خوشبوئے حیات
 

دوسرے دستہ کی روایات
ہم بعض وہ روایات نقل کرتے ہیں جو نبی اکرم ۖ سے حضرت علی کی شان میں منقول ہو ئی ہیں جن کوآپ کے لئے کرامت شمار کیا جاتا ہے ۔

دار آخرت میں امام کا مقام
نبی اکرم ۖ سے کچھ وہ روایات نقل ہو ئی ہیں جن کو اللہ نے دار آخرت میںعلی کیلئے کرامت شمار کیا ہے ان میں سے بعض روایات درج ذیل ہیں :

١۔امام لواء حمد کو اٹھانے والے
صحاح میں نبی اکرم ۖ سے متعدد احادیث نقل ہو ئی ہیں کہ خدا وند عالم قیامت کے دن علی کو لوائے حمد اٹھانے کا شرف عطا کر ے گا ،یہ ایسا بلند مرتبہ ہے جو آپ کے علاوہ کسی اور کو نہیں عطا کیا گیا ۔ ہم ان میں سے بعض روایات ذیل میں نقل کرتے ہیں :
رسول اللہ ۖ نے حضرت علی کیلئے فرمایا :''تم قیامت کے دن میرے امام ہو ،مجھے پرچم دیا جائے گا ، میںاسے تمہارے حوالہ کر دوں گا ،اور تم ہی لوگوں کو میرے حوض کے پاس سے دور کروگے ''۔

٢۔ امام صاحب حوض نبی ۖ
نبی اکرم ۖسے متواتر احا دیث نقل ہو ئی ہیں کہ امام نبی کے اس حوض کے مالک ہوں گے جو اپنے گوارا
میٹھے اور خو بصورت نظاروں کی وجہ سے جنت کی تمام نہروں سے عظیم ہو گی ،اس کا پانی صرف امام کے غلاموں اور چاہنے والوں کو ہی نصیب ہو گا ،ہم ذیل میں اس کے متعلق بعض روایات نقل کررہے ہیں :
رسول اللہ ۖ کا فرمان ہے :علی بن ابی طالب قیامت کے دن میرے حوض کے مالک ہوں گے ،اس میں آسمان کے ستاروں کی تعدادکے مانند ستارے ہیں اور وہ جابیہ اور صنعائ(پہاڑیوں) کے درمیان کی دوری کی طرح وسیع ہو گی ''۔(١)

امام جنت و جہنم کو تقسیم کرنے والے
سب سے بڑی شرافت و بزرگی جس کا تاج رسول اسلام ۖنے باب مدینة العلم کے سرپر رکھا وہ یہ ہے کہ امام جنت و جہنم کی تقسیم کر نے والے ہیں ۔ابن حجر سے روایت ہے کہ آپ نے شوریٰ کے جن افراد کا انتخاب کیا تھا ان سے فرمایا:''میں تمھیں خدا کی قسم دیتا ہوں یہ بتائو کیا تم میں کو ئی ایسا ہے جس کے لئے رسول اسلام ۖ نے فرمایا ہو :''اے علی قیامت کے دن آپ میرے علاوہ جنت و جہنم کے تقسیم کرنے والے ہو؟۔انھوں نے کہا : خدا کی قسم ،ایسا کو ئی نہیں ہے ''۔
ابن حجر نے اس حدیث پر جو حاشیہ لگایا اس کا مطلب امام رضا علیہ السلام سے مروی حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ رسول اللہ ۖ نے امام علی کے لئے فرمایا ہے :تم قیامت میں جنت و جہنم کی تقسیم کر نے والے ہودوزخ خود کہے گی یہ میرے لئے اور یہ آپ کے لئے ہے ''۔(٢)
یہ مطلب بڑی تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ خدا کے او لیاء میں سے اسلام سے پہلے اور اسلام کے بعد یہ مرتبہ علی کے علاوہ کسی کو نہیں ملا، اس کرامت کی کو ئی حدنہیں ہے ،اللہ نے ان کو یہ کرامت اس لئے عطا کی ہے کہ علی نے اسلام کی راہ میں بہت زیادہ جد وجہد کی اور خود کو حق کی خدمت کیلئے فنا کر دیا ہے ۔

عترت اطہار کی فضیلت کے بارے میں نبی ۖ کی احادیث
عترت اطہار کی فضیلت ،ان سے محبت اور متمسک ہونے کے سلسلہ میں نبی سے متواتر احادیث
نقل ہو ئی ہیں جن میں سے بعض احا دیث یہ ہیں :
..............
١۔مجمع الزوائد، جلد ، ١صفحہ ٣٦٧۔
٢۔صواعق محرقہ، صفحہ ٧٥۔

حدیث ثقلین
حدیث ثقلین پیغمبر اسلام ۖ کی دلچسپ اور سند کے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح اور مشہورحدیث ہے ،مسلمانوں کے درمیان سب سے زیادہ شائع و مشہور ہو ئی ہے ،اس کو صحاح اور سنن میں تحریر کیا گیا ہے ،علماء نے قبول کیا ہے اور یہاںپر یہ ذکرکردینابھی مناسب ہے کہ نبی اکرم ۖ نے اس حدیث کو متعدد مقامات پر بیان فرمایا ہے :
زید بن ارقم سے روایت ہے کہ نبی اکرم ۖنے فرمایا ہے :''اِنّ تَارِک فِیْکُمُ الثَّقَلَیْن مَااِن تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَالَنْ تَضِلُّوا بَعْدِ ،اَحَدُھُمَا اَعْظَمُ مِنَ الآخَرِ:کِتَابَ اللّٰہِ،حَبْل مَمْدُوْد مِنَ السَّمَائِ اِلَی الاَرْضِ،وَعِتْرَتِْ اَہْلَ بَیْتِْ،وَلَنْ یَفْتَرِقَاحتیّٰ یَرِدَاعلََّ الْحَوْضَ، فَانظُرُوْا کَیْفَ تُخْلُفُوْنِْ فِیْھِمَا''۔(١)
''میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزں چھوڑے جا رہا ہوں اگر تم ان دونوں سے متمسک رہے تو ہر گز گمراہ نہیں ہوگے ،ان میں ایک دوسرے سے اعظم ہے :اللہ کی کتاب آسمان سے زمین تک کھنچی ہو ئی رسی ہے ،میری عترت میرے اہل بیت ہیں اور وہ ہر گز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض کو ثر پر وارد ہوں ،پس میں دیکھوں گا کہ تم میرے بعد ان سے کیسا برتائو کروگے ''؟۔
نبی اکرم ۖ نے یہ حدیث حج کے موقع پر عرفہ کے دن بیان فرما ئی ،جابر بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے : میں نے حج کے مو قع پر عرفہ کے دن رسول اللہ کوان کے ناقہ قصواپر سوار دیکھا آپ یہ خطبہ دے رہے تھے :اے لوگو !،میں نے تمہارے درمیان اللہ کی کتاب اور اپنی عترت اوراپنے اہل بیت کو چھوڑ دیا ہے، اگر تم ان سے متمسک رہے تو ہر گز گمراہ نہیں ہو گے ''۔(٢)
نبی بستر مرگ پر تھے، لہٰذاآپ ۖ نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ''اَیُّھَاالنَّاس
..............
١۔صحیح ترمذی، جلد ٢، صفحہ ٣٠٨۔
٢۔صحیح ترمذی ، جلد ٢، صفحہ ٣٠٨۔کنز العمال، جلد ١، صفحہ ٨٤۔
یُوْشکُ اَنْ اُقْبِضَ قَبْضاًسَرِیعاًفَیُنْطَلَقَ بِْ،وَقَدْ قَدَّ مْتُ اِلَیْکُمُ الْقَوْلَ مَعْذِرَةً اِلَیْکُمْ آلَا اِنِّْ مُخَلِّفُ فِیْکُمْ کِتَابَ رَبِّْ عَزَّوَجَلَّ ،وَعِتْرَتِْ اَھْلَ بَیْتِْ ''۔
''اے لوگو!مجھے عنقریب قبض روح کے ذریعہ خدا کی بارگاہ میں جانا ہے میں اس سے پہلے تمہارے لئے بیان کرچکا ہوںآگاہ ہوجائو کہ میں تمہارے درمیان اپنے پروردگار کی کتاب اور اپنی عترت اپنے اہل بیت کو چھوڑ کر جا رہا ہوں ''۔
اس کے بعد آپ ۖ نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''یہ علی قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے ،یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوں گے ''۔(١)

