امام کی خلافت
امام نے بڑے ہی قلق و اضطراب کے ساتھ عثمان کے قتل کاسامنا ، آپ ان تمام باتوں سے باخبر تھے کہ امویوںاور طا معین جس حکومت کا قلادہ ان کی گردن میں ڈال رہے ہیں وہ عنقریب اس حکومت کے خلاف ہو کر اُس (عثمان )کے خون کا مطالبہ کریں گے ۔
امام اس بات سے بھی مضطرب تھے کہ آپ امت کے قائد تھے، جب حکومت کی باگ ڈور آپ کے ہاتھوں میں آجا ئے گی تویہ حکومت امت کیلئے صرف حق اور عدالت کی سیاست پر مبنی ہو گی،طمع کاروں اور چوروں کو حکومت سے الگ کر دیا جا ئے گا ،اور یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ حکمراں نظام آپ کے سیاسی خطوط کا مقابلہ کرے گااور آپ کے خلاف مسلح جد و جہد کا اعلان کردے گا ۔
بہر حال امام نے خلافت قبول کرنے سے منع فرمادیا،لیکن جم غفیر تھا جو آپ کی گردن میں حکومت کا قلادہ ڈالنے پر اصرار کر رہاتھا ۔امام نے اُن سے فرمایا:
''لَاحاجَةَ لِْ فِْ أَمْرِکُمْ،فَمَنِ اخْتَرْتُمْ رَضِیْتُ بِہِ ''۔(١)
''مجھے اس حکومت کی کو ئی ضرورت نہیں تم جسے منتخب کرلوگے میں راضی ہو جا ئوںگا''۔
مجمع آپ کے اس قول پر راضی نہ ہوا اوربار بار آپ سے یہ کہہ رہاتھا :لاامام لناغیرک ۔۔۔ ''آپ کے علاوہ ہمارا کو ئی امام نہیں ہے ''۔
انھوں نے پھر تکرار کی :ہم آپ کے علاوہ کسی اورکا انتخاب نہیں کر یںگے ۔
..............
١۔حیاة الامام امیر المو منین ،جلد ٢،صفحہ ٢١٥۔
امام ان کے بالمقابل خلافت قبول نہ کرنے پر مصر تھے ،چونکہ آپ کو علم تھا کہ خلافت قبول کرنے کے بعد مشکلات کھڑی ہو جا ئیں گی ،ہتھیاروں سے لیس افراد نے امام کے خلافت قبول نہ کرنے کے اصرار پر ایک میٹنگ بلائی جس میں شہریوں اور بااثر افراد کو بلاکر اُ ن کے سامنے یہ طے کیا کہ اگر مسلمانوں(١) کا حاکم معین نہ ہوا تو وہ طلحہ اور زبیر کو موت کے گھاٹ اُتار دیں گے ،مدنی یہ کہتے ہوئے آگے بڑھے :بیعت ۔ بیعت ۔ماتریٰ مانزل بالاسلام ، وماابتلینابہ من ابناء القریٰ ۔۔۔''جب ہم مختلف مصیبتوں والے امتحان میں مبتلا ہوگئے ''
امام ان کو یہ جواب دے کرانکار پر مصر رہے :''دَعُوْنِْ وَالْتَمِسُواغَیْرِْ''۔
''مجھے چھوڑ دو اور (اس خلافت کے لئے )میرے علاوہ کسی اور کوتلاش کرلو ''
آپ کی نظر میں وہ تمام واقعات تھے جن کا آپ کو عنقریب سامناکرناتھا:
''ایھاالناس،اِنّا مستقبلون امراً لہ وجوہُ ولَہُ الوانُ ،لا تقومُ بہِ القلوبُ ،ولا تثبتُ عَلَیہِ العقُولُ ''۔''لوگو !ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رُخ اور کئی رنگ ہیں ،جس کی نہ دلوںمیں تاب ہے اور نہ عقلیں اسے برداشت کر سکتی ہیں''۔
انھوں نے امام کی بات قبول نہیں کی اور آپ کا نام لے کر کہنے لگے : امیرالمومنین انت امیرالمومنین انت ۔''آپ امیر المو منین ہیں ،آپ امیر المو منین ہیں ''۔
امام نے ان کے سامنے اس طریقہ کی وضاحت فر ما ئی جس پر حکومت چلنا تھی :''وَ اعْلَمُوْااَنِّیْ اِنْ أَجَبْتُکُمْ رَکِبْتُ بِکُمْ مَاأَعْلَم،وَلَمْ أُصْغِ اِلیٰ قَوْلِ الْقَائِلِ وَعَتْبِ الْعَاتِبِ،وَاِنْ تَرَکْتُمُوْنِیْ فَأَنَاکَأَحْدِکُمْ،وَلَعَلِّ أَسْمَعُکُمْ وَأَطْوَعُکُمْ لِمَنْ وَلَّیْتُمُوْہُ أَمْرَکُمْ،وَأَنَالَکُمْ وَزِیْراً،خَیْرُ لَکُمْ مِنِّ أَمِیْراً !''۔
''یادر کھو کہ اگر میں نے بیعت کی دعوت کو قبول کر لیا تو تمہیں اپنے علم ہی کے راستے پر چلائوں گا اور
..............
