خوشبوئے حیات
 

آپ کے صدقات
امام زین العابدین نے اپنی حیات طیبہ میں سب سے زیادہ فقیروں کو صدقے دئے تاکہ وہ آرام سے زندگی بسر کرسکیں اور ان کا ہم و غم دور ہو جائے اور امام دوسروں کو بھی اس کی ترغیب فرماتے تھے کیونکہ اس پر انسان کو اجر جزیل ملتا ہے ، آپ کا فرمان ہے: ''مَامِنْ رَجُلٍ تَصَدَّقَ علیٰ مِسْکِیْنٍ مُسْتَضْعَفٍ فَدَعَا لَہُ الْمِسْکِیْنُ بِشَی ئٍ فِیْ تِلْکَ السَّاعَةِ اِلَّااسْتُجِیْبَ لَہُ''
''جب کو ئی انسان کسی کمزور مسکین کو صدقہ دیتا ہے تو اس وقت عطا کرنے والے کے حق میںمسکین کی دعا ضرور قبول ہو تی ہے ''۔(٢)
ہم آپ کے بعض صدقات کو ذیل میں بیان کر رہے ہیں:
٢۔وسائل الشیعہ ،جلد ٦،صفحہ ٢٩٦۔

١۔لباس تصدّق کرنا
امام اچھے لباس پہنتے تھے ،آپ سردی کے مو سم میں خزکا لباس پہنتے جب گرمی کا مو سم آجاتا تھا تو اس کو صدقہ دیدیتے تھے یا اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ دیدیتے تھے اور گر می کے مو سم میں دومصری لباس پہنتے تھے جب سردی کا مو سم آجا تا تھا تو ان کو صدقہ میں دیدیتے تھے ، (١) اور آپ فرماتے
تھے :''اِنِّیْ لَاَسْتَحْیِیْ مِنْ رَبِّیْ اَنْ آکُلَ ثَمَنَ ثَوْبٍ قَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ فِیْہِ''
''مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے کہ میں نے جس لباس میں اللہ کی عبادت کی ہے اس لباس کی قیمت کھائوں ''۔(٢)

٢۔اپنی پسندیدہ چیزکا صدقہ میںدینا
امام اپنی پسندیدہ چیز صدقہ میں دیتے تھے ،راویوں کا کہنا ہے :اما م صدقہ میںبادام اور شکر دیتے تھے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرما ئی :
(لَنْ تَنَالُوْاالْبِرَّحَتّیٰ تُنْفِقُوامِمَّاتُحِبُّوْنَ )(٣)''تم نیکی کی منزل تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میںسے راہ خدا میں انفاق نہ کرو''۔(٤)
مورخین کا بیان ہے کہ امام انگور بہت زیادہ پسند فرماتے، آ پ ایک دن روزہ تھے تو افطار کے وقت آپ کی ایک کنیز نے آپ کی خدمت میں انگور پیش کئے ایک سائل نے سوال کیا توامام نے انگورکے گچھے کواسے دینے کا حکم صادر فرمایا ،کنیز نے دوبارہ اپنے خریدے ہوئے انگو ر آپ کی خدمت میں پیش کئے تو دروازے سے دوسرے سائل نے سوال کیا امام علیہ السلام نے وہ انگور کے گچھے بھی اسے دینے کا حکم صادر فرمایا ،اس کے بعد پھر کنیز نے اپنے خریدے ہوئے انگور امام کی خدمت میں پیش کئے تو تیسرے سائل نے دروازے سے سوال کیا امام نے انگور کے وہ گچھے سائل کو دیدینے کا حکم صادر فرمادیا ۔(٥)
..............
