١٣)اہل بیت کی عصمت
گذشتہ آیات و روایات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہر کس وناکس اہل بیت کا مصداق نہیں بن سکتا ۔ بلکہ اہل بیت (ع) جو امت محمدی کےلئے وسیلہ نجات ہےں کے کچھ شرائط اور خصوصیات پیغمبر اکرم (ص)نے بیان فرمایا ہے کہ جس میں یہ خصوصیتیں ہوں وہ اہل بیت کا مصداق بنے گا اورجو اس ضابطہ اور معیار پر پورانہ اتر ے وہ اہل بیت کا مصداق نہیں بن سکتا ۔
جس میں طہارت، صداقت، علم ،ہدایت اور عصمت جیسی خصوصیتیں ہوں وہی اہل بیت کا فرد بن سکتا ہے چنانچہ بہت سی احادیث اس بات پر شاہد ہیں جن میں پیغمبر اکرم (ص)کے بعد پوری بشریت پر اہل بیت کی برتری اور فوقیت اور ان کے اوصاف و خصوصیات کو بیان فرمایا ہے۔
چنانچہ عامر بن وائلہ نے حضرت علی -سے روایت کی ہے:
قال: قال رسول اللہ(ص) یاعلی انت وصّی حربک حربی وسلمک سلمی وانت الامام وابوالائمۃ الاحد عشر الذین ہم المطہرون المعصومون ومنہم المہدی الذی یملاء الارض قسطاً وعدلاً فویل لمبغضہم یاعلی لوانّ رجلاً احبّک واولادک فی اللہ لحشرہ اللہ معک ومع اولادک وانتم معی فی الدرجات العلی وانت قسیم الجنّۃ والنار تدخل بحبک الجنّۃ وببغضک النار۔[١ ]
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا : یاعلی - تو میرا جانشین ہے جو تم سے جنگ کرے اس نے مجھ سے جنگ کی ہے جوتم سے صلح وصفا ئی سے پیش آئے اس نے مجھ سے صلح کی ہے [اے علی -]تو [لوگوں کے] امام اور ان گیارہ اماموںکے باپ ہو جو پاک وپاکیزہ اور معصوم ہیں ان گیارہ اماموں میں سے ایک مہدی ؑہوگا جو زمین کو عدل وقسط سے بھر دے گا پس غضب ہو تیرے اور ان اماموں کے ساتھ بغض رکھنے والوں پراے علی - اگر کوئی تجھ سے اور تیری ذریت سے اللہ تبارک
وتعالی کی خاطر دوستی رکھے توخدا اس کو روز قیامت تمہارے ساتھ محشور کرے گااور تو میرے ساتھ ہوگا، تو جنت اور جہنم کاقسیم ہے اپنے دوستوں کو جنت اور دشمنوں کوجہنم میںداخل کروگے۔
تحلیل :
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت کے تمام افراد میں عصمت
..........................
[١]۔ینابیع المودۃ ج ١ص ٨٣۔
کا ہونا شرط ہے۔ چنانچہ فرمایا:''المطہرون ''، جس کا سرچشمہ آیت تطہیر ہے ، ''المعصومون ''جس کا سرچشمہ آیت صادقین ہے ۔ تومیرا جانشین ہے جس کا سرچشمہ آیت ولایت ہے ۔
پس اہل بیت کا ملاک اورمیزان یہ ہے کہ وہ معصوم ہو۔ جیساکہ بہت سارے علماء اور دانشمندوںنے آیات اور احادیث سے انبیائ اور ان کے جانشینوں کے معصوم ہونے کو ثابت کیاہے ۔جیساکہ علامہ فخررازی نے آیت ابتلا کے بارے میں فرمایا:
انی جاعلک للناس اماما سے حضرت ابراہیم(ع)کی امامت کے علاوہ ان کا معصوم ہونا بھی ثابت ہوجاتاہے [١]نیز انہوں نے فرمایا:
آیت اولی الامر سے اولی الامر کی عصمت ثابت ہوجاتی ہے ۔اسی طرح کچھ اور
احادیث اور آیات سے بھی سنی علماء نے اولی الامر اور امام کی عصمت کو ثابت کیا ہے۔ لہذا آیات اور احادیث کی روسے اہل بیت کا مصداق بخوبی واضح اور روشن ہے جس میں اختلاف کرنا شاید مسلمانوں کی بدقسمتی کے علاوہ کچھ نہ ہو تب بھی تو آج دشمنوںنے ہماری اس بری سیرت کی بناء پر اتنی جرأت کے ساتھ تسلط جمایا ہے اگر مسلمانوں کو اپنے گھروں،شہروں اورممالک سے نکال باہر کردے اور
..........................
