقہ الاسلامی مدخل لدراسة نظام المعاملات، صفحہ ١٦٠۔
وبرہان کیذریعہ ثابت کیا۔ہم نے اپنی کتاب ''حیاةالامام موسیٰ کاظم ''کی دوسری جلدمیںہشام بن حکم کے مناظروںکے متعلق تحریرکیاہے۔
امام کے مناظرے
امام موسیٰ کاظم نے اپنے دشمن اور بعض یہودی اور عیسائی علماء کے ساتھ حیرت انگیز اورمحکم مناظرے انجام دئے جو آپ کی علمی طاقت وقوت پر دلالت کرتے ہیں جو بھی آپ سے مناظرہ کرتاوہ عاجزوکمزورثابت ہو تا، امام کے حجت ہونے کا یقین کرلیتا اور خود پر آپ کی علمی برتری کا معترف ہوجاتا آپ کے بعض مناظرے مندرجہ ذیل ہیں :
١۔نفیع انصاری کے ساتھ مناظرہ
نفیع انصاری امام سے کینہ وبغض رکھنے والوں میں سے تھا،جب وہ عباسی مملکتوں میں امام کا اکرام وتکریم ہوتا دیکھتاتو وہ غصہ سے بھر جاتا ،جب امام ہارون کے پاس تشریف لے جارہے تھے تو ہارون کے دربان نے آگے بڑھ کر امام کا بیحد استقبال کیا جب آپ ہارون کے پاس سے جانے لگے تو نفیع کے ساتھ عبدالعزیز نے کہا : یہ بزرگ کون ہیں ؟
یہ بزرگوار ابوطالب کی اولاد سے موسی بن جعفر ہیں ۔
نفیع نے کہا:میں نے اس قوم (یعنی بنی عباس)سے عاجز قوم نہیں دیکھی جو اس شخص کی اتنی ایسی تعظیم وتکریم کرتی ہے جو ان کو تخت حکومت سے نیچے اتارنے کے در پئے ہے،جان لے جب یہ باہر نکلیںگے تو میں ان کو ذلیل ورسوا کروںگا۔
عبدالعزیزنے اس کو امام کے بارے میں اس طرح کی باتیںکرنے سے منع کرتے ہوئے کہا: ایسی باتیں نہ کرو،یہ وہ اہل بیت ہیں جب بھی کسی نے ان سے ایسی باتیں کی ہیں اس کا ایسا جواب دیا جو قیامت تک کوئی جواب نہ لاسکے۔
جب امام ہارون کے پاس سے نکلے تو نفیع نے آپ کے مرکب کی لگام پکڑتے ہوئے کہا: آپ کون ہیں ؟
امام نے فرمایا:اے شخص اگر تم میرانسب پوچھنا چاہتے ہوتو میںاللہ کے حبیب کا فرزند ہوں، اسماعیل ذبیح اللہ کا فرزند ہوں اور ابراہیم خلیل اللہ کا فرزند ہوں،اگر تم میرے وطن کے متعلق سوال کرتے ہوتومیںاس شہرکارہنے والاہوںجس میں اللہ نے مسلمانوںاورتجھ(اگر تومسلمانوں میں سے ہے )پر حج کرنا واجب قرار دیا ہے ،اگر تم ہم پرفخر کرنا چاہتے ہو تو یاد رکھو میدان جنگ میں ہماری قوم کے مشرکوں نے تمہاری قوم کے مسلمانوں کو اپنے برابر کا نہیں سمجھا تھا اور میدان میں صاف کہدیا تھا کہ ہمارے برابر کے افراد کو ہمارے مقابلہ کیلئے بھیجو،میرے مرکب کی لگام چھوڑدے '' ۔(١)
نفیع شکست کھاکر لوٹ گیا اس کو امام کے بیان کئے ہوئے مطالب پر بے حد غصہ تھا ۔
٢۔ابویوسف کے ساتھ مناظرہ
ہارون نے اپنی موجودگی میں ابویوسف کو امام موسیٰ کاظم سے فقہی مسائل پوچھنے کے لئے کہاکہ شاید امام ان کا جواب نہ دے پائیں اور اسی طرح امام کو رسواکیا جاسکے،ہارون رشید نے امام کو ابویوسف کے سامنے حاضر کیاتواس نے امام سے مندرجہ ذیل سوالات کئے :
ابویوسف : حالت احرام میںاحرام باندھنے والے کے متعلق سایہ کر نے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟
فرمایا :''حرام ہے'' ۔
سوال کیا کہ اگر کو ئی شخص خیمہ کے اندر چلا جائے یا گھر میں چلا جائے تو کیا حکم ہے ؟
فرمایا :''یہ حلال ہے'' ۔
عرض کیا گیا : اِن دونوں میں کیا فرق ہے ؟
فرمایا :'' حالت حیض میں عورت کی نماز کاکیا حکم ہے کیا عورت حالت حیض کے ایام کی نماز کی قضا بجالائے گی ؟''۔
..............
