خوشبوئے حیات
 

مستحب نمازوں کی قضا
آپ نے پوری زند گی میں کو ئی مستحب نماز نہیں چھوڑی،اگردن میں آپ کی کو ئی مستحبنماز چھوٹ جا تی تھی تو آپ رات میں اس کی قضا بجالاتے اور آپ نے اپنی اولاد کو اس کی وصیت کرتے ہوئے یوں فرمایا:''یَابُنََّ لَیْسَ ھٰذَاعَلَیْکُمْ بِوَاجِبٍ،وَلکِنْ أُحِبُّ لِمَنْ عَوَّدَ نَفْسَہُ مِنْکُمْ عَادَةً مِنَ الخَیْرِأَنْ یَدُوْمَ عَلَیْھَا''۔(٢)
''میرے فرزند یہ تم پر واجب نہیں ہے لیکن میں یہ چاہتاہوںکہ تم اس کو پنی عادت بنالو، یہ اچھی عادت ہے اور ہمیشہ اس پرعمل کرتے رہو''۔

آپ کا زیادہ سجدے کرنا
حدیث کی رو سے انسان اپنے رب سے سجدہ کی حالت میں بہت زیادہ قریب ہو تا ہے اور امام زین العابدین علیہ السلام بہت زیادہ سجدے کرتے خضوع کرتے اور اللہ کے سامنے خود کو بہت زیادہ ذلیل سمجھتے تھے راویوں کا کہنا ہے :ایک مرتبہ آپ صحرا کی طرف تشریف لے گئے ایک شخص نے آپ کو تلاش کیا تو آپ کو ایک سخت پتھر پر سجدہ کر تے ہوئے دیکھا اس نے آپ کوہزار مرتبہ یہ کہتے سنا:
''لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ حَقّا ًحَقّاً،لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ تَعَبُّداً وَرِقّاًلَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہ اِیْمَاناً وَصِدْقاً''۔(٣)
آپ سجدہ شکر میں سو مرتبہ کہتے :''اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ شُکْراً ''اس کے بعد کہتے :''یَاذَالْمَنِّ اَلَّذِیْ لَا یَنْقَطِعُ اَبَداً،وَلَایُحْصِیْہِ غَیْرَہُ عَدَداً،وَیَاذَاالْمَعْرُوْفِ اَلَّذِیْ لَایَنْفَدُ أبَداًْیَاکَرِیْمُ یَاکَرِیْمُ''اس کے بعد گریہ و زاری کر تے اور اپنی حاجت طلب کرتے ۔(٤)
..............
٢۔صفوة الصفوة ،جلد ٢، صفحہ ٥٣۔
٣۔ وسائل الشیعہ، جلد ٤، صفحہ ٩٨١۔
٤۔وسا ئل الشیعہ ،جلد ٤، صفحہ ٩٨١۔

کثرت تسبیح
آپ ہمیشہ اللہ کے ذکر ،تسبیح اور اس کی حمد میں مشغول رہتے اور ان نورا نی کلمات میں اللہ کی تسبیح کرتے تھے : ''سُبْحَانَ مَن اَشْرَقَ نُوْرُہُ کُلَّ ظُلْمَةٍ،سُبْحَانَ مَنْ قَدَّرَبِقُدْرَتِہِ کُلَّ قُدْرَةٍ سُبْحَانَ مَنْ احْتَجَبَ عَنِ الْعِبَادِبِطَرَائِقِ نُفُوْسِھِمْ،فَلَا شَیْ ئَ یَحْجِبُہُ ،سُبْحَانَ اللّٰہِ و َبِحَمْدِہِ''۔(١)
''پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس کے نور نے ہر تا ریکی کو منور کر دیا ،پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس نے تمام قدرتوں کی حد محدود کر دی ،پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جو بندوں سے اُ ن کے نفوس کے خیالات میں مخفی ہوا ،اس سے کو ئی چیز مخفی نہیں ہے ،اللہ پاک و پاکیزہ ہے اور وہی حمد کا سزاوار ہے ''۔
..............
١۔دعوات قطب راوندی (خطی نسخہ )حکیم لا ئبریری۔

نماز شب کا واجب قرار دینا
امام زین العا بدین علیہ السلام کبھی بھی نماز شب سے غافل نہیں رہے آپ سفر اور حضر ہر جگہ نماز شب بجالاتے تھے یہاں تک کہ آپ اپنے رب حقیقی سے جا ملے ۔

نماز شب کے بعد آپ کی دعا
جب آپ نماز شب سے فارغ ہوتے تو یہ دعا پڑھتے جو ائمہ اہل بیت کی تابناک دعا ہے:
''اللَّھم یا ذالملک المتأبد۔۔۔
''اے وہ پروردگار جس کا ملک ہمیشگی کے ساتھ ابدیت رکھنے والا ہے اور جس کی سلطنت بغیر کسی لشکر اور مدد گار کے محفوظ ہے ،زمانوں کے بدلتے رہنے ،برسوں کے بیت جانے ،ایام و ازمنہ کے گذر جانے کے باوجود اس کی عزت باقی رہنے والی ہے تیری سلطنت اس قدر عزیز ہے کہ اس کی عزت کی نہ کو ئی ابتدا ہے اور نہ انتہااور تیرا ملک اس قدر بلند ہے کہ تمام اشیاء اس کی انتہا تک پہنچنے سے پہلے ہی گر جا تی ہیں اور جن کمالات کو تونے اپنی ذات کیلئے مخصوص کیا ہے ان کی ادنیٰ منزل تک بھی تعریف کرنے والوں کی تعریف کی آخری منزل نہیں پہنچ سکتی ہے۔
سارے صفات تیری بارگاہ میں گم ہو گئے ہیں اور تمام تعریفیں تیری جناب میں بکھر گئی ہیں اور دقیق ترین تصورات بھی تیری کبریائی کے سامنے حیران رہ گئے ہیں ۔یقیناً تو ایسا ہی ہے تو اپنی اولویت کے اعتبار سے اول ہے اور ایسا ہی ہمیشہ رہنے والا ہے ۔میں تیرا وہ بندہ ہوں جس کے اعمال ضعیف اور جس کی آرزوئیں عظیم ہیں ۔
میرے ہاتھ سے تعلقات کے تمام اسباب نکل گئے ہیں علاوہ اس رشتہ کے جسے تیری رحمت نے قائم کیا ہے اور امیدوں کے تمام رشتے قطع ہو گئے ہیں علاوہ اُس معافی کے رشتہ کے جس کی پناہ میں ،میں زندگی گذار رہا ہوں ،میرے پاس تیری قابل اعتنااطاعت بہت کم ہے اور جن معصیتوں میں،میں زندگی گذار رہا ہوں وہ بہت زیادہ ہیں لیکن یہ طے ہے کہ بندہ کسی قدر بھی بد کردار کیوں نہ ہو جائے تیرے پاس معافی کی تنگیِ دامن نہیں ہے لہٰذا مجھے معاف کر سکتا ہے ''۔
دعا کے یہ جملے خداوند عالم کی عظمت اور اس کی وحدانیت پر دلالت کر تے ہیں،اور اس کے بعض دا ئمی صفات کا تذکر ہ موجودہے جن کی کو ئی ابتدا اور انتہا نہیں ہے ،وہ محکم و مضبوط سلطان قاہر جو اپنے ملک کی حمایت کے لئے لشکر اور مددگاروں کا محتاج نہیں ،کو ئی ایسی ذات اور کو ئی ایسی صفت نہیں ہے جس سے اس کی تو صیف کی جا سکے ،وہ ہر چیز سے بلند و برتر ہے ۔
