٣) اہل بیت سے محبت کا نتیجہ
آیات و روایات اور احادیث نبوی میں محبت اہل بیت کی اہمیت بہت ہی واضح الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔چنانکہ روایت ہے کہ ولدزنا اور منافق کے سوا کوئی بھی اہل بیت سے بغض اور دشمنی نہیں رکھتا ،خدا نے ان کی محبت کو لازم قرار دیا ۔اور ان کے وجود مبارک کو ہی تخلیق کائنات کا ہدف اور انسان کی ترقی و تکامل کا ذریعہ قرار دیا ہے۔اسی لئے ایک حدیث میں فرمایا کہ ایک لحظہ کےلئے
بھی محبت اہل بیت سے کائنات خالی نہیں ہوسکتی۔اگر ایک لحظہ کےلئے بھی کائنات محبت اہل بیت سے خالی ہو تو پوری کائنات نابود ہوجائے گی۔لہٰذا کلام مجید میں فرمایا:''لکل قوم ھادٍ''اس جملے کی تفسیر میں کئی احادیث اور روایات وارد ہوئی ہیں کہ ''ھاد ''سے محبت اہل بیت مراد ہے۔لہٰذا محبت اہل بیت کے نتائج اور ثمرات کی طرف بھی اشارہ کرنا مناسب ہوگا۔
جناب ابن عباس -سے روایت ہے:
''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لا تزول قدماً عبد یوم القیامۃ حتیٰ یسأل عن اربعٍ عن عمرہ فیما افناہ وعن جسدہ فیما ابلاہ وعن مالہ فیما انفقہ و من این کسبہ و عن حب اہل البیت''۔[١]
ابن عباس -نے کہا : پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا کوئی بھی انسان قیامت کے دن اپنی جگہ سے ہل نہیں سکتا جب تک چار چیزوں کے بارے میں پوچھا نہ جائے:
١۔اپنی زندگی کو دنیا میں کس چیز میں سرگرم رکھا؟
٢۔ بدن اور جسم کو کیسے بڑھاپے کی حالت تک پہنچا دیا؟
......................
[١]۔ینابیع المودۃ ج٢۔ص٩٦،
٣۔دولت اور ثروت کو کیسے جمع کیااورکہا ںخرچ کیا؟
٤۔اہل بیت سے دوستی و محبت کی یا نہیں؟
تحلیل:
اس حدیث سے اہل بیت کی محبت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے یعنی روز قیامت خدا سب سے پہلے اہل بیت سے دوستی اور محبت کے بارے میں سوال کریگا۔اگر اہل بیت سے دوستی اور محبت کے متعلق مثبت جواب ملا تو دوسرے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا۔اگر محبت اہل بیت کے بارے میں مثبت جواب نہ ملا تو باقی سارے اعمال بھی خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔
٤) اہل بیت سے محبت،مومن کی علامت ہے
انسان عقیدہ کے حوالے سے تین دستوں میں تقسیم ہوتا ہے:
١۔کافر۔
٢۔منافق۔
٣۔مومن۔
مومن کی علامتیں قرآن مجید اور احادیث میں کئی چیزیں بیان ہوئی ہیں ان کو تفصیل سے بیان کرنا اس کتاب کی گنجائش سے باہر ہے لہٰذا صرف چند ایک روایات کو بیان کرنے پر اکتفاء کریں گے:
عن سلمان قال:قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: لا یومن احد حتی یحب اہل بیتی لحبی۔فقال عمر ابن الخطاب وما علامۃ حب اہل بیتک؟،قال ھٰذا [وضرب بیدہ علیٰ علی (ع)،] [١]
سلمان فارسی -نے کہا:پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:جب تک میرے اہل بیت سے میری محبت کے واسطے محبت اور دوستی نہ کرے وہ شخص مومن نہیں کہلاسکتا۔اس وقت عمر ابن الخطاب نے پوچھا:آپ کے اہل بیت کی
محبت کی علامت کیا ہے؟ آنحضرت (ص)نے دست مبارک کو امیر المومنین -پر رکھتے ہوئے فرمایا :یہ میرے اہل بیت کی محبت کی علامت ہے۔
تحلیل:
اگر ہم اس حدیث کے مضمون کو صحیح معنوں میں سمجھ لیں تو بہت سارے مطالب واضح ہوجاتے ہیں:
١۔ آنحضرت (ص)نے اس حدیث کو کسی مجمع میں بیان فرمایا کہ جس میں حضرت علی -، حضرت عمر اور حضرت سلمان جیسے بزرگ صحابہ بیٹھے ہوئے تھے۔
٢۔حضرت عمر کامحبت اہل بیت کی علامت کے بارے میں پوچھنے کا
.................
