اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
 
١٨)اہل بیت کی شان میں گستاخی کی سزا
آیات اور احادیث نبوی کی روسے اہل بیت کی عظمت اوران کی شخصیت واضح ہوگئی اوران کے حقوق کی رعایت کرنا ان کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا ہم پر فرض ہے لیکن بعض انسان کتنا بڑا ظالم ہے کہ نہ صرف اہل بیت کے حقوق کی رعایت نہیں کی بلکہ ان پرطرح طرح کے ظلم کرنے سے باز نہ رہے جو آج بھی تاریخ اسلام کے چہرے پر ایک سیاہ دھبہ کی طرح موجود ہیں ۔
خوارزمی نے مقتل الحسین -میں روایت کی ہے :
قال رسول اللہ(ص) الویل لظالمی اہل بیتی عذابہم مع المنافقین فی الدرک الاسفل من النار لایفتر عنہم ساعۃ ویسقون من عذاب جہنّم فالویل لہم من عذاب الیم ۔[١]
پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا: میرے اہل بیت پر ظلم وستم کرنے والوں پر افسوس ہو ان کا عذاب منافقین کے ساتھ جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوگا ایک لحظہ بھی ان کے عذاب اور عقاب میں تحفیف نہیں کی جائے گی اور ان کو جہنم میں ماء حمیم[بہت ہی گرم پانی]پلایا جائے گا ۔لہذا غضب اور ویل ایسے افراد پرہو کہ جن کوبہت ہی سخت عذاب دیا جائےگا ۔نیز کئی احادیث میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:
..............................
[١]۔، مقتل ال حسین (ع)،ج٢ص١٢٣۔
مبغضہ فی النّار[١]
یعنی اہل بیت سے دشمنی اور عداوت رکھنے والوں کو جہنم کی آگ سے سزا دی جائے گی ۔
کچھ احادیث کا خلاصہ جو اہل سنت کی کتابوں میںنقل کی گئی ہیں درج ذیل ہے :
١۔اہل بیت سے دشمنی اور عداوت رکھنے والوں پر جنت حرام ہے ۔
٢۔ان سے بغض اور حسد رکھنے والے افراد کو جہنم میں ڈالا جائے گا۔
٣۔ ان پر ظلم کرنے والے اور ان کی شان میں گستاخی وجسارت کرنے والے افراد کا سب سے زیادہ سخت عذاب ہوگا ۔
٤۔اہل بیت سے بغض اور دشمنی رکھنے والے افراد کا کوئی نیک عمل خدا کی نظر میںقابل قبول نہیں ہے ۔
٥۔ اہل بیت سے دشمنی رکھنے والے افراد سعادت دنیا وآخرت سے محروم رہےں گے۔
٦۔ اہل بیت کے حقوق کی رعایت نہ کرنے والے سب سے بڑے ظالم ہیں۔
٧۔ ان سے دشمنی اور بغض رکھنے والے منافق ہے اور اسکی ولادت حرام
..............................
[ ١]۔ینا بیع المودۃ ، ص٨٦۔

پر ہوئی ہوگی [١ ]۔
١٩) اہل بیت کے و جود سے کائنات خالی نہیں ہوسکتی
اگرہم آیات و روایات پرغور کریں تو اللہ تبارک وتعالی کاسب سے پہلے حضرت آدم - کو خلق کرنے کا فلسفہ سمجھ میں آتا ہے کہ مخلوقات کی ہدایت کے لئے سب سے پہلے ایک ہدایت یافتہ اور معصوم ہستی کو خلق فرمایا تاکہ آنے والے انسانوں کو ہدایت اور تعلیم وتربیت دے سکے۔اور اسلامی تعلیمات اور احادیث نبویؐ سے واضح ہوجاتاہے کہ جتنے بھی انبیاء خدا کی طرف سے مبعوث ہوئے ہیں وہ حقیقت میں ہمارے نبی حضرت محمد بن عبد اللہ(ص)کی بعثت اور نبوت کا پیش خیمہ تھا
لہٰذایہ کہہ سکتے ہیں کہ جتنے انبیائ گذرے ہیں حضرت محمد بن عبد اللہ(ص)کے آنے کےلئے زمینہ سازی کرتے رہے۔ کیونکہ خدا نے کائنات کی خلقت سے چار ہزار سال پہلے حضرت محمد بن عبد اللہ(ص)اور ان کے اہل بیت کے نور کو خلق فرمایا اور پورے انبیائ کو عالم ذر میں چودہ معصومین کا نور دکھایاگیا اور انبیاء نے امتحان اور سختی کے وقت اہل بیت کو کامیابی کاذریعہ قرار دیا اور بہت سارے انبیاء کو خدا نے انہیں کے صدقے میں کامیابی سے ہمکنار فرمایا۔
............................
[١]ینابیع المودۃص١٢٣

اورکائنات کی خلقت سے قیامت تک ایک لحظہ بھی اہل بیت میں سے کسی ہستی سے دنیاخالی نہیں ہوسکتی اگر ایک لحظہ بھی زمین اہل بیت سے خالی ہوجائے تو زمین وآسمان نابود ہوجائینگے۔
''ولاتخلوالارض منہم ولوخلت لانساخت باہلہا '' [١]
زمین کبھی بھی اہل بیت کے کسی فردسے خالی نہیں ہوسکتی اوراگر ایک لحظہ کے لئے زمین خالی ہوجائے تو زمین اہل زمین سمیت نابودہوجائے گی۔
نیزفرمایا:
ولولاماعلی الارض منّا لانساخت باہلہا[٢]
اگر ہم اہل بیت میں سے کوئی ایک روئے زمین پر نہ ہوتو زمین اہل
زمین سمیت نابود ہوجائے گی۔
اور بہت ساری روایات میں فرمایا:قیامت تک حجت خدا سے دنیا خالی
نہیں ہوسکتی ،دین اسلام تاقیامت کبھی امام اور پیشوا سے خالی نہیں ہوسکتا ۔یہ تمام
احادیث ایک مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہےں کہ کائنات کی خلقت سے لے کر
قیامت تک اہل بیت کے وجود اوران کے نور سے کائنات محروم نہیں ہوسکتی
..........................
[١]ینابیع المودۃ ،ص٢٠۔
[٢]ینابیع المودۃ ،ص٢١۔