امام نے ہمیشہ خدا کی بارگاہ میں اپنے ذلیل ، خضوع اوراس کے بندے ہونے کا اظہار کیا ، آپ نے اپنی تمام آرزووں میں اسی سے لو لگا ئی ،اسی سے پناہ ما نگی ،اسی کی رسی کو مضبوطی سے پکڑا ، اسی سے لو لگا ئی اور اب اسی دعاء کے دوسرے چند جملے ملا حظہ فرما ئیں :
''اللَّھُمَّ وَقَدْ اَشْرَفَ۔۔۔
''خدایا تیرا علم میرے مخفی اعمال پر بھی نگاہ رکھتا ہے اور تیری اطلاع کے سامنے ہر پوشیدہ عمل واضح ہے دقیق ترین چیز بھی تجھ سے پوشیدہ نہیں ہے اور غیبی اسرار بھی تیرے علم سے دور نہیں ہے ۔
مجھ پر تیرے اس دشمن کا غلبہ ہو گیا ہے جس نے تجھ سے مجھے گمراہ کرنے کی مہلت مانگی تھی تو تو نے دیدی اور مجھے بہکانے کے لئے قیامت تک کا وقت مانگا تو تونے اسے آزاد چھوڑدیااور اب اس نے مجھے گمرا ہی میں ڈال دیاجبکہ میں اپنے مہلک گناہان صغیرہ اور تباہ کن گناہان کبیرہ سے بھاگ کر تیری بارگاہ میں آرہا تھا ۔حالت یہ ہے کہ جب میں نے تیری کو ئی نا فرما نی کی اور برے اعمال کی بنا پرتیری ناراضگی کا حقدار ہو گیا تو اس نے اپنے حیلہ کی باگ موڑ دی اور چل دیااور مجھے کلمہ ٔ کفر میں مبتلا کرکے مجھ سے برائت کا اعلان کردیااور پیٹھ پھیر کر روانہ ہو گیا ۔مجھے تیرے غضب کے صحرا میں اکیلا چھوڑ دیا ،اور تیرے عذاب کے میدان تک ہنکا دیا کہ اب نہ کو ئی شفیع ہے جو سفارش کر سکے اور نہ کو ئی قلعہ ہے جو اپنے اندر چھپا سکے اور نہ کو ئی پناہ گاہ ہے جس کی پناہ لی جا سکے، اب تیرے سامنے وہ شخص کھڑا ہے جو تیری پناہ گاہ کا طلبگار ہے اور اپنے گناہوں کا اقرار کر رہا ہے لہٰذا تیرے فضل میں تنگی نہ ہونے پائے اور تیری بخشش میں کمی نہ آنے پائے ۔میں تیرے اُن بندوں میں نہ ہو جائوں جو توبہ کرکے بھی ناکام ہو جاتے ہیں اور اُن امیدواروں میں نہ شامل ہوجائوںجو مایوس ہوجاتے ہیں ۔میرے گناہوں کو بخش دے کہ تو بہترین بخشنے والا ہے ''۔
امام نے ان چند فقروں میں انسان کی خوا ہشات نفسانی کے سامنے کمزور ہونے کے سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور انسان اس شیطان رجیم کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا جس نے انسان کے نفس میںطمع ، حرص اور تکبر وغیرہ جیسی شرارت سے بھرے صفات کو برانگیختہ کرکے ان کے ذریعہ خدمت لینا چا ہی ،اس نے انسان کی لگام اپنے ہاتھ میں پکڑ لی اور اس کے عواطف پر مسلط ہو گیا ،اس کو گناہوں اور ہلاکت کے میدانوں میں مسخر کرنا شروع کر دیا ،اس کو اللہ سے قریب کرنے والے راستوں سے دور کرنا شروع کر دیا ،اور امام نے اس دھوکہ دینے والے خبیث دشمن کے مقابلہ میں پروردگار عالم سے اپنی حمایت طلب فرما ئی ۔ ہم اس دعا کے دوسرے جملوں میں یوں پڑھتے ہیں :
اللَّھُمَّ اِنَّکَ اَ مَرْتَنِیْ فَتَرَکْتُ۔۔۔
''خدایا! تونے جس بات کا حکم دیا اسے میں نے چھوڑ دیا اور جس چیز سے منع کیا اس کا مرتکب ہوگیااور بُرے خیالات نے خطائوں کو سنوار دیاتو میں نے کو تا ہی سے کام لیا ۔میں نہ اپنے دنوں کے لئے روزوں کو گواہ قرار دے رہا ہوں اور نہ راتوں کی شب بیداری کی پناہ لے رہا ہوں اور نہ کو ئی سنت حسنہ اپنے کو زندہ کر نے کی تعریف کر سکتی ہے علاوہ اُن فرائض کے جن کو ضائع کرنے والا ہلاک ہوجاتا ہے ۔میں تو کسی مستحب عمل کو بھی وسیلہ نہیں قرار دے سکتا ہوں جبکہ بہت سے واجبات و فرائض میں غفلت برت چکا ہوںاور تیرے مقرر کئے ہوئے حدود سے تجاوز کر چکا ہوں ۔کچھ حرمتوں کو برباد کیا اور کچھ گناہانِ کبیرہ کا مرتکب ہو گیا لیکن تیری عافیت نے ان کی رسوا ئی سے پردہ پوشی کر لی خدایا یہ اس شخص کی منزل ہے جو اپنے نفس کے بارے میں تجھ سے شرمندہ ہے اور اس سے ناراض ہو کر تجھ سے خوش بھی ہے اور اب تیرے سامنے اُس نفس کے ساتھ آیا ہے جوخاشع ہے اور اس گردن کے ساتھ حاضر ہوا ہے جو خاضع ہے اور اس کمر کے ساتھ جس پر خطائوں کا بوجھ ہے ،اس کی منزل خوف اور امید کے درمیان ہے اور تو اس کی امیدوں کے لئے سب سے اولیٰ اور اس کے خوف و خشیت کے لئے سب سے زیادہ حقدار ہے لہٰذا مجھے وہ شئی عنایت فرمادے جس کا میں امیدوارہوں اور اس سے بچالے جس سے خوف زدہ ہوں اور اپنی رحمت کے انعامات سے نواز دے کہ تو ان سب سے زیادہ کریم ہے جن سے سوال کیا جاتا ہے '' ۔
امام نے ان جملوں میں اہل بیت کے اللہ کے خضوع و خشوع کو پیش کیا ہے اور یہ مشاہدہ کیا کہ سب سے عظیم حسنات( نیکیاں)، رات بھر خدا کی عبادت کرتے رہنا ،دن میں روزہ رکھنا ،تمام نوافل اور مستحبات کا بجالانا ،اسلام کی سنتوں کو زندہ کرنا وغیرہ نیکیوں کی دو سری قسمیں جن کا احصا نہیں کیا جا سکتا ہے ، یہ خدا کے مقابلہ میں بہت کم ہے، اس توبہ کے علاوہ اللہ سے اور کو نسی تو بہ کی جا سکتی ہے؟ اور اس طرح اللہ سے لو لگانے کے مانندکو نسا لو لگانا ہو سکتا ہے ؟حقیقت میں یہ امام دنیاکے متقین اور صالحین میں منفرد حیثیت رکھتے ہیں ۔۔۔ہم اس دعا کے کچھ اور جملے نقل کر تے ہیں :
''اَللَّھُمَّ وَاِذْ سَتَرْتَنِْ۔۔۔
