ذاتی عناصر
اللہ نے کوئی فضیلت خلق نہیں فرما ئی اور کو ئی کرامت ہبہ نہیں فرما ئی مگر یہ کہ وہ امام سجاد کی شخصیت اور ذات میں ودیعت کی ہے، فضائل و کمالات اور نجابت و شرافت میں آپ کی مثال نہیں ہے اور آپ کے
ذاتی خصوصیات یعنی آپ کے بلند اخلاق اور دین کے سلسلہ میںآپ کی بے انتہا رغبت میں بھی کو ئی آپ کے ہم پلہ نہیں ہے ۔جو بھی آپ کی سیرت و کردار کا مطالعہ کرے گا وہ آپ کی عظمت کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو جا ئے گا ،آپ کے صفات و کمالات دیکھ کر اس کی حیرانی کی کو ئی انتہا نہ رہے گی ،آپ کے زمانہ کی بزرگ شخصیات آپ کے فضائل و کمالات کے سامنے ہیچ نظر آئیں گی ۔
مدینہ کے ایک بزرگ عالم دین سعید بن مسیب کا کہنا ہے :میں نے علی بن الحسین سے زیادہ افضل کسی کو نہیں دیکھااورجب میں نے ان کو دیکھا تو مجھے اپنی حقارت کا احساس ہوا ''۔(١)
آپ کو اتنے بلند و بالا اخلاق اور مثالی کردار تک آپ کے آباء و اجداد نے پہنچایا جنھوں نے اپنی زندگی معاشرہ کی اصلاح کیلئے وقف کر دی تھی، اب ہم آپ کے بعض ذاتی صفات کے سلسلہ میں مختصر طور پر گفتگو کر رہے ہیں :
حلم
حلم، انبیاء اور مرسلین کے صفات میں سے ہے ،اوریہ انسان کے بزرگ صفات میں سے ہے کیونکہ انسان بذات خود اپنے نفس پر مسلط ہوتا ہے اور وہ غضب اور انتقام کے وقت خاضع نہیں ہوتا ،جاحظ نے حلم کی یوں تعریف کی ہے :انسان کابہت زیادہ غصہ کی حالت میں انتقام لینے کی طاقت وقدرت رکھنے کے با وجود انتقام نہ لینا۔(٢)
امام زین العابدین علیہ السلام لوگوں میں سب سے زیادہ حلیم تھے ،اور ان میں سب سے زیادہ غصہ پی جانے والے تھے ،راویوں اور مو رّخین نے آپ کے حلم سے متعلق متعدد واقعات بیان کئے ہیں جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں :
١۔امام کی ایک کنیز تھی، جب آپ نے وضو کرنے کا ارادہ کیا تو اس سے پانی لانے کے لئے کہا وہ پانی لیکر آئی تو اس کے ہاتھ سے لوٹا امام کے چہرے پر گرگیا جس سے آپ کو چوٹ لگ گئی فوراً کنیز نے کہا:
..............
١۔تاریخ یعقوبی، جلد ٣،صفحہ ٤٦۔
٢۔تہذیب الاخلاق ،صفحہ ١٩۔
خدا فرماتا ہے :''والکا ظمین الغیظ ''''اور غصہ پی جانے والے ہیں ''
امام نے فوراً جواب میں فرمایا:''کظمتُ غیظ ''''میں نے اپنا غصہ پی لیا ''۔
کنیز کو امام کے حلم سے تشویق ہو گئی تو اس نے مزید امام کی خدمت میں عرض کیا :''والعافین عن الناس ''''اور لوگوں کو معاف کردینے والے ہیں ''۔
امام نے نرمی اور مہربانی کرتے ہوئے فرمایا: ''عفا اللّٰہُ عنک۔۔۔''
فوراً کنیز نے کہا :(وَاللّٰہ یحب المحسنین)(١)
''اور خدا احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ''
توامام نے مزید اس پر احسان و اکرام کرتے ہوئے فرمایا:''اذھب فانت حرّة''۔( ٢ )'' تم جائو ، اب تم آزاد ہو ''۔
٢۔ آپ کے حلم کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص نے بلا سبب کے آپ پر سب و شتم کرنا شروع کر دیا تو امام نے اس سے بڑی ہی نرمی کے ساتھ فرمایا:''یافتی ان بین ایدیناعقبة کؤوداًفان جزت منھافلاابال بماتقول،وان اتحیّرُفیھافاناشرّ ممّا تقولُ ۔۔۔''۔(٣)
''اے جوان !ہمارے سامنے دشوار گذار گھاٹی ہے اگر میں اس سے گذر گیاتو تمہارے کہے کی پروا نہیں کروں گا اوراگر رہ گیا تو میں تمہاری کہی ہو ئی با ت سے زیادہ بُرا ہوں ''۔
امام اپنے پورے وجود کے ساتھ اللہ سے لو لگائے رہتے تھے اور آخرت کے ان ہولناک حالات سے آہ و بکاکرتے تھے جن سے متقین کے علاوہ کو ئی نجات نہیں پا سکتااس حالت کی بنا پر آپ نے کبھی ذلت نفس کا احساس نہیں کیا۔
..............
