خوشبوئے حیات
 

٥۔فتح مکہ
اللہ نے اپنے بندے اور رسول ۖ کو فتح مبین عطا کی ،اور دشمن طاقتوں کو ذلیل کیا ،اور رسول اسلام ۖ کی مخالف طاقتوں کو گھاٹا اٹھانا پڑا ،جزیرة العرب کے اکثر علاقوں میں اسلامی حکومت پھیل گئی ،توحید کا پرچم بلند ہوا ،نبی نے یہ مشاہدہ کیا کہ جب تک مکہ فتح نہ ہوآپ کو مکمل فتح نصیب نہ ہوگی، مکہ جو شرک و الحاد کا گڑھ تھااور جب نبی ۖ مکہ میں تھے تو مکہ والوں نے آپ ۖ کے خلاف جنگ کا اعلان کیاتھااور نبی اکرم ۖ دس ہزار یا اس سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس سپاہیوں کے ساتھ راہی ٔ مکہ ہوئے جبکہ آپ ۖ کی روانگی کا علم کسی کو نہیں تھا ،اس وقت آپ کے لشکر والوں کو اس بات کا خوف نہیں تھا کہ قریش آپ ۖ کے خلاف مقابلہ کے لئے آمادہ ہوجا ئیں گے جس کے نتیجہ میں محترم شہر میں خون بہے گا ،آپ ۖ نے اپنی آما دگی کو چھپائے رکھاتاکہ مکہ والوں کو یکایک اپنی عسکری طاقت سے مرعوب کر یں ۔
اسلام کا لشکربہت تیزی کے ساتھ چلا یہاں تک کہ ان کو شہر مکہ نظر آنے لگا اور مکہ والوں کو اس کی خبر بھی نہیں تھی، نبی ۖ نے اپنے لشکر کو لکڑیاں جمع کرنے کا حکم دیا اور انھوں نے کثیر تعداد میں لکڑیاں جمع کیں ، جب گُھپ اندھیرا ہو گیا تو لکڑیوں میں آگ لگانے کا حکم دیا ،آگ کے شعلے اتنے بلند تھے جو مکہ سے دکھا ئی دے رہے تھے ابو سفیان نالہ و فریاد کرنے لگا اور اس نے خوف کے مارے اپنے ایک طرف بیٹھے ہوئے بدیل بن ورقاء سے کہا :میں نے رات کے وقت کبھی ایسی آگ نہیں دیکھی ۔
بدیل نے کہا :خدا کی قسم یہ قبیلہ ٔ خزاعہ ہے جوجنگ کی آگ بھڑکارہا ہے ۔
ابو سفیان نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا :قبیلہ خزاعہ میں اتنے لشکر اور نیزے نہ ہوتے ابوسفیان پر خوف طاری ہوگیا ،عباس اس کے پاس آئے گویا ان کو مکہ پر حملہ کرنے کی غرض سے آنے والے اسلامی لشکروں کا علم تھا ،عباس نے ابوسفیان سے رات کی تاریکی میں کہا :اے ابو حنظلہ ۔
ابو سفیان نے ان کو پہچان لیا اور کہا :کیایہ ابو الفضل ہے ؟
ہاں ۔
میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ۔
اے ابو سفیان تجھ پر وائے ہو ، یہ رسول اللہ ۖ اور قریش کے درخشندہ ستارے ہیں ۔
ابو سفیان کا خون جم گیا وہ اپنے اور اپنی قوم کے متعلق خوف کھا نے لگا ،اس نے حیران و پریشا ن ہوتے ہوئے کہا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں میں اب کیا تدبیر کروں ؟
جناب عباس نے یہ کہتے ہوئے اس کی ایسے راستہ کی طرف ہدایت کی جس سے اس کا خون محفوظ رہے :خدا کی قسم اگر رسول اللہ ۖ تجھ پر فتح پا گئے تو وہ تیری گردن اڑادیں گے ،لہٰذا تم اس گدھے پر سوار ہو کر رسول ۖ کی خدمت میں جائو اور ان کی پناہ مانگو ۔
وہ بہت ہی مضطرب و پریشان تھا اس نے پوری رات جاگ کر بسر کی ،وہ نہیں جانتا تھا کہ عنقریب اس پر کیا گذرنے والی ہے ،اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے مسلمانوں کے خلاف بہت مظالم ڈھائے تھے ۔جب وہ نبی کے سامنے پہنچا تو آنحضرت ۖ نے اس سے فرمایا :''کیا ابھی اس بات کا وقت نہیں آیاکہ تجھ کو معلوم ہوجائے کہ اللہ کے علاوہ اور کو ئی خدا نہیں ہے ؟''۔
پیغمبر اسلام ۖ نے اس کی طرف سے ڈھا ئی جانے والی طرح طرح کی مشکلات کی طرف توجہ نہیں کی اور اُن کی پردہ پو شی کی تاکہ اسلام کی اصلی روح کی نشر و اشاعت کر سکیں جس میں دشمنوں سے انتقام کی بات نہیں ہو تی ہے ۔
ابو سفیان نبی ۖ کے سامنے گڑگڑانے لگا اور آپ ۖ سے یوں معافی مانگنے لگا :''میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ ۖ کتنے بردبار ،کریم اور صلۂ رحم کرنے والے ہیں خدا کی قسم میں یہ گمان کرتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ اگر کو ئی اور خدا ہوتاتو میں اس سے بے نیاز ہوتا ''۔
نبی اسلام ۖ نے مہربانی سے یوںفرمایا: اے ابو سفیان تجھ پر وائے ہو ،کیا میں نے تیرے لئے یہ بیان نہیں کیا کہ تو جانتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟''۔
ابوسفیان اپنے دل میں مخفی کفر وشرک و الحاد کو نہ چھپاسکا اور اس نے کہا :میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجا ئیں ،آپ کتنے حلیم ،کریم اور صلۂ رحم کرنے والے ہیں میرے دل میں اب بھی شرک کا شائبہ موجود ہے ۔
جناب عباس نے ایمان نہ لانے کی صورت میںاس کودرپیش خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے :تجھ پر وائے ہو مسلمان ہوجا !اس سے پہلے کہ تیری گردن اڑا ئی جائے کہہ دے: اشہد ان لا الٰہ الّااللّٰہ واَنَّ محمداًرسول اللّٰہ ۔
خبیث کبھی بھی پلیدگی و گندگی سے پاک نہیںہوسکتا ،لہٰذا اس نے بڑی کراہت کے ساتھ زبان سے اسلام کا اعلان کیا لیکن اس کے دل میں کفر و نفاق اسی طرح موجیں مارتا رہا ۔
نبی ۖ نے اپنے چچا عباس سے ابو سفیان کو ایک تنگ وادی میں قید کرنے کے لئے کہا تاکہ اس کے پاس سے لشکر اسلام گذرے جس کو دیکھ کر قریش ڈرجا ئیںجناب عباس اس کو لیکر ایک تنگ وادی میں گئے اور اس کے پاس سے ہھتیاروں سے لیس لشکراسلام گذراتو جناب عباس نے اس سے سوال کیا :یہ کون ہے ؟
سلیم۔
میرے اور سلیم کے مابین کیا ہے ؟
اس کے پاس سے لشکر کی دوسری ٹکڑی گذری تو اس نے عباس سے کہا :یہ کون ہے ؟
مزینہ ۔
میرے اور مزینہ کے ما بین کیا ہے ؟
اس کے بعد اس کے پاس سے نبی اکرم ۖ کاہرے جھنڈوں والا گروہ گذرا جن کے ہاتھوں میںننگی تلواریں تھیں اور نبی اکرم ۖ کو بڑے بڑے اصحاب اپنے گھیرے میں لئے ہوئے تھے، ابو سفیان مبہوت ہو کر رہ گیا اور اس نے سوال کیا کہ :یہ کس کا گروہ ہے ؟
یہ مہاجرین اور انصار کے درمیان رسول اللہ ۖ ہیں ۔
آپ ۖ کے بھتیجے کا ملک بڑا ہو گیا اور ان کی حکومت وسیع ہو گئی ۔
جناب عباس نے کہا :اے ابو سفیان ،یہ نبوت ہے ۔
ابو سفیان نے اپنا سر اٹھاتے ہوئے مذاقیہ لہجہ میں کہا :ہاں تبھی تو ۔
یہ جا ہل شخص ایمان لانے والا نہیں تھا، وہ اس کو بادشاہت و سلطنت سمجھ رہا تھا ، پھر عباس نے اس کو آزاد کر دیا تو وہ جلدی سے مکہ واپس پلٹ گیا اور اس نے یہ کہا :اے معشر قریش یہ جو کچھ تمہارے پاس لیکر آئیں اس کو قبول نہ کرنا ،اور جو بھی ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا وہ امان میں رہے گا ۔۔۔۔
قریش نے اس سے کہا :ہمیں تمہارے دروازے کی ضرورت نہیں ہے ۔
جو اس کا ذروازہ بند کرے گا وہ امان میں ہے اور جو مسجد میں داخل ہوگا وہ بھی امان میں رہے گا۔
قریش کو کچھ سکون ہوا تو انھوں نے جلدی سے ابو سفیان کے گھر اور مسجد کا گھیرا ڈال دیا ۔ہند ابوسفیان کے پاس بڑے رنج و غم سے بھرے دل کے ساتھ گئی وہ چیخ چیخ کر ابو سفیان کے خلاف قوم کو ابھار رہی تھی کہ اس خبیث و پلید کو قتل کردو ۔۔۔
ابو سفیان اُن کو ایسی غلطی کرنے سے روک رہا تھا اور ان سے تسلیم ہونے کو کہہ رہاتھا ،نبی ۖ اپنے اسلامی لشکر کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے جس کے ذریعہ اللہ نے قریش کو ذلیل کیا ،کمزور مسلمانوں کو خو شبخت کیا ،نبی ۖ کعبہ کی طرف متوجہ ہوئے ، آپ ۖ نے ان بتوں کا صفایاکیا جن کی قریش پرستش کیا کرتے تھے ،نبی ۖ نے ھُبل کی آنکھ پر کمان مارتے ہوئے فرمایا :''جَا ئَ الحَقّ وَزَھَقَ الْبَاطِلْ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقَا''''حق آیا باطل مٹ گیا بیشک باطل کو تو مٹنا ہی تھا ''اس کے بعد نبی اکرم ۖ نے حضرت علی کو حکم دیا کہ وہ آپ ۖ کے کندھوں پر چڑھ کر بتوں کو توڑدیں ،اور بیت اللہ الحرام کو پاک کریں آپ اُن بتوں کو اٹھا اٹھا کر نیچے پھینکتے جا رہے تھے ،یہاں تک کہ آپ نے سب کا صفایا کر دیا، یوں اسلام کے بہادر کے ہاتھوں بتوں کا صفایا ہوا ،جس طرح آپ ۖ کے جد خلیل نے بتوں کو تہس نہس کیا تھا ۔