[١]۔ مفاتیح الغیب ،ج٤،ص٤٠۔
روز مرہ زندگی کی ضروریات اور تعلیم وغیرہ سے محروم بھی کردے ،پھر بھی ان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے نظر آتے ہیں جبکہ انکی پوری طاقت مسلمانوں کے سرمایے سے ہے۔
لہذا آج مسلمانوں کا آپس میں اختلاف کرکے ایک دوسرے سے دوری اختیار کرنا حقیقت میں قرآن وسنت اور نظام اسلام کی پامالی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔لہٰذامحققین کی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کرنا اور استعمار کے اشارے پر چلنے والے ایجنٹوں کی مخالفت کرنا ہماری ذمہ داری ہے تاکہ ہمارے آپس میں اختلاف اور تفرقہ پیدا نہ ہو۔
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:
من سرہ ان یحی حیاتی ویموت مماتی ویسکن جنّۃ عدن التی غرسہا ربی فیوال علیاً من بعدی ویوال ولیّہ ویقتد باالائمۃ من بعدی فانّہم عترتّی خلقوا من طینتی ورزقوا فہماًو علماً وویل للمکذبین بفضلہم من امتی القاطعین فیہم صلتی لاانالہم اللہ شفاعتی [١ ]
''جو شخص میری طرح جینا اور میری طرح مرنا چاہے اور جنت عدن
.........................
[١]ینابیع المودۃص ٣١١
[جسے میرے پروردگار نے مؤمنین کے لئے تیارکیاہے] میں رہنا چاہتا ہے تو میرے بعدعلی - اور اس کے جانشینوں کی سرپرستی کو قبول کرےں نیز میرے بعد ان پیشواؤں کی اقتداء کرےں ۔کیونکہ وہی میرے اہل بیت وعترت ہےں اور میری طینت سے خلق کیاگیا ہے اور یہ فہم ودرک اور علم کی نعمت سے نوازے گئے ہیں اورمیری امت میں سے جوان کے فضائل کے منکر ہو ان پرغضب ہو کیونکہ خدا نے میری رسالت کا صلہ ان سے دوستی اور محبت رکھنے کو قرار دیا ہے ۔ لہذا جوان کے فضائل اور منزلت کا منکر ہوگا اسے میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی۔
تحلیل:
اس حدیث میں حضرت پیغمبر اکرم (ص)نے بشر کی ہدایت اور ہلاکت و گمراہی سے نجات کاذریعہ واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے یعنی بشر یا محب اہل بیت ہے یادشمن اہل بیت ۔ اگر دنیا میں عزت ،شرف اور ابدی زندگی میں آسائش و راحت کا خواہاں ہے تو اہل بیت سے محبت کرنی ہوگی اور ان کی سیرتکو اپنی روزمرہ زندگی کے لئے نمونہ ومعیار قرار دےنا ہوگا،کیونکہ زندگی کے اصول وضوابط کاملاک اور معیار اہل بیت ہے ان کی سیرت طیبہ سے ہٹ کر کوئی شخص جتنی بھی زحمت اور مشقت اٹھائے بے فائدہ اورفضول ہے ۔ پس اس حدیث سے بھی اہل بیت کی عظمت اور فضیلت کا اندازہ لگاسکتے ہیں یعنی حضور کی طرح جینا اور مرنا، جنت کا حصول حضور کی شفاعت اور عذاب جہنم سے نجات سب اہل بیت کی محبت اور اطاعت سے وابستہ ہے۔
١٤)اہل بیت کی اطاعت فرض ہے ۔
خدا اوررسول (ص)کی اطاعت کے علاوہ اہل بیت رسول کی اطاعت بھی امت مسلمہ پر فرض ہے ۔
چنانچہ اس مطلب کو ابن عباس -نے یوں روایت کی ہے :
قال رسول اللہ(ص) انّ اللہ افترض طاعتی وطاعۃ اہل بیتی علی الناس خاصّۃ وعلی الخلق کافۃ۔ [١]
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: خدا نے میری اور میرے اہل بیت کی اطاعت
کو ساری مخلوقات پر اور خاص طور پرانسانوں پر لازم قرار دیاہے ۔
علامہ قندوزی نے ابراہیم بن شبیہ الانصاری سے روایت کی ہے ـ :
قال جسلت عند اصبغ بن نباتہ قال الااقرائک مااملاہ
علی بن ابی طالب (ع) فاخرج صحیفۃ فیہا مکتوب :بسم اللّہ
..........................