[١]۔ینابیع المودۃ ص٣٧٢۔
مقصد یہ تھا کہ شاید کہیں پیغمبر اکرم (ص) حضرت علی - کو اہل بیت کے دائرے سے نکال کر کسی اور کو محبت اہل بیت کی علامت قرار دے۔لیکن پیغمبر اکرم (ص) ان کے اہداف اور مقاصد سے بخوبی آگاہ تھے۔لہٰذا فرمایا:
ھٰذا و ضرب بیدہ علیٰ علیّ علیہ السلام۔
اگرچہ'' ھٰذا'' کا لفظ اشارہ کےلئے کافی تھا لیکن پیغمبر اکرم (ص)نے'' ھٰذا'' کہہ کر اپنے دست مبارک کو علی - پر رکھااس کا فلسفہ یہ تھا کہ کہیں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ ھٰذا سے کوئی اور مراد ہو، تب ہی توپیغمبر اکرم (ص)نے ''ھٰذا'' کہتے ہوئے حضرت علی -کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر اس قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش ختم کردی۔
٥)اہل بیت ،صراط سے عبور کا ذریعہ ہیں
مسلمانوں کے عقائد میں سے ایک صراط [١]ہے جس کی خصوصیات اور حالات آیات اور احادیث نبویؐ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ صراط ایک پُل ہے جس سے قیامت کے دن ہر جنتی کا گزرنا یقینی ہے جس کی تعریف روایات نبوی(ص) اور احادیث ائمہ میں اس طرح کی گئی ہے کہ وہ آگ سے زیادہ
.........................
[١] صراط کی حقیقت اور اوصاف سے آگاہی کیلئے مطالعہ کریں: آیت اللہ سیّد محمدحسین تہرانی :معاد شناسی
گرم،تلوار سے زیادہ تیز،بال سے زیادہ باریک ہے۔
لہٰذا جو شخص ایسے مشکل راستہ سے بہ آسانی عبور کرنا چاہتاہے تو اسے چاہئے کہ دنیا میں اہل بیت کے ساتھ دوستی اور محبت رکھے۔
چنانچہ اس مطلب کو حسن بصری نے ابن مسعود -سے روایت کی ۔
ہے:ابن مسعود -نے کہا:۔
''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اذا کان یوم القیامۃ یقعد علی (ع) علی الفردوس وھو جبل قریب علیٰ الجنۃ و فوقہ علی العرش رب العالمین ومن سفحہ یتفجر انہار الجنۃ ویتفرق فی الجنان و علی (ع)جالس علیٰ کرسیٍّ من نورٍ یجری بین یدیہ النسیم لا یجوز احد الصراط الا و معہ سند بولایۃ علی و ولایۃ اہل بیتہ فید خل محبیہ الجنۃ و مبغضیہ النار۔''[١]
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:روز قیامت حضرت علی -فردوس پر تشریف فرما ہونگے جوجنت کے قریب ایک بلند پہاڑ کا نام ہے جس کے اوپر پروردگار عالم کا عرش ہے اور اس پہاڑ کے دامن سے جنت کی نہریں باغوں کی
......................
