خوشبوئے حیات
 

سقیفہ کا اجلاس
دنیائے اسلام میں مسلمانوں کا کبھی اتنا سخت امتحان نہیں لیاگیاجتنا سخت امتحان سقیفہ کے ذریعہ لیا گیا ،وہ سقیفہ جس سے مسلمانوں کے درمیان فتنوں کی آگ بھڑک اٹھی ،اور ان کے درمیان قتل و غارت کا دروازہ کھل گیا ۔
انصار نے رسول اللہ ۖ کی وفات کے دن سقیفہ بنی ساعدہ میں میٹنگ کی جس میں انھوں نے اوس اور خزرج کے قبیلوں کو شریک کرکے یہ طے کیاکہ خلافت ان کے درمیان سے نہیں جا نی چا ہئے ، مدینہ والوں کو مہا جرین کا اتباع کرتے ہوئے علی کی بیعت نہیں کر نا چاہئے جن کو رسول اللہ ۖ نے خلیفہ بنایا تھا اور غدیر خم کے میدان میں علی الاعلان ان کو خلیفہ معین فرمایا تھا ،انھوں نے ایک ہی گھر میں نبوت و خلافت کے جمع ہونے کا انکار کیا ،جیساکہ بعض بزرگان نبی ۖ کے علی کے حق میں نوشتہ لکھنے کے درمیان حا ئل ہوئے،اور انھوںنے نبی ۖ کے فرمان کو نافذ کرنے کے بجائے اس کو ترک کردیا ۔
بہر حال رسو لۖ کے لشکر میں انصار طاقت و قوت کے اعتبار سے اصل ستون سمجھے جاتے تھے لیکن رسولۖ کی رحلت کی وجہ سے قریش کے گھر وں میں رنج و غم اورماتمی لباس عام ہوچکا تھالہٰذاجو افراد انصار سے بیحد بغض و کینہ رکھتے تھے ، انھوں نے انصار کے ڈر کی وجہ سے اجلاس منعقد کرنے میں بہت ہی عجلت سے کام لیا ۔
حباب بن منذر کا کہنا ہے : ہمیں اس بات کا ڈر تھا کہ تمہارے بعد وہ لوگ ہم سے ملحق ہوجائیں جن کی اولاد آباء و اجداد اور اُن کے بھا ئیوں کو ہم نے قتل کیا ہے ''۔(١)
حباب کی دی ہو ئی خبر محقق ہو ئی چونکہ کم مدت والے خلفاء کی حکومت ختم نہیں ہو ئی تھی کہ امویوں نے حکومت کی باگ ڈور سنبھال لی ،امویوں نے اُن کو بہت زیادہ ذلیل و رسوا کیا ،معاویہ نے تو ظلم و ستم کرنے میں انتہاء کر دی ،جب اس کا بیٹا یزید تخت حکومت پر بیٹھا تو اُ س نے اُن پر ظلم و ستم کئے اُن کی آبرو ریزی کی ،ان کو سخت ایذا و تکلیف پہنچا ئی ،اُ س نے واقعہ حَرّہ میں جس کی تاریخ میں کو ئی مثال نہیں ملتی اُن کے
اموال ،خون اور آبروریزی کو مباح کر دیا تھا ۔
..............
١۔حیاة الامام الحسین ، جلد ١،صفحہ ٢٣٥۔
بہر حال کچھ انصار نے سعد کوخلافت کا حقدارقرار دیااور کچھ نے قبیلہ ٔ اوس کے سردار خُضَیر بن اُسید کو خلافت کے لئے بہتر سمجھا ،اُنھوں نے اور قبیلہ ٔ سعد یعنی خزرج سے سخت بغض و کینہ کی وجہ سے اُ س کیلئے بیعت سے انکار کیا،ان دونوں کے ما بین بہت گہرے اور پرانے تعلقات تھے ، عویم بن ساعدہ اور معن بن عدی انصار کے ہم پیمان کو بہت جلد سقیفہ میں رو نما ہونے والے واقعہ سے اور ابو بکر و عمرکوآگاہ کیا تو یہ دونوں جزع و فزع کرتے ہوئے جلدی سے سقیفہ پہنچے ، وہ دونوں انصار پراس طرح دھاڑے کہ جو کچھ ان کے ہاتھوں میں تھا وہ زمیں بوس ہو گیا ، سعد کا رنگ اڑ گیا ،ابو بکر و انصار کے ما بین گفتگو ہونے کے بعد ابو بکر کے گروہ نے اٹھ کر ان (ابوبکر ) کی بیعت کرلی ،اس بیعت کے اصل ہیرو عمر تھے ،انھوںنے یہ کھیل کھیلا، لوگوں کو اپنے ہم نشین کی بیعت کے لئے اُبھارا،ابو بکر اپنے گروہ کے ساتھ سقیفہ سے نکل کر مسجدِ رسول تک تکبیر و تہلیل کے سایہ میں پہنچے ،اس بیعت میں خاندانِ رسالت ،اسی طرح بڑے بڑے صحابہ جیسے عمار بن یاسر،ابوذر اور مقداد کے ووٹ باطل قرار دئے گئے۔