[١]۔ینا بیع المودۃ ج ٢ص٧٥۔
الرّحمن الرّحیم ، ہذا مااوصی بہ محمد(ص) اہل بیتہ وامتہ واوصی اہل بیتہ تقوی اللّہ ولزوم طاعتہ واوصی امتہ بلزوم اہل بیتی واہل بیتہ یأخذون لحجزۃ نبیہم وانّ شیعتہم یأخذون لحجزہم یوم القیامۃ وانّہم لن یدخلوکم باب الضلالۃ ولن یخرجوکم من باب ہدی۔[ ١]
ابراہیم بن شبیہ کہتا ہے : میں اصبغ بن نباتہ - کے پاس بیٹھا ہواتھا مجھ سے کہنے لگا: کیا میں وہ حدیث نہ سناؤں جو حضرت علی - نے مجھے لکھوادیا تھا ؟پھر اس نے ایک کاغذ نکالا جس پر یہ لکھا ہواتھا کہ خدا کے نام سے شروع کرتاہو ں جوبڑا مہربان ہے۔ یہ محمد(ص)کی وصیت ہے جواپنی امت اور اپنے اہل بیت سے کی ہے۔میں اہل بیت کو تقوی اور خدا کی اطاعت کرنے کی جبکہ امت کو اہل بیت کی اطاعت اور پیروی کرنے کی وصیت کرتا ہوں
کیونکہ قیامت کے دن اہل بیت کے دامن سے متمسک ہونگے اور ان کے پیروکار اہل بیت کے دامن تھامے ہونگے یاد رکھو کہ اہل بیت کبھی تمہیں ہدایت کی راہ سے نکال کر ضلالت و گمراہی کی طرف نہیں لے جائینگے۔
تحلیل:
........................
[١]۔ینابیع المودۃ ،ص٢٧٣۔
خدا اور رسول (ص)کی اطاعت کے فرض ہونے کو توسب جان لیتے ہیں لیکن اہل بیت کی اطاعت فرض ہے یانہیں اس میں امت مسلمہ کے درمیان اختلاف پایاجاتا ہے :
١۔بعض کا خیال ہے کہ اہل بیت کی اطاعت لازم نہیں ہے کیونکہ اہل بیت اور دیگر انسانوں میںکوئی فرق نہیں ہے لہذا جس طرح باقی انسانوں کی اطاعت اور پیروی لازم نہیں ہے اسی طرح اہل بیت کی اطاعت بھی ضروری نہیں ہے لیکن یہ نظریہ کتاب وسنت کے مخالف ہے ،جیسا کہ گذشتہ آیات و روایات سے واضح ہوا۔
٢۔کچھ مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اہل بیت دیگر انسانوں کے مانند نہیں بلکہ ان کی عظمت اور شخصیت کتاب وسنت میں واضح الفاظ میں بیان ہوا ہے لہذا ان کے فضائل سے انکار کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن جس طرح خدا کی اطاعت اور رسول (ص)کی اطاعت مسلمانوں پر فرض ہے اس طرح اہل بیت کی اطاعت کرنا فرض نہیںایسا نظریہ بھی عقل قبول نہیں کرتی ،کیونکہ ایک طرف اہل بیت کے فضائل کو قبول کرے جبکہ دوسری طرف سے ان کی اطاعت کو واجب نہ ماننا حقیقت میں یہ سنت نبوی اور کتاب الہٰی کے پابند نہ ہونے اور مقام ومنزلت اہل بیت سے انکار کی علامت ہے ۔
٣۔ اہل بیت اوردیگر انسانوں کے درمیان زمین وآسمان کا فرق ہے جس طرح خدا اور رسول (ص) کی اطاعت امت مسلمہ پر فرض ہے اسی طرح اہل بیت کی اطاعت بھی فرض ہے ان کی اطاعت اور خدا اور رسول (ص)کی اطاعت میں کوئی فرق نہیں ہے۔کیونکہ اہل بیت کی اطاعت در حقیقت خدا و ر رسول کی اطاعت ہے،کیونکہ خدا و رسول نے ہی اہل بیت کی اطاعت کا حکم دیا اور ان کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دی۔ چنانچہ مذکورہ احادیث سے واضح طور پرمعلوم ہوا کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا :امت پر میرے اہل بیت کی اطاعت کرنافرض ہے ۔
١٥)اہل بیت علم وعمل کے ترازوہیں
قرآن کی آیات کے علاوہ کئی احادیث سے واضح ہوجاتاہے کہ اہل بیت حق اور ناحق ، انصاف اور ناانصاف ، ایمان اور کفر ، جنت اور جہنم ، عدل و ظلم کا ملاک اور معیار قرار پانے کے ساتھ علم و حکمت اور عمل کا سرچشمہ بھی ہیں۔
سعید بن جبیر نے ابن عباس -سے روایت کی ہے:
قال رسول (ص)اللّہ نحن اہل بیت مفاتیح الرحمۃ وموضع الرسالۃ ومختلف الملائکۃ ومعدن العلم [١ ]
پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا: ہم اہل بیت ، رحمت الہی کی چابی ،
............................