١۔نزہةالناظرفی تنبیہ الخاطر، صفحہ٤٥۔
اس نے کہا :نہیں۔
امام :''کیاروزہ کی قضا کرے گی ؟''۔
اس نے کہا : ہاں ۔
امام نے سوال کیا :''کیوں؟''
اس نے کہا :حکم خدا اسی طرح آیا ہے۔
امام نے فرمایا:''تو اسی طرح یہ حکم بھی آیا ہے ''۔
ابو یوسف خا موش ہو گیا اور عاجزی کا اظہار کرنے لگا، اس نے ہارون سے کہا :آپ نے یہ میرے ساتھ کیا کیا ۔(١)
٣۔ہارون رشید کے ساتھ مناظرہ
جب ہارون نے امام موسیٰ کو قیدخانہ میں ڈالدیااورآپ دوسال تک قیدکی سختیاںبرداشت کرچکے تواس نے ایک دن امام کو اپنے پاس بلابھیجا،جب آپ ہارون کے پاس پہنچے تو اس نے بڑے ہی غیظ وغضب کے ساتھ کہا:اے موسی بن جعفردو خلیفائوں کے لئے خراج اکٹھا کیا جاتا ہے۔
امام نے بڑی ہی لطف ونرمی کے ساتھ اس سے مخاطب ہوکر فرمایا:''اے حاکم!میں تجھ سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں کہ تو میرے اور اپنے گناہ کا بوجھ اٹھائے ،ہمارے دشمنوںکی باتوںکوہمارے خلاف قبول کرے،توجانتاہے کہ رسول اکرم ۖکی وفات کے وقت سے ہی ہم پراتہامات لگائے جاتے رہے ،اگر تجھے رسول اکرم ۖسے کچھ قرابت ہے توکیامجھے اس بات کی اجازت ہے کہ میں تجھے ایک خبر سنائوں جس کو میرے پدربزرگوارنے اپنے آباء سے اور انھوں نے میرے جدامجد رسول اکرم ۖسے نقل کیا ہے ''۔
ہارون :میں نے آپ کو اجازت دی ۔
امام نے فرمایا:''مجھے میرے والد بزرگوار نے اپنے آباء سے اور انھوں نے اپنے جد رسولۖ اسلام سے نقل کیا ہے :رشتہ دار جب رشتہ دار سے اپنا بدن مس کرتا ہے تو مل کر بے چین ہوجاتا ہے پس تو اپنا ہاتھ
..............
