ائمہ اور سیاست
 

حضرت امام زین العابدین- اور سیاست
جب بھی ہم امام زین العابدین- کا ذکر کر تے ہیں تو ان کو بیمار امام- کی حیثیت سے پہچانتے ہیں ، اور اگر اس کے ساتھ سیاست کا ذکر بھی ہو جائے تو شاید ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہ ہوں کے حضرت سجاد-نے کر بلا کے اس عظیم سانحہ کے بعد بھی سیاست میں حصہ لیا ہو گا۔
بنیادی طور پر ذلت اور غلامی سے آزادی ، عزت اور آزادی واپس لانے اور ایک بڑے انقلاب کے لئے زمین ہموار کر نے کے لئے لوگوں کو صحیح حقائق سے روشناس کر انے اور ان کے ضمیروں کو جگانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ لوگوں کو آگاہ کیاجائے اور پہچان کرائی جائے تاکہ وہ ذمہ داری کا احساس کریں اس طرح انقلاب خود بخود وجود میں آنے لگیں گے۔
اس کے پہلے قدم کو خود امام حسین- اور ان کے اصحاب نے کر بلا میں انجام دیا اور دوسرے مرحلہ کی ذمہ داری حضرت زینب(علیہا السلام) اور حضرت سجاد- کے کندھوں پر پڑی۔ اور فقط یہی ایک راستہ تھا کہ جس کے ذریعے سے نبی امیہ کی حکومت کی جڑوں کو کاٹا جا سکے۔ اس کی بہترین مثال امام سجاد- کا شام کے دربار میں وہ خطبہ تھا کہ جس سے پریشان ہو کر یزید نے موذن کو اذان دینے کا حکم دیا یہی خطبہ تھا جس کے سبب اس کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں لوگ بغاوت نہ کر دیں آخر وہ کیا سبب تھا جس کی وجہ سے یہ تمام لوگ اس خدشہ کا اظہار کر رہے تھے یہ وہی آگاہی اور شناخت تھی اور احساس تھا کہ جس کی ذمہ داری امام سجاد- نے قبول کی تھا آپ- فرماتے ہیں :
جو مجھے جانتا ہے وہ جانتا ہے اور جو نہیں جانتا میں اس کو خود اپنی شناخت کروا دوں میں مکہ اور منیٰ کا بیٹا ہوں میں زمزم اور صفا کا بیٹا ہوں میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے حجراسود کو عبا کے چار گوشوں سے اٹھایا میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے احرام باندھنے کے بعد بہترین طواف اور سعی کی میں اس کا بیٹا ہوں جو انسانوں میں سب سے بہترین ہے میں اس کا بیٹا ہوں جو مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے جایا گیا، میں اس کا بیٹا ہوں جو سدرة المنتہیٰ تک پہنچا، میں اس کا بیٹا ہوں جو آسمانوں کی سیر کے وقت حق سے اس قدر نزدیک ہوا کہ آواز آئی "قاب قوسین اوادنی" میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے فرشتوں کے ساتھ نماز پڑھی میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس پر خدائے بزرگ نے وحی نازل کی میں محمد(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کا بیٹا ہوں علی مرتضیٰ-کا بیٹا ہوں میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے مشرکوں سے اس قدر جنگ کی کہ زبان سے "لاالہ الا اللّٰہ"کہنے لگے میں اس کا بیٹا ہوں کہ جس نے رکاب پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) میں دو تلواروں اور دو نیزوں کے ساتھ لڑائی کی اور ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کی طرف کفر نہیں کیا میں اس کا بیٹا ہوں کہ جو مومنین میں صالح ترین، وارث پیغمبران ، کافروں کو نابود کر نے والا، مسلمانوں کا پیشوا اور رہبر، مجاہدوں کا نور ، عابدوں کا زیور و زینت ، گریہ کر نے والوں کا فخر ، صابروں میں صابر، بہترین جہاد کرنے ولاہے۔
میرے جد وہ ہیں کہ جن کے ساتھ جبرئیل ہے جن کا مددگار میکائیل ہے اور جو خود مسلمانوں کی ناموس کا حامی اور نگہبان تھا ، جس نے مارقین، ناکثین اور قاسطین کے ساتھ جنگ کی اور دشمنان خدا کے ساتھ جنگ کی۔ میں قریش کے بر ترین فرد کا بیتا ہوں کہ جس نے سب سے پہلے پیغمبر کی حمایت کی جو مسلمانوں میں سب سے آگے تھا، مشرکوں کو نابود کر نے والا، ولی امر خدا، حکمت الہیٰ کا باغ اور علم کا مرکز وہ تھا۔