ابو بکر کی بیعت کے متعلق امام کا ردّ عمل
تمام مو رخین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام ،ابو بکر کی بیعت سے سخت ناراض تھے ، کیونکہ آپ اس کے اس سے زیادہ سزاوار اور حقدار تھے ،آپ کی رسول ۖ سے وہی نسبت تھی جو مو سیٰ کی ہارون سے تھی ،آپ کی جد وجہد اور جہاد سے اسلام مستحکم ہوا ،آپ اسلام کے سلسلہ میںبڑے بڑے امتحانات سے گذرے ،نبی اکرم ۖ نے آپ کو اپنا بھا ئی کہہ کر پکارا اورمسلمانوں سے فرمایا :''مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیّ مَوْلَاہُ ''لیکن انھوں نے بیعت کر نے سے منع کیا ، ابو بکر اور عمر نے آپ سے زبر دستی بیعت لی ، عمر بن خطاب نے اپنے دوستوں کے ساتھ آپ کے گھر کا گھیرا ڈال دیا ، وہ آپ کو دھمکیاں دے رہے تھے اپنے ہاتھ میں آگ لئے ہوئے تھے ،بیت وحی کو جلانا چا ہتے تھے ، جگر گو شۂ رسول سیدة نسا ء العالمین نے بیت الشرف سے نکل کر فرمایا :اے عمر بن خطاب تم کس لئے آئے ہو ؟''انھوں نے لا پرواہی سے جواب میں کہا : میں جو کچھ لیکر آیا ہوں وہ آپ ۖ کے والد بزرگوار کی لا ئی ہوئی چیز سے بہتر ہے ''۔(١)
بڑے افسوس کی بات ہے کہ امت مسلمہ جناب فاطمہ زہرا کے سامنے ایسا سلوک کرے ، وہ زہراء مرضیہ جن کے راضی ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے اور جن کے غضبناک ہونے سے خدا غضبناک ہوتا ہے اور ہمارے پاس ان حالات کو دیکھتے ہوئے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن کہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔
بہر حال امام کو زبر دستی گھر سے نکال کر ان کے گلے میں لٹکی ہو ئی تلوار کے ساتھ ابو بکر کے پاس لایاگیا ،اس کے گروہ نے چیخ کر کہا :ابو بکر کی بیعت کرو ۔۔۔ابو بکر کی بیعت کرو ۔
امام نے اپنی مضبوط و محکم حجت اور ان کی سر کشی کی پروا نہ کرتے ہوئے یوں فرمایا :میں اس امر میں تم سے زیادہ حق دار ہوں ،میں تمہاری بیعت نہیں کروں گا بلکہ تمیں میری بیعت کرناچاہئے ، تم نے یہ بات انصار سے لی ہے ،اور تم نے اُن پر نبی سے قرابت کے ذریعہ احتجاج پیش کیا ،اور تم نے بیعت کو ہم اہل بیت سے غصب کر لیا ،کیاتمہارا یہ گمان نہیں ہے کہ تم پیغمبر اکرم ۖ کی قرابت کی وجہ سے اس امیر کے سلسلہ
میں انصار سے اولیٰ ہو،لہٰذا وہ تمہاری قیادت قبول کریں اور تمھیں اپنا امیر تسلیم کریں لہٰذا میں بھی اس چیز کے
..............
١۔ملاحظہ کیجئے انساب الاشراف بلاذری ،اور مو رخین کا اس بات پر اجماع ہے کہ عمر نے امام کے بیت الشرف کو جلانے کی دھمکی دی تھی ۔ اس سلسلہ میں ملاحظہ کیجئے :تاریخ طبری ،جلد ٣،صفحہ ٢٠٢۔تاریخ ابو الفدائ، جلد ١،صفحہ ١٥٦۔تاریخ یعقوبی ،جلد ٢
صفحہ ١٠٥۔مروج الذھب، جلد١،صفحہ ٤١٤۔الامامت و السیاسة، جلد ١،صفحہ ١٢۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید، جلد ١، صفحہ٣٤۔الاموال لابی عبیدہ صفحہ ١٣١۔أعلام النسائ، جلد ٣،صفحہ ٢٠٥۔امام علی لعبد الفتاح مقصود، جلد ١،صفحہ ٢١٣۔حافظ ابراہیم نے اس مطلب کو اشعار میں یوں نظم کیا ہے :
وَقولَةٍ لِعَلٍِ قَالھا عمرُ
اَکرِمْ بِسامِعِھَااَعْظِمْ بِمُلقِیْھَا

حرَّقْتُ دَارَکَ لَااَبْقِْ عَلَیْک بِھا
اِنْ لَمْ تُبَایِعْ وَبِنْتُ المُصْطَفیٰ فِیْھا

مَا کَانَ غَیْرُ أَ بِْ حَفْصٍ بِقَائِلِھَا
اَمَامَ فَارِسِ عَدْنَانٍ وَ حَامِیْھاَ