''خدایا !جب تونے اپنی بخشش کے ذریعہ پردہ پوشی کر دی ہے اور اپنے فضل سے اس فنا کے گھر میں ساتھیوں کے سامنے ڈھانپ لیا ہے تو اب دار البقاء میں بھی تمام ملائکہ مقربین اور مر سلین ،معصومین اور شہداء و صالحین کے سامنے رسوا ئی سے بچا لینا ۔اس پڑوسی کے حضور میں جس سے میں اپنی برائیوں کو چھپایا کرتا تھا اور اس قرابتدار کے سامنے جس سے میں اپنے مخفی معاملات میں شرماتا تھا ۔میں نے اس پردہ پوشی میں کسی پر بھروسہ نہیں کیا لیکن خدایا تیری مغفرت پر بھروسہ کیا ہے اور تو سب سے زیادہ بھروسہ کے قابل اور تمام اُن لوگوں سے زیادہ عطا کرنے والا ہے جن کی رغبت کی جا تی ہے اور اُن سب سے زیادہ مہربان ہے جن سے مہربانی طلب کی جا تی ہے لہٰذا مجھ پر رحم فرما ۔۔۔'' ۔
امام نے ان جملوں میں یہ بیان فر ما یا ہے کہ اللہ پر بھروسہ رکھو اس سے عفو بخشش ،لطف و کرم کی امید رکھو ،اس سے دار آخرت میںخوشنودی اور رضائے الٰہی طلب کرو ،خدا وند عالم نے اپنے گناہگار بندوں کے عیوب کی پردہ پوشی کی ہے جیسا اس سے مطالبہ کیا ہے کہ آخرت کی مصیبتوں سے نجات دے جہاں تمام ملائکہ، مرسلین ،شہداء اور تمام بندگانِ صالح موجود ہوں اور امام نے گناہگار مسلمانوں کو یہ درس دیا کہ وہ اللہ سے خلوص دل کے ساتھ توبہ کریں۔
ہم اسی دعائے شریفہ کے کچھ اور جملوں پر روشنی ڈالتے ہیں :
''اَللَّھُمَّ وَأَنْتَ ھَدَرْتَنِْ۔۔۔
''اے خدا ! تونے صلب کی ہڈیوں کے تنگ راستوں اور رحم مادر کی تنگ نالیوں سے ایک حقیر نطفہ کی شکل میں گذارا ہے تونے مختلف حجابات سے میری پردہ پوشی کی ہے اور مختلف حالات میں مجھے کروٹیں بدلوائی ہیںیہاں تک کہ جب میری صورت مکمل ہو گئی اور تونے میرے اعضاء و جوارح کو مستحکم بنادیا جس طرح تونے اپنی کتاب میں تو صیف کی ہے کہ نطفہ سے علقہ بنا ،اس کے بعد مضغہ بنا،پھر ہڈیاں پیدا ہوئیں،پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا گیا اور پھر ایک تازہ مخلوق بنا دیا گیااور پھر جب مجھے تیرے رزق کی ضرورت پڑی اور میں تیرے باران کرم سے بے نیاز نہ ہو سکا تو ،تو نے میری بہترین غذا بہترین ماکو لات و مشروبات کو بنا دیا ۔جسے تونے اپنی اس کنیز کے جسم میں دوڑایا جس کے شکم میں مجھے جگہ دی تھی اور مجھے اس کے مرکز رحم میں ودیعت کردیا تھا ۔حالانکہ اگر اس وقت مجھے میری طاقت کے حوالہ کر دیتا اور میری قوت کے سپر دکردیتا تو ہر تدبیر مجھ سے الگ ہو جا تی اور ہر قوت مجھ سے دور بھاگ جا تی تو نے اپنے فضل سے ایک مہربان کرم فرما کی طرح مجھے غذا عنایت کی اور مسلسل ایسا احساس کر تا رہا یہاں تک کہ میں اس منزل تک پہنچ گیا ۔نہ کبھی تیری نیکی سے محروم ہوا اور نہ تیرے بہترین سلوک میں کو ئی تاخیر ہو ئی لیکن پھر بھی میرا بھروسہ مستحکم نہ ہوا اور میں برابر زیادہ مفاد کے لئے مواقع نکالتا رہا ۔شیطان نے بد گما نی اور ضعفِ یقین کی بنا پر میری زمام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ،لہٰذا میںاس کی بدترین ہمسا ئیگی اور اپنی طرف سے اس کی اطاعت کی فریاد کر رہا ہوں اور اس کے تسلط سے تیری حفاظت کا طلبگار ہوں اور اس بات کی بھی فریاد کر رہا ہوں تو میرے رزق کے راستہ کو آسان کردے ۔
تیرا اس بات پر شکر ہے کہ تونے بلا مانگے ہی عظیم نعمتیں عطا فرما دی ہیںاور پھر اُن احسانات و انعامات پر شکر ادا کرنے کا الہام بھی کر دیا ہے لہٰذا اب محمد وآل محمد ۖپررحمت نازل فرمااور میرے رزق کو آسان بنادے اور جو کچھ مقدر کیا ہے اُس پر قانع بنا دے اور میری قسمت کے حصہ پر مجھے راضی کردے اور میری زندگی اور میری جسمانی طاقت کا مصرف اپنی اطاعت کے راستہ کو قرار دیدے کہ تو بہترین رزق دینے والا ہے ۔
یہ جملے خالق عظیم کے وجود پر مؤثق دلیلیں ہیںوہ خالق جس نے انسان کو ذلیل (گندے) پانی سے خلق کیا،تنگ رحم میں رکھا،اس کے بعد وہ یکے بعد دیگرے حالات میں منتقل ہوتا رہا یہاں تک کہ مکمل انسان بن گیااور انسان اللہ کی سب سے عظیم مخلوقات میں ہے جو فکر ، سمع و بصر وغیرہ جیسی عجیب چیزوں سے بنایا گیا ہے جو خالق حکیم کے وجود پر دلالت کر تی ہیں ،امام کی یہ حدیث قرآن کریم کی ان آیات کی تفسیر کر رہی ہے جس میں انسان کی تخلیق کو بیان کیا گیا ہے ،یہ بات شایان ذکر ہے کہ قرآن کریم نے دقیق طور پر جنین کی کیفیت بیان کی ہے اور انسان نے اسی حقیقت سے استفادہ کیا ہے ۔
سید قطب کا کہنا ہے : انسان قرآن کریم کے جنین کے سلسلہ میںان انکشافات کے سامنے حیران ہے وہ دقیق طور پر اس چیز کو نہیں جانتا تھا مگر علم کی پیشرفت و ترقی ہونے کے بعد ،ہڈیوں کے خلیے گوشت کے خلیوں کے علاوہ ہیں ،یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جنین میں پہلے ہڈیوں کے خلیے پیدا ہو تے ہیں اور گو شت کے خلیوں کا اس وقت مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا جب تک ہڈیوں کے خلیے اور جنین کے پورے ہڈیوں کے ڈھانچے کا مشاہدہ نہ کیا جائے یہ وہ حقیقت ہے جس کو قرآنی آیات نے ثابت کیا ہے ۔۔۔(١)
بہرحال ،امام اپنی ذات پر اللہ کی عظیم نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد اس کی بارگاہ میں گڑگڑائے کہ وہ آپ کو شیطان کے مکر و فریب اور اس کے کبرو غرور سے دور رکھے ،چونکہ شیطان انسان کا پہلا دشمن ہے ۔۔ ۔ہم ذیل میں دعا آخری جملے پیش کر رہے ہیں :
''اللَّھُمَّ اِنِّْ اَعُوْذُبِکَ ۔۔۔
''خدایا !میںاس آگ سے تیری پناہ کا طلبگار ہوں جس کو تونے نافرمانوں کے لئے بھڑکایا ہے اور اس کے ذریعہ اپنی رضا سے انحراف کرنے والوں کو تنبیہ کی ہے ۔وہ آگ جس کی روشنی بھی تاریکی ہے اور
..............