١۔آل عمران، آیت ١٣٤۔
٢۔تاریخ دمشق ،جلد ٣٦، صفحہ ١٥٥۔نہایة الارب ، جلد ٢١، صفحہ ٣٢٦۔
٣۔بحا رالانوار ،جلد ٤٦،صفحہ ٩٦۔
صبر
آپ کے ذاتی صفات میں سے امتحان اور زحمت و مشقت پر صبر کرنا ہے ،یہ بات قطعی ہے کہ اس
دنیا میں کو ئی بھی امام زین العابدین جیسی مصیبتوں میں گرفتار نہیں ہوا ،آپ نے اپنی زند گی کی ابتداسے لیکر موت کے وقت تک مصائب برداشت کئے ،آپ ابھی عہد طفولت میں ہی تھے کہ آپ کی والدہ کی وفا ت ہو گئی،آپ ان کی محبت کی شیرینی نہ چکھ سکے ، بچپن کے آغاز میں آپ نے ابن ملجم کے ہاتھوں اپنے دادا علی بن ابی طالب کی شہادت پر اپنے خاندان کے غم و اندوہ کودیکھا ۔
اس کے بعد آپ نے اس چیز کا مشاہدہ فرمایا جب آپ کے چچا امام حسن کو مجبوراً معاویہ بن ابی سفیان جیسے سر کش سے صلح کرنا پڑی، وہ معاویہ ابن ابو سفیان جو دنیائے عرب اور عالم اسلام کی رسوائی کیلئے کلنک کا ٹیکا تھا،جب وہ تخت حکومت پر بیٹھا تو دور جا ہلیت کی تمام چیزیں ظاہر ہونے لگیں،وہ اسلام اور مسلمانوں سے بہت زیادہ کینہ و بغض رکھتا تھا ،اس نے اسلام کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کیلئے ہر طرح سے اپنی حکومت کو مضبوط کیا ،اہل بیت علیہم السلام کے خلاف بہت سخت قوانین نافذ کئے ، منبروں اور اذانوں میں ان پر سب و شتم کو واجب قرار دیاجس طرح اس کے ان چاہنے والوں کو قتل کیا جودین و سیاست کا نمونہ تھے ۔
جیسے ہی امام زین العابدین نے عنفوان شباب میں قدم رکھا آپ کے چچا فرزند رسول ۖ امام حسن کی شہادت ہو گئی ،آپ کو(کسریٰ عرب )معاویہ بن ہند (١)نے زہر دغا سے شہید کیا جس سے امام اور خاندان نبوت کے بقیہ افراد بہت رنجیدہ ہوئے ان تمام بڑے بڑے مصائب سے ان سب کے ہوش اڑ گئے۔
امام پرسب سے بڑی مصیبت واقعہ کربلا میں پڑی جب آپ نے کربلا کے میدان میں گناہگاروں کو اہل بیت نبوت کے سروں کو بے دردی کے ساتھ کاٹتے دیکھا ،جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے عدالت اور حق کی دعوت دینے والے ستاروں کی اس حالت کے بعداہل کو فہ کے بیوقوف مجرموں نے امام کو اپنے محا صرہ میں لے لیا ،آپ اور خا ندان نبوت کے تمام خیموں کو جلادیا ،آپ کوبہت ہی برے طریقہ سے اسیر کیا ،وہ ابن مرجانہ تھا جو آپ کی تباہی اور بربادی سے خوش نظر آرہاتھا اور آپ کو ذلیل و حقیر سمجھ رہاتھا ،امام ایسے صابر تھے جنھوں نے اپنے تمام اموراللہ کے سپرد فرمادئے تھے،اس کے بعد پھر یزید بن معاویہ کاسامنا ہوا،جس نے ایسے ایسے مصائب کے پہاڑ ڈھائے جن سے دل ہل جاتے ہیں۔
..............