١۔تاریخ دمشق، جلد ٣٦،صفحہ ١٦١۔ ٢۔ناسخ التواریخ ،جلد١،صفحہ ٦٧۔
٣۔سورہ آل عمران، آیت ٩٢
۔٤۔بحارالانوار ،جلد ٤٦،صفحہ٨٩۔
٥۔المحاسن (برقی)،صفحہ ٥٤٧۔فروع الکافی ،جلد ٦،صفحہ ٣٥٠۔
آپ کے آباء و اجداد کی اس نیکی میں کتنی مشابہت تھی جنھوں نے تین دن پے درپے ایسی طاقت و قوت کا مظاہرہ کیاحالانکہ وہ سب روزہ کی حالت میں تھے تب بھی انھوں نے مسکین ،یتیم اور اسیر کے ساتھ ایسا برتائو کیا تو اللہ نے ان کی شان میں سورئہ ''ھَل اتیٰ ''نازل فرمایا،اُن کی یہ عظیم جلالت و بزرگی رہتی دنیا تک باقی رہے گی یہاں تک کہ خدا زمین کا وارث ہواور اُن پر احسان کرے۔

٣۔آپ کا اپنے مال کو تقسیم کرنا
امام نے دو مرتبہ اپنا سارا مال دو حصوں میںتقسیم کیااور اس میں سے ایک حصہ اپنے لئے رکھ لیا اور دوسرا حصہ فقیروںاور مسکینوں(١) میں تقسیم کردیا،اس سلسلہ میں آپ نے اپنے چچا امام حسن فرزند رسول کا اتباع فرما یاکیونکہ امام حسن نے دو یا تین مرتبہ اپناسارا مال تقسیم کیا تھا ۔

٤۔آپ کا مخفی طور پر صدقہ دینا
امام زین العا بدین علیہ السلام کے نزدیک سب سے پسندیدہ چیز مخفیانہ طور پر صدقہ دینا تھاتاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکے ،آپ اپنے اور آپ سے مستفیض ہونے والے فقرا ء کے درمیان رابطہ ہوں خدا سے محبت اورفقراء کے ساتھ صلۂ رحم کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ لوگوں کومخفیانہ طور پر صدقہ دینے کی رغبت دلاتے اور فرماتے تھے :''اِنَّھَاتُطْفِیُٔ غَضَبَ الرَّبِّ''۔(٢) ''چھپ کر صدقہ دینا خدا کے غضب کو خا موش کر دیتا ہے ''۔آپ رات کے گُھپ اندھیرے میں نکلتے اور فقیروں کواپنے عطیے دیتے حالانکہ اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے ہوتے ،فقیروں کو رات کی تاریکی میں آپ کے عطیے وصول کرنے کی عا دت ہو گئی تھی وہ اپنے اپنے دروازوں پر کھڑے ہوکر آپ کے منتظر رہتے ،جب وہ آپ کو دیکھتے تو آپس میں کہتے کہ : صاحب جراب(تھیلی)(٣) آگئے ۔آپ کے ایک چچا زاد بھا ئی تھے جن کو آپ رات تاریکی
..............
١۔خلاصہ تہذیب کمال، صفحہ ٢٣١۔حلیہ ،جلد ٣،صفحہ ١٤٠۔جمہرة الاولیائ، جلد ٢،صفحہ ٧١۔بدایہ اور نہایہ ،جلد ٩،صفحہ ١٠٥۔طبقات ابنسعد،جلد٥، صفحہ ١٩۔
٢۔تذکرة الحفّاظ، جلد١،صفحہ ٧٥۔اخبار الدول ،صفحہ ١١٠،نہایة الارب فی فنون الادب، جلد ٢١، صفحہ ٣٢٦۔
٣۔ بحارالانوار ،جلد ٤٦،صفحہ ٨٩۔
میں جا کر کچھ دینار دے آیا کر تے تھے ،انھوں نے ایک دن کہا :علی بن الحسین میری مدد نہیں فرماتے اور انھوں نے امام کو کچھ نا سزا کلمات کہے امام نے وہ سب کلمات سنے اور خود ان سے چشم پوشی کرتے رہے اور ان سے اپنا تعارف نہیں کرایا جب امام کا انتقال ہوگیااور ان تک کوئی چیز نہ پہنچی تو ان کو معلوم ہوا کہ جو ان کے ساتھ صلۂ رحم کرتا تھا وہ امام ہی تھے تو وہ امام کی قبر اطہر پر آئے اور ان سے عذرخواہی کی۔(١)
ابن عائشہ سے روایت ہے :میں نے اہل مدینہ کو یہ کہتے سنا ہے :علی بن الحسین کی وفات تک ہمارا مخفیانہ طور پر صدقہ لینا بند نہیں ہوا ۔(٢)
مورخین سے روایت ہے کہ اہل مدینہ کی ایک جماعت کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی زندگی کا خرچ کہاں سے آرہا ہے جب امام زین العابدین کا انتقال ہوگیا تو جو کچھ ان کو رات میں دیا جاتا تھا وہ آنابند ہو گیا ۔(٣)
امام ہبہ یا صلۂ رحم کرتے وقت خود کو بہت زیادہ مخفی رکھتے اور جب آپ کسی کو کو ئی چیز عطا فرماتے تو اپنا چہرہ چھپالیتے تاکہ کو ئی آپ کو پہچان نہ سکے ۔(٤)
ذہبی کا کہنا ہے :آپ مخفیانہ طور پر بہت زیادہ صدقہ دیتے تھے ۔(٥)
امام فقیروں میں تقسیم کرنے والے کھانے کو ایک بوری میں رکھ کر اپنی پیٹھ پر رکھتے جس کے نشانات آپ کی پیٹھ پر مو جود تھے ۔
یعقوبی سے روایت ہے کہ جب امام کو غسل دیا گیا توآپ کے کندھے پر اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے تھے جب آپ کے گھروالوں سے سوال کیا گیا کہ یہ کیسے گھٹے ہیں تو انھوں نے جواب دیا: امام رات میں اپنے کاندھے پر کھانا رکھ کر فقیروں کے گھر تک جاتے اور ان کو کھانا دیتے تھے ۔ (٦ )
..............
