8) اہل بيت اہل زمين کے محافظ ہيں
اماميہ مذہب کا عقيدہ يہ ہے کہ کائنات کا حدوث وبقاء ہي اہل بيت کے صدقے ميں ہے ،جيساکہ ہمارے برادران اہل سنت کي کتابوں ميں بھي کچھ اس طرح کي حديثيں نظر آتي ہيں کہ اہل بيت اہل زمين کے محافظ ہےں يعني جس طرح آسماني مخلوقات چاہے نوري ہو ياخاکي جاندار ہو يابے جان ،خدا نے ان کي حفاظت کے لئے ستاروں کو خلق فرمايا ہے اسي طرح اہل زمين کي حفاظت کي خاطر اہل بيت کو خلق فرمايا ہے چنانچہ اس مطلب کو پيغمبر اکرم (ص)نے يوں بيان فرماياہے :
''النجوم امان لاہل السماء فاذا ذہبت النجوم ذہبت السماء واہل بيتي امان لاہل الارض فاذا ذہبت اہل بيتي ذہبت الارض-''[1 ]
ستارے آسماني مخلوقات کي نجات اور حفاظت کاذريعہ ہيں لہ-ذا اگر ستارے
ختم ہوجائے تو آسماني مخلوقات نابود ہوںگي اورميرے اہل بيت انسانوں اوراہل زمين کي نجات اور امان کا ذريعہ ہيںلہذا اگر زمين ميرے اہل بيت سے خالي ہوجائے تواہل زمين نابود ہونگے -
نيز حمويني نے اپني سند کے ساتھ اعمش سے وہ امام جعفر صادق - سے اور آپ- اپنے آباء واجداد ميں سے حضرت علي بن حسين - سے روايت کرتے ہے:
.........................
[1]-ينابع المود-ج1،ص،19،-
''قال :نحن ائم- المسلمين وحجج اللّہ علي العالمين وساد- المؤمنين قاد- الغر المحجلين وموال المسلمين ونحن امان لاہل الارض کماان النّجوم امان لاہل السماء ونحن الذين بناء تمسک السماء ان تقع علي الارض الاباذن اللہ وبناينزل الغيث وتنزل الرحم- ، وتخرج برکات الارض ولولاماعلي الارض منّا لانساخت باہلہا ثم قال ولم تخل الارض منذ خلق اللّہ آدم عليہ السلام من حج- اللّہ فيہا ظاہر ومشہود او غائب مستور ولاتخلوا الي ان تقوم الساع- من حج- فيہا ولولا ذالک لم يعبداللّہ ''-[1]
حضرت امام سجاد -نے فرمايا: ہم [اہل بيت ] مسلمانوں کے پيشوا اور کائنات پر خدا کي طرف سے حجت ،مومنين کے مولي- وآقا اورمسلمانوں کے سردار ہيں اور جس طرح ستارے آسماني مخلوقات کے محافظ ہيں اس طرح ہم اہل زمين کے محافظ ہيں ہماري وجہ سے خدا نے آسمان کو زمين پر گر کرتباہي مچانے سے روک رکھا ہے اور ہمارے صدقے ميں بارشيں اور رحمتيں نازل ہوتي ہيں اور زمين کي برکتيں نکالي جاتي ہے- اگر کرہئ ارض ايک لحظہ کے لئے اہل بيت سے خالي ہوجائے تو
............................
[1]-ينابيع المود-، ج1،ص20،
زمين اہل زمين سميت نابود ہوجائے گي -اسي لئے خدا نے جب سے آدم - کو خلق کيا ہے زمين کوحجت خدا سے خالي نہيں رکھا -چاہے حجت خدا کھلم کھلا لوگوں کے درميان موجود ہوںيالوگوں کي نظروں سے پوشيدہ اور مخفي ہوںاوريہ سلسلہ تاروز قيامت جاري رہے گا -اگر ايسا نہ ہوتا تو کبھي خدا کي عبادت اور پرشتش نہ ہوتي -
اہم نکات:
مذکورہ حديث سے ستاروں اور کہکشانوں کي خلقت اور اہل بيت کي خلقت کا فلسفہ سمجھ ميں آتا ہے ، يعني ستاروں کو خدا نے آسماني مخلوقات کےلئے امان بنا کرخلق کياہے جبکہ اہل بيت کو بشر اوراہل زمين کےلئے امان بنا کر خلق کياہے لہ-ذا ستاروں سے آسماني مخلوقات کي حفاظت ہوتي ہے اور اہل بيت کے اہل زمين کي حفاظت ہوتي ہے-
خلاصہئ کلام يہ کہ اگر بشر ايسي انسان سازاحاديث کا غور سے مطالعہ کرے تو کئي مطالب واضح ہوجاتے ہيں ، کائنات کے تمام مسائل ميں اہل بيت کي نمايندگي اور رہنمائي ضروري ہے اوران کي ہدايت کے بغير انحراف اور مفاسد کے علاوہ کچھ نہيں ہے - چاہے اعتقادي مسائل ہوں يافقہي ، سياسي ہوںياسماجي ، اخلاقي ہوںيافلسفي ہرمسئلہ کا سرچشمہ اہل بيت کوقرار نہ دينے کي صورت ميں ہماري ہدايت اور تکامل ناممکن ہے - کيونکہ اہل بيت کے وجود کافلسفہ ہماري قيادت اور ہدايت ہے انکي سيرت کو ہميشہ کے لئے نمونہ عمل قرار نہ دينے کي صورت ميں پشيماني اورندامت سے دوچار ہوگ-
نيز پيغمبر اکرم (ص)سے روايت کي ہے ،آنحضرت (ص)نے فرمايا: آسماني مخلوقات کے محافظ ستارے ہيں جبکہ اہل بيت ،اہل زمين کےلئے امان کا ذريعہ ہيں:
''النجوم امان لاہل السماء واہل بيتي - امان لاہل الارض''[1]
تب ہي تو قرآن مجيد ميں خدا نے اہل بيت کو وسيلہ نجات اور ان کے اقوال وافعال کو نمونہ عمل قرار ديا ہے لہذا ان کے بغيرروز قيامت نجات ملنے کا تصور کرنا يادنيا ميںکامياب انسان ہونے کا سوچ فضول ہے -
پيغمبر اکرم (ص)نے صاف لفظوں ميں فرمايا: ميري رسالت کاصلہ صرف ميري اہل بيت کي محبت ہے ميري شفاعت صرف ميرے اہل بيت سے دوستي اور محبت رکھنے کي صورت ميں نصيب ہوگي جس سے واضح ہو جاتاہے حقيقي مسلمان وہ ہے جواہل بيت کو اپنے کاموں ميں اسوہ اور نمونہ قرار دے - لہذا ابوذر -نے پيغمبر اکرم (ص)سے روايت کي ہے کہ جس طرح نوح -کي امت کے لئے نوح -کي کشتي نجات کاذريعہ تھا ، اسي طرح امت محمدي- کي نجات کاذريعہ اہل بيت ہےں-
.............................