١۔مناقب ،جلد ٣،صفحہ ٤٢٩۔
میرے ہاتھ میں دے ''۔
ہارون کے دل میں رحم آگیا اُس نے اپنا ہاتھ امام کی طرف بڑھایااُن کو اپنی طرف کھینچا معانقہ کیا ،پھر انھیں اپنے اور قریب کیا اور امام سے یوں گویا ہوا :آپ اور آپ کے جد نے صحیح فرمایا ہے ،میرے خون میں روانی آگئی ہے ،میری رگیں مضطرب ہو گئی ہیںیہاں تک کہ مجھ پر رقت طاری ہو گئی ،اور میری آنکھوں میں آنسو بھر گئے ہیں،میں آپ سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کرنا چا ہتا ہوں ،جو میرے دل میں کچھ مدت سے کھٹک رہی ہیں اور ان کے متعلق میں نے کسی سے کو ئی سوال ہی نہیں کیا ہے ،اگر آپ نے اُن کا جواب دیدیا تو میں آپ کو آزاد کر دوں گا ،آپ کے بارے میں کسی کی کو ئی بات نہیں سنُوں گا ، مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ہے، لہٰذا آپ میری تصدیق فرمائیے جو چیزیں میرے دل میں ہیں اور میں آپ سے سوال کرتا ہوں ۔
امام :''جن چیزوں کا علم میرے پاس ہے میں اُن کے سلسلہ میںضرورتجھے بتائوں گا اگر تو مجھے اُن کے متعلق امان دے گا ''۔
آپ کیلئے امان ہے اگر آپ نے مجھے سچ بتلایا اور تقیہ نہیں کیا ،جو آپ بنی فاطمہ کی پہچان ہے۔
امام :''جو کچھ پوچھناہے پوچھ لے ''۔
ہارون :آپ کو ہم پر کیوںفضیلت دی گئی جبکہ آپ اور ہم ایک ہی شجرہ سے ہیں ؟ عبدالمطلب کی اولاد ہمارا اور آپ کے باپ ایک ہی ہے ،ہم بنی عباس ہیں اور آپ ابوطالب کی اولاد ہیں ،جبکہ وہ دونوں رسول اللہ ۖکے چچا تھے ،اور دونوں کے رشتہ برابر ہیں ۔
امام :''ہم زیادہ قریب ہیں ''۔
ہارون :کیسے ؟
امام :''چونکہ عبداللہ اور ابوطالب ایک ماںباپ کی اولاد ہیں ،اور تمہارا باپ عباس، عبداللہ اور ابوطالب کی ماں سے نہیں ہیں'' ۔
ہارون:آپ یہ کیوںادعاکرتے ہیں کہ آپ نبی کے وارث ہیں اور چچا،چچاکے بیٹے کا حاجب ہے ،حالانکہ رسول اللہ ۖدنیا سے جاچکے تھے اور ابوطالب رسول اللہ ۖسے پہلے وفات پاچکے تھے اور رسول اللہ ۖکے چچا عباس زندہ تھے ؟
امام :''اے حاکم!مجھے اس مسئلہ سے معاف رہنے دے، مجھ سے اس کے علاوہ اور دوسرے مسائل پوچھ لے ''۔
ہارون:نہیں ،آپ کو جواب دینا ہوگا۔
امام :''تو تُو مجھے امان دے گا'' ۔
ہارون:میں نے آپ کو کلام کرنے سے پہلے ہی امان دیدی ہے ۔
امام :''حضرت علی کافرمان ہے حقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے چاہے وہ مذکرہویامونث کسی ایک کے لئے بھی ماںباپ،شوہراورزوجہ کے علاوہ میراث میںکوئی حصہ نہیں ہے ،لہٰذاحقیقی اولاد کے ہوتے ہوئے چچاکو کوئی میراث نہیں ملے گی،ہاں ،تیم عدی اور بنی امیہ کہتے ہیں:چچاوالدہوتاہے ، ان میں سے کوئی بھی حقیقی نہیںہے اور ان کے پاس نبی کی کو ئی تائید نہیں ہے ''۔