١۔بحارالانوار، جلد ٤٦،صفحہ ١٠٠۔
٢۔صفوة الصفوہ ،جلد ٢ ،صفحہ ٥٤۔الاتحاف بحب الاشراف، صفحہ ٤٩۔
٣۔الاغانی، جلد ١٥،صفحہ ٣٢٦۔
٤۔بحارالانوار ،جلد ٤٦،صفحہ ٦٢۔
٥۔بحارالانوار، جلد ٤٦،صفحہ ٦٢۔
٦۔تاریخ یعقوبی ،جلد ٣،صفحہ ٤٥۔
بہر حال مخفیانہ طور پر صدقے دینا آپ کے سب سے عظیم احسانات میں سے تھا اوراللہ کے نزدیک ان سب کا اجرو ثواب بھی زیادہ تھا ۔

شجاعت
آپ کے ذاتی صفات میں سے ایک شجاعت ہے آپ لوگوں میں سب سے زیادہ بہا در تھے ،جو آدم کے صلب سے خلق ہونے والوں میں سب سے بہادر و شجاع ،امام حسین ،کے فرزند ارجمند تھے آپ جیسی بہادری شاذ و نادرتھی جب آپ کو اسیر کرکے سرکش عبید اللہ بن مرجانہ کے پاس لے جایا گیااور اس نے تسلی و تشفی دینے والے کلمات کہے تو امام نے اس کا ایسے شعلہ ور کلمات میں جواب دیا جواس ملعون کیلئے تلواروں اور کوڑوں سے بھی کہیں زیادہ سخت تھا ،امام اس کی حکومت اور جبروت بالکل سے مرعوب نہیں ہوئے ،ابن مرجانہ غصہ سے بپھر گیا،اس کی رگیں پھول گئیںتو اس نے امام کو قتل کرنے کا حکم دیدیا ، امام نے بالکل اس کی پروا نہیں کی اور کو ئی نالہ و آہ نہیں کیا اور اس سے فرمایا :''القتل لناعادة، وکرامتنا من الشھادة ُ۔۔۔''۔
اس کے بعد ابن مرجانہ نے آپ کو اسیری کی حالت میں یزید بن معاویہ کے پاس بھیجاحالانکہ آپ کے ساتھ بزرگان وحی اور مخدرات عصمت و طہارت و رسالت بھی تھیں،اما م نے اس سے کہا کہ مجھے خطبہ دینے کا موقع دے تاکہ میں مسلمانوں کی اصلاح کیلئے کچھ باتیں بیان کروں، یزید نے آپ کی بات قبول نہیں کی تو اہل شام نے اس سے اصرار کرتے ہوئے کہا :مایحسن ھذا الغلام ؟ ''یہ جوان کیا کرپائے گا؟ ''اس نے جواب دیا :یہ اہل بیت میں سے ہیں جن کو اس طرح علم بھرایا گیا ہے جس طرح چڑیا اپنے بچہ کو دانا بھراتی ہے۔ وہ اپنی بات پر مصر رہے تو یزید نے امام کو اجازت دیدی، امام نے ایسا خطبہ دیا جس سے آنکھیں رونے لگیں اور دل منقلب ہو کر رہ گئے اور یزید کا و ہ راستہ تباہ و برباد ہو گیا جس پروہ گا مزن رہنا چا ہتا تھا ،اس کے پاس اس رسوا ئی اورذلت سے بچنے کیلئے اذان کے علاوہ کو ئی اورچا رہ ٔ کارباقی نہیں رہ گیا تھا ،مؤذن نے اذان دی تو آپ نے خطبہ روک دیا، اس سے پہلے ایسا فصیح و بلیغ خطبہ سننے کو نہیں ملاتھا ، آپ نے اہل شام کو رسول اسلام ۖ کے نزدیک اپنے مقا م و