حجة الوداع
جب نبی ۖ اکرم ۖ کو حضیرة القدس ''جنت ''میں منتقل ہونے کا یقین ہو گیا توآپ ۖ نے بیت اللہ الحرام کا حج اور امت کے لئے ایک سیدھے راستہ کا معین کرنا لازم سمجھا،آپ ۖ ١٠ ھ میں آخری حج کر نے کی غرض سے نکلے اور آپ ۖ نے امت کے لئے اپنے اس دنیا سے آخرت کی طرف عنقریب کو چ کرنے کے سلسلہ میں یوں اعلان فرمایا :''اِنِّی لَا اَدْرِ لَعَلِّ لَااَلْقَاکُمْ بَعْدَ عَامِیْ ھٰذَا بِھٰذا الْمَوْقِفِ اَبَداً۔۔''''مجھے نہیں معلوم کہ میں اس سال کے بعداس جگہ تمھیں دیکھ سکوں گا ''۔
حجاج خوف و گھبراہٹ کے ساتھ چل پڑے وہ بڑے ہی رنجیدہ تھے اور یہ کہتے جا رہے تھے : نبی اکرم ۖ اپنی موت کی خبر دے رہے ہیں ،نبی ۖ نے ان کے لئے ہدایت کا ایسا راستہ معین فرمادیا تھا جس سے وہ فتنوں سے دور رہیںاور یہ فرماکر ان کی اچھی زندگی گذرنے کی ضمانت لے رہے تھے : ''ایھا النَّاسُ، اِنِّیْ تَرَکْتُ فِیْکُمُ الثَّقَلَیْنِ،کِتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتِْ أَھْلَ بَیْتِ ۔۔۔'' ۔
''اے لوگو! میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ،کتاب خدا اور میری عترت میرے اہل بیت ہیں ۔۔۔''۔
کتاب اللہ سے متمسک رہنا ،اس میں بیان شدہ احکام پر عمل کرنااور اہل بیت نبوت سے محبت دوستی کرناکہ اسی میں امت کی گمرا ہی سے نجات ہے حج کے اعمال تمام کرنے کے بعد نبی ۖ نے ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا جس میںآپ ۖنے اسلامی تعلیمات اوراس کے احکام بیان فرمائے اورآخرمیں فرمایا :''لاترجعوا بعدی کفّاراً مُضَلِّلِیْنَ یَمْلِکُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ اِنِّ خَلَّفْتُ فِیْکُم ْ مَااِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِہِ لَنْ تَضِلُّوْا:کِتَابَ اللّٰہِ وَعِتْرَتْ اَھْلَ بَیْتِ،أَ لَاھَلْ بَلَّغْتُ؟''۔
''میرے بعد کا فر نہ ہو جانا ،لوگوں کو گمراہ نہ کرنا ،ایک دوسرے سے جنگ نہ کرنا ،میں تمہارے درمیان وہ چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں اگر تم اُن سے متمسک رہوگے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے :اللہ کی کتاب اور میری عترت ،میرے اہل بیت ہیں ،آگاہ ہو جائو کیا میں نے(احکام الٰہی ) پہنچا دیا؟''
سب نے ایک ساتھ مل کر بلند آواز میں کہا : ہاں ۔
آنحضرت ۖ نے فرمایا :''اَللّٰھُمَّ اشْھَدْ ۔۔اِنَّکُمْ مَسْئوُلُوْنَ فَلْیَبْلُغِ الشَّاھِدُ مِنْکُمُ الْغَائِبَ''۔(١)
''خدایا ! گواہ رہنا ۔۔تم حاضرین کی ذمہ داری یہے کہ اس پیغام کو غائبین تک پہنچادیں ''۔ہم اس خطبہ کا کچھ حصہحیاة الامام امیر المومنین میں ذکر چکے ہیں ۔