[١] فرائد السمطین ج٢ص ٢١٢۔
رسالت کی منزل، فرشتوں کے رفت وآمد کی جگہ اور علم کا سرچشمہ ہےں ۔
اہل تشیع کی کتابوں میں اس حدیث کے مضمون کی مانند احادیث اور دعائیں اور زیارات ائمہ معصومین بہت زیادہ ہےں۔
نیز مجاہد، ابن عباس -سے روایت کرتاہے :
قال رسول اللہ(ص) انا میزان العلم وعلی کفّتاہ والحسن وال حسین (ع) خیوطہ وفاطمۃ علاقتہ والائمۃ من امتی عمودہ یوزن
فیہ اعمال المحبین والمبغضین لنا۔ [١]
پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا: میں علم کا ترازو اور علی - ترازو کے دو نوں پلڑے ہےں، حسن- وحسین- اس ترازو کی زنجیروں کی مانند ہیںجبکہ فاطمہ زہراء =ترازو کادستہ ہےں اور میری امت میں سے جو پیشوا اور امام ہے وہ ترازوکے ستون کی مانند ہے جس کے ذریعے ہمارے دوستوں اور دشمنوں کے اعمال کو تولا جاتاہے۔
..........................
[١]، مقتل الحسین ص ١٠٧۔
تحلیل :
اس حدیث کی مانند اوربھی احادیث اہل سنت کی کتابوں سے منقول ہےں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ فرشتوں کے رفت وآمد کی جگہ اہل بیت ،رحمت الہی کاذریعہ اہل بیت رسالت اور امامت کے لائق اور مستحق اہل بیت ، علم وعمل کے میزان اورترازو اہل بیت ہےں۔ لہذا اہل بیت کو عمل اور علم کا سرچشمہ قراردے کر حقیقت میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ علم حقیقی وہ ہے جس کا سرچشمہ اہل بیت ہو عمل صحیح وہ ہے جس کا سرچشمہ اہل بیت ہو۔ لہذا اہل بیت کی سیرت سے ہٹ کر کسی بھی عمل کی کوئی قیمت نہیں ہے۔
نیز اہل بیت سے ہٹ کر کسی بھی علم کی کوئی قیمت نہیں ہے کیونکہ خدا نے علم وعمل کا ملاک اہل بیت کو قرار دیا ہے ۔
١٦)اہل بیت سے دوری کے عوامل
اہل بیت سے دوری اور بغض رکھنے کے عوامل کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
١۔ بیرونی عوامل ۔
٢۔درونی عوامل ،
١۔بیرونی عوامل:
سب سے پہلے ظاہری اور بیرونیعوامل کو بیان کریں گے تاکہ مسلمانوں کا دل اہل بیت کی محبت کے ذریعے منور ہوجائے۔
الف۔ جہالت
بسا اوقات اہل بیت سے دوستی اور محبت نہ کرنے والے افراد سے سوال کرے تو جواب ملتاہے کہ ہمیں ان کی معرفت اور شناخت نہ تھی لہذا ان سے محبت اور دوستی کرنے سے ہم محروم رہے ہیں۔ایسی جہالت کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں :
١۔جاہل قاصر۔ ٢۔جاہل مقصر۔
اگر اہل بیت کی معرفت اور شناخت حاصل کرسکنے کے باوجود اپنی کوتاہی اور سستی سے حاصل نہ کی ہوجس کے نتیجہ میں اہل بیت کی دوستی اور محبت سے محروم رہ گیا ہوتو ایسے افراد روز قیامت اپنی جہالت کو اہل بیت سے محبت نہ کرنے کے عذر کے طورپر پیش نہیں کرسکتے کیونکہ ایسا شخص جاہل مقصر ہے ۔ جاہل مقصر کا حکم شریعت اسلام میں واضح اور روشن ہے قیامت کے دن اس کو وہی سزا دی جائے گی جو اہل بیت سے جان بوجھ کر دشمنی اور بغض رکھنے والے افراد کے لئے مقرر کی گئی ہے ، کیونکہ بہت ساری احادیث میں پیغمبر اکرم (ص)نے صاف الفاظ میں فرمایا ہے : اہل بیت کی معرفت اور شناخت حاصل کرنا فرض ہے ۔
چنانچہ حضرت امام جعفر صادق -سے روایت ہے :
قال: قال امیرالمؤمنین ؑ اعرفوا اللّہ والرسول بالرسالۃ واولی الامر بالمعروف والعدل والاحسان ۔[١]
حضرت علی -نے فرمایاکہ: خدا اور ان کے رسول (ص) کی شناخت اور معرفت رسالت کے ذریعے کرو اور اولی الامر[ جو اہل بیت ہے] کی معرفت اور شناخت عدل واحسان اور نیکیوں کے ذریعہ حاصل کرو ۔
آیات اور روایات کے علاوہ دلیل عقلی بھی اہل بیت کی معرفت اور شناخت کاہم پر فرض ہونے کی تائید کرتی ہے ۔ کیونکہ ایک طرف اہل بیت تمام مسائل کا مرجع ہوں دوسری طرف ہم ان کی شناخت حاصل نہ کرے تو ''فاسئلوا اہل الذکر'' یا ''کونوا مع الصادقین'' وغیرہ کا معنی نہیں رہتا۔ پس اس قسم کی جہالت میں مبتلاء افراد کو جاہل مقصر کہا جاتا ہے یعنی معرفت اور شناخت اہل بیت کا زمینہ اور ذرائع میسر ہونے کے باوجود حاصل نہ کرے۔
لیکن اگر معرفت اور شناخت اہل بیت حاصل کرنے سے قاصر ہو یعنی معرفت اور شناخت اہل بیت حاصل کرنے کے لئے کسی قسم کے امکانات میسرنہ ہو جس کے نتیجہ میں اہل بیت سے دور اور ان کے ساتھ دوستی اورمحبت کرنے سے محروم رہے ایسے افراد کی جہالت کو قیامت کے دن عذر کے طور پر قبول کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس صورت میں تکالیف الہی کا آنا معقول نہیں ہے ۔
................................
