خوشبوئے حیات
 

وعظ و ارشاد
امام حسین ہمیشہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے تھے جیسا کہ آپ سے پہلے آپ کے پدربزرگوار لوگوں کو وعظ و نصیحت فر ماتے تھے ،جس سے ان کا ہدف لوگوں کے دلوں میں اچھا ئی کی رشد و نمو کر نا ،ان کو حق اور خیر کی طرف متوجہ کرنا اور ان سے شر ،غرور اورغصہ وغیرہ کو دور کر نا تھا۔ ہم ذیل میں آپ کی چند نصیحت بیان کر رہے ہیں :
امام کا فر مان ہے :''اے ابن آدم !غوروفکر کر اور کہہ :دنیا کے بادشاہ اور ان کے ارباب کہاں ہیںجو دنیامیں آباد تھے انھوں نے زمین میں بیلچے مارے اس میں درخت لگائے ،شہروں کو آباد کیا اور سب کچھ
کر چلے گئے جبکہ وہ جانا نہیں چا ہتے تھے ،ان کی جگہ پر دوسرے افراد آگئے اور ہم بھی عنقریب اُن کے پاس جانے والے ہیں ۔
اے فرزند آدم! اپنی موت کو یاد کر اور اپنی قبر میں سونے کو یاد رکھ اور خدا کے سامنے کھڑے ہونے کو یاد کر ،جب تیرے اعضاء و جوارح تیرے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے اور اس دن قدم لڑکھڑا رہے ہوں گے ،دل حلق تک آگئے ہوں گے، کچھ لوگوں کے چہرے سفید ہوں گے اور کچھ رو سیا ہ ہوں گے، ہر طرح کے راز ظا ہر ہو جا ئیں گے اور عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ ہوگا ۔
اے فرزند آدم ! اپنے آباء و اجداد کو یاد کر اور اپنی اولاد کے بارے میں سوچ کہ وہ کس طرح کے تھے اور کہاں گئے اور گویا عنقریب تم بھی اُ ن ہی کے پاس پہنچ جا ئو گے اور عبرت لینے والوں کے لئے عبرت بن جا ئو گے ''۔
پھر آپ نے یہ اشعارپڑھے :

این الملوک التی عن حفظھا غفلت
حتیٰ سقاھا بکأس الموت ساقیھا؟

تلک المدائن فی الآفاق خالیة
عادت خراباًوذاقَ الْمَوْتِ بَانِیْھَا

اَموالنا لذو الورّاثِ نَجْمَعُھَا
ودُورُنا لخراب الدھر نَبْنِیْھَا''(١)

''وہ بادشاہ کہاں گئے جو ان محلوں کی حفاظت سے غافل ہو گئے یہاں تک کہ موت نے اُن کو اپنی آغوش میں لے لیا ؟
وہ دور دراز کے شہر ویران ہو گئے اور ان کو بسانے والے موت کا مزہ چکھ چکے ۔
ہم دولت کووارثوں کے لئے اکٹھا کرتے ہیںاور اپنے گھر تباہ ہونے کے لئے بناتے ہیں ''۔
یہ بہت سے وہ وعظ و نصیحت تھے جن سے آپ کا ہدف اور مقصد لوگوں کی اصلاح ان کو تہذیب و تمدن سے آراستہ کرنا اور خواہشات نفس اور شر سے دور رکھنا تھا ۔
..............
١۔الارشاد (دیلمی )،جلد ١،صفحہ ٢٨۔


اقوال زرّین
پروردگار عالم نے امام حسین کو حکمت اور فصل الخطاب عطا فرمایا تھا، آپ اپنی زبان مبارک سے مواعظ ،آداب اور تمام اسوئہ حسنہ بیان فرماتے تھے ،آپ کی حکمت کے بعض کلمات قصار یہ ہیں :
١۔امام حسین کا فرمان ہے :''تم عذر خو اہی کر نے سے پرہیز کرو ،بیشک مو من نہ برا کام انجام دیتا ہے اور نہ ہی عذر خوا ہی کرتا ہے ،اور منافق ہر روز برائی کرتا ہے اور عذر خوا ہی کرتا ہے۔۔۔''۔(١)
٢۔امام حسین فرماتے ہیں :''عاقل اس شخص سے گفتگو نہیں کرتا جس سے اسے اپنی تکذیب کا ڈرہو،اس چیز کے متعلق سوال نہیں کرتا جس کے اسے انکار کا ڈرہو ،اس شخص پر اعتماد نہیں کرتا جس کے دھوکہ دینے کا اسے خوف ہو اور اس چیز کی امید نہیں کرتا جس کی امید پر اسے اطمینان نہ ہو ۔۔۔''۔(٢)
٣۔امام حسین کافرمان ہے :''پانچ چیزیں ایسی ہیں اگر وہ کسی میں نہ ہوں تو اس میں بہت سے نیک صفات نہیں ہوں گے عقل ،دین ،ادب ،حیا اور حُسن خلق ''۔(٣)
٤۔امام حسین فرماتے ہیں :''بخیل وہ ہے جو سلام کرنے میں بخل سے کام لے ''۔(٤)
٥۔امام حسین فرماتے ہیں :''ذلت کی زند گی سے عزت کی موت بہتر ہے ''۔(٥)
٦۔امام نے اس شخص سے فرمایا جو آپ سے کسی دوسرے شخص کی غیبت کر رہاتھا :''اے شخص غیبت کرنے سے باز آجا، بیشک یہ کتّوں کی غذا ہے ۔۔۔''۔(٦)

حضرت امام حسین اورعمر
امام حسین ابھی جوان ہی تھے آپ جب بھی عمر کے پاس سے گذرتے تھے تو بہت ہی غمگین ورنجیدہ
..............
١۔تحف العقول، صفحہ ٢٤٦۔
٢۔ریحانة الرسول، صفحہ ٥٥۔
٣۔ریحانة الرسول ،صفحہ ٥٥۔
٤۔ریحانة الرسول ،صفحہ ٥٥۔
٥۔تحف العقول ،صفحہ ٢٤٦۔
٦۔تحف العقول، صفحہ ٢٤٥۔
رہتے تھے، چونکہ وہ آپ کے پدر بزرگوار کی جگہ پر بیٹھاہوا تھاایک بار عمر منبر پر بیٹھا ہوا خطبہ دے رہا تھا تو امامحسین نے منبر کے پاس جا کر اس سے کہا :''میرے باپ کے منبر سے اتر اور اپنے باپ کے منبر پر جا کر بیٹھ۔۔۔''۔
امام حسین کے اس صواب دید پر عمر ہکاّ بکّا رہ گیااور آپ کی تصدیق کرتے ہوئے کہنے لگا :
آپ نے سچ کہا میرے باپ کے پاس منبر ہی نہیں تھا۔۔۔
عمر نے آپ کو اپنے پہلو میں بٹھاتے ہوئے آپ سے سوال کیا کہ آپ کو یہ بات کہنے کے لئے کس نے بھیجا :آپ کو اس بات کی کس نے تعلیم دی ؟
''خدا کی قسم مجھے یہ بات کسی نے نہیں سکھا ئی ''۔
امام حسین بچپن میں ہی بہت زیادہ با شعور تھے، آپ نے اپنے جد کے منبر کے شایان شان اپنے پدربزرگوار کے علاوہ کسی کو نہیں پایا جو حکمت کے رائد اور نبی ۖ کے علم کے شہر کا دروازہ ہیں ۔