پھر آپ نے اسی زمانہ کے فقہاء کا ایک جملہ نقل فرمایا جنھوں نے اسی مسئلہ میں وہی فتویٰ دیا تھا جو آپ کے جدامیرالمؤمنین نے دیاتھا۔اس کے بعد مزید فرمایا:''قدماء اہل سنت نے نبی اکرم ۖ سے روایت کی ہے کہ آپ ۖنے فرمایا:تم میں سب کے لئے حق فیصلہ کرنے والے علی ہیں،اسی طرح عمر بن خطاب کا کہنا ہے :ہمارے درمیان علی سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں اور وہ یعنی ''قضائ''اسم جامع ہے کیونکہ جن تمام چیزوںکے ذریعہ نبی کی مدح وثناکی جائے چاہے وہ قرائت ہے یافرائض اور علم ہو سب قضاوت میں داخل ہیں'' ۔
ہارون نے امام سے مزید وضاحت طلب کی۔
توامام نے فرمایا:''جس نے ہجرت نہیں کی ہے نبی ۖنے اس کو وارث نہیں بنایا اور نہ ہی ہجرت سے پہلے اس کے لئے ولایت ثابت ہے ''۔
ہارون :آپ کے پاس کیا دلیل ہے ؟
امام نے دلیل کے طورپر میںخداوند عالم کایہ قول پیش کیا :( وَالَّذِینَ آمَنُواوَلَمْ یُہَاجَرُوا مَالَکُمْ مِنْ وَلاَیَتِہِمْ مِنْ شَیْئٍ حَتَّی یُہَاجِرُوا)۔(١)
''اور جن لوگوں نے ایمان اختیار کر کے ہجرت نہیں کی ان کی ولایت سے آپ کا کو ئی تعلق نہیں ہے جب تک ہجرت نہ کریں ''۔
بیشک ہمارے چچا عباس نے ہجرت نہیں کی تھی ۔
ہارون کی تدبیر ناکام ہوگئی اور اس کی ناک بھویںچڑھ گئیں اور اس نے امام سے کہا: کیا آپ نے ہمارے کسی ایک دشمن کویہ فتویٰ دیا ہے ،یا فقہاء میں سے کسی ایک فقیہ کو اس سے باخبر کیا ہے ؟
امام :''مجھ سے تیرے علاوہ کسی اور نے یہ سوال ہی نہیں کیا''۔
ہارون کا غصہ کچھ ٹھنڈاہوااوراس نے امام کی خدمت میں عرض کیا:کیوںآپ نے اہل سنت اور شیعوںکویہ اجازت دی ہے کہ وہ تمہیں رسول اللہ ۖسے منسوب کرتے ہوئے یوں کہیں:یابنی رسول اللہ ۖ،حالانکہ آپ علی کی اولاد ہیں ،جبکہ انسان کو اس کے باپ سے منسوب کیاجاتا ہے ،فاطمہ صلب ہیںاور نبی آپ کے ناناہیں؟
امام نے ہارون کی یہ بات اس واضح دلیل کے ذریعہ رد فرمائی:''اگر نبی اکرم کو زندہ کیاجائے اور وہ تمہاری لڑکی سے شادی کرنا چاہیں تو کیا تم اس کو قبول کرلوگے؟''۔
ہارون :کیوں نہیں ؟بلکہ میں اس بات پر عرب اور عجم پر فخر کروں گا۔
امام :''لیکن نہ وہ مجھ سے مطالبہ کریں گے اور نہ میں ایسا کروں گا''۔
ہارون :کیوں؟
امام :''کیونکہ وہ میرے والد ہیں تیرے والد نہیں'' ۔
ہارون :مرحبا یا موسیٰ ،آپ اس سلسلہ میں کیا فرماتے ہیں :نبی ۖ کے کو ئی فرزند نہیں تھا جبکہ نسل لڑکے سے چلتی ہے لڑکی سے نہیں ،اور آپ نبیۖ کی بیٹی کے فرزند ہیں ؟
امام '':میرے رشتہ کا واسطہ مجھے معاف رکھ ''۔
ہارون :نہیں ،اے اولاد علی اس سے متعلق آپ اپنی دلیل بیان کیجئے اور اے امام موسیٰ کاظم آپ
..............