١۔تاریخ ابن اثیر، جلد ٣،صفحہ ٨٠۔
کسی کی کو ئی بات اور سر زنش نہیں سنوں گا ۔لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمہاری ایک فرد کی طرح زندگی گذاروں گا بلکہ شائد تم سب سے زیادہ تمہارے حاکم کے احکام کا خیال رکھوں میں تمہارے لئے وزیر کی حیثیت سے امیر کی بہ نسبت زیادہ بہتر رہوں گا ''۔
امام نے اس طریقہ و راستہ کی وضاحت فرما ئی جس پر انھیں گامزن رہنا ہے ۔۔۔وہ راستہ حق اور عدالت کا راستہ ہے تمام لوگوں نے آپ کے اس فرمان پر راضی ہوتے ہوئے نعرہ بلند کیا : ہم آپ سے اس وقت تک جدا نہیں ہو ں گے جب تک آپ کی بیعت نہیں کرلیں گے ۔
لوگ ہر طرف سے آپ پر زور ڈال رہے تھے اور آپ سے خلافت قبول کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے ،امام نے اُن کے اصرار پر اپنی بیعت کی یوں وضاحت فرما ئی :فَمَارَاعَنِ اِلَّا وَالنَّاسُ کَعُرْفِ الضَّبُعِ (١)یَنْثَالُوْنَ عَلََّ مِنْ کُلِّ جَانِبٍ، حَتّٰی لَقَدْ وُطَِٔ الْحَسَنَانِ،وَشُقَّ عِطْفَاَ مُجْتَمِعِیْنَ حَوْلِْ کَرَبِیْضَةِ الْغَنَمِ''۔
''اس وقت مجھے جس چیز نے دہشت زدہ کر دیا تھا وہ یہ تھی کہ لوگ بجّو کی گردن کے بال کی طرح میرے گرد جمع ہو گئے اور ہرطرف سے مجھ پر ٹوٹ پڑے یہاں تک کہ حسن و حسین کچل گئے اور میری ردا کے کنارے پھٹ گئے یہ سب میرے گرد بکریوں کے گلہ کی طرح گھیرا ڈالے ہوئے تھے''۔
امام کا خلافت قبول کر نا
امام کے پاس خلافت قبول کرنے کے علاوہ کو ئی اور چارہ نہیں تھاچونکہ آپ کو یہ خوف تھا کہ
کہیںبنی امیہ کا کو ئی فاسق حاکم نہ بن جا ئے لہٰذا آپ نے فرمایا:''وَاللّٰہِ مَا تَقَدَّ مَتُ عَلَیْھَا(ای علی الخلافة)اِلَّاخَوْفاًمِنْ أَنْ یَنْزُوَ عَلیٰ الْاُمَّةِ تَیْسُ مِنْ بَنِْ أُمَیَّةَ،فَیَلْعَبَ بِکِتَابِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ۔۔۔''(٢)۔
''خدا کی قسم میں نے خلافت اس خوف سے قبول کی ہے کہ کہیں بنی امیہ کا کو ئی بکرا امت کی خلافت
..............