حضرت امام حسین معاویہ کے ساتھ
امت معاویہ کا شکار ہو کر رہ گئی ،اس کے ڈرائونے حکم کے سامنے تسلیم ہو گئی ،جس میںفکری اور معاشرتی حقد وکینہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور جو کچھ اسلام نے امت کی اونچے پیمانہ پر تربیت اور ایسے بہترین اخلاق سے آراستہ کیا تھا اس کو امت کے دلوں سے نکال کر دور پھینک دیا اور اس نے مندرجہ ذیل سیاسی قوانین معین کئے :
١۔اس نے اسلام کے متعلق سعی و کو شش کرنے والے ارکان حجر بن عدی ،میثم تمار ،رشید ہجری ، عمرو بن الحمق خزاعی اور ان کے مانند اسلا م کی بڑی بڑی شخصیتوں کو ہلاک کر نے کی ٹھان لی اور ان کو قربان گاہ میں لا کر قتل کر دیا،کیونکہ انھوں نے اس کے حکم کا ڈٹ کر مقابلہ کیااور وہ اس کی ظلم و استبداد سے بھری ہو ئی سیاست سے ہلاک ہوئے ۔
٢۔اس نے اہل بیت کی اہمیت کو کم کرنا چا ہا جو اسلام اور معاشرہ کے لئے مرکزی حیثیت رکھتے تھے اور جو امت کو ترقی کی راہ پر گا مزن کر نا چا ہتے تھے، اس امت کو ان سے حساس طور پر متعصب کردیا ،امت کے لئے مسلمانوں پر سب و شتم کرنا واجب قرار دیا ،ان کے بغض کو اسلامی حیات کا حصہ قرار دیا،اس نے اہل بیت کی شان و منزلت کو گھٹانے کیلئے تعلیم و تربیت اور وعظ و ارشاد کا نظام معین کیا اور ان (اہل بیت ) پر منبروں سے نماز جمعہ او ر عیدین وغیرہ میںسب و شتم کرنا واجب قرار دیا ۔
٣۔اسلام کے واقعی نو ر میں تغیر و تبدل کیا،تمام مفاہیم و تصورات کو بدل ڈالا ،اس نے رسول خدا ۖ سے منسوب کر کے احا دیث گڑھنے والے معین کئے ،حدیث گڑھنے والے عقل اور سنت کے خلاف احادیث گڑھ کر بہت خوش ہوتے تھے ، بڑے افسوس کا مقا م ہے کہ ان گڑھی ہو ئی احادیث کو صحاح وغیرہ میں لکھ دیا گیا ،جن کتابوں کو بعض مو ٔ لفین لکھنے کیلئے مجبور و ناچار ہو گئے اور ان میں ان گڑھی ہو ئی احادیث کو مدوّن کیاجو ان گڑھی ہو ئی باتوں پر دلالت کر تی ہیں ،ہمارے خیال میں یہ خوفناک نقشہ ایسی سب سے بڑی مصیبت ہے جس میں مسلمان گرفتار ہوئے اور مسلمان ان گڑھی ہوئی احادیث پر یہ عقیدہ رکھنے لگے کہ یہ ان کے دین کا جزء ہے اور وہ ان احا دیث سے بریٔ الذمہ ہیں ۔

امام حسین کا معاویہ کے ساتھ مذاکرہ
امام حسین نے معاویہ سے سخت لہجہ میں مذاکرہ کیاجس سے اس کی سیاہ سیاست کا پردہ فاش ہو اجو اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کے با لکل مخالف تھی اور جس میں اسلام کے بزرگان کے قتل کی خبریں مخفی تھیں،یہ معاویہ کی سیاست کا ایک اہم وثیقہ تھاجو معاویہ کے جرائم اور اس کی ہلاکت پر مشتمل تھا ،ہم نے اس کو تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب (حیاةالامام الحسین )میں بیان کیا ہے ۔

مکہ معظمہ میں سیاسی اجلاس
امام حسین نے مکہ میں ایک سیاسی اور عمو می اجلاس منعقد کیا جس میں حج کے زمانہ میں آئے ہوئے تمام مہا جرین و انصار وغیرہ اور کثیرتعدادنے شرکت کی ،امام حسین نے ان کے درمیان کھڑے ہوکر خطبہ دیا ، سرکش و باغی معاویہ کے زمانہ میں عترت رسول ۖ پر ڈھا ئے جانے والے مصائب و ظلم و ستم کے سلسلہ میں گفتگو فر ما ئی آپ کے خطبہ کے چند فقرے یہ ہیں :
''اس سرکش (معاویہ ) نے ہمارے اور ہمارے شیعوں کے ساتھ وہ کام انجام دئے جس کو تم نے دیکھا ،جس سے تم آگاہ ہو اور شاہد ہو ،اب میں تم سے ایک چیز کے متعلق سوال کر نا چا ہتا ہوں ، اگر میں نے سچ بات کہی تو میری تصدیق کرنا اور اگر جھوٹ کہا تو میری تکذیب کرنا ،میری بات سنو ، میرا قول لکھو ،پھر جب تم اپنے شہروں اور قبیلوں میں جائو تو لوگوں میں سے جو ایمان لائے اور اس پر اعتماد کرے تو تم اس کو ہمارے حق کے سلسلہ میں جو کچھ جانتے ہواس سے آگاہ کرو اور اس کی طرف دعوت دومیں اس بات سے خوف کھاتا ہوں کہ اس امر کی تم کو تعلیم دی جائے اور یہ امر مغلوب ہو کر رہ جا ئے اور خدا وند عالم اپنے نور کو کا مل کر نے والا ہے چا ہے یہ بات کفار کو کتنی ہی نا گوار کیوں نہ ہو ''۔
اجلاس کے آخر میں امام نے اہل بیت کے فضائل ذکر کئے جبکہ معاویہ نے اُن پر پردہ ڈالنا چاہا،اسلام میں منعقد ہونے والا یہ پہلا سیمینار تھا ۔

آپ کا یزید کی ولیعہدی کی مذمت کرنا
معاویہ نے یزید کو مسلمانوں کا خلیفہ معین کرنے کی بہت کو شش کی ،بادشاہت کو اپنی ذریت و نسل میں قرار دینے کے تمام امکانات فراہم کئے ،امام حسین نے اس کی سختی سے مخالفت کی اور اس کا انکار کیا چونکہ یزید میں مسلمانوں کا خلیفہ بننے کی ایک بھی صفت نہیں تھی اور امام حسین نے اس کے صفات یوں بیان فرمائے : وہ شرابی شکارچی،شیطان کا مطیع و فرماں بردار ،رحمن کی طاعت نہ کرنے والا ،فساد برپا کرنے والا،حدود الٰہی کو معطل کرنے والا ، مال غنیمت میں ذاتی طور پر تصرف کرنے والا حلال خدا کو حرام،اور حرام خدا کو حلال کرنے والا ہے(١) معاویہ نے امام حسین کو ہر طریقہ سے اس کے بیٹے یزید کی بیعت کرنے کیلئے قانع کر نا چاہا ،اس کے علاوہ اس کے پاس کو ئی اور چارہ نہیں تھا ۔

معاویہ کی ہلاکت
جب باغی معاویہ ہلاک ہو ا تو حاکم مدینہ ولید نے یزید کی بیعت لینے کیلئے امام حسین کو بلا بھیجا ، امام نے اس کا انکار کیا اور اس سے فر مایا:''ہم اہل بیت نبوت ،معدن رسالت اور مختلف الملائکہ ہیں،ہم ہی سے اللہ نے آغاز کیا اور ہم ہی پر اختتام ہوگا اور یزید فاسق ، شرابی ،نفس محترم کا قتل کرنے والا،متجاہر بالفسق (کھلم کھلا گناہ کرنے والا)ہے اور مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا ''۔(٢ )
..............
١۔تاریخ ابن اثیر،جلد ٢،صفحہ ٥٥٣۔
٢۔حیاةالامام حسین ، جلد ٢،صفحہ ٢٥٥۔(نقل شدہ کتاب الفتوع جلد٥،صفحہ ١٨)۔
جس طرح خاندان نبوت کے تمام افراد نے اس کی بیعت کرنے سے انکار کر دیا اسی طرح امام حسین نے بھی اپنے بزرگوں کی اتباع کرتے ہوئے یزید کی بیعت کرنے سے انکار فرمادیا ۔