منزلت کا تعارف کرایا جس کا اہل شام کو علم نہیں تھا ،اور ان سے حکومت کی مخفی رکھی ہو ئی چیز کا ازالہ کیا حالانکہ حکومت نے یہ مشہور کر رکھا تھا کہ اہل بیت نے حکومت کے خلاف خروج کیا ،اس کی اطاعت نہیں کی اور ان میں تفرقہ ڈالاہے،اس سرکش نے اپنے خلاف عام طور پرفتنہ و فساد اور انقلاب بر پا ہوجانے کے خوف سے امام اور ان کے ساتھ اہل بیت عصمت و طہارت کو شام سے مدینہ بھیجنے میں بہت جلدی سے کام لیا۔

امام مدینہ میں
جب امام یثرب میں مقیم ہوگئے اور آ پ نے اموی حکومت کے ذریعہ شریعت اسلام کے محو ہونے ، احکام دین کا کو ئی اہتمام نہ کرنے ،دور جا ہلیت کو دوبارہ زندہ کرنے اورلوگوں کو کتاب خدا سے منصرف کرتے دیکھا تو اسلامی تعلیمات کو زندہ کرنے کے لئے بنفس نفیس اٹھے اور آ پ نے ایک حوزئہ علمیہ کی بنیاد ڈالی جس میں وہ لوگ شامل تھے جن کو آپ نے خرید کر آزاد کیا تھا ،آپ نے ان کو اسلامی فقہ ، آداب شریعت وغیرہ کا درس دینا شروع کیاآپ کے اردگرد علماء جمع ہوتے جو احکام کے متعلق فتوے اور وہاں بیان کئے جانے والے غرر حکم اور آداب کو لکھ کر ہی آپ سے جدا ہوتے تھے، شایان ذکر بات یہ ہے کہ اس زمانہ کے بڑے بڑے فقہا آپ کے مدرسہ کے ہی تعلیم یافتہ تھے ،اور ہم نے ان کی سوانح حیات اپنی کتاب ''حیاةالامام زین العابدین ''میں بیان کی ہے ۔
امام زین العابدین علیہ السلام علم ،فکر اور اخلاق کے عظیم سرمایہ کے مالک تھے جس کی اہمیت آپ کی درسگاہ اور حوزئہ علمیہ سے کم نہیں تھی اور وہ دولت آپ کی وہ دعائیں ہیں جن کو صحیفہ ٔ سجادیہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،علماء نے اس کو کبھی زبور آل محمد کا نام دیا تو کبھی انجیل آل محمد کے نام سے یاد کیا اور اس کو اہمیت کے اعتبار سے قرآن کر یم اور نہج البلاغہ کے بعد شمار کیا ،یہ در حقیقت اسلامی حیات کی تکمیل، ادب اور اسلامی فکر کا ذخیرہ ہے ۔
اس نے علمی جگہوں کوپُر کیا علماء نے اس کا درس دینا شروع کیا ،اس کی شرحیں لکھیں،یہاں تک کہ اس صحیفہ سجادیہ کی پینسٹھ سے زیادہ شرحیں لکھی گئی ہیں۔(١)
جیسا کہ اس کتاب کاانگریزی ،فرانسیسی اور جرمنی زبان میں بھی ترجمہ کیا گیا ہے اور مغربی علماء نے اس میں تربیت کے اصول ،بلند و بالا اخلاق ،سلوک کے قواعد و ضوابط وغیرہ جیسے فکر انسانی کے خزانے پائے ہیں ۔
..............