غدیر خم
حج کے ارکان بجالانے کے بعد نبی ۖ اور آپ ۖ کے ساتھ حج کے قافلے مدینہ کی طرف واپس آرہے تھے ،جب غدیر خم کے مقام پر پہنچے تو جبرئیل اللہ کے حکم سے نازل ہوئے کہ آپ ۖ اپنے قافلہ کو اسی مقام پر روک کر حضرت علی کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ اور امام بنا دیجئے اور اس کے انجام دینے میں بالکل تاخیر نہ فرما ئیںچنانچہ اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی :( یَاَیُّہَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا ُنزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَِنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاس۔۔)۔(٢)
''اے پیغمبر آپ اس حکم کو پہنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے، اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گویا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا ''
رسول اللہ ۖ نے اس امر کوبہت اہمیت دی اور پختہ ارادہ کے ساتھ اُس پر عمل کا فیصلہ کیا آنحضرت ۖ نے اپنے قافلہ کو اسی گرمی کی شدت سے مرجھائے ہوئے درختوں کے نیچے روک دیا اور دوسرے قافلوں کو بھی وہاں ٹھہر کر اپنے خطبہ سننے کی تلقین فرما ئی ،آپ ۖ نے نماز ادا کرنے کے بعد اونٹوں کی کجاووں سے منبر بنانے کا حکم دیاجب منبر بن کر تیار ہو گیا تو آپ ۖ نے منبر پر جا کر ایک خطبہ ارشاد فرمایاجس میں اعلان فرمایا کہ جس نے اسلام کی راہ میں مشکلیں برداشت کیں اور اس راستہ میں ان کے گمراہ ہونے کا خطرہ تھا میں نے ان کو اس خطرے سے نجات دلا ئی ،پھر اُن سے یہ فرمایا:میں دیکھوںگاکہ تم میرے بعد ثقلین کے ساتھ کیسا برتائو کر و گے ؟''۔
..............
١۔حیاة الامام الحسین جلد ١،صفحہ ١٩٥۔منقول از تاریخ یعقوبی، جلد ٢،صفحہ ٩٠۔
٢۔سورئہ مائدہ ،آیت٦٧۔
قوم میں سے ایک شخص نے پوچھا :یا رسول اللہ ۖ ثقلین کیا ہے ؟
''ثقل اکبر :اللہ کی کتاب ہے جس کا ایک سرا اللہ عز و جل کے قبضۂ قدرت میں ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے تم اس سے متمسک رہنا توگمراہ نہیں ہوگے ،اور دوسری چیز ثقل اصغر :میری عترت ہے ،اور لطیف و خبیر خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں ،میں نے اپنے پروردگار سے اس سلسلہ میں دعا کی ہے اور ان دونوں سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور نہ ہی اُن کے بارے میں کو تا ہی کر نا کہ اس کا نتیجہ بھی ہلا کت ہے ۔
اس کے بعد آنحضرت ۖ نے اپنے وصی اور اپنے شہر علم کے دروازے امام امیر المو منین کی مسلمانوں پر ولایت واجب قرار دی ،اُن کو اس امت کی ہدایت کے لئے معین کرتے ہوئے فرمایا : اے لوگو! مومنین کے نفسوں پرتصرف کے سلسلہ میںخود اُن سے اولیٰ کون ہے ؟
سب نے ایک ساتھ کہا :اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں ۔
رسول اللہ ۖ نے فرمایا:بیشک اللہ میرا مو لاہے ،میں مو منین کا مو لا ہوں ،میں اُن کے نفسوں سے زیادہ اولیٰ و بہتر ہوں پس جس جس کا میں مو لا ہوںیہ علی بھی اس کے مو لا ہیں ۔
آپ ۖ نے اس جملہ کی تین مرتبہ تکرارکی ،پھرمزید فرمایا:
''اللّٰھُم وَال من والاہ،وعادمن عاداہ،واحبَّ مَنْ احبَّہُ،وَابغض من ابغضہ،وَانصرمن نصرہ، واخذُلْ مَنْ خذلہ وادْرِالحقّ مَعَہُ حیثُ دارَ،أَلا فلیبلغ الشاھدُ الغَائِبَ۔۔۔''۔
''اے خدا!جو اسے دوست رکھے تو اسے دوست رکھ ،جو اس سے دشمنی رکھے تواسے دشمن رکھ ،جو اس سے محبت کرے تواس سے محبت کر ،جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ ،جو اس کی مدد کرے تواس کی مدد کر ، جو اس کو رسوا کرے تو اس کو رسوا و ذلیل کر ،پالنے والے !حق کو اس طرف موڑدے جدھر یہ جا ئیں آگاہ ہوجائو حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچا دیں ''۔
خطبہ کا اختتام اس امت کے لئے عام مرجعیت اور اپنے بعد مسلمانوں کے امور انجام دینے کے لئے رہبر و رہنما معین فرمانے پر ہوا ۔
تمام مسلمانوں نے قبول کیا ،امام کی بیعت کی اورتمام مسلمانوں نے مبارکباد پیش کی ،نبی ۖ نے امہات المو منین کو بھی بیعت کرنے کا حکم دیا ۔(١)عمر بن خطاب نے آگے بڑھ کر امام کو مبارکباد دی، مصافحہ کیا اور اپنا یہ مشہور مقولہ کہا :مبار ک ہو اے علی بن ابی طالب آج آپ میرے اور ہر مو من و مومنہ کے مو لا ہوگئے ہیں ۔(٢)
حسان بن ثابت نے یہ اشعار پڑھے :
''یُنادِیْھِمُ یَوْمَ الغَدِیْرِ نَبِیُّھُمْ
بِخُمٍّ وَاَسْمِعْ بِالرَّسُوْلِ مُنادِیاً