[١]۔بحارالانوار ، ج٢٥ص ٤١،۔
ب۔غلط پروپگنڈے
اہل بیت سے دشمنی اور بغض رکھنے کے اسباب میںسے دوسرا سبب منفی تبلیغ ہے جسے قدیم الایام سے قرآن وسنت اور اسلام کے مخالفین نے کبھی بنی امیہ کی شکل میں اور کبھی بنی عباس کی شکل میں پیغمبراکرم (ص)کے رحلت پاتے ہی اہل بیت کے خلاف شروع کی جس کے نتیجہ میں بہت سارے افراداہل بیت کی دوستی اور محبت کرنے سے محروم رہے۔ یعنی پیغمبر اکرم (ص)کے وفات پاتے ہی مسلمانوں اور اہل بیت کے درمیان دوری اور جدائی شروع ہوگئی اگرچہ پیغمبراکرم (ص)کے دور میں کفار اور مشرکین نے مسلمانوں کو پیغمبراکرم (ص)اور قرآن واسلام سے دور رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن پیغمبر اکرم (ص)نے ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنایا مگرجب پیغمبراکرم (ص)دنیا سے چل بسے تو کفار اور مشرکین نے موقع کوغنیمت سمجھ کر مسلمانوں اور اصحاب میں سے ضعیف الایمان افراد کو ورغلانا اور پروگرام کے مطابق لاشعوری طور پراختلاف ڈالنا شروع کیا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے نہ صرف اہل بیت سے محبت اور دوستی کرنا چھوڑ دیا بلکہ اہل بیت کو اپنا دشمن قراردینا شروع کیا جس کی دلیل آج فریقین کی کتابوں میں واضح الفاظ میں موجود ہے یعنی سوائے امام زمانؑ کے باقی سارے اہل بیت کے ساتھ امت مسلمہ نے برا سلوک کیا اہل بیت میں سے کوئی ایک بھی موت طبیعی سے دار دنیا سے نہیں گیا بلکہ ہرقسم کے مظالم ان پر ڈھائے گئے اور شہید کیا گیا ۔لہذا آج مسلمانوں میں سے کچھ لوگ اہل بیت کی شان میں نازل ہونے والی آیات اور احادیث نبوی(ص) کو بالائے طاق رکھ کر یہودیوں کے دئیے ہوئے نقشے کے مطابق لوگوں کو اہل بیت سے دور کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں ۔ اوراہل بیت کے فضائل بیان کرنے والے افراد کو قتل کرناشرعی ذمہ داری سمجھتے ہیں جو یقیناً کفارومشرکین اوریہودیوں کا نقشہ ہے ورنہ فریقین کے علماء اور محققین نے اہل بیت سے متعلق آیات اور روایات کی روشنی میں ان کے دامن تھامنے کو باعث سعادت قرار دیا ہے۔ لہذا سارے مسلمانوں پر لازم ہے کہ اہل بیت کا دامن تھام لیں تاکہ سعادت دنیا وآخرت سے محروم نہ رہے۔
ج ۔تربیت اور سوسائٹی
اہل بیت سے دوری کاتیسرا عامل تربیت اور سوسائٹی بتایا جاتاہے یعنی اگر کسی کی تربیت کسی ایسے گھرانہ یاسوسائٹی میںہوئی ہوجو محب اہل بیت ہے تو اس شخص کا محب اہل بیت ہونا طبیعی ہے لیکن اگر کسی ایسے معاشرہ یاگھرانہ یا سوسائٹی میں تربیت ہو جو دشمن اہل بیت ہے ، یااہل بیت سے دور اور ان کے نور سے محروم ہے تو یقینا وہ انسان بھی اہل بیت سے دورہوگا اور بغض رکھے گا۔اس حوالے سے تربیت اور سوسائٹی کی اہمیت بہت زیادہ ہے جس کی طرف خدا اور اس کے انبیاء نے بھی تاکید کی ہے کہ تربیت کے لئے اچھے افراد کو منتخب کرنا ہمارا فرض بنتاہے ۔اسلام ، قرآن اور سنت کی روشنی میں اچھا انسان وہ ہے جو مسلمان حقیقی ہو اگر کسی معاشرہ ، قبیلہ اور گھرانہ میں اہل بیت کی محبت نظر نہ آئے تو اس کی وجہ جہالت اور منفی تبلیغ کے علاوہ غلط تربیت بھی ہے ، چاہے تربیت گاہ سکول ہو یاکالج ،یونیورسٹی ہو یا مدرسہ۔ اگر سوسائٹی محبت اہل بیت کا حامل ہو تو اس میں تربیت یافتہ انسان بھی محب اہل بیت ہوگا لیکن اگر ان مراکز میں تربیت دینے والا دشمن اہل بیت ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ تربیت یافتہ تمام افراد اہل بیت کے ساتھ بغض اور دشمنی رکھیں گے۔