١۔فی ظلال القرآن، جلد ١٧،صفحہ ١٦۔
جس کا معمولی حصہ بھی دردناک ہے اور جس کا دور والا حصہ بھی قریب ہے اور جس کا ایک حصہ دوسرے کو کھا رہا ہے اور اس پر حملہ آور ہورہا ہے ۔وہ آگ ہڈیوں کو ریزہ ریزہ بنا دیتی ہے اور اپنے باشندوں کوکھولتا پانی پلاتی ہے فریادی کو چھوڑتی نہیں ہے اور طالب رحم پر مہربانی نہیں کر تی ہے کو ئی فروتنی کا اظہار بھی کرے اور اس کے سپرد بھی ہو جائے تو اس کے حق میں کو ئی تخفیف نہیں کر تی ہے اپنے باشندوں سے دردناک عذاب اور سخت وبال کے گرم ترین مصائب کے ساتھ ملاقات کر تی ہے ۔اور خدایا میں تیری پناہ چا ہتا ہوں جہنم کے اُن بچھوؤں سے جو منھ پھیلائے ہوئے ہیں اور ان سانپوں سے جو اپنے دانت گا ڑرہے ہوں گے اور اس کھولتے ہوئے پانی سے جو اپنے باشندوں کے دل اور کلیجہ کو کاٹ ڈالے گا اور دل کو کھینچ کر پھینک دے گا ۔ اور تیری ہدایت کا طالب ہوں اُن امور کے لئے جو اُس آگ سے دور بنا دیں اور اسے پیچھے ہٹا دیں ۔
خدایا محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرمااور مجھے اپنے فضل و رحمت سے اس کی اجرت دے ۔اپنی مہربانیوں سے میری لغزشوں کو معاف کردے اور اے بہترین پناہ دینے والے مجھے لا وارث نہ چھوڑدیناکہ تو ہر برائی سے بچا نے والا اور ہر نیکی کا عطا کر نے والا ہے اور جو چاہے وہ کر سکتا ہے ۔تو ہر شے پر قدرت رکھتا ہے ۔
خدایا محمد و آل محمد ۖ پر رحمت نازل فرما اس وقت جب نیک کرداروں کا ذکر کیا جائے اور محمد وآل محمد ۖ پر رحمت نازل فرما جب تک روز و شب کی آمد و رفت برقرار ہے ۔
ایسی رحمت جس کا سلسلہ منقطع نہ ہو اور اس کے اعداد کا شمار نہ ہو سکے ۔وہ رحمت جو فضا کو معمور کردے اور آسمان و زمین کی وسعتوں کو بھر دے ۔اللہ اُن پر رحمت نازل کرے یہاں تک کہ وہ راضی ہوجائیں اور اس رضا کے بعد بھی ایسی رحمت نازل کرے جس کی کو ئی حد اور انتہا نہ ہو ۔اے بہترین رحم کرنے والے ''۔
ان فقروں میں اس جہنم کی آگ کی توصیف بیان کی گئی ہے جس کو اللہ نے اپنے بدکار ، ظالم اور سرکش بندوں کے لئے خلق کیا ہے وہ بندے جنھوں نے ظلم و جور اور فساد کو زمین پر پھیلایا ان کو جہنم کی آگ میں طرح طرح کا عذاب دیا جائیگا جس کے خوف و وحشت کی ہم توصیف نہیں کرسکتے ہیںجس سے ہم اللہ کی پناہ چا ہتے ہیں ۔
اس مقام پر یہ دعائے شریفہ ختم ہو جا تی ہے جس کو امام نماز شب کے بعد پڑھا کر تے تھے ،یہ اہل بیت کی روشن و تا بناک دعائوں میں سے ہے ۔
اما م کے کثرت عبادت کی وجہ سے آپ کے اعزاء پر آپ کی وفات ہوجانے کا خوف ہوگیا تو رسول اللہ ۖ کے جلیل القدرصحابی جابر بن عبداللہ انصاری کے پاس آکر یوں گو یا ہو ئے :اے رسول ۖ اللہ کے صحابی بیشک ہمارے تم پر حقوق ہیں اور ہمارا تم ایک حق یہ ہے کہ جب تم ہم میں سے کسی ایک کوخود کو ہلاک کر نے کی کو شش کرتا دیکھو تو اس کو اللہ کی یاد دلائو ،اس موقع پر اپنی جان کو باقی رکھنے کی دعوت دو ، اپنے والد بزرگوار کی یادگار علی بن الحسین ہیں جن کی عبادت کر نے کی وجہ سے ناک کی ہڈی چھد گئی ہے اور ان کے اعضاء سجدہ پر گھٹے پڑگئے ہیں ۔
جناب جابر ،امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے تو کیا دیکھا کہ آپ محراب میں عبادت ،اللہ کی اطاعت میں مشغول ہیں ،جب امام نے جابر کو دیکھا تو ان کا استقبال کیا ،اپنے پہلو میں بٹھایااور ان کے حالات دریافت کئے، اس وقت جابر بڑے ہی ادب و احترام سے یوں گویا ہوئے :اے فرزند رسول ! آپ کو علم ہے کہ پروردگار عالم نے جنت کو آپ کے اور آپ سے محبت کر نے والے کے لئے خلق کیا ہے اور دوزخ کو آپ سے بغض اور دشمنی رکھنے والے کے لئے خلق فرمایا ہے تو پھر آپ خود کو اتنی مشقتوں میں کیوں ڈال رہے ہیں ؟
امام نے ان کو بڑی ہی نرمی و محبت سے جواب دیا :اے صحا بی رسول ۖ،بیشک میرے جد رسول اللہ ۖ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے گئے تھے مگر پھر بھی آپ ۖ نے کو شش کر نا نہیں چھوڑا اور یوں عبادت کی (میرے ماں باپ آپ ۖ پر فدا ہوں ) کہ آپ کی پنڈلیوں اور قدموں پر ورم آگیا جب آپ ۖ سے کہا گیا : آپ اتنی عبادت کیوںکرتے ہیں جبکہ اللہ نے آپ کے گذشتہ اور آئندہ کے تمام گناہ بخش دئے ہیں ؟رسول اللہ ۖ نے فرمایا:کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں''۔
جب جابر نے دیکھا کہ گفتگو کے ذریعہ امام کو کثرت عبادت سے نہیںروکاجاسکتا تو یہ کہتے ہوئے آپ کو آرام کر نے کی خاطر خدا حافظ کہا :فرزند رسول ،آپ اپنے نفس کی حفاظت کیجئے کیونکہ آپ اس خاندان سے ہیں جن سے بلا ئیں دور کردی گئی ہیںاور جن کے ذریعہ آسمان سے بارش ہوتی ہے ۔