فقال فمَنْ مَولاکُم و نبِیُّکُمْ
فقالُوا وَلَمْ یُبْدُوا ھُنَاک التِعَامِیَا

اِلٰھُکَ مَوْ لانا وَأَنْتَ نَبِیُّنَا
وَلَمْ تَلْقَ مِنَّا فِی الْوِلَایَةِ عاصِیا

فقال لہ قُم یا علّ فاِنَّنِ
رَضِیْتُکَ مِنْ بَعْدِْ اِمَاماً وھادیا

فمنْ کُنْتُ مَولاہُ فھٰذا ولیُّہُ
فکونوا لہُ أَتْبَاعَ صِدْقٍ مَوَالِیا

ھُناکَ دعا اللّھمَّ وال ولِیَّہُ
وکُنْ للذ عادَ علیّاً مُعا دِیا(٣)

''غدیر کے دن اُن کو اُن کا نبی میدان خم میں پُکار رہاتھا۔
نبی ۖ نے فرمایا اے لوگو!تمہارا مو لا و نبی کون ہے ؟لوگوں نے بیساختہ کہا۔
آپ ۖ کا خدا ہمارا مو لا ہے اور آپ ۖ ہمارے نبی ہیں ،اور آپ ۖ ہم سے کسی مخالفت کا مشاہدہ نہیں کریں گے۔
اس وقت حضور نے مو لائے کا ئنات سے فرمایا:اے علی کھڑے ہوجائو کیونکہ میں نے تم کو اپنے بعد کے لئے امام اور ہادی منتخب کر لیا ہے۔
جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی بھی مو لا ہیں تو اُس کے سچے پیروکار اوردوست دارہوجائو۔
..............
١۔الغدیر، جلد ٢،صفحہ ٣٤۔
٢۔مسند احمد، جلد ٤،صفحہ ٢٨١۔
٣۔الغدیر، جلد ١،صفحہ ٢٧١۔
اُس وقت آپۖ نے دعا فرما ئی: خدا یا علی کے دوستدار کو دوست رکھ اور علی کے دشمن کو دشمن رکھ''
علامہ علا ئلی کے بقول بیشک غدیر خم میں امام کی بیعت کرنا رسالتِ اسلام کا جزء ہے جس نے اس کا انکار کیااس نے اسلام کا انکار کیا ۔

