حقوق اہلبیت (ع)
معرفت حقوق
781۔ رسول اکرم ، قسم ہے اس خدا کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ ہمارے حق کی معرفت کے بغیر کسی بندہ کا کوئی عمل مفید نہیں ہوسکتاہے۔(المعجم الاوسط 2 ص 360 / 2230 روایت ابن ابی لیلیٰ از امام حسن (ع) ینابیع المودہ 2 ص 272 / 775 روایت جابر ، مجمع الزوائد 0 ص 272 / 15007 ، امالی مفید 44 / 2 ، محاسن 1 ص 134 / 169 ، الغدیر 2 ص 301 / 10 ص 280 ، احقاق الحق 9 ص 428)۔
782۔ رسول اکرم ! مومن کا چراغ ہمارے حق کی معرفت ہے اور بدترین اندھاپن ہمارے فضل سے آنکھیں بندکر لیناہے۔( جامع الاخبار ص 505 / 1399 ، الخصال ص 633 / 60 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم عن الصادق (ع) ، تفسیر فرات ص 368 / 499 از امام علی(ع))۔
783۔ امام علی (ع) ! ہمارا ایک حق ہے جو دیدیا گیا تو خیر ورنہ ہم پشت ناقہ پر سوار ہی رہیں گے چاہے سفر کتنا ہی طویل کیوں نہ ہوجائے۔ (نہج البلاغہ حکم نمبر 22)۔
784۔ امام علی (ع) ! جو شخص اپنے خدا ، رسول اور اہلبیت (ع) کے حق کی معرفت کے ساتھ اپنے بستر پر مرجائے وہ بھی شہید ہی مرتاہے اور اس کا اجر پروردگار کے ذمہ ہوتاہے اور وہ اپنے نیک اعمال کی نیت کے ثواب کا بھی حقدار ہوتاہے اور اس کی نیت جہاد کے مانند ہوتی ہے کہ ہر شے کی ایک مدت معین ہے، اس سے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے، دوام صرف نیک میں ہوتاہے۔(غرر الحکم ص 9061)۔
785۔ جابر بن یزید الجعفی امام محمد باقر (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے ٌضرت سے آیت ” ثم اورثنا الکتاب“ کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا کہ ظالم وہ ہے جو حق امام سے ناآشنا ہو، مقتصد حق امام کا جاننے والا ہے اور سابق بالخیرات خود امام ہے۔” جنات عدن یدخلونھا“ یہ انعام صرف سابق اور میانہ رو کے لئے ہے، ظالم کے لئے نہیں ہے۔( معانی الاخبار ص 104 ، کافی 1 ص 214)۔
786۔ امام صادق (ع) ! پروردگار عالم نے ائمہ ہدیٰ کے ذریعہ اپنے دین کو واضح کردیا ہے اور اپنے راستہ کو روشن کردیا ہے اور علم کے مخفی چشموں کے نمایاں کردیا ہے لہذا امت محمد میں جو شخص بھی امام کے واجب حق کو پہچان لے گا وہی ایمان کی حلاوت اور اسلام کی طراوت و تازگی سے آشناہوسکے گا ۔( کافی 1 ص 203 ، الغیبتہ للنعمانی ص 224 / 7 ، مختصر بصائر الدرجات ص 89 روایت اسحاق بن غالب ، بصائر الدرجات 413 /2 روایت ابن اسحاق غالب )۔

تاکید محافظت حقوق
787۔ رسول اکرم ۔ میں تمھیں اہلبیت (ع) کے بارے میں خدا کو یاد دلاتاہوں، میں تمھیں اہلبیت (ع) کے بارے میں خدا کو یاد دلاتاہوں۔( صحیح مسلم 4 / 1873 / 2480 ، سنن دارمی 2 ص 890 / 3198 ، مسند ابن حنبل 7 ص 75 / 19285 ، السنن الکبری 10 ص 194 / 20335 ، تہذیب تاریخ دمشق 5 ص 439 ، در منثور 7 ص 349 نقل از ترمذی و نسائی ، فرائد السمطین 2 ص 234 از زید بن ارقم ، احقاق 9 ص 391)۔