١۔سورئہ انفال، آیت ٧٢۔
ان کے سردار ہیں ،آپ اس زمانہ میں امام ہیں اور میں اس بارے میں آپ کومعاف نہیں کروں گا ؟
امام :'' کیا تیری اجازت ہے کہ میں جواب دوں ؟''۔
ہارون : بیان فرما ئیے ۔
اما م :خداوند عالم کا فرمان ہے :( وَوَہَبْنَا لَہُ ِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ کُلًّا ہَدَیْنَا وَنُوحًا ہَدَیْنَامِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہِ دَاوُودَ وَسُلَیْمَانَ وََیُّوبَ وَیُوسُفَ وَمُوسَی وَہَارُونَ وَکَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ۔ وَزَکَرِیَّاوَیَحْیَی وَعِیسَی وَِلْیَاسَ کُلّ مِنْ الصَّالِحِینَ)۔(١)
''اور ہم نے ابراہیم کو اسحق و یعقوب دئے اور سب کو ہدایت بھی دی اور اس کے پہلے نوح کو ہدایت دی اور پھر ابراہیم کی اولاد میں دائود ،سلیمان ،ایوب ،یوسف ،مو سیٰ اور ہارون قرار دئے اور ہم اسی طرح نیک عمل کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں زکریا،یحییٰ عیسیٰ اور الیاس کو قرار دیا اور وہ سب صالحین میں تھے ' '۔
اے حاکم ! عیسیٰ کا باپ کون ہے ؟
ہارون : عیسیٰ کاکو ئی باپ نہیں ہے ۔
امام :''خداوند عالم نے حضرت عیسیٰ کو مریم کے ذریعہ انبیاء کی ذریت سے ملحق کیا اسی طرح ہم کو ہماری والدہ ما جدہ فاطمہ کے ذریعہ نبی کی ذریت سے ملحق کیا ''۔
ہارون نے اس سلسلہ میں امام سے مزید دلیل کی خواہش کی ۔
امام نے فرمایا :''خداوند عالم فرماتا ہے :( فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ َبْنَائَنَاوََبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَاوَنِسَائَکُمْ وََنْفُسَنَاوََنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِین)(٢)
''پیغمبر علم آجانے کے بعدجو لوگ تم سے کٹ حجتی کریںان سے کہہ دیجئے کہ آئو ہم لوگ اپنے اپنے فرزند ،اپنی اپنی عورتوںاور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیںاور پھر خدا کی بارگاہ میںدعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ''۔
..............
١۔سورئہ انعام ،آیت ٨٤۔٨٥۔
٢۔سورئہ آل عمران، آیت ٦١۔
کو ئی بھی یہ ادعا نہیں کر سکتا کہ نبی اکرم ۖ نے چادر کے نیچے اور نصاریٰ سے مباہلہ کے وقت علی بن ابی طالب ،فاطمہ حسن اور حسین کے علاوہ کسی اور کو اپنے ساتھ لیا ہو ''۔
ہارون کے پاس اور کو ئی دلیل باقی نہ رہی چونکہ امام نے اس کی تمام دلیلوں کو رد فرما دیا ۔(١)
ہم اسی مقام پر آپ کے مناظروں کی بحث تمام کرتے ہیں اور ہم نے کچھ مناظرے اپنی کتاب ''حیاةالامام مو سیٰ بن جعفر ''کے پہلے حصہ میں بیان کر دئے ہیں ۔
آپ کے صفات و خصوصیا ت
کوئی بھی بلند ی، شرف ا ور فضیلت ایسی نہیں ہے جو امام کا ظم کی ذات میں نہ پا ئی جا تی ہو ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات کا تذکرہ کر رہے ہیں :
١۔آپ کے علمی فیوضیات
راویوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام کاظم اپنے زمانہ کے اعلم تھے ،آپ کا علم انبیاء اور اوصیاکی طرح الہا می تھا، اس مطلب پر شیعہ متکلمین نے متعدد دلیلیں بیان کی ہیں، خو د آپ کے والد بزرگوار حضرت امام صادق نے اپنے فرزند ارجمند کی علمی طاقت و قوت کی گو ا ہی دیتے ہوئے یوں فرمایا ہے:''تم میرے اس فرزند سے قرآن کے بارے میں جو بھی سوال کروگے وہ تمھیں اس کا یقینی جواب دے گا ''۔
مزید فرمایا:''حکمت،فہم،سخاوت،معرفت اور جن چیزوں کی لوگوں کو اپنے دین کے امر میں اختلاف کے وقت ضرورت ہوتی ہے اِن کے پاس اُن سب کاعلم ہے'' ۔(٢)
شیخ مفید فرماتے ہیں :''لوگوں نے امام مو سیٰ بن جعفر سے بکثرت روایات نقل کی ہیں ۔وہ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے فقیہ تھے ''۔(٣)
علماء نے آپ سے تمام علوم منقولہ اور عقلی علوم فلسفہ وغیرہ کی قسمیں نقل کی ہیں یہاں تک کہ آپ دنیا کے راویوں کے ما بین مشہور و معروف ہو گئے ۔
..............