''عمر نے مو لائے کا ئنات سے کہا اے علی میں تمہارے گھر میں آگ لگا دوں گا چا ہے گھر میں دختر نبی ۖ ہی کیوں نہ ہو مگر یہ کہ بیعت کرو ''عمر کے علاوہ شہسوار عرب کے سامنے کسی میں ایسی بات کہنے کی جرأت نہیں تھی ''
ذریعہ سے تم پر احتجاج کر تا ہوں جس سے تم نے انصار پر احتجاج کیا کہ ہم پیغمبر اکرم ۖ کی حیات اور ان کی وفات کے بعد ان سے زیادہ نزدیک ہیں لہٰذا اگر تم صاحب ایمان ہو تو انصاف کرو ،ورنہ ظلم و ستم کے ذریعہ بیعت لے لو جبکہ تم حقیقت سے واقف ہو ۔
اے حجت و دلیل والو!اس دلیل کے ذریعہ قریش کے مہا جرین ،انصار پر غالب آگئے ، کیونکہ وہ نبی سے زیادہ قریب تھے ،اس لئے کہ کلمہ ٔ قریش کے متعدد معنی ہیں وہ نبی ۖ کی بزم میں جمع ہوا کر تے تھے ، حالانکہ وہ ان کے نہ چچا زاد بھا ئی تھے اور نہ ماموں ،لیکن نبی اور علی کے ما بین متعدد طریقوں سے متعدد رشتے تھے ،آپ نبی کے چچا زاد بھا ئی ،ابو سبطین اور آپ ۖ کی بیٹی کے شوہر تھے جس کے علاوہ آپ ۖ کی کسی اور سے آپ ۖ کی نسل نہیں چلی ۔
بہر حال عمر امام کی طرف یہ کہتے ہوئے بڑھا :بیعت کرو ۔۔۔
امام نے فرمایا:''اگر میں بیعت نہ کروں تو ؟''۔
اس خدائے وحدہ لا شریک کی قسم جس کے علاوہ اور کو ئی خدا نہیں ہے آپ کوقتل کردیا جائے گا ۔
امام نے کچھ دیر خامو ش رہنے کے بعد اس قوم کی طرف دیکھا جس کو خواہش نفسانی نے گمراہ کر دیا تھا ،ملک و بادشاہت کی چا ہت نے اندھا کر دیا تھا ،آپ کو ان میں اُن کے شر سے بچانے والا کو ئی نظر نہیں آرہا تھا ،آپ نے بڑی ہی غمگین آواز میں فرمایا :اب تم اللہ کے بندے اور رسول ۖاللہ کے بھا ئی کو قتل کر دوگے ؟
ابن خطاب نے کہا :اللہ کے بندے تو صحیح ہے لیکن رسول اللہ ۖ کے بھا ئی نہیں ۔۔۔
عمر نے نبی اکرم ۖ کے ان فرامین کو بھلا دیا جن میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا ہے کہ علی آنحضرت ۖ کے بھا ئی ہیں ،اُن کے شہر علم کا دروازہ ہیں ،نبی سے ہارون اور مو سیٰ کی منزل میں ہیں اور اسلام کے پہلے مجا ہد ہیں ،عمر نے اُن سب کو بھلا کر ابو بکر سے مخاطب ہو کر کہا :''اَلاتامرفیہ امرک ؟''کیا تم علی کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر نہ کروگے ؟
ابو بکر نے فتنہ و فساد ہونے سے ڈرتے ہوئے کہا :میں آپ پر کو ئی زبر دستی نہیں کر تا حالانکہ فاطمہ آپ کے پاس کھڑی ہو ئی تھیں ۔
قوم نے امام کو چھوڑ دیا ،آپ ہرولہ کرتے ہوئے اپنے بھا ئی رسول اللہ ۖ کے روضہ پر پہنچے اور آپ ۖ سے تمام ظلم و ستم کی شکایت کی ،آپ گریہ کر رہے تھے اور نبی اکرم ۖ سے یہ کہتے جا رہے تھے :''یابن اُمّ،اِنَّ القَوْمَ اسْتَضْعَفُوْنِْ وَکَادُوْایَقْتُلُوْنَنِْ ۔۔۔''۔(١)
اے بھائی ،قوم نے مجھے کمزور سمجھ لیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چا ہتی ہے ۔۔۔''
قوم نے آپ کو کمزور سمجھ لیا اور آپ کے سلسلہ میں نبی کی وصیتوں کا انکار کردیا ،امام بڑے ہی رنج و الم کے ساتھ اپنے بیت الشرف پر پہنچے اور آپ پر وہ تمام چیزیں واضح و روشن ہو گئیں جن کے سلسلہ میں ا للہ نے نبی کے بعد آپ کو امت کی طرف سے پہنچنے والے عذاب اور انقلاب کی خبر دی تھی ۔خداوندعالم فرماتا ہے :(وَمَامُحَمَّد ِلاَّرَسُول قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ َفَِیْن مَاتَ َوْقُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَی َعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَنْقَلِبْ عَلَی عَقِبَیْہِ فَلَنْ یَضُرَّاﷲَ شَیْئًا۔۔۔)۔(٢)
''اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیںکیا اگر وہ مرجائیں یا قتل ہو جا ئیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جا ئوگے تو جو بھی ایسا کریگا خدا کا نقصان نہیں کرے گا''۔
یہ تباہ کن تبدیلی اور شدید زلزلہ ہے جس نے قوم کے ایمان اور خوابوں کو جھنجھوڑدیا ہے بیشک ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں ۔
بہر حال ہم ان افسوسناک واقعات سے قطع نظر کر تے ہیں کہ ابو بکر کی حکو مت نے اہل بیت سے سخت دشمنی کی وجہ سے سخت قوانین نافذ کرتے ہوئے فدک چھین لیا ،خمس کولغو قرار دیا اور اس کے علاوہ متعدد واقعات رو نما ہوئے جن کو ہم نے تفصیل کے ساتھ حیات الامام امیر المو منین میں تحریر کر دیاہے۔