788۔ رسول اکرم ! تمھارے سامنے اہلبیت (ع) کے بارے میں خدا کو گواہ بناتاہوں (المعجم الکبیر 5 ص 183 / 5027 ، کنز العمال 13 / 640 / 19 376 روایت زید بن ارقم ، احقاق الحق 9 ص 434۔
789۔ رسول اکرم ! میں تمھین اپنی عترت کے بارے میں خیر کی وصیت کرتاہوں۔( مستدرک حاکم 2 ص 131 / 2559 ، مجمع الزوائد 90 ص 257 / 14960 روایت عبدالرحمان بن عوف ، کفایة الاثر ص 41 روایت سلمان فارسی ص 129 روایت حذیفہ اسید ص 132 روایت عمران بن حصین ص 104 روایت زید بن ارقم ، احقاق الحق 9 ص 432۔
790۔ رسول اکرم ! میں سب سے پہلے خدائے عزیز و جبار کی بارگاہ میں بروز قیامت قرآن واہلبیت (ع) کے ساتھ وارد ہوں گا، اس کے بعد امت وارد ہوگی تو میں سوال کروں گا کہ تم لوگوں نے کتاب و عترت کے ساتھ کیا سلو ک کیا ہے۔( کافی 2 ص 600 /4 روایت ابوالجارود ، مختصر بصائر الدرجات ص 89 روایت شعیب الحداد)۔
791۔ رسول اکرم ! لوگو ! اللہ کو یاد رکھنا میرے اہلبیت (ع) کے بارے میں کہ یہ دین کے ارکان ، تاریکیوں کے چراغ اور علم کے معدن ہیں۔( خصائص الائمہ ص 75 روایت عینی الضریر عن الکاظم (ع) ، بحار 22 ص 487 / 31)۔
792۔ رسول اکرم ! خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں اور میں انھیں ہر مومن کے حوالہ کرکے جارہاہوں تہذیب تاریخ دمشق 4 ص 322 روایت انس، ینابیع المودہ 2 ص 71 /11 ، احقاق الحق 9 ص 435۔
793۔ رسول اکرم ! جو میرے اہلبیت (ع) کے بارے میں میری حفاظت کرے گا اس نے گویا خدا کے نزدیک عہد لے لیا ہے( ذخائر العقبیٰ ص 18 روایت عبدالعزیز ، ینابیع المودة 2 ص 114 / 323 ، احقا ق الحق 9 ص 918)۔
794۔ رسول اکرم ! میری عترت کے بارے میں میری حفاظت کرو، ( مسند الشہاب 1 ص 419 ، 474 روایت انس ، احقاق الحق 9 ص 434)۔
795۔ رسول اکرم ! میرے اہلبیت (ع) کے بارے میں مجھے باقی رکھنا ( الصواعق المحرقہ ص 150 ، الجامع الصغیر 1 ص 50 / 302 ، مجمع الزوائد 9 ص 257 / 14961 ، ینابیع المودة 1261 / 62 ، احقاق الحق 9 ص 448۔
796۔ رسول اکرم ! میری امت کے مومنین اہلبیت (ع) کے بارے میں میری امانت کی قیامت تک حفاظت کرتے رہی۔(کافی 2 ص 46 / 3 از عبدالعظیم الحسنئ)۔
797۔ رسول اکرم ! جو شخص چاہتا ہے کہ اس کی مدت حیات بابرکت ہو اور اللہ اسے نعمتوں سے بہرہ اندوز کرے اس کا فرض ہے کہ میرے بعد میرے اہلبیت (ع) کے ساتھ بہترین برتاؤ کرے۔( کنز العمال 12 ص 99 / 4171 3 روایت عبداللہ بن بدر الحظمی)۔
798۔ رسول اکرم ! تم عنقریب میرے بعد میرے اہلبیت (ع) کے بارے میں آزمائے گے ۔( المعجم الکبیر 192 / 4111 روایت خالد بن عرفطہ)۔