[٣] نیز روایات اور احادیث کے علاوہ انسان کی فطرت اور عقل بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہے یعنی خدا اور دین پر عقیدہ فطری اور عقلی ہے۔اس کا نگہبان ہونا اس کا لازمہ ہے۔اور دنیوی و اخروی زندگی کے فلاح وبہبود کی خاطر
نظام کی ضرورت بھی عقلی اور فطری ہے تب ہی تو پورے بشر نظام اور قوانین کی ضرورت کا اعتراف کرتے ہیںاور ہر بشر کی فطرت اور عقل اعتراف کرتی ہے کہ اس نظام کو معاشرے میں نافذ کرنے والے افراد دوسروں سے کامل ہرحوالے سے لائق ہو، وہ سوائے انبیاء اور اہل بیت کے کوئی نہیں ہوسکتا۔لہذا عقل کی نظر میں ہر زمانے میں قیامت تک کوئی نہ کوئی ہادی اور منجی بشریت کا ہونا ضروری ہے تاکہ عدل وانصاف قائم ہو، یہ وہی مطلب ہے جو خدا نے قرآن مجید میں لکل قوم ہاداور پیغمبراکرم (ص)نے ''ولاتخلوالارض منہم ولوخلت لانساخت باہلہا ''کی صورت میں بیان فرمایاہے ۔

٢٠ ) اہل بیت اورقرآن کے درمیان کیاجدائی ممکن ہے؟
جس طرح پیغمبراکرم (ص)اور اہل بیت کے درمیان جدائی اور افتراق کا تصور مسلمانوں کی جہالت اور کم فہمی ہے اسی طرح اہل بیت اور قرآن کے درمیان جدائی کا تصور بھی حماقت ہے، قرآن کو خدا کی کتاب کے طور پر قبول
.........................
[٣]تفصیل کےلئے ینابیع المودۃ اور فرائد السمطین اورمناقب وغیرہ کی طرف رجوع کرےں۔

کرنا اور اہل بیت کی اطاعت و معرفت اور ان کے حقوق کی رعایت کرنے کو واجب نہ سمجھنا حقیقت میں تضاد گوئی ہے کیونکہ قرآن اور اہل بیت کو جدا سمجھنا سنت نبوی(ص) کے خلاف ہے ۔ لہذا جو قرآن کا معتقد ہو ا سے چاہئیے کہ اہل بیت کا بھی معتقد ہو ۔یہ نہیں ہوسکتاہے کہ اہل بیت کو نہ مانےں قرآن کو مانے۔ کیونکہ اہل بیت حقیقت میں خدا کی طرف سے مفسر قرآن ہیں اہل بیت کے بغیر قرآن کا ادراک اور فہم کا دعوی کرنا جہالت کی علامت ہے اور قرآن کے ساتھ ناانصافی ہے ۔
حموینی ،شہربن آشوب سے روایت کرتا ہے :
قال کنت عند ام سلمۃ فباذنہا دخل البیت ابوثابت مولیٰ علی فقالت یاابا ثابت این طارقلبک حین طارت القلوب مطائرہا ۔ قال اتبعت علیاً قالت وقفت بالحق و الذی نفسی بیدہ لقد سمعتُ رسول اللہ(ص) یقول علی مع القرآن والقرآن مع علی ولن یفترقا حتی یردا علی الحوض۔[١]
شہر بن آشوب نے کہا : میں ام سلمہ کے پاس بیٹھا تھا اتنے میں ابو ثابت جو حضرت علی - کا آزاد کردہ غلام تھا ام سلمہ کی اجازت سے گھرکے اندر داخل ہوا
.........................
[١]۔ینابیع المودۃ ،ص٩٠۔

پھرام سلمہ نے کہا :اے ابوثابت! جب لوگوں کے دل مختلف لوگوں کی طرف جھک گئے تھے تو تمہارے دل نے کس کی طرف رخ کیا؟ابو ثابت نے کہا میں علی - کی
پیروی اور اطاعت کرتا رہا، اس وقت ام سلمہ نے کہا کہ تو نے حق کو پالیا ہے کیونکہ خدا کی قسم میں نے پیغمبر اکرم (ص)سے سنا ہے کہ آپنے فرمایا:علی - قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی - کے ساتھ۔ یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر پہونچنے تک ہرگزایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے ۔
اسی مضمون کی احادیث اہل سنت کی کتابوں میں پندرہ کے قریب اور اہل تشیع کی کتابوں میں گیارہ کے قریب ہے جن کاخلاصہ یہ ہے کہ اہل بیت اور قرآن کے درمیان افتراق اور جدائی کا قائل ہونا اور قرآن کو ماننا اور علی -اور دیگر اہل بیت کی امامت اور افضلیت کا قائل نہ ہونا مسلمانوں کی بدقسمتی کی علامت اور تضاد گوئی ہے۔ ابن حجر مکّی نے صواعق المحرقہ[١]میں روایت کی ہے : وفی روایۃ انّہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال فی مرض ۔
موتہ ایہاالنّاس یوشک ان اقبض قبضاً سریعاً فینطق بی وقد قدمت الیکم القول معذرۃ الیکم الّا ا نی متخلف فیکم کتاب ربّی عزّوجلّ وعترتی اہل بیتی ثمّ اخذ بید علی (ع) فرفعہا ہذا علی مع
..........................
[١]صفحہ نمبر٧٥