[1]-فرائدالسمطين ، ج2،ص،252حديث521-
فرمايا:ان مثل اہل بيتي فيکم مثل سفين- نوح من رکبہا نجا ومن تخلف عنہا ہلک -[1]
ميرے اہل بيت ،حضرت نوح - کي کشتي کي مانند ہے جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پاگيا جس نے اس سے منہ پھيرا وہ ہلاک ہوگي-
اہم نکات:
اس حديث سے بخوبي درک کرسکتے ہيں کہ حضرت نوح -کي امت کو جب نوح - نے ہزار بار سمجھايا مگر ايمان نہ لائے تو آخر خدا سے دعا کي پالنے والے يہ امت قابل ہدايت نہيں ہے ميں کيا کروں؟ خدا کي طرف سے حکم ہوا کشتي بناو - کشتي تيار کي ،جو اس پر سوار ہوا وہ زندہ رہا -جس نے اس سے منہ پھيرا وہ ہلاک اور نابود ہوگي- اس طر ح اگر ہم اہل بيت کو مانيں اور ان کي معرفت اور شناخت حاصل کرليں تو قيامت کے دن ہم بھي نجات پاسکتے ہيں ليکن اگر ان سے منہ پھيرا
تو يقينا نابود ي ہي ہمارا مقدر ہوگا -
جيساکہ پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:
''[ياعلي]سعد من اطاعک وشقي من عصاک وربح من
تولاک وخسر من عاداک فاز من رکبہا نجي--ومن تخلف عنہا
.........................
[1]- ينا بيع المود-ج1،ص26 ،
غرق مثلک کمثل النجوم کلما غاب النجوم طلع نجم الي يوم القيام- -''[1]
پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:[ياعلي -!] تيري اطاعت کرنے والا سعادتمند اورنافرماني کرنے والا بد بخت ہے - جس نے تيري سرپرستي اور ولايت کو قبول کيا اس نے نفع پايا ،جس نے تجھ سے دشمني کي اس نے نقصان اٹھاي-جو تجھ سے متمسک رہا وہ کامياب ہے اورجس نے تيري مخالفت کي وہ ہلاک ہو- اے علي - تو اور تيرے جانشين حضرت نوح - کي کشتي کي مانند ہےں جواس پر سوار ہوا وہ نجات پاگيا جس نے منہ پھيرا وہ غرق ہوگي- اے علي -! تو ستاروں کي مانندہے کہ روز قيامت تک ايک ستارہ غروب کرجائے تو دوسرا طلوع کرتا رہے گ-
نيز ابو ہريرہ نے پيغمبراکرم (ص)سے روايت کي ہے :
قال رسول اللہ : اناا للّہ المحمود وہذا محمد وانا العالي وہذا علي واناالفاطروہذہ فاطم- واناالاحسان وہذا الحسن وانا المحسن وہذا الحسين آليت بعزتي انّہ لايأتيي احد بمثقال حب- من خردل من بغض احدہم الا ادخلہ ناري ولاابالي ياآدم ہ-ولآء صفوتي بہم انجّيھم وبھم اُہْلِکُھم فاذا کان لک اليّ حاج- فبہ-و
......................