حدیث سفینہ
ابو سعید خدری سے مر وی ہے کہ میں نے پیغمبر اکرم ۖ کو یہ فرماتے سنا ہے :بیشک ۔ تمہارے درمیان میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کے مانندہے ،جو اس میں سوار ہو گیا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے رو گردانی کی وہ ہلاک ہوگیا ،بیشک تمہارے درمیان میرے اہل بیت کی مثال بنی اسرائیل میں باب حطّہ کے مانند ہے جو اس میں داخل ہوا وہ بخش دیا گیا ''۔(٢)
اس حدیث شریف میں اس بات کی حکایت کی گئی ہے کہ عترتِ طاہرہ سے متمسک رہنا واجب ہے اسی میں امت کے لئے زندگی کے نشیب و فراز میں نجات اور غرق ہونے سے محفوظ رہنا ہے ،پس اہل بیت نجات کی کشتیاں اور بندوں کا ملجأ و ماویٰ ہیں ۔
امام شرف الدین( خدا ان کے درجات بلند کرے ،)کا کہنا ہے :''اہل بیت کے کشتی ٔ نوح کے مانند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس نے دنیا و آخرت میں اِن کو اپنا ملجأ و ماویٰ قرار دیا ،اوراپنے فروع و اصول ائمہ معصومین سے حاصل کئے وہ دوزخ کے عذاب سے نجات پا گیا ،اور جس نے اُن سے روگردانی کی وہ اس کے مانند ہے جس نے طوفان کے دن اللہ کے امر سے بچنے کیلئے پہاڑ کی چوٹی پر پناہ لی اور غرق ہوگیا ، اس
..............
١۔صواعق محرقہ ، صفحہ ٧٥۔
٢۔مجمع الزوائد، جلد ٩، صفحہ ١٦٨۔مستدرک، جلد ٢، صفحہ ٤٣۔تاریخ بغداد، جلد ٢، صفحہ ١٢٠۔حلیة ، جلد ٤، صفحہ ٣٠٦۔ذخائر ، صفحہ ٢٠۔
کی منزل آب ِ حمیم ہے جو بہت ہی گرم پا نی ہے اور جس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔
ائمہ کو باب حطّہ سے اس لئے تشبیہ دی گئی ہے کہ باب حطّہ خدا کے جلال کے سامنے تواضع کا مظہرتھاجو بخشش کا سبب ہے ۔یہ وجہ شبہ ہے ،اور ابن حجر نے اِس اور اِس جیسی دوسری احادیث کو بیان کرنے کے بعد کہا ہے :
ائمہ کے کشتی ٔ نوح سے مشابہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جس نے ان سے محبت کی اور ان کے شرف کی نعمت کا شکریہ ادا کرنے کیلئے ان کی تعظیم کی اور ان کے علماء سے ہدایت حاصل کی، اُس نے تاریکیوں سے نجات پا ئی اور جس نے مخالفت کی وہ کفران ِ نعمت کے سمندر میں غرق ہو گیا اور سرکشی کے امنڈتے ہوئے سیلاب میں ہلاک ہو گیا ۔یہاں تک کہ فرمایا:(باب حطّہ ) یعنی ائمہ کی باب حطّہ سے مشابہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جو بھی اس باب ''دروازہ ''یعنی اریحا یا بیت المقدس میں تواضع اور استغفار کے ساتھ داخل ہوگا خدا اس کو بخش دے گا ، اسی طرح اہل بیت سے مودت و محبت کواس امت کی مغفرت کا سبب قراردیا ) ۔(١)

اہل بیت امت کے لئے امان ہیں
نبی اکرم ۖ نے اس امت کیلئے اہل بیت کی محبت کو واجب قرار دیا اور ان سے متمسک رہنے کو امت کیلئے ہلاک ہونے سے امان قرار دیتے ہوئے فرمایا :''ستارے زمین والوں کیلئے غرق ہونے سے امان ہیں اور میرے اہل بیت میری امت میں اختلاف نہ ہونے کیلئے امان ہیں جب عرب کا کو ئی قبیلہ ان کی مخالفت کرے تو اُن میں اختلاف ہو جا ئیگا اور وہ ابلیس کے گروہ میں ہوجائیں گے ''۔(٢)

امام ،جہاد میں نبی ۖ کے ساتھ
نبی اکرم ۖ نے مثبت انداز میں صلح کی دعوت اختیار کی ا س دعوت میں آپ نے اعلان کیا کہ میرا پیغام دین تم کو جنگوں کے عذاب سے نجات دلائے گا،آپ کی یہ دعوت مکہ میں پھیل گئی وہ مکہ جو جاہلیت
..............
١۔مستدرک حاکم، جلد ٣، صفحہ ١٤٩۔کنز العمال، جلد ٦، صفحہ ١١٦۔فیض قدیر اور مجمع الزوائد، جلد ٩، صفحہ ١٧٤میں آیا ہے : ستارے اہل زمین کے لئے امان ہیں اور میرے اہل بیت میری امت کے لئے امان ہیں ''۔
٢۔ریاض النضرہ ، جلد ٢، صفحہ ٢٥٢۔تقریباً یہی روایت صحیح ترمذی جلد ٢، صفحہ ٣١٩ میں آئی ہے ۔سنن ابن ماجہ ، جلد ١، صفحہ ٥٢۔
کی طاقتوں کا مرکز تھا وہ طاقتیں جو قرشیوں کی شکل میں مجسم ہو ئی تھیںان قرشیوں کے نظریات جہالت ، خود غرضی اور انانیت پر مشتمل تھے نبی کے پیغام کی بنا پر ان کے غرور کا بھرم ٹوٹ گیااور ان کاجادو باطل ہوگیا، انھوں نے نبی سے مقابلہ کی ٹھان لی اور نبی پر ایمان لانے والے کوستانے کا فیصلہ کیا ان کو اذیت دینے لگے یہاں تک کہ آپ ۖ کے ماننے والے کو قرشیوں کی سختیوں اور ان کے قتل و غارت سے بچنے کیلئے مجبور ہو کر حبشہ ہجرت کر نا پڑی ،لیکن رسول ۖ اپنے چچا شیخ البطحاء اوران کے فرزند ارجمند امام امیر المومنین کی حمایت میں تھے اپنے چچا ابو طالب کی وفات کے بعد نبی کو کو ئی پناہ دینے والا نہ رہا اسی لئے قریش نے جمع ہوکر آپ ۖ کوقتل کرنا چاہا(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں ) تو آپ ۖ یثرب ہجرت فرماگئے ،آپ ۖ نے اہل یثرب کو اپنے دین کی حمایت کرنے والااور اپنامددگار پایاتوآپ نے قرشیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے قیام کیااور ان کے سامنے بڑی سختی کے ساتھ ڈٹ گئے ،تو کفار قریش نے آپ ۖ کے خلاف میدان جنگ گرم کرنے اور اقتصادی ناکہ بندی کرنے کا فیصلہ کیا۔
امام امیر امو منین رسول اللہ ۖکی جانب سے ایک محکم و مضبوط طاقت بن کر سامنے آئے آپ نے قریش کی طرف سے رسول ۖ پر تھوپی جانے والی تمام جنگیں لڑیں اور رسول اسلام عام طور پر آپ ہی کوجنگ کی قیادت سونپتے تھے ،ہم ذیل میں امام کی طرف سے لڑی جانے والی بعض جنگوں کی طرف اشارہ کر رہے ہیں :