زہرا راہ آخرت میں
امام امیر المو منین اس المناک مصیبت میں مبتلا ہوئے کہ حضرت زہرا سلام اللہ نے شہادت پائی ،
آپ ۖ مریض ہو گئیں اور سخت مصیبتوں میں گھر گئیں ،آپ ۖ عین عالم شباب میں تھیں کہ موت نے آپ کا پیچھا کیاجگر گوشہ ٔ رسول نے اپنے پدر بزرگوارکی وفات کے بعدطرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کیا کیونکہ امت نبی ۖ کی نگاہ میں آپ کی منزلت کو فراموش کر چکی تھی ،اُس نے آپ کے ترکہ کو غصب کرلیا،گھر پر قبضہ کر لیا
..............
١۔امامت والسیاست ،صفحہ ٢٨۔٣١۔
٢۔سورئہ آل عمران آیت ١٤٤۔
آپ ۖ نے ابن عم کو وصیت کی منجملہ یہ کہ آپ ۖ کے حق کو چھیننے والے آپ کے جنازہ میں نہ آئیں ،اُن کو رات کی تاریکی میں دفن کیا جائے ،قبر کا نشان مٹا دیا جائے تاکہ معلوم ہو جائے کہ آپ امت پر کس قدر غضبناک تھیں ۔
بہر حال امام نے صدیقہ طاہرہ کی آخری رسومات میں آپ کی وصیت کونافذ فرمایا،آپ آنکھوں سے جاری ہونے کی حالت میں قبر میں اُترے ،رسول اللہ ۖ کو سلام کیا ،اُن کو تعزیت پیش کی ، اور یوں شکوہ شکایت کیا:
''السَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ عَنِّْ،وَعَنْ ابْنَتِکَ النَّازِلَةِ فْ جَوَارِکَ،السَّرِیْعَة اللَّحَاقِ بِکَ ! قَلَّ یَارَسُوْلَ اللّٰہ عَنْ صَفِیَِّتِکَ صَبْرِْ وَرَقَّ عَنْھَا تَجَلُّدِْ،اِلَّااَنَّ فِ التَّأَسِّیْ،بِعَظِیْمِ فُرْقَتِکَ،وَفَادِحِ مُصِیْبَتِکَ،مَوْضِعَ تَعَزٍّ،فَلَقَدْ وَسَّدْتُکَ فِیْ مَلْحُوْدَتِ قَبْرِکَ وَفَاضَتْ بَیْنَ نَحْرِْ وَصَدْرِْ نَفْسُکَ ( اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن)۔
فَلَقَدْ اسْتُرْجِعَتِ الْوَدِیْعَةُ،وَاُخَذَتِ الرَّھِیْنَةُ ! اَمَّاحُزْنِْ فَسَرْمَدُ،وَاَمَّا لَیْلِْ فَمُسَھَّدُ،اِلیٰ اَنْ یَخْتَارَاللّٰہُ لِْ دَارَکَ اللَّتِیْ اَنْتَ بِھَامُقِیْمُ ۔وَسَتُنَبِئُکَ ابْنَتُکَ بِتَضَافُر ِاُمَّتِکَ عَلیٰ ھَضْمِھَا، فَاَحْفِھَا السَّوَالَ،وَاسْتَخْبِرْھَاالْحَالَ،ھَذَاوَلَمْ یَطُلْ الْعَھْدُ،وَلَمْ یَخْلُ مِنْکَ الذِّکْرُ۔
وَالسَّلَامُ عَلَیْکُمَا سَلَامَ مُوَدِّعٍ،لَاقَالٍ وَلَاسَئْمٍ،فَاِنْ أَنْصَرِفْ فَلَا عَنْ مَلَالَةٍ ، وَاِنْ أُقِمْ فَلَا عَنْ سُوْئِ ظَنٍّ بِمَاوَعْدَ اللّٰہُ الصَّا بِرِیْنَ ''(١)
''یارسول اللہ ۖآپ کو میری جانب سے اور آپ ۖ کے جوارمیں آنے والی اور آپ ۖ سے جلد ملحق ہونے والی آپ ۖ کی بیٹی کی طرف سے سلام ہو ۔یارسول اللہ ۖ آپ ۖ کی برگزیدہ (بیٹی کی رحلت ) سے میرا صبرو شکیب جاتا رہا ۔میری ہمت و توانا ئی نے ساتھ چھوڑ دیا۔لیکن آپ کی مفارقت کے حادثۂ عظمیٰ
اور آپ ۖ کی رحلت کے صدمہ ٔ جا نکاہ پرصبر کر لینے کے بعدمجھے اس مصیبت پر بھی صبر و شکیبا ئی ہی سے کام لینا پڑے گا جبکہ میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ ۖ کو لحد میں اُتارااور اس عالم میں آپ کی روح نے پرواز کی کہ آپ ۖ کا سر میری گردن اور سینہ کے درمیان رکھا تھا۔اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
اب یہ امانت پلٹا لی گئی ،گروی رکھی ہو ئی چیز چھڑا لی گئی لیکن میرا غم بے پایاں اور میری راتیں بے
..............
١۔نہج البلاغہ، جلد ٢،صفحہ ١٨٢۔
خواب رہیں گی ۔ یہاں تک کہ خداوند عالم میرے لئے بھی اسی گھر کو منتخب کرے جس میں آپ ۖ رونق افروز ہیں وہ وقت آگیا کہ آپ کی بیٹی آپ ۖ کو بتا ئیں کہ کس طرح آپ ۖکی امت نے اُن پر ظلم ڈھانے کے لئے اتحاد کر لیا آپ ۖ اُن سے پورے حالات دریافت کرلیں یہ ساری مصیبتیں اُن پربیت گئیں ۔حالانکہ آپ ۖ کو گذرے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا اور نہ آپ ۖ کے تذکروں سے زبانیں بند ہو ئی تھیں ۔
آپۖ دونوں پر میراالوداعی سلام ہو نہ ایسا سلام جو کسی ملول و دل تنگ کی طرف سے ہوتا ہے اب اگر میں (اِس جگہ سے) پلٹ جائوں تو اس لئے نہیں کہ آپ ۖ سے میرا دل بھر گیا ہے اور اگر ٹھہرا رہوں تو اس لئے نہیں کہ میں اس وعدے سے بد ظن ہوں جو اللہ نے صبر کرنے والوں سے کیا ہے ''۔(١)
رسول اللہ ۖ کی امانت کے مفقود ہونے پرامام کے یہ حزن و غم سے بھرے کلمات تھے جیسا کہ آپ کے کلمات دنیا کی طرف سے پہنچنے والے درد و الم کی حکایت کر تے ہیں ،اور امام نے نبی اکرم ۖ سے مطالبہ کیا کہ اپنے پارئہ تن سے امت کی طرف سے پہنچنے والے دردو الم کے متعلق ضرور سوال کریں تاکہ وہ بتا سکیں کہ امت نے آپ ۖ کو کس طرح ستایا ہے ۔
بہر حال امام جگر گوشۂ رسول ۖ کو دفن کرکے آئے جبکہ آپ بہت زیادہ رنجیدہ تھا ، اس لئے کہ قوم نے اُن کو معزول کر دیا ،آپ نے اُمت سے منھ موڑ لیا اورآپ تمام سیاسی امورسے الگ تھلگ ہوگئے۔