[١]۔ینابیع المودۃ ج ١۔ص٨٦۔
طرف جاری ہیں اور حضرت علی - نور سے بنی ہوئی ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہونگے ان کے سامنے تسنیم کا چشمہ جاری ہوگا اور کوئی بھی شخص صراط سے عبور نہیں کر سکتا ہے جب تک ولایت علی - اور ولایت اہل بیت کی سند اس کے ساتھ نہ ہو اور جو ان کے دوستوں میں سے ہونگے انہیں جنت اور جو ان کے دشمنوں میں سے ہونگے انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
تحلیل:
اس حدیث کی مانند بہت ساری روایات شواہد التنزیل[١] اور فرائد السمطین میں موجود ہیں جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کی ولایت اور سرپرستی کو قبول کئے بغیر صراط سے گذرنے کا دعویٰ غلط اور اشتباہ ہے۔کیونکہ صراط سے عبور کا وسیلہ صرف اعمال صالح کا انجام دینا نہیں ہے بلکہ اس کا ذریعہ ولایت اہل بیت کو قبول کرنا ہے۔یعنی چاہے دنیوی مشکل ہو یا اخروی،اس کے حل کا ذریعہ ولایت اہل بیت ہے۔
٦) اہل بیت سے محبت ،اعمال کی قبولیت کی شرط۔
بہت سی روایات نبوی(ص)سے واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت کی محبت کے بغیر کوئی بھی عمل خدا کی نظر میں قابل قبول نہیں ہے۔
.........................
[١] ج ٢ ص ١٠٧ حدیث٧٨٨
چنانچہ اس مطلب کو جابر بن عبد اللہ -نے پیغمبر اکرم (ص)سے یوں نقل کیا ہے:
'' خطبنا رسول اللہ فقال:من ابغضنا اہل البیت حشرہ اللہ یوم القیامۃ یہودیاً وان صام و صلیٰ[١]
پیغمبر اکرم (ص)نے ہم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:اگر کوئی شخص ہم اہل بیت سے بغض اور عداوت رکھے تو روز قیامت خدا اس کو یہودی بنا کر محشور کرے گا اگرچہ اس نے نماز پڑھی ہو اور روزہ رکھا ہو۔
نیز حافظ نور الدین علی بن ابی بکر،کتاب مجمع الزوائد میں روایت کرتے ہیں:
''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: .... .... وان صام و صلی و زعم انہ مسلم،[٢]
اگر کوئی ہم اہل بیت سے بغض اور دشمنی رکھے تو اس کے اعمال قابل قبول نہیں،اگرچہ وہ روزہ رکھے ،نماز پڑھے اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھے۔
تیسری روایت میں فرمایا:
''ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،قال:والذی
............................
[١]۔میزان الاعتدال ج ١ ص٢٦٩۔
[٢]۔مجمع الزوائد ج٩ص١١٨۔
نفسی بیدہ لا ینفع عبد عملہ الا بمعرفتہ حقنا[١]
پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:اللہ کی قسم،کسی بھی انسان کا عمل خیراسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک ہم اہل بیت کے حقوق کی رعایت اور شناخت نہ کرے۔
تحلیل اور اہم نکات:
مذکورہ احادیث میں ،جو اہل سنت کی معتبر کتابوں سے نقل کی گئیں،واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ نماز، روزہ اور دیگر اعمال کی قبولیت کی جو شرط رکھی گئی ہے وہ اہل بیت کی محبت اور ان کی ولایت و معرفت ہے۔یعنی اگرہم اہل بیت کی محبت، معرفت، ولایت اور ان کے حقوق کی رعایت کئے بغیر دیگر اصول و فروع کے پابند بھی ہوں تو ان روایات و احادیث کی روشنی میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ
ان اعمال کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوگا۔
اگر کوئی شخص کہدے کہ فقہی کتابوں میں اعمال صالحہ کی قبولیت کے شرائط میں سے محبت و ولایت اہل بیت کے ہونے کو شیعہ و سنی فقہاء میں سے کسی ایک مجتہد یا مفتی نے بھی ذکر نہیں کیا ہے۔لہٰذا س قسم کی روایات کو کسی اور معنیٰ پر محمول کرنا ہوگا۔
.........................