[1]-ينابيع المود- ج1،ص 130-
ئل-اء توسل فقال النبي(ص) نحن سفين- النج- من تعلق بہا نجاومن عاد عنہا ہلک فمن کان لہ الي اللہ حاج- فليسال عن اہل بيت [1]
حضرت پيغمبراکرم (ص)نے فرماياکہ اللہ تبارک وتعالي نے حضرت آدم-کو ان پانچ نوروں کا نام بتايا کہ جن کاحضرت آدم -نے مشاہدہ کيا تھا اے آدم -ان پانچ کانام ميرے نام سے مشتق ہے يعني ميں محمود ہوں يہ محمد(ص) ہے ميں عالي ہوںيہ علي - ہے ميں فاطر ہوں يہ فاطمہ =ہے ميں احسان ہوں يہ حسن (ع)-ہے ميں محسن ہوں يہ حسين - ہے پھر فرمايا اپني ذات کي قسم ايک ذرہ بھي جس کے دل ميں ان کي دشمني اور کينہ ہو اسے جہنم ميں ڈال دوں گا اور مجھے ايسا کرنے پر کوئي پروا نہ ہوگي -اے آدم -! يہ ميرے برگزيدہ بندے ہيں ان کے صدقے ميں لوگ نجات پائےںگے [يعني ان سے محبت اور دوستي کرنے کے نتيجے
ميں نجات ملے گي اور ان سے دشمني اوربغض رکھنے کانتيجہ ہلاکت اور نابودي ہوگا] جب تجھے مجھ سے کوئي حاجت ہو توان کے وسيلہ سے مانگو پھر پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا: ہم نجات کي کشتي ہيں جو اس سے منسلک رہا وہ نجات پاگيااور جو اس سے جدا رہا وہ نابود اور ہلاک ہو- لہذا جس کو خدا سے کوئي حاجت ہو توہم اہل بيت کے وسيلہ سے مانگيں-
............................
[1]-فرائدالسمطين ، ج2،ص،252حديث521-
تحليل :
مذکورہ حديث کي روشني ميں يہ بات واضح ہوجاتي ہے اہل بيت کو وسيلہ بنا کر خدا سے مانگنے کو بدعت قرار دينا غلط ہے کيونکہ خدا نے ہي اہل بيت کواپنے اور بندوںکے درميان وسيلہ قرار دياہے، اہل بيت کے وسيلہ کے بغير حاجت روائي نہيں ہوسکتي- لہذا اہل بيت کے وسيلہ سے خدا سے طلب حاجت کرنا نہ صرف بدعت نہيں ہے بلکہ اہل بيت کو وسيلہ قرار دينا خدا اور اس کے رسول کے حکم کي اطاعت ہے اوراہل بيت کو وسيلہ قرار دينا حاجت روائي کي شرط ہے -
علامہ قندوزي نے روايت کي ہے :
قال علي -: قال رسول اللّہ: من احب ان يرکب سفين- النج- ويتمسک بالعرو- الوثقي ويعتصم بحبل اللّہ المتين فيوال علياً ويعاد عدوہ وليأتم بالائم- الہد- من ولدہ فانّہم خلفائي واوصيائي وحجج اللہ علي خلقہ من بعدي وسادات امتي وقواد الاتقياء الي- الجن- حزبہم حزبي وحزب اللہ وحزب اعدائہم
حزب الشيطان -[1]
...........................
[1]-ينابيع المود- ، ص445
حضرت علي - فرماتے ہيں کہ پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:جونجات کي کشتي پر سوار ہونا اور اللہ تبارک وتعالي کي مضبوط رسي سے متمسک رہنا چاہتا ہے تو اسے چاہيئے کہ علي بن ابي طالب -سے محبت اور دوستي رکھے اور ان کے دشمنوں سے دشمني رکھے اور ان کي نسل سے آنے والے اماموں کي پيروي کرے -کيونکہ وہ ميرے بعد حجت خدااور خليفہ الہي اور ميرے وصي وجانشين ہيںاور يہي لوگ ميري امت کے سردار اور بہشت کي طرف دعوت دينے والے پيشوا ہيں ان کي جماعت ميري جماعت ہے، ميري جماعت، اللہ کي جماعت ہے اور ان کے دشمنوںکي جماعت شيطان کي جماعت ہے -
تحليل :
اس حديث سے درج ذيل مطالب واضح ہوجاتے ہيں :
اہل بيت ، پيغمبراکرم (ص)کے جانشين ہيں - اہل بيت ، خليفہ الہي ہيں- اہل بيت سے تمسک، خدا اور رسول (ص)سے تمسک ہے- جو اہل بيت سے بغض رکھے وہ شيطان کي جماعت کا رکن ہے-
9)اہل بيت کي محبت، دين کي بنيادہے
احاديث نبوي ميںدين اسلام کو شجرہ طيبہ، نور، پہاڑ، خزانہ اور کبھي دريااور سمندر وغيرہ سے تشبيہ دي گئي ہے -اگر ہم مسلمان ہونے کي حيثيت سے ان الفاظ او تشبيہات کا معني صحيح طور پر سمجھ ليںتو مسلمانوںکے بہت سارے اختلافي مسائل چاہے اعتقادي ہويافقہي يااخلاقي ،کاحل بخوبي واضح ہوجاتا ہے کيونکہ اسلام اور قرآن وسنت کا بنيادي مقصد يہ ہے کہ ہم حقيقي مسلمان بن جائےں اورہمارے درميان يک جہتي اور اتفاق ہواگرچہ صوم اور صلو- ياديگر فقہي مسائل ميں اختلاف ہي کيوں نہ ہوں -کيونکہ اسلام اور دين صرف مسائل فقہي کے مجموعہ کانام نہيں بلکہ اسلام ايک ايسا ضابطہ ئحيات ہے جو مادي اور معنوي تمام دستورات پر مشتمل ہونے کے ساتھ عقل اور فطرت کے عين مطابق ہے لہذا اگر ہم احاديث نبوي(ص)کو صحيح معنوں ميںسمجھ ليںتو کوئي ايسا مسئلہ نہيں کہ جس کا حل اسلام ميں نہ ہو -ہاں کچھ مسائل اس طرح کے ہيں کہ جن کو قبول نہ کرنے کي صورت ميں باقي سب کچھ ضائع ہوجاتا ہے اورخدا کي نظر ميں قابل قبول نہيں رہتا ان بنيادي مسائل ميں سے ايک محبت اہل بيت ہے،کيونکہ محبت اہل بيت کے بغير کوئي بھي عمل اور عقيدہ خدا کي نظر ميں قابل قبول نہيں -چنانچہ اس مطلب کو علامہ ابن حجرمکي نے يوں نقل کيا ہے :
قال سمعت رسول اللّہ يقول لکل شيءٍ اساس واساس الدين حبنّا اہل البيت- [ 1]
جناب جابر -نے کہا کہ : ميں نے پيغمبر اکرم (ص)کو يہ فرماتے
......................