١۔جنگ بدر
واقعہ ٔ بدر اسلام کی مدد ،مسلمانوں کی کھلم کھلا کا میابی اور شرک کی شکست فاش کے طورپر تاریخ میںدرج ہے ،جس میں اللہ نے اپنے بندے اور رسول کو عزت بخشی،آپ ۖ کے دشمنوں کو ذلیل و رسوا کیا ، اس معرکہ کو بہادری کے ساتھ لڑکر سر کرنے والے علی ہی تھے ،آپ کی تلوار موت کا پیغام تھی جس نے مشرکوں اور ملحدوں کے سروں کو کاٹ پھینکا ،آپ نے اتنی ثبات قدمی اور استقامت کے ساتھ جنگیں لڑیں کہ جبرئیل کو بھی آواز دیناپڑی :''لاسیف الَّاذوالفقارِ،وَلَافَتیٰ اَلَّاعَلِیْ ''۔(١)
ہم اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ''حیاةالامام امیر المو منین ''کے دوسرے حصہ میںبیان کرچکے ہیں۔
..............
١۔کنز العمال ، جلد٣،صفحہ ١٥٤ ،وغیرہ

٢۔جنگ احد
قریش جنگ بدر میں اپنی شکست فاش اور بہت زیادہ نقصان ہونے کی وجہ سے بڑے ہی رنج و الم میں تپیدہ تھے ،معاویہ کی ماں ہند بہت زیادہ آہ و فریاد کر رہی تھی ،اس نے قریش کے مردوں اور عورتوں پر جنگ بدر میں قتل ہوجانے والوں پررونا حرام قرار دیدیا تھاتاکہ حزن و اندوہ اُن کے دلوں میںچھپا رہے اوراپنے مقتولین کا انتقام لئے بغیر ختم نہ ہو ، جنگ احد میں قریش کا سردار ابو سفیان تھا، جس کو پہلی مرتبہ اس جنگ میں سرداری ملی تھی ،وہ لوگوں کو رسول اللہ ۖ سے جنگ کرنے کے لئے ابھار رہا تھا ،جنگ کے لئے مال و دولت جمع کر کے اس سے اسلحہ خرید رہا تھا ، قریش رسول ۖ سے جنگ کرنے کے لئے اس کی دعوت پر لبیک کہہ رہے تھے ،قریش نے ابوسفیان کے بھڑکانے کی بنا پرنبی کے افراد سے مقابلہ کا فیصلہ کیااور پوری تیاری کے ساتھ اپنی عورتوں کے ساتھ نکلے تا کہ جنگ میں کھرے اُتریں اُن کی قیادت ہند کر رہی تھی عورتیں دف بجا کر یہ شعر پڑھ رہی تھیں :
وَیْھاً بَنِْ عَبْدِ الدَّارْ
وَیْھاً حُمَاةَ الْاَدْیَارْ

ضَرْباً بِکُلِّ بَتَّارْ

''اے آل عبد الدار آگے بڑھو ! اے وطن کے ساتھیوں آگے بڑھو پوری طاقت کے ساتھ حملہ کرو''۔
اس کے علاوہ ہندہ کا مخصوص ترانہ یہ تھا اور وہ کفارقریش سے بلند آواز سے خطاب کر کے کہہ رہی تھی :
اِنْ تُقْبِلُوْا تُعَانِقْ
وَنَفْرِ شِ النَّمَارِقْ

أَوْ تُدْبِرُوْا نُفَارِقْ
فِرَاقَ غَیْرِ وَامِقْ

''اگرتم آگے بڑھوگے تو ہم تم کو گلے لگا لیں گے اور تمہارے لئے بہترین بستر بچھا ئیں گے اور اگر پیچھے ہٹوگے تو ہمیشہ کے لئے تم سے جدا ہوجا ئیں گے '' ۔
مشرکین کے لشکر کی تعداد تین ہزار تھی اور مسلمانوں کے لشکر میں صرف سات سو آدمی تھے ، مشرکین کے لشکر کی قیادت طلحہ بن ابی طلحہ کررہاتھا جس کے ہاتھوں میں پرچم تھا اور وہ یہ نعرہ لگا رہا تھا : اے محمد کے اصحاب تم یہ گمان کر تے ہو کہ اللہ ہم کو تمہاری تلواروں کے ذریعہ بہت جلد جہنم میں بھیج دے گا ،اور تمھیں ہماری تلواروں کے ذریعہ بہت جلد جنت میں بھیج دے گا ،اب تم میں مجھ سے کون لڑے گا ؟
اسلام کے بہادر امام نے اس کا مقابلہ کرنے کیلئے پہل کی اور ایسی تلوار ماری کہ اس کے دونوں پیرکٹ گئے جس سے وہ زمین پر گر کر اپنے ہی خون میں لوٹنے لگا ۔۔۔
امام نے اُسے اسی کی حالت پر چھوڑدیا،اس کے ٹکڑے ٹکڑے نہیں کئے یہاں تک کہ وہ کچھ دیر بعدخون نکل جانے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا ،مسلمان اُ س کے مرنے سے اتنے ہی خوش ہو ئے جتنے مشرکین اُس کے مرنے سے محزون ہوئے اور سست پڑگئے ،اس کے پرچم کو قریش کے دوسرے افراد نے سنبھالا ،امام نے ان کا مقابلہ کیا ،اپنی تلوار سے اُن کے سروں کو کاٹ ڈالا ، معاویہ کی ماں ہند قریش کے جذبات ابھارکران کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکارہی تھی اور جب ان میں سے کو ئی پیچھے ہٹ جاتاتھا تو اس کوسرمہ اورسلائی دیکر کہتی تھی: توعورت ہے اور سرمہ لگالے ۔(١)
در حقیقت یہ بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ مسلمان شرمناک شکست اور عظیم نقصانات سے روبرو ہوئے جن کی وجہ سے اسلام کا فاتحہ پڑھا جانا قریب تھا،اس کی وجہ یہ تھی کہ لشکر اسلام کی ایک جماعت نے نبی کی جنگی ہدایات پر عمل نہیں کیا،رسول اسلام ۖ نے تیر اندازوں کی ایک جماعت کو عبداللہ بن جبیر(٢) کی قیادت میں ایک پہاڑ پر تعینات کردیا تھا تاکہ وہ پیچھے سے مسلمانوں کی حمایت کرتے رہیں اور ان کو تاکید فر ما دی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہلنا ،ان کے تیر اندازوں نے اپنے تیروں سے قریش کے لشکر کو بہت زیادہ نقصان پہنچایاجس سے قریش اپنا مال اور اسلحہ چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمان مال غنیمت جمع کرنے میں لگ گئے جب تیر اندازوںنے یہ حالت دیکھی کہ مسلمان مال غنیمت اٹھارہے ہیں تو ان سے نہ رہا گیا اور اُن میں سے بعض افراد اپنی جگہ چھوڑ کر مسلمانوں کے ساتھ مال غنیمت اٹھانے میں مصروف ہو گئے انھوں نے نبی کے مقرر کردہ قانون کی مخالفت کی اور اپنی جگہ چھوڑ بیٹھے ،جب خالد بن ولید نے یہ دیکھا تو اُس نے پہاڑ پر باقی بیٹھے ہوئے تیر اندازوں کو قتل کرکے پیچھے سے نبی ۖکے اصحاب پر حملہ کردیااور ان کے کچھ افراد کو قتل کر ڈالا اور مسلمانوں کے لشکر کے بڑے بڑے سرداروں کوپیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا۔
..............
١۔میزان ،جلد ٤،صفحہ ١٢۔
٢۔سیرئہ نبویہ ،جلد ٢،صفحہ٦٨۔