میں فاطمہ الزہراء(علیہ السلام)کا بیٹا ہوں خواتین کی سردار کا بیٹا۔
یہاں پر امام- نے اس قدر گفتگو کی کہ لوگ رونے لگے وہ شام کے لوگ جو علی- کے دشمن تھے۔
ان تمام مراحل کو طے کرنے کے بعد امام کا دوسرا ہدف کر بلا کی تحریک کو زندہ رکھنا تھا لوگوں کو مظلومیت حسین- کا احساس دلانا تھا اس کام کو آپ- نے ایسے انجام دیا کہ ہر جگہ کر بلا کا ذکر کرتے ۔ آپ- نے اپنی انگوٹھی پر بھی اس ہدف کے تحت عبارت کندہ کروائی جو یہ تھی کہ
"خَزِیَ وَ شَقِیَ قَاتِلُ الْحُسَیْنِ بْنِ عَلِی "
رسوا اور بد بخت ہو جائے قاتل حسین بن علی-۔
حضرت امام صادق-سے نقل کر تے ہیں کہ آپ- نے فرمایا کہ امام سجاد- نے ۳۵سال تک اپنے والد کے مصائب پر گریہ کیا اس مدت میں دن کو روزے رکھتے تھے اور جب افطار کے وقت کھانا لایا جاتا تو آپ- گریہ فرماتے اور کہتے:
" فرزند رسول اللہ کو بھوکا قتل کیا گیا! فرزند رسول اللہ کو پیاسا قتل کیا گیا
ایک دفعہ حضرت امام سجاد- بازار سے گزررہے تھے کہ ایک شخص کی آواز سنائی دی"انار جل غریب فارحمونی"میں غریب مرد ہوں مجھ پر رحم کیجئے۔ حضرت کی توجہ اس کی جانب مبذول ہوئی آپ- اس کے قریب گئے اور پوچھا کہ اگر تقدیر میں یہ لکھا ہو کہ تم یہاں پر مر جاؤ تو کیا تمہارا جنازہ زمین ہی پر پڑا رہے گا اس نے جواب دیا اللہ اکبر کس طرح ممکن ہے کہ میرے جنازہ کو دفن نہ کریں جبکہ میں مسلمان ہوں ۔ امام- منقلب ہو گئے اور فرمایا:
کس قدر افسوس کی بات ہے اے پدر بزر گوار حسین- کہ آپ کا جنازہ تین دن تک بغیر دفن کے خاک پر پڑا رہا جب کہ آپ نواسہ رسول تھے۔ (مأساة الحسین تالیف شیخ عبدالوھاب ۱۵۲)

حضرت امام محمد باقر- اور سیاست
امام-کے زمانہ امامت میں بنی امیہ کے دو ایسے خلیفہ گزرے کہ جنہوں نے حکومت اسلامی میں علم کی ترویج کی۔ ولید بن عبدالملک اور عمر بن عبدالعزیز ۔ولید بن عبدالملک چونکہ خود زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا اس لئے شاید اپنی کمزوریوں پر پر دہ ڈالنے کے لئے علوم و فنون کی ترویج کی۔ لیکن عمر بن عبدالعزیز نے دانستہ طور پر حکومت اسلامی میں علمی شخصیات کو رائج کیا۔
ان خلفاء کی وجہ سے امام محمد باقر- نے حالات کو بہتر جانا کہ ایسے ماحول میں تعلیمات اسلام کو جو کہ ۱۰۰سالہ دور میں مسخ ہو کر رہ گئی تھیں دوبارہ زندہ کیا جائے۔
ٍ اس تھوڑے سے عرصے میں ان خدمات کا ذکر نہیں کر سکتا کہ جو حضرت امام محمد باقر- نے انجام دیں لیکن اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ وہ عظیم اسلامی مدرسہ جس میں شاگردوں کی تعدادچار ہزار تک پہنچی اور امام جعفر صادق-نے اپنے زمانہ میں چلا یا وہ حضرت امام باقر- کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔
اس زمانہ کے خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے حضرت سے واپسی پر مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ امام باقر- اور ان کے فرزند جعفر بن محمد- کو شام کی طرف روانہ کر دو۔
حضرت مجبوراً اپنے فرزند ارجمند کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوئے اور دمشق پہنچے ہشام نے اپنا جاہ و جلال دکھانے کے لئے تین دن تک امام- کو ملاقات کی اجازت نہ دی بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ تین دن تک امام کی عظمت کو کم کر نے کے حربے سوچتا رہا اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ جب امام- دربار میں داخل ہوں تو ان کے سامنے تیز اندازی کا ایک مقابلہ کرایا جائے اور امام- کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی جائے اور اس طرح جب امام- شکست کھا جائیں گے تو اہل دربار اس بات کا چرچا پورے شام میں کر دینگے ۔ جب امام- دربار میں داخل ہوئے تو خلیفہ کے کچھ افراد تیر اندازی میں مشغول ہو گئے امام- دربار میں تشریف فرما ہوئے کچھ دیر بعد خلیفہ نے امام- کی طرف رخ کر کے کہا کہ کیا تیر اندزی کے مقابلے میں شرکت کر نا پسند کریں گے۔