[1]-مناقب المرتضويہ ص314-
ہوئے سنا کہ:ہر چيز کي ايک بنياد اور جڑ ہوا کرتي ہے اور اسلام کي جڑ اور بنياد ہم اہل بيت کي محبت ہے -
نيز صاحب کنز العمال نے امام علي - سے روايت کي ہے:
قال :قال رسول (ص) اللّہ: ياعلي ان الاسلام عريان لباسہ التقوي ورياستہ الہدي وزينتہ الحيا وعمادہ الورع وملاکہ العمل الصالح، اساس الاسلام حبي وحب اہل بيتي- - [1]
'' پيغمبر اکرم (ص)نے [مجھ سے ]فرمايا:اے علي - اسلام عريان ہے اور اس کا لباس تقوي اور اس کي رياست ہدايت، اس کي زينت حيا،اس کا ستون پرہيزگاري ، اس کامعيار و ملاک عمل صالح اور اس کي جڑ اور بنياد ہم اہل بيت کي محبت ہے -
تحليل:
لسان الميزان اورکنزل العمال جيسي اہل سنت کي معتبر کتابوں ميں ايسي بہت ساري روايات ہيں کہ جن سے يہ بات مسلم اور واضح ہوجاتي ہے کہ
دين اسلام کي جڑ اور بنياد اہل بيت کي محبت ہے- اس کا مطلب يہ ہے کہ اہل بيت کي محبت کے بغير کوئي بھي عمل خدا کي نظر ميں قابل قبول نہيں ہے -
...........................
[1]-کنزالعمال ، ج12،ص15-
10) اہل بيت اورپيغمبر اسلام (ص)کے درميان کيا جدائي ممکن ہے ؟
بہت ہي جسارت کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ مسلمانوں ميں سے بعض کے عمل ميں تضاد روي نظر آتي ہے- يعني ايک طرف وہ قرآن وسنت اور پيغمبر اکرم (ص) کے پيروکار ہونے کا دعوي کرتے ہيں جبکہ دوسري طرف علي - اور اہل بيت رسول سے دشمني اوربغض رکھتے ہيں -تعجب يہ ہے کہ ان کي نظر ميں اہل بيت پيغمبر اور علي - کي دشمني اور بغض کے ساتھ پيغمبراکرم (ص)سے محبت اور دوستي ہوسکتي ہے اوراہل بيت سے محبت کئے بغير قرآن وسنت کا قائل ہوتو مسلمان رہ سکتے ہيں جب کہ اگر ہم سنت نبوي اور قرآن کريم کي آيات کا صحيح مطالعہ کريں تو يہ بات بخوبي واضح ہوجاتي ہے کہ اہل بيت کے ساتھ بغض اور دشمني رکھنا قرآن و سنت نبوي کي کھلي مخالفت ہے نہ متابعت کيونکہ قرآن نے واشگاف الفاظ ميں بتاديا ہے کہ اہل بيت کي محبت رسالت کاصلہ ہے اور احاديث نبوي کے رو سے يہ ناقابل انکار حقيقت ہے کہ اہل بيت وسيلہئ نجات ہےں ، اہل بيت مخلوقات الہي کے محافظ ہيں اور روز قيامت انہي کي شفاعت سے خدا مسلمانوں کو نجات ديں گے- حديث ثقلين،حديث سفينہ اور دوسري بيسيوں روايات سے جنہيں فريقين کے بزرگ محدثين نے نقل کي ہيں يہ بات ثابت ہوجاتي ہے کہ علي -اور ديگر اہل بيت کي محبت کے بغير پيغمبر اکرم (ص)سے محبت اور دوستي کا دعوي کرنا فضول اورغلط ہے -عمار ياسر نے روايت کي ہے :
انّ النبي (ص) قال :اوصي من آمن بي وصدّقني من جميع الناس بولاي- علي بن ابي طالب من تولاہ فقد تولاني ومن تولاني فقد تولي اللہ ومن احبہ فقد احبني ومن احبني فقد احب اللّہ ومن ابغضہ فقد ابغضني ومن ابغضني فقد ابغض اللہ [1]-
بے شک پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا: مجھ پر ايمان لانے والے اور ميري رسالت کي تصديق کرنے والے تمام لوگوں کو علي بن ابي طالب - کي ولايت کي وصيت کرتا ہوں، جوان کي ولايت کو مانے بتحقيق اس نے ميري ولايت کو مانا اور جس نے ميري ولايت کو مانا اس نے خدا کي ولايت کو مان- اورجس نے علي -سے محبت کي اس نے مجھ سے محبت کي، جس نے مجھ سے محبت کي اس نے خدا سے محبت کي ہے جوعلي - سے بغض رکھے اس نے مجھ سے دشمني کي ہے،اور جو مجھ سے بغض رکھے اس نے خدا سے دشمني کي ہے -
اہم نکات:
ٍ اس حديث ميں خدا ، پيغمبراکرم (ص)اور حضرت علي -کي سرپرستي اور
........................
