اہل بیت ، نجات کی کشتی( اہل سنت کی نظر میں)
 
١١)اہل بیت پر درود بھیجنے کا حکم
ان اللہ وملائکتہ یصلون علیٰ النبی یا ایھا الذین آمنوا صلّوا علیہ وسلّموا تسلیماً۔[١]
''بے شک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر اکرم (ص) پر درود بھیجتے ہیں،اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجتے رہو اور برابر سلام کرتے رہو۔''
تفسیر آیہ:
اس آیت میں یہ اطلاع دی جارہی ہے کہ خدا اور اس کے فرشتے اہل بیت پر درود بھیجتے ہیں،اور یہ حکم دیا جارہا ہے کہ مومنین بھی ان پر درود بھیجےں۔
لہٰذا آج نماز پنجگانہ اور پیغمبر اسلام (ص)کا اسم مبارک لیتے وقت ان پر درود بھیجنا ہر مسلمان پر واجب ہے،لیکن درود کی کیفیت میں بھی شیعہئ امامیہ اور
........................
[١]۔الاحزاب/٥٦

اہل سنت کے درمیان اختلاف ہے۔اگر ہم روایات نبوی(ص)کا مطالعہ کریں تو اس
اختلاف کو بآسانی حل کرسکتے ہیں۔
ابن مردویہ اور سعید ابن منصور،عبدابن حمید،ابن ابی حاتم اور کعب ابن عجزہ وغیرہ سے مروی ہے:
قال لما نزلت:انّ اللہ و ملٰئکتہ یصلون علیٰ النبی...قلنا یا رسول اللہ! قد علمنا السلام علیک فکیف الصلوٰۃ علیک؟قال قولوا اللہم صل علیٰ محمد و آل محمد۔[٢]
کعب ابن عجزہ نے کہا:جب آیت:ان اللہ ...نازل ہوئی تو ہم نے پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا:یا رسول اللہ(ص)!ہمیں معلوم ہے کہ آپ پر سلام ہو،لیکن کیسے آپپر درود بھیجا جائے؟آنحضرت (ص)نے فرمایا: تم لوگ مجھ پر درود اس طرح بھیجو:
اللہم صلّ علیٰ محمد(ص)وآل محمد(ص)۔
اس حدیث کی رو سے دو نکات قابل غور ہیں:
١۔امت محمدی،آنحضرت (ص) پر کیسے درود بھیجے،جس کا حکم خدا نے قرآن میں دیا ہے؟کیا اللہم صلّ وسلم کہنا کافی ہے؟یا اللہم صل علیٰ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[٢]۔در منثور ج٦،ص٤٤٦

محمد و آل محمد کہنا ضروری ہے؟
٢۔چنانچہ بہت ساری روایات میں پیغمبر اکرم (ص)نے ناقص درود بھیجنے سے منع فرمایاہے، سارے مسلمان نماز میں درود اس طرح بھیجتے ہیں:
اللہم صل علیٰ محمد وآل محمد۔
نیز ابن ابی شیبہ،احمد،بخاری نسائی ،ابن ماجہ و غیرہ نے اسناد کے ساتھ
اس آیت کی تفسیر اور توضیح کے حوالے سے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت نقل کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے:
پیغمبر اکرم (ص)سے اصحاب نے پوچھا :
یا رسول اللہ(ص)! خدا نے ہمیں آپ پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے لیکن ہم آپ پر درود کیسے بھیجیں؟
آپ نے فرمایا:
قولوا اللہم صلّ علیٰ محمد و علیٰ آل محمد،
کہو: اے اللہ! محمد(ص) و آل محمد پر درود بھیج۔[١]
پس ان روایات کی رو سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہم صلّ و سلم۔ درود کامل نہیں ہے اور کئی روایات میں نامکمل اور ناقص درود سے پیغمبر اکرم (ص)
...........................
[١]۔در منثور ج ٦ ص٦٤٩،بخاری ج٧ص٣١١،سنن نسائی ج٢ص٢٠١شواہد التنزیل ج ٢۔ص٣٠١

نے منع فرمایا ہے۔[١]

اہم نکات:
آیت شریفہ میں صریحاً خدا نے مومنین کو اہل بیت پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے،روایات نبوی(ص)میںدرود بھیجنے کی کیفیت کو رسول اسلام (ص)نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔لہٰذا درود کی کیفیت میں مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا سبب،کتاب و سنت سے دوری ہے۔در حالیکہ روایات میں درود بھیجنے کا طریقہ اور کیفیت و اضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔

١٢)اہل بیت پر خدا کا سلام ہے
سلام علیٰ آل یاسین۔[٢]
[ہر طرف سے ]آل یاسین پر سلام[ ہی سلام] ہے۔

تفسیر آیہ:
گذشتہ آیت میں درود و سلام دونوں کا حکم ہوا ہے اور اس آیت میں آل یاسین ؑکو سلام کرنے کا حکم دیا گیا ہے،لیکن اگر ہم درود اور سلام کی حقیقت اور فلسفے کے بارے میں غور و فکر کریں تو معلوم ہوگا کہ اہل بیت کی عظمت اورمنزلت خدا
........................
[١]۔شواہد التنزیل ج ٢۔ص٢١١
[٢]۔صافات/١٣٠

کی نظر میں بہت زیادہ ہے جس کو لحظہ بہ لحظہ زبان پر جاری کرنا خدا کو زیادہ پسند ہے۔لہٰذا چاہے کسی اجتماعی کام کو انجام دےنا چاہیں یا کسی انفرادی کام کو، اس کام کو ان حضرات پر درودسلام بھیجتے ہوئے شروع کرنا چاہئے،اسی میں برکت ہے اور اسی میں ہی کامیابی ہے۔
ابن ابی حاتم و طبرانی و ابن مردویہ نے ابن عباس -سے روایت نقل کی ہے:
فی قولہ سلام علیٰ آل یاسین قال نحن آل محمد آل
یاسین۔[١]
پیغمبر اکرم (ص)سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:آل یاسین سے مراد ہم آل محمد ہیں۔
فخر رازی ،فضل اور کلینی و غیرہ نے آل یاسین سے آل محمد مراد لیا ہے۔اس کی وجہ بھی یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یاسین پیغمبر اکرم (ص)کے القاب میں سے ایک ہے۔اور آل کے معنیٰ بھی لغت عرب میں سب جانتے ہیں لہٰذا سلام علیٰ آل یاسین سے اہل بیت کی فضیلت و اضح ہوجاتی ہے۔
...............................
[١]۔در منثور ج ٦۔ ص٢٣١ ینابیع المودۃج١ص٦