799۔ ابن عباس ! رسول اکرم منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کے اجتماع عام میں خطبہ ارشاد فرمایا، مومنو ! پروردگار نے مجھے اشارہ دیا ہے کہ میں عنقریب یہاں سے جانے والا ہو… تم میری بات سنو اور میری نصیحت کا حق پہچانو اور میرے اہلبیت (ع) کے ساتھ وہی برتاؤ کرنا جس کا تمھیں حکم دیا گیا ہے ، انھیں محفوظ رکھنا کہ وہ میرے خواص، قرابتدار، برادران اور اولاد ہیں اور تم ایک دن جمع کئے جاؤگے جب تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو یہ دیکھتے رہنا کہ تم نے میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیاہے، دیکھو ! یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں ۔( امالی صدوق (ر) ص 62 / 11 التحصین ص 598 باب 4)۔
800۔ ابن عباس ! جب ہم حجة الوداع سے واپس ہوئے تو ایک دن رسول اکرم (ع) کے پاس ان کی مسجد میں بیٹھے تھے… کہ آپ نے فرمایا ایھا الناس ! میری عترت اور میرے اہلبیت (ع) کے بارے میں خدا کو یاد رکھنا ، فاطمہ (ع) میرے دل کا ٹکڑا ہے، حسن (ع) و حسین (ع) میرے بازو ہیں اور میں اور فاطمہ (ع) کے شوہر دونوں روشنی کے مانند ہیں، خدایا ! جو ان پر رحم کرے اس پر رحم کرنا اور جو ان پر ظلم کرے اسے ہرگز معاف نہ کرنا ( بحار الانوار 23 ص 143 / 97 نقل از الفضائل و کتاب الروضہ ، احقاق الحق 9 ص 198)۔
801۔ امام علی (ع) ! دیکھو اللہ کو یاد رکھنا اپنے نبی کی ذریت کے بارے میں ، تمھارے ہوتے ہوئے ان پر ظلم نہ ہونے پائے جبکہ ان سے دفاع کی طاقت بھی رکھتے ہو۔( کافی 7 ص 52 /7 روایت عبدالرحمان بن حجاج عن الکاظم (ع) ، تہذیب 9 ص 177 / 714 ، روایت جابر عن الباقر (ع) ، الفقیہ
4 ص 191 / 433 ، روایت سلیم بن قیس ، تحف العقول ص 198 کتاب سلیم بن قیس2 ص 926۔
802۔ امام علی (ع) !محمد بن بکر کو والی مصر قرار دیتے ہوئے فرمایا، بندگان خدا ! اگر تم نے تقویٰ اختیار کیا اور اہلبیت (ع) کے ذریعہ اپنے نبی کا تحفظ کیا تو تم نے خدا کی بہترین عبادت کی اور اس کا بہترین ذکر کیا اور بہترین شکر ادا کیا اور صبر و شکر دونوں کو جمع کرلیا اور بہترین کو شش سے کام لیا ہے چاہے تمھارے اغیار تم سے زیادہ طولانی نمازیں پڑھیں اور زیادہ روزے رکھیں لیکن تمھارا تقوی ان سے بالاتر ہے اور تم صاحبان امر کے زیادہ مخلص ہو۔( امالی طوسی (ر) 27 ص 31 از ابواسحاق الہمدانی )۔
803۔ امام صادق (ع) ! ہمارے بارے میں اسی طرح تحفظ سے کام لینا جس طرح بندہٴ صالح خضر نے دو یتیموں کے مال کا تحفظ کیا تھا کہ ان کا باپ صالح اور نیک تھا۔( امالی طوسی (ر) ص 273 / 514 روایت برذون بن شبیب )۔

عناوین حقوق

1۔ مودت
ارشاد احدیت ہوتاہے، پیغمبر آپ ان سے کہہ دیجیئے کہ میں رسالت کا اجر قربا کی مودت کے علاوہ کچھ نہیں چاہتاہوں اور جو شخص ایک نیکی اختیار کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کردیں گے کہ خدا غفور بھی ہے اور شکور بھی ہے، سورہ شوریٰ آیت 23۔