آج یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ یہودی ہماری تربیت گاہوں پر اپنا تسلط جماکر ہمارے بچوں کو قرآن اور اسلام واہل بیت سے دور کررہے ہیں اور ان کے ذہنوں کو تبدیل کررہے ہیں تاکہ جب کوئی یہودی کسی مسلمان پر زیادتی اور تجاوز کرنا چاہے تو مسلمان مکمل بے غیرتی کے ساتھ اس کے آگے سرتسلیم خم کر کے خاموش رہے ۔
٢) اندرونی عوامل
اہل بیت کے دوری اور جدائی کے اسباب میں سے دوسرا سبب باطنی اور اندرونی ہے:
الف: منافقت
ب: حسد
ج:نسل میں خلل
د:تکبر
چنانچہ احادیث نبوی ،جواہل سنت کی کتابوں میں نقل کی گئی ہے، اور تاریخی وقائع وحوادث سے بخوبی واضح ہوجاتاہے کہ ذکر شدہ عناوین اہل بیت اور لوگوں کے درمیان جدائی اور دوری کے باطنی عوامل میںسے اہم ترین سبب شمار کیا جاتاہے ،جیساکہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا:حسد کرنے والا،منافق ،تکبر کرنے والا اور جس کی نسل میں خلل ہو وہ ہم اہل بیت سے دشمنی اور عداوت رکھے گا۔[١]
چنانچہ علامہ خوارزمی نے مقتل حسین- میں امام علی - سے روایت کی ہے :
قال: قال رسول اللہ(ص): ...لایحبنا الا مؤمن ولایبغضنا الامنافق شقی۔ ۔[٢ ]
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: ہم اہل بیت سے محبت سوائے مؤمن اور ہم سے دشمنی اور عداوت سوائے منافق کے کوئی نہیں کرتاہے۔
مذکورہ احادیث سے روشن ہوا کہ منافقت اور نفاق اہل بیت سے
...........................
[١]۔ینابیع المودۃج ٢ص ٧٠ ،تاریخ دمشق ج ٣ص ٢١٣۔
[٢]۔ مقتل الحسین ج٢ص ١١٢
عداوت و دشمنی رکھنے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے جس سے انکار کرنے کی
کوئی گنجائش نہیں ۔نیز کئی احادیث میں پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا ہم اہل بیت سے وہ لوگ بغض اور دشمنی رکھتے ہیں کہ جن کی نسل میں خلل ہو چنانچہ امام جعفر صادق -سے روایت کی گئی ہے :
قال رسول اللہ (ص): من احبنا اہل البیتؑ فلیحمد اللہ علی اولی النعم قیل ومااولی النعم؟ قال طیب الولادۃ ولایحبنا الا من طابت ولادتہ۔[١]
اگر کوئی ہم اہل بیت سے دوستی اور محبت کرے تو اللہ تبارک وتعالی کو اسکی نعمتوں میں سے بہترین نعمت پر حمد وثنا کرنا چاہیئے پوچھا گیا خدا کی بہترین نعمت کون سی ہے ؟ آنحضرت (ص)نے فرمایا: خدا کی بہترین نعمت حلال زادہ ہونا ہے اور ہم سے سواء حلال زادہ کے کوئی محبت نہیں کرتا۔
نیز سعد ابن جبیر نے ابن عباس -سے روایت کی ہے :
قال :قال رسول اللہ(ص): یا علی لایحبک الا طاہر الولادۃ ولایبغضک الا خبیث الولادۃ ۔[٢]
..........................