١٣)اہل بیت کی قسم
والسماء ذات البروج[١]
برجوں والے آسمان کی قسم۔

تفسیر آیہ:
اس آیت کی تفسیر میں ہاشم بن سلمان نے اپنی کتاب'' الحجۃ علی ما فی ینابیع المودۃ ''میں اصبغ بن نباتہ سے روایت کی ہے:
قال سمعت ابن عباس یقول قال رسول اللہ:انا السماء
واما البروج فالائمۃ من اہل بیتی و عترتی اولھم علی (ع) وآخرھم المہدی ؑو ھم اثنا عشر۔[٢]
اصبغ بن نباتہ - نے کہا کہ میں نے ابن عباس -سے سنا کہ آپ نے کہا ـ: پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:آسمان سے مراد میں ہوں اور اس کے بروج سے مراد میرے اہل بیت وعترت ہیں۔جس کا آغاز علی -سے ہوتا ہے اور انتہاء مہدی برحق (عج) پراور وہ بارہ ہیں۔
توضیح:
..........................
[١]۔بروج/١۔
[٢]۔،الحجۃ علی ما فی ینابیع المودۃ ص٤٣٠

١۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے والسماء ذات البروج سے حضرت پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہئ اثنا عشر مراد ہیں۔
٢۔پیغمبر اکرم (ص)کے جانشین بارہ ہیں۔
٣۔آخر ی امام کا لقب مہدی (عج)ہے۔ابتدائی امام کا نام علی - ہے۔لیکن کسی روایت اور آیت میں پیغمبر اکرم (ص)کی رحلت کے بعدجنہوں نے اپنے آپ کو خلیفہئ مسلمین اور جانشینپیغمبر (ص) ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کا کوئی نام و نشان تک موجود نہیں ہے۔

١٤)اہل بیت سے محبت،رسالت کا صلہہے
قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودۃ فی القربیٰ۔[١]
ٍٍ ''اے رسول! تم کہہ دو کہ میں [اس تبلیغ رسالت کا] اپنے قرابت داروں[اہل بیت ]کی محبت کے سواء تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا۔''

تفسیر آیہ:
جناب ابن عباس -سے روایت کی گئی ہے:
لمّا نزلت ''قل لا اسئلکم.....''قالوا یا رسول اللہ من ہٰؤلآء الذین وجبت علینا مودتھم؟قال علی،فاطمۃ و ابنائھما وانّ
......................
[١]۔شوریٰ/٢٣

اللہ تعالیٰ جعل اجری علیکم المودۃ فی اہل بیتی وانّی اسئلکم غداً عنھم۔[١]
جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا یا رسول اللہ! وہ لوگ کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب ہوگئی ہے؟ آپنے فرمایا: وہ حضرات علی -،فاطمہ = اور حسن- و حسین -ہیں اور خدا نے میری رسالت کا صلہ تم پر میرے اہل بیت کی محبت قرار دیا ہے۔لہٰذا کل قیامت کے دن ان کی محبت کے بارے میں تم سے سوال کروں گا۔
زمخشری نے تفسیر کشاف میں یوں روایت کی ہے:
روی انّ الانصار قالوا فعلنا و فعلنا کانّھم افتخروا فقال عباس او ابن عباس:لنا الفضل علیکم فبلغ ذالک رسول اللہ فاتاھم فی مجالسھم فقال یا معشر الانصار الم تکونوا اذلۃً فاعزکم اللہ بنا قالوا بلیٰ.........۔[٢]
اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے عربی میں پوری روایت کو نقل کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے لہٰذا درج بالا کتابوں کی طرف رجوع کریں۔یہاں پر پوری روایت کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[١]۔ینابیع المودۃ ج ١،ص١٩٤،کشاف ج ٤ ص٢٢٠
[٢]۔کشاف ج ٤ ص٢٢٠،،صحیح مسلم ج ٣ص ٢١١و صحیح بخاری ج٤ص١٣١

''زمخشری نے کہا:روایت کی گئی ہے کہ ایک دن انصار اپنے ایک بڑے جلسے میں اپنے افعال پر فخر و مباہات کررہے تھے، کہہ رہے تھے کہ ہم نے یہ کام کیا وہ کام کیا۔جب ان کی باتیں ناز کی حد سے بھی گزر گئیں تو جناب ابن عباس - سے رہا نہ گیا اور بے ساختہ بول اٹھے کہ تم لوگوں کو فضیلت حاصل ہوگی مگر ہم لوگوں پر تمہیں ترجیح حاصل نہیں ہے اس مناظرے کی خبر پیغمبر اکرم (ص)تک پہنچی تو آنحضرت (ص)خود اس مجمع میں تشریف لائے اور فرمایا:اے گروہ انصار!کیا تم ذلیل نہ تھے کہ خدا نے ہمارے بدولت تمہیں عزت بخشی ؟سب نے کہا:بے شک یا رسول اللہ!ایسا ہی ہے۔ پھر آپنے فرمایا:کیا تم لوگ گمراہ نہ تھے کہ خدا نے میری وجہ سے تمہاری ہدایت کی؟ عرض کیا:یقینا ایسا ہی ہے۔ پھر فرمایا:کیا تم لوگ میرے مقابلے میں جواب نہیں دیتے؟ وہ بولے کیا؟بآنحضرت (ص)نے فرمایا:کیا تم یہ نہیں کہتے کہ تمہاری قوم نے تم کو نکال باہر کیا،تو ہم نے پناہ دی،اسی طرح گفتگو جاری رہی یہاں تک کہ وہ لوگ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور عاجزی سے عرض کرنے لگے: ہمارے مال اور جو کچھ ہمارے پاس ہیں وہ سب خدا اور اس کے رسول کا ہے۔یہی باتیں ہورہی تھیں کہ یہ آیت نازل ہوئی۔اس کے بعد آپنے فرمایا:جو شخص آل محمد کی دوستی میں مرجائے وہ شہید مرا ہے،جو آل محمد کی دوستی کے ساتھ مرے وہ مغفورہے،جو آل محمد کی دوستی پر مرے گویا وہ توبہ کر کے مراہے۔اس انسان کو ملک الموت اور منکر و نکیر بہشت کی خوشخبری دیتے ہیں جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ بہشت میں اس طرح جائے گا جیسے د لہن دلہاکے گھر جاتی ہے۔جو آل محمد کی دوستی پر مرے اس کی قبر کو خدا رحمت کے فرشتوں کےلئے زیارت گاہ بنادیتا ہے جو آل محمد کی دوستی پر مرے وہ سنت اور جماعت کے طریقہ پر مرا ۔اورجو آل محمد کی دشمنی پر مرے قیامت کے دن اس کی پیشانی پر لکھا ہوا ہوگا کہ یہ خداکی رحمت سے مایوس ہے۔جو آل محمد کی دشمنی پر مرے وہ بہشت کی بو بھی نہیں سونگ سکتا ،پھر اس وقت کسی نے پوچھا:یا رسول اللہ(ص)! جن کی محبت کو خدا نے واجب کیا ہے وہ کون ہیں:آنحضرت (ص)نے فرمایا:علی - ،فاطمہ = اور ان کے دو فرزند حسن- و حسین- ہیں۔پھر فرمایا: جو شخص میرے اہل بیت پر ظلم و ستم کرے اور مجھے اور میرے اہل بیت کو اذیت پہنچائے اس پر بہشت حرام ہے۔
فرمان علی نے اپنے ترجمہئ قرآن میں اس حدیث کو نقل کیا ہے،رجوع کیجئے۔اس حدیث کا آدھا حصہ مسلم،بخاری اور در منثور میںبھی نقل ہوا ہے جبکہ زمخشری نے[١] پوری حدیث کو نقل کیا ہے۔لیکن مأخذ کی نئی اشاعتوں میں تحریف اور تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ آیندہ یہ حدیث کشاف میں بھی نظر نہ آئے۔کیونکہ اس حدیث کا بغور جائزہ لینے سے بہت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[١]کشّاف ج٤ص٢٢٠