امام ،کا نبی کی حمایت کرنا
مسلمانوں پر شکست کے بادل منڈلانے لگے وہ حیران و پریشان ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے ، ان پر خوف طاری ہو گیا ،انھوں نے نبی کو اللہ کی دشمنوں میں گھراہوا چھوڑ دیا ،آپ ۖکو کئی کاری زخم لگ گئے اورآپ ۖ ایک گڑھے میں گر گئے جو ابو عامر کی سازش سے اسی مقصد کے لئے تیار کرکے مخفی کر دیا گیا تھاتاکہ مسلمان نا دانستہ طور پراس میںگر جا ئیں ،امام رسول اللہ ۖ کے دا ئیں طرف تھے ، آپ نے رسول کا دست مبارک پکڑا اور طلحہ بن عبداللہ نے آپ ۖ کو اٹھایایہاں تک کہ آپ کھڑے ہوگئے (١)نبی اکرم ۖ نے امام سے مخاطب ہو کر فرمایا :یاعلی مافعل الناس ؟'' اے علی لوگوں نے کیا کیا ؟''۔
آپ نے بڑی رنجیدگی کے ساتھ جواب دیا :''انھوں نے عہد توڑ دیا اور پیٹھ پھرا کر بھاگ کھڑے ہوئے ''۔ قریش کے کچھ افراد نے نبی ۖپر حملہ کیا جس کی بناپر نبی ۖ کا دل تنگ ہو گیا آپ ۖ نے علی سے فرمایا : ''اَکْفِنِیْ ھٰؤُلَائِ ''،امام نے اُن پر حملہ کیا ،سفیان بن عوف کے چار بیٹوں اور اس کے گروہ کے چھ آدمیوں کو قتل کیا ،اور بہت جد و جہد کے ساتھ دشمن کی اس ٹولی کو نبی سے دور کیا،ہشام بن امیہ کے دستہ نے نبی پر حملہ کیا تو امام نے اس کو قتل کرڈالا اور اس کا گروہ بھاگ کھڑا ہوا ، ایک اور گروہ نے بشربن مالک کی قیادت میں نبی پر حملہ کیاامام نے اس کو قتل کرڈالا تو اس کا دستہ بھی بھاگ کھڑا ہوا ،اس وقت جبرئیل نے امام کے جہاد اور آپ کے محکم ہونے کے متعلق فرمایا:''علی کے اس جذبہ ایثار وقربانی اور مو اسات سے ملائکہ حیرت زدہ ہیں ''نبی ۖ نے جبرئیل سے فرمایا :' 'علی کو کو ئی چیز نہیں رو ک سکتی کیونکہ علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں ''،اس وقت جبرئیل نے کہا :میں تم دونوں سے ہوں ''۔(٢)
امام بڑی طاقت و قدرت کے ساتھ نبی ۖ کا دفاع کر تے رہے ،آپ کو سولہ ضربیں لگیں اور ہر ضرب زمیں بوس کر دینے والی تھی ،جبرئیل (٣)کے علاوہ آپ کو کو ئی سہارا دینے والا نہیں تھا ، مولائے کائنات نے راہ اسلام میں جن مصائب کا سامنا کیاان کا علم صرف خدا کو ہے ''۔
..............
١۔سیرئہ نبویہ ،جلد٢،صفحہ ٧٤۔
٢۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ٢،صفحہ ٢٠۔
٣۔اسدالغابہ، جلد ٤،صفحہ ٩٣۔
اس جنگ میں اسلام کے بہادر رسول اللہ ۖ کے چچا جناب حمزہ شہید ہو گئے ،جب ہند کو یہ خبر ملی تو وہ خوش ہو کر آپ کے لاشہ کی تلاش میں نکلی جب اس کی نظر لاش پر پڑی تو وہ کتے کی طرح لاش پر جھپٹ پڑی اور اس نے آپ کی لاش کوبری طرح مثلہ کردیا، جناب حمزہ کا جگر نکالا اوردانتوں سے چباکر پھینک دیا ، آپ کاناک اور کان کاٹ کر ان کا ہار بناکر پہن لیا ۔۔یہ بات اس کے کینہ درندگی اوروحشی پن پر دلالت کرتی ہے ،اس کا شوہر جلدی سے جناب حمزہ کی لاش پر آیا اور بغض و کینہ سے بھرے دل سے بلند آواز میں کہنے لگا : ''یااباعمارة دارالدھروحال الامر،واشتفت منکم نفس ۔۔۔
پھر اس نے اپنا نیزہ بلند کیا اور جناب حمزہ کے لاشہ میں چبھو کر اس جملہ کو اپنی زبان پر دُہرایا : ذق عنق،ذق عنق (١)اس کے بعد وہ اپنی آنکھوں کو ٹھنڈاکرکے پلٹ گیا،روایت میں آیا ہے کہ اس کا دل جناب حمزہ شہیدسے بغض، کینہ ،کفروشرک اور رذائل سے مملو تھا ۔
لیکن جب نبی کریم اپنے چچا کی لاش پر آئے جس کو ہند نے مثلہ کر دیا تھا تو آپ ۖ بہت زیادہ محزون و رنجیدہ ہوئے آپ ۖ نے اپنے چچا سے مخاطب ہو کر فرمایا : ''میرے اوپر آپ کے جیسی مصیبت کبھی نہیں پڑی اور میں ایسے حالات سے کبھی دو چار نہیں ہوا مجھے اس واقعہ سے غیظ آگیا ہے اگر صفیہ کے حزن و ملال اور میرے بعد سنت بن جانے کا خوف نہ ہوتا تو میں اس کو اسی طرح چھوڑ دیتا یہاں تک کہ وہ درندوں اور پرندوں کی غذا بن جاتا ،اور اگر خدا مجھے کبھی قریش پر غلبہ دیتا تو میں اُن میں سے کم سے کم تیس آدمیوں کو مثلہ کر دیتا ''۔
جب مسلمان اس مقدس اور مثلہ لاش پر آئے تو کہنے لگے :اگر خدا نے ہمیں کسی دن اُن پر فتح عنایت کی تو ہم ان کو اسی طرح مثلہ کریں گے کہ کسی عرب نے ایسا نہیں کیا ہوگا ۔۔۔اس وقت جبرئیل یہ آیت لیکر نا زل ہوئے :( وَِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُمْ بِہِ وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَخَیْر لِلصَّابِرِینَ ۔ وَاصْبِرْوَمَاصَبْرُکَ ِلاَّبِاﷲِ وَلاَتَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلاَتَکُ فِ ضَیْقٍ مِمَّا یَمْکُرُونَ)۔(١)
..............
١۔امام علی بن ابی طالب، جلد١،صفحہ ٨٢۔
٢۔سورئہ نحل، آیت ١٢٦۔١٢٧۔
''اور اگر تم ان کے ساتھ سختی بھی کرو تو اسی قدر جتنی انھوں نے تمہارے ساتھ سختی کی ہے اور اگر صبر کرو تو صبر بہر حال صبر کرنے والوں کیلئے بہترین ہے اور آپ صبر ہی کریں کہ آپ کا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہوگا اور ان کے حال پر رنجیدہ نہ ہوں اور ان کی مکاریوں کی وجہ سے تنگدلی کا بھی شکار نہ ہوں ''۔
رسول ۖ اللہ نے بخش دیا ،صبر کیا ،اور ان کو مثلہ کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا :''اِنَّ المُثْلَةَ حَرَامُ وَلَوْ بِالْکَلْبِ الْعَقُوْرِ''''مثلہ کرنا حرام ہے اگر چہ وہ کاٹ کھانے والا کتّا ہی کیوں نہ ہو ''۔
صرف جنگ احد ہی ایسی جنگ ہے جس میں مسلمانوں کو شکست فاش ہو ئی ۔ابن اسحاق کا کہنا ہے :یوم احد بلا و مصیبت کا دن تھا جس میں اللہ نے مو من اور منافق کا امتحان لیا اور منافق واضح طور پر سامنے آگئے ،منافق اس کو کہتے ہیں جو زبان سے ایمان کا اظہار کرے اور اس کے دل میں کفر ہو ،وہ ایسا دن تھا جس
دن اللہ نے ان افراد کوشہا دت کی کرامت عطا کی جنھوں نے شہا دت (١)کی کرامت طلب کی ہے ۔ اس معرکہ کے بعد رسول اللہ ۖنے حضرت علی کو خبردار کیا کہ مشرکین کی طرف سے مسلمانوں کو کبھی بھی اس طرح کا نقصان نہیں پہنچے گا اور خداوند عالم مسلمانوں کو فتح و کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔(٢)