١۔اس کو یہ لقب دوسرے خلیفہ نے دیا تھا ۔
لیکن امام سجاد نے اللہ کی قضاء و قدر پر راضی رہتے ہوئے ان تمام مصیبتوں کو برداشت کیا،ان کا نفس کونسا نفس تھا اور ان کا دل کیسا دل تھا؟
آپ کا نفس ہر مشکل میں اس خالق کا ئنات سے لو لگاتا تھاجو زندگی عطا کرنے والا ہے ،اور آپ کا طیب و طاہر ضمیر ہر چیز سے قوی اورمحکم تھا ۔
آپ ہمیشہ ہر مصیبت میںخالق کا ئنات سے ہی لو لگاتے تھے جس نے آپ کو زندگی عطا فر ما ئی تھی ،اور آپ کا نفس پاک و پاکیزہ اور طیب و طاہر تھاجو ہر چیز سے طاقتور اور قوی تھا ۔
مصائب پر صبر کرنا آپ کی ذات میں تھا صبر کی مدح و تعریف میں آپ کا یہ با اثر جملہ موجود ہے کہ صبر کرناہی اصل میںاطاعت الٰہی ہے(١) آپ کا سب سے عظیم صبر یہ تھا کہ آپ نے اپنے گھر میں موت کی خبر لانے والے کی آواز سنی جبکہ آپ کے پاس بہت سے افراد جمع تھے توجو کچھ رونما ہواتھا آپ اس کی تحقیق کیلئے تشریف لے گئے جب آپ کو خبر دی گئی کہ آپ کے ایک بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے تو آپ نے مجلس میں آکر سب کو آگاہ کیا سب نے آپ کے صبرپر تعجب کیاآپ نے ان سے فرمایا:''ہم اہل بیت جس چیز کو دوست رکھتے ہیں اس میں اللہ کی اطاعت کرتے ہیںاور دشوار و ناپسند امور میں اس کی حمد وثنا کرتے ہیں''۔ (٢)آپ صبر کو غنیمت سمجھتے تھے اور جزع و فزع کو کمزوری تصور کرتے تھے ۔
بیشک آپ کی ذاتی قوت اور آپ کاہوش اڑادینے والے واقعات کے سامنے نہ جھکنایہ چیزیں طول تاریخ میں شاذ ونادر افراد میں ہی پا ئی جا تی ہیں۔
لوگوں پر احسان
امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک ذاتی صفت لوگوں پر احسان اور ان کے ساتھ نیکی کر نا تھی ، آپ کا قلب مبارک اُن پر رحم و کرم کرنے کیلئے آمادہ رہتا تھا ،مو رّخین کا کہنا ہے :جب آپ کو یہ معلوم ہوجاتا
..............