١۔الذریعہ فی تصانیف الشیعہ، جلد ١٥،صفحہ ١٨۔

آپ کی عبادت
مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ امام زین العابدین علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گذاراورسب سے زیادہ اللہ کی اطاعت کر تے تھے ،آپ کی عظیم عبادت و انابت کے مانند کو ئی
نہیں تھا ،متقین اور صا لحین آپ کی عبادت کی وجہ سے متعجب تھے ،تاریخ اسلام میں صرف آپ ہی کی وہ واحد شخصیت ہے جس کو زین العابدین اور سید الساجدین کا لقب دیا گیا ۔
آپ کی عبادت کسی کی تقلید کے طور پر نہیں تھی بلکہ اس کی وجہ اللہ پر عمیق ایمان سے تھی ، جیسا کہ آپ نے اس کی معرفت کے سلسلہ میں فرمایا ہے ،آپ نے نہ جنت کے لالچ اور نہ دوزخ کے خوف سے خداکی عبادت کی ہے بلکہ آپ نے خدا کو عبادت کے لائق سمجھا تو اس کی عبادت کی ، آپ کی شان وہی ہے جوآپ کے دادا امیرالمو منین سید العارفین اور امام المتقین کی شان تھی جنھوں نے آزاد لوگوں کی طرح اللہ کی عبادت کی ،جس کی اقتدا آپ کے پوتے امام زین العابدین علیہ السلام نے کی ہے آپ اپنی عبادت میں عظیم اخلاص کا مظاہرہ فرماتے تھے جیساکہ آپ کا ہی فرمان ہے :
''اِنِّْ اَکْرَہُ اَنْ اَعْبُدَاللّٰہَ وَلَاغَرَضَ لِْ اِلَّاثَوَابُہُ،فَاَکُوْنَ کَالْعَبْدِ الطَّامِعِ،اِنْ طَمِعَ عَمِلَ،وَاِلَّالَم یَعْمَلْ،وَاَکْرَہُ اَنْ اَعْبُدَہُ لِخَوْفِ عَذَابِہِ،فَاَکُوْنَ کَالْعَبْدِ السُّوْئِ اِنْ لَمْ یَخَفْ لَمْ یَعْمَلْ''۔
''میں اللہ کی اس عبادت کوپسند نہیںکرتا جس میں ثواب کے علاوہ کوئی اور غرض ہو ،اگر میں ایسے عبادت کروں گا تو لالچی بندہ ہوںگا ،اگر مجھے لالچ ہوگا تو عمل انجام دوں گا ورنہ انجام نہیں دوںگا،اور میں اس بات سے بھی کراہت کرتاہوں کہ میں اللہ کے عذاب کے ڈر سے اس کی عبادت کروں کیونکہ اگر میں اس کے عذاب کے خوف سے اس کی عبادت کروں تو میں برے بندے کی طرح ہوجائوں گا کیونکہ اگرڈر نہ ہوتا تو اس کی عبادت نہ کرتا''۔
آپ کے پاس بعض بیٹھنے والوں نے سوال کیا :آپ اللہ کی عبادت کیوں کر تے ہیں ؟
آپ نے اپنے خالص ایمان کے ذریعہ جواب میں فرمایا:''اَعْبُدُہُ لِمَاھُوَاَھْلُہُ بِاَیَادِیْہِ وَاِنْعَامِہِ ۔۔۔''۔(١)
اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ آپ معرفت خدا کی بنا پر اس کی عبادت کر تے تھے ،نہ ہی آپ کو اس کا کو ئی لالچ تھا اور نہ ہی کسی قسم کا کو ئی خوف تھا ،آپ میں یہ حالت خدا پر عمیق ایمان کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی ،جیسا کہ عبادت کی اقسام کے متعلق آپ نے فرمایا ہے :''اِنَّ قَوْماًعَبَدُوْااللّٰہَ عَزّوَجَلَّ رَھْبَةً
فَتِلْکَ عِبَادَةُ الْعَبِیْدِ وَآخَرِیْنَ عَبَدُوْارَغْبَةً فَتِلْکَ عِبَادَةُ التُّجَّاروَقَوْماعَبَدُوْااللّٰہَ شُکْراً فَتِلْکَ عِبَادَةُ الاحرارِ۔۔۔''۔(٢)
''جو لوگ کسی چیز (جنت )کی خواہش میں اللہ کی عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت تاجروں کی عبادت ہوتی ہے اور جو لوگ اللہ کی کسی چیز (جہنم )کے خوف سے عبادت کرتے ہیں ان کی عبادت غلاموں کی عبادت ہے اور جو لوگ شکر کے عنوان سے اللہ کی عبادت کرتے ہیںوہ آزاد لوگوںکی عبادت ہے اور یہی سب سے افضل عبادت ہے ''۔
یہ عبادت اور اطاعت کی قسمیں ہیں جو میزان کے اعتبار کے سب سے زیادہ بھاری ہیں،ان میں سے خداوند عالم آزاد لوگوں کی عبادت پسند کر تا ہے چونکہ اس میں منعم عظیم کے شکر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے نہ اس میں ثواب کا لالچ ہے اور نہ ہی اس کے عذاب کا خوف ہے ۔
امام علیہ السلام نے ایک دو سری حدیث میں اسی عبادت احرار کی تاکید فرما ئی ہے :
''عِبَادَةُ الاحرارِ لَاتَکُوْنُ اِلَّاشُکْراًلِلّٰہِ،لَاخَوْفاًوَلَارَغْبَةً ''۔(٣)
''احرار کی عبادت صرف اللہ کے شکر کیلئے ہو تی ہے اس میں نہ کو ئی خوف ہوتا ہے اور نہ لالچ ''۔
امام کے دل اور عواطف اللہ سے محبت سے مملو تھے یہ آپ کی فطرت میںبسی ہوئی تھی اور راویوں کا کہنا ہے :آپ ہر وقت اللہ کی عبادت اور اس کی اطاعت میں مشغول رہتے تھے ،آپ کی ایک کنیزسے آپ کی عبادت کے متعلق سوال کیاگیا تواس نے سوال کیا : اُطْنِبُ، اَو ْأَخْتَصِر۔ ۔۔؟ بل اختصری
..............