١۔عرف الضبع یعنی بہت زیادہ بال جوبجّو کی گردن پر ہوتے ہیں اور یہ ضرب المثل اس وقت استعمال ہوتی ہے جہاں پر لوگوںکا ازدھام ہو۔
٢۔عقد الفرید ،جلد ٢،صفحہ ٩٢۔
کو اُچک لے اور پھر کتاب خدا کے ساتھ کھلواڑ کرے ''۔
مجمع جا مع اعظم کی طرف دوڑ کر آیااور امام کا تکبیر اور تہلیل کے سایہ میں استقبال کیا، طلحہ نے اسی اپنے شل ہوئے ہاتھ سے بیعت کی جس کے ذریعہ اس نے عہد الٰہی کا نقض کیا تھا ،امام نے اس کو بد شگو نی تصور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:''مَاأَخْلَقَہُ أَنْ یَّنْکُثَ !''۔''بیعت توڑنا تو تمہاری پرا نی عادت ہے ''۔
تمام لوگوں نے آپ کی بیعت کی کیونکہ یہ اللہ اور اس کے رسول کی بیعت تھی ،عام بیعت تمام ہوگئی جس کے مانند کو ئی ایک خلیفہ بھی بیعت لینے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا ،جس سے مسلمانوں کی خو شی کا کوئی ٹھکانہ ،نہ رہا ،امام امیر المو منین فرماتے ہیں :''وَبَلَغَ مِنْ سُرُوْرِالنَّاسِ بِبَیْعَتِھِمْ اِیّاَ أَنِ ابْتَھَجَ بِھَاالصَّغِیْرُ،وَھَدَجَ اِلَیْھَا الْکَبِیْرُ،وَتَحَامَلَ نَحْوَھَاالْعَلِیْلُ،وَحَسَرَتْ اِلَیْھَا الْکِعَابُ''۔
''تمہاری خو شی کا یہ عالم تھا کہ بچوں نے خو شیاں منا ئیں، بوڑھے لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے آگے بڑھے بیمار اٹھتے بیٹھتے ہوئے پہنچ گئے اور میری بیعت کیلئے نوجوان لڑکیاں بھی پردہ سے باہر نکل آئیں ''
دنیائے اسلام میں ہمیشہ کے لئے عدالت اور حق کا پرچم لہرادیا گیااور اسلام کو اس کا اصلی اور حقیقی ملجأ و ماویٰ مل گیا ۔
سخت فیصلے
امام نے حاکم ہوتے ہی مندرجہ ذیل قوا نین معین فرمائے :
١۔وہ تمام زمینیں واپس لی جا ئیں جو عثمان نے بنی امیہ کو دی تھیں ۔
٢۔ان اموال کو واپس کرایا جو عثمان نے بنی امیہ اور آل ابو معیط کو دئے تھے ۔
٣۔عثمان کا تمام مال یہاں تک کہ اس کی تلوار اور زرہ کو بھی ضبط کر لیاجائے۔
٤۔تمام والیوں کو معزول کیا چونکہ انھوں نے زمین پر ظلم و جور اور فساد پھیلا رکھا ہے ۔
٥۔مسلمانوں اور وطن میں رہنے والے غیر مسلمانوں کے ساتھ مساوات سے کام لیااور یہ مساوات مندرجہ ذیل امور پر مشتمل ہے :
١۔عطا و بخشش میں مساوات ۔
٢۔قانون کے سلسلہ میں مساوات۔
٣۔حقوق اور واجبات کی ادا ئیگی میں مساوات۔
ان قوانین کے نافذ ہونے سے قریش کی ناک بھوں چڑھ گئی اوروہ گھوٹالا کئے ہوئے اپنے پاس مو جودہ مال کے سلسلہ میں خوف کھا گئے ،وہ مقابلہ کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اسی لئے انھوں نے آپ کی مخالفت کی اور لوگوں کے ما بین معاشرتی اور سیاسی عدالت نافذ کرنے میں رکاوٹیں کھڑی کیں ۔
بہر حال امام کے خلاف اور ان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے جنگو ں کے شعلے بھڑکائے گئے ،ہم ذیل میں بہت ہی اختصار کے ساتھ اُن جنگوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جو اسلام میں عدالت کا پرچم اٹھانے والے ،امیر بیان اور محروموں کے صدیق کے خلاف بھڑکا ئی گئیں ۔
١۔جنگ جمل