امام- نے جواب میں فرمایا کہ میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میرا تیر اندازی کا وقت گذر چکا ہے امام کا جواب سن کر تو خلیفہ کا اصرار اور بڑھ گیا اور خلیفہ نے امام- کی طرف تیر کمان بڑھانے کا اشارہ کیا امام نے بھی بلاجھجھک تیر کمان لے لیا، پہلا تیر چلایا جو سیدھا نشانہ پر لگا دوسرا چلایا جو پہلے تیر کو چیرتا ہوا ہدف پر لگا تیسرا تیر چوتھا تیر یہاں تک کہ امام- نے یکے بعد دیگرے نو تیر چلائے جو سب کے سب ہدف پر لگے یہ منظر دیکھنے کے بعد تمام درباری اور خلیفہ انگشت بدندان رہ گئے تھوڑی دیر کے بعد جب ہوش و ہواس بر قرار ہوئے تو خلیفہ نے امام- کو مخصوص جگہ پر بیٹھنے کی دعوت دی اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد پوچھا کہ جعفر (حضرت امام جعفر صادق-) بھی آپ کی طرح تیر اندازی جانتے ہیں؟
امام- نے جواب میں فرمایا:
"ہمارا خاندان اکمال دین اور اتمام نعمت کو جو الیوم اکملت کی آیت میں آیا ہے ایک دوسرے سے ارث میں لیتے ہیں اور زمین ہر گز ایسے افراد سے خالی نہیں رہے گی"۔(حمد بن جدید بن رستم الطبری۔ دلائل امامہ نجف منشورات المطبوعة الحیدریہ ۱۳۸۳ھ (منشورات الرضی قم) صفحہ ۱۰۵)
دوسرا واقعہ عیسائیوں کے پادری کے ساتھ مناظرہ ہے کہ جب آپ- دربار سے نکل کر واپس جانے لگے تو دیکھا بہت سے افراد مجمع لگائے کسی کا انتظار کر رہے ہیں پوچھا تو معلوم ہوا کہ عیسائی ہیں جو کہ مختلف مقامات سے آئے ہیں اور اپنے مسائل کا حل لینے کے لئے پادری کے انتظار میں ہیں حضرت بھی ان افراد کے مجمع میں بیٹھ گئے جب پادری آیا تو اس کی توجہ حضرت کے نورانی چہرہ کی طرف مبذول ہوئی پوچھا مسلمانوں ہو یا عیسائی جواب ملا کہ مسلمان نادانوں میں سے نہیں ہوں پادری نے پوچھا پہلے میں سوال کروں یا تم امام- نے فرمایا اگر چاہتے ہو تو سوال کرو پادری نے پوچھا کس وجہ سے مسلمان کہتے ہیں کہ اہل بہشت کھانا کھائیں گے لیکن ان سے کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہو گی کیا دنیا میں اس کی کوئی مثال ہے۔
امام-نے جواب میں فرمایا: اس کی روشن مثال ماں کے رحم میں بچہ کی ہے جو غذا کھاتا ہے لیکن کوئی اضافی چیز جسم سے خارج نہیں ہوتی ۔
پادری نے تعجب کا اظہار کیا اور کہا تم نے کہا تھا کہ دانشمندوں میں نہیں ہوں۔
امام- نے فرمایا: کہ میں نے یہ نہیں کہا بلکہ کہا تھا کہ نادانوں میں سے نہیں ہوں۔
پادری نے کہا ایک اور سوال ہے امام- نے فرمایاپوچھو اس نے کہا کس دلیل کی بنا پر کہتے ہو کی جنت کی نعمتوں میں جتنا خرچ کیا جائے کم نہیں ہو گا دنیا میں اس کی کوئی مثل ہے امام- نے فر مایا ہاں ہے اس زمانہ میں اس کی روشن مثال آگ کی ہے اگر ایک چراغ کی لو سے ایک ہزار چراغ بھی جلا لو تو اس کی روشنی کم نہیں ہو گی۔
پادری نے جتنے سوال تھے کر ڈالے اور سب کے جواب حاصل کر لئے اور جب اپنے آپ کو عاجز دیکھا تو غصہ کر کے چلا گیا۔
اس واقعہ کے بعد اہل شام میں خوشی کا احساس پھیل گیا اور امام کا معنوی اثر بڑھ گیا ہشام نے امام- کو تحفے تحائف بھیجے اور چونکہ امام- کے معنوی اثر سے پریشان تھا اس لئے خط لکھا کہ آپ آج ہی مدینہ کے لئے روانہ ہو جائیں