٣۔جنگ خندق
جنگ خندق کو'' واقعہ احزاب'' کہا جاتا ہے اس کو احزاب اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں کئی قبیلوں نے مل کر رسول اللہ ۖسے جنگ کی تھی ،جس سے مسلمان تنگ آگئے تھے اور ان پر رُعب و خوف طاری ہو گیا تھا جو مشرکین کے لشکر کی طاقت کا سبب بنا اور ان سے یہودی آکر مل گئے جن کی تعداد دس ہزار تھی ،اور مسلمانوں کے لشکر کی تعداد تین ہزار تھی اس معرکہ میں مسلمانوں پرجو رعب طاری ہو گیا تھا اس کو قرآن کریم نے یوں بیان کیا ہے :( ِذْ جَائُ وکُمْ مِنْ فَوْقِکُمْ وَمِنْ َسْفَلَ مِنْکُمْ وَِذْ زَاغَتْ الَْبْصَارُ وَبَلَغَتْ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِر)۔(٣)
..............
١۔سیرة النبویہ، جلد ٢،صفحہ ١٠٥۔
٢۔تاریخ ابن کثیر،جلد ٤،صفحہ ٤٧۔اس طرح معرکہ ٔ احد تمام ہوا ،ہم نے اس معرکہ سے متعلق بعض چیزوں کو(حیاة الامام امیر المومنین کے دوسرے حصہ میں بیان کیا ہے )۔ ٣۔سورئہ احزاب، آیت ١٠۔
''اس وقت جب کفار تمہارے اوپر کی طرف سے اور نیچے کی سمت سے آگئے اور دہشت سے نگاہیں خیرہ کرنے لگیں اور کلیجے منھ کو آنے لگے ۔۔۔''۔
اللہ نے اسلام کی فتح وکامیابی امام المتقین امیر المو منین حضرت علی کے ہاتھوں لکھ دی تھی ،علی ہی وہ تھے جنھوں نے مشرکین پر فتح مبین پا ئی اور ان کے لشکر کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔

خندق کھودنا
جب نبی ۖ کو قریش اور غطفان کے قبیلوں کے جنگ کرنے کی غرض سے نکلنے کی خبر ملی تو آپ ۖ نے اپنے اصحاب کو جمع کرکے اس بات کی خبر دی اور اُن سے دشمن کو روکنے کے لئے مشورہ طلب کیا آپ ۖ کے جلیل القدر صحا بی سلمان فارسی نے مدینہ کے چاروں طرف خندق کھودنے کا مشورہ دیا ۔نبی ۖ نے اس مشورہ کو درست ٹھہرایا اور آپ ۖ اپنے اصحاب کے ساتھ خندق کھودنے کیلئے کھڑے ہوگئے یہ مسلمانوں کے لئے دشمنوں کے شر سے بچنے کے لئے اچھی حکمت تھی ، قریش وہاں پر آکر ٹھہر گئے ، اور اس سے آگے بڑھنے کیلئے ان کے پاس کو ئی چارہ نہیں تھا اور وہ مسلمانوں سے جنگ کرنے کیلئے ان کے پاس نہیں پہنچ سکتے تھے ،اس جنگ میں بڑے بڑے افراد نے خد مت کی ،اور فریقین کے درمیان تیر اندازی کرنے کے علاوہ عام طریقہ سے جنگ کر نے کا کو ئی امکان نہیں تھا ۔