جنگ جمل کا واقعہ سیاست کی ہوس کا نتیجہ ہے ،معاویہ نے زبیراور طلحہ کودھوکہ دیا اور ان کو یہ لالچ دیا کہ وہ امام کی حکومت کا تختہ پلٹ کر ان دونوں کو خلیفہ بنائے گا ،ان کے لئے بیعت لے گا ، اُدھر عائشہ جس کا سینہ امام کے کینہ سے لبریز تھا لہٰذا اِن تینوں آدمیوں نے مکہ میں امام کے خلاف محاذ قائم کیا ،لوگوں میں سے طمع کاروں ،دھوکہ کھا جانے والوںاور سادہ لوحوں نے ان کا ساتھ دیا ،انھوں نے لشکر تیار کیا ،امویوں نے لشکر کو جنگی ساز و سامان سے لیس کیا ،انھوں نے اُن پر عثمان کی حکومت کے دور میں جو مال والیوں کے عنوان سے بیت المال سے چُرایا تھا وہ خرچ کیا ۔
عائشہ ، طلحہ اور زبیر کی قیادت میں لشکر بصرہ پہنچا ،جب امام کو اس بات کی اطلاع ہو ئی تو آپ نے فیصلہ کی خاطر اپنا لشکر روانہ کیاتو دونوں لشکروں میں گھمسان کی لڑا ئی ہو ئی ،طلحہ اور زبیر قتل کردئے گئے تو لشکر کی قیادت عا ئشہ کے ہاتھوں میں آگئی ،لشکر نے اُن کے اونٹ کو گھیر لیا،اس کے پیروں کو کاٹ دیا ،جس کے اطراف میں لاشے ہی لاشیں پڑی تھیں ،عائشہ کا اونٹ زخمی ہو کر زمین پر گر پڑا،اس کا لشکر شکست کھا گیا ، اس جنگ میں بہت زیادہ نقصان ہوا ،مسلمانوں کی صفوف میں بھی نقصان ہوا،اُن کے درمیان تفرقہ اور دشمنی پھیل گئی اور بصرہ والوں کے گھرحزن و الم اور ما تمی لباس میں ڈوب گئے ۔
٢۔جنگ صفین
امام جنگ جمل کے بعد کچھ آرام نہیں کر پائے تھے کہ آپ کو ایسے دشمن نے آزمایا جس نے پوری انسانیت کو مفلوج کر کے رکھ دیا تھا ۔جو نفاق اور مکر و فریب کے ہتھیار سے لیس تھا اور ان صفات میں ماہر تھا ،وہ معاویہ بن ابو سفیان جس کو ''کسریٰ عرب ''کے لقب سے یاد کیاجاتاہے ،جس کو لوگوں نے اس کے صحیفہ ٔ اعمال پر نگاہ ڈالے بغیر شام کی حکومت دے رکھی تھی ،جس کا قرآن کریم نے شجرئہ ملعونہ کے نام سے تعارف کرایا ہے، کیا لوگوں کو وہ جنگیں یاد نہیں تھیںجوابو سفیان اور بنی امیہ نے نبی اکرم ۖ سے لڑی تھیں اور اُن کو ابھی چند سال ہی گذرے تھے ؟
مسلمانوں نے کس مصلحت کی بنا پر اس جاہل بھیڑئے کو شام کی حکومت کا مالک بنا دیا تھاجو اسلام کا اہم علاقہ ہے ؟اور اس اہم منصب کے لئے خاندان نبوت کی اولاد کو منتخب کیوں نہیں کیا ،یا یہ منصب اوس اور خزرج کی اس خاص انتظامیہ کو کیوں نہیں دیا جس نے صاف طور پراسلام کا ساتھ دیا؟
بہر حال معاویہ نے رسول اللہ ۖ کے بھا ئی اور باب مدینة العلم سے جنگ کر نے کے لئے صفین میں اپنا لشکر اتارا،اس کے لشکر نے امام کے لشکر کو فرات سے پانی پینے سے روک دیا ،اس کو انھوں نے اپنی فتح میں مدد سے تعبیر کیا ،امام نے بھی فیصلہ کے لئے اس نا فرمان اور جلدی فتنہ برپا کرنے والے مکار دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنا لشکر اُتارا،امام کے لشکر کو اتنا اطمینان اور بصیرت تھی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن سے جنگ کر رہے ہیں لہٰذا جب وہ صفین پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ اُ ن کے دشمن معاویہ کی فوج نے فرات کے تمام گھاٹ اپنے قبضہ میں لے لئے ہیںاور امام کے لشکر