ابدی غم
جب نبی اپنے پروردگار کی رسالت اور امیر المو منین کو اس امت کا رہبر و مرجع معین فرماچکے تو روز بروز آپ کمزور ہوتے گئے ،آپ ۖ کو شدید بخار ہوگیا،آپ ۖ چادر اوڑھے ہوئے تھے جب آپ ۖ کی ازواج نے اپنے ہاتھ سے نبی ۖکے ہاتھ کو دیکھااسوقت بخار کی حرارت کااحساس ہوا،(١)جب مسلمانوں نے آنحضرت ۖکی عیادت کی توآپ ۖ نے ان کو اپنی موت کی خبر دی، اور ان کو یوں دائمی وصیت فرما ئی : ''ایھا الناس،یوشک أَنْ اقبض قبضاً سریعاً فینطلق ب وقدمت الیکم القول مَعْذِرَةً اِلَیْکُمْ،اَلَااِنِّْ مُخَلِّفُ فیکم کِتاب اللّٰہ عزَّوَجلَّ وَعِتْرَتِْ اَھْلَ بَیْتِْ ۔۔۔' '۔
''اے لوگو ! عنقریب میں داعی اجل کو لبیک کہنے والا ہوں ۔۔۔آگاہ ہوجائو میں تمہارے درمیان اللہ عز و جلّ کی کتاب اور اپنی عترت اپنے اہل بیت کو چھوڑے جا رہا ہوں ''۔
موت آپ سے قریب ہو تی جا رہی تھی ،آپ کو واضح طور پر یہ معلوم تھا کہ آپ ۖ کے اصحاب کا ایک گروہ آپ ۖ کے اہل بیت سے خلافت چھیننے کے سلسلہ میں جد و جہد کر رہا ہے، آپ ۖ نے ان سے شہر مدینہ کو خالی کرانے میں بہتری سمجھی ،ان کو غزوئہ روم کیلئے بھیجنا چا ہا ،لشکر تیار کیا گیا ،جس کی ذمہ داری نوجوان اسامہ بن زید کو سونپی گئی ،بڑے اصحاب اس میں شامل ہونے سے کترانے لگے ،انھوں نے اپنے مشورہ کے تحت لشکر تیار کیاکیونکہ ان کا اُس لشکر سے ملحق ہونا دشوار تھا ،اس وقت رسول اللہۖ منبر پر تشریف لے گئے اور ان سے یوں خطاب فرمایا :''نَفِّذُ وْا جَیْشَ اُسَامَةَ ۔۔''،''لَعَنَ اللّٰہُ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْ جَیْشِ اُسَامَةَ ۔۔''۔ ''اسامہ کے لشکر سے جا کر ملحق ہو جاؤ ''، '' جس نے اسامہ کے لشکر سے تخلف کیا اس پر خدا کی لعنت ہے ''۔
..............
١۔البدایہ والنہایہ، جلد ٥،صفحہ ٢٦۔
نبی ۖ کی اس طرح سخت انداز میں کی گئی ان نصیحتوں کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوا ،اور انھوں نے نبی کے فرمان پر کان نہیں دھرے ، اس سلسلہ میں اہم بحثوں کو ہم نے اپنی کتاب ''حیاةالامام الحسن '' میں بیان کر دیا ہے ۔

جمعرات ،مصیبت کا دن
نبی اکرم ۖ نے اپنے وصی اور باب مدینة العلم کے لئے غدیر کے دن کی بیعت اور شوریٰ کے دروازوں کو بند کرنے کے لئے یہ بہتر سمجھا اورآپ ۖ نے فرمایا :''اِئتُوْنِیْ بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاةِ لَاَکْتُبَ لَکُمْ کِتَاباً لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ اَبَداً ۔۔۔''۔
''مجھے کاغذ اور قلم لا کر دو تاکہ میں تمہارے لئے ایسا نوشتہ تحریر کردوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو ' '۔
مسلمانوں کے لئے یہ بہت بڑی نعمت تھی ،سرور کا ئنات اس طرح اپنی امت کو گمراہی سے بچنے کی ضمانت دے رہے تھے تاکہ امت ایک ہی راستہ پر چلے جس میں کسی طرح کا کو ئی بھی موڑ نہ ہو، امت اسلامیہ کی ہدایت اور اصلاح کے لئے اس نوشتہ سے بہتر کو نسا نوشتہ ہو سکتا ہے ؟یہ نوشتہ علی کے بارے میں آپ کی وصیت اور اپنے بعد امت کے لئے ان کے امام ہونے کے سلسلہ میں تھا ۔
بعض اصحاب ،نبی ۖ کے مقصد سے با خبر تھے کہ نبی اس نوشتہ کے ذریعہ اپنے بعد علی کو اپنا خلیفہ بنا نا چا ہتے ہیں ،لہٰذا اس بات کی یہ کہکر تردید کر دی:''حسبناکتاب اللّٰہ ۔۔۔''ہمارے لئے کتاب خدا کافی ہے ۔۔۔''
اس قول کے سلسلہ میں غور و فکر کرنے والے اس کے کہنے والے کی انتہا تک پہنچ جا ئیں گے کیونکہ اس کو مکمل یقین ہو گیا کہ نبی اس نوشتہ کے ذریعہ اپنے بعد علی کو خلیفہ بنانا چا ہتے ہیں اور اگر اس کو یہ احتمال بھی ہوتا کہ نبی سرحدوں یا کسی دینی شعائرکی حفاظت کے بارے میںوصیت کر نا چا ہتے ہیں تو اس میں یہ کہنے کی ہمت نہ ہو تی ۔
بہر حال حاضرین میں بحث و جدال ہونے لگا ایک گروہ کہہ رہا تھا کہ نبی ۖ کے حکم کی تعمیل کی جا ئے اور دوسرا گروہ نبی اکرم ۖاو رنوشتہ کے درمیان حائل ہوناچاہتا تھا ،کچھ امہات مو منین اور بعض عو رتیں نبی کے آخری وقت میں آنحضرت ۖ کے حکم کے سامنے اس طرح کی جرأت سے منع کر تے ہوئے کہہ رہی تھیں : کیا تم رسول اللہ ۖ کا فرمان نہیں سن رہے ہو ؟ کیا تم رسول اللہ ۖ کے حکم کو عملی جامہ نہیں پہنائوگے ؟
اس جنگ و جدل کے بانی عمر نے عورتوں پر چیختے ہوئے کہا :اِنَّکُنَّ صویحبات یوسف اذامرض عصرتن أعینکنَّ،واذاصحّ رکبتن عنقہ ۔''تم یوسف کی سہیلیاں ہوجب وہ بیمار ہوجاتے ہیں تو تم رونے لگتی ہو اور جب وہ صحت مند ہوجاتے ہیں تو ان کی گردن پر سوار ہو جا تی ہو ''
رسول اسلام ۖ نے اس کی طرف دیکھ کر فرمایا:''ان کو چھوڑ دو یہ تم سے بہتر ہیں ۔۔۔''۔
حاضرین کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا عنقریب تھا کہ نبی اپنے مقصد میں کا میاب ہوجائیں تو بعض حاضرین نبی کے اس فعل میںحا ئل ہو تے ہوئے کہنے لگے :''نبی ۖ کو ہذیان ہو گیا ہے''۔(١)
نبی اکرم ۖ کے سامنے اس سے بڑی اور کیا جرأت ہو سکتی ہے ،مر کز نبوت پر اس سے زیادہ اور کیا ظلم و ستم اور زیاد تی ہو سکتی ہے کہ نبی پر'' ہذیان ہو نے کی تہمت لگا ئی جائے ،جن کے بارے میں خدا فرماتا ہے : ( مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی ۔وَمَا یَنْطِقُ عَنْ الْہَوَی ۔ِنْ ہُوَ ِلاَّ وَحْ یُوحَی۔ عَلَّمَہُ شَدِیدُ الْقُوَی)۔(٢)
''تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا،اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کر تا ہے ،اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہو تی رہتی ہے ،اسے نہایت طاقت والے نے تعلیم دی ہے ''۔
(معاذاللہ )نبی کو ہذیان ہوگیا ہے جن کے متعلق خداوند عالم فرماتا ہے :( ِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ کَرِیمٍ ۔ ذِ قُوَّةٍ عِنْدَ ذِ الْعَرْشِ مَکِینٍ )۔(٣)
''بیشک یہ ایک معزز فرشتے کا بیان ہے ،وہ صاحب قوت ہے اور صاحب عرش کی بارگاہ کا مکین ہے ''۔
..............
١۔یہ واقعہ تمام مو رخین نے دلیل کے ساتھ نقل کیا ہے ،بخاری نے اس واقعہ کو متعدد مر تبہ جلد ٤،صفحہ ٦٨، ٦٩۔جلد ٦ ،صفحہ ٨میں نقل کیا ہے لیکن اس کے قائل نام نہیں بیان کیا ۔نہایہ ابن اثیراور شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید،جلد ٣، صفحہ ١١٤ میں اور دوسرے راویوں نے اس واقعہ کو نقل کرنے والوں کے نام بیان کئے ہیں ۔
٢۔سورئہ نجم ،آیت ٢۔٥۔
٣۔سورئہ تکویر ،آیت ١٩۔٢٠۔
قارئین کرام! ہمیں اس واقعہ کو غور کے ساتھ دیکھنا چا ہئے جذبات سے نہیں ،کیونکہ اس کا تعلق ہمارے دینی امور سے ہے ،اس سے ہمارے لئے حقیقت کا انکشاف ہو تا ہے اور اسلام کا مقابلہ کرنے والوں کے مکر پر دلیل قائم ہو تی ہے ۔
بہر حال ابن عباس امت کے نیکو کار افراد میں سے ہیںجب ان کے سامنے اس واقعہ کا تذکرہ ہواتو ان کا دل حزن و غم اور حسرت و یاس سے پگھل کر رہ گیا وہ رونے لگے یہاں تک کہ ان کے رخساروں پر
مو تیوں کی طرح آنسو کے قطرے بہنے لگے اور وہ یہ کہتے جارہے تھے :جمعرات کا دن، جمعرات کے دن کیاہو گیا ،رسول اللہ ۖ کا فرمان ہے :''اِئتُوْنِْ بِالْکَتِفِ وَالدَّوَاةِ لَاَکْتُبَ لَکُمْ کِتَاباً لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَہُ اَبَداً ۔۔۔''۔
''مجھے کاغذ اور قلم لا کر دو تاکہ میں تمہارے لئے ایسا نوشتہ تحریر کردوں جس کے بعد تم کبھی گمراہ نہ ہو'' مجمع نے جواب دیا : رسول اللہ ۖ کو ہذیان ہو گیا ہے ۔(العیاذ باللہ )(١)
سب سے زیادہ یہ گمان کیا جا رہا تھا کہ اگر نبی ۖ امام کے حق میں کو ئی نو شتہ تحریر فرمادیتے تو لکھنے سے کو ئی فائدہ نہ ہوتا،اس لئے انھوں نے نبی ۖ کی کو ئی پروا نہ کر تے ہوئے ان پرہذیان کی تہمت لگا دی اور واضح طور پر نبی کی قداست کومجروح کر دیا۔