القرآن والقرآن مع علی لایفترقان حتی یردا علی الحوض عنقریب قبض روح ہوگا لہذا تم آگاہ ہوکہ میںتمہارے درمیان اپنے پرودگار کی کتاب اور میرے اہل بیت (ع) کو چھوڑ کر جارہاہوں پھر آنحضرت (ص)نے فاسألوہما مااختلفتم فیہا۔[١]
پیغمبراکرم (ص)نے اپنے آخری وقت میں فرمایا: اے لوگو !میرحضرت علی -کے دست مبارک کو تھام کر بلند کیا اور فرمایا:
یہ علی - ہے جو قرآن کے ساتھ اور قرآن علی -کے ساتھ ہے یہ دونوں میرے قریب حوض [کوثر] پر پہونچنے تک کبھی بھی جدا نہیں ہوسکتے لہذا جس مسئلہ میںتمہارے درمیان اختلاف ہوجائے اسے کتاب وعترت سے پوچھو۔

اہم نکات:
مذکورہ احادیث میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اختلافات کو کتاب اور اہل بیت کے ذریعے حل کرےں۔
اہل بیت اور قرآن کے مابین جدائی ڈالنا اہل بیت کی شان میں جسارت ہے کیونکہ پیغمبراکرم (ص)نے حدیث ثقلین میں فرمایا :میری رحلت کے بعد سے لے کر قیامت تک تمہارا مرجع اور فصل الخطاب کتاب و اہل بیت .....................
[١]۔صواعق المحرقہ ، ص٧٥، فضائل الخمسہ ، ج٢ ، ص١١٣۔

ہے اگر کتاب کو مانیں اہل بیت کو نہ مانیںیابالعکس یعنی اہل بیت کو مانیں او ر کتاب کو نہ مانیں تو ایسا شخص لاشعوری طور پر گمراہ ہوکر رہے گا۔ مذکورہ حدیث فریقین کے نزدیک صحیح اور حدیث ثقلین کے نام سے شیعہ اوراہل سنت کی کتابوں میں موجود ہے ۔[١]

٢١) اہل بیت سے اگر تمام انسان ، محبت کرتے تو جہنم خلق ہی نہ ہوتا
دلیل عقلی اور آیات اور احادیث کی روشنی میں سارے مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ جنت اور جہنم برحق ہے جو جنت اور جہنم کا منکر ہوگا وہ اسلام سے خارج ہے اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے اگر ہم اسلامی کتب مخصوصاً آیات و احادیث کا مطالعہ کریںتو جنت اور جہنم کی خلقت کا فلسفہ روشن ہوجاتاہے۔آیات و روایات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جہنم کے خلق کرنے کا فلسفہ گناہ گاروں کو ان کے گناہوں کی سزا دینا ہے اور دشمنی اہل بیت بھی در واقع خدا کی نافرمانی ہے اس لئے جہنم کی خلقت کے اہداف میں ایک ہدف دشمنان اہل بیت کو عذاب دینا ہے۔
چنانچہ حافظ سمعانی نے اپنی سند کے ساتھ جابر سے روایت کی ہے :
قال کان رسول اللہ(ص) بعرفات لوانّ امتی صاموا حتی
............................
[١]۔ صواعق المحرقہ ص١٢٥ ۔

یکونوا کالحنایا وصلوا حتی کانوا کاالاوتار ثم ابغضوک لاکبّھم علی وجوہم فی النار ۔[١]
جابر -نے کہا:پیغمبراکرم (ص)عرفات میںبیٹھے ہوئے تھے آپنے فرمایا:اے علی -اگر میری امت کی کمر روزہ زیادہ رکھنے کی وجہ سے خم ہوجائے اور زیادہ نماز پڑھنے کی وجہ سے نیزے کی مانند لاغر ہوجائے لیکن وہ تم سے بغض اور عداوت رکھے تو خدا ان کو روزقیامت منہ کے بل جہنم میں ڈال دے گا۔
اگرچہ پہلے بھی کچھ روایات اہل بیت کی محبت کے بغیر کسی بھی عبادت کے قبول نہ ہونے کے عنوان سے بیان ہوئی لیکن اس روایت کو یہاں ذکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بغض علی -اور عداوت اہل بیت کے ساتھ نجات اور سعادت اخروی کا تصور کرنا خام خیالی کے سواکچھ نہیں ۔
موفق بن احمد اپنی سند کے ساتھ طاؤوس سے وہ ابن عباس -سے روایت کرتا ہے :
قال رسول اللہ لواجتمع النّاس علی حبّ علی بن ابی
طالب (ع) لما خلق اللہ عزوجل الناّر ۔ [٢]
...........................
[١]۔الرسالۃ القوامیۃ فی مناقب الصحابۃ ج٢ص ٣٠١ ۔
[٢]ینابیع المودۃ ج ٢ص٦١۔

پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا: اگر تمام انسان علی بن ابی طالب -سے محبت کرتے تو خدا جہنم کو خلق ہی نہ کرتا۔
حضرت عمر بن خطاب نے روایت کی ہے :
لواجتمع النّاس علی حبّ علی بن ابی طالب (ع) لما خلق اللہ عزوجل الناّر ۔ [١]
اگر تمام انسان علی بن ابی طالب -سے محبت کرتے تو اللہ جہنم کو خلق ہی نہ کرتا

٢٢)اہل بیت کی شان میںصحابہ کرام کا نظریہ
بہت سارے غیرمسلم افراد بھی اہل بیت کی عظمت اور فضیلت کے قائل ہیں مکارم الاخلاق ، علم اور عمل کے حوالے سے ہر ایک اہل بیت کی فوقیت اور برتری کا اعتراف کرتے ہیں ۔ اگرچہ حکومت اورہوس اقتدار کے نتیجہ میں سرپرستی اورولی امر مسلمین کے منصب سے اہل بیت کو محروم کررکھا یعنی مسلم و غیر مسلم سب اہل بیت کی برتری اور فوقیت کے قائل ہےں لیکن سیاست اور حکومت کے نشے میں اہل بیت سے زیادہ خود کو حکومت کا حقدار سمجھتے تھے۔اگرچہ بہت سارے برجستہ اصحاب اہل بیت کرام کی برتری کو مانتے تھے اور ان کوہر مسئلہ کے حل کے لئے مرجع قرار دیتے تھے۔
..............................
[١]۔ینابیع المودۃ ص٢٥١،