سارے شبہات و اعتراضات کا جواب بآسانی مل سکتا ہے۔لہٰذا ایسی اہم روایت
کو معاشرے تک پہنچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

١٥)اہل بیت سے محبت ،نیکیوں میں اضافے کا سبب ہے
ومن یقترف حسنۃ نزدلہ فیھا حسناً[١]
اور جو شخص نیکی حاصل کرے گاہم اس کےلئے اس کی خوبی میں اضافہ کرےں گے۔

تفسیر:
ابن خاتم نے ابن عباس -سے روایت کی ہے
ومن یقترف حسنۃ قال المودۃ لآل محمد[٢]
اس آیت شریفہ کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: اس سے اہل بیت رسول کی محبت مراد ہے۔
زمخشری نے بھی لکھا ہے:
ان السوی انھا المودۃ فی آل رسولاللہ[٣]
''اس آیت کریمہ سے آل رسول (ص)کی دوستی مراد ہے۔''
.......................
[١]شوریٰ/٢٢۔
[٢]۔در منثورج ٧ ص٢٤٨
[٣]۔کشاف ج ٤ ص٢٢١

اہم نکات:
اگر محققین اور علماء و دانشور سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کے بجائے تاریخ،اخبار و حدیث اور تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو کسی بھی مسلمان کو اہل بیت کی فضیلت اور عظمت سے انکار کرنے کی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ایسی اہم روایات اور تاریخی مطالب وافر مقدار میں فریقین کے علماء و محققین نے اپنی کتابوںمیں اہل بیت کی شان میں بیان کئے ہیں۔لہٰذا اگر دور حاضر میں ہم بھی اندھی تقلید کے بجائے تحقیق اور غور کریں تو بہت سارے شبہات اور اعتراضات کا حل مل جاتا ہے۔
اپنے مأخذ اور بنیادی کتابوں کا مطالعہ کئے بغیر ایک دوسرے پر بے جا الزامات لگا کرمسلمانوں کے اتحاد کو پامال کرنا اسلام اور قرآن وسنت کے خلاف ہونے کے علاوہ سیرت اہل بیت کے منافی بھی ہے۔آج مسلمانوں کے مابین پیداہونے والے بہت سارے اختلافات کا سبب بھی کتابوں اورروایات پر غور نہ کرنا بتایا جاتا ہے۔ورنہ مسلمانوں کے درمیان جتنی آج اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہے شائد کسی اور زمانے میں پیش نہ آئی ہو۔
کیونکہ آج پوری دنیا قرآن و سنت کی پامالی کےلئے ہر قسم کے حربے آزما رہی ہے،اور استعماری طاقتیں مسلمانوں کے خلاف پوری قوت کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔جبکہ سارے مسلمان قرآن وسنت کے قائل ہوتے ہوئے بھی آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں۔یہ ہماری بدقسمتی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔

١٦)اہل بیت سے متمسک رہنے کا حکم
واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً ولا تفرقوا[١]
''اور اللہ تبارک تعالیٰ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے تھام لو۔''

تفسیر:
سعید بن جبیر نے ابن عباس -سے روایت کی ہے :
قال کنّا عند النبی اذا جاء اعرابی فقال یا رسول اللہ سمعتک تقول واعتصموا بحبل اللہ الذی نعتصم بہ فضرب النبی یدہ فی ید علی وقال تمسکوا بھٰذا ھو حبل اللہ المتین[٢]
ابن عباس -نے کہا کہ ہم پیغمبر اسلام (ص)کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں ایک ا عرابی آیا اور پیغمبر اکرم (ص)سے پوچھا یا رسول اللہ(ص) میں نے آپسے سنا ہے:واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً۔لہٰذا اللہ کی رسی سے کیا مراد ہے؟ تاکہ اسے تھام لوں۔اس وقت رسول اسلام (ص)
.................................
[١]۔آل عمران ١٠٣۔
[٢]۔شواہد التنزیل ج١ ص ١٣١،حدیث١٨٠

نے اپنے دست مبارک کو حضرت علی -کے دست مبارک پر رکھتے ہوئے فرمایا:اللہ کی رسی سے مراد،یہ ہے اسے تھام لو۔یہی اللہ کی واضح اور روشن رسی ہے۔
اس روایت کی بناء پر صرف حضر ت علی -کے حبل اللہ ہونے کا پتہ چلتا ہے،جبکہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ پورے چودہ معصومین جو اہل بیت ہیں،حبل اللہ ہیںجن سے متمسک رہنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے
تمام چودہ معصومین کے حبل اللہ ہونے کی خبر حضرت امام جعفر صادق - نے دی ہے:
فی قولہ:واعتصموا بحبل اللہ جمیعاً قال نحن حبل اللہ[١]
آپ -سے واعتصموا بحبل اللہکے بارے میں پوچھا گیا تو آپ -نے فرمایا اللہ کی رسی سے ہم اہل بیت مراد ہیں۔
امام شافعی کا یہ مشہور کلام بھی اس آیت کی تفسیر ہے،جس سے اہل بیت واعتصموا بحبل اللہ کے مصداق ہونے کے ساتھ ساتھ ان سے متمسک رہنے کی اہمیت بھی واضح ہوجاتی ہے:
..............................
[١]۔شواہد التنزیل ج١ ص ١٣١،حدیث١٨٠