حضرت امام حسین کا انقلاب
امام حسین نے مسلمانوں کی کرامت و شرف کو پلٹانے ،ان کو امویوں کے ظلم و ستم سے نجات دینے کیلئے یزید کے خلاف ایک بہت بڑا انقلاب برپا کیا ،آپ نے اپنے اغراض و مقاصد کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:'' انی لم اخرج۔۔۔'' ''میں سرکشی ،طغیان ،ظلم اور فساد کیلئے نہیں نکلا میں اپنے نانا کی امت میں اصلاح کیلئے نکلا ہوں ،میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرنا چا ہتا ہوں میں اپنے نانا اور بابا کی روش پر چلنا چا ہتا ہوں ''۔
امام حسین نے اپنا انقلاب اس لئے جاری رکھا تاکہ آپ ملکوں میں اصلاحی اقدامات کی بنیاد رکھیں ،لوگوں کے مابین معاشرہ میں حق کا بول بالا ہو ،اور وہ خوفناک منفی پہلو ختم ہو جا ئیں جن کو اموی حکام نے اسلامی حیات میں نافذ کر رکھا تھا ۔
جب امام حسین نے حجاز کو چھوڑ کر عراق جانے کا قصد کیا تو لوگوں کو جمع کرنے کا حکم دیا، بیت اللہ الحرام میں خلق کثیر جمع ہو گئی ،آپ نے ان کے درمیان ایک جاودانہ تاریخی خطبہ ارشاد فرمایاجس کے چند جملے یہ ہیں :''الحمد للّٰہ،وماشَائَ اللّٰہ۔۔۔'' ''تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں ،ہر چیز مشیت الٰہی کے مطابق ہے خدا کی مرضی کے بغیر کو ئی قوت نہیں ،خدا کا درود و سلام اپنے نبی پر ، لوگوں کے لئے موت اسی طرح مقدر ہے جس طرح جوان عورت کے گلے میں ہار ہمیشہ رہتا ہے ،مجھے اپنے آباء واجداد سے ملنے کا اسی طرح شوق ہے جس طرح یعقوب ،یوسف سے ملنے کیلئے بے چین تھے ، مجھے راہِ خدا میں جان دینے کا اختیار دیدیا گیا ہے اور میں ایسا ہی کروںگا ،میں دیکھ رہاہوں کہ میدان کربلا میں میرا بدن پاش پاس کردیا جا ئے گا ،اور میری لاش کی بے حرمتی کی جا ئے گی ،میں اس فیصلہ پر راضی ہوں ،خدا کی خوشنودی ہم اہل بیت کی خو شنودی ہے، ہم خدا کے امتحان پر صبر کریں گے خدا ہم کو صابرین کا اجر عطا فرمائے گا ،رسول خدا ۖ سے آپ کے بدن کا ٹکڑا جدا نہیں ہو سکتا ،بروز قیامت آپ کے بدن کے ٹکڑے اکٹھے کر دئے جا ئیں گے جن کی بنا پر آپ خوش ہوں گے اور اُ ن کے ذریعہ آپ کا وعدہ پورا ہوگا ،لہٰذا جو ہمارے ساتھ اپنی جان کی بازی لگانے کے لئے تیار ہو اور خدا سے ملاقات کیلئے آمادہ ہو وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار رہے کہ میں کل صبح روانہ ہوجائوں گا ''۔
ہم نے اس سے فصیح و بلیغ خطبہ نہیں دیکھا ،امام نے اپنے شہادت کے ارادہ کا اظہار فرمایا،اللہ کی راہ میںزند گی کو کوئی اہمیت نہیں دی،موت کا استقبال کیا ،مو ت کو انسان کی زینت کیلئے اس کے گلے کے ہار سے زینت کے مانند قراردیا جو ہار لڑکیوں کی گردن کی زینت ہوتا ہے ،زمین کے اس جگہ کا تعارف کرایا جہاں پرآپ کا پاک و پاکیزہ خون بہے گا ،یہ جگہ نواویس اور کربلا کے درمیان ہے اس مقا م پر تلواریں اور نیزے آپ کے جسم طاہر پر لگیں گے، ہم اس خطبہ کی تحلیل اور اس کے کچھ گوشوں کا تذکرہ کتاب '' حیاة الامام الحسین ''میں کرچکے ہیں۔
جب صبح نمودار ہو ئی تو امام حسین نے عراق کا رخ کیا ،آپ اپنی سواری کے ذریعہ کربلا پہنچے، آپ نے شہادت کے درجہ پر فائز ہونے کے لئے وہیں پر قیام کیا ،تاکہ آپ اپنے جد کے اس دین کو زندہ کرسکیں جس کو بنی امیہ کے سر پھرے بھیڑیوں نے مٹا نے کی ٹھان رکھی تھی۔

شہادت
فرزند رسول پر یکے بعد دیگرے مصیبتیں ٹوٹتی رہیں ،غم میں مبتلا کرنے والا ایک واقعہ تمام نہیں ہوتا تھا کہ اس سے سخت غم واندوہ میں مبتلا کرنے والے واقعات ٹوٹ پڑتے تھے ۔
امام حسین نے ان سخت لمحات میں بھی اس طرح مصائب کا سامنا کیا جیسا آپ سے پہلے کسی دینی رہنما نے نہیں کیا تھاچنانچہ اُن سخت لمحات میں سے کچھ سخت ترین لمحات یہ ہیں :
١۔آپ مخدرات رسالت اور نبی کی ناموس کو اتنا خو فزدہ دیکھ رہے تھے جس کو اللہ کے علاوہ اور کو ئی نہیں جانتا ،ہر لمحہ ان کو یہ خیال تھا کہ ان کی عترت کاایک ایک ستارہ اپنے پاک خون میں ڈوب جائے گا،جیسے ہی وہ آخری رخصت کو آئیں گے ان کا خوف و دہشت اور بڑھ جا ئیگا چونکہ بے رحم دشمن ان کو چاروں طرف سے گھیر ے ہوئے تھے ،انھیںیہ نہیں معلوم تھا کہ والی و وارث کی شہادت کے بعد ان پر کیا گذرے گی، ا مام ان پر آنے والی تمام مصیبتوں سے آگاہ تھے ،لہٰذاآپ کا دل رنج و حسرت سے محزون ہورہا تھا، آپ ہمیشہ ان کو صبر و استقامت و پا ئیداری اورآہ و بکا کے ذریعہ اپنی عزت و آبرو میں کمی نہ آنے دینے کا حکم فر ما رہے تھے اور ان کو یہ تعلیم دے رہے تھے کہ خداوند عالم تم کو دشمنوں کے شرسے بچائے گا اور تمہاری حفاظت کرے گا ۔
٢۔بچے مار ڈالنے والی پیاس کی وجہ سے جاں بلب تھے ،جن کا کو ئی فریادرس نہیں تھا ،آپ کا عظیم قلب اپنے اطفال اوراہل و عیال پر رحم و عطوفت کی خاطر پگھل رہا تھااور بچے اپنی طاقت سے زیادہ مصیبت کا سامنا کر رہے تھے ۔
٣۔مجرمین اشقیاء کاآپ کے اصحاب اور اہل بیت کو قتل کرنے کے بعد آپ کے بھتیجوں اور بھانجوں کے قتل کرنے کیلئے آگے بڑھ رہے تھے۔
٤۔آپ نے شدت کی پیاس برداشت کی ،مروی ہے کہ آپ کو آسمان پر دھوئیں کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا ،شدت پیاس سے آپ کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا ۔
شیخ شوستری کا کہنا ہے :امام حسین کے چار اعضاء سے پیاس کا اظہار ہو رہا تھا: پیاس کی شدت کی وجہ سے آپ کے ہونٹ خشک ہو گئے تھے، آپ کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تھا جیسا کہ خود آپ کا فرمان ہے جب آپ کھڑے ہوئے موت کے منتظر تھے اور آپ جانتے تھے کہ اس کے بعد مجھے زندہ نہیں رہنا ہے تو آپ نے یوںپیاس کااظہار فرمایا :''مجھے پانی کا ایک قطرہ دیدو ،پیاس کی وجہ سے میرا جگر چھلنی ہو گیا ہے ''، آپ کی زبان میں کا نٹے پڑگئے تھے جیسا کہ حدیث میں آیا ہے اور آپ کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا ۔(١)
٥۔جب آپ کے اہل بیت اور اصحاب شہید ہوگئے تو آپ نے اپنے خیموں کی طرف دیکھا تو ان کو خا لی پایااور زور زور سے رونے لگے ۔
فرزند رسول پر پڑنے والے ان تمام مصائب و آلام کو دیکھنے اور سننے کے بعدانسان کا نفس حسرت و یاس سے پگھل جاتا ہے ۔
صفی الدین کا کہنا ہے :امام حسین نے جو مصائب و آلام بر داشت کئے ان کوسننے کی دنیا کے کسی مسلمان میں طاقت نہیں ہے اور ایسا ممکن نہیں ہے کہ ان کو سن کراس کا دل پگھل نہ جائے ۔(٢)
..............
١۔الخصائص الحسینیہ، صفحہ ٦٠۔
٢۔حیاةالامام حسین ، جلد ٣، صفحہ ٣٧٤۔