[1]-کنز العمال ج11 ص401-
ولايت کو ايک جيسا قرار ديا ہے اگر کوئي علي - کي ولايت کو قبول نہ کرے تواس نے ا للہ اور رسول (ص)کي ولايت کوبھي قبول نہيں کي ہے ،اور جو علي - سے دوستي نہ رکھے اس نے خدا اور پيغمبر اکرم (ص)سے بھي دوستي نہيں کي ہے اگرچہ زبان سے خدا اور رسول (ص)کي محبت کے دعويدارہي کيوں نہ ہوں-اس مضمون کي احاديث اہل سنت کي کتابوں ميں بہت زيادہ ہےں جيسا کہ ابن عباس -سے روايت ہے :
خرج رسول اللہ(ص) قابضاعلي يد علي (ع) ذات يوم فقال الامن ابغض ہذا فقد ابغض اللہ ورسولہ ومن احب ہذا فقد احب اللہ ورسولہ-[1]
ايک دن پيغمبراکرم (ص)حضرت علي - کے دست مبارک کو تھام کر باہر نکلے اور فرمايا [اے لوگو] آگاہ ہو کہ جس نے علي - کے ساتھ دشمني کي بتحقيق اس نے خدا اور اس کے رسول (ص)سے دشمني کي ہے اور جو علي -کے ساتھ دوستي رکھے يقيناً اس نے خدا اور اس کے رسول (ص)سے محبت کي ہے- اسي طرح خطيب خوارزمي نے اپني کتاب مناقب ميں روايت کي ہے کہ پيغمبر اکرم (ص)نے علي - سے خطاب کرکے فرمايا:
من احبک فقد احبني وحبيک حبيب اللہ -[2]
.................................
[1]کنزالعمال، ج13،ص901
[2] مناقب ص 213
جو تجھ سے محبت اور دوستي رکھے اس نے مجھ سے محبت کي ہے جو تمہارا دوست ہے وہ خدا کا دوست ہے -
اہم نکات:
ٍ تاريخ بغدادي، ينابيع المود-، مجمع الزوائد، لسان الميزان، مناقب مرتضويہ، فرائدالسمطين جيسي اہل سنت کي معتبرکتابيں اہل بيت کي فضيلت اور مقام و منزلت بيان کرنے والي احاديث سے بھري ہوئي ہيں ليکن مضحکہ آميز بات يہ ہے کہ ايک طرف سے قرآ ن مجيد اور پيغمبر اکرم (ص)کے معتقد ہونے کا دعويدار ہيں جبکہ دوسري طرف اہل بيت بالخصوص حضرت علي - کي محبت اور ولايت کا معتقد نہيں ہے - کيا حضرت علي - اور ديگراہل بيت سے محبت اور ان کے معتقد ہوئے بغير خدا اور اس کے رسول (ص)سے محبت ہوسکتي ہے؟ جبکہ مذکورہ روايات اور احاديث ميں صاف لفظوں ميں فرمايا: خدا اوراس کے رسول (ص)کي ولايت کو ماننا اور ان سے محبت اور دوستي اس وقت ہوسکتي ہے جب حضرت علي - اور اہل بيت سے محبت ودوستي رکھے اور ان کي ولايت کو مانے-
چنانچہ سعيد ابن جبير -نے ابن عباس -سے روايت کي ہے:
قال رسول اللہ (ص):يا علي لا يحبک الا طاہر الولاد- ولا يبغضک الا خبيث الولاد- وماا خبرني ربي عز و جلّ الي- السماء وکلمني ربي الا قال يا محمد تقراء علياً مني السلام انّہ امام اوليائي و نور اھل طاعتي و ھنيأاً لک ہ-ذہ الکرام--
پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا: اے علي -! تم سے سوائے حلال زادہ کے اور کوئي محبت نہيں کرتا اور سوائے حرام زادہ کے اور کوئي دشمني نہيں رکھتا اور خدا نے مجھ سے معراج پر لے جاتے وقت کوئي گفتگو نہيں کي مگر فرمايا:اے محمد(ص)! ميري طرف سے علي - کو سلام کہنا کيونکہ وہ ميرے دوستوںکا پيشوا ، اور ميري اطاعت کرنے والوں کا نورہے اور يہ عزت و احترام اور اعزاز تجھے مبارک ہو-[1]
عجيب بات ہے کہ اس حديث ميں علي -سے محبت رکھنے والوں کو طيب الولاد- اور بغض رکھنے والوں کو خبيث الولاد-سے تعبير کيا گيا ہے-جس کا نتيجہ يہ ہے کہ حلال زادہ کبھي بھي علي - سے بغض نہيں رکھت-لہ-ذا علي -سے دشمني اور بغض کا سبب يہ بتايا جاسکتا ہے کہ اگر کسي کي ولادت ناپاک ہو تو وہ علي - سے دشمني اور بغض رکھتا ہے،جس پر غور کرنے کي ضرورت ہے-
11)اہل بيت ،پيغمبر (ص)کے مدد گارہيں
ابو نعيم الحافظ نے ابو ہريرہ ، ابو صالح ، ابن عباس اور حضرت امام جعفر صادق - سے روايت کي ہے :
في قولہ تعالي-::ھو الذي ايدک بنصرہ و بالمومنين قال
............................