ولما رأیت الناس قد ذہب بھم ... مذاہب فی البحر الغی والجہل رکبت
علیٰ اسم اللہ فی سفن النجاۃ۔۔.وھم اہل بیت المصطفیٰ قائم الرسل و تمسکت حبل اللہ و ھو و لاء ھم ۔. کما قد امرنا بالتمسک بالحبل[١]

اہم نکات:
١۔ان روایات کی رو سے ثابت ہوجاتا ہے کہ اہل بیت حبل اللہ[اللہ کی رسی] ہیں۔
٢۔اہل بیت سے متمسک رہنے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔
٣۔اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان سے دوستی اور محبت کے بغیر انسان کے اعمال بے سود ہیں۔
٤۔ان سے دشمنی اور بغض رکھنا اس آیت کریمہ کے منافی ہونے کے علاوہ قرآن و سنت پر اعتقاد کے ساتھ متضاد بھی ہے۔
٥۔ایک طرف سے اسلام کے اصول و فروع کے پابند ہونے کا دعویٰ کرنا دوسری طرف سے اہل بیت کو دیگر اصحاب کرام کے مانند تصور کرنا حقیقت میں نا انصافی ہے۔کیونکہ اہل بیت سے متمسک رہنے اور ان سے دوستی و محبت کرنے کا حکم خدا کی جانب سے ہے اور ان کی محبت کے ساتھ انجام دیئے جانے ...........................
[١]۔المغربی،احمد بن بطریق،فتح الملک العلی،ص٧٠ط؛مکتبہ امیر المومنین اصفہان

والے اعمال کا اجر و ثواب بھی دو برابر دیا جاتا ہے،یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ جس طرح پیغمبر اکرم (ص)کی اطاعت لازم ہے اسی طرح اہل بیت کی اطاعت بھی لازم و واجب ہے۔لہٰذا اہل بیت کو ہر مسئلے کا مرجع قرار دینا انسانیت اور فطرت کا تقاضا ہے۔

١٧)اہل بیت ،صراط مستقیم ہیں
اھدنا الصراط المستقیم[١]
''پالنے والے ہمیں راہ راست کی ہدایت کر''۔

تفسیر:
قرآن کریم میںکئی تعبیرات اور الفاظ راستے کے معنیٰ میں استعمال کئے گئے ہیں، سبیل اللہ، سبل،صراط،طریق،صراط مستقیم یہ سارے الفاظ صریحاً راستے کے معنیٰ بیان کرتے ہیں۔ اگرچہ راستے کے معنیٰ میں ان کے علاوہ اور بھی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔نیز اللہ کی طرف سے جتنے انبیاء اور اوصیاء گذرے ہیں ان کے مبعوث ہونے کا فلسفہ بھی راستے کی نشاندہی بتایا جاتا ہے،جس سے راستے کی اہمیت اور ضرورت کا بخوبی علم ہوجاتا ہے۔لیکن ہم مسلمانوں کےلئے
...............................
[١]۔حمد/ ٥۔

خداوند عالم نے چوبیس گھنٹوں میں ،پانچ وقت زبان پر'' اھدنا الصراط المستقیم ''کا جملہ جاری کرنے کو واجب قرار دیا ہے۔جس سے بھی راستے کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔اگر ہم اھدنا الصراط المستقیم کے بارے میں غور و فکر کریں تو اس کا مصداق بھی بخوبی واضح ہوجاتا ہے،اور اس راہ پر گامزن رہنے کی خاطر اللہ نے اپنے بندوں سے دعا کی درخواست کی ہے۔
برید اور ابن عباس -نے روایت کی ہے کہ
فی قول اللہ اھدنا الصراط المستقیم،قال صراط محمد و آلہ[١]
یعنی صراط مستقیم سے حضرت محمد(ص) اور ان کے اہل بیت مراد ہےں۔
امام محمد باقر - سے روایت ہے کہ امام -سے صراط مستقیم کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ -نے فرمایا:
نحن الطریق الواضح و الصراط المستقیم الی اللہ[٢]
یعنی ہم اہل بیت ہی اللہ کی طرف جانے کا واضح و روشن راستہ اور راہ مستقیم ہیں۔
جابر بن عبد اللہ انصار ی -پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کرتے ہیں کہ آپنے فرمایا:اللہ نے حضرت علی - اور حضرت فاطمہ = اور ان
............................
[١]۔الحاکم الحسکانی عبیداللہ بن احمد؛شواہدالتنزیل ج١ص٧٤
[٢]۔الحاکم الحسکانی عبیداللہ بن احمد؛شواہدالتنزیل ج١ص٧٤

کے دو فرزندوں کو اپنی مخلوقات کی ہدایت کےلئے خلق کیا ہے اور ان سے دوستی و محبت رکھنے کو لازم قرار دیا ہے۔وہ میری امت میں علم کا دروازہ بھی ہیں ،ان کے ذریعے سے میری امت کی ہدایت اور میری امت راہ مستقیم پر گامزن ہوسکتی ہے۔

توضیح:
تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ کی طرف سے مبعوث ہونے والے انبیاء میں حضرت محمد بن عبد اللہ(ص) آخری نبی ہیں جن کے بعد سلسلہئ نبوّت و وحی منقطع ہوا اور کئی آیات میں اللہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کی نبوت جن و انس کے لئے ہے۔کسی خاص قبیلہ اور طبقے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور آپؐ کی سیرت طیبہ پر چلنے کو ہر مسلمان راہ سعادت وہدایت سمجھتا ہے اور پیغمبر اکرم (ص)کی ذمہ داری بھی یہی تھی کہ لوگوں کو ضلالت و گمراہی سے نجات دلائے اورراہ مستقیم اور راہ ہدایت کی نشاندہی فرمائیں۔کیونکہ بشر کےلئے پیغمبر اسلام (ص)مکی سیرت مشعل راہ ہدایت ہے اور آنحضرت (ص)نے واضح الفاظ میں فرمایا ہے کہ میں تمہاری نجات کا ذریعہ ہوں لیکن میں بھی تمہاری مانند انسان ہوں،موت اور حیات بر حق ہے۔لہٰذا میرے بعد راہ مستقیم کے مصداق میرے اہل بیت و عترت ہیں، وہ قیامت تک اسلام کی حفاظت اور تمہاری نجات کا ذریعہ ہیں۔ان سے متمسک رہو۔اگر بشر پیغمبر اسلام (ص)سے منقول روایات کا صحیح معنوں میں مطالعہ کرے تو بخوبی بہت سارے شبہات کا واضح جواب مل سکتا ہے۔
شیخ عبد اللہ الحنفی اپنی کتاب ارجح المطالب میں صراط مستقیم کی تعبیر میں اہل سنت کی سند اور طریق سے کئی روایات نقل کرتے ہیں، ان سے معلوم ہوجاتا ہے کہ صراط مستقیم سے اہل بیت مراد ہےں۔ اور اہل تشیع کی سند کے ساتھ صراط مستقیم کی تعبیر کے بارے میں تقریباً چوبیس روایات منقول ہیں جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ اہل بیت صراط مستقیم کے مصداق ہیں،جن سے متمسک رہنا ضروری ہے۔[١]
بعض محققین نے صراط مستقیم کے موضوع پر مستقل کتابیں لکھی ہیں جن کو بیان کرنے کی اس مختصر کتاب میں وسعت نہیں ہے۔