امام کا استغاثہ
امتحان دینے والے امام حسین نے اپنے اہل بیت اور اصحاب پر رنج و غم اور حسرت بھری نگاہ ڈالی، تو آپ نے مشاہدہ کیا کہ جس طرح حلال گوشت جانور ذبح ہونے کے بعد اپنے ہاتھ پیر زمین مارتا ہے وہ سب آفتاب کی شدت تمازت سے کربلا کی گرم ریت پر بلک رہے ہیں،آپ نے اپنے اہل و عیال کو بلند آواز سے گریہ کرتے دیکھا تو آپ نے حرم رسول ۖ کا حامی و مدد گار مل جانے کے لئے یوں فریاد کرنا شروع کی :''ھل من ذاب یذب عن حرم رسولُ اللّٰہ ۖ؟ھل من موحدٍ یخاف اللّٰہ فینا؟ھل من مغیثٍ یرجوااللّٰہ فی اغاثتنا؟''۔(١)
اس استغاثہ و فریاد کا آپ پر ظلم و ستم کرنے اور گناہوں میں غرق ہونے والوں پر کو ئی اثر نہیں ہوا۔۔۔جب امام زین العابدین نے اپنے والد بزرگوار کی آواز استغاثہ سنی تو آپ اپنے بستر سے اٹھ کرشدت مرض کی وجہ سے عصا پر ٹیک لگاکر کھڑے ہوگئے ،امام حسین نے ان کو دیکھا اور اپنی بہن سیدہ ام کلثوم سے بلند آواز میں کہا :''ان کو روکو، کہیں زمین نسل آل محمد سے خالی نہ ہو جائے ''،اور جلدی سے آگے بڑھ کر امام کو ان کے بستر پر لٹادیا ۔(٢)

شیر خوار کی شہادت
ابو عبد اللہ کے صبر جیسا کو ن سا صبر ہو سکتا ہے ؟آپ نے یہ تمام مصائب کیسے برداشت کئے؟ آپ کے صبرسے کا ئنات عاجز ہے ،آپ کے صبر سے پہاڑکانپ گئے، آپ کے نزدیک سب سے زیادہ دردناک مصیبت آپ کے فرزند عبد اللہ شیر خوار کی مصیبت تھی جو بدر منیر کے مانند تھا،آپ نے اس کو آغوش میں لیا بہت زیادہ پیار کیا آخری مرتبہ الوداع کیا ،اس پر بیہوشی طاری تھی ،آنکھیں نیچے دھنس گئی تھیں، ہونٹ پیاس کی وجہ سے خشک ہو گئے تھے ،آپ نے اس کوہاتھوںپرلیا اور آفتاب کی تمازت سے بچانے کیلئے اس پرعبا کا دامن اڑھاکر قوم کے سامنے لے گئے، شاید وہ رحم کھا کر اس کوایک گھونٹ پانی پلا دیں،آپ نے
..............
١۔دررالافکار فی وصف الصفوة الاخیار، ابوالفتح ابن صدقہ، صفحہ ٣٨۔
٢۔مناقب ابن شہر آشوب ،جلد ٤، صفحہ ٢٢٢۔
ان سے بچہ کے لئے پا نی طلب کیا،ان مسخ شدہ لوگوں کے دل پر کو ئی اثر نہیں ہوا،باغی لعین حرملہ بن کاہل نے چلہ کمان میں تیر جوڑا،اس نے ہنستے ہوئے اپنے لعین دوستوں کے سامنے فخر کرتے ہوئے کہا :اس کو پکڑو ابھی پانی پلاتا ہوں ۔
(اے خدا !)اس نے بچہ کی گردن پر تیر مارا جیسے ہی بچہ کی گردن پر تیر لگا تو اس کے دونوں ہاتھ قماط (نو زائیدہ بچہ کے لپیٹنے کا کپڑا)سے باہر نکل گئے ، بچہ اپنے باپ کے سینہ پر ذبح کئے ہوئے پرندے کی طرح تڑپنے لگا ،اس نے آسمان کی طرف سر اٹھایااور باپ کے ہاتھوں پر دم توڑدیا۔۔۔یہ وہ منظر تھا جسے دیکھ کر دل پھٹ جاتے ہیں اور زبانوں پر تالے لگ جاتے ہیں،امام نے پاک خون سے بھرے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھاکر وہ خون آسمان کی جانب پھینک دیااور ایک قطرہ بھی واپس زمین پر نہ آیا، جیسا کہ امام محمد باقر کا فرمان ہے کہ امام نے اپنے پرور دگار سے یوں مناجات فرما ئی :
''ھوّن۔۔۔''''میری مصیبتیں اس بنا پر آسان ہیں کہ اُن کو خدا دیکھ رہا ہے ،خدایا تیرے نزدیک یہ مصیبتیں ناقۂ صالح کی قربانی سے کم نہیں ہونا چا ہئیں خدایا اگر تونے ہم سے کا میابی کو روک رکھا ہے تو اس مصیبت کو بہترین اجر کا سبب قرار دے ، ظالمین سے ہمارا انتقام لے ،دنیا میں نازل ہونے والی مصیبتوں کو آخرت کیلئے ذخیرہ قرار دے ،خدایا تو دیکھ رہا ہے کہ اِن لوگوں نے تیرے رسول ۖ کی شبیہ کو قتل کر ڈالا ہے ''۔
امام حسین اپنے مر کب سے نیچے تشریف لائے اور اپنے پاک خون میں لت پت شیرخوار بچہ کے لئے تلوار کی نیام سے قبر کھودکر اس میں دفن کردیا ایک قول یہ ہے کہ آ پ نے شیر خوار کو شہداء کے برابر میں لٹادیا(١) اے حسین !خدا نے آپ کو اِن مصیبتوں کو برداشت کرنے کا حوصلہ دیا ،ایسی مصیبت کے ذریعہ کسی نبی کا امتحان نہیں لیا گیا اور ایسی مصیبتیں روئے زمین پر کسی مصلح پرنہیں پڑیں ۔

امام کی ثابت قدمی
امام تن تنہا میدان میں دشمنوں کے سامنے کھڑے رہے اور بڑے بڑے مصائب کی وجہ سے
..............
١۔مقتل الحسینِ مقرم، صفحہ ٣٣٣۔
آپ کے ایمان و یقین میں اضافہ ہوتارہا آپ مسکر ارہے تھے اور آپ کو فردوس اعلیٰ کی منزلوں پر اعتماد تھا۔ نہ آ پ کی اولاد ،اہل بیت اور اصحاب کے شہید ہو جانے سے آپ کی استقامت و پائیداری میں کو ئی کمی آئی اور نہ ہی پیاس کی شدت اور خون بہہ جانے کا آپ پر کو ئی اثر ہوا آپ ان انبیاء اوراولی العزم رسولوں کی طرح ثابت قدم رہے جن کو اللہ نے اپنے بقیہ بندوں پر برتری دی ہے ، آپ کے فرزند ارجمند امام زین العابدین اپنے پدر بزرگوار کے صبر اوراستقامت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:'' جیسے جیسے مصائب میں شدت ہو تی جا رہی تھی آپ کے چہرے کا رنگ چمکتا جا رہا تھا ، آپ کے اعضاو جوارح مطمئن ہو تے جا رہے تھے ،بعض لوگ کہہ رہے تھے : دیکھو انھیں مو ت کی بالکل پروا نہیں ہے ''۔(١)
عبد اللہ بن عمار سے روایت ہے :جب دشمنوں نے جمع ہو کر آپ پر حملہ کیا تو آپ نے میمنہ پر حملہ کیایہاں تک کہ وہ آپ سے شکست کھا گئے خدا کی قسم میںنے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کی اولاد اور اصحاب قتل کر دئے گئے ہوں اور امام جیسی بلند ہمتی کامظاہرہ کرسکے، خدا کی قسم میں نے آپ سے پہلے اور آپ کے بعد آپ کے جیسا کو ئی شخص نہیں دیکھا۔(٢)
ابن خطاب فہری نے آپ کی جنگ کی یوں تصویر کشی کی ہے :
''مھلا بن عمِّنا ظُلمَاتنا
اِنَّ بِنَا سُوْرَةً مِنَ القَلَق