[1]-ينابيع المود- ج1ص132-
نزلت في علي و ان رسول اللہ قال رايت مکتوباً علي العرش لا ال-ہ
الا اللہ وحدہ لا شريک لہ محمد(ص)عبدي و رسولي ايدتہ و نصرتہ ب علي (ع) بن ابي طالب[1]
امام جعفر صادق -نے فرمايا کہ: خدا کا يہ قول'' ايدک ....''حضرت علي - کي شان ميں نازل ہواہے اور پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا :''ميں نے عرش پر يہ لکھا ہوا ديکھا کہ للہ کے سوا کوئي اور معبودنہيں اور اس کا کوئي شريک نہيں ہے محمد(ص)ميرا بندہ اور رسول ہے ، ميں نے علي بن ابي طالب -کے ذريعہ اس کي مدد کي -''
نيز القاضي نے ابي الحمراء سے روايت کي ہے :
قال رسول اللہ(ص) لما اسري بي الي السماء اذا علي العرش مکتوب ٌ لاالہ الاّ اللّہ محمد(ص) رسول اللّہ ايدتہ ب علي (ع) -[2]
ابو الحمراء نے کہا کہ : پيغمبر (ص)نے فرمايا:جب مجھے معراج کے سفرپر لے جايا گيا تو عرش پر يہ جملہ لکھا ديکھا کہ خدا کے سوا کوئي لائق عبادت نہيں ، محمد(ص)اس کا رسول ہے اور ميں نے علي ابن ابي طالب -کے ذريعہ اس کي مدد کي -
تحليل:
............................
[1]-ينابيع المودہ ج 1ص93-
[2]-مجمع الزوائدج9ص121 اگرچہ اہل سنت کي کتابوں ميں حضرت علي -کے پيغمبراکرم (ص)کے مددگار ہونے سے متعلق متعدداحاديث اور تاريخي کتابوں ميں بہت سار ے واقعات موجود ہيں ليکن اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف مذکورہ دو حديثوں پر اکتفا کروں گاکيونکہ مذکورہ روايتوں ميں پيغمبراکرم (ص)نے صريحاً فرمايا کہ حضرت علي - کو خدا نے پيغمبر اکر م -کي مدد اور نصرت کے لئے خلق فرماياہے - جب خدا نے حضرت علي -کو خلق ہي اسلام اور پيغمبراکرم (ص)کي مدد اور نصرت کے لئے کيا ہو تو کيا پيغمبراکرم حضرت علي - سے ياعلي -مدد يااس طرح کے دوسرے الفاظ کہکر مدد مانگيں تو نعوذ باللہ کيا آپدين سے خارج ہوگئے؟ کيونکہ خدا نے خود فرمايا: ''ايدک بنصرہ وبالمومنين ''ليکن ہم يا علي -مدد کہنے کو بدعت قرارديتے ہيں يہ نہ صرف بدعت نہيں ہے بلکہ ا -ي- شريفہ کے عين مطابق ہے لہذا بدعت کافتوي- دينا حقيقت ميں استنبا ط اور تفکر کي کمزوري اور سيرت اہل بيت سے نا آشنائي کا نتيجہ ہے- کئي احاديث ميںحضرت پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا: ميں اور علي -خدا کے نور سے خلق ہوئے ہيں- ہم ہدايت کے چراغ ہيں ، ہم لوگوں کو ضلالت اور گمراہي سے نجات ديتے ہيں ايسے مطالب اور احاديث سے برادران اہل سنت کي معتبر حديث کي کتابيں پُر ہيں-جيسے در منثور[طبع قديم] شواہدالتزيل،تفسير بيضاوي ، صواعق المحرقہ، ينابيع المود- ، مناقب مر تضويہ ياکنزالعمال وغيرہ-
لہذا اگر ہم اہل بيت کي سيرت کو تمام امور ميں نمونہ عمل قرار دے تو بہت سارے مسائل کا حل مل سکتاہے،
12)اہل بيت امت ميں سب سے زيادہ دانا ہيں
ہر معاشرے ميں علم وعمل کے پابند افراد کو بڑے احترام کي نگاہ سے ديکھاجاتا ہے- چاہے مسلم ہو ياکافر ہر ايک کي نظر ميں علم اور فہم رکھنے والے افراد قابل احترام ہے -ان کامقام ومنزلت دوسروں کي بہ نسبت زيادہ ہے دين مقدس اسلام اور اسلامي معاشرے کے حوالے سے ايک اہم سوال يہ ہے کہ پيغمبر اکرم (ص) کے ماننے والے مسلمانوں ميں سب سے بڑا عالم اور جاننے والاکون تھا ؟جس کا جواب قرآن وسنت سے يوں ملتا ہے:
فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون-