” آپ کہہ دیجیئے کہ میں نے جس اجر کا سوال کیا ہے اس کا فائدہ تمھیں کو ہے ورنہ میرا واقعی اجر تو خدا کے ذمہ ہے اور وہی ہر شے کا نگراں اور گواہ ہے“ سورہ سبا آیت 47۔
” کہہ دیجئے کہ میں اس رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا مگر جو شخص اپنے پروردگار تک جانے کا راستہ اختیار کرنا چاہے، سورہ فرقان آیت 57۔
804۔ امام صادق (ع) ! انصار ، رسول اکرم کی خدمت میں آئے اور عرض کی کہ ہم سب گمراہ تھے آپ نے ہمیں ہدایت دی ، ہم مفلس تھے خدا نے آپ کے ذریعہ غنی بنادیا، لہذا اب ہمارے اموال میں سے جو چاہیں طلب کرلیں۔ ہم حاضر ہیں ، جس کے بعد آیت مودت نازل ہوئی۔
یہ کہہ کر آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کئے اور رونے لگے یہاں تک کہ ریش مبارک تر ہوگئی اور فرمایا شکر ہے اس پروردگار کا جس نے ہمیں یہ فضیلت عنایت فرمائی ہے۔( دعائم الاسلام 1 ص 67)۔
805۔ طاؤس نے آیت مودت کے بارے میں ابن عباس سے سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ سعید بن جبیر کا کہنا تھا کہ اس سے آل محمد کے قرابتدار مراد ہیں ۔( صحیح بخاری 4 ص 1819 / 4541 ، 3 ص 1289 / 3306، اس مقام پر محمد کے قرابتداروں کا ذکر ہے، سنن ترمذی 5 ص 377 / 3251 ، مسسند ابن حنبل 1 ص 614 / 2599 ، احقاق الحق 3 ۔3 ، مستدرک حاکم 2 ص 482 / 3659)۔
806۔ ابن عباس ! جب آیت مودت نازل ہوئی تو لوگوں نے پوچھا کہ یارسول اللہ یہ قرابتدار کون ہیں جن کی مودت ہم پر واجب کی گئی ہے ؟ فرمایا علی (ع) ، فاطمہ ! اور ان کے دونوں فرزند ۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 669 / 1141 ، المعجم الکبیر 3 ص 47 / 2641 ، کشاف 3 ص 402 ، در منثور 7 ص 348 نقل از ابن المنذر ، ابن ابی حاتم، ابن مردویہ ، تفسیر فرات 389 ، 516 / 520 … شواہد التنزیل 2 ص 189 ، الغدیر 2 ص 307 / 1)۔
807۔ ابن عباس ! رسول اکرم نے آیت مودت کی تفسیر اس طرح فرمائی کہ اہلبیت (ع) کے ذیل میں میری حفاظت کرو اور میری وجہ سے ان سے محبت کرو۔
( در منثور 7 ص 348 نقل از ابونعیم ، دیلمی، مجمع البیان 9 ص 43)۔
808۔ جابر ! ایک اعرابی رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کی حضور مجھے اسلام سکھائیں ؟ فرمایا کہ خدا کی وحدانیت اور میری بندگی اور رسالت کی گواہی دو… کہا اس کا کوئی اجر درکار ہے، فرمایا مودت اقرباء کے علاوہ کچھ نہیں۔
اس نے کہا کہ میرے اقربا آپ کے ؟ میرے اقربا … اس نے کہا ہاتھ بڑھائیے تا کہ میں آپ کی بیعت کروں ، جو آپ اور آپ کے اقربا سے محبت نہ کرے، اس پر خدا کی لعنت ہو… آپ نے فرمایا، آمین ۔( حلیة الاولیاء 3 ص 201 ، کفایة الطالب ص 90)۔
809۔ ابن عباس ! رسول اکرم نے مجھے ایک ضرورت سے بھیجتے ہوئے فرمایا کہ جب کوئی حاجت در کار ہو تو علی (ع) اور ان کی اولاد سے محبت کرنا کہ ان کی محبت پروردگار کی طرف سے تمام بندوں پر واجب ہے۔ ( ینابیع المودة 2 ص 292 / 842)۔