عمر کی حکومت
ابو بکر کی حکومت کو کچھ ہی دن گذرے تھے اور وہ اپنی حکومت کے دو سال گذرنے کے بعد بیمار پڑگئے اور جب ان کو اپنی موت کا یقین ہو گیا تو انھوں نے حکومت اپنے ساتھی عمر کے حوالہ کر دی ، بزرگ صحابہ کے مابین عمر کو ولی بنائے جانے پر بہت زیادہ لڑا ئی جھگڑا ہوامگر یہ کہ ابو بکر نے ان کی ایک نہ ما نی اور اپنی اسی رائے پر مصر رہے (٢)اس نے عمر کے لئے ایک عہد نامہ لکھاجس کو عثمان کے حوالہ کیا گیا اس نے اس کو لوگوں کے درمیان شائع کیا اور انھیں عمر کی بیعت کر نے کی دعوت دی ۔
..............
١۔نہج البلاغہ، جلد ٢،صفحہ ١٨٢۔
٢۔ابوبکر پر عمر کے ولی بنائے جانے پر طلحہ وغیرہ نے انتقاد کیا ،ملاحظہ کیجئے شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد ٩،صفحہ ٣٤٣۔
بہر حال عمر کو بہت ہی آسانی اور کسی مشکل کے بغیر حکومت مل گئی ،وہ لوہے سے زیادہ سختی کے ساتھحکومت پر قابض ہوگئے ،سختی کا نام دی جانے والی سیاست کے قائد بن گئے ،یہاں تک کہ بڑے بڑے اصحاب کے ساتھ بھی سختی سے پیش آنے لگے ،مو رخین کے بقول وہ حجاج کی تلوار سے بھی زیادہ سخت تھے ، عمرکی سخت گیری تمام افراد سے زیادہ تھی ،وہ شہروں پر مکمل طور پر مسلط ہوگئے حکومتی امور کو چلانے میں وہ اپنی مخصوص سیاست میں منفرد تھے ،ہم اپنی کتاب حیاة الامام امیر المو منین کے دوسرے حصہ میں اُن کی داخلی ،خارجی اور اقتصادی سیاست کومفصل طور پر بیان کر چکے ہیں ۔

عمر پر حملہ
ایرانیوں کے مقابلہ میں عمر کی مخصوص سیاست تھی ،اسی لئے عمر ایرانیوں سے نفرت کرتا تھا اور ایرانی عمر سے نفرت کرتے تھے ،ابو لؤ لؤ نے عمر کی عداوت کو چھپارکھا تھا ، ایک دن ان کاعمر کے پاس گذر ہوا تو عمر نے ان سے مذاق کرتے ہوئے کہا :مجھے خبر ملی ہے کہ تم یہ کہتے ہو :لوشئت ان اصنع رحی تطحن بالریح لفعلت؟
''اگر میں ہوا سے چلنے والی چکی بنا نا چا ہوں تو بنا سکتا ہوں ''۔
یہ جملہ ان کو بُرا لگااور انھوں نے غضبناک ہوکر اپنا دفاع کر تے ہوئے یوں کہا : لاصنعنّ لک رح یتحدّث بھا الناس۔۔۔''میں تیرے لئے ایسی چکی بنائوں گا جس کا لوگوں میں چرچا رہے گا ''
دوسرے دن انھوں نے عمرپر حملہ کر دیا(١) اور اس کو تین نیزے مارے :ایک نیزہ اس کی ناف کینیچے لگا جس سے اس کی نیچے والی کھال پھٹ گئی ،اس کے بعد ابو لؤ لؤ نے اہل مسجد پر حملہ کیا اور گیارہ آدمیوں کو نیزہ مارا ،عمر کو اٹھاکر اس کے گھر پرلیجایا گیا حالانکہ اس کے زحم سے خون بہہ رہا تھا ، اس نے اپنے اطراف والوں سے کہا :مجھے کس نے تیر مارا ہے ؟ مغیرہ کے غلام نے ۔۔
کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا :لا تجلبوا لنا من العلوج احداً فغلبتمون ۔(٢)
..............
١۔مروج الذہب، جلد ٢،صفحہ ٢١٢۔
٢۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ٢،صفحہ ١٨٥۔
''کسی ایرانی کافر کو میرے پاس نہ لانا لیکن تم نے میری بات نہ ما نی ''
عمرکے اہل و عیال طبیب کو بلا کر لائے تو طبیب نے عمر سے کہا :تم کونسی شراب زیادہ پسند کرتے ہو ؟ عمر نے کہا : نبیذ۔
عمر کو وہ شراب پلا ئی گئی وہ اس کی بعض آنتوں سے نکل کر باہر آگئی ،لوگوں نے کہا :پیپ نکل رہا ہے ۔اس کے بعد دودھ پلایا گیا جو اس کی کچھ آنتوں سے باہر نکل گیا ،یہ دیکھ کر طبیب نے مایوس ہو کر کہا : اب تمہارا کو ئی علاج نہیں ہو سکتا ۔(١)