[١]۔،مجمع الزوائد ج ٩،ص١٧٢
اس کا جواب یوں دیا جاسکتا ہے کہ ولایت ومحبت اہل بیت کا مسئلہ،مسائل فقہی میں سے نہیںتاکہ علماء اس کو فقہی مسائل میں بیان کریں ۔بلکہ بنیادی عقیدتی مسائل میں سے ہے۔جیسا کہ اگر کوئی شخص خدا اور رسول (ص)یا معاد اور دیگر اصولوں کے معتقد ہوئے بغیر نماز پڑھے یا روزہ رکھے تو اس کی نماز کیا نماز کہلائے گی؟اس کا روزہ کیا قابل قبول ہوگا؟
خدا کی مخلوقات میں سے عابد ترین مخلوق فرشتے ہیں۔جب فرشتوں نے اپنے اعمال کی قبولیت کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص)سے سوال کیا تو پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا: اس وقت تمہارے اعمال خدا کی نظر میں قابل قبول ہیں جب تم ولایت علی ابن ابی طالب -کے قائل ہوں۔
٧) اہل بیت سے محبت کے بغیر جنت ملنامحال ہے
اگرچہ بہت سارے انسان ملحد ہیں جو جنت اور جہنم کے قائل نہیں بلکہ اسی دنیوی زندگی کو آخری زندگی سمجھتے ہیں۔جبکہ تمام الہٰی ادیان کے پیروکار بہشت و جہنم کے معتقد ہیں اور جنت و جہنم کو برحق سمجھتے ہیں۔عقلی اورلفظی دلیلوںکے ذریعے ملحدین کو قائل کرانے کی کوشش بھی کرتے ہیں ،کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو جنتی بننے کےلئے صرف صوم و صلاۃ اور دیگر فروع دین کے پابند ہونے کو کافی سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے بلکہ فروع دین کے مسائل کا انجام دینا اس وقت کارساز اور مفید ہے جب ہم پہلے بنیادی مسائل کو ٹھیک کریں۔اور اصول دین کا صحیح طریقہ سے معتقد ہوں ۔
لہٰذا اگر کوئی شخص توحید ،نبوت اور معاد کے معتقد ہوئے بغیر مسائل فرعی کو انجام دے تو یقیناً وہ جنت کا حقدار نہیں بن سکتا۔اسی طرح اگرتوحید ،نبوت اور معاد کا معتقد ہو،لیکن محبت اہل بیت دل میں نہ ہو پھر بھی وہ جنتی نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ خدا نے محبت اہل بیت کو توحید نبوت اور معاد کے بعد بنیادی شرط قرار دیا ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف محبت اہل بیت دلوں میں رکھیں باقی دستورات الہٰی کو انجام نہ دیں۔ بلکہ محبت اہل بیت دلوں میں ہونے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کی سیرت پر چلیں۔ان کی سیرت پر عمل کرنے کا مطلب دستورات الہٰی کو انجام دینا ہے۔اسی لئے اہل بیت کی محبت کے بغیر جنت کا ملنا نا ممکن ہے۔
چنانچہ اس مطلب کو نافع بن عمر نے یوں نقل کیا ہے:
''قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:من اراد التوکل علیٰ اللہ فلیحب اہل بیتی و من اراد ان ینجوامن عذاب القبر فلیحب اہل بیتی ومن اراد الحکمۃ فلیحب اہل بیتی ومن اراد دخول الجنۃ بغیر حساب فلیحب اہل بیتی''۔[١]
........................
[١]۔مقتل الخوارزمی ص٥٩۔
پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:اگر کوئي خدا پر بھروسہ،عذاب قبر سے نجات،حکمت اور بغير حساب کے جنت ميں جانے کا خواہاں ہو تو اسے چاہئے کہ ميرے اہل بيت سے محبت و دوستي رکھيں-
نيز جابر بن عبد اللہ - نے پيغمبر اکرم (ص)سے روايت کي ہے:
''قال توسلوا بمحبتنا الي اللہ تعالي- واستشفعوا بنا فانّ بنا تکرمون و بنا تحبون و بنا ترزقون و محبونا وامثالنا غدا فھم في الجن-[1]
پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:[لوگو!] خدا سے ہم اہل بيت کي محبت اور دوستي کے ذريعہ متوسل ہوجاؤ-اور ہماري محبت کے وسيلہ سے شفاعت مانگو کيونکہ ہم اہل بيت کے صدقے ميں تمہارا اکرام ہوتا ہے اور تمہيں روزي دي جارہي ہے اور ہم سے محبت کرنے والے روز قيامت جنت ميں داخل ہونگے-
نيز شيخ سعود السجستاني نے اپني کتاب ميں ابن زياد مطرف سے روايت کي ہے:
''قال سمعت النبي(ص) يقول:من احبّ ان يحيي حياتي و يموت مماتي و يدخل الجن- التي وعدني ربي بھا وھي جن- الخلد
فليتول علي بن ابي طالب و ذريتہ من بعدہ''-[2]
.........................