امام نے جابرکو بڑی ہی خفی اور غمگین آواز میں جواب دیا :میں اپنے آباء و اجداد کے طریقے کو نہیں چھوڑ سکتا اور ان سے ملاقات کر نے تک ان کی پیروی کر تا رہونگا ''۔
جابر ہکّے بکے رہ گئے اور اپنے اطراف میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے یوں مخاطب ہوئے :ہم نے یوسف بن یعقوب کے علاوہ انبیاء کی اولاد میں علی بن الحسین جیسا نہیں دیکھا،خدا کی قسم امام حسین کی ذریت یوسف بن یعقوب کی ذریت سے افضل ہے، بیشک ان ہی کی ایک فر د کے ذریعہ عدل و انصاف سے دنیااسی طرح بھرجائے گی جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری ہو گی ۔(١)
اللہ بزرگ و برتر ہے ،بیشک انبیاء علیہم السلام کی اولاد میں علی بن الحسین جیسا ان کے ورع، تقویٰ اور تمام بلند و بالا اخلاق و کر دار میں کو ئی نہیں ہے ۔جیسا کہ جابر نے کہا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی ذریت میں آپ کا ایک فرزند ہوگا جو ظلم و جور سے بھری ہو ئی دنیا کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم وجور سے بھری ہو گی ،اور وہ عظیم مصلح امام مہدی آل محمد ۖ ہیں جن کی نبی اکرم ۖ نے بشارت دی ہے ۔ آپ کی بعض اولاد نے آپ کی کثرت عبادت کو دیکھ کر بڑی ہی نر می کے ساتھ آپ سے عرض کیا : اے والد بزرگوار آپ اتنی جا نفشانی کیوں کر رہے ہیں؟یعنی :اتنی زیادہ نمازیں کیوں پڑھ رہے ہیں ۔۔۔؟
امام نے بڑی ہی نرمی کے ساتھ جواب میں فرمایا:میں اللہ کی نظر میں محبوب ہونا چا ہتا ہوں۔۔۔(٢)
عبدا لملک بن مروان نے امام کی کثرت عبادت کی وجہ سے مہربانی کا اظہار کیااور جب آپ مسلمانوں کی ایک جماعت کی سفارش کے لئے اس کے پاس گئے اور جب عبدالملک نے امام کی دونوں آنکھوں کے درمیان پیشانی پر سجدوں کی وجہ سے گھٹوں کے نشانات دیکھے تو آپ سے یوں کہنے لگا :یہ ظاہر ہوگیا آپ بہت ہی جد و جہد کرنے والے ہیں ،جبکہ آپ پر خدا کے پہلے سے ہی بہت سے احسانات ہیں آپ بضعة رسول ہیں ،آپ نسب اور سبب دونوں ہی اعتبار سے اُن سے بہت قریب ہیںخدا نے آپ کو فضل ،علم ،دین اور تقویٰ عنایت کیا ہے جو آپ سے پہلے آپ کے آباء و اجداد کے علاو ہ کسی اور کو نہیں دیا۔
امام اس کے بیان کو سنتے رہے جب وہ اپنی بات تمام کر چکا تو اس سے فرمایا :''جو کچھ تو نے اللہ کے فضل و کرم اس کی تا ئید و توفیق کا تذکرہ کیا ہے، تو کہاں اس کی نعمتوں کا شکریہ ادا کیا جا سکتا ہے ؟
..............
١۔ حیاة الامام علی بن الحسین ،جلد ١ ،صفحہ ٢٠٠۔٢٠١۔
٢۔بحا رالانوار، جلد ٤٦،صفحہ ٩١۔
حالانکہ رسول خدا ۖ نماز میں اتنا کھڑے رہتے تھے کہ آ پ ۖ کے پیروں پر ورم آجاتاتھا ، روزہ میں اتنی پیاس کا احساس کرتے تھے کہ آپ کا دہن اقدس سوکھ جاتاتھا۔آپ ۖ کی خدمت اقدس میں عرض کیا گیا:یارسول اللہ ۖ کیا اللہ نے آپ ۖ کے گذشتہ اور آئندہ کے گناہ معاف نہیں کردئے ہیں ؟آنحضرت ۖ نے فرمایا:کیا میں شکر گذار بندہ نہ بنوں؟تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہمارا امتحان لیا،وہی ابتدا اور آخرت میں حمدوستائش کا حقدار ہے ،خدا کی قسم اگر میرے اعضا و جوارح قطع کردئے جا ئیں اورمیرے آنسومیرے سینے پر بہہ جائیں تو بھی میںخدا وند عالم کی تمام نعمتوں میں سے ایک نعمت کے دسویں حصہ کا شکریہ ادا نہیں کرسکتاوہ نعمتیں جن کو شمار کرنے والے شمار نہیں کر سکتے اور تمام تعریف و تمجید کرنے والے اس کی ایک نعمت تک بھی نہیں پہنچ سکتے ،نہیں ،خدا کی قسم نہیں مگر یہ کہ خدا وند عالم مجھے اس حال میں دیکھے کہ مجھے کو ئی چیز رات دن میں اس کے شکر اور ذکر سے نہ روک سکے،نہ ظاہری طور پر اور نہ ہی مخفی طورپر،اور مجھ پر میرے اہل و عیال اور تمام خاص و عام کے حقوق ہیںاور ان کو ادا کرنے کیلئے میں اپنی طاقت و وسعت کے مطابق ہی کو شش کرتاہوں اور آسمان کی طرف نگاہ اٹھاتاہوں ،اور میرا دل اللہ سے لولگائے گااور پھر میں اپنے دل اور نظر کو اس وقت تک نہیں ہٹا ئوں گا جب تک کہ خدا میرے نفس کا فیصلہ نہ کردے وہ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے ''۔
امام نے بہت زیادہ گریہ و بکا کیا جس کا عبدالملک سر کش پربہت زیادہ اثر ہوااور وہ یوں کہنے لگا : کتنا فرق ہے ان دونوں میں ،جس نے آخرت طلب کی اور اس کے لئے جدوجہد کی ،اور جس نے دنیا طلب کی اور وہ کیسے ہاتھ لگے گی اور اس کا آخرت میں کو ئی حصہ نہیں ہے ۔۔۔
عبدالملک امام کی گفتگو سن کر شرمندہ ہوگیااور مسلمانوں کے سلسلہ میں اُن کی سفارش کو قبول کرلیا۔(١)
انبیاء کی روحا نیت کے لئے امام کی عبادت ایک مثال تھی جواللہ سے آپ کی توبہ ،اس کا تقویٰ اورآپ کے اللہ سے و ابستہ ہونے کی حکایت کرتی ہے ،آپ خدا سے محبت کر تے اور اس کی عبادت میں
اخلاص کے سب سے عظیم درجہ پر فا ئز تھے۔
..............