810۔ رسول اکرم ، جو شخص چاہتاہے کہ عروة الوثقیٰ سے تمسک کرے اسے چاہئے کہ علی (ع) … اور میرے تمام اہلبیت (ع) ، سے محبت کرے ۔( عیون اخبار الرضا 2 ص 58 / 216 روایت ابو محمد التمیمی از امام رضا (ع) ، ینابیع المودة 2 ص 268 / 761)۔
811۔ رسول اکرم ! جو اللہ کی مضبوط رسی سے متمسک رہنا چاہتاہے، اس کا فرض ہے کہ علی (ع) بن ابی طالب (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) سے محبت کرے کہ اللہ بھی عرض اعظم پر ان سے محبت کرتاہے۔( کامل الزیارات ص 51 از جابر عن الباقر (ع))۔
812۔ امام علی (ع) ! تمھارا فرض ہے کہ آل نبی سے محبت کرو ، یہ خدا کا حق ہے جسے اس نے تم پر واجب بنایاہے، کیا تم نے آیت مودت کی تلاوت نہیں کی ہے۔( غرر الحکم ص 6169)۔
813۔ زاذان نے حضرت علی (ع) کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ آل حم ہمارے درمیان ہے اور ہماری محبت کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتاہے اور اس کے بعد آپ نے آیت مودت کی تلاوت فرمائی ۔( تاریخ اصفہان2 ص 134 / 1309 ، کنز العمال 2 ص 290 / 4030 از ابن مردویہ و ابن عساکر ، صواعق محرقہ ص 170 ، شواہد التنزیل 2 ص 205 / 838 مجمع البیان 9 ص 43 ، الغدیر 2 ص 308 / 6)۔
814۔ امام علی (ع) العروة الوثقی مودت آل محمد کا نام ہے۔(ینابیع المودة 1 ص 331 /2 روایت حصین بن مخارق عن الکاظم (ع) ) ۔
815۔ امام زین العابدین (ع)! حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد امام حسن (ع) نے خطبہ دیا تو حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا ، ہم ان اہلبیت (ع) میں ہیں جن کی موت کو اللہ نے واجب قرار دیا ہے اور آیت مودت ہی ہے۔( مستدرک حاکم 3 ص 189 / 4803 ، روایت عمر بن علی ، مجمع الزوائد 1 ص 203 / 14798 روایت ابوالطفیل عن الحسن (ع) ،تاویل الآیات الظاہرہ ص 530 روایت حسن بن زید)۔
816۔امام حسین (ع) ! آیت مودت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جن قرابتداروں سے ارتباط کا حکم دیا گیا ہے اور ان کا حق عظیم ہے اور سارا خیر انھیں میں ہے وہ ہم اہلبیت (ع) ہیں کہ ہمارا حق ہر مسلمان پر واجب ہے۔( تاویل الآیات الظاہرہ ص 531 روایت عبدالملک بن عمیر )۔
817۔ حکیم بن جبیر ! میں نے امام سجاد (ع) سے اس آیت موت کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) پیغمبر کی قرابت ہے۔( تفسیر فرات کوفی ص 392 / 523)۔
818 ۔ ابوالدیلم ! جب حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) کو قیدی بناکر لایا گیا اور دمشق کے دروازہ پر کھڑا کردیا گیا تو ایک مرد شامی نے آکر کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمھیں قتل کیا اور تمھارا خاتمہ کردیا اور فتنہ کی سینگ توڑدی تو آپ نے فرمایا کہ کیا تو نے قرآن پڑھاہے؟ اس نے کہا بیشک۔