شوریٰ کا نظام
عمر کے مرض میں شدت آتی گئی تو وہ امت قیادت کو سونپنے کی فکر میں پڑگئے تو اس کی پارٹی کے وہ افراد جنھوں نے خاندان نبوت سے امت کی رہبری کو باہر نکالنے میں مدد کی تھی اس نے اُن سے کف افسوس ملتے ہوئے کہا :اگر ابو عبیدہ زندہ ہوتا تو میں اسے خلیفہ بناتا چونکہ وہ امت کا امین تھا اور اگر سالم مو لا ابو حذیفہ زندہ ہوتا تو اس کو خلیفہ بنا دیتا کیونکہ وہ اللہ سے بہت زیادہ لو لگاتا تھا۔
جب ہم تاریخ اسلام کے اوراق الٹتے ہیں تو نہ تو ہمیں ابو عبیدہ کا تاریخ میں کو ئی کارنامہ دکھائی دیتاہے اور نہ ہی اس کی عالم اسلام میں کو ئی خدمت دکھا ئی دی ۔
لیکن ہاں سالم مو لا ابو حذیفہ کی کمینہ پن کر نے کی عادت تھی ،ہاں ،اسی نے تو مو لا ئے کائنات کے بیت الشرف پر حملہ کرنے کا کردار ادا کیا تھا ۔۔۔ان حوادث کا گروہی اور تقلیدی تعصبات سے ہٹ کر جائزہ لینا چاہئے تاکہ مسلمانوں کو صحیح حالات کا علم ہو جائے ۔
بہر حال عمر نے شوریٰ کے نظام کی بنیاد رکھی ،جس نظام کا مہمل ہونا کسی پر مخفی نہیں ہے ، الغرض انھیں امام کو خلافت سے دور رکھنا تھا لہٰذا انھوں نے قرشیوں کو خوش رکھنے کیلئے امام امیر المو منین سے بغض و کینہ و عناد رکھنے والے اموی خاندان کے سردار عثمان بن عفان کو خلافت دیدی ۔
..............
١۔اصابہ، جلد ٢،صفحہ ٤٦٢۔امامت اورالسیاسة، جلد ١،صفحہ ٢١۔
بہر حال شوریٰ کے نظام کے تقاضے کے مطابق عثمان نے امت کی قیادت قبول کرلی،وہ نظام جس سے مسلمان ہمیشہ کے لئے فتنہ و فساد اور عظیم شر ّ میں مبتلا ہوگئے ،ہم نے اس نظام کے متعلق اپنی کتاب''حیاةالامام امیر المو منین ''میں مو ضوع کے اعتبار سے تذکرہ کیا ہے اور اب ہم سر سری طور پر ان واقعات کو پیش کرتے ہیں ۔

عثمان کی حکومت
جمہور مسلمین نے بڑے ہی اضطراب اور نا پسندی کے ساتھ عثمان کی حکومت تسلیم کر لی ، مسلمانوں کو یہ یقین تھا کہ عثمان حکومت پا کر اپنے خاندان کو ہی کامیاب و کامران کر سکتا ہے چونکہ عثمان کا خاندان مسلسل اسلام کے خلاف بر سر پیکار رہا تھا اور طرح طرح کی سا زشیں رچتا رہا تھا،اور دوزی نے یہ مشاہدہ کرہی لیا ہے کہ اموی لوگ صرف اسی جماعت یا گروہ کی مدد کرتے ہیں جن کے دل اسلام کے بغض سے لبریز ہوں ۔(١)
بہر حال عثمان نے جان بوجھ کر حکومت کے تمام کا م کاج امویوں کے سپُرد کر دئے ،عام طورپر اقتصاد کو اپنی مصلحتوں کے مد نظر قرار دیا ،بنی امیہ نے عام اقتصاد کو اپنے اس نظام کی تعمیر کیلئے استعمال کیاجس کو اسلام نے فنا کر دیا تھا ۔جس سے عثمان کی شخصیت و حکومت کمزور ہو گئی ،وہ اس کو ناپسند کر نے لگے ،امام کی تعبیر کے مطابق وہ لوگ چیخنے چلانے لگے :''یَخْصِمُوْنَ مَالَ اللّٰہِ خِصْمَةَ الاِبِلِ نِبْتَةَ الرَّبِیْعِ '' ''وہ بیت المال کو اس طرح چرنے لگے جس طرح اونٹ مو سم بہار کی گھاس کو چرتا ہے ''،اس سے قبیلوں میں فقروغربت پھیل گئی جو اس کی حکومت کے خاتمہ کا سبب بنی ۔
اس کی حکومت کے سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے اسلامی ممالک کو بنی امیہ اور ابو معیط کی اولاد سے منسوب کردیا تھا جن کو حکومت چلانے کی کو ئی خبر نہیں تھی ان میں سے بعض بڑے گناہوں کے مرتکب ہوئے ،اس نے ولید بن عقبہ کو کوفہ کا والی بنادیاجو اپنی پوری رات یہاں تک کہ صبح تک گویّوں کے ساتھ نشہ کی حالت میں گذارتا تھا ،اس نے لوگوں کو صبح کی نماز چار رکعت پڑھا ئی اور اس نے نماز رکوع و سجود کی حالت میں کہا : میں نے شراب پی ہے اور مجھے شراب پلا ئی گئی ہے ،اس کے بعد محراب میں ہی شراب کی قے کردی ، اس کے بعد سلام پھیر کر نمازیوں کی طرف رُخ کر کے کہا :کیا اور پڑھا ئوں ؟ابن مسعود نے اس کو جواب
..............
١۔تاریخ شعر عربی ،صفحہ ٢٦۔
دیتے ہوئے کہا : نہیں ،خدا تمہاری نیکی میں اضافہ نہ کرے اور نہ اس شخص کی نیکی میں اضافہ کرے جس نے تمہیں ہمارے پاس بھیجا ہے ،اس نے اپنی جو تی اٹھا کر اس کے منھ پر ماری ،لوگوں نے اس پر کنکریاں برسائیں وہ قصر میںداخل ہو گیا جبکہ اس پر کنکریاں پڑ رہی تھیں وہ اپنی رسوا ئیوں اور دین سے دور ی میں مدہوش تھا۔(١)
حطیۂ جرول عبسی کا کہنا ہے :
شَھِدَ الحَطِیْئَةُ یَومَ یَلْقیٰ رَبَّہُ
أَنَّ الوَلِیْدَ أَ حَقُّ بِالغَدرِ

نَادیٰ وَقَدْ تَمَّتْ صَلَاتُھُمْ
أَأَزِیْدُ کُمْ ؟ثَمِلاً وَلَا یَدْرْ!