١۔حیاة الامام زین العابدین ،جلد ١،صفحہ ٢٠١۔٢٠٢۔

اپنے غلاموں کے ساتھ
یہ واضح سی بات ہے کہ امام اپنے غلاموں کو آزاد کر دیتے تھے ،وہ آپ کے زیر سایہ پرورش پاتے ،نعمتیں حا صل کرتے اور آپ ان سے اپنے بیٹوں کا سا معاملہ کر تے ، ان کی برائیوں سے چشم پوشی کرتے ،اور اپنی تمام کنیزوں کو ماہ رمضان میں آزاد کر دیتے تھے ،راویوں نے نقل کیا ہے کہ جب ان کی کسی کنیز یا غلام سے کو ئی گناہ سرزد ہو جاتا تھا تو آپ اُن کو کو ئی سزا نہیں دیتے تھے لیکن جس دن سے کو ئی گناہ سرزد ہوتا اس کو لکھ لیتے تھے جب رمضا ن کا آخری دن ہوتا تو ان سب کو جمع کر تے اور جس دفتر میں ان کے گناہ لکھے ہوئے ہوتے اس کو لا تے اور ان کے سامنے بیان کر تے اور فرماتے : تم اپنی بلند آواز میں کہو : اے علی بن الحسین بیشک آپ کا پروردگار آپ کے تمام اعمال کا اسی طرح احصاء فرماتا ہے جس طرح آپ نے ہمارے اعمال شمار فر مائے ہیں،ہر انسان کے اعمال اس کے سامنے اسی طرح حاضر و مو جود ہیں جس طرح ہمارے اعمال آپ کی نگاہوں کے سامنے مو جود ہیں،ہم کو اسی طرح معاف کر دیجئے جس طرح آپ خدائے مقتدر سے عفو کی امید رکھتے ہیں ،جس طرح آپ خدا سے اپنی بخشش کی امید رکھتے ہیں ،ہم کو معاف کر دیجئے کیونکہ آپ معاف کرنے والے ہیں ،اور خدا آپ کو بخش دے گا ،پرودگار کسی پر ظلم نہیں کرتا،آپ کی کتاب ہمارے حق میں گوا ہی دے رہی ہے کوئی بھی چھوٹا بڑا گناہ ایسا نہیں ہے جس کو شمار نہ کرلیا گیا ہو ،یاد کرو اے علی بن الحسین! آپ اپنے عادل و حکیم پروردگار کے سامنے ذلیل و خاضع ہیں جو رائی کے دانہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتااور قیامت کا دن آنے والا ہے ،خدا ہی ہمارے لئے کافی اور گواہ ہے ،پس ہم کو معاف فرمادیجئے اور اپنے پروردگار سے ہماری بخشش کیلئے دعا فرما دیجئے کیونکہ خود اسی کا فرمان ہے :( وَلْیَعْفُوا وَلْیَصْفَحُوا َلاَتُحِبُّونَ َنْ یَغْفِرَ اﷲُ لَکُمْ )۔(١)
''ہر ایک کو معاف اور درگذر کرنا چاہئے کیا تم یہ نہیں چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو بخش دے'' ۔
..............
١۔سورئہ نور، آیت ٢٢۔
آپ نے ان کو ان کلمات کی تلقین فر ما ئی جو آپ کے اللہ سے لو لگانے اور اس کی پناہ گاہ چاہنے کی ایک مثال ہے آپ کھڑے ہوکر اللہ کے خوف و خشیت کرتے ہوئے یوں کہتے :پروردگار تو نے ہم کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم اس شخص کو معاف کردیں جس نے ہم پر ظلم کیاحالانکہ ہم نے خود اپنے نفسوں پر ظلم کیا ہے ،ہم نے تیرے حکم کے مطابق جس نے ہم پر ظلم کیا تھا اس کو معاف کردیا ،پس تو ہم کو معاف کردے بیشک تو معاف کرنے کے لئے ہم سے اور مامورین سے کہیں زیادہ سزاوار ہے ،اور تونے ہم کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم کسی سائل کو اپنے دروازے سے رد نہ کریں حالانکہ تو نے سائل و مسکین کو بھیجا ہے ، ہم تیری بارگاہ میں جھکتے ہیںاور تجھ سے تیری معرفت اور عطا کے خواستگار ہیں ،تو اس کے ذریعہ ہم پر احسان کر اور ہم کو نا امید نہ کر ،تو اس سلسلہ میں ہم سے اور ماموروں سے اولیٰ ہے ،پروردگار تو کریم و صاحب ِ عزت ہے پس جب میں تجھ سے سوال کروں تو ،تُو مجھ پر اپنے جود و کرم کی بارش کر ،تونے امر بالمعروف کیا پس تو مجھے امر بالمعروف کرنے والوں میں قرار دے ''۔
پھر آپ ان کے سامنے ہوتے حالانکہ آپ کا چہرہ آنسووں سے تر ہوتااور آپ بہت ہی نرمی کے ساتھ فرماتے : ''میںنے تم کو معاف کر دیا ۔کیا تم مجھے معاف کر دو گے؟اورجو کچھ تم نے میرے زیر سلطہ رہنے میں برا ئی دیکھی ہے ،میں اس کریم ،جواد ،عادل ،محسن اور فضل و کرم کرنے والے کا غلام ہوں '' ۔
اس عظیم نفس کے مانند کو نسا نفس ہو سکتا ہے جس کی انبیاء کی روحانیت اور ان کے اچھے صفات اور اخلاق سے مثال دی گئی ہے ؟
غلام آ پ سے یوں کہتے :اے ہمارے سید وسردار ہم نے آپ کو بخش دیا۔
آپ ان سے یوں فرماتے :''کہو :اے پروردگار تو بھی علی بن الحسین کو اسی طرح بخش دے جس طرح انھوں نے ہم کو بخش دیا ہے ،تو اِن کو آگ سے اسی طرح آزاد فرما جس طرح انھوں نے ہم کو اپنی غلامی سے آزاد کیا ہے ''۔
اس کے بعد آپ ان سے فرماتے :یااللہ آمین ربّ العالمین ،جائو میں نے تم سب کو بخش دیا، تم کو آزاد کر دیا ،تم مجھ سے معافی اور آزاد ہونے کی امید رکھتے تھے ''،عید فطر کے دن آپ ان کو اتنا اور ایسا انعام دیتے جس سے انھیں کسی سے سوال کرنے کی ضرورت نہ ہو سکے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے بے نیاز رہیں ۔(١)
دنیا میںاللہ کے صالحین اور متقین میں اس امام عظیم کے تقویٰ ،ورع ،اخلاص عظیم اور اس کی اطاعت کرنے والے کے مانند کو ئی نہیں ہے آپ کا قلب شریف ایمان اور اللہ کی معرفت سے لبریز تھا ۔

آپ کی اپنے بیٹوں کو وصیت
امام نے اپنے بیٹوں کو بعض تربیتی وصیتیں فر ما ئیں جو آپ کی زند گی کے تجربات کا خلاصہ تھا تاکہ وہ اس راستے پر گا مزن رہیں ۔آپ کی بعض وصیتیں یہ ہیں :
١۔آپ نے اپنے بعض فرزندوں کو ایسی اہم وصیت فر ما ئی جو اُن کے اصحاب اور چا ہنے والوں کے لئے نورانی پیغام ہے ایسے ساتھیوں سے دور رہنے کی تلقین کی ہے جس سے دوستوں کے درمیان دشمنی اور عداوت پھیلنے کا امکان ہو،آپ کی وصیت یہ ہے :''اے میرے فرزند،اگر تم پانچ قسم کے لوگوں کو دیکھو تو نہ ان کی مصاحبت کرو ،نہ ان سے گفتگو کرو اور نہ ہی ان کے ساتھ راستہ طے کرو ''آپ کے فرزند ارجمند نے آپ سے عرض کیا :وہ پانچ افراد کو ن ہیں؟تو اما م نے فرمایا:''تم کذّاب (بہت زیادہ جھوٹ بولنے والے ) کی مصاحبت نہ کرو (یعنی اس کے ساتھ نہ اٹھو نہ بیٹھو)چونکہ یہ سراب کے مانند ہوتے ہیں اور قریب چیز کو دور اور دور والی چیز کو نزدیک کر دیتے ہیں ۔تم فاسق کی مصاحبت سے پرہیزکروچونکہ یہ شخص ایک لقمہ یا اس سے کم میں تم کو بیچ دے گا ،بخیل کی مصاحبت سے پرہیز کرووہ شدید ضرورت کے وقت تمہاری امداد کرنے سے گریز کرے گا،احمق کی مصاحبت سے پرہیز کرو چونکہ وہ تم کو نفع پہنچانے کا ارادہ کرے گا لیکن نقصان پہنچا دے گا ۔ اور قطع رحم کرنے والے سے پرہیز کروکیونکہ میں نے کتاب اللہ میں اس کو ملعون دیکھا ہے ''۔(٢)
اس قسم کے لوگوں پر وائے ہو اور یہ گھاٹے میں رہیں گے ،جو ان کی تصدیق کر ے گا وہ بہت زیادہ نقصان اٹھا ئے گا اور معاشرہ میں اس طرح کی نئی اور پرانی بہت قسمیں ہیں لیکن جن ازکیا اور اصفیاء کی
مصاحبت سے انسان مستفید ہو تا ہے وہ بہت کم ہیں ۔
..............