فرمایا کیا آل حم پڑھاہے ؟ کہا کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص قرآن پڑھے اور اس سورہ کونہ پڑھے۔
فرمایا مگر تو نے آیت مودت کو نہیں پڑھاہے، اس نے کہا کہ یہ قرابتدار آپ ہی ہیں ؟ فرمایا ، بیشک ( تفسیر طبری 13/ 25 ، العمدة ص 51 / 46 ، الغدیر 2 ص 409 / 8)۔
819۔ سلام بن المستنیر ! میں نے امام باقر (ع) سے پوچھا کہ آیت مودت کا مفہوم کیا ہے ؟ توفرمایا کہ یہ مودت اہلبیت (ع) پیغمبر کے لئے خدا کی طرف سے ایک فریضہ ہے۔( محاسن 1 ص 240 / 441 دعائم الاسلام 1ص 68)۔
820۔ عبداللہ بن عجلان نے امام باقر (ع)سے آیت مودت کی تفسیر میں یہ فقرہ نقل کیاہے کہ قربیٰ سے مراد ائمہ ہیں ۔( کافی 1 ص 413 / 17 محاسن 1 ص 241 / 2۔
821۔ امام باقر (ع) ” قل ما سئلتکم من اجوفہم لکم“ کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ اجر سے مراد اقربا کی محبت ہے جس کے علاوہ کسی شے کا سوال نہیں کیا گیاہے اور اس میں بھی تمھارا ہی فائدہ ہے کہ اس سے ہدایت حاصل کرتے ہو، اس کے طفیل میں نیک بخت بنتے ہو اور عذاب روز قیامت سے نجات پاتے ہو۔( ینابیع المودة 1 ص 316/5)۔
822۔ فضیل نے امام (ع) باقر سے نقل کیا ہے کہ آپ نے لوگوں کو خانہ کعبہ کے گردطواف کرتے دیکھ کر فرمایا کہ یہ طواف تو جاہلیت میں بھی ہورہا تھا ، مسلمانوں کا فرض تھا کہ طواف کرنے کے بعد ہمارے پاس آکر اپنی ولایت و مودت کا ثبوت دیتے اور اپنی نصرت پیش کرتے جیسا کہ پروردگار نے کہا ہے ” خدایا لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے، سورہٴ ابراہیم ص 37 ( کافی 1 ص 392 /1)۔
823۔ امام باقر (ع) ! جب رسول اکرم کا انتقال ہوا تو آل محمد نے انتہائی سخت رات گذاری اور اسی عالم میں ایک آنے والا آیا جس کی آواز سنی گئی لیکن اسے نہیں دیکھا گیا اور اس نے کہا کہ سلام ہو تم پر اے اہلبیت (ع) اور رحمت و برکت الہی تم پر ، تم وہ امانت ہو جسے امت کے حوالہ کیا گیا ہے اور تمھارے لئے واجب مودت اور فریضہ اطاعت ہے۔( کافی 1 ص 445 / 19 روایت یعقوب بن سالم )۔
824۔ اسماعیل بن عبدالخالق ! میں نے امام صادق (ع) کو ابوجعفر احول سے یہ کہتے ہوئے سناہے ، کیا تم بصرہ گئے تھے؟ عرض کی جی ہاں !
فرمایا وہاں لوگوں کی رفتار ہماری جماعت میں داخلہ کی کیا تھی؟ عرض کی بہت تھوڑی ، لوگ آپ کی طرف آرہے ہیں مگر بہت کم۔
فرمایا نوجوانوں پر توجہ دو کہ یہ ہر نیکی کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، اس کے بعد فرمایا کہ وہاں لوگ آیت مودت کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
عرض کی کہ میں آپ پر قربان، ان کا خیال ہے کہ رسول اکرم کے تمام قرابتدار مراد ہیں !