١۔تفسیر العسکری صفحہ ١٣٢۔
٢۔صفوة الصفوة ،جلد ٢ ،صفحہ ٥٣۔شذرات الذھب ،جلد١،صفحہ ١٠٥۔الحلیة ،جلد ٣،صفحہ ١٣٤۔البدایہ والنھایة ،جلد ٩، صفحہ ١٠٥۔ دررالابکار جلد ٢،صفحہ ١٣٩۔ ٣۔الکواکب الدریہ ،جلد ٢،صفحہ ١٣٩۔
''تفصیل سے بیان کروں یا مختصر طور۔لوگوں نے کہا مختصر ۔تو اس نے بیان کرنا شروع کیا''
آپ دن میں کھانا نہیں کھاتے تھے اور رات میں ہر گز آپ کیلئے بستر نہیں بچھایاجاتا تھا۔۔۔۔(١)
امام پوری زندگی دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے تھے ،کبھی آپ نماز میں مشغول رہتے اورکبھی مخفیانہ طور پر صدقہ دینے میں مشغول رہتے ۔۔۔
یہ بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ مسلمین اور عابدوں کی تاریخ میں کو ئی بھی امام جیسا بااخلاص اور اللہ کا اطاعت گزار بندہ نہیں مل سکتا ہے ۔ہم آپ کی عبادات کے سلسلہ میں کچھ چیزیں پیش کر رہے ہیں: آپ کا وضو
بیشک وضو نور ہے اور گناہوں سے طہارت اور نماز کا پہلا مقدمہ ہے ،امام ہمیشہ با طہارت رہتے ، راویوں نے آپ کے وضو میں اللہ کے لئے خشوع کے متعلق کہا ہے :جب امام وضوکا ارادہ فرماتے تو آپ کا رنگ زرد ہو جاتاتھا آپ کے اہل و عیال نے اس کے متعلق سوال کیا : وضو کے وقت آپ کی یہ حالت کیوں ہوجاتی ہے ؟ تو آپ نے اللہ سے خوف و خشیت سے ایسا ہونے کی وجہ بیان کرتے ہوتے یوں جواب دیا:''اَتَدْرُوْنَ بَیْنَ یَدَْ مَنْ اَقُوْمُ ؟''۔(٢)''کیا تم جانتے ہو کہ میںکس کے سامنے کھڑاہونے کا ارادہ رکھتا ہوں ''۔
آپ وضو کا اتنا اہتمام فرماتے کہ کسی سے کو ئی مدد نہیں لیتے تھے آپ خود طہارت کیلئے پانی لاتے اور اس کو سونے سے پہلے ڈھانک کر رکھتے ،جب رات آجا تی تو آپ مسواک کرتے اس کے بعد وضو کرتے اور وضو سے فارغ ہو جانے کے بعد نماز میں مشغول ہو جاتے تھے ۔(٣)

آپ کی نماز
نماز مو من کی معراج ہے اور متقی کو اللہ سے قریب کر دیتی ہے (جیسا کہ حدیث میں آیاہے )ذاتی
..............