١۔حیاة الامام زین العابدین ، جلد ١،صفحہ ٢٠٩۔٢١١۔
٢۔تحف العقول ،صفحہ ٢٧٩،البدایہ والنھایہ جلد ٩،صفحہ ١٠٥۔
٢۔آپ کی اپنے فرزندوں کوایک اوربلند و بالا نصیحت اور وصیت یہ تھی :''اے میرے فرزند! مصیبت پر صبر کر،حقوق کے لئے معارضہ نہ کر اور اپنے کسی بھا ئی کو ایسی چیز کے متعلق جواب نہ دے جس کا نقصان تمہارے لئے اس کے فائدہ سے بہت زیادہ ہو ۔۔۔''۔(١)
امام نے مصائب اور غم انگیز واقعات پر صبر اور ان کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکنے کی وصیت فرما ئی ، کیونکہ ایسا کر نے سے انسان کی شخصیت اور اس کی پائیداری کا پتہ چلتا ہے ،اسی طرح آپ نے لوگوں کے حقوق کے سلسلہ میں تجاوز نہ کر نے کی بھی وصیت فرما ئی چونکہ اس سے جس آدمی کے ساتھ تجاوز کیا جا رہا ہے اس کی سلامتی اور اس کے بالمقابل خود تجاوز کرنے والے کی بھی سلامتی کی ضمانت ہوجا تی ہے ، اسی طرح آپ نے یہ بھی وصیت فرما ئی کہ کسی انسان کوایسی چیز کی دعوت نہ دو جس سے اس کا نقصان اور گھاٹا ہو رہا ہو ۔

آپ کی اپنے بیٹوں کے لئے دعا
آپ نے اپنے بیٹوں کے لئے انتہا ئی خلوص اور جلال و بزرگی کے لئے دعائیں کیں جو آپ کی ان کے ساتھ تابناک سلوک کی حکایت کر تی ہیں ،امام ان سے بلندآداب یا مکارم اخلاق کی تمنا و آرزو کرتے تھے ،تاکہ وہ غور سے سنیں اور ان پر عمل کریں ،چونکہ اسلا می تربیت میں یہی سب سے بڑی دولت ہے : ''یابن انّ اللّٰہ لم یرضک لِ فاَوصاکَ بِ،ورضین لک فحذَّرن مِنکَ،وَاعلم اَنّ خیرالآباء لِلابناء من لم تدعہُ الموَدَّةُ الی التَّفریطِ فیہِ،وخیرَ الابنَائِ للآبائِ مَنْ لم یدعُہُ التقصیرُاِلی العُقُوْقِ لَہُ ۔۔۔''۔(٢)
امام کے یہ فقرے اپنی اولاد کی تربیت کے سلسلہ میں آپ کی روحانیت پر دلالت کر تے ہیں ، آپ نے ان کی تربیت اصلاح اور تہذیب مطلق کے طور پر فر ما ئی آپ نے ان کیلئے یوں دعا فر ما ئی :
..............
١۔البیان والتبیین ،جلد ٢،صفحہ ٧٦۔العقد الفرید، جلد ٣،صفحہ ٨٨۔
٢۔العقد الفرید ،جلد ٣،صفحہ ٨٩۔
١۔خدا وند عالم نے ان پر ان کے جسموں ،ادیان اور اخلاق کے صحیح ہونے میں احسان کیا۔
٢۔خداوند عالم ان کے نفوس اور ارواح کو معاف فرمائے اور یہ برائیوںاورگناہوںسے پاک ہونے کے بعد ہوتا ہے ۔
٣۔خداوند عالم ان پر اپنا رزق کشادہ فرمائے ،ان کو فقر کی کڑواہٹ کا مزہ نہ چکھائے ، کیونکہ یہ بہت ہی دردناک حوادث اور مہلک چیز ہے ۔
٤۔خداوند عالم بیماریوں میں ان کی ہدایت فر ما ئے ،ان کو نیکی کے لئے سبقت کرنے والوں میں قرار دے اور وہ اس کے امر پر عمل کرتے رہیں ۔
٥۔خداوند عالم اپنے اولیاء کو ان کا محبوب قرار دے اور اپنے دشمنوں کو مبغوض قرار دے ، کیونکہ اس سے خاندان منظم ہوتا ہے اور جب بچہ کی اس طریقہ سے تربیت کی جا تی ہے تو بچہ اپنے باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوجاتا ہے ۔

آپ کی حکمتیں اور تعلیمات
امام زین العابدین علیہ السلام نے متعدد حکمتیں اور بلند وبالا تعلیمات بیان فر ما ئیں جن سے حقیقی زندگی ابھر کر سامنے آتی ہے ،آپ معاشرے کے معاملات میں کتنی گہرا ئی سے کام لیتے ، ان کے حالات اور امور کی خبر گیری فرماتے تھے،آپ کی بعض تعلیمات یہ ہیں :

بلند خصلتیں
امام نے ان بعض بلند و بالا خصلتوں کے متعلق گفتگو کی ہے جن سے ایک مسلمان کو متصف ہونا چاہئے اور جن سے اس کے اسلام کی تکمیل ہو تی ہے، آپ کا فرمان ہے :''چار چیزیں ایسی ہیں جن سے اسلام کامل ہوتا ہے ،گناہ محو ہو جاتے ہیں ،اور اس کا پروردگار اس سے راضی و خشنود ہو نے کی صورت میں ملاقات کر تا ہے :خداوند عالم نے انسان کے نفس کیلئے جو چیز قرار دی ہے اس میں وہ اللہ عز وجل کیلئے وفا کرے ، لوگوں کے ساتھ گفتگو کرتے وقت سچا ئی سے کام لے ،ہر وہ چیز جو اللہ اور انسانوں کے نظر میں بری ہے اس کو نہ بجالائے ،اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ اچھا ئی سے پیش آئے''۔(١)
بیشک جس میں یہ بلند و بالا صفات پا ئی جائیں گی وہ حقیقی مو من اورکا مل الایمان ہو گا جس سے خدا راضی ہو نے کی صورت میں ملاقات کر ے گا ۔

مو من کی علا متیں
امام فرماتے ہیں :''مو من کی پا نچ نشا نیاں ہیں ''۔
طاوس یما نی نے آپ سے سوال کیا :فرزند رسول! وہ پانچ علامتیں کو ن کو ن ہیں ؟امام نے فرمایا:خلوت میں تقویٰ اختیار کرنا ،کم مال کے باوجودبھی صدقہ دینا ،مصیبت کے وقت صبر کرنا ،غضب کے وقت حلم اختیار کرنااور خوف کے وقت صدقہ دینا''۔(٢)