ابو رافع نے کہا :
کنت قاعدا بعد ما بایع الناس ابابکر فسمعت ابا بکر یقول للعباس انشدک اللہ ہل تعلم انّ رسول اللہ(ص) جمع بنی عبدالمطلب واولادہم وانت فیہم وجمعکم دون قریش فقال یابنی عبدالمطلب انّہ لم یبعث اللہ نبیا الاجعل لہ من اہلہ اخاً ووزیراً ووصیاً وخلیفۃ فی اہلہ فمن منکم یبایعنی علی ان یکون اخی ووزیری ووصیّ وخلیفتی فی اہلی فلم یقم منکم احدفقال یا بنی عبدالمطلب کونوا فی الاسلام رؤساً ولا تکونوا اذ ناباً واللّہ لیقومن قائمکم اولتکوننّ فی غیرکم ثمّ لنندمنّ فقام علی (ع) من بینکم یبایعہ علی ماشرط لہ ودعاہ الیہ اتعلم ہذا من رسول اللّہ قال نعم ۔[١]
ابورافع نے کہا: لوگوں کے حضرت ابوبکر کی بیعت کرنے کے بعد، میں بیٹھاہواتھااتنے میں ابوبکر نے جناب عباس -سے کہا کہ اے عباس! تمہیں تمہارے پروردگار کی قسم !کیاتم نہیں جانتے کہ جب پیغمبراکرم (ص)نے جناب
پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا:اے فرزندان عبدالمطلب! اللہ نے کسی بھی نبی کو
..........................
[١]۔ابن عساکر:ترجمہ امام علی - :ج١ ص ٨٩،٩٠ ۔

مبعوث نہیں کیا ہے مگراس کے خاندان سے اس کی مددکے لئے کسی کو اس کا بھائی، وزیر اور جانشین قراردےا ، لہذا تم میں سے کون میری بیعت کرے گا تاکہ وہ میرا برادر، جانشین اورمیرا وزیر قرار پائے؟ اس وقت تم میں سے کسی نے جواب نہیں دیا پھر دوبارہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا: اے فرزندان عبدالمطلب اسلام کی ترویج اور نشر واشاعت کے لئے سب سے آگے ہو نہ پیچھے ، کیونکہ خدا کی قسم اگرخلافت اور رہبری کے مقام پر تمہارے علاوہ کوئی اورقبضہ کر بیٹھے تو تمہیں پشیمانی کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا اس وقت حضرت علی -اٹھ کھڑے ہوئے اور آنحضرت (ص)کے روبرو ہو کرآپ کی بیعت کر کے ان کے وزیر اور جانشین اوربرادر بن گئے ابوبکر نے عباس سے پوچھا کیا اس واقعہ کی تصدیق کرتے ہو؟ عباس نے کہا جی ہاں اس کی تصدیق کرتاہوں۔
نیزحضرت عائشہ سے روایت کی ہے :
قالت قلت لابی انّی اراک تطیل النظر الی وجہ علی بن ابی طالب فقال لی یابنّیۃ سمعت رسول اللہ(ص) یقول النظر الی وجہ علی عبادۃ ۔[١]
میںنے اپنے باپ سے کہا : میں دیکھتاہوںکہ آپ حضرت علی -کے چہرے کی
.........................
[١]۔ غایۃ المرام، ص ٦٢٦۔

طرف بہت زیادہ نظر کرتے ہےں [ اس کی وجہ کیاہے ؟] کہنے لگے: میری بیٹی میں نے پیغمبراکرم (ص)کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ علی - کے چہرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے ۔
اسی طرح علامہ محدّث ابن حنویہ الحنفی الموصلی اپنی کتاب بحرالمناقب
[١] میں انس بن مالک سے اس روایت کو نقل کرتے ہیں کہ انس بن مالک نے کہا : حضرت ابوبکر کے دور خلافت میں ایک یہودی خلیفہ کی تلاش میں وارد مدینہ ہوا لوگ اس کو حضرت ابوبکر کے پاس لے گئے یہودی نے حضرت ابوبکر سے کہا:تو خلیفہ وقت اورجانشین رسول (ص)ہے؟حضرت ابوبکر نے کہا:جی ہاں میں خلیفہ وقت اور جانشین رسول (ص)ہوں، کیا تجھے نظر نہیں آتاکہ میں اس کے محراب اور مقام پر بیٹھا ہوا ہوں ؟ یہودی نے کہا: اگر ایسا ہے تو کچھ سوالات کا جواب آپ سے جاننا چاہتاہوں،حضرت ابو بکر نے کہا :جوکچھ سوالات ہے پوچھو یہودی نے کہا مجھے بتادے پھر اس نے پوچھا: وہ چیز کیاہے جسے خدا نہیں جانتا اور خدا کے پاس نہیں ہے اور خدا کے لئے نہیں ، ابوبکر نے کہا ایسے سوالات وہ لوگ کرتے ہیں جو زندیق ہے اس وقت عباس -بھی وہاں موجود تھے انہوں نے حضرت ابو بکر سے کہا: اس یہودی کے ساتھ نرمی کرو ۔ ابوبکر نے کہا :کیاآپ نے اس کے
..............................
[١]،ص٧٦،