١٨)اہل بیت ،خدا کی جانب سے بشر پر گواہ ہیں
وکذالک جعلناکم امۃ وسطاً لتکونوا شہداء علیٰ الناس[٢]
اور اس طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو۔

تفسیر:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[١] تفصیلی مطالعہ کیلئے دیکھیں:علامہ طباطبائی : تفسیر المیزان ج١تفسیرسورئہ حمد
[٢]۔بقرہ ١٤٣۔

ابان بن ابی عیاش نے سلیم بن قیس -سے وہ حضرت علی -سے روایت کرتے
ہیں:
قال انّ اللہ ایّانا عنی بقولہ تعالیٰ تکونوا شہداء علیٰ الناس فرسول اللہ شاھد علینا و نحن شہداء علیٰ الناس و حجتہ فی ارضہ و نحن الذین قال اللہ جل اسمہ فیھم[١]
حضرت علی -نے فرمایا:
بتحقیق خدا نے اپنے اس قول سے تکونوا.....ہم اہل بیت ارادہ کیا ہے،لہٰذا رسول اکرم (ص) خدا کی جانب سے ہم پر گواہ ہیں اور ہم تمام انسانوں پر گواہ ہیں اور پیغمبراکرم (ص)روئے زمین پر خدا کی طرف سے حجت ہیں اور ہم وہ ہستیاں ہیں جن کے بارے میں خدا نے فرمایا وکذالک جعلناکم امۃ وسطاً.....
علامہ فرمان علی اعلیٰ اللہ مقامہ نے اس آیت کی تفسیر میں در منثور اوراہل سنت کی دیگر کتابوں سے کئی احادیث کا ترجمہ ذکر کیا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امۃ وسطاً اور شہداء علیٰ الناس سے مراد اہل بیت ہیں[٢]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[١]شواہد التنزیل ج ١ ص٩٢۔
[٢]ترجمہ قرآن فرمان علی ص٢٨

اہم نکات:
١۔صراط مستقیم [سیدھا راستہ] اہل بیت ہیں۔
٢۔حبل اللہ، [خدا کی رسی]اہل بیت ہیں۔
٣۔تمام انسانوںپر اہل بیت ،خدا کی طرف سے گواہ ہیں،یعنی روز قیامت جنت اور جہنم میں داخل ہونے کا فیصلہ اہل بیت کی گواہی کے مطابق ہوگا۔
٤۔روز مرہ زندگی کے تمام مسائل چاہے اعتقادی ہوں یا اخلاقی،فقہی
ہوں یا سماجی،سیاسی ہوں یا علمی ان سب کاسر چشمہ اہل بیت کو قرار دینا شرعی ذمہ داری ہے ان کی سیرت ان کے قول و فعل خدا کی طرف سے حجت ہےں

١٩)اہل بیت مصداق شجر طیبہ ہیں
الم تر کیف ضرب اللہ مثلاً کلمۃ طیبۃً کشجرۃٍ طیبۃٍ اصلہا ثابت و فرعہا فی السماء تؤتی اکلہا کل حین باذن ربھا[١]
[اے رسول (ص)]کیاتم نے نہیں دیکھا کہ خدا نے اچھی بات[جیسے کلمہئ توحید]کی کیسی اچھی مثال بیان کی ہے کہ [اچھی بات]گویا ایک پاکیزہ درخت کی مانند ہے کہ اس کی جڑمضبوط گڑی ہوئی ہے اور اس کی ٹہنیاں آسمان
..........................
[١]۔ابراہیم /٢٥۔

میں پہنچی ہوئی ہیں خدا کے حکم سے ہمہ وقت پھلا پھولا رہتا ہے۔

تفسیر:
عبد الرحمن بن عوف کا غلام مینا ،اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں:
سمعت عبدالرحمن بن عوف یقول خذوا منی حدیثاً قبل ان تشاب الاحادیث باالاباطیل، سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقول انا الشجرۃ و فاطمۃ فرعہا و علی لقاحہا و
حسن و حسین ثمرھا وشیعتنا ورقھاو اصل الشجرۃ فی جنۃ
عدن و سائر ذالک فی سائر الجنۃ[١]
مینانے کہا کہ عبد الرحمن بن عوف سے میں نے سنا کہ انہوں نے کہا [لوگو] باطل احادیث رائج اور مخلوط ہونے سے پہلے مجھ سے ایک حدیث سنو کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا:
'' میں درخت ہوں اور فاطمہئ زہرا = اس کی شاخ اور علی - اس کا شگوفہ ہے جبکہ حسن -و حسین- اس درخت کے میوے ہیں اور ہمارے چاہنے والے اس کے پتے ہیں، اس کی جڑ جنات عدن میں ہے جبکہ اس کی شاخیں پوری جنت میں پھیلی ہوئی ہیں''۔
..........................
[١]۔شواہد التنزیل ج ١ ص٣١٢حدیث٤٣٠۔

سلام خثعمی سے روایت کی گئی ہے جس کا ترجمہ اس آیت کی تفسیر میں بیان کرنا زیادہ مناسب ہے:[٢]
سلام خثعمی نے کہا کہ میں امام محمد باقر -کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ -سے آیت شریفہ ''اصلہا ثابت و فرعہا فی السمائ'' کے متعلق سوال کیا کہ اس سے کیا مراد ہے؟
آپ -نے فرمایا: اے سلام! شجر طیبہ سے پیغمبر اکرم (ص)،فرعہا سے حضرت علی -میوے سے حضرات حسنین +،اور شاخ سے حضرت زہرا =مراد ہے۔جبکہ اس کی شاخ سے نکلنے والی ٹہنیوںسے ہم اہل بیت کے چاہنے والے افراد مراد ہیں۔جب ہمارے چاہنے والوں میں سے کوئی وفات پاتا ہے تو اس درخت سے ایک پتہ خشک ہو کر زمین پر گرجاتا ہے لیکن جب ہمارے دوستوں میں سے کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوجاتا ہے تو اس کی جگہ ایک اور پتہ نکل جاتا ہے۔
سلام نے کہا :یا بن رسول اللہ! اگر ایسا ہے تو تؤتی اکلہا سے کیا مراد ہے؟
آپ -نے فرمایا:اس سے مراد ہم ہیں۔ہم اپنے ماننے والوں کو ہر حج و
................................
[٢]شواہد التنزیل ج ١ /ص٣١١ حدیث٤٢٨