لِمثلکم تُحملُ السیوفُ وَلا
تُغمزُأَحْسَابُنَامِنَ الرَّفَقِ

اِنِّْ لَاَنْسیٰ اِذَاانْتَمَیْتُ اِلیٰ
عِزٍّ عَزِیْزٍ وَمَعْشَرٍصَدِق

بَیْضٍ سِبَاطٍ کَاَنَّ اَعْیُنَھُمْ
تَکَحَّلُ یَوْ مَ الھِیَاجِ بِالْعَلَقِ''(٣)
..............
١۔الخصائص الحسینیہ مؤلف تستری ،صفحہ ٣٩۔
٢۔تاریخ ابن کثیر،جلد ٨،صفحہ ١٨٨۔
٣۔ریحانة الرسول، صفحہ ٦٤میں آیا ہے کہ بڑے تعجب کی بات ہے کہ جس نے بھی ان اشعار کو مثال کے طور پر پیش کیا وہ قتل کردیا گیاحضرت امام حسین علیہ السلام نے ان اشعار کو یو م الطف ،زید بن علی نے یوم السبخہ اور یحییٰ بن زید نے یوم جوزجان میں ،اور جب ابراہیم بن عبد اللہ بن الحسن نے منصور کے خلاف خروج کرتے وقت ان اشعار کو مثال کے طور پر پیش کیا تو ان کے ساتھیوں نے ان سے بغاوت کی اور کچھ مدت نہیں گذری تھی کہ ان کو تیر مارکر موت کے گھاٹ اتاردیا۔
''اے ہمارے چچا کی اولاد ،ہم پر ظلم کرنے سے باز آجائو کیونکہ ہم اضطراب میں مبتلا ہیں ۔
تمہارے جیسے افراد کی وجہ سے تلواریں ساتھ رکھی جا تی ہیںورنہ عطوفت و مہربانی اوررحم وکرم ہمارے ضمیر میں بساہے ۔
جب مجھے کسی صاحب عزت اور سچی جماعت کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے تو میں فراموش کر دیتا ہوں ۔
اس جماعت کی آنکھوں میں اس دن جمے ہوئے خون کا سرمہ نظر آتا ہے ''۔
آپ نے اللہ کے دشمنوں پر حملہ کیا، ان کے ساتھ شدید جنگ کی اور بہت زیادہ لوگوں کو فی النار کیااور جب آپ نے میسرہ پر حملہ کیا تو یوں رجز پڑھا:
''اَنا الحسین ُ ابن ُ عل
آلیتُ اَنْ لَا اَنْثَنِ

اَحْمِیْ عِیَالَاتِ اَبِْ
اَمْضِْ عَلیٰ دِیْنِ النَّبِ'' (١)

''میں حسین بن علی ہوںمیں نے ذلت کے سامنے نہ جھکنے کی قسم کھا ئی ہے ۔
میں اپنے پدر بزرگوار کی ناموس کی حفاظت کروں گامیں نبی کے دین پر قائم رہوں گا '' ۔
آپ ( حسین ) نے دنیا کے منھ کو شرافت و بزرگی سے پُر کردیا ،آپ دنیا میں یکتا ہیں جن کے عزم و حو صلہ کی تعریف نہیں کی جا سکتی ،آپ نے گریہ وزاری نہیں کی اور نہ ہی کسی کام میں سستی کی ،آپ نے دشمنوں کا مقابلہ کرکے ظالموں اور منافقوں کے قلعوں کو ہلاکر رکھ دیا ۔
آپ اپنے جد رسول اکرم ۖ کے راستہ پر گامزن رہے ، اس دین کے تجدّد کا باعث ہوئے ، اگر آپ نہ ہوتے تو وہ مبہم رہ جاتا اور اس کو حقیقی زندگی نہ ملتی۔۔۔
ابن حجر سے مروی ہے کہ امام حسین جنگ کرتے جا رہے تھے اور آپ کی زبان مبارک پر یہ اشعار جاری تھے :
''أنابن علِّ الحُرِّمِنْ آلِ
کَفَانِْ ھٰذَا مَفْخَراً حِیْنَ أَفْخَرُ
..............
١۔مناقب ابن شہر آشوب، جلد ٤،صفحہ ٢٢٣۔
وَجَدِّْ رَسُولُ اللّٰہِ أَکْرَمُ مِنْ
وَنَحْنُ سِرَاجُ اللّٰہِ فِ النَّاسِ

وَفَاطِمَةُ أُمِّْ سُلَالَةُ
وَعَم یُدْعیٰ ذُوْ الجَنَاحَیْنِ

وَفِیْنَا کِتَابُ اللّٰہِ اُنْزِلَ
وَفِیْنَا الھُدیٰ وَالْوَحُْ وَالْخَیْرُ یُذْکَرُ' ' (١)

''میں فرزند علی ہوں ،آزاد ہوں ،بنی ہاشم میں سے ہوں ،میرے لئے فخر کرنے کے لئے یہی کافی ہے ۔
میرے نانا رسول خدا ،افضل مخلوقات ہیں ہم لوگوں میں نورا نی رہنے والے خدا کے چراغ ہیں ۔
میری ماں فاطمہ بنت رسول ہیں اورمیرے چچا جعفر طیارہیںجن کو ذو الجناحین کہاجاتاہے۔
ہماری ہی شان میں قرآن نازل ہوا،ہم ہی ہدایت کا ذریعہ ہیں وحی اور خیر(بھلا ئی) ہمارے ہی پاس ہے '' ۔