سوالات کو نہیں سنا ابن عباس -نے کہا :اگر جواب دے سکتے ہو تو جواب دو ورنہ اس کو آزاد کردے تاکہ جہاں جانا چاہتا ہے جاسکے اس وقت جناب ابوبکر نے حکم دیا کہ اس کو دربار سے نکال دو یہودی یہ کہتا ہوا نکل گیا کہ خدا کی لعنت ان لوگوں پر ہوجو ایسے مقام پر قابض ہیں جس کے وہ لائق نہیں اور علم ودلیل کے بغیر انسانوں کی جان سے کھیلنا چاہتے ہیں کہ جسے خدا نے حرام قرار دیاہے پھر یہودی کہنے لگا اے لوگو! جب یہ شخص کسی ایک مسئلہ کا جواب نہ دے سکے تواسلام کہاں پیغمبراکرم (ص)کہاں ،ان کاجانشین کہاں ، ابن عباس -کے کہنے پر اسے وہاں سے نکالااور کسی نے اس سے کہا بہتر یہ ہے کہ حضرت علی - سے جا کر پوچھو جو علم نبوت اور وحی الہی کا گہوارہ ہے اس کو حضرت علی -کے پاس پہونچا دیا گیااور حضرت علی -کے اجازت لی لوگوں کی بھیڑبہت زیادہ تھی کچھ خوش ہورہے تھے کچھ رو رہے تھے اتنے میں حضرت ابوبکر نے کہا :اے ابوالحسن -اس یہودی نے مجھے سے بے دینوںاور زندیقوں کا سوال کیاہے ۔امام نے فرمایا: اے یہودی تو کیا کہتاہے ؟ یہودی نے کہا کیامیں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ مہمان کے ساتھ یہی سلوک کرتے ہیں جو ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا؟امام -نے فرمایا:ان لوگوں نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ کہاوہ لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے تھے امام نے فرمایا :اس کو درگذر کرجو سوالات ہیں وہ پوچھیں۔ یہودی نے کہا :میرے سوال کا جواب سوائے جانشین رسول خدا ؐکے کوئی نہیں دے سکتا ،امام -نے اصرار فرمایا :جو کچھ ہے سوال کرویہودی نے کہا : آپ مجھے بتائے جو خدا کے لئے نہیں وہ کیا ہے؟ جو خدا کے پاس نہیں ہے وہ کیاہے؟ وہ چیز کیا ہے جسے خدا نہیں جانتا؟حضرت علی - نے فرمایا: اے یہودی اس سوال کا جواب ایک شرط کے ساتھ میں بیان کروںگاوہ شرط یہ ہے کہ اگر میں جواب دو ںتولاالہ الا اللہ محمد...پڑھے اور مسلمان ہوجائے اس نے قبول کیا پھر امام -نے فرمایا: جوخدا کے لئے نہیں ہے وہ ہمسر اور شریک حیات وفرزند ہے اور جو خدا کے پاس نہیں ہے وہ ظلم ہے لیکن جسے خدا نہیں جانتا وہ یہ کہ خدا کا کوئی شریک ہو،خدا خود قادر مطلق ہے کسی وزیر اور شریک سے بے نیاز ہے یہودی نے کہا:اے رسول خدا ؐکے جانشین آپ نے صحیح جواب فرمایا: اس وقت یہودی نے امام -کے دست مبارک تھام کر شہادتین زبان پر جاری کیا اور کہا تو ہی خلیفہ برحق ہے ان کے حقیقی جانشین ان کے وارث علم وسیرت ہے تو اسلام کی آبیاری کے لئے لائق ترین ہستی ہے انس کہتاہے ؛لوگ خوشی میں فریاد کرنے لگے لیکن حضرت ابوبکر نے کہا علی - تو ہرغم اور مشکل کوبرطرف کرنے والی ذات ہے پھر حضرت ابوبکروہاں سے نکلے اور منبر پر جاکر اقرار کیا اے لوگو میں علی - ہوتے ہوئے تمہارے سرپرست اور جانشینی رسول کا لائق نہیں ہوں لہذا مجھے چھوڑ دو ۔ [١]اس حدیث کو ہمارے برادران اہل سنت کے بہت سارے برجستہ علماء نے اپنی کتابوں
............................
[١]۔بحرالمناقب،ص٧٦مخطوط ،

میں نقل کیا ہے جس سے بخوبی حضرت علی - کی افضلیت کا پتہ چلتا ہے نیز آپ کے جانشین رسول ہونے کا مسئلہ بھی واضح ہوجاتا ہے۔سوید بن غفلہ سے روایت کی ہے:
قال رأی عمر رجلا یخاصم علیاً فقال لہ عمر انّی لاظنّک من المنافقین سمعت رسول اللہ(ص) یقول علی منی بمنزلۃہارون من موسی الاّ انّہ لانبی بعدی ۔ [١]
سوید بن غفلہ نے کہا کہ ایک دن حضرت عمر نے کسی شخص کو دیکھا جوحضرت علی - سے بغض اور عداوت رکھتا تھا۔حضرت عمر نے اس سے کہا اے فلانی میرے خیال میں تومنافقین میں سے ہو۔ کیونکہ میں نے پیغمبر اکرم (ص)سے سنا ہے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا کہ جس طرح حضرت ہارون -حضرت موسی -کے برادر ، وزیر اور اس کا خلیفہ تھا اسی طرح علی - میرا بھائی ، میرا وزیراور خلیفہ ہے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے ۔
اس روایت سے روشن ہوجاتاہے کہ حضرت علی - حضرت ہارون - کی مانند ہے یعنی ہارون -حضرت موسی- کا خلیفہ، وزیر، مددگار اور ان کے بھائی تھے اسی طرح حضرت علی -پیغمبراکرم (ص)کے مدد گار ان کے جانشین اور وزیر ہے،صرف فرق یہ ہے حضرت ہارون- خود بھی نبی تھے لیکن حضرت علی -نبی نہیں
...........................
[١]۔ابن عساکر ،ترجمہ امام علی -ج،١ ص ٣٣٠۔

کیونکہ آنحضرت (ص)کے بعد کوئی نبی نہیں۔
نیز عبداللہ بن عباس -سے روایت کی ہے :
قال سمعت عمربن الخطاب وعندہ جماعۃ فتذاکروا السابقین الیٰ الالسلام فقال عمر امّا علی (ع) سمعت رسول اللہ (ص) یقول فیہ ثلاث خصالٍ لوددت ان لی واحدۃ منہنّ احبّ الیّ ممّا طلعت علیہ الشمس کنت انا وابو عبیدہ وابوبکر وجماعۃ من الصحابۃ اذا ضرب النبی (ص) بیدہ علی منکب علی (ع) فقال لہ ی علی (ع) انت اول المؤمنین ایماناً واول المسلمین اسلاماً وانت منی بمنزلۃ ہارون من موسی ۔[ ١]
عبداللہ بن عباس -نے کہا کہ میں نے حضرت عمر سے سناکہ [ایک دن ] ایک گروہ حضرت عمر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اتنے میں ان لوگوں کے بارے میں گفتگو ہوئی کہ جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ۔ اس وقت حضرت عمر نے کہا لیکن جہاں تک حضرت علی - کا تعلق ہے ان کے بارے میں حضرت رسول اللہ نے فرمایا کہ: علی - میں تین خصلتیں پائی جاتی ہےں اگر ان میںسے کوئی ایک مجھ میں پائی جاتی تو ہر اس چیز سے مجھے زیادہ پسند ہے کہ جس پر سورج طلوع
..........................
[١]۔ابن عساکرترجمہ امام علی - ،ج١،ص،٣٣١۔