عمرہ کے موسم میں حلال و حرام کے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں۔

نوٹ:
اگر آیت کریمہ کے ظاہری معنیٰ اور روایت کاموازنہ کریں تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ خدا نے پیغمبر (ص)کو شجر طیبہ سے تعبیر کرکے ان کی فضیلت کو بیان فرمایا جبکہ ا ۤپؐ کے اہل بیت کی عظمت کو فرعہا اور تؤتی اکلہا کے الفاظ میں بیان کیا جس سے اہل بیت کی خلقت اورفضیلت کا ہدف بھی معلوم ہوجاتا ہے یعنی خدا نے اہل بیت کو اپنے نظام کی حفاظت اور لوگوں کو ہر قسم کی برائی اور گمراہی سے نجات دلانے کی خاطر خلق فرمایا ہے۔
لہٰذا اگر مسلمان دور حاضر کے مفاسد اور مغربی تہذیب و تمدن کے برے اثرات سے بچنا چاہیں تو بہترین راہ اہل بیت کی سیرت پر عمل ہے جس میں ہر مسئلہ کا حل موجودہے اور ہر قسم کی ضلالت و گمراہی سے نجات کا ذریعہ بھی ہے۔کیونکہ خدا نے انکی ہدف خلقت ہماری تربیت اور اسلام کی نشر واشاعت بتایا ہے۔ اگر ہم اہل بیت کی سیرت سے قطع نظر دنیوی مسائل کے بارے میں غور کریں تو سوائے گمراہی اور ضلالت کے کچھ نظر نہیں آتا۔
لہٰذا اگر اتحاد ویکجہتی ،نظام اسلام کی حفاظت، قرآن و سنت کی بالادستی، مسلمانوں کی عظمت اور شرافت کے خواہاں ہیں تو سیرت اہل بیت پر عمل کریں۔ [١]

٢٠)اہل بیت انبیاء کی نجات کا وسیلہ ہیں
فتلقیٰ آدم من ربّہ کلمات فتاب علیہ انّہ ھو التّواب الرحیم[٢]
''پھر آدم -نے اپنے پروردگار سے[عذر خواہی کے]کچھ کلمات[اور
الفاظ]سیکھے پس خدا نے[ان الفاظ کی برکت سے] آدم -کی توبہ قبول کرلی،بے شک خدا بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے''۔

تفسیرآیت:
سعید بن جبیر نے عبد اللہ بن عباس -سے روایت کی ہے:
قال سئل النبی عن الکلمات التی تلقیٰ آدم من ربہ فتاب علیہ قال سألہ بحق محمد و علی و فاطمۃ و الحسن و الحسین
...............................
[١]قارئین محترم،صواعق محرقہ،تفسیر بیضاوی،تفسیر در منثور،شواہد التنزیل جیسی کتابوں کا مطالعہ کریں ان میں منقول روایات کو جو اہل بیت کی شان میں ہیں نشر کریں،تاکہ نجات بشر کا ذریعہ بن سکیں۔
[٢]۔بقرہ /٣٧۔

الا تبت علیّ فتاب علیہ[١]۔
عبد اللہ ابن عباس -نے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص)سے اس آیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آنحضرت (ص)نے فرمایا:اس آیت میں کلمات سے ہم اہل بیت مراد ہیں کہ حضرت آدم - نے خدا سے حضرت محمد(ص)،حضرت علی - اور حضرت فاطمہ = و حضرات حسنین(ع)کے صدقے میں توبہ کی تو خدا نے صرف ان کے صدقے میں توبہئ آدم -قبول کرلی نیزابن عباس -سے روایت کی گئی ہے:
عن النبی(ص) لما امر اللہ آدم بالخروج من الجنۃ رفع طرفہ نحو السماء فرأی خمسۃ اشباح عن یمین العرش فقال الہٰی خلقت خلقاً من قبلی فاوحی اللہ الیہ اما تنظر الیٰ ھٰذہ الاشباح قال بلیٰ قال ھٰولاء الصفوۃ من نوری شققت اسمائھم من اسمی۔فانا اللہ محمود وھٰذا محمد(ص) وانا العالی وھٰذا علی وانا الفاطر و ھٰذہ فاطمۃ وانا المحسن وھٰذا الحسن ولی اسماء الحسنیٰ و ھٰذا الحسین فقال آدم فبحقھم اغفرلی فاوحی اللہ الیہ قد غفرت وھی الکلمات التی قال اللہ فتلقیٰ آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ [١]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[١]۔منا قب : ابن مغازلی ص٦٣حدیث ٨٩و ینابیع المودۃج ١ص٩٥۔
[٢]۔،ینابیع المودۃ ص٩٧۔

ابن عباس -نے پیغمبر اکرم (ص)سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :جب خدا نے حضرت آد م - کو جنت سے نکلنے کا حکم دیا تو حضرت آدم -نے آسمان کی طرف دیکھا اور عرش کے قریب دائیں جانب پانچ ہستیوں کا جلوہ دکھائی دیا تو خدا سے پوچھا پالنے والے! کیا مجھ سے پہلے کسی کو خلق فرمایا تھا؟ خدا کی طرف سے وحی ہوئی اے آدم -! کیا تمہیں ان پانچ ہستیوں کا شبح نظر آرہا ہے؟آدم -نے عرض کیا،جی ہاں۔خدا نے فرمایا:یہ پانچ ہستیاں میری منتخب شدہ ہستیاں ہیں جن کو میں نے اپنے نور سے خلق کیا ہے ۔ان کے اسماء میرے اسماء سے لئے گئے ہیں یعنی میں محمود ہوں یہ محمد(ص)ہیں۔میں عالی ہوں یہ علی - ہیں۔میں فاطر ہوں یہ فاطمہ= ہیں۔میںمحسن ہوں یہ حسن -ہیں اور میرے اسماء حسنیٰ ہیں یہ حسین -ہیں۔اتنے میں آدم -اٹھ کھڑے ہوئے اور
ان کے صدقے میں خدا سے معذرت خواہی کی تو خدا کی طرف سے وحی ہوئی کہ اے آدم - ! میں نے تیری معذرت خواہی کو قبول کیا،کیونکہ آیت''فتلقیٰ آدم....''میں کلمات سے مراد یہی ہستیاں ہیں''۔
اہم نکات:
١۔آیت سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ حضرت آدم - خدا کی طرف سے سب سے پہلا بشر اور نبی ہونے کے باوجود معمولی سی ترک اولیٰ پر اہل بیت کے وسیلے کے بغیر نجات نہیںمل سکی۔جس سے عام انسانوں کے حالات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے۔یعنی جب خدا کا بھیجا ہوا نبی اہل بیت کی وساطت کے بغیر نجات نہیں پاسکتا تو دوسرے انسانوں کےلئے اہل بیت کے بغیر کیسے نجات مل سکتی ہے۔حضرت آدم - کو اہل بیت کا خاکہ اور اشباح عالم ذر میں دکھادیا تھا جس سے ایک حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ یعنی اہل بیت کا خاکہ اس مادی دنیا میں خلق کرنے سے پہلے خدا نے انبیاء کو دکھایا تھا اور فرمایا تھا کہ یہی ہستیاں کائنات کی تمام مخلوقات سے افضل ہیں اور انہی کے وسیلے سے نجات مل سکتی ہے۔