١۔حیاةالامام مو سیٰ بن جعفر ، جلد ١،صفحہ ٢٦١۔٢٦٥۔
٢۔حیاةالامام مو سیٰ بن جعفر ، جلد ١،صفحہ ١٣٨۔
٣۔الارشاد ،صفحہ ٢٧٢۔
٢ ۔ دنیا میں زہد
امام موسیٰ کاظم نے رونق زندگا نی سے منھ موڑ کر اللہ سے لو لگا ئی تھی ،آپ اللہ سے نزدیک کرنے والا ہر عمل انجام دیا،ابراہیم بن عبد الحمید آپ کے زہد کے متعلق یوں رقمطراز ہیں :میں امام کے گھر میں داخل ہوا تو آپ نماز میں مشغول تھے اور آپ کے گھر میں کھجور کی چٹا ئی ،لٹکی ہو ئی تلوار اور قرآن کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا ۔(١)
آپ زاہدانہ زندگی بسر کرتے تھے اور آپ کا گھر بہت سادہ تھا حالانکہ دنیائے اسلام کے شیعوں کی طرف سے آپ کے پاس بہت زیادہ اموال اور حقوق شرعیہ اکٹھا کرکے لائے جاتے تھے ، آپ ان سب کو فقیروں ،محتاجوں اور اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے ،آپ پیغمبر اکرم ۖ کے صحابی ابوذر سے بہت متأثر تھے اور ان کی سیرت اپنے اصحاب کے مابین یوں بیان فرماتے تھے :''خدا ابوذر پر رحم کرے، ان کا کہنا ہے :خداوند عالم مجھے جَو کی دو روٹی دینے کے بعد دنیا کو مجھ سے دور رکھے، ایک رو ٹی دو پہر کیلئے اور دوسری روٹی شام کیلئے اور مجھے دو چا دریں دے جن میں سے ایک کو جنگ میں استعمال کروں اور دوسری ردا سے دوسرے امورانجام دوں ''۔(٢)
فرزند رسول ۖنے دنیا میںاسی طرح زاہدانہ زندگی بسر کی ،دنیا کے زرق و برق سے اجتناب کیا اور اللہ کے اجر کی خاطر بذات خود ظلم و ستم برداشت کئے ۔
٣ ۔ جو د و سخا
آپ کی جود و سخا وت کی صفت کو مثال کے طور پر بیان کیا جا تا ہے ،محروم اور فقیر آپ کے پاس آتے تو آپ اُن کے ساتھ نیکی اور احسان کرتے اور تھیلیوں کی دل کھو ل کر سخاوت کرتے ،اس طرح کہ ان کے رشتہ داروں میں یہ مشہور ہو جاتاتھا:تعجب ہے جس کے پاس مو سیٰ کی تھیلیاں آئیں پھر بھی وہ فقیری کیشکایت کرتا ہے ''۔(٣)
..............