کو پا نی پینے کے لئے کو ئی گھاٹ نہ مل سکا اور معاویہ کا لشکر امام کے لشکر کو پانی سے محروم رکھنے پرمصر رہا تو امام کے لشکر کی ٹکڑیوں کے سرداروں نے معاویہ کے لشکر پر حملہ کر کے ان کا حصار توڑنے کا پلان بنایا اور امام کے لشکر نے بڑی ہمت کے ساتھ معاویہ کے لشکر پر حملہ کرکے ان کو فرات کے کنارے سے دور بھگادیاجس سے ان کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ، امام کے لشکر میں موجود کچھ فرقوں کے سرداروں نے معاویہ کی طرح اس کے لشکر کو پانی دینے سے منع کرنا چا ہا تو امام نے ان کو ایسا کرنے سے منع فرمادیا ،چونکہ اللہ کی شریعت میں ایسا کرنا جا ئز نہیں ہے ، اور پانی سب کیلئے یہاں تک کہ کتّے اور سوَروں کے لئے بھی مباح ہے ۔
امام نے خونریزی نہ ہونے کی وجہ سے معاویہ کے پاس اُس کو صلح پرآمادہ کرنے کے لئے صلح کا پیغام دے کر ایک وفدروانہ کیا،لیکن معاویہ نے صلح قبول نہیں کی ،اور وہ نافرمانی کرنے پر مصر رہا ،لہٰذا دونوں فریقوں کے مابین جنگ کی آگ کے شعلے بھڑک اٹھے اور دو سال تک اسی طرح بھڑکتے رہے، ان میں سب سے سخت اور ہو لناک وقت لیلة الہریر تھا جس میں طرفین کے تقریباً ستر ہزار سپاہی اور قائد قتل ہو ئے ،جس سے معاویہ کے لشکر کی شکست کے آثار نمایاں ہو گئے ،اس کے تمام دستور و قوانین مفلوج ہو کر رہ گئے وہ فرار کر نے ہی والا تھا کہ اس کو ابن طنابہ نے کچھ سمجھایاجس سے وہ پھر سے جم گیا ۔
قرآن کو بلند کرنے کی بیہودگی
امام کے لشکر نے مالک اشتر کی قیادت میں معاویہ کے لشکر پر حملہ کیا ،لشکرفتح پانے ہی والا تھا اور مالک اشتر کے معاویہ پر مسلط ہونے میں ایک ہاتھ کا فاصلہ ہی رہ گیا تھا کہ دھوکہ باز عمرو عاص نے امام کے لشکر میں کھل بلی مچانے اور ان کی حکومت کے نظام میں تغیر و تبدل کا مشورہ دیاوہ پوشیدہ طور پر اشعث بن قیس اور امام کے لشکر کے بعض سرداروں سے ملا اُن کو دھوکہ ،لالچ اور رشوت دی ،قرآن کریم کو نیزوں پر بلند کرنے اور اپنے درمیان اختلاف کو حل کرنے کے لئے اُس کو حَکَم قرار دینے کے سلسلہ میں اُ ن کے ساتھ متفق ہو گئے ،انھوں نے قرآن کو نیزوں پر بلند کردیا اور معاویہ کے لشکر سے یہ آواز آنے لگی کہ ہمارا حکم قرآن ہے، ہ دھوکہ امام کے لشکر میں بجلی کی طرح کوند گیا ،بیس ہزار فوجیوں نے آپ کو گھیر لیا اور کہنے لگے قرآن کے فیصلہ کو قبول کیجئے ،امام نے ان کو تحذیر کی اور ان کو نصیحت فرما ئی کہ یہ دھوکہ ہے ،لیکن قوم نے آپ کی ایک نہ سنی اور وہ اس بات پر اڑ گئے ، امام سے کہنے لگے کہ اگر آپ نے یہ تسلیم نہ کیا تو ہم آپ سے مقابلہ کریں گے ، تو امام کو مجبوراً یہ تسلیم کر نا پڑا ،ان ہی خو فناک حالات میں امام کی حکومت کا خاتمہ ہو ا۔
اشعری کا انتخاب
امام کے ساتھ اِن واقعات کے پیش آنے کے بعد اشعری کو عراقیوں کی طرف سے منتخب کرلیا گیا، امام نے اُن کو ایسا کرنے سے منع کیا مگر انھوں نے زبردستی اشعری کو منتخب کر لیا ،اور اہل شام نے عمرو عاص کو منتخب کر لیا اس نے اشعری کو دھوکہ دیا اور اس کو امام اور معاویہ کو معزول کرکے ان کے مقام پر مسلمانوں کا حاکم بنا نے کیلئے عبداللہ بن عمر کا انتخاب کیا ،اشعری اس سے بہت خوش ہوا ، اور جب دونوں حَکَم ایک مقام پر جمع ہوئے تو اشعری نے امام کو معزول کر دیا اور عمرو عاص نے معاویہ کو اسی عہدہ پر برقرار رکھا ۔