آپ کی اہل بیت سے آخری رخصت
امام حسین اپنے اہل بیت سے آخری رخصت کے لئے آئے حالانکہ آپ کے زخموں سے خون جاری تھا ،آپ نے حرم رسالت اور عقائل الوحی کو مصیبتوں کی چادر زیب تن کرنے اور ان کو تیاررہنے کی وصیت فرما ئی ،اور ان کو ہمیشہ اللہ کے فیصلہ پر صبر و تسلیم کا یوںحکم دیا:''مصیبتوں کے لئے تیار ہوجائو ،اور جان لو کہ اللہ تمہارا حامی،و مددگاراورمحافظ ہے اور وہ عنقریب تمہیں دشمنوں کے شر سے نجات دے گا ،تمہارے امر کا نتیجہ خیر قراردے گا ،تمہارے دشمنوں کو طرح طرح کے عذاب دے گا ، ان مصیبتوں کے بدلے تمہیں مختلف نعمتیں اور کرامتیں عطا کرے گا ،تم شکایت نہ کرنا اور اپنی زبان سے ایسی بات نہ کہنا جس سے تمہاری قدر و عزت میں کمی آئے ''۔(٢)
حکومتیں ختم ہو گئیں ،بادشاہ چلے گئے ،موجودہ چیزیں فنا ہو گئیں لیکن اس کا ئنات میں یہ لامحدود ایمان ہمیشہ باقی رہنے کے لائق و سزاوار ہے، کون انسان اس طرح کی مصیبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور اللہ کی رضا اور تسلیم امر کیلئے بڑی گرمجوشی کے ساتھ ان کا استقبال کرتا ہے ؟ بیشک رسول اعظم ۖ
..............
١۔صواعق محرقہ، صفحہ ١١٧۔١١٨۔جوہرة الکلام فی مدح السادة الاعلام، صفحہ ١١٩۔
٢۔مقتل الحسین المقرم ،صفحہ ٣٣٧۔
کی نظرمیںحسین کے علاوہ ایسا کارنامہ انجام دینے والی کو ئی ذات و شخصیت نہیں ہے ۔
جب آپ کی بیٹیوں نے آپ کی یہ حالت دیکھی تو ان پر حزن و غم طاری ہو گیا، انھوں نے اسی حالت میں امام کو رخصت کیا ،ان کے دلوں پر خوف طاری ہو گیا ،رعب کی وجہ سے ان کا رنگ متغیر ہوگیا،جب آپ نے ان پر نظر ڈالی تو آپ کا دل غم میں ڈوب گیاان کے بند بند کا نپ گئے ۔
علامہ کاشف الغطا کہتے ہیں : وہ کون شخص ہے جوامام حسین کے مصائب کی تصویر کشی کرے جو مصیبتوں کی امواج تلاطم میں گھرا ہو ،ہر طرف سے اس پر مصیبتوں کی یلغار ہو رہی ہو ،اسی صورت میں آپ اہل و عیال اور باقی بچوں کو رخصت فر مارہے تھے ،آپ ان خیموں کے نزدیک ہوئے جن میں ناموس نبوت اور علی و زہرا کی بیٹیاں تھیں تو خوفزدہ مخدرات عصمت و طہارت نے قطا نامی پرندہ کی طرح اپنے حلقے میں لے لیا حالانکہ آپ کے جسم سے خون بہہ رہا تھا تو کیا کو ئی انسان اس خوفناک مو قع میں امام حسین اور ان کی مخدرات عصمت و طہارت کے حال کو بیان کرنے کی تاب لا سکتا ہے اورکیا اس کا دل پھٹ نہیں جائے گا،اس کے ہوش نہیں اڑجا ئیں گے اور اس کی آنکھوں سے آنسو جا ری نہ ہوجا ئیں گے''۔(١)
امام حسین پر اپنے اہل و عیال کوان مصائب میں رخصت کر نا بہت مشکل تھا حالانکہ رسول اللہ ۖ کی بیٹیاں اپنے منھ پیٹ رہی تھیں ،بلند آواز سے گریہ و زاری کر رہی تھیں،گویا وہ اپنے جد رسول ۖ پر گریہ کر رہی تھیں ،انھوں نے بڑی مشکلوں کے ساتھ آپ کو رخصت کیا ،اس عجیب منظر کا امام حسین پرکیا اثر ہوا اس کو اللہ کے علاوہ اور کو ئی نہیں جانتا ہے ۔
عمر بن سعد خبیث النفس نے ہتھیاروں سے لیس اپنی فوج کو یہ کہتے ہوئے امام پر حملہ کرنے کے لئے بلایا:ان پر اپنے حرم سے رخصت ہونے کے عالم میں ہی حملہ کردو ،خدا کی قسم اگر یہ اپنے اہل حرم کو رخصت کر کے آگئے تو تمہارے میمنہ کومیسرے پر پلٹ دیں گے ۔
ان خبیثوں نے آپ پر اسی وقت تیروں کی بارش کر نا شروع کردی تیر وںسے خیموں کی رسیاںکٹ گئیں ،بعض تیر بعض عورتوں کے جسم میں پیوست ہو گئے وہ خوف کی حالت میں خیمہ میں چلی
..............
١۔ جنة الماویٰ، صفحہ ١١٥۔
گئیں،امام حسین نے خیمہ سے غضبناک شیر کے مانند نکل کر ان مسخ شدہ لوگوں پرحملہ کیا،آپ کی تلوار ان خبیثوں کے سرکاٹنے لگی آپ کے جسم اطہر پر دا ئیں اور بائیں جانب سے تیر چلے جو آپ کے سینہ پر لگے اور ان تیروں میں سے کچھ تیر وںکی داستان یوں ہے :
١۔ایک تیر آپ کے دہن مبارک پر لگا تواس سے خون بہنے لگا آپ نے زخم کے نیچے اپنا دست مبارک کیا جب وہ خون سے بھر گیا تو آپ نے آسمان کی طرف بلند کیا اور پروردگار عالم سے یوں گویا ہوئے : ''اللّھم اِنّ ھذا فیک قلیل ''۔(١)
''خدایا یہ تیری بارگاہ کے مقابلہ میں نا چیز ہے ''۔
٢۔ابو الحتوف جعفی کاایک تیر، نور نبوت اور امامت سے تابناک پیشا نی پر لگا آپ نے اس کو نکال کر پھینکاتو خون ابلنے لگا تو آپ نے خون بہانے والے مجرمین کے لئے اپنی زبان مبارک سے یہ کلمات ادا کئے :''پروردگارا ! تو دیکھ رہاہے کہ میں تیرے نا فرمان بندوں سے کیا کیا تکلیفیں سہ رہاہوں ،پروردگارا تو ان کو یکجا کرکے ان کوبے دردی کے ساتھ قتل کر دے، روئے زمین پر ان میں سے کسی کو نہ چھوڑاور ان کی مغفرت نہ کر ''۔
لشکر سے چلا کر کہا :''اے بری امت والو!تم نے رسول کے بعد ان کی عترت کے ساتھ بہت برا سلوک کیا،یاد رکھوتم میرے بعدکسی کو قتل نہ کر سکو گے جس کی بنا پر اس کو قتل کرنے سے ڈروبلکہ میرے قتل کے بعددوسروں کو قتل کرنا آسان ہو جا ئے گا خدا کی قسم میں امید رکھتا ہوں کہ خدا شہادت کے ذریعہ مجھے عزت دے اور تم سے میرا اس طرح بدلہ لے کہ تمھیںاحساس تک نہ ہو ۔۔۔''(٢)۔
کیا رسول اللہ جنھوں نے ان کو مایوس زندگی اور شقاوت سے نجات دلا ئی ان کا بدلہ یہ تھا کہ حملہ کرکے ان کا خون بہا دیاجائے اور ان کے ساتھ ایسا سلوک کیاجس سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیںخدا نے امام کی دعا قبول کی اوراس نے امام حسین کے مجرم دشمنوں سے انتقام کے سلسلہ میں دعا قبول فرمائی اور کچھ مدت نہیں گذری تھی کہ دشمنوں میں پھوٹ پڑگئی اور جناب مختار نے امام کے خون کا بدلہ لیا،ان پر حملہ کرنااور ان
..............
١۔الدر التنظیم، صفحہ ١٦٨۔
٢۔مقتل حسین ''مقرم ،صفحہ ٣٣٩۔
کو پکڑنا شروع کیاوہ مقام بیدا پر چلے گئے تو جناب مختار نے ان پر حملہ کیا یہاں تک کہ ان میں سے اکثر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
زہری کا کہنا ہے: امام حسین کے ہر قاتل کو اس کے کئے کی سزا دی گئی ،یا تو وہ قتل کردیا گیا ، یا وہ اندھا ہوگیا،یا اس کا چہرہ سیاہ ہوگیا ،یا کچھ مدت کے بعد وہ دنیا سے چل بسا ۔(١)
٣۔امام کے لئے اس تیرکو بہت ہی بڑا تیر شمار کیا جاتا ہے ۔مو رخین کا بیان ہے :امام خون بہنے کی وجہ سے کچھ دیر سے آرام کی خاطر کھڑے ہوئے تو ایک بڑا پتھر آپ کی پیشا نی پر آکر لگا آپ کے چہرے سے خون بہنے لگا ،آپ کپڑے سے اپنی آنکھو ں سے خون صاف کرنے لگے تو ایک تین بھال کا تیر آپ کے اس دل پر آکر لگاجو پوری دنیائے انسانیت کے لئے مہر و عطوفت سے لبریز تھا آپ کواسی وقت اپنی موت کے قریب ہونے کا یقین ہو گیا آپ نے اپنی آنکھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر یوں فرمایا:''بسم اللّٰہ وباللّٰہ، وعلیٰ ملّة رسول اللّٰہِ ۖ،الٰہ اِنّکَ تعلمُ أَنّھُم یقتلُوْنَ رجُلاً لیسَ علیٰ وجہ الارض ابنُ بِنتِ نبیٍ غَیْرِہِ ''۔
تیر آپ کی پشت سے نکل گیا ،تو پرنالے کی طرح خون بہنے لگا آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں میں خون لینا شروع کیا جب دونوں ہاتھ خون میں بھر گئے تو آپ نے وہ خون آسمان کی طرف پھینکتے ہوئے فرمایا: ''ھوَّنَ مَانَزَلَ بِیْ اَنَّہُ بِعَیْنِ اللّٰہِ ''۔''معبود میرے اوپر پڑنے والی مصیبتوں کو آسان کردے بیشک یہ خدا کی مدد سے ہی آسان ہو سکتی ہیں''۔
امام نے اپنا خون اپنی ریش مبارک اور چہرے پر ملا حالانکہ آپ کی ہیبت انبیاء کی ہیبت کی حکایت کر رہی تھی اور آپ فر مارہے تھے :ھکذاأکون حتی القی اللّٰہ وجد رسول اللّٰہ وأَنا مخضبُ بدم ۔۔۔''۔(٢)''میں اسی طرح اپنے خون سے رنگی ہوئی ریش مبارک کے ساتھ اللہ اور اپنے جد رسول اللہ ۖ سے ملاقات کروں گا''
٤۔حصین بن نمیر نے ایک تیر مارا جو آپ کے منھ پر لگا،آپ نے زخم کے نیچے اپنا دست مبارک کیا جب وہ خون سے بھر گیا تو آپ نے آسمان کی طرف بلند کیا اور مجرموں کے متعلق پروردگار عالم سے یوں
..............
١۔عیون الاخبار، مؤ لف ابن قتیبہ ،جلد ١،صفحہ ١٠٣۔١٠٤۔٢۔ مقتل خوارزمی، جلد ٢ ،صفحہ ٣٤۔
عرض کیا:''اللّھم احصھم عدداًواقتُلھم بدداً،ولا تذرعلی الارض منھم احداً''۔(١)۔
آپ پرتیروں کی اتنی بارش ہوئی کہ آپ کا بدن ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا ،جسم سے خون بہا اورآپ پر پیاس کا غلبہ ہوا تو آپ زمین پر بیٹھ گئے حالانکہ آپ کی گردن میں سخت درد ہورہاتھا ، (آپ اسی حالت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ )خبیث مالک بن نسیر نے آپ پر حملہ کر دیا اس نے آپ پر سب و شتم کیا، تلوار بلند کی آپ کے سر پر خون سے بھری ایک بلند ٹوپی تھی امام نے اس کو ظالم کی طرف پھینکتے ہوئے اس کے لئے یہ کلمات ادا کئے :''لااَکلتَ بیمینک ولاشربتَ،وحشرک اللّٰہ مع الظالمین ''۔
آپ نے لمبی ٹوپی پھینک کر ٹوپی پر عمامہ باندھاتو ظالم نے دوڑ کر لمبی ٹوپی اٹھائی تو اس کے ہاتھ شل ہو گئے ۔(٢)