جنت کا سفر
اب رسول ، لطف الٰہی سے آسمان کی طرف رحلت کر نے والے تھے ،جس نور سے دنیا منور تھی وہ جنت کی طرف منتقل ہونے جا رہا تھا ،ملک الموت آپ ۖ کی روح کو لینے کیلئے رسولۖ سے قریب ہو رہے تھے، لہٰذا آپ ۖ نے اپنے وصی اور اپنے شہر علم کے دروازے سے مخاطب ہو کر فر مایا :
''ضَعْ رَاسِیْ فِْ حِجْرِکَ، فَقَدْ جَائَ اَمْرُاللّٰہِ،فَاِذَافَاضَتْ نَفْسِْ فَتَنَاوَلْھَا،وَامْسَحْ بِھَا وَ جْھَکَ،ثُمَّ وَجِّھْنِْ الیٰ الْقِبْلَةِ،وَتَوَلَّ اَمْرِْ،وَصَلِّ عَلَیَّ اَوَّلَ النَّاسِ،وَلَاتُفَارِقْنِْ حتّی
..............
١۔مسند احمد، جلد ١،صفحہ ٣٥٥۔
تَوَارِیْنِ فِْ رَمْسِْ وَاسْتَعْنِ بِاللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ ''۔
''میرا سر اپنی آغوش میں رکھ لو ،اللہ کا امر آچکا ہے جب میری روح پرواز کرجائے تو مجھے رکھ دینا،اس سے اپنا چہرہ مس کرنا،پھر مجھے رو بقبلہ کر دینا،تم میرے ولی امر ہو ،تم مجھ پر سب سے پہلے صلوات بھیجنے والے ہو ،اور مجھے دفن کرنے تک مجھے نہ چھوڑنااور اللہ سے مدد مانگو''۔
امام نے نبی کا سر مبارک اپنی گود میں رکھا ،آنحضرتۖ کا داہنا ہاتھ تحت الحنک سے ہٹا کر سیدھا کیا ، ابھی کچھ دیر نہ گذری تھی کہ آپ کی عظیم روح پرواز کر گئی اور اما م نے آنحضرت ۖکے چہرئہ اقدس پر اپنا ہاتھ پھیرا ۔(١)
زمین کانپ گئی ،نو رعدالت خاموش ہو گیا ۔۔۔غم و اندوہ کی دنیا میں یہ کیسا یاد گار دن تھا ایسا دن کبھی نہ آیا تھا ۔
مسلمانوں کی عقلیں زائل ہوگئیں ،مدینہ کی بزرگ عورتوں نے اپنے چہروں پر طمانچے مار مار کر رونا شروع کیا وہ چیخ چیخ کر رو رہی تھیں،امہات المومنین نے اپنے سروں سے چا دریں اُتار دیں،وہ اپنا سینہ پیٹ رہی تھیں اور انصار کی عورتیں چیخ چیخ کر اپنے حلق پھاڑے ڈال رہی تھیں ۔ (٢)
سب سے زیادہ رنجیدہ و غمگین اہل بیت اور آپ ۖ کی جگر گو شہ فاطمة الزہرا سلام اللہ علیہا تھیں، آپ اپنے پدر بزرگوار کے لاشہ پر رو رو کر یوں بین کر رہی تھیں :
''واابتاہ '' !''اے پدر بزرگوار''۔
''وانبّ رحمتاہ ''۔''اے نبی رحمت ''۔
''الآن لایات الوح ''۔
''اب جبرئیل وحی لے کر نہیں آئیں گے ''۔
..............
١۔مناقب، جلد ١،صفحہ ٢٩۔اس مطلب پر متعدد متواتر احا دیث دلالت کر تی ہیں کہ جب نبی اکرم ۖ کی وفات ہو ئی تو آپ ۖ کا سر اقدس علی کی آغوش میں تھا ملاحظہ کیجئے طبقات ابن سعدجلد ٢صفحہ ٥١۔مجمع الزوائدجلد ١صفحہ ٢٩٣۔کنز العمال، جلد ٤،صفحہ ٢٥٥۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ٩٤۔ریاض النضرہ ،جلد ٢،صفحہ ٢١٩۔
٢۔انساب الاشراف ،جلد ١،صفحہ ٥٧٤۔
''الآن ینقطع عنَّاجبرئیلُ ''۔
''اب ہم سے جبرئیل کا رابطہ ختم ہو جا ئیگا''۔
''اَللّٰھُمَّ اَلْحِقْ روح بروحہ،وَاشفعن بالنظرالیٰ وجھہ،ولَاتَحرِمْنِْ اَجْرَہُ وَشفاعتَہُ یَوْمَ القِیَامَةِ ''(١)۔
''پروردگار میری روح کو میرے پدر بزرگوار سے ملحق کر دے ،اور میری میرے پدر بزرگوار کے چہرے پر نظر ڈالنے سے شفاعت کرنا ،اور مجھے قیامت کے دن اس کے اجر اور ان کی شفاعت سے محروم نہ کرنا ''۔
آپ آنحضرت ۖ کے جنازہ کے گرد گھوم رہی تھیںاور یوں خطاب کر رہی تھیں:
''وَاَبَتَاہُ ! الیٰ جِبْرِئِیْلَ اَنْعَاہُ ''۔اے پدر بزرگوار !جبرئیل نے آپ ۖ کی موت کی خبر دی ۔
''وَاَبَتَاہُ ! جَنَّةُ الْفِرْدَوْسِ مَاوَاہُ ''۔اے پدر بزرگوار آپ کا ملجاء و ماوای جنت الفردوس ہے ۔
''وَاَبَتَاہُ! أَجَابَ رَبّاًدَعَاہُ ''۔(٢)اے پدر بزرگوارآپۖ نے اپنے پرورگار کی آواز پر لبیک کہی۔
اورحیرانی اور اس عالم میںکہ آپ مصیبت کی بنا پرحواس باختہ ہو گئی تھیں آپ کی ایسی حالت ہو گئی تھی لگتا تھا کہ آ پ کے جسم سے روح مفارقت کرگئی ہو ۔