٢١)اہل بیت ،صادقین کے مصداق ہیں
یا ایھا الذین آمنوا اتقوا اللہ وکونوا مع الصادقین[١] ۔ ''اے ایمان والو خدا سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہوجاؤ۔''

تفسیرآیت:
اس آیت میں خدا نے فرمایا جو مومن ہے اسے چاہئے کہ:
الف:تقویٰ اختیار کرے۔
ب: صادقین کے ساتھ ہوجائے۔
..........................
[١]سورئہ توبہ آیہ ١١٩

تقویٰ کی حقیقت بیان کرنے کی اس کتاب میں گنجائش نہیں ہے۔ ہم
یہاں صرف صادقین کی وضاحت کریں گے:
فرمان علی اعلیٰ اللہ مقامہ [١] نے آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے لکھا ہے کہ ابن مرویہ نے ابن عباس -سے اور ابن عساکر نے امام محمد باقر -سے روایت
کی ہے کہ اس آیت میں صادقین سے حضرت علی ابن ابی طالب - مراد ہےں[٢]
لیکن استاد محترم ، علامہ آقائے علی ربانی گلپائگانی نے اپنے لیکچر میں صادقین کے بارے میں فرمایا:صادقین سے متعلق مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔لیکن حاکم حسکانی عبد اللہ بن عمرسے روایت کرتے ہیں کہ صادقین سے اہل بیت مراد ہیں۔[٣]
بعض دوسرے مفسرین اس طرح تفسیر کرتے ہیں:
الصادقون ہم الائمۃ الصدیقون بطاعتھم[٤]
صادقین سے ائمہئ اطہار (ع) مراد ہےں۔کہ جنہوں نے خدا کی سچی اطاعت کی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[١] ترجمہئ قرآن حاشیہ ٢
[٢]۔در منثور ج ٣ ص٣٩٠۔
[٣]۔شواہد التنزیل ج ١ ص٢٦٢،حدیث٣٥٧۔
[٤]۔ینابیع المودۃج١ص١١٥۔

پس آیت مذکورہ سے اہل بیت کی ایک خاص خصوصیت ثابت ہوتی ہے جس کا دوسرے انسانوں میں پایا جانا مشکل ہے کیونکہ''مختص الشیء لا یوجد فی غیرہ''[١]وہ حقیقت اور سچائی کے ساتھ خدا کی اطاعت کرنے والے ہیں۔ اس آیت کے حوالے سے مزید وضاحت کےلئے ڈاکٹر تیجانی حفظہ اللہ
کی لکھی ہوئی معروف کتاب[٢] اور دیگر تفاسیر کی طرف رجوع کریں۔ الغدیر اور جو کتابیں عقائد کے موضوع پر لکھی گئی ،ان میں اس آیت سے اہل بیت کی عصمت کو ثابت کیا گیا ہے۔حتیٰ فخر رازی نے بھی اس طرح کا احتمال دیا ہے۔

٢٢)اہل بیت کی سرپرستی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا حکم
یا ایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ ولا تتّبعوا خطوات الشیطان انّہ لکم عدو مبین[٣]
''اے ایمان والو! تم سب کے سب ایک بار اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو وہ تمہارا یقیناً ظاہر بہ ظاہر دشمن ہے۔''

تفسیرآیت:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[١]جو بات کسی شے کےلئے مخصوص ہے وہ کسی اور میں نہیں پائی جاتی ہے۔
[٢]''پھر میں ہدایت پاگیا''
[٣]بقرہ /٢٠٨۔

ابن مغازلی صاحب مناقب روایت نقل کرتے ہیں:
عن علی فی قولہ تعالیٰ ادخلوا فی السلم کافۃ قال ولایتنا اہل البیت[١]
حضرت علی -سے ''ادخلوا فی السلم کافۃ ''کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ -نے فرمایا: اس سے ہم اہل بیت کی ولایت مراد ہے یعنی سب کے سب ہماری ولایت اور سرپرستی کو پوری طرح مان لےں۔
نیز امام محمد باقر -سے شیخ سلیمان قندوزی ینابیع المودۃ میں روایت کی ہے:
عن ابی جعفر الباقر فی قولہ تعالیٰ یا ایھا الذین آمنوا ادخلوا فی السلم کافۃ یعنی ولایۃ علی علیہ السلام والاوصیاء بعدہ[٢]
امام محمد باقر - سے آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ- نے فرمایا:''ادخلوا فی السلم کافۃ ''سے حضرت علی - اور ان کے بعد انکے جانشینوں کی ولایت مراد ہے۔
.............................
[١]۔منا قب ابن مغازلی۔ ص١٠٤
[٢]۔ینایبع المودۃ ص٢٥٠،