امام کی اللہ سے مناجات
ان آخری لمحوں میں امام نے خدا وند عالم سے لو لگا ئی ،اس سے مناجات کی ، خدا کی طرف متوجہ قلب سے تضرع کیا اور تمام مصائب و آلام کی پروردگار عالم سے یوں شکایت فر ما ئی :
''صبراًعلیٰ قضائکَ لاالٰہ سواکَ،یاغیاث المستغیثین،مال ربُّ سواکَ ولامعبودُغیرُکَ ،صبراًعلیٰ حُکمِکَ،یاغیاثَ مَنْ لاغیاثَ لَہُ، یادائما لانفادلہ، یامحیَ الموتیٰ،یاقائماعلیٰ کلِّ نفسٍ،احکُم بین وبینھم ْ وانتَ خیر ُالحاکمِیْنَ ''۔(٣)
''پروردگارا !میںتیرے فیصلہ پر صبر کرتا ہوں تیرے سوا کو ئی خدا نہیں ہے ،اے فریادیوں کے فریاد رس،تیرے علاوہ میرا کو ئی پر وردگار نہیں اور تیرے سوا میرا کو ئی معبود نہیں ،میں تیرے حکم پر صبر کرتا ہوں، اے فریادرس! تیرے علاوہ کو ئی فریاد رس نہیں ہے ،اے ہمیشہ رہنے والے تجھے فنا نہیں ہے، اے مردوں کو زندہ کرنے والے ،اے ہر نفس کو باقی رکھنے والے ،میرے اور ان کے درمیان فیصلہ کراور تو سب سے اچھا فیصلہ کر نے والا ہے ''۔
..............
١۔ انساب الاشراف، جلد ١، صفحہ ٢٤٠۔
٢۔انساب الاشراف ،جلد ٣،صفحہ ٢٠٣۔
٣۔ مقتل الحسین المقرم ،صفحہ ٣٤٥۔
یہ دعا اس ایمان کا نتیجہ ہے جو امام کے تمام ذاتیات کے ساتھ گھل مل گا تھا یہ ایمان آپ کی ذات کا اہم عنصرتھا ۔۔۔آپ اللہ سے لو لگائے ر ہے ،اس کی قضا و قدر (فیصلے )پر راضی رہے ،تمام مشکلات کو خدا کی خاطر برداشت کیا،اس گہرے ایمان کی بناپرآپ تمام مشکلات کو بھول گئے ۔
ڈاکٹر شیخ احمد وا ئلی اس سلسلہ میں یوں کہتے ہیں :
یا ابا الطف وازدھیٰ بالضحایا
مِن ادیم الطفوف روض

نُخبَة مِن صحابةٍ
ورضیعُ مُطوَّ قُ وَ شَبُوْلُ

وَالشَّبَابُ الفَیْنَانُ جَفَّ فَغَاضَتْ
نَبْعَةُ حُلْوَةُ وَوَجْہُ جَمِیْلُ

وتَاَمَّلْتُ فِْ وُجُوْ ہِ
وَزَوَاکِْ الدِّمَائِ مِنْھَا تَسِیْلُ

وَمَشَتْ فِْ شِفَاھِکَ الْغُرِّنَجْویٰ
نَمَّ عَنْھَاالتَّسْبِیْحُ والتَّھْلِیْلُ

لَکَ عُتْبِیْ یَا رَبِّ اِنْ کَانَ َ
فَھٰذَا اِلیٰ رِضَاکَ قَلِیْلُ(١)

''اے کربلا کے سورما اے وہ ذات جس کی قربانیوں کی بنا پر سر زمین کربلا سر سبز و شاداب ہو گئی ۔
آپ کے ساتھی برگزیدہ تھے ،ان میں شیر خوار تک تھا آپ کے ساتھی قابل رشک جوان تھے۔
میں نے آپ کی قربانی پر غور کیاحالانکہ اس سے خون بہہ رہا تھا۔
آپ زیر لب بھی تسبیح و تہلیل میں مشغول رہے۔
اے پروردگاریہ میری ناچیز کو شش ہے گر قبول افتد زہے عزّ و شرف'' ۔