[١]۔ینابیع المودۃ ص ٢٤٦۔
[٢]۔ینا بیع المودۃ ،ج ٢ص٧٠۔
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اے علی -تجھ سے سوائے حلال زادہ کے کوئی محبت اور دوستی نہیں کرتا ، اور تجھ سے سوائے حرام زادہ کے کوئی بغض اور دشمنی نہیں رکھتا۔
اگرچہ حدیث کی کتابوں میں اس سلسلے میں روایات بہت زیادہ ہےں اختصارکے پیش نظر مذکورہ روایتوں پر اکتفا کروںگا تفصیل کےلئے دور منثور ،شواہد التنزیل ، صواعق محرقہ ، ینابیع المودۃ وغیرہ کی طرف رجوع کیا جاسکتاہے اس طرح حسد اور تکبر بھی روحانی بیماریوں میں سے بہت ہی مذموم مرض ہے جو بھی شخص ایسے مرض میں مبتلا ہوجاتا ہے وہ راہ سعادت اور اہل بیت سے جدا اور ہمیشہ کے لئے نابودہوجاتاہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ اہل بیت سے بغض اور دشمنی رکھنے کے اسباب روایات نبوی کی رو سے درج ذیل ہےں :
١۔بیرونی عوامل: ١۔ جہالت ٢۔ منفی تبلیغ۔٣۔غلط تربیت ۔
٢۔اندرونی عوامل: ١۔منافقت۔٢۔ حسد۔٣۔ نسل میں خلل۔٤۔تکبر
١٧)اہل بیت کا مصداق
شیعہ اور سنّی کتابوں میں مناقب اور فضائل اہل بیت سے متعلق بہت ساری احادیث نبویؐ تواتر اجمالی کی حد سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کا مصداق کون ہے جس میں شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف پایا جاتاہے اہل سنت کانظریہ ہے کہ اہل بیت رسول ،کہ جن کی شان میں آیات نازل ہوئی اور جن کے فضائل پیغمبراکرم (ص)نے واضح الفاظ میں بیان کئے،میں پنجتن پاک کے علاوہ ذریت رسول (ص) اور زوجات رسول (ص) بھی شامل ہیں ، جب کہ شیعہ امامیہ کی نظر میں اہل بیت ؑ کا مصداق چہادہ معصومین ہیں، زوجات اگرچہ فضیلت رکھتے ہیں لیکن اہل بیت کا مصداق نہیں ہےں جس پردلیل عقلی کے علاوہ آیات اور روایات سے استدلال کرتے ہیں ۔ لہذا کچھ ان روایات کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں جن میں پیغمبراکرم (ص)نے اہل بیت کا مصداق معین کیاہے ۔
پیغمبراکرم (ص)فرماتے ہیں:
یاعلی انت الامام وابوا الائمۃ الاحدی عشرالذین ہم المطہرون المعصومون [١]
اے علی - تم [ اس امت ] کے پیشوا اور ان گیارہ پیشواؤں کے باپ ہو جو پاک وپاکیزہ اور معصوم ہیں ۔
اس روایت سے حضرت علی - اور دیگر گیارہ ائمہ کی عصمت و طہار ت اورامامت واضح ہوجاتی ہے ،اور پیغمبر اکرم (ص)کے بعد خلیفہ بلا فصل ضرت علی - ان کے بعد دیگر گیارہ ائمہ ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پیغمبراکرم (ص)
............................
.[١]۔ینا بیع المودۃ ج١،ص٨٣۔
کے حقیقی جانشین بارہ ہیں جو مذہب تشیع کے عقیدہ کے مطابق ہے ۔اسی طرح دوسری روایت میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:
قال رسول اللہ(ص) یاعلی انت وصّی حربک حربی وسلمک سلمی وانت الامام وابوالائمۃ الاحد عشر الذین ہم المطہرون المعصومون۔ [٢]
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا : یاعلی - تو میرا جانشین ہے جو تم سے جنگ کرے اس نے مجھ سے جنگ کی ہے جوتم سے صلح وصفائی سے پیش آئے اس نے مجھ سے صلح کی ہے [اے علی -]تو [لوگوں ] کے امام ہو اور گیارہ اماموںکے باپ ہو
جو پاک وپاکیزہ اور معصوم ہیں۔
نیز ابن عباس -سے روایت ہے :
قال سمعت رسول اللہ(ص) یقول :انا وعلی والحسن وال حسین (ع) وتسعۃ من ولد الحسین مطہرون معصومون [٢]
ابن عباس -نے کہا کہ آنحضرت (ص) نے فرمایا: میں اور علی - اور حسن- وحسین- اور حسین-کے نو فرزند عصمت اور طہارت کے مالک ہیں ۔
اسی طرح عطا بن ثابت نے اپنے باپ سے روایت کی ہے :
...........................
