امام علی نقی- اور سیاست
اسلام کے ابتدائی دور میں اسلامی معاشرہ محدود تھا اسلامی تعلیمات عام تھیں اور لوگ اسلام کے گرد جمع تھے یہ اسلامی تعلیمات ہی کا نتیجہ تھا کہ جس کی وجہ سے مسلمانوں نے وہ عظیم ایثار اور فدا کاری انجام دی ۔ لیکن جیسے جیسے خود خواہ افراد حکومت کے منصب کو سنبھالنے لگے اور اسلامی تعلیمات سے دور ہونے لگے تو لوگوں کا اعتماد بھی حکومت پر سے اٹھ گیا بلکہ آہستہ آہستہ لوگوں نے حکومت کے خلاف اپنی تحریکیں شروع کر دیں ۔
حکومت کو ہر دور میں سب سے زیادہ خطرہ آئمہ (علیہم السلام)سے تھا یہی وجہ ہے کہ ہر خلیفہ نے آئمہ (علیہم السلام) کواپنے زیر نظر رکھا اور ان کی چھوٹی سے چھوٹی حرکات و سکنات کی تحقیقات کیں۔ امام علی نقی- کے زمانے میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہ تھی امام- کو زبردستی مدینہ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور اس زمانہ کے دارالحکومت یعنی سامرہ میں بلالیا گیا تاکہ حکومت مکمل طور سے امام- کی سر گرمیوں پر نظر رکھ سکے۔ اسی انثاء میں حکومت اور خلفاء کی یہ بھی کوشش رہی کہ امام- کی حیثیت کو لوگوں کے سامنے کم کریں اور اس ہدف کو حاصل کر نے کے لئے انہوں نے مختلف طریقے اپنائے لیکن امام- نے کبھی اپنے علم سے کبھی زور امامت سے اور کبھی علم غیب کی مدد سے ان کے ان مقاصد کو خاک میں ملا دیا۔
متوکل نے ایک دن ہندی جادوگر سے کہا کہ اگر وہ امام- کو کھلے دربار میں بے عزت کر دے تو وہ اس کو منہ مانگا انعام دے گا۔ جادو گر نے کہا کہ امام- کو کھانے پر بلاؤ اور ہلکی روٹیاں پکا کر امام- کے سامنے رکھ دو اور مجھ کو امام- کے برابر میں بٹھا دو باقی کام میرا ہے۔ متوکل نے تمام علماء اور دانشوروں کو کھانے پر مدعو کیا من جملہ امام- کو بھی بلایا امام- آنے سے منع کیا لیکن پھر مجبوراً آنا پڑا جب دسترخوان بچھایا گیا تو جادو گر کو امام- کے برابر میں بٹھا دیا گیا امام- نے جیسے ہی روٹی اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو روٹی پھدک کر آگے چلی گئی امام- نے دوسری دفعہ ہاتھ بڑھایا تو پھر ویسے ہی ہوا امام- نے تیسری دفعہ ہاتھ بڑھایا تو پھر روٹی پھدک کر آگے چلی گئی اس عرصہ میں تمام دربار یوں کا ہنس ہنس کر برا حال ہو گیا۔
امام- نے جب یہ منظر دیکھا تو دربار میں موجود ایک شیر کی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اس جادو گر کو کھا جاؤ ۔ شیر تصویر سے باہر آیا اور جادو گر کو کھا کر واپس تصویر بن گیا یہ ماجرا دیکھ کر متوکل تو بیہوش ہو گیا اور باقی تمام افراد حواس باختہ ادھر ادھر فرار کر گئے جب خلیفہ کو ہوش آیا تو اس نے امام- سے درخواست کی کہ اس جادو گر کو واپس کر دیجئے امام- نے فرمایا کہ یہ کام نہیں ہو سکتا یہ کہنے کے بعد امام- واپس تشریف لے گئے۔