کرچکا ہے۔[پھرحضرت عمر نے کہا] میں ، ابوعبیداللہ ، ابوبکر اور اصحاب میں سے ایک جماعت پیغمبراکرم (ص)کے محضر میں بیٹھے تھے اتنے میں حضرت علی - آئے ، آپنے دست مبارک کو حضرت علی - کے کندے پر مارا اور فرمایا: اے علی - تو سب سے پہلا مؤمن اور سب سے پہلا مسلمان ہو تو میرے لئے ہارون- کی مانند ہو یعنی جس طرح ہارون -حضرت موسی- کے لئے مدد گار تھے اسی طرح تو میرے لئے مددگار میرا وزیر اورجانشین ہے ۔
نیز حضرت عمر سے راویت کی گئی ہے :
عن عمر وقد نازعہ رجل فی مسألۃ فقال بینی وبینک ہذا الجالس [ واشارالی علی بن ابی طالب (ع) ] فقال الرجّل ہذا الابطن فنہض عمر من مجسلہ واخذ بتلببہ حتی شالہ من الارض ثم قال آتدری من حقرت مولای ومولی کل مسلم۔ [ ١]
[ایک دن ] حضرت عمر اورکسی شخص کے درمیان کسی مسئلہ پہ جھگڑا ہوا تو حضرت عمر نے کہا ہم فیصلہ اس شخص پر چھوڑ دیتے ہیں جو ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں یہ کہہ کر حضرت علی بن ابی طالب- کی طرف اشارہ کیا اس وقت اس شخص نے کہا کیاہم اس پیٹ پھولے ہوئے شخص کافیصلہ قبول کریں ،حضرت عمر
....................
[١]۔فضائل خمسہ من صحاح الستہ ،ج٢ص ٢٨٨ ۔

نے اٹھ کر اس کا گریبان پکڑ کر اسے زمین سے بلند کرکے کہا کیاتم جانتے ہو کہ تم نے کس کی تحقیر کی ہے ؟ تو نے میرے اور ہر مسلمان کے سرپرست ومولیٰ کی تحقیر کی ہے ۔
ہمارے برادران اہل سنت کی کتابوں میں اصحاب کرام سے بہت سی روایتیں اہل بیت کی شان میں نقل ہوئی ہیں[١]

ایک اعتراض اور اس کا جواب
اعتراض:اگرچہ ذکرشدہ مختصر روایات میںصرف حضرت علی - کے متعلق صحابہ کرام کی گواہی اور اعتراف موجود ہے جبکہ شیعہ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل بیت سے چودہ معصومین مراد ہے ان کے بارے میں مذکورہ روایات میں کوئی اشارہ نہیں ہے ۔
جواب : اس مختصر کتاب میں پورے اہل بیت کی شان میں جتنی
روایات اور آیات واردہوئی ہیں سب کو جمع کرکے بیان کرنا میراہدف نہیں ہے بلکہ اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے برادران اہل سنت کے معتبر منابع سے اہل بیت کی عظمت اور فضیلت ثابت کرنا مقصود ہے لہذا گذشتہ روایات میں اگرچہ صرف حضرت علی - کانام مذکور ہے لیکن دوسری بہت ساری روایات میں پورے اہل
..................................
[١]دیکھیں: ابن عساکر: کتاب ترجمہ امام علی -اور فضائل خمسہ من الصحاح الستہ ج٢وغیرہ

بیت کے مصداق اور اسامی گرامی موجود ہیں ان کی افضلیت کا صحابہ کرام اور تابعین بخوبی اعتراف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ینابیع المودۃ،شواہد التنزیل،مناقب حضرت علی -کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