لِیَزِیْدَھُمْ خَیْراً وَلَوْ قَبِلُوْا
مِنْہُ لَزَادَھُمْ علیٰ عَشْرِ !

فَأَبَوْا أَباوَھَبٍ وَلَوْ فَعَلُوا
لَقَرَنَتْ بَیْنَ الشَّفْعِ وَالوَتْرِ

حَبَسُواعَنَانَکَ اِذْجَرَیْتَ وَلَوْ
خَلَّوا عَنَانَکَ لَمْ تَزَلْ تَجْرِْ

''حطیئہ روز محشر یہ گواہی دے گا کہ ولید غداری کئے جانے کا زیادہ مستحق ہے۔
حالانکہ نماز تمام ہو چکی تھی پھر بھی اس نے کہا مزید کچھ رکعتیں پڑھائوں؟
تاکہ اُن کے ثواب میں اضافہ کرے ،اگرلوگ اس کی بات مان لیتے تو وہ دس سے بھی زیادہ رکعت نماز پڑھا دیتا۔
تو اے ابووہب لوگوں نے انکار کردیااگر وہ ولید کی بات مان لیتے تو آج تم نماز شفع اور وتر کو ایک ساتھ ملا کر پڑھتے ۔
جب تم دوڑ رہے تھے تو انھوں نے تمہاری مہار کھینچ لی اگر وہ تمہاری مہار ڈھیلی چھوڑ دیتے تو تم چلتے ہی رہتے '' ۔
..............
١۔سیرہ حلبیہ، جلد ٢،صفحہ ٣١٤۔
کیاآپ نے ولید کے سلسلہ میں یہ توہین ملاحظہ کی ؟حطیئہ پھر اسی کے متعلق کہتے ہیں :
تَکَلَّمَ فِ الصَّلاةِ وَزَادَ فِیْھَا
عَلانِیَةً وَجَاھَرَ بِالنِّفَاقِ

وَمَجَّ الْخَمْرَ عَنْ سَنَنِ المُصَل
وَنادیٰ وَالْجَمِیْعُ الیٰ افْتِرَاقِ

أَ زِیْدُکُمْ علیٰ أَنْ تَحْمَدُوْنِْ
فَمَا لَکُمْ وَمَالِْ مِنْ خَلَاقِ(١)

''ولید نے نماز میں کلام کیا ،علی الاعلان رکعات کا اضافہ کیا اور نفاق کا اظہار کیا ۔
شراب کی وجہ سے وہ نمازی کے آداب سے خارج ہو گیا جب سب نماز کامل کرچکے تھے۔
اس نے بلند آواز میں کہا کیا میں مزید رکعتیں پڑھائوں ،اس شرط پر کہ تم میری تعریف کرو کیونکہ تم میں اور مجھ میں کو ئی اخلاق پسندیدہ نہیں ہے ''۔
کوفہ کے نیک لوگوں کے ایک گروہ نے یثرب پہنچ کر جلدی سے عثمان کے پاس اس کی شکایت پہنچا ئی اور اس کے سامنے وہ انگوٹھی بھی پیش کی جس کو اس نے مستی کی حالت میں اُتار کر پھینک دیا تھا،ولید نے شراب پی کر جو کچھ انجام دیا تھا اس کے سلسلہ میں گفتگو کی تو عثمان نے کو ئی معقول جواب نہیں دیا ،زبر دستی ان کی بات تسلیم کر تے ہوئے کہنے لگا :کیا تمھیں علم ہے کہ اس نے شراب پی تھی ؟
ان لوگوں نے کہایہ وہی شراب توہے جس کو ہم زمانہ ٔ جاہلیت میں پیا کر تے تھے ۔
عثمان نے غضبناک ہو کر اُن کو اپنے پاس سے دور کردیا ،وہ سب غیظ و غضب کی حالت میں اس کے پاس سے نکل کر تیزی کے ساتھ امام کے پاس پہنچے اور آپ کو اپنے اور عثمان کے درمیان ہونے والی گفتگو کی خبر دی ۔امام عثمان کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا:''دَفَعَتَ الشَّھُوْدَوَبَطَلَتَ الْحُدُوْدَ''۔
عثمان ان امور کے نتائج سے گھبرا گیا اور اس نے امام کی خدمت میں عرض کیاکہ :آپ کی کیا رائے ہے ؟
''اریٰ أَنْ تَبْعَثَ الیٰ صَاحِبِکَ،فَاِنْ أَقَامَاالشَّھَادَةَ فِْ وَجْھِہِ وَلَمْ یُدْلِ بِحُجَّةٍ أَقَمْتَ عَلَیْہِ الْحَدَّ۔۔''۔
..............
١۔اغانی ،جلد ٤،صفحہ١٧٨۔
''میری رائے یہ ہے کہ آپ اپنے دوست کے پاس بھیجیں اگر وہ شہادت قائم کر سکے جس کے مقابلہ میں کو ئی حجت نہ ہو تو اس پر حد جا ری کر دیجئے ''۔
عثمان نے امام کا مشورہ قبول کر لیا اور ولید کو بلا بھیجا،جب وہ آگیا تو گواہوں کو بلا یا،جب انھوں نے گوا ہی دی تو ولید چُپ ہو گیا ،اور اس کے پاس اپنے دفاع کے لئے کو ئی دلیل نہیں تھی ، وہ خود حد شرعی جاری ہونے کیلئے خاضع ہو گیا ، وہ عثمان کے خوف سے حد جاری ہونے کی جگہ پر حاضر ہونے سے منع نہ کرسکا امام اس پر حد جا ری کرنے کے قصد سے بڑھے تو ولید نے آپ پر یوں سب و شتم کیا : اے ظلم کرنے والے، تو عقیل نے اس کے سب و شتم کا جواب دیا، امام نے کوڑا مارنے کیلئے ہاتھ بلند کیا تو عثمان غیظ و غضب کی حالت میں چیخ کر امام سے کہنے لگا :آپ کو ایسا نہیں کر نا چا ہئے ۔
امام نے شریعت کی روشنی میں اس کو یوں جواب دیا '':بَلیٰ وشَرُّمِنْ ھَذَا اِذَافَسِقَ وَمَنَعَ حَقَّ اللّٰہِ أَنْ یُؤْخَذَ مِنْہُ ''۔
''لیکن اس سے بھی برا یہ ہے کہ فسق اختیار کیا جائے اور اللہ کا حق ادا کرنے سے انکار کیا جائے ''۔
یہ تمام مطالب اس بات پر دلالت کر تے ہیں کہ عثمان اللہ کی حدود جا ری کر نے میں سستی سے
کام لیتا تھا اور خاندان والوں کے ساتھ بہت ہی لطف و مہربا نی کے ساتھ پیش آتا تھا وہ خاندان والے جو اللہ کے لئے کسی احترام کے قائل نہیں تھے ۔