١۔امام زین العابدین مؤلف مقرم، صفحہ ١٩۔
٢۔حلیة الاولیاء ،جلد ٣،صفحہ ١٣٨۔
تھا کہ آپ کا کوئی چا ہنے والا مقروض ہے تو آپ اس کا قرض ادا فرما دیتے تھے ،(١) اور آپ اس ڈرسے کہ کہیں آپ کے علاوہ کو ئی دوسرا لوگوں کی حا جتیں پوری کر دے اورآپ ثواب سے محروم رہ جائیں لہٰذا لوگوںکی حاجتوں کو پورا کرنے میں سبقت فرماتے تھے، آپ ہی کا فرمان ہے : '' اگر میرا دشمن میرے پاس اپنی حاجت لیکر آئے تو میں اس خوف سے اس کی حاجت پورا کرنے کیلئے سبقت کرتا تھا کہ کہیں اور کو ئی اس کی حاجت پوری نہ کردے یا وہ اس حاجت سے بے نیاز ہو جائے اور مجھ سے اس کی فضیلت چھوٹ جائے ''۔ (٢)
آپ کے لوگوں پر رحم و کرم کے سلسلہ میں زہری نے روایت کی ہے :میں علی بن الحسین کے پاس تھاکہ آپ کے ایک صحابی نے آپ کے پاس آکر کہا :آج میںچارسو دینار کا مقروض ہوں اور میرے لئے اپنے اہل و عیال کی وجہ سے ان کو ادانہیںکر سکتا ،امام کے پاس اس وقت اس کو دینے کے لئے کچھ بھی مال نہیں تھا ،آپ نے اس وقت گریہ وزاری کرتے ہوئے فرمایا :''ایک آزاد مو من کے لئے اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے مو من بھا ئی کو مقروض دیکھے اور وہ ادا نہ کر سکے اور وہ اس کاایسے فاقہ کی حالت میں مشا ہدہ کرے جس کو وہ دور نہ کر سکتا ہو''۔(٣)
سخاوت
سخاوت بھی آپ ایک عظیم صفت اور آپ کی شخصیت کا ایک اہم جز ء تھی ،مو رّخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ،فقراء اور کمزوروں کے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کر تے تھے ، مورخین نے آپ کے جودو کرم کے متعددواقعات نقل کئے ہیں جن میں ہم ذیل میںچند واقعات نقل کر رہے ہیں :
محمد بن اسامہ کے ساتھ نیکی کر نا
محمد بن اسامہ مریض ہوگئے تو امام ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے جب سب لوگ بیٹھ گئے تو محمد نے زور زور رونا شروع کر دیااس وقت امام نے اس سے فرمایا : ''مایبکیک؟ '''' تم کیوں رورہے ہو ؟''۔
..............
١۔امام ابو زید (ابو زہرہ )،صفحہ ٢٤۔
٢۔ناسخ التواریخ ،جلد ١، صفحہ ١٤۔٣۔امالی شیخ صدوق ،صفحہ ٤٥٣۔
میں مقروض ہوں۔
''کتنا قرض ہے ؟''۔
پندرہ ہزار دینا ر۔
''میں ادا کر دو نگا'' ۔
امام نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ہی وہ سب قرض ادا فرمادیاجس کے قرض کی وجہ سے رنج و غم اور سونے کی اس کی بیماری دور ہو گئی ۔(١)
عمومی طور پر کھانا کھلانا
آپ کی جود و سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ مدینہ میں ظہر کے وقت ہر دن لوگوں کو عمومی طورپر کھانا کھلاتے تھے ۔(٢)
سو گھروں کی پرورش
آپ کے جود و کرم کا یہ عالم تھا کہ آ پ مدینہ میں مخفی طور پر(٣)سو گھروں کی پرورش کرتے تھے، اور ہر گھر میں لوگوں (٤)کی کافی تعداد ہوا کر تی تھی ۔بیشک سخاوت بخل سے پاکیزگی ٔ نفس پر دلالت کرتی ہے ،لوگوں پر رحم کر نے کے شعور اور اللہ کی عطا پر اس کا شکر اداکرنے پر دلالت کر تی ہے ۔
فقیروں پر رحم و کرم
آپ کے ذاتی صفات میں سے ایک صفت یہ تھی کہ آپ فقیروں ،محروموں اورمایوس ہوجانے والوں پر احسان فرماتے تھے ۔ہم ذیل میںاس سلسلہ میں بعض واقعات نقل کرتے ہیں :
..............