[1]-ينابيع المود-ج-2 ص68
[2]-کنز العمال ج 11 ص611-
ابن زياد مطرف نے کہا:کہ ميں نے پيغمبر خدا -سے سنا ہے کہ آپ نے فرمايا:جو شخص ہماري مانند جينا اور مرنا چاہتا ہے اور اس جنت خلد ميں جانے کا خواہشمند ہو جس کاميرے پروردگار نے وعدہ ديا ہے تو اسے چاہئے کہ حضرت علي - اور ان کي ذريت کي ولايت و سرپرستي کو مان لے-
اسي طرح اور روايت ميں پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:
''من سرّہ ان يحيي حياتي و يموت مماتي و يسکن جن- عدن التي غرسھا ربي فليتول علياً بعدي''-[1]
جناب ابوذر -نے کہا کہ پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:اگر کوئي شخص ميري طرح جينا اور مرنا چاہتا ہے اور جنات عدن کہ جس کو خدا تبارک وتعالي- نے تيار رکھا ہے،ميں رہنا چاہتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ ميرے بعد حضرت علي -کي
ولايت کو قبول کرلے-
توضيح:
ان احاديث سے بخوبي واضح ہوجاتا ہے کہ جنت عدن يا جنت خلد ميں داخل ہونے کي شرط محبت اہل بيت ہے،ان کي سرپرستي اور ولايت کو قبول کرنا ہے-
مندرجہ بالا روايات کا خلاصہ :
........................
[1]-ترجمہ امام علي -ج 2 ص98-
1-محبت اہل بيت کے بغير مرنا اور جينا محبت کے ساتھ جينے اور مرنے کے ساتھ فرق کرتا ہے-
2-محبت اور سرپرستي اہل بيت کے بغير جنت ميں داخل ہونے کا تصور صحيح نہيں ہے-
3-محبت اور ولايت اہل بيت کے بغيرخدا پر توکل کا دعوي- کرنا يا حکمت اور شفاعت کا دعويدار ہونا اشتباہ ہے-
4-شفاعت ،اہل بيت کي محبت کے بغير نا ممکن ہے،نيز اہل بيت کي محبت اور سرپرستي کے بغير گناہوں کي معافي کا خيال کرنا فضول ہے-
5-اہل بيت کي محبت کے نتيجے ميں پيغمبروں کي شفاعت حاصل ہوگي
اگرچہ قرآن کريم کے مسلّم مسائل ميں سے ايک مسئلہ شفاعت ہے مگر اس بارے ميںمسلمانوں کے درميان اختلاف نظرا -تا ہے -ليکن اگر ہم احاديث نبوي کا صحيح مطالعہ کريں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ پيغمبر اکرم (ص)کي شفاعت روز قيامت ان لوگوں کےلئے ہے جنہوں نے دنيا ميں اہل بيت سے محبت اور دوستي رکھي ہو-چنانچہ علامہ بغدادي اس طرح نقل کرتے ہےں:
''قال رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم: شفاعتي لامتي من احب اہل بيتي و ھم شيعتي''-[1]
......................
[1]تاريخ بغدادي ج 3 ص146
پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا: ميري شفاعت ميري امت ميں سے صرف ان کو نصيب ہوگي جو ميرے اہل بيت سے محبت رکھے-کيونکہ وہي ميرے سچے پيروکار ہيں-
نيز پيغمبر اکرم (ص)نے فرمايا:
''عاہدني ربي ان لا يقبل ايمان عبد الا بمحبتہ لاہل بيتي''-[2]
آنحضرت (ص) نے فرمايا:ميرے پروردگار نے مجھ سے عہد کيا ہے کہ کسي بھي بندے کا ايمان اور عقيدہ اہل بيت کي محبت اور دوستي کے بغير قبول نہيں ہوگ-
تحليل:
اگرچہ محبت اہل بيت کے بغير پيغمبر اکرم (ص)کي شفاعت نصيب نہ ہونے کے حوالہ سے احقاق الحق اور کنز العمال جيسي کتابوںميں بہت زيادہ احاديث ہيں ليکن اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے صرف مذکورہ حديث پر اکتفاء کر يں گے- آج کل کچھ ايسے دانشمند اور علماء نظر آتے ہيں جو اپنے حريف اور مقابل کو ناکام بنانے اور اسے غلط فہمي ميں ڈالنے کي خاطر فوراً حديث کي سند پر حملہ کرديتے
.....................