١۔بحارالانوار، جلد ١١،صفحہ ٢٦٥۔
٢۔اصول کافی ،جلد ٢،صفحہ ١٣٤۔
٣۔عمدة الطالب، صفحہ ١٨٥۔
آپ رات کی تاریکی میں نکلتے اور فقیروں کو دو سو سے چارسو دینار تک(١) کی تھیلیاں پہنچاتے تھے مدینہ کے غریبوں کی آپ کی نعمت ،بخشش اور صلۂ رحم کی عادت ہو گئی تھی ،ہم نے محتاجوں اور فقیروں کے اُن گروہوں کا تذکرہ اپنی کتاب ''حیاةالامام موسیٰ کاظم '' کے پہلے حصہ میںکر دیا ہے ۔
٤ ۔ لو گو ں کی حا جت ر و ا ئی
امام مو سیٰ کاظم کی ذاتی صفت انتہائی شوق کے ساتھ لوگوں کی حا جتوں کو پورا کر نا تھی، آپ نے ہرگزکسی غمزدہ کا غم دور کرنے میں سستی نہیں کی ،آپ اسی صفت کے ذریعہ مشہور و معروف ہوئے ،ضرورتمند آپ کے پاس آتے ،آپ سے فریاد کرتے اور آپ اُن کی ضرورتوں کو پورا کرتے ،اُن ہی لوگوں میں شہر رَے کا رہنے والا ایک شخص تھا جو حکومت کا بہت زیادہ مقروض تھا، اُس نے حاکم شہر کے بارے میں سوال کیاتو اُس کو بتایا گیا کہ وہ شیعہ ہے وہ یثرب پہنچا اور امام کے جوار و پڑوس میں رہنے لگا، امام نے اس کیلئے حاکم شہر کے نام ایک خط میں یوں تحریرفرمایا :''جان لو ! بیشک اللہ کیلئے اس کے عرش کے نیچے ایک سایہ ہے، اس میں کو ئی نہیں رہتا مگر یہ کہ جو اپنے بھا ئی کے ساتھ حُسن سلوک اور نیکی کرے ،یا مصیبت میں اس کے کام آئے یا اس کو خوش کرے اور یہ تمہارا بھا ئی ہے'' ۔والسلام
وہ شخص امام کا خط لیکر حاکم کے پاس پہنچا جب اُس نے دروازہ کھٹکھٹایاتو ایک نوکر باہر آیا اور اس نے پوچھا :تم کون ہو ؟
میں صابر امام مو سیٰ کاظم کا قاصد ہوں ۔
نوکر نے جلدی سے حاکم تک یہ خبرپہنچا ئی تووہ ننگے پیر باہر نکل آیااور اس نے بڑی بے چینی کے ساتھ اس سے امام کے حالات دریافت کئے ،اور اس شخص کا بڑے ہی احترام و اکرام کے ساتھ استقبال کیاجب اس کو امام کا خط دیا تو اس نے خط کو چوما ،جب اُس نے وہ خط پڑھا تو اس میں اُس شخص کے تمام اموال کو معاف کرنے کی درخواست کی گئی تھی ،حاکم نے سب اس کو دیدئے اورجس کی کو ئی تقسیم نہیں کی جاسکتی تھی اس کی قیمت ادا کی، حاکم نے بڑی نر می سے کہا :اے میرے بھا ئی کیا تم خوش ہو ؟
..............
١۔تاریخ بغداد ،جلد ١٣، صفحہ ٢٨۔کنز اللغة ،صفحہ ٧٦٦۔
ہاں ،خدا کی قسم میں بہت زیادہ خوش ہوں ۔
پھر وہ رجسٹر منگایا جس میں اُ س شخص کے قرضے لکھے ہوئے تھے ،اور اُن سب پر قلم پھیر دیااس کو بری ٔ الذمہ قرار دیدیا ،وہ وہاں سے اُس حالت میں نکلا کہ اُ س کا دل خو شی سے لبریز تھا اور اس نے اپنے وطن کی راہ لی ،پھر وہاں سے مدینہ پہنچا ،امام کو حاکم کے لطف و کرم و مہربانی کی خبر دی ،امام بہت مسرور ہوئے، اُس شخص نے امام کی خدمت میں عرض کیا :اے میرے مو لا کیا آپ اس سے خوش ہیں ؟
''ہاں خدا کی قسم اس نے مجھے اور امیر المو منین کو خوش کر دیا،خدا کی قسم اُ س نے میرے جد رسول اسلام ۖکو خوش کر دیا اور خدا کو خوش کر دیا ''۔(١)
آپ اس واقعہ سے مشہور و معروف ہوگئے اور آپ کے شیعوں کے درمیان یہ فتویٰ شائع ہو گیا : ''حاکم کے عمل کا کفارہ بھا ئیوں کے ساتھ احسان کرنا ہے ''۔
..............
١۔حیاةالامام مو سیٰ بن جعفر ، جلد ١،صفحہ ١٦١۔١٦٢۔
|