[١]۔ینا بیع المودۃ ،ج ١،ص٨٣۔
[٢]۔ینا بیع المودۃ ،ج ١،ص٨٥۔
انّ النبی (ص) وضع یدہ علی کتف ال حسین (ع) فقال انّہ الامام ابن الامام تسعۃ من صلبہ ائمۃ ابرار امناء معصومون والتاسع قائمہم [ ٢]
جناب سلمان -سے نقل کیاگیاہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے اپنا دست مبارک امام حسین- کے شانے پر رکھ کر فرمایا: بتحقیق یہ امام اور امام کا فرزند ہے اواس کی نسل سے نو فرزند امام ہونگے جو نیک ، امین اور معصوم ہیں اور ان میں سے نواں قائم ہوگا۔
اسی طرح زید بن ثابت سے روایت کی ہے پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا:
وانّہ یخرج من صلب ال حسین (ع) ائمۃ ابرار امناء معصومون
قوامون بالقسط ۔
بے شک امام حسین- کی نسل سے کچھ نیک امانتدار [اور ]معصوم امام[پیشوا] آئیں گے جو عدل اور انصاف کو معاشرے میںقائم کریں گے ۔
اہم نکات
مذکورہ روایات میں حضرت امام حسین (ع) کی نسل سے نو ہستیوںکے آنے کی خبردی جودرجہ ذیل صفات کے حامل ہیں:
.......................
[٢]۔اثبات الہداۃ ، ج٢ص٥١٦حدیث ٤٩٠۔
١۔وہ پاک وپاکیزہ ہیں۔ ٢۔ معصوم ہیں۔
٣۔امت مسلمہ کے پیشوا ہیں ۔ ٤۔نیکوکارہیں ۔
٥۔وہ افراد معاشرے میں عدل وانصاف کو رواج دیں گے ۔
٦۔امین ہیں۔
پہلی روایت میں پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اے علی - تو اور تیری نسل سے آنے والی نو ہستیوں میں مذکورہ اوصاف ضروری ہے ۔
ایک اور روایت جسے پیغمبراکرم (ص)سے فضل بن عمر بن عبداللہ نے روایت کی ہے اور الحافظ ابو محمد بن ابی الخوارس نے[١] نقل کیاہے جس میں پیغمبراکرم (ص)نے اہل بیت سے مراد چو دہ معصومین کا ہونا صاف اور واضح الفاظ میں بیان فرمایاہے، اور سب کے اسماء گرامی بھی بیان کئے ہیں یعنی اہل بیت سے مرادحضرت پیغمبراکرم (ص)اور حضرت زہرا = حضرت علی -، حضرت امام
حسن- وحضرت امام حسین -، حضرت علی زین العابدین-، امام محمد باقر -امام جعفر الصادق -،امام موسی کاظم -، امام علی بن موسی - ، امام محمدبن علی - ، امام علی بن محمد -، امام حسن بن علی - ،امام المہدی [عج ]ہیں، ان کے علاوہ زوجات، اہل بیت کے دائرہ سے خارج ہیں ۔ زوجات میں وہ شرائط نہیں جن کا حامل ہونا اہل
...........................
[١] کتاب الاربعین ،ص٣٨
بیت کےلئے ضروری ہے ۔کیونکہ مذکورہ روایات میں اہل بیت کے اوصاف کو اس طرح سے ذکر کیاکہ وہ اپنے زمانے کے لوگوں سے علم اور معرفت کے حوالے سے آگے ، عصمت اور طہارت کے مالک ، عدل وانصاف کا قائم کرنے والا،ہدایت یافتہ اور ہدایت کنندہ اور ان کا وجود نور الہی ہیں ۔ حضرت آدم -کی خلقت سے پہلے ان کے نور کا مشاہدہ انبیاء نے کیاہو ، نیزآیہ تطہیر اور آیہ مباہلہ ،آیت مودۃ ،آیہ ولایت ، آیہ فاسئلوا، آیہ کونوا مع الصادقین وغیرہ کا شان نزول اور تفسیر سے بخوبی اہل بیت کا مصداق واضح ہوجاتاہے ۔ لہذا ایسے واضح اور روشن مسائل میں امت مسلمہ کے درمیان اختلاف ہونا حقیقت میں امت مسلمہ کی بدقسمتی اور ہمارے دشمنوں کی کامیابی کی علامت ہے ۔کیونکہ دشمن نظام اسلام کی پامالی اور نابودی کی خاطر مسلمانوں کے آپس میںاختلاف اوررخنہ پیدا کر رہا ہے جس کی وجہ سے مسلمان آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں جبکہ تمام اسلامی مکاتب فکرکا اجماع ہے کہ جو شہادتین کا اقرار کرے اور اصول وفروع کے احکام اور ضوابط کے پابند ہواس کا قتل کرنا اور اس کا خون بہاناجائز نہیں ہے ۔پس اگر آپس میں یک جہتی اور اتحاد اورکتاب وسنت کی بالادستی کے خواہان ہوں تو اپنی اپنی کتابوں کا مطالعہ کرے ،دشمن کے منفی تبلیغات اور غلط باتوں میں نہ آئے ،اس کےلئے اہل بیت نے جو سیرت چھوڑی ہے وہ ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے
|