آنحضرت ۖ کے جنازہ کی تجہیز
امام اپنے چچا زاد بھا ئی کے جنازے کی تجہیز کر رہے تھے، حالانکہ آپ کی انکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری تھا ، آپ آنحضرت ۖ کے جسم اقدس کو غسل دیتے وقت کہتے جا رہے تھے: ''بِاَبِیْ اَنْتَ وَاُمِّیْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ،لَقَدْ اِنْقَطَعَ بِمَوْتِکَ مَالَمْ یَنْقَطِعْ بِمَوْتِ غَیْرِکَ مِنَ النَّبُوَّةِ وَالاَنْبَائِ وَاَخْبَارِالسَّمَائِ خَصَّصَتْ حَتَّیٰ صِرْتَ مُسَلِّیاًعَمَّنْ سِوَاکَ وَعَمَّمْتَ حَتَّیٰ صَارَالنَّاسُ فِیْکَ سِوَائ۔وَلَوْلَا اَنَّکَ اَمَرْتَ بِالصَّبْرِ،وَنَھَیْت عنِ الْجَزَ عِ لَا َنْفَدْنَا عَلَیْکَ مَائَ الشَّئوُنِ وَلَکَانَ الدَّاء
..............
١۔تاریخ خمیس، جلد ٢،صفحہ ١٩٢۔
٢۔سیر اعلام النبلائ، جلد ٢،صفحہ ٨٨۔سنن ابن ماجہ، جلد ٢،صفحہ ٢٨٧۔٢٨٨۔اس میں حماد بن زید سے روایت ہے کہ : میں نے راوی حدیث کی اس حدیث کو بیان کرتے وقت روتے اور اس کی حالت متغیر ہو تی دیکھی ۔
مُمَاطِلاً، وَالْکَمَدُ مُخَالِفاً'' ۔ (١)
''میرے ماں باپ آپ پر فدا ہو جا ئیں یا رسول اللہ آپ کی موت سے وہ تمام چیزیں منقطع ہوگئیں جو آپ کے علاوہ کسی نبی کی موت سے منقطع نہ ہو ئیں، جیسے آسمانی خبریں ،آپ اس طرح سمٹے کہ تمام لوگوں سے گو شہ نشین ہو گئے اور اس طرح پھیلے کہ لوگ آپ کی نظر میں یکساں ہو گئے، اگر آپ نے صبر کا حکم نہ دیا ہوتا اور نالہ و فریاد کر نے سے نہ روکا ہوتاتو روتے روتے ہماری آنکھوں سے آنسو ختم ہو گئے ہوتے اور ہم بیمارہوجاتے''
غسل دینے کے بعد آپ نے نحضرت ۖ کے جسم اطہر کو کفن پہنایا اور تابوت میں رکھا ۔