اہل سنت کے مفسرين ميں سے بہت سارے مفسرين نے اہل الذکر سے اہل بيت مراد لياہے - جس کا مطلب يہ ہے کہ اگر تم نہيں جانتے تو اہل بيت سے سوال کرووہ جانتے ہيں اس آيت سے اہل بيت کاعالم ہونا ثابت ہوتاہے کيونکہ خدا نے سوال کرنے کا حکم دياہے -اگر اہل بيت ہر مسئلہ سے آگاہ اور باخبر نہ ہوتے تو خدا کانہ جاننے والوں کو ان سے پوچھنے کا حکم دينا لغو ہوجاتا ہے جبکہ رب حکيم کا حکم لغو نہيں ہوسکت- نيز آي- ميں خدا نے'' لاتعلمون'' کے متعلق کو ذکر نہيں فرمايا جس سے معلوم ہوجاتاہے کہ کوئي بھي بات يا مشکل مسئلہ خواہ اعتقادي ہو يا فقہي، اقتصادي ہو يا اخلاقي ،نظري ہو يابديہي ،عقلي ہويا فطري ،سماجي ہو ياسياسي جنہيںتم نہيں جانتے اہل بيت سے پوچھو-کيونکہ پيغمبر اکرم (ص) کے بعد اہل بيت کا سب سے دانا ہونا آيت سے بخوبي واضح ہوجاتاہے - نيز اہل بيت سے پوچھنے کا مطلب يہ ہے کہ ہرمسئلہ کا مرجع اہل بيت ہيں -اسي طرح وہ احاديث جن ميں پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا کہ اہل بيت ميرے بعد امت کے پيشوا ہےں اورحجت الہي ہےں ، امت کے ہادي ہيں- ان تمام روايات سے بھي اہل بيت کا سب سے زيادہ عالم ہونا ثابت ہوجاتا ہے-نيز بعض احاديث ميںہر ايک اہل بيت کي علمي برتري کو الگ لگ بھي بيان کياگياہے ،جيسے:
انّہ قال: اعلم امتي من بعدي علي بن ابي طالب [1]
آنحضرت (ص)نے فرمايا: کہ ميرے بعد ميري امت ميں دانا ترين ہستي علي بن ابي طالب- ہيں-
اس حديث کي تائيد کے لئے دانشمند حضرات حضرت علي -کے ان نوارني کلمات سے فائدہ اٹھا سکتے ہيں کہ جن ميں پوري کائنات کے حقائق سے لوگوں کو باخبر کردياہے نہج البلاغہ ميں کئي ايسے خطبے ہيں کہ جن کو سمجھنا عام انسانوں کي بس سے
..........................
[1]-1-ہندي متّقي:کنزالعمال:ج6ص1وج11ص614ح32977و
2- ابن بطريق:فتح الملک العلي ص70ط:مکتب- الاميرالمومنين اصفہان
باہر ہے - آپ -نے چودہ سو سال پہلے آج کل کے ترقي يافتہ دور کے ايجادات و انکشافات اور ٹکنالوجي کي پيش گوئي کي تھي-جس سے آپ -کے علم کا اندازہ کيا جاسکتا ہے -تبھي تو پيغمبر (ص)نے فرمايا:
'' علي بن ابي طالب خليف- اللہ وخليفتي وخليل اللہ وخليلي وحج- اللہ وحجّتي وباب اللہ وبابي وصفي اللہ وصفيي وحبيب اللہ وحبيبي وسيف اللہ وسيفي وہو اخي وصاحبي ووزيري وحبّہ حبي وبغضہ بغضي ووليّہ وليّ وعدوّہ عدوّي وزوجتہ ابنتي وولدہ ولدي وحزبہ حزبي وقولہ قولي وامرہ امري وہو سيد الوصيّن وخير امتي-''[1 ]
آنحضرت (ص)نے فرمايا:علي - خدا کا خليفہ اور ميراجانشين ہے علي - خدا کا اور ميرادوست ہے اور علي - خدا اورميري جانب سے حجت ہے علي -خدا کا اورميرا دروازہ ہے اور علي -خدا کي اور ميري برگزيدہ ہستي ہے علي - خدا کا اور ميرا دوستدار ہے علي - خدا کي اور ميري تلوار ہے ، علي -ميرا بھائي ، ساتھي اوروزير ہے، اس سے دوستي مجھ سے دوستي ہے اس سے بغض اور دشمني مجھ سے بغض اور دشمني ہے، اس کا دوست ميرا دوست اور اس کا دشمن ميرا دشمن ہے ان کي شريک
..........................
[1]-1-ہندي متّقي:کنزالعمال:ج11ص634حديث32089
(2)الحاکم الحسکاني:شواہد التنزيل:ص489
حيات ميري بيٹي ہے ان کا فرزند ميرا فرزند ہے اس کي جماعت ميري جماعت ہے اس کا قول ميرا قول اور اس کا حکم ميرا حکم ہے وہ تمام اوصيا کا پيشوا اور ميري امت ميں سب سے بہتر و افضل ہے -
اسي طرح ايک اور حديث ميں پيغمبر اکرم (ص) نے فرمايا:
لو يعلم الناس متي- سمي علي اميرالمؤمنين ماانکروا فضلہ
سمّي بذالک وآدم بين الروح والجسد قال اللہ الست بربّکم
قالوابلي فقال تعالي انا ربّکم ومحمد نبيّکم وعلي اميرکم -[1]
اگر لوگ علي - کو امير المؤمنين کا لقب ملنے کا زمانہ جانتے تو ہرگز اس کي فضيلت اوربرتري سے کوئي انکار نہ کرتا [ لوگو آگاہ رہو] علي - کو اميرا لمؤمنين کا لقب اس وقت ديا گيا ہے جب حضرت آدم - کي روح اور بدن باہم ترکيب نہ ہواتھا اس وقت خدا نے فرمايا : کيا ميں تمہارا پرور دگار نہيں ہوں کہنے لگے آپ ہمارے پرور دگار ہے پھر خدا نے فرمايا: ميں تمہاراپروردگار ہوں محمد تمہارا بني ہے علي - تمہارا اميرہے -
اس حديث کي مانند بہت ساري احاديث اہل سنت کي کتابوں ميں موجودہيں جن کا مطالعہ کرنا دور حاضر کے حالات اور حوادث کے پيش نظر ضروري
..........................