ۤ اگر ہم گذشتہ روایات کی بنا پر'' فی السلم کافۃ ''سے اہل بیت کی ولایت اور سرپرستی کا ارادہ کریںتو دوسرے جملے سے بہت ہی عجیب و غریب نکتہ سمجھ میں آتا ہے یعنی خدا نے اہل بیت کی سرپرستی اور ولایت کو قبول کرنے کے حکم ساتھ دوسرے لوگوں کی سرپرستی اور ولایت کو خطوات الشیطان سے تعبیر کرکے فرمایا اہل بیت کے سوا دوسروں کی ولایت اور سر پرستی کو قبول نہ کرو کیونکہ ان کی ولایت اور سرپرستی کو قبول کرنا قدم بہ قدم شیطان کے اتباع اور پیروی کے مترادف ہے۔
اگرچہ شیعہئ امامیہ کا عقیدہ یہ ہے کہ بالذات ولایت اور سرپرستی کا حق خدا کے سواء کسی بشر کو نہیں ہے لیکن خدا نے جن کو سرپرستی اور ولایت کا حق عطا کیا ہے وہ اہل بیت ہیں۔ ان کے مقابلے میں دوسروںکی ولایت کو قبول کرنا خدا کی نظر میں خطوات شیطان کا اتباع ہے۔

٢٣)اہل بیت انصاف کا دروازہ ہیں
وممن خلقنا امۃ یھدون وبہ یعدلون[١]
اور ہماری مخلوقات میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو[دین] حق کی ہدایت کرتے اور حق کے ساتھ انصاف بھی کرتے ہیں۔ ..........................
[١]۔اعراف/١ ١٨۔

تفسیر:
اس آیت میں خدا نے خبر دی کہ میری مخلوقات میں سے کچھ لوگ انصاف اور حق کی ہدایت کے لئے خلق کی گئی ہیں،وہ کون ہیں ان کو معین کرنا ضروری ہے۔ فرمان علی اعلیٰ اللہ مقامہنے لکھا ہے کہ حضرت علی -سے روایت کی گئی ہے کہ عنقریب اس امت کے تہتر فرقے ہوںگے ان میں سے بہتر فرقے جہنمی ہیں صرف ایک فرقہ جنتی ہے اور ان کے بارے میں خدا نے فرمایا ـ:میں اور میرے ماننے والے شیعہ اس آیت کے مصداق ہیں۔[١]
شواہد التنزیل کے مصنف نے ابن عباس -سے روایت کی ہے:
فی قولہ عز و جل وممن خلقنا امۃ.....قال یعنی من امۃ محمد وعلی ابن ابی طالب علیہما السلام یھدون بالحق یعنی یدعون بعدک یا محمد الیٰ الحق وبہ یعدلون فی الخلافۃ بعدک[٢]
یعنی اس آیت سے پیغمبر اکرم (ص)اور حضرت علی - کے پیروکار مراد ہے جو پیغمبر (ص)کے بعد حق کی طرف لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور پیغمبر (ص)کے
بعد خلافت کے سلسلے میں حق کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں۔جو لوگوں کی ہدایت اور حق کی طرف انصاف کے ساتھ دعوت دیتے ہیں۔
.........................
[١]ترجمہئ قرآن حاشیہ ٢
[٢]۔شواہد التنزیل ج ١ ص٢٠٤حدیث ٢٦٦

جناب محمد رضا امین زادہ نے اپنی کتاب فضائل اہل بیت کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس آیت کے متعلق اہل سنت سے دو حدیثیں جبکہ اہل تشیع سے بارہ حدیثیں نقل ہوئی ہیں۔جن سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ آیت کریمہ اہل بیت کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ فخر رازی نے اس آیت کی تفسیر میں اس حدیث کو نقل کیا ہے:
انّ من امتی قوماً علیٰ الحق حتیٰ یتنزل عیسیٰ بن مریم[١]
پیغمبر (ص)نے فرمایا:اس آیت میں میری امت میں سے ایک گروہ مراد ہے جو برحق ہے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے تک حق کی دعوت دیتے رہیں گے۔

تحلیل:
اگر ہم با شعورانسان کی حیثیت سے تعصب اوراندھی تقلید اور دیگر عوامل سے قطع نظر شرعی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے چودہ معصومین کی سیرت کو صحیح معنوں میں درک کریں تو بہت سارے مسائل کا حل مل سکتا ہے اور اس آیت کا مصداق جو برحق ہونے کے علاوہ دین حق کی ہدایت اور انصاف کا مصداق ہے،متعین کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
[١]فضائل اہل بیت ص٢٨
[٢]تفسیر کبیر ج ١٥ ص٧٢۔

اگر عدل وانصاف اورہدایت و سعادت کے خواہاں ہوںاور ظلم وستم ، جہالت و گمراہی اور شیطانی اوصاف کے حامل لوگوں کے تسلط سے نجات کے طالب ہوں تو اہل بیت کی سیرت پر چلنا چاہئے اور ان کے نورانی کلمات سے استفادہ کرنا چاہئے کیوں کہ کسی تعصب اور مادی ہدف کے بغیر صرف ذمہ داری سمجھ کر ہدایت کرنے والی ہستیاں اہل بیت ہےں۔
ان کی سیرت سے ہٹ کر جو بھی نظام اور سیرت ہیں ان میں دوام اور اور استحکام نظرنہیںآتا اس کے علاوہ ان میں دنیا و آخرت کی تباہی، ظلم و ستم اور ضلالت و گمراہی کے رواج، جہالت اور ناانصافی اور جابر حکمرانوں کے تسلط کے سوا کچھ بھی نہیں ہے چنانچہ آج صاحبان عقل دنیا میں ایسے وقائع اور حالات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیاست اور کامیابی کے نام سے بے گناہ افراد کو اپنا غلام بنا کریا قتل و غارت کے ذریعے ہم دہشت گردی سے نجات دینے کےلئے پیدا کئے گئے ہیں جبکہ ان نظریات کو صحیح معنوں میں درک کرنے سے دہشت گردوں کی تقویت اور ناانصافی کے فروغ کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا لہٰذا پڑھے لکھے حضرات سے گزارش ہے کہ وہ بالغ نظری سے اہل بیت کی سیرت کا مطالعہ کریں۔
اگر ہم کسی شعبے میں کامیاب،باوقار،با عزت اور باشرف ہونا چا ہیں تو اس کی بہترین راہ اہل بیت کی سیرت ہے جس میں ہماری دنیا و آخرت دونوں کی سعادت کے علاوہ ثبات اور دوام بھی نظر آتا ہے۔
اب تک اہل بیت کی عظمت کے بارے میں اہل سنت کی تفاسیر اور معتبر کتابوں سے کچھ آیات کونقل کرنے کا شرف حاصل ہوا ۔لیکن اگر ہم اہل سنت کی کتابوں کا بغور مطالعہ کریں تواہل بیت کی شان اور ان کی عظمت بیان کرنے والی مزید آیات مل سکتی ہےں ۔
قارئین محترم سے گزارش ہے ہمارے برادران اہل سنت کی ان کتابوں کا مطالعہ کریں جن میں اہل بیت کی فضیلت اور عظمت بیان کرنے والی آیات و روایات بہت زیادہ ہیں۔