امام کا عمرو سے مقابلہ
قریش کے قبیلوں کو ایک ساتھ مل کرحملہ کر کے کا میابی کا امکان نہیں تھا لہٰذا انھوں نے خندق کے پاس کی ایک تنگ جگہ تلاش کی اور اس میں گھوڑوں کو ڈال کر خندق پار گئے، ان میں عمرو بن عبد ود بھی تھا جوجاہلیت میں قریش اور کنانہ کا شہسوار شمار ہوتا تھا ،جو ہتھیاروں سے اس طرح لیس تھا گویا ایک قلعہ ہو وہ اپنی طاقت کی وجہ سے جھوم رہا تھا ،جب مسلمانوں نے اس کو دیکھا تو اُن پر خوف طاری ہو گیااور عمرو ان کے سامنے ٹہلنے لگا ،اُس نے مسلمانوں کوتحقیرسے بلند آواز میں کہا :اے محمد ۖ کے ساتھیو!کیا تم میں کو ئی میرا مقابلہ کرنے والا ہے ؟
مسلمانوں کے دل دہل گئے ،اُن پر خوف طاری ہو گیا ،اس نے دوبارہ مبارز طلب کیا!کیا تم میں کو ئی میرا مقابلہ کر نے والا ہے ؟
کسی نے کو ئی جواب نہیں دیا،لیکن اسلام کے بہا در امام امیر المو منین نے عرض کیا :
''اَنَالَہُ یَارَسُوْ لَ اللّٰہ'' ۔
''یارسول اللہ میں اس کا مقابلہ کر وں گا ''۔
رسول اللہ ۖ نے اپنے چچا زاد بھا ئی کے سلسلہ میں کچھ خوف کھا تے ہوئے فرمایا :''اِنَّہُ عَمْرُو!'' ''یہ عمرو ہے ''۔
امام پیغمبر کے حکم کی تعمیل کر تے ہوئے بیٹھ گئے ،عمرو نے مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہوئے پھر اس طرح مبارز طلب کیا : اے محمد ۖکے اصحاب ،تمہاری وہ جنت کہاں ہے جس کے متعلق تم یہ گمان کرتے ہو کہ قتل ہونے کے بعد اس میں جا ئو گے ؟کیا تم میں سے کو ئی اس میں جانا چا ہتا ہے ؟
مسلمانوں میں خاموشی چھا ئی ہو ئی تھی ،امام نبی سے اجازت لینے پرمصرتھے ، نبی ۖ کے پاس بھی اذن دینے کے علاوہ اور کو ئی چارہ نہیں تھا ،آ نحضرت ۖ نے امام کو شرف و عظمت کاعظیم الشان تمغہ دیااور فرمایا : ''بَرَزَالْاِیْمَانُ کُلُّہُ الیٰ الشِّرْکِکُلِّہِ''کل ایمان، کل شرک کا مقابلہ کر نے کے لئے جا رہا ہے '' ۔
یہ خورشید کی مانند روشن و منورتمغہ ہے آنحضرت ۖ نے حسین کے پدر بزرگوار کوکل اسلام کی شکل میں مجسم کیا اورعمرو کوکل شرک میں مجسم فرمایا ،اس کے بعد نبی اکرم ۖنے اپنے ہاتھو ں کو آسمان کی جانب بلند کرکے گڑگڑاکریو ں اپنے چچا زاد بھا ئی کی حفاظت کے لئے دعا فر ما ئی :''خدایا تو نے مجھ سے حمزہ کو احد میں لے لیا ،بدر میں عبیدہ کو ، آج کے دن علی کی حفاظت فرما۔۔۔پروردگار !مجھے اکیلا نہ چھوڑدینا کہ تو تمام وارثوں سے بہتر وارث ہے ''۔
امام عمرو بن عبد ود سے بغیر کو ئی خوف کھائے ہوئے اس سے جنگ کے لئے روانہ ہوئے آپ نے بے نظیر عزم و ثبات کا مظاہرہ کیا اور عمرو ،اُس جوان سے بہت ہی متعجب ہواجس کو اُس (عمرو )کی کو ئی پروا ہی نہیں تھی ۔عمرو نے کہا :تم کون ہو ؟
امام نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے جواب دیا :''میں علی بن ابی طالب ہوں ''۔
عمرو نے امام سے شفقت و مہربا نی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا :''تمہارا باپ میرادوست تھا۔
اما م کو اس کی صداقت کا یقین نہ ہوا اور اس سے فرمایا :اے عمرو !تونے اپنی قوم سے یہ عہد کیا ہے کہ اگر قریش کا کو ئی شخص تجھ سے تین شرطیں کر ے گا تو ،تو ان میں سے ایک شرط کو قبول کرلے گا ؟۔
عمرو بن عبد ود :ہاں یہ میرا عہد ہے ۔
امام :میں تجھ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں ۔
عمرو ہنسا اور اس نے امام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا :کیا میں اپنے آباء و اجداد کے دین کو چھوڑدوں ؟ ان باتوں کو چھوڑ ئے ۔
امام :میں تجھ سے ہاتھ اٹھا ئے لیتا ہوں ،تجھ کو قتل نہیں کرتا ،تو پلٹ جا ؟۔۔۔
عمرو نے اس جوان کی اس جرأت و ہمت پر غضبناک ہو کر کہا :اب آپ مجھ سے بھاگ جانے کی بات کر رہے ہیں !
امام نے اس کے اپنے نفس سے کئے ہوئے عہد کی تیسری بات بیان کرتے ہوئے فرمایا : اپنے گھوڑے سے نیچے اتر آ؟''۔(١)
عمرو اس جوان کی اس ہمت و جرأت اور اپنی شخصیت کیلئے اس چیلنج اور اپنی اہانت پر بہت زیادہ حیرت زدہ ہوا،وہ اپنی سواری سے نیچے اتر آیااور اس نے اپنی تلوار سے امام کے سر پر وار کیا امام نے اس کو اپنی ڈھال پر روکا تو وہ ڈھال کو کاٹ کر آپ کے سر تک پہنچی جس سے آپ کا سرشگافتہ ہو گیا ،مسلمانوں کو امام کے اپنے رب حقیقی کی بارگاہ میں جانے کا یقین ہو گیا ،لیکن اللہ نے امام کی نصرت و مدد کی آپ نے عمرو کو ایسی ضرب لگا ئی کہ قریش کا یہ بہادر تلملا کے رہ گیااور کفرو شرک کا یہ نمائندہ اپنے ہی خون میں ذبح کئے ہوئے حیوان کی طرح لوٹنے لگا ۔
امام اور مسلمانوں نے نعرئہ تکبیر بلند کیا ،شرک کی کمر ٹوٹ گئی ،اس کی طاقتیں سست ہو گئیں ، اسلام کو امام المتقین کے ہاتھوں یقینی کا میابی ملی ،نبی نے تاریخ میںہمیشہ کی خاطر امام کیلئے یہ جملہ ارشاد فرمایا :''خندق کے دن علی بن ابی طالب کی ضربت میری امت کے قیامت کے دن تک کے اعمال سے افضل ہے ''۔(٢)
..............
١۔مستدرک حاکم، جلد ٣،صفحہ ٣٢۔
٢۔تاریخ بغداد ،جلد ١٣ ،صفحہ ١٩۔مستدرک حاکم، جلد ٣،صفحہ ٣٢۔
جلیل القدر صحابی حذیفہ بن یمان کا کہنا ہے :جنگ خندق میںمولائے کا ئنات کے ہاتھوں عمرو کی ہلاکت اگر تمام مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دی جا ئے توسب کے شامل حال ہو گی ۔ (١)
اس وقت نبی اکر م ۖ پر یہ آیت نازل ہو ئی :( وَکَفیٰ اللّٰہُ المُؤمِنِیْنَ الْقِتَالَ )۔(٢)
''اور اللہ نے مو منین کو جنگ کی دشواری سے محفوظ رکھا''۔
ابن عباس اپنی تفسیر میں بیان کرتے ہیں : ''اللہ نے مو منین کوجنگ سے علی کے جہادکے ذریعہ بچالیا ''(٣)۔
امام نے قریش کے دوسرے بہادر نوفل بن عبد اللہ کو قتل کیا جس سے قریش کو شکست فاش ہو ئی اور نبی اکرم ۖ نے فرمایا :''الآن نغزوھم ولایغزوننا''۔
''اب ہم ان سے جنگ کریں گے اور انھیں ہم سے جہاد کی اجازت نہ ہو گی ''۔(٤)
قریش گھاٹا اٹھاکر پلٹ گئے ،ان کو شکست فاش ہو ئی اور مسلمانوں کا اس جنگ میں کو ئی نقصان نہیں ہوا ۔