جس شخص میں یہ پانچ صفات پا ئے جاتے ہیں وہ مو من کہلاتا ہے اور وہ اللہ کے ان نیک و صالح بندوں میں قرار پاتا ہے جن کے نفوس میں تقویٰ سمایا ہوا ہوتا ہے ۔

اچھی گفتگو
امام نے اپنے اصحاب کو لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی رغبت دلا ئی اور حسن کلام پر مترتب ہونے والے منافع کا تذکرہ بھی کیاچنانچہ آپ نے فرمایا:''حسن کلام سے انسان مالدار ہوجاتاہے ، اس کارزق کشادہ ہوتاہے ،مو ت کو فراموش کر دیتا ہے ،اپنے اہل و عیال میں محبوب ہوجاتا ہے اور ایسا شخص جنت میں جائے گا ۔۔۔''۔(٣)
امام کی اس حدیث یعنی حسن کلام اور کلم الطیب سے مندرجہ ذیل مطلب سا منے آتا ہے :
١۔حسن کلام سے مال میں رشد و نمو ہو تی ہے ،واضح طور پر اس کا اثر کاریگر،حرفہ و فن جاننے والے
..............
١۔الخصال ،صفحہ ٣٠٣۔ ٢۔الخصال ،صفحہ ٢٤٥۔
٣۔وسا ئل الشیعہ، جلد ٥،صفحہ ٥٣١۔الخصال، صفحہ ٢٨٩۔
اور تاجروں میں ظاہر ہوتا ہے ۔چونکہ لوگ اس قسم کے لوگوں کے ساتھ حسن کلام کے ذریعہ خرید و فروخت کرتے ہیں ،یہ فطری بات ہے کہ انسان کاحسن کلام ان لوگوں میں زیادہ دخل و تصرف کا سبب ہوتاہے جس طرح فطرت برے اور بد خلق سے بذات خود نفرت کرتی ہے اور برا کلام اور بری عادت رزق میں تنگی کا سبب ہو تی ہے ۔
کلام الطیب کے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ اس سے انسان کی موت ٹل جاتی ہے جب انسان کسی مو من سے ظلمت دور کرکے اس کو نفع پہنچاتا ہے تو خدا وند عالم اس انسان کی عمر بڑھا دیتا ہے اور آخرت میں اس کو اجر جزیل سے نوازے گا ۔
اور کلام الطیب کے فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ اچھی گفتگو کرنے والا اپنے اہل و عیال کے نزدیک اور معاشرہ میں عزیز اور محبوب ہو جاتا ہے اور لوگ اچھی گفتگو کرنے والے کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔
حسن کلام کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اس سے انسان کو جنت ملتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب انسان دو آدمیوں کے درمیان صلح اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے ۔

مو من کو نجات دینے والی چیزیں
امام نے مو من کے نجات پانے کے سلسلہ میں فرمایاہے :''مو من تین چیزوں سے نجات پاتا ہے : لوگوں کی برائی اور ان کی غیبت کرنے سے اپنی زبان کا روکنا ،مو من کا اپنی دنیا اورآخرت میں فائدہ دینے والی چیزوںمیں مشغول رہنا اور اپنے گناہوں پرگریہ و زاری کرتے رہنا ۔۔۔''۔(١)

آپ کی شہادت
امام کا سلوک ،عبادت ،نیکیاں اور احسانات میں کو ئی نظیر نہیںتھا جن سے تمام لوگوں کے دل آپ کی طرف جھک گئے تھے اور یہ خاندان نبوت سے بغض و کینہ رکھنے والے امویوںکیلئے بہت شاق تھا اور ان میں سب سے زیادہ بغض و کینہ رکھنے والا ولید بن عبد الملک تھا ۔
زہری سے روایت ہے کہ ولید نے اس سے کہا :جب تک علی بن الحسین دنیا میں زندہ مو جود ہوں
..............
١۔الدر التنظیم ،صفحہ ١٧٤۔
گے میں چین و سکون نہیں پا سکتا ۔(١)
اس نے طے کیا کہ جب امام حاکم کے پاس آئیں تو ان کو زہر ہلاہل دیدیا جا ئے لہٰذا اس نے یثرب (٢)میں اپنے گورنر کے ذریعہ آپ کو زہر دلایاامام نے جب تناول کیا توامام کا جسم کثرت عبادت اورکمزوری کی وجہ سے نحیف و لاغر ہو چکا تھا اور آپ نے بہت ہی کم وقت میں دا عی اجل کو لبیک کہا ، آپ کے آخری کلمات یہ تھے :''الحمد للّٰہ الذ صدقناوعدہ واورثناالجنة نتبوأُمنھاحیث نشاء فنعم اجرالعاملین َ ''۔(٣)
''تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہم سے کئے ہوئے اپنے وعدے کوسچ کر دکھایا ہے اور ہمیں اپنی جنت کا وارث بنا دیا ہے کہ جنت میں جہاں چا ہیں آرام کریں اوربیشک یہ عمل کرنے والوں کا بہترین اجر ہے ''
کائنات کے آفاق کو روشن کرنے کے بعد آپ کی عظیم روح جنت ماویٰ کی طرف پرواز کرگئی ۔
سلام ہو آپ پر جس دن آپ پیدا ہوئے ،جس دن شہید ہوئے اور جس دن دوبارہ مبعوث و زندہ کئے جا ئیں گے ۔
..............
١۔حیاة الامام محمد الباقر جلد١،صفحہ ٥١۔
٢۔نور الابصار ،صفحہ ١٢٩۔فصول المہمہ ''ابن صباغ ''،صفحہ ٢٣٣۔الاتحاف بحب الاشراف، صفحہ ٥٢۔صواعق المحرقہ ،صفحہ ٥٣۔جدول مصباح کفعمی ،صفحہ ٢٧٦۔
٣۔الخصال، صفحہ ١٨٥۔الامالی، صفحہ ١٦١۔