٢٣)اہل بیت کی برتری عقل کی روسے
جب کسی معاشرے میں کوئی محقق یا مفکر کسی مطلب اور حقیقت کو تقریر اور خطابت کی صورت میں یاتألیف اور تصنیف کی شکل میں یادیگر ذرائع ابلاغ کے ذریعہ پیش کرنا چاہتاہے تو اس کی کوشش اور توجہ دو نکتوں کی طرف مرکوز ہوتی ہے:
١ ۔ مطلب مستدل اور اصول وضوابط کے مطابق ہو۔
٢۔فصاحت وبلاغت اور حسن وزیبائی کلام کے اصول وضوابط سے خارج نہ ہو، تاکہ سامعین اور قارئین کو زیادہ سے زیادہ متأثر اور مطمئن کرسکے لہذا جب ہم نے اہل بیت کی برتری اور افضلیت کو قرآن وسنت کی روشنی میں اہل سنت کے منابع سے ثابت کیا ہے تومناسب ہے کہ عقل کی رو سے بھی اہل بیت کی برتری کو ثابت کروں تاکہ ان کی امامت کے معتقد ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی حقانیت پراطمینان حاصل ہو اورشکوک و شبہات کا ازالہ ہو۔
قرآن وسنت کی طرح عقل وفطرت سے بھی بخوبی اہل بیت کی برتری اور افضلیت کی تائید ہوتی ہے اور ان کی سرپرستی کو قبول کرنے اوران کے حقوق کی رعایت کرنے کی ضرورت کا پتہ چلتا ہے، کیونکہ عقل کی نظر میں وہ انسان واجب الاطاعت اور افضل ہے جوسوائے رضایت الہی اور مشیّت معبود حقیقی کسی اورشے کے درپے نہ ہو ،چاہے ذاتی نفع ہو یا نہ ہو، ہرحرکات وسکنات اور قول وفعل میں خدا کی رضایت کا خواہان ہواور مکمل طور پر خدا کا فرمانبردار ہو اور اس کی پوری کوشش یہ ہو کہ معاشرے میں عدل وانصاف کی آبیاری ،ظلم وستم اورناانصافی کی نابودی ہو اور وہ ہر قسم کے عیب ونقص یعنی نافرمانی الہی اورگناہ سے پاک وپاکیزہ ہو، تو عقل درک کرتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے کہ ایسے افراد کو روز مرّہ زندگی کے تمام امور میں اسوہ اورنمونہ عمل قرار دیاجانا چاہئے تاکہ ان کی سیرت پر چل کر سعادت مادی ومعنوی سے ہمکنار ہوسکے۔
پس اگر کوئی اہل بیت کے کردار وگفتار پرصحیح معنوںمیں غور کرے تو ان کی حقانیت اورا ن کی برتری و افضلیت کا مسئلہ واضح ہوجاتاہے ۔یعنی اہل بیت صرف ہدایت اور رہنمائی بشر کےلئے خلق کیا گیا ہے۔ لہذا اہل بیت میں سے کسی ہستی کی سیر ت اور سوانح حیات میں کوئی ایسا مطلب نظرنہیں آتا جو عقل وفطرت کے منافی ہو چاہے اعتقادی پہلوہو یا عملی ، فقہی ہو یا سماجی ،اقتصادی ہو یاسیاسی، اخلاقی ہو یا فلسفی ،کلامی ہو یا منطقی ،تاریخی ہو یاطبی، تمام مسائل اور امورمیں اہل بیت ہر جانب سے پیشقدم نظر آتے ہیں اور ذرہ برابر غلطی اور گناہ نظر نہیں آتایہی ان کی حقانیت اور برتری کی واضح دلیل ہے لہذا عقل اور فطرت بشر نہ صرف ان کی تائید کرتی ہے بلکہ ان کی سیرت پر نہ چلنے کی صورت میں اپنی ضلالت اور گمراہی کو بھی محسوس کرتی ہے کیونکہ اہل بیت روز مرّہ زندگی سے آگاہ ہیں ان کی سیرت میں کشف خلاف ہونے کا احتمال نہیں دیا جاسکتا ان کے سارے بیانات اور افعال سو فیصد یقینی اور واقع کے مطابق ہےں، اہل بیت میں سر فہرست حضرت پیغمبراکرم (ص)ہے ان کی سیرت طیبہ میں کوئی ایسا مطلب نظر نہیں آتا جو ہماری مادی اور معنوی زندگی کے لئے مفید نہ ہو عقل اور فطرت سے آنحضرت (ص) کے بارے میں سوال کرے تو عقل اور فطرت یہ محسوس کرتی ہے کہ ضرور بشر ایسی ہستی کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے نیز دوسری ہستی حضرت فاطمہ ئ زہرا = ہے جن کے بارے میں دوست اور دشمن دونوں کا اعتراف ہے کہ زہرا =سیدۃنساء العالمین ہے حتی حضرت مریم =اورحضرت آسیہ = اورحضرت خدیجہ = ؑسے بھی افضل اور برتر ہے جن کی سیرت طیبہ عقل کی نظر میں ہمارے لئے بہترین نمونہ عمل ہے۔نیز تیسری ہستی حضرت امیر المؤمنین - ہے جن کے بارے میں کچھ احادیث پہلے ذکر کیا گیاہے ان کی حیات اور سیرت طیبہ بھی عقل کی نظر میں بشر کے لئے بہترین اسوہ اور نمونہ عمل ہے ۔ اور چوتھی ہستی امام حسن - ہے پانچویں ہستی امام حسین- جن کی سیرت اور عظیم قربانی اور ایثار وفداکاری کا صحیح معنوں میں مطالعہ کیا جائے تو عقل بخوبی ان کی افضلیت اور برتری کا حکم دیتی ہے ۔
نیز امام زین العابدین -کے بارے میں روایت ہے :
وکان الامام زین العابدین عظیم التجاوزو العفو والصفح حتی انّہ سبّہ رجل فتغافل عنہ فقال لہ ایاک اعنی فقال الامام واعرض عنک...[ ١]
امام زین العابدین- بہت ہی زیادہ درگذر اور بخشش کے مالک تھے حتی ایک دن کسی نے آپ -کو ناسزا اور نازیبا الفاظ کہاتو آپ- خاموشی سے گذرگئے تو اس نے کہا میں تجھ سے یہ باتیں کہہ رہا ہوں اس وقت امام -نے اس آیت کی طرف اشارہ فرمایا:
خذا العفو وأمر بالمعروف واعرض عن الجاہلین
اسی طرح امام محمد باقر - کی شان میں فرمایا:
ہواظھر من مکفوفات کنوز المعارف وحقائق الاحکام والحکم واللطائف ومن ثمہ قیل فیہ ہو باقرالعلوم وجامعہ وشاعر علمہ ورافعہ بصفاء قلبہ وزکاء نفسہ وطہر نسبہ وشرف خلقہ وصرف عمر واوقاتہ بطاعۃ اللّہ تعالی لہ من الاسرار فی مقامات العارفین ماتکل عنہ السنّۃ الواصفین ۔[ ٢]
.......................
[١]۔ینا بع المودۃ ص٣٥٩
[ ٢]۔ینا بیع المودۃ ص٣٦٠۔