معتصم عباسی نے اپنے زمانے میں اسلامی فوج میں عرب اور فارس کی تعداد کم کر کے ترکوں کو بھرتی کر نا شروع کیا اور کچھ عرصہ میں ترک افراد فوج میں اکثریت میں ہو گئے۔ اور ان کا اثرو رسوخ حکومت پر زیادہ ہو گیا اور جب انہوں نے دیکھا کہ حکومت اپنی بقا کے لئے ان کی محتاج ہے تو انہوں نے حکومت پر اپنی خواہشات کو مسلط کر نا شروع کر دیا اپنے ارادہ اور خواہشات کی بناء پر ایک خلیفہ کو ہٹا کر دوسرے کو اس کا جانشین کر دیتے تھے صرف امام ہادی- کے ۳۳ سالہ دور امامت میں ان ترکوں نے چھ عباسی خلفاء کو حکومت سے بر کنار کیا اور دوسرے کو اس کا جانشین مقرر کیا جب معتز خلیفہ خلافت کے منصب پر فائز ہوا تو اس نے دربار کے نجومیوں سے کہا کہ حساب کر کے بتائیں کہ حکومت کتنے عرصہ بر قرار رہے گی۔ دربار کے مسخرہ نے کہا کہ یہ تو میں بھی بتا سکتا ہوں تو دربار والوں نے اس سے پوچھا کہ کب تک خلیفہ کی حکومت قائم رہے گی تو اس نے جواب دیا کہ جب تک ترک چاہیں گے۔(الفحزی صفحہ ۲۲۰تاریخ تمدن اسلامی جلد ۴ صفحہ ۱۸۰)
ترک اس قدر حکومت پر مسلط تھے اور امام محمد تقی ہادی- بھی اس چیز کو اچھی طرح سے جانتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ واثق کی حکومت کے دور میں عرب مخالفین کی سرکوبی کے لئے ترک کمانڈر کی زیر نگرانی فوج مدینہ بھیجی گئی ایک دن امام- نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ چلو ذرا چل کر نزدیک سے اس ترک کمانڈر کے لشکر کو تو دیکھیں آپ- اپنے اصحاب کے ساتھ سڑک کے کنارے کھڑے ہوگئے اور لشکر کے گزرنے کا انتظار کر نے لگے فوج کا کمانڈر جو کہ ترک تھا جب وہاں سے گزرنے لگا تو امام نے اس سے ترکی زبان میں کچھ کہا وہ کمانڈر اپنے گھوڑے سے اتر اور امام- کے پاؤں چومنے لگا جب وہ واپس جانے لگا تو ایک شخص نے اس سے کہا کہ اے شخص علی بن محمد- نے تم سے ایسی کون سی بات کہہ دی کہ جو تم اس قدر شدت سے ان کے فریفتہ ہو گئے اس کمانڈر نے کہا کہ یہ آقا کون ہیں ؟
انھوں نے پو چھا کیوں۔
کمانڈر نے کہا کہ اس شخص نے مجھ کو اس نام سے پکارا ہے جس سے میرے گاؤں کے لوگ مجھ کو بچپن میں پکارا کر تے تھے اور کوئی بھی شخص اس نام سے آگاہ نہیں ہے۔ (انور البھیہ صفحہ ۳۰۰)
حضرت امام حسن عسکری- اور سیاست
حضرت امام علی نقی- اور امام حسن عسکری- کو حکومت نے سامرہ بلوایا اس کی وہی سیاست تھی جو مامون نے امام رضا- کے ساتھ چلی تھی وہ یہ کہ امام کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکے۔ حکومت کی کوشش تھی کہ اس مضبوط زنجیر کو توڑ دیں جو کہ امام اور ان کے حامیوں کے درمیان بن چکی تھی حکومت نے امام سے کہا تھا کہ آپ حکومت سے اپنارابطہ برقرار رکھیں گے جس کے لئے امام کو ہر پیر اور جمعرات کو دربار میں جانا ضروری تھا۔ حکومت نے بظاہر کچھ عرصہ کی قید کے علاوہ امام- کو کوئی اذیت نہیں پہنچائی لیکن زمانے کی حالت کا اندازہ ہم مندرجہ ذیل واقعہ سے لگا سکتے ہیں۔
علی بن جعفر حلبی کہتے ہیں کہ ہم چھاؤنی میں جمع تھے اور منتظر تھے امام کے، کیوں کہ ان کو دربار میں جانا تھا کہ اتنے میں مجھے ایک رقعہ ملا جس پر لکھا تھا کہ:
"کوئی مجھ کو سلام نہ کرے کوئی تم میں سے مجھ کو اشارہ نہ کرے تم خطرے میں ہو"
یہ واقعہ بخوبی ہم کو حکومت کی سختی کے بارے میں بتاتا ہے کہ حکومت نے امام- اور شیعوں کے روابط کو کس قدر کنٹرول میں رکھا تھا۔
امام- نے حکومت کے ان ہی حربوں کو دیکھتے ہوئے اپنے بعد آنے والے امام کے لئے میدان فراہم کیا اور اصحاب کا ایک ایسا گروہ تیار کرلیا جو فقط خط و کتابت کے ذریعے سے آپ- سے رابطہ برقرار رکھتا تھا۔