٣۔خوارج
امام کے لشکر میں فتنہ واقع ہو گیا ،لشکر میں سے ایک گروہ تحکیم کے بعد جنگ کرنے پر مصر رہا ، امام پر کفر کا فتویٰ لگایا،کیونکہ امام نے دعوت تحکیم قبول کر لی تھی ،لیکن بڑے تعجب کی بات ہے کہ انھوں نے ہی تو تحکیم پر مجبور کیا تھا اور یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ :''لا حکم اِلّا اللّٰہ ''۔
لیکن جلد ہی نعرہ تلوار کی مار کاٹ میں بدل گیا ،امام نے اُن کو سمجھایا اور ایسا کرنے سے منع فرمایا ، ان میں سے کچھ لوگوں نے آپ کی بات تسلیم کر لی لیکن قوم کے کچھ افراد اپنی جہالت و گمرا ہی پر اسی طرح اصرار کرتے رہے ،وہ زمین پر فساد برپا کرنے لگے ،انھوں نے ابریاء کو قتل کر دیا جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا ،امام اُ ن کا مقابلہ کر نے کے لئے مجبور ہو گئے ،جس سے نہروان کا واقعہ پیش آیا ، ابھی یہ جنگ ختم نہیں ہونے پا ئی تھی کہ امام کے لشکر نے نافرمانی کی ایک خو فناک صورت اختیار کرلی ،جب آپ نے ان کو معاویہ سے جنگ کرنے کی دعوت دی تو کسی قبول نہیں کی،اور سیاسی طور پرمعاویہ کی طاقت ایک عظیم طاقت کے عنوان سے اُبھری ،اس نے اسلامی شہروں کو اپنے تحت لینا شروع کیا اور یہ ظاہر کر دیا کہ امام ان کی حمایت کرنے کی طاقت و قوت نہیں رکھتے ہیں ۔امام کی مقبولیت کم ہو تی جارہی تھی ،یکے بعد دیگرے آپ پر مصیبت کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے، معاویہ کی باطل حکومت مستحکم ہو تی جا رہی ہے ،اس کی تمام آرزوئیں پوری ہو تی جا رہی ہیں اور آپ کے پاس حق کو ثابت کرنے اور باطل کو نیست و نابود کرنے کے لئے ضروری قوت و طاقت مو جود نہیں ہے ۔
امام کی شہادت
امام نے پروردگار عالم سے دعا کرنا شروع کیا ،آپ نے دعا کی کہ اے خدا ئے عظیم مجھے اس قوم کی گمراہی سے نجات دے ،اور مجھے دارِ حق کی طرف منتقل کردے جس سے میں اپنے چچازاد بھا ئی کو اس امت کی طرف سے پہنچنے والے مصائب کی شکایت کر سکوں ،اللہ نے آپ کی دعا مستجاب فرمائی،آپ کو ناقہ صالح کو پئے کرنے والے ایک بدبخت شخص نے شہید کر دیا ،جس کا نام عبد االر حمن بن ملجم تھا ،امام اللہ کے گھر میں محراب عبادت میں مشغول تھے ،اس بد بخت نے اپنی تلور اٹھالی ،جب آپ نے اس کی تلوار کی ضرب کا احساس کیا تو فرمایا :''فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَةِ ''''کعبہ کے رب کی قسم میں کا میاب ہو گیا '' امام متقین کا میاب ہو گئے ،آپ کی پوری زندگی اللہ کی راہ میں جہاد ،کلمہ ٔ حق کو بلند کرنے میں گذر گئی ،سلام ہو اُن پر جس دن وہ کعبہ میں پیدا ہوئے ،جس دن اللہ کے گھر میں شہادت پائی ،آپ کی شہادت سے حق و عدالت کے پرچم لپیٹ دئے گئے ،جن ہدایت کے چراغ اور نو ر کی مشعلوں سے دنیائے اسلام روشن و منور ہو رہی تھی وہ خاموش ہو گئے ۔
|