عثمان کے لئے محاذ
نیک اور صالح مسلمانوں نے عثمان کے خلاف قیام کیا ،اس کے والیوں نے عثمان پر دھاوا بول دیا،اُس پر علی الاعلان تنقید کی ،یہ بات بھی شایان ذکر ہے کہ مخالفین کا یہ محاذ دائیں ،با ئیں ہرطرف سے تھا ، طلحہ ،زبیر ،عائشہ اور عمرو بن عاص اپنی خاص رغبت اور مصلحتوں کی بنا پراس کا دفاع کررہے تھے ،بعض دوسری اہم اسلامی شخصیات جیسے عمار بن یاسر (طبیب بن طبیب)،مجاہد کبیر ابوذر غفاری،صحابی قاری ٔ قرآن عبد اللہ بن مسعوداور ان کے علاوہ دوسرے افراد جنھوں نے اللہ کی راہ میں مصیبتیں اٹھا ئی ہیںجب انھوں نے سنت
رسول کو محو اور بدعت کو زندہ ہوتے ،سچوں کو جھٹلائے جانے اور بغیر حق کے اثر دیکھا تو انھوں نے عثمان کے منھ پر گرد وغبار پھینک دیا ،اس کو اس کی سیاست کی سزا دینے کی غرض سے اس سے راستہ بدلنے ، اور امویوں کو حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے سے دور کرنے کا مطالبہ کیااور اُن کا اس تنقید میں اسلام کی خدمت کے علاوہ اور کو ئی مقصد نہیں تھا لیکن اس کامثبت جواب نہیںملا ۔

عثمان پر حملہ
جب عثمان کے سامنے پیش کئے گئے تمام مسا ئل واضح ہو گئے اور ان کا کو ئی حل نہ نکل سکا تو انقلاب کے شعلے بھڑک اٹھے ،انقلابیوں نے اس کا محاصر ہ کرلیااور اس سے حکومت واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو اُس نے اُن کو کو ئی جواب نہیں دیا،انھوں نے اس سے مروان اور بنی امیہ کو دور کرنے کا مطالبہ کیاتو اُس نے اُن سے منھ مو ڑ لیا ،اموی اس سے شکست کھا گئے اور اس کو تنہا چھوڑ دیاتو مسلمانوں نے اس پر حملہ کردیاجن میں آگے آگے محمد بن ابی بکر تھے، انھوں نے آگے بڑھ کر عثمان کی ڈاڑھی پکڑ کر کہا : اے نعثل! (احمق )خدا تجھے رسوا و ذلیل کرے ۔
عثمان نے جواب دیا :میں نعثل نہیں ہوں ،لیکن اللہ کا بندہ اور امیر المو منین ہوں ۔۔۔
محمد بن ابی بکر نے اُن سے کہا :کیا معاویہ کو اپنے سے دور نہیں کر و گے ۔۔۔اور اس کا محاصر ہ کرنے والے بنی امیہ کو گننا شروع کر دیا ۔
عثمان نے محمدسے گریہ و زاری کرتے ہوئے یوں کہا :اے بھتیجے تم میری ڈا ڑھی چھوڑ دو کیا جس ڈاڑھی کو تم پکڑے ہوئے ہو تمہارا باپ اس ڈا ڑھی کوپکڑتا تھا؟
محمد نے ان کو یوں جواب دیا :میں تمہارے ساتھ بد سلوکی کر نا چا ہتا ہوں وہ ڈاڑھی پکڑنے سے زیادہ سخت ہے ۔
محمد نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا نیزہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیا ،پھر اس کے جسم پر انقلابیوں کی تلواریں ٹوٹ پڑیں ،اس کا جسم زمین پر گر پڑا،بنی امیہ اور آل ابی معیط سے لیکر نجد تک کسی نے بھی آہ و بکا نہیں کیا ،انقلابیوں نے اس کی بہت زیادہ تو ہین کی،اس کا جسم رسوا کن مقام پر لا کر ڈال دیا ،انھوں نے اس کو دفن تک نہیں کیا ،یہاں تک کہ جب امام امیر المو منین نے اس کے دفن کے سلسلہ میں فرمایا تو انقلابیوں نے اس کو دفن کیا اس طرح خوفناک حالات میں عثمان کی زندگی کا خاتمہ ہوا ،اس کے قتل سے مسلمانوں کا بہت سخت امتحان ہوا کہ ان کیلئے ہمیشہ کی خاطر فتنے اور مصیبتیںان کے گلے کا ہار بن گئے ، امویوںجیسے طلحہ زبیر اور عائشہ نے اس کے قتل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کے خون کا مطالبہ کیا۔اُن کو اپنے فائدہ کے لئے ایک بہانہ مل گیااِن ہی لوگوں نے اس کی تجہیز و تکفین کی تھی ۔