١۔الخصال صفحہ ٤٨٨۔
٢۔دررالابکار صفحہ ٧٠۔نہایة الارب جلد ٢١صفحہ ٣٢٦۔سیر اعلام النبلاء جلد ٤ صفحہ ٢٣٨۔الاتحاف بحب الاشراف صفحہ ٤٩۔اخبار الدول صفحہ ١٠٩۔ ٣۔صفوة الصفوة جلد ٢صفحہ ٥٣۔
طور پر امام سب سے زیادہ نماز کو اہمیت دیتے تھے ،نماز کو معراج اس لئے کہا گیا ہے کیونکہ نماز انسان کو اللہ تک پہنچا تی ہے اور خالق کائنات اور زندگی دینے والے سے متصل کر تی ہے جب آپ نماز شروع کرنے کا ارادہ فرماتے تو آپ کا جسم مبارک کانپ جا تا تھا ،آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:''اَتَدْرُوْنَ بَیْنَ یَدَْ مَن اَقُوْمُ،وَمَنْ أُنَاجْ؟''۔(١)''کیا تم جانتے ہو کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں اور کس کو پکار رہا ہوں ''۔
ہم ذیل میں آپ کی نماز اورآپ کے ذریعہ نماز میں خوشبو لگانے کے سلسلہ میں کچھ چیزیں بیان کر رہے ہیں :

نماز کے وقت آپ کا خوشبو لگانا
امام جب نماز پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو آپ نے نماز پڑھنے کی جگہ جو خوشبو رکھی تھی اس کو لگاتے جس سے مسک کی خوشبو پھیل جا تی تھی ۔

نماز کے وقت آپ کا لباس
امام جب نماز کا ارادہ فرماتے تو صوف (اون ) کا لباس پہنتے ،اور بہت موٹا(٢)لباس پہنتے تھے کیونکہ آپ خالق عظیم کے سامنے خود کو بہت ہی ذلیل و رسوا سمجھتے تھے ۔

نماز کی حالت میں آپ کا خشوع
نماز میں اما م صرف خدا ہی سے لو لگاتے ،عالم ما دیات سے خالی ہوتے ،اپنے اطراف میں کسی چیز کا احساس نہ کرتے ،بلکہ آپ بذات خود اپنے نفس کا بھی احساس نہیں کر تے تھے ،آپ اپنا دل اللہ سے لگا دیتے ،راویوں نے نماز کی حالت میں آپ کی صفت یوںبیان کی ہے :جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا ،آپ کے اعضاء اللہ کے خوف سے کانپ جاتے ،آپ نماز میں اس طرح
..............
١۔وسیلة المآل، صفحہ ٢٠٧۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ٤صفحہ ٣٨۔صفوة الصفوہ جلد ٢صفحہ ٥٢۔حلیة الاولیائ، جلد ٣،صفحہ ١٣٢۔العقد الفرید،جلد ٣صفحہ ١٠٣
٢۔بحارالانوار ،جلد ٤٦ ،صفحہ ٥٨۔
کھڑے ہوتے تھے جیسے ایک ذلیل بندہ بڑے بادشاہ کے سامنے کھڑا ہواور آپ نماز کو آخری نماز سمجھ کر بجالاتے تھے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے والد بزرگوار کے نماز میں خشوع کے سلسلہ میں یوں فرمایا ہے : ''کَانَ عَلِیُّ ابْنُ الْحُسَیْنِ اِذَاقَامَ فِْ الصَّلَاةِ کَاَنَّہُ سَاقُ شَجَرَةٍ لَایَتَحَرَّکُ مِنْہُ شَیْئا اِلَّا مَاحَرَّکَتِ الرِّیْحُ مِنْہُ ''۔(١)
''علی بن الحسین نماز میں اس درخت کے تنے کے مانند کھڑے ہوتے جس کو اسی کی ہوا کے علاوہ کو ئی اور چیز ہلا نہیں سکتی ''۔
نماز میں آپ کا خشوع اتنا زیادہ تھا کہ آپ سجدہ میں سر رکھ کر اس وقت تک نہیں اٹھا تے تھے جب تک کہ آپ کوپسینہ نہ آجا ئے ،(٢)یاگویا کہ آپ اپنے آنسؤوں اور گریہ کی وجہ سے پا نی میں ڈوب گئے ہوں۔(٣)
راویوں نے ابو حمزہ ثمالی سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے امام کو نماز کی حالت میں دیکھا ہے کہ آپ کے کندھے سے آپ کی ردا ہٹ گئی تو آپ نے اس کو درست تک نہیں کیاابوحمزہ ثمالی نے جب امام سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:''وَیْحَکْ،اَتَدْرِْ بَیْنَ یَدَْ مَنْ کُنْتُ؟اِنَّ الْعَبْدَ لَایُقْبَلُ مِنْ صَلَاتِہِ اِلَّامَااَقْبَلَ عَلَیْہِ مِنْھَابِقَلْبِہِ ''۔(٤)
''تم پر وائے ہو کیا تم جانتے ہو میں کس کے سامنے کھڑا ہوں ؟بندہ کی وہی نماز قبول ہو تی ہے جو دل سے ادا کی جاتی ہے ''۔
آپ نماز میں اللہ سے اس طرح لو لگاتے کہ ایک مرتبہ آپ کے فرزند ارجمند کنویں میں گرگئے تو اہل مدینہ نے شور مچایا کہ اس کو بچائیے امام محراب عبادت میں نماز میں مشغول تھے ، اس کی طرف بالکل متوجہ ہی نہیں ہوئے ،جب نماز تمام ہو گئی تو آپ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
..............