١۔البدایہ والنہایہ ،جلد ٩ ،صفحہ ١٠٥،سیر اعلام النبلاء ،جلد ٤، صفحہ ٢٣٩،تاریخ الاسلام جلد ٢،صفحہ ٢٦٦،الحلیة ،جلد ٣،صفحہ ١٤١۔
٢۔تاریخ یعقوبی ،جلد ٣،صفحہ ٦۔
٣۔تہذیب اللغات والاسماء ،صفحہ ٣٤٣۔
٤۔بحارالانوار، جلد٤٦،صفحہ ٨٨۔
١۔ فقیروں کی عزت کرنا
امام فقیروں کے لئے افسوس کرتے ،ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ،جب کسی سائل کو کچھ دیتے تو اس سے معانقہ کرتے تاکہ اس سے ذلت اور حاجت(١)کااثر جاتا رہے، جب سا ئل کسی سوال کا قصد کرتا تو آپ مرحبا کہتے اور فرماتے : ''مرحباًبِمَنْ یَحْمِلُ زَادِْ اِلیٰ دَارِ الآخِرَةِ''۔(٢)
''مرحبا اس شخص پر جو میرا زاد راہ ہے اور مجھے دارآخرت کی طرف لے جا رہا ہے ''۔
بیشک فقیر کے محبت اور عطوفت کے ساتھ اس طرح اکرام کرنے سے معاشرہ میں اتحاد اور بھا ئی چارگی پیدا ہوتی ہے اور ان کی اولاد کے درمیان محبت قائم ہو تی ہے ۔
٢۔آپ کی فقیروں پر مہربانی
آپ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ نہایت ہی عطوفت و مہربا نی کے ساتھ پیش آتے تھے ،آپ کو یہ بات بہت پسند تھی کہ آپ ایسے فقرا ،مساکین اور بیمار افراد کو دستر خوان پر بلائیں جن کا کوئی آسرا نہ ہوآپ ان کو اپنے ہاتھ سے کھانا دیتے ، (٣) اسی طرح آپ اپنی پشت پر ان کیلئے کھانا اور لکڑیاں لاد کر ان کے دروازے پرپہنچاتے تھے(٤) فقراء اور مساکین کے سلسلہ میں آپ کے رحم و کرم کایہ عالم تھا کہ آپ رات کی تاریکی میں خرمے توڑنے کو منع کر تے تھے کہ اس طرح فقراء آپ کی عطا سے محروم رہ جا ئیں گے،امام نے اپنے کارندوں سے فرمایا(جو رات کے آخری حصہ میں ان کے لئے خرمے توڑ کرلایاتھا ):''ایسا نہ کر ،کیا تم کو نہیں معلوم کہ رسول اللہ ۖ نے رات میں فصل کاٹنے اور بوجھ اٹھانے سے منع فرمایا ہے ؟اور آپ فرماتے :جس دن فصل کا ٹی جائے اسی دن سائلین کو عطا کیا جائے اس لئے کہ فصل کاٹنے کے دن یہ اُن کا حق ہوتا ہے'' ۔(٥)
..............
١۔حلیہ جلد ٣،صفحہ ١٣٧۔
٢۔صفوة الصفوہ، جلد ٢،صفحہ ٥٣۔٣۔
٣۔بحارالانوار ،جلد ٤٦،صفحہ ٦٢۔
٤۔بحارالانوار ،جلد ٤٦،صفحہ ٦٢۔اور اسی سے ملتی جلتی روایت دائرة المعارف ِبستا نی جلد ٩،صفحہ ٣٥٥ ۔
٥۔وسا ئل الشیعہ ،جلد ٦،صفحہ ١٣٨۔
٣۔ آپ کا سائل کو رد کر نے سے منع فرمانا
امام نے سائل کوبغیر کچھ دئے ہوئے رد کرنے سے منع فرمایا ہے ،چونکہ ایسا کر نے سے برائیاں زیادہ ہو تی ہیں اور ان سے نعمتیں ختم ہو جا تی ہیںاور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں،سعید بن مسیب سے مروی ہے : میں علی بن الحسین کی خدمت میں پہنچا یہاں تک کہ صبح کی نماز آپ ہی کے ساتھ ادا کی ، آپ کے دروازے پر سائل آیا تو امام نے فرمایا:''اعطوا السائلَ ولاترد السائلَ ''
''سائل کو عطا کرو،اوراس کو خالی ہاتھ واپس نہ پلٹائو''۔(١)
امام نے اس بات کی ضرورت پر متعدد احادیث میں زور دیا ہے ۔
بیشک ضرورت مند فقیر کو محروم کرنے اور ان کی حاجت روا ئی نہ کرنے سے نعمتیں زائل ہونے اور اللہ کے غضب نازل ہونے کا سبب ہوتی ہیں اس سلسلہ میں ائمہ ٔ ہدیٰ سے متواتر احا دیث بیان ہو ئی ہیں لہٰذا جو اللہ کی دی ہو ئی نعمتوں کی بقا چا ہتا ہے اس کے لئے قطعاً سائل کو رد کرنا یا فقیر کو مایوس کرنا سزوار نہیں ہے چونکہ اس کے پاس یہ اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے ۔
..............
١۔الکافی ،جلد ٤،صفحہ ١٥۔
|