امام محمد باقر -، احکام الہی کے تمام حقائق اور ان کی حکمت وفلسفہ اوران کی خصوصیتوں اور پوشیدہ رموز سے مکمل آگاہی رکھتے تھے اسی لئے آپ-کو
.باقرالعلوم کے لقب سے پکارتے تھے آپ- نے اپنی پاک سیرت ، عمل ،پاکیزہ قلبی اور شرافت خاندانی کے نتیجہ میں علوم آل محمد کی نشر واشاعت فرمائی اورپوری عمر کو خدا کی اطاعت اور تبلیغ اسلام میں گذاری ان کا مقام ومنزلت اتنا بلند ہے کہ جس کو بیان کرنے سے زبان قاصر ہے ۔
اس حدیث کے مضمون کو عقل اور فطرت کے سامنے رکھ کر سوال کرے کیا ایسے افراد اور ہستیوں کی اطاعت اورسرپرستی ہمارے لئے ضروری نہیں ہے؟ کیا ان کا احترام ہم پر فرض نہیں ہے ؟ کیا ان کے حقو ق کی رعایت کرنا ہم پر واجب نہیں ہے ؟ یقیناً عقل حکم دے گی کہ ایسے لوگوں کی پیروی ضروری ہے ۔
نیز اہل بیت میںسے ایک امام موسی کاظم -ہیں جن کے بارے میں ینابیع المودۃکے مصنف نے یوں روایت کی ہے :
منہم موسی کاظم ؑ ہو وارثہ علماً ومعرفۃ وکمالاً وفضلا سمی الکاظم لکثرۃ تجاوزہ وحلمہ وکان عند اہل العراق معروفابباب قضاالحوائج وکان اعبد اہل زمانہ واعلمہم واسخاہم۔[ ١]
........................
[١]۔ینا بیع المودۃ ص٣٦٢۔

اہل بیت میں سے ایک امام کاظم -ہےں جو علم ومعرفت اور کمال وفضیلت کے حوالے سے امام جعفرصادق - کے وارث ہیں اورصبرو بردباری کے نتیجہ میں کاظم کے لقب سے موسوم ہوئے۔ اہل عراق کے درمیان باب الحوائج سے معروف تھے آپ- اپنے زمانے میں عابد ترین اور سب سے زیادہ عالم و سخی تھے۔
نیز ائمہ کی سیرت اور کمالات کی تشریح اور احادیث ینابیع المودۃ جیسی کتابوں میں موجود ہے تمام اہل بیت کے فضائل کی تشریح کرنا اس مختصر کتاب کی گنجائش سے خارج ہے ۔
مذکورہ احادیث سے درج ذیل مطالب واضح ہوجاتے ہیں :
١۔عقل کی نظر میں سوائے چہادہ معصومین کے علاوہ باقی دوسری ذرّیت رسول اور زوجات اوردیگر انساب واحباب کی کردار اور سیرت میں کوئی ایسی چیز ہی نظر نہیں آتی کہ جن کی اطاعت اور سرپرستی کو ماننا ہم پر فرض ہو۔
٢۔چودہ معصومین میں سے کسی ایک ہستی کی سیرت میں عقل اور فطرت کے منافی کوئی مطلب نظر نہیں آتا ۔
٣۔عقل کی نظر میں صرف چودہ معصومین روز مرّہ زندگی کے امور میں مرجع و پیشوابننے کے لائق ہیں۔
ٍٍ جو بھی تعصب اوردیگر عوا مل اورانگیزے چھوڑ کر دیکھیں تو بخوبی اہل بیت کی حقانیت اور افضلیت وبرتری واضح ہوجاتی ہے جس سے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،اگرانسان اہل بیت کی سیرت کواپنی زندگی کے لئے نمونہ قرار دے تو کسی قسم کی پریشانی اور مشکل سے دوچار نہیں ہوسکتا ۔اگرچہ ہمیں سوفیصد ان کی سیرت کو نمونہ عمل قرار دینا اس تاریکی اور جہالت کے دور میں بہت مشکل ہے کیونکہ بنی امیہ اور بنی عباس کے دور ختم ہوتے ہی زمانے کے دیگرہرجابر حکمران پوری طاقت اور تسلط کے ساتھ ان کی سیرت کے منافی عوامل اور تہذیب وتمدن کورواج دیتا رہا ہے۔ جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی بدبختی یہ ہے کہ دنیا کے کسی نقطہ اور گوشے میں اہل بیت کی سیرت کے مطابق کوئی حکومت یا معاشرہ نظر نہیں آتا۔ لیکن ہر مسلمان کا فریضہ بنتا ہے جتنا ہوسکے اہل بیت کی سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دے ۔
اور آخر میں اہل بیت کے مصادیق کو کتاب وسنت اور عقل کی روشنی میں فہرست وار بیان کرتے ہیں تاکہ قارئین محترم اہل بیت کی صحیح شناخت حاصل کرکے ان کی سیرت سے بہرمند ہوسکیں:۔
١۔حضرت پیغمبراکرم (ص)
٢۔ حضرت امام علی -
٣۔حضرت زہراء =
٤۔حضرت امام حسن -
٥۔حضرت امام حسین -
٦۔ حضرت امام زین العابدین -
٧۔ حضرت امام محمد باقرعلی -
٨۔ حضرت امام جعفرصادق -
٩۔ حضرت امام موسی کاظم -
١٠۔ حضرت امام علی رضا -
١١۔ حضرت اماممحمدتقی -
١٢۔ حضرت امام علی نقی -
١٣۔ حضرت امام حسن عسکری -
١٤۔ حضرت امام محمد المہدی (عج)
ان کے علاوہ باقی پیغمبر اکرم (ص)کے احباب وانساب چاہے فرزند ہویا زوجہ اگرچہ نسبت کے سبب قابل احترام ہیں لیکن ان مندرجہ بالا آیات اور روایات میں جو فضیلت اور عظمت ذکر کیا گیاہے ان کا مصداق نہیں ہوسکتے کیونکہ احادیث نبوی(ص) میںصاف الفاظ میں بیان ہواہے کہ اس فضیلت اور عظمت کے لائق صرف وہ ہستیاں ہیں جو عصمت کے مالک اور ہدایت یافتہ ہوںاگرچہ وجوب اطاعت کالازمہ عصمت نہیںہے ۔


اللہّم تقبّل منّاانّک انت السمیع العلیم۔
الاحقر
محمد باقر مقدسی
اسلامی جمہوریہ ایران قم ،٢٠رجب المرجب ١٤٢٥ق ھ