آپ- نے تمام علاقوں میں اپنے وکیل مقرر کئے تھے جو علاقہ کے مسائل اور وہاں جمع ہونے والی رقم آپ- کے ان نمائندوں تک پہنچاتے تھے جن کا آپ سے رابطہ تھا اس سلسلے کی سب سے اہم شخصیت عثمان بن سعید عمری کی ہے جو امام زمانہ عج کے پہلے نائب خاص بھی تھے۔
خط بھیجنے کے لئے بھی امام- کے مخصوص افراد تھے جن میں ایک ابو الدیان تھے وہ کہتے ہیں کہ:
میں امام حسن عسکری- کا خدمت گزار تھا اور حضرت کے خطوط کو مختلف شہروں میں لے کر جاتا تھا آخری خط دیتے ہوئے امام- نے فرمایا کہ یہ خط مدائن لے کر جاؤ اور تم پندرہ دن میں واپس آؤگے جب پلٹو گے تو مجھ کو غسل دینے کی حالت میں پاؤگے ابو الدیان کہتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی پایا۔
امام- نے اپنی وکالت کے جال کو منظم کیا اور اس کے دو مقاصد تھے۔
۱۔ شیعوں کی ہدایت راہنمائی کرنا، ان کی واجب رقم کی ادائیگی کے سلسلے میں تاکہ دین کی حفاظت ہوسکے۔
۲۔ ایسے افراد کی پہچان کروانا جن پر آپ- مکمل اعتماد کرتے تھے تاکہ معاشرے میں ان کی شخصیت بنے۔
بہرحال یہ افراد آگے چل کر امام زمانہ (عج) کی غیبت صغری اور پھر غیبت کبریٰ میں لوگوں کی رہنمائی کا ذریعہ بنے۔
اس طرح امام- نے ایک ایسے زمانے میں کہ جب آپ- پر حکومت کی کڑی نظر تھی ایک ایسا نظام قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جو امامت کی درپردہ شخصیت کے پیغام کو لوگوں تک پہنچاسکے۔
نتیجہ
آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی زندگی کو اگر ہم دقت کی نظر سے دیکھیں یا اس کا مطالعہ کریں تو پھر ہمارے لئے یہ سوال باقی نہیں رہے گا کہ ہم کس شخصیت کو اپنے لئے مثال (آئیڈیل) بنائیں کس روش کو اپنائیں کس تنظیم میں شمولیت اختیار کریں ہمارے لئے راستہ روشن ہے صرف اس بات کی دیر ہے کہ ہم اس پر عمل کریں۔ آئمہ(علیہم السلام)کی زندگی کے ان پہلوں کو نظر میں رکھ کر ہم کو اب یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہماری شخصیت بحثیت شیعہ کے کیا ہے؟
کہیں ایسا تونہیں کہ آئمہ(علیہم السلام)کی محبت ہماری زبانوں تک ہی محدود ہو یایو ں کہہ لیجئے کہ ہم سال کے کچھ ہی دنوں میں ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور سال کے باقی حصہ میں ہماری زبان ان کے ساتھ مگر ہماری تلواریں (اعمال) یزید اور معاویہ کے ساتھ۔ سال کے باقی دنوں میں آئمہ(علیہم السلام)کی تعلیمات کا ہمارے آس پاس سے گزر بھی نہیں ہوتا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے اعمال بھی آئمہ(علیہم السلام)کے ساتھ ہوں تواس کا فقط اور فقط ایک ہی پیمانہ ہے اور ایک ہی میزان ہے اور وہ ہے عمل۔ہر شخص اپنے عمل سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ وہ کس کا ماننے والا ہے۔
ہم سیرت آئمہ اطہار(علیہم السلام)کویہ کہہ کر نہ چھوڑدیں کہ ہم تو اس قابل نہیں اور یہ عمل تو فقط آئمہ(علیہم السلام)ہی انجام دے سکتے تھے۔اگر ہم یہ سوچ کر آئمہ اطہار(علیہم السلام)کی عملی زندگی کو چھوڑدیں گے یہ سب سے بڑاظلم ہوگا جو کہ ہم خود ان کے چاہنے والے آئمہ اطہار(علیہم السلام)پر کریں گے
والسلام علینا وعلی عباداللّٰہ الصالحین
(۱۲ صفر المظفر۱۴۱۵ھ)
|