جسم اطہر پر نماز جنازہ
سب سے پہلے اللہ نے عرش پر آنحضرت ۖکی نماز جنازہ پڑھی ،اس کے بعد جبرئیل ،پھر اسرافیل اور اس کے بعد ملائکہ نے گروہ گروہ (٢)کر کے نماز جنازہ ادا کی ،جب مسلمان نبی ۖ کے جنازہ پر نماز جنازہ پڑھنے کیلئے بڑھے تو امام نے اُن سے فرمایا :''لایَقُوْمُ عَلَیْہِ اِمامُ مِنْکُمْ،ھُوَ اِمامُکُمْ حَیّاًوَمَیِّتاً''،''تم میں سے کو ئی امامت کے لئے آگے نہ بڑھے اس لئے کہ آپ حیات اور ممات دونوں میں امام ہیں ''لہٰذا وہ لوگ ایک ایک گروہ کر کے نماز ادا کر رہے تھے ،اور ان کا کو ئی پیش امام نہیں تھا ، مخصوص طور پر مولائے کائنات حضرت علی نے نماز جنازہ پڑھا ئی اور وہ لوگ صف بہ صف نماز پڑھ رہے تھے اور امام کے قول کو دُہراتے جا رہے تھے جس کی نص یہ ہے:''السَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہُ۔۔اَللَّھُمَّ اِنّاَ نَشْھَدُ اَنَّہُ قَدْ بَلَّغَ مَااُنْزِلَ اِلَیْہِ،وَنَصَحَ لاُمَّتِہِ،وَجَاھَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ حَتّیٰ اَعَزَّاللّٰہَ دِیْنَہُ وَتَمَّتْ کَلِمَتُہُ۔اَللَّھُمَّ فَاجْعَلْنَامِمَّنْ یَتَّبِعَ مَااَنْزَلَ اِلَیْہِ،وَثَبِّتْنَا بَعْدَہُ، وَاجْمَعْ بَیْنَنَابیْنََہُ''
''سلام ہو آپ پر اے اللہ کے نبی ۖ اور اس کی رحمت اور برکت ہو آپ ۖ پر،۔۔۔بیشک ہم گو ا ہی دیتے ہیں کہ جو کچھ آپ ۖ پر نازل ہوا وہ آپ ۖ نے پہنچا دیا،امت کی خیر خوا ہی کی ،اللہ کی راہ میں جہاد کیا یہاں تک کہ اللہ نے آپ کے دین کو قوی اور مضبوط بنا دیا،اور اس کی بات مکمل ہو گئی ،اے خدا ہم کوان لوگوں میں سے قرار دیا جن پر تو نے نازل
..............
١۔نہج البلاغہ، جلد ٢،صفحہ ٢٥٥۔
٢۔حلیة الاولیائ، جلد ٤، صفحہ ٧٧۔
کیا اور انھوں نے اس کی اتباع کی ،ہم کو بعد میں اس پر ثابت قدم رکھ ،اور ہم کو ان کو آخرت میں ایک جگہ جمع کرنا ''
نماز گذار کہہ رہے تھے :آمین۔(١)
مسلمان نبی اکرم ۖکے جنازے کے پاس سے گذرتے ہوئے ان کو وداع کرتے جارہے تھے ، جو آنحضرتۖ سے قریب تھے اُن پر حزن و ملال کے آثار نمایاں تھے کیونکہ ان کو نجات دلانے والا اور ان کامعلم دنیا سے اٹھ چکا تھا ،جس نے ان کیلئے بڑی محنت و مشقت کے ساتھ منظم شہری نظام کی بنیاد رکھی،اب وہ داعی اجل کو لبیک کہہ چکا تھا ۔

جسم مطہر کی آخری پناہ گاہ
جب مسلمان اپنے نبی کے جسم اقدس پر نماز پڑھ چکے تو امام نے نبی اکر م ۖ کیلئے قبر کھودی ، اور قبر کھودنے کے بعدجسم اطہر کو قبر میں رکھاتواُ ن کی طاقت جواب دے گئی ،آپ قبر کے اندر کھڑے ہوئے قبر کی مٹی کو اپنے آنسووں سے تر کرتے ہوئے فرمایا :''اِنَّ الصَّبْرَلجَمِیْل اِلَّاعَنْکَ،وَاِن الْجَزَعَ لقَبِیْحُ اِلَّاعَلَیْکَ،وَاِنَّ الْمُصَابَ بِکَ لَجَلِیْلُ،وَاِنَّہُ قَبْلَکَ وَبَعْدَکَ لَجَلَلُ ''۔(٢)
''آپ ۖ کے علاوہ سب پر صبر کرنا جمیل ہے ،آپ کے علاوہ پر آہ و نالہ کرنا درست نہیں ہے ، آپ ۖ پر مصاب ہونا جلالت و بزرگی ہے اور بیشک اس میں آپ ۖ سے پہلے اور آپ ۖ کے بعد بزرگی ہے ''۔
اس یادگار دن میں عدالت کے پرچم لپیٹ دئے گئے ،ارکان حق کا نپ گئے ،اور کا ئنات کو نورانی کرنے والا نور ختم ہو گیا ،وہ نور ختم ہوگیا جس نے انسانی حیات کی روش کواس تاریک واقعیت سے جس میں نور کی کو ئی کرن نہیں تھی ایسی با امن حیات میں بدل دیاجو تمدن اور انصاف سے لہلہا رہی تھی اس میں مظلوموں کی آہیں اور محروموں کی کراہیں مٹ رہی تھیں ،خدا کی نیکیاں بندوں پر تقسیم ہو رہی تھیںجن نیکیوں کا کو ئی شخص اپنے لئے ذخیرہ نہیں کر سکتا ۔
..............
١۔کنزالعمال، جلد٤ ،صفحہ ٥٤۔
٢۔نہج البلاغہ، صفحہ ٤٠٩۔