امام پر حملہ
مجرموں کے اس پلید و نجس وخبیث گروہ نے فرزند رسول ۖ پرحملہ شروع کردیاانھوں نے امام پر ہر طرف سے تیروں اور تلواروں سے حملہ کیازرعہ بن شریک تمیمی نے پہلے آپ کے با ئیں ہاتھ پر تلوار لگا ئی اس کے بعد آپ کے کاندھے پر ضرب لگا ئی ،اور سب سے کینہ رکھنے والا دشمن سنان بن انس خبیث تھا، اس
..............
١۔دیوانِ وائلی ،صفحہ ٤٢۔
نے ایک مرتبہ امام پر تلوار چلا ئی اور اس کے بعد اس نے نیزہ سے وار کیا اور اس بات پر بڑا فخر کر رہاتھا، اس نے حجّاج کے سامنے اس بات کو بڑے فخر سے یوںبیان کیا :میں نے ان کو ایک تیر مارا اور دو سری مرتبہ تلوار سے وار کیا ،حجّاج نے اس کی قساوت قلبی دیکھ کر چیخ کر کہا :أَما انکما لن تجتمعاف دار ۔(١)
اللہ کے دشمنوں نے ہر طرف سے آپ کو گھیر لیا اور ان کی تلواروں نے آپ کاپا ک خون بہادیا،بعض مو رخین کا کہنا ہے :اسلام میں امام حسین جیسی مثال کو ئی نہیں ہے ،امام حسین کے جسم پر تلواروں اور نیزوں کے ایک سو بیس زخم تھے ۔(٢)
امام حسین کچھ دیر زمین پر ٹھہرے رہے آپ کے دشمن بکواس کرتے رہے اور آپ کے پاس آنے کے متعلق تیاری کرتے رہے ۔اس سلسلہ میں سید حیدر کہتے ہیں:
فمااجلتِ الحربُ عنْ مِثْلِہِ
صریعایُجَبِّنُ شُجْعانُھَا

''حالانکہ آپ زمین پر بے ہوش پڑے تھے پھر بھی کو ئی آپ کے نزدیک آنے کی ہمت نہیں کررہا تھا ''۔
سب کے دلوں آپ کی ہیبت طاری تھی یہاں تک کہ بعض دشمن آپ کے سلسلہ میں یوں کہنے لگے : ہم ان کے نورا نی چہرے اور نورا نی پیشانی کی وجہ سے ان کے قتل کی فکر سے غافل ہوگئے ۔
جو شخص بھی امام کے پاس ان کو قتل کرنے کے لئے جاتا وہ منصرف ہو جاتا ۔(٣)
چادر میںلپٹی ہوئی رسول اللہ ۖ کی نواسی زینب خیمہ سے باہر آئیں وہ اپنے حقیقی بھائی اور بقیہ اہل بیت کو پکار رہی تھیںاور کہہ رہی تھیں :کاش آسمان زمین پر گر پڑتا ۔
ابن سعد سے مخاطب ہو کر کہا :(اے عمر !کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ ابو عبد اللہ قتل کردئے جائیں اور تو کھڑا ہوا دیکھتا رہے ؟)اس خبیث نے اپنا چہرہ جھکا لیا ،حالانکہ اس کی خبیث ڈاڑھی پر آنسو بہہ رہے تھے، (٤) عقیلہ بنی ہاشم جناب زینب سلام اللہ علیہا اس انداز میں واپس آرہی تھیںکہ آپ کی نظریں
..............
١۔مجمع الزوائد،جلد ٩،صفحہ ١٩٤۔
٢۔الحدائق الوردیہ ،جلد ١،صفحہ ١٢٦۔
٣۔انساب الاشراف ،جلد ٣،صفحہ ٢٠٣۔
٤۔جواہر المطالب فی مناقب امام علی بن ابی طالب، صفحہ ١٣٩۔
بھا ئی پر تھیںلیکن اس عالم میں بھی صبر و رضا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا،آپ واپس خیمہ میں عورتوں اور بچوںکی نگہبانی کے لئے اُن کے پاس پلٹ آئیں ۔
امام بہت دیر تک اسی عالم میں رہے حالانکہ آپ کے زخموں سے خون جا ری تھا ، آپ قتل کر نے والے مجرموں سے یوں مخاطب ہوئے :''کیا تم میرے قتل پر جمع ہو گئے ہو ؟،آگاہ ہوجائو خدا کی قسم! تم میرے قتل کے بعد اللہ کے کسی بندے کو قتل نہ کرپائوگے ،خدا کی قسم !مجھے امید ہے کہ خدا تمہاری رسوا ئی کے عوض مجھے عزت دے گا اور پھر تم سے اس طرح میرا انتقام لے گاکہ تم سوچ بھی نہیں سکتے ۔۔۔''۔
شقی اظلم سنان بن انس تلوار چلانے میں مشہور تھا اس نے کسی کو امام کے قریب نہیں ہو نے دیا چونکہ اس کو یہ خوف تھا کہ کہیں کو ئی اور امام کاسر قلم نہ کر دے اور وہ ابن مرجانہ کے انعام و اکرام سے محروم رہ جائے ۔
اس نے امام کا سر تن سے جدا کیا حالانکہ امام کے لب ہائے مبارک پر سکون و اطمینان ،فتح و نصرت اور رضائے الٰہی کی مسکراہٹ تھی جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گی ۔
امام نے قرآن کریم کو بیش قیمت روح عطا کی ،اور ہر وہ شرف و عزت عطا کی جس سے انسانیت کا سر بلند ہوتا ہے ۔۔اور سب سے عظیم اور بیش قیمت جو امام خرچ کی وہ اپنی اولاد ،اہل بیت اور اصحاب مصیبتیں دیکھنے کے بعد مظلوم ،مغموم اور غریب کی حالت میں قتل ہو جانا ہے اور اپنے اہل و عیال کے سامنے پیاسا ذبح ہو جانا ہے ،اس سے بیش قیمت اور کیا چیز ہو سکتی ہے جس کو امام نے مخلصانہ طور پر خدا کی راہ میں پیش کر دی ؟
امام نے خدا کی راہ میں قربانی دے کر تجارت کی ،یہ تجارت بہت ہی نفع آور ہے جیساکہ خداوند عالم فرماتا ہے :( ِنَّ اﷲَ اشْتَرَی مِنْ الْمُؤْمِنِینَ َنفُسَہُمْ وََمْوَالَہُمْ بَِنَّ لَہُمْ الْجَنَّةَ یُقَاتِلُونَ فِی سَبِیلِ اﷲِ فَیَقْتُلُونَ وَیُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا فِی التَّوْرَاةِ وَالِْنجِیلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ َوْفَی بِعَہْدِہِ مِنْ اﷲِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَیْعِکُمْ الَّذِی بَایَعْتُمْ بِہِ وَذَلِکَ ہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ)۔ (١)
''بیشک اللہ نے صاحب ایمان سے اُن کی جان و مال کو جنت کے عوض خرید لیا ہے کہ یہ لوگ راہ خدا میں جہاد کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور پھر خود بھی قتل ہو جاتے ہیں یہ وعدئہ برحق توریت ، انجیل اور قرآن ہر جگہ ذکر ہوا ہے اور خدا سے زیادہ اپنے عہد کا کون پورا کرنے والا ہوگا، تو اب تم لوگ اپنی اس تجارت پر خو شیاں منائو جو تم نے خدا سے کی ہے کہ یہی سب سے بڑی کا میابی ہے ''۔
بیشک امام حسین نے اپنی تجارت سے بہت فائدہ اٹھایا اور فخر کے ساتھ آپ کے ساتھ کامیاب ہوئے جس میں آپ کے علاوہ اور کو ئی کامیاب نہیں ہوا ،شہداء ِ حق کے خاندان میں کسی کو بھی کو ئی شرف و عزت و بزرگی اور دوام نہیں ملا جو آپ کو ملا ہے ،اس دنیا میں بلندی کے ساتھ آپ کا تذکرہ (آج بھی ) ہورہا ہے اور آپ کا حرم مطہرزمین پر بہت ہی با عزت اورشان و شوکت کے ساتھ موجود ہے ۔
اس امام عظیم کے ذریعہ اسلام کا وہ پرچم بلندی کے ساتھ لہر ارہا ہے جو آپ کے اہل بیت اور اصحاب میں سے شہید ہونے والوں کے خون سے رنگین ہے، یہی پرچم کا ئنات میں،دنیا کے گوشہ گوشہ میں آپ کے انقلاب اور کرامت و بزرگی کو روشن و منور کر رہا ہے ۔

..............
١۔سورئہ توبہ ،آیت ١١١۔