٤۔فتح خیبر
جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو عزت بخشی اور قریش ذلیل و رسوا ہوئے تو نبی ۖنے یہ مشاہدہ فرمایا کہ مسلمانوں کے ا مور اس وقت تک درست نہیں ہوں گے اورنہ ہی حکومت برقرارہوگی جب تک یہودیوں کا نظام مو جود ہے جو ہمیشہ سے اسلام کے سخت دشمن تھے اور ان (یہودیوں )کی پوری طاقت وقوت خیبر کے قلعہ میںمحصور تھی جو اس زمانہ کے رائج اسلحوں کا کا رخانہ تھا ،منجملہ وہاں ایسے ایسے ٹینک نماتوپ خانے تھے جو گرم پانی اور آگ میں تپا ہواسیسہ پھینکتے تھے اور یہود ی اسلام دشمن طاقتوں کو ہر طرح کی مسلح فوجی مدد پہنچاتے تھے ۔
..............
١۔رسائل الجاحظ، صفحہ ٦٠۔
٢۔سورہ احزاب، آیت ٢٥۔
٣۔حیاة الامام امیر المومنین ، جلد ٢،صفحہ ٢٧۔
٤۔اعیان الشیعہ، جلد ٣،صفحہ ١١٣۔
نبی نے قلعہ خیبر پر حملہ کر نے کیلئے لشکر بھیجا اور لشکر کا سردار ابو بکر کو بنایا ،جب وہ قلعہ خیبر کے پاس پہنچے تو وہ شکست کھا کر اور مرعوب ہو کر واپس پلٹ آئے ،دوسرے دن عمر کو لشکر کا سردار بنا کر بھیجا وہ بھی پہلے سردار کی طرح واپس آگئے اور کچھ نہ کر سکے اور قلعہ کا دروازہ یوں ہی بند رہا اور کوئی بھی اس تک نہ پہنچ سکا ۔
جب لشکر قلعہ کا دروازہ نہ کھول سکا اور دونوں سردار وں کی سردار ی کچھ کام نہ آسکی تو نبی نے اعلان فرمایاکہ اب میں اس کو سردار بنائوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عنایت فر مائے گا چناچہ آپ ۖ نے ارشاد فرمایا: ''میں کل علم اس کو دوں گا جس کو اللہ اور اس کا رسول دوست رکھتے ہوں گے اور وہ اللہ اور رسول کو دوست رکھتا ہوگا اور وہ اس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک اللہ اس کے ہاتھ پر فتح نہ دیدے ۔۔۔''۔( ١ )
لشکر انتہائی بے چینی کے عالم میںایسے سردار کوعلم دئے جانے سے آگاہ ہوا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح عنایت کرے، اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس عہدہ پرامام فائز ہوں گے، اس لئے کہ آپ آشوب چشم میں مبتلا تھے،جب صبح نمودار ہوئی تو نبی ۖ نے علی کو بلایا جب آپ نبی اکرم ۖ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کی آنکھوںمیں آشوب تھا آنحضرت ۖ نے اپنا لعاب دہن لگایا تو آنکھیں بالکل ٹھیک ہوگئیں اور آپ نے علی سے فرمایا:''خُذْ ھٰذِہِ الرّایَةَ حَتَیّٰ یَفْتَحَ اللّٰہُ عَلَیْکَ ۔۔۔''۔''یہ علم لیجئے یہاں تک کہ خدا آپ کو فتح عنایت کرے گا۔۔۔''۔
شاعر مو ہوب یزدی نے اس واقعہ کو یوں نظم کیا ہے :
وَلَہُ یَوْمَ خَیْبَرفَتکاتُ
کَبُرَتْ مَنْظَراً علیٰ مَنْ رَآھا

یَوْمَ قَالَ النَّبِیْ اِنِّیْ لَاُعْطِ
رَاَیْتِیْ لَیْثَھَاوَحَامِ حِمَاھَا

فَاسْتَطَالَتْ اَعْنَاقُ کُلِّ فَرِیْق
لِیَرَوْا اََّ مَاجِدیُعْطَاھَا

فَدَعَا اَیْنَ وَارِثُ الْعِلْمِ وَالْحِدْمِ
مُجِیْرُ الایَّامِ مِنْ بَأسَاھَا؟

اَیْنَ ذُوْالنَّجْدَةِ الَّذِْ لَوْ دَعَتْہُ
فِْ الثُّرَیَّامَرَوْعَةً لَبَّاھَا

فَأتَاہُ الوَصُِّ اَرْمَدَ عَیْن
فَسَقَاہُ مِنْ رِیْقِہِ فَشَفَاھَا
..............
١۔حلیة الاولیائ، جلد ١،صفحہ ٦٢۔صفوة الصفوة ،جلد ١،صفحہ ١٦٣۔مسند احمد،حدیث نمبر ٧٧٨۔
وَمَضیٰ یَطْلُبُ الصُّفُوْفَ فَوَلَّتْ
عَنْہُ عِلْماً بِأَنَّہُ أَمْضَاھَا(١)