[1]-مناقب المرتضويہ ، ص102 -
ہے کيونکہ آج وہ دور دوبارہ لوٹ کر آيا ہے جس ميں احاديث نبوي(ص)کي نشرو اشاعت پر پابندي تھي ،صرف يہ فرق ہے کہ اس وقت حديث کا بيان کرنا ممنوع تھا جبکہ اس دور ميں کتابوں سے فضائل اہل بيت اور ان کے مناقب پر مشتمل روايات اور احاديث نبوي(ص)کو حذف کيا جاتا ہے -نيز ابو ہريرہ نے روايت کي ہے :
قال: قيل يارسول اللہ متي وجبت لک النبو- قال النبي (ص) قبل ان
يخلق اللہ آدم ونفخ الروح فيہ وقال واذا اخذ ربک من بني آدم من ظہور ہم ذريتہم واشہدوا ہم علي- انفسھم الست بربکم قالوا بلي فقال انا ربّکم الاعلي ومحمدنبيّکم وعلي اميرکم -[1]
ابو ہريرہ نے کہاکہ: پيغمبر اکرم (ص)سے پوچھا گيا کب آپ کو نبوت کا منصب ملا ہے ؟ آنحضرت (ص)نے فرمايا: مجھے نبوت کا منصب اس وقت ملا جب خدا نے حضرت آدم- کو خلق نہيں کيا تھا اور ان کے ڈھانچہ ميں روح نہ پھونکي گئي تھي پھر جب خدا نے بني آدم - کا سلسلہ حضرت آدم -کي پشت اور ان کے نسلوں سے برقرار کيا اور ان کو اپنے نفسوں پر گواہ بنايا تو اس وقت خدا نے فرمايا: کيا
..........................
[1]-1-ينابيع المود-ج2ص248ح53ط:دار الاسو-ايران1416ق و
(2)ج2 ص 280 ح 803
(3)الحلي حسن بن سليمان:المحتضر ص106ط؛مکتب-الحيدري-النجف العراق 1370ق
ميں تمہارا پروردگار نہيں ہوں سب کہنے لگے آپ ہمارے پروردگار ہے پھر فرمايا: ميں تمہارا عظيم پروردگار ہوں اور محمد تمہارا نبي ہے اور علي - تمہارا امير اور سردار ہے
نيز شيخ ابراہيم بن محمد صاحب فرائد السمطين اپني سند کے ساتھ سعيد بن جبير -سے وہ ابن عباس -سے روايت کرتے ہيں :
قال رسول اللہ(ص) : لعلي بن ابي طالب ي علي (ع) انا مدين- الحکم- وانت بابہا ولن توتي المدين- الا من قبل الباب وکذب من زعم انّہ يحبني ويبغضک لانّک مني وانا منک لحمک من
لحمي ودمک من دمي وروحک من روحي وسريرتک من سريرتي وعلانيتک من علانيتي وانت امام امتي وخليفتي عليہا بعدي سعد من اطاعک وشقي من عصاک -[1]
ابن عباس -نے کہاکہ پيغمبر (ص)نے فرمايا: اے علي -ميں حکمت کا شہر ہوں تو اس کا دروازہ ہے اور ہر گز حکمت کے شہر ميں کوئي داخل نہيں ہوسکتا مگر اس کے دروازہ سے اوروہ شخص جھوٹا ہے جومجھ سے محبت کا گمان رکھے جبکہ تم سے بغض اور دشمني رکھتا ہو کيونکہ ميں تجھ سے ہوں اور تومجھ سے ہو تير اگوشت ميرا گوشت ہے تيرا خون ميرا خون ہے تيري روح ميري روح ہے تيرا ظاہر اور باطن ميرا ظاہر اور باطن ہے توميري امت کا پيشوي- ہو تو ان کے درميان ميرے بعد ميرا جانشين
............................
[1]-فرائد السمطين ،ج 2 ص243حديث 517
ہو جو تيري اطاعت کرے وہ سعادتمند اور جوتيري نافرماني کرے وہ بدبخت ہے-
اہم نکات:
مذکورہ احاديث ميںپيغمبر اکرم (ص)نے حضرت علي - کي عظمت ا ور شخصيت کو اس طرح بيان فرماياہے کہ اگر کوئي ميري شخصيت اور عظمت کا معتقد ہے تو ا سے چاہئے علي - کي عظمت اور شخصيت کا بھي معتقد ہوکيونکہ ميں اور علي - اگرچہ ظاہري طورپر دو انسان ہيں ليکن حقيقت ميں ہم دونوں کي خلقت ايک نور سے ہے
اوردونوں کے وجود کاہدف بھي امت کي نجات اور انہيںگمراہي سے بچانا ہے لہذا حقيقي مسلمان وہي ہے جو توحيد اور نبوت ومعاد پر ايمان کے ساتھ ساتھ امامت علي - کا بھي اقرار کرے -لہ-ذا ہر مسلمان پر يہ فرض بنتا ہے کہ حضرت علي - اور اہل بيت سے بغض اور دشمني رکھ کر اپني ابدي زندگي کو برباد نہ کرے - کيونکہ علي -اور اولاد علي - نہ ہوتے تو آج قرآن وسنت اور اسلام کا نام و نشان بھي باقي نہ رہت-
ان احاديث سے بخوبي اندازہ لگا ياجاسکتا ہے کہ حضرت علي - اور ديگر اہل بيت کي عظمت خدا کي نظر ميں کيا ہے؟ ان کو اتني عظمت ملنے کا فلسفہ کيا ہے؟ ان چيزوں کوسمجھنے کي ضرورت ہے
|