١۔وسا ئل الشیعہ، جلد ٤، صفحہ ٦٨٥۔
٢۔تہذیب الاحکام، جلد ٢،صفحہ ٢٨٦۔بحارالانوار ،جلد ٤٦،صفحہ ٧٩۔
٣۔بحارالانوار، جلد ٤٦، صفحہ ١٠٨۔
٤۔علل الشرائع ،صفحہ ٨٨۔بحار الانوار، جلد ٤٦، صفحہ ٦١۔وسا ئل الشیعہ ،جلد ٤،صفحہ ٦٨٨۔
''مَاشَعَرْتُ،اِنِّْ کُنْتُ اُنَاجِْ رَبّاً عَظِیْماً''۔(١)
''مجھے احساس تک نہیں ہوا،میں اپنے عظیم پروردگار سے مناجات کر رہا تھا ''
ایک مرتبہ آپ کے گھر میں آگ لگ گئی اور آپ نماز میں مشغو ل تھے اور آپ نے آگ بجھانے میں کو ئی مدد نہیں کی اور لوگوں نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
''أَلْھَتْنِیْ عَنْھَا النَّارُالْکُبْریٰ ''۔(٢)
''مجھے اس سے بڑی آگ نے اپنی طرف متوجہ کر رکھا تھا ''۔
عبد الکریم قشیری نے امام کے نماز میںاس تعجب خیز اظہار کی یوں تفسیر کی ہے کہ امام کی یہ حالت اس وجہ سے ہو تی تھی کہ آپ عبادت کے عالم میں جس چیز کی طرف متوجہ ہوتے تھے وہ آپ کودنیا اور ما فیہا سے غافل کر دیتی تھی یہاں تک کہ ثواب یا عذاب الٰہی کے تصور سے خود اپنے نفس پرمترتب ہونے والے حالات کی طرف آپ کا قلب متوجہ نہیں ہوتا تھا۔ (٣)

ہزار رکعت نماز
مورخین کا اس بات پر اجماع ہے کہ آپ رات دن میں ایک ہزار رکعت(٤)نماز بجالاتے تھے آپ کے پانچ سو خرمے کے درخت تھے اور آپ ہر درخت کے نیچے دو رکعت (٥)نماز پڑھتے تھے ،آپ کی اتنی زیادہ نمازیں بجالانے کی وجہ سے ہی آپ کے اعضاء سجدہ پر اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے تھے ،جن کو ہر سال کا ٹا جاتا تھا، آپ ان کو ایک تھیلی میں جمع کرتے رہتے اور جب آپ کا انتقال ہو ا تو ان کو آپ
کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا گیا ۔(6)
..............
١۔اخبار الدول ،صفحہ ١١٠۔بحارالانوار، جلد ٤٦،صفحہ ٩٩۔
٢۔صفوة الصفوة ،جلد ٢،صفحہ ٥٢۔المنتظم، جلد ٦،صفحہ ١٤١۔نھایة الارب، جلد ٢١، صفحہ ٣٢٥۔سیر اعلام النبلاء ،جلد ٤ ،صفحہ٢٣٨۔
٣۔رسالة القشریہ ،جلد ١صفحہ ٢١٤۔
٤۔تہذیب التہذیب، جلد ٧، صفحہ ٣٠٦۔نور الابصار ،صفحہ ١٣٦۔الاتحاف بحب الاشراف ،صفحہ ٤٩۔تذکرة الحفاظ ،جلد ١، صفحہ ٧١۔شذرات الذہب ،جلد ١ ،صفحہ ١٠٤ ۔الفصول المھمة ،صفحہ ١٨٨۔اخبار الدول ،صفحہ ١١٠۔تاریخ دمشق ،جلد ٣٦، صفحہ ١٥١۔الصراط السوی، صفحہ ١٩٣۔اقامة الحجة ،صفحہ ١٧١۔العبر فی خبر من غبر جلد ١،صفحہ ١١١۔دائرة المعارف (البستانی )،جلد ٩، صفحہ ٣٥٥۔تاریخ یعقوبی جلد ٣ ،صفحہ ٤٥۔المنتظم ،جلد ٦، صفحہ ١٤٣۔تاریخ الاسلام (الذھبی )۔ الکواکب الدریہ ،جلد ٢، صفحہ ١٣١ ۔ البدایہ والنھایہ جلد ٩، صفحہ ١٠٥۔
٥۔بحارالانوار ،جلد ٤٦، صفحہ ٦١۔الخصال ،صفحہ ٤٨٧۔
6۔الخصال، صفحہ ٤٨٨۔