''خیبر میں آپ نے ایسے حملے کئے جو ششدر کرنے والے تھے ۔
جس دن نبیۖ نے فرمایاکہ میں پرچم بہادر اور محافظ شخص کو دوں گا ۔
اسی لئے ہر فریق یہ دیکھنے کا منتظر تھا کہ پرچم کس کو ملے گا ۔
اُن ہی لمحات میں نبیۖ نے آواز دی کہ علم و حلم کا وارث اور ایام کی قسمت پھیرنے والا کہاں ہے ؟
وہ مدد گار کہاں ہے جس کو اگر کو ئی ثریا میں مدد کے لئے پکارے تو وہ لبیک کہہ دے گا ۔
اس وقت علی آپ ۖ کے پاس اس عالم میںآئے کہ آشوب چشم میں مبتلا تھے آپ ۖ نے اپنے لعاب دہن کے ذریعہ اُن کو شفابخشی۔
اس وقت علی نے کفار کی صفوں پر حملہ کیایہ دیکھ کر کفار پیٹھ پھرا کر بھاگ گئے چونکہ وہ جانتے تھے کہ علی انھیں زندہ نہیں چھوڑیں گے ''۔
اسلام کے بہادر نے بڑی طاقت عزم و ہمت و ثبات قد می کے ساتھ علم لیااور رسول ۖاللہ سے عرض کیا : ''اُقَاتِلُھُمْ حَتّیٰ یَکُوْنُوامِثْلَنَا؟''کیا میں ان سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ ہماری طرح مسلمان نہ ہو جا ئیں ''رسول ۖاللہ نے فرمایا:''انفُذْ عَلیٰ رَسْلِکَ حتّیٰ تَنْزِلَ بِسَاحَتِھِمْ ، ثُمَّ ادْعُھُمْ اِلیٰ الاِسْلَامِ ،وَاَخْبِرْھُمْ بِمَایَجِبُ اِلَیْھِمْ مِنْ حَقِّ اللّٰہِ ،فَوَاللّٰہِ لَاَنْ یَھْدَِ اللّٰہُ بِکَ رَجُلاًوَاحِداًخَیْرلَّکَ مِنْ أَنْ یَّکُوْنَ لَکَ حُمْر ُالنِّعَمِ''۔(٢)
''اپنا پیغام لے کر جا ئویہاں تک کہ ان کے علاقہ میں پہنچ جا ئو،ان کو اسلام کی دعوت دو اوران کو خدا کے اس حق سے آگاہ کرو جو اُن کے ذمہ واجب ہے ،کیونکہ خدا کی قسم اگر تمہارے ذریعہ خدا ایک انسان کی ہدایت کر دے وہ تمہارے لئے سُرخ چو پایوں سے بہتر ہے ''۔
آج لشکر کاسردار بڑے ہی اطمینان کے ساتھ بغیر کسی رعب و خوف کے تیزی سے چلا ،جبکہ اس کے ہاتھوں میں فتح کا پرچم لہرا رہا تھااُ س نے باب خیبر فتح کیااور اس کو اپنی ڈھال بنالیاجس کے ذریعہ اس نے
..............
١۔شرح الارزیة، صفحہ ١٤١۔١٤٢۔
٢۔صفوة الصفوة ،جلد ١،صفحہ ١٦٤۔صحیح البخاری ،جلد ٧،صفحہ ١٢١۔
یہودیوں سے اپنا بچائو کیا۔(١) خوف کی وجہ سے یہودیوں کے کلیجے منھ کو آگئے وہ بہت زیادہ سہم گئے ،کہ یہ کون بہادر ہے جس نے قلعہ کے اس دروازہ کوکھول کر اپنی ڈھال بنالیا ہے جسے چالیس آدمی کھولتے تھے (٢) یہ بڑے تعجب کی بات ہے ۔

امام کا مرحب سے مقابلہ
یہودیوں کے بہادر مرحب نے اپنا مبارز طلب کیاجس کے سر پر یمنی خود تھاجس میں ایک پتھر نے سوراخ کردیا تھا اور اُس نے یہ خود اپنے سر پر رکھ لیا تھااوریہ رجز پڑھ رہا تھا :
قَدْ عَلِمَتْ خَیْبَرُ أَنِّ مَرْحَبُ
شَاکی السَّلاحِ بَطَلُ مُجَرَّب

اِذَا اللُّیُثُ أَقْبَلَتْ تَلْتَھِبُ

''خیبر والوں کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں ہتھیاروں سے لیس ہوں بہادر ہوں تجربہ کا رہوں میرے سامنے اچھے اچھے بہادر کا نپتے ہیں ''۔
اسلام کے حا می علی نے اس کا استقبال کیا،حالانکہ آپ سرخ جبّہ زیب تن کئے ہوئے تھے اور آپ نے یوں رجز پڑھا:
''انا الذی سَمَّتْنِ اُمِّیْ حَیْدَرَہُ
ضِرْغَامُ آجَامٍ وَلَیْثُ قَسْوَرَہْ(٣)

عَبْلُ الذَّرَاعَیْنِ شَدیدُ قَسْوَرَہْ
کَلَیْثِ غَابَاتٍ کَرِیْہِ المَنْظَرَہ

اَضْرَبُ بِالسَّیْفِ رقَابَ الْکَفَرہ
أَ کَیْلُھُمْ بِالسَّیْفِ کَیْلَ السَنْدَرَہ'' (٤)
..............
١۔حیاة الامام امیر المومنین ، جلد٢،صفحہ ٣٠۔
٢۔تاریخ بغداد ،جلد ١،صفحہ ٣٢٤۔میزان الاعتدال، جلد ٢،صفحہ ٢١٨۔کنز العمال، جلد ٦،صفحہ ٣٦٨۔اورریاض النضرہ ،جلد ٢ ،صفحہ ١٨٨میں آیا ہے کہ دروازہ کو ستر آدمیوں نے بڑی ہمت سے اس کی اصلی جگہ پر پہنچا یا۔
٣۔آجام اجمّہ کی جمع ہے اور ان گھنی پتوں اور شاخوں دارجھاڑیوں کو کہا جا تا ہے جن کے پیچھے شیر بیٹھ کر اپنے شکار کی تلاش میں رہتا ہے ، یہاں پر امام کی طاقت و قوت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور آپ نے اجمہ واحد کی ہی حمایت نہیں کی بلکہ آجام کی مدد کی ہے ۔ قسورہ رات کے پہلے حصہ کو کہا جاتا ہے اور یہ شیر کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ، قسورہ قسر سے مشتق ہے کیونکہ شیر اپنا شکار بہت زبر دست طریقہ سے حاصل کرتا ہے ۔
٤۔کہا گیا ہے کہ یہ ایک پیمانہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ بہت وسیع طریقہ سے جنگ کرونگااور اس کے علاوہ معنی بیان کئے گئے ہیں ۔
''میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے میں شیر بیشہ ہوں اور اچانک حملہ کرنے والا ہوں ۔
طاقتور ہوں ،شیرِ جنگل کی مانند ہو ں جو دیکھنے میں بُرے معلوم ہوتے ہیں ۔
میں ذوالفقار کے ذریعہ کفار کو تہہ تیغ کرتا ہوں میں کفار میں سخت خو نریزی پھیلاتا ہوں ''
راویوں کے درمیان اس سلسلہ میں کو ئی اختلاف نہیں ہے کہ یہ شعر امام (١) کا ہے اور یہ شعر امام کی کفار اور مارقین کے مقابلہ میں شجاعت اور ثبات قدمی کی ترجمانی کر رہا ہے ۔
امام نے آگے بڑھ کر شجاعت و بہا دری کے ساتھ مرحب پر حملہ کیا اور ایسی تلوار لگا ئی جواس کا خودکاٹ کر اس کے سر میں در آئی اور وہ زمین پر گر کر اپنے ہی خون میں لوٹنے لگا ،پھر آپ نے اس کے جسم کو وحشی و جنگلی جانوروں اور پرندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیا ،اس طرح خداوند عالم نے اسلام کی قاطعانہ مدد کی ،خیبر کا قلعہ فتح ہوگیا ،اللہ نے یہودیوں کو ذلیل و رسوا کیا ،اور امام نے ان کو ایسا درس دیا جس کو وہ رہتی دنیا تک یاد رکھیں گے ۔(٢)
..............
١۔خزانة الادب، جلد ٦،صفحہ ٥٦۔
٢۔ حیاة الامام امیر المومنین ، جلد ٢،صفحہ ٣٠۔