[2]المناقب ا لمرتضويہ ص99
ہيں کہ يہ حديث آپ کے موضوع پر دليل نہيں بن سکتي -
کيونکہ سند ضعيف ہے ليکن کسي مسئلہ پر کسي حديث کو دليل کے طور پر قبول کرنے کے لئے صرف سند کا صحيح ہونا ضروري نہيں ہے بلکہ بہت ساري احاديث سند کے حوالہ سے ضعيف ہے ليکن حديث کي عبارت يا دوسرے قرينوںسے معلوم ہوجاتا ہے کہ يہ حديث ،صحيح ہے اگرچہ سند ضعيف ہي کيوں نہ ہو-کيونکہ ايسي حديث کي عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ غير معصوم سے ايسي فصاحت و بلاغت پر مشتمل کلام کا صادر ہونا ناممکن ہے-
ہم نے بہت ساري روايات کو اپنے مدعي- کي دليل کے طور پر ذکر کيا ہے-اگرچہ سند ضعيف ہے ليکن اس کے الفاظ ہي حديث نبوي ہونے کي شہادت ديتے ہےں-کيونکہ معصوم کے کلام اور دوسرے لوگوں کے کلام ميں فصاحت و بلاغت کے علاوہ بنيادي فرق يہ ہے کہ معصوم کے کلام کا سرچشمہ قرآن مجيد ہونے کي وجہ سے فطرت اور عقل سے ہمآہنگ ہوا کرتا ہے جبکہ دوسرے انسانوں کا کلام يا قرآن کا مخالف ہوگا يا اگر قرآن کے موافق ہے تو فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے اس ميں نقص ہوگ-لہ-ذا غير معصوم کے کلام ميں بہت سارے اشتباہات کا مشاہدہ ہوتا ہے جبکہ معصوم کے کلام ميں نہ صرف اشتباہ نظر نہيں آتا بلکہ زمانے کي ترقي اور تکامل کے ساتھ ساتھ ان کي حقانيت زيادہ سے زيادہ اجاگر ہوجاتي ہے-
لہ-ذا اگر کوئي اہل سنت کي کتابوں سے فضائل اہل بيت اور ان کي حقانيت پر کوئي روايت اورحديث بيان کرے تو اس کو ضعيف السند قرار دينا کافي نہيں ہے-بلکہ روايات اور احاديث سے استدلال اس وقت غلط ہے جب وہ حديث ضعيف- السند ہواور اس کے معصوم سے صادر ہونے پر کوئي قرينہ نہ ہومتواترہ نہ ہو مضمون حديث کا شر چشمہ قرآن اور عقل نہ ہو ليکن اگر ان قرينوں ميں سے کوئي ايک قرينہ بھي کسي حديث کے ساتھ ہوتو اسے ضعيف السند قرار دے کر ردکرناجہالت اورنافہمي کي علامت ہے -فرقين کے علم رجال کي کتابوں کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کہاں حديث سے استدلال غلط ہے کہاں استدلال صحيح ہے پس اگر کوئي اندھي تقليد اورجاہلانہ تعصب سے ہٹ کر پيغمبر اکرم (ص)کے ان ارشادات پر اور خدا کي طرف سے محبت اہل بيت کو اجر رسالت قرار دئيے جانے پر غور کرے تو نتيجہ يہ ملتاہے کہ پيغمبر اکرم (ص) دشمن اہل بيت کي شفاعت نہيںفرمائيں گے، کيونکہ شفاعت پيغمبر اکرم (ص)نصيب ہونے ميں خدا نے اہل بيت کي محبت کو شرط قرار دي ہے اور شرط کے بغيرمشروط کا پانا عقل کے خلاف ہے-لہ-ذااہل بيت کي محبت کے بغير کوئي عمل اورکام خدا کي نظر ميں قابل قبول نہيں اگرچہ ايمان کے دعوي- کے ساتھ زبان پر شہادتين کا اقرار بھي کرے -
|