فرمایا جھوٹے ہیں، اس سے مراد صرف ہم اہلبیت (ع) اصحاب کساء علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) ہیں ۔( کافی 8 ص 93 / 66 ، قرب الاسناد ص 128 / 450)۔
825۔ امام صادق (ع) ! بعض اوقات انسان ایک شخص کو دوست رکھتاہے اور اس کی اولاد سے نفرت کرتاہے تو پروردگار نے چاہا کہ ہماری محبت کو واجب قرار دیدے کہ جو لیلے اس نے ایک واجب کو لیاہے اور جس نے چھوڑ دیاہے اس نے ایک واجب کو چھوڑا ہے۔( محاسن 1 ص 240 / 440 روایت محمد بن مسلم)۔
826۔ امام ہادی (ع) ! زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں ، تم پر میرے ماں باپ قربان تمھاری محبت کے ذریعہ ہی پروردگار نے ہمیں آثار دین کی تعلیم دی ہے اور ہماری تباہ ہوجانے والی دنیا کی اصلاح کی ہے، آپ کی محبت ہی سے کلمہ کی تکمیل ہوئی ہے، نعمت باعظمت ہوئی ہے اور افتراق میں اجتماع پیدا ہوا ہے آپ کی محبت ہی سے واجب اطاعت قبول ہوئی ہے اور خود آپ کی موت بھی واجبات میں ہے ۔( تہذیب 6 ص 100 / 177)۔
827۔ دعائے ندبہ ! خدا یا اس کے بعد تو نے پیغمبر کا اجر اپنی کتاب میں اہلبیت (ع) کی محبت کو قرار دیا ہے اور فرمایاہے کہ میں ” مودت القربیٰ کے علاوہ کوئی اجر نہیں چاہتاہوں“ اور ” میں نے جو اجر مانگاہے وہ تمھارے ہی لئے ہے“ اور ” میں جس اجر کا سوال کرتاہوں وہ صرف ان کیلئے ہے جو خدا کے راستہ کو اختیار کرنا چاہیں“ اہلبیت (ع) ہی تیرا راستہ اور تیری رضا کا مسلک ہی ں۔( بحار ص 102 / 105 نقل از مصباح الزائر)۔
نوٹ! اس دعا کی سندیوں نقل کی گئی ہے کہ محمد بن علی بن ابی قرہ کا بیان ہے کہ میں نے اسے محمد بن الحسین بن سفیان بزوفری کی کتاب سے نقل کیا ہے اور یہ دعا حضرت صاحب العصر (ع) کی ہے جسے چاروں عیدوں کے دن پڑھاجاتاہے۔

2۔ تمسک
828۔ رسول اکرم ! میں اور میرے اہلبیت (ع) جنت کے ایک شجر کے مانند ہیں جس کی شاخیں اس دنیا میں بھی ہیں لہذا اگر کوئی شخص ہم سے متمسک ہوگیا تو گویا اس نے پروردگار کے راستہ کو پالی۔( ذخائر العقبیٰ ص 16 از عبدالعزیز باسنادہ ینابیع المودة 2 ص 113 / 366 ص 439 / 209)۔
829۔ رسول اکرم ! جو میرے بعد میری عترت سے وابستہ رہے گا اس کا شمار کامیاب لوگوں میں ہوگا ۔( کفایة الاثر ص 22 روایت ابن عباس)۔
830۔ رسول اکرم !میرے بعد بارہ امام ہوں گے جن میں سے نو حسین (ع) کے صلب سے ہوں گے اور ہمیں میں سے اس امت کا مہدی بھی ہوگا، جو میرے بعد ان سے متمسک رہے گا وہ ریسمان ہدایت خدا سے متمسک ہوگا اور جو ان سے الگ ہوجائے گا وہ پروردگار سے الگ ہوجائے گا۔(کفایة الاثر ص 94 از عثمان بن عفان)۔
381۔ رسول اکرم ! اپنے ائمہ کی اطاعت سے وابستہ رہو اور ان کی مخالفت نہ کرو کہ ان کی اطاعت اطاعتِ خدا ہے اور ان کی معصیت معصیت پروردگار ہے۔( المعجم الکبیر 22 / 374 / 935 / 936 ، تہذیب تاریخ دمشق 7 ص 197 ، السنتہ لابن ابی عاصم 499 / 1080 در منثور 5 ص 178 نقل از ابن مردویہ روایت ابولیلی اشعری ، احقاق الحق 18 ص 522 / 112 نقل از مودة القربیٰ ) ۔
832۔ رسول اکرم ! جو شخص سفینہ نجات پر سوار ہونا چاہتاہے اور عروة الوثقیٰ سے متمسک ہونا چاہتاہے اور خدا کی مضبوط رسی کو پکڑنا چاہتاہے، اس کا فرض ہے کہ میرے بعد علی (ع) سے محبت کرے اور ان کے دشمن سے دشمنی رکھے اور ان کی اولاد کے ائمہ کی اقتدا کرے کہ یہ سب میرے خلفاء اوصیاء اور میرے بعد مخلوقات پر اللہ کی حجت ہیں ، یہی میری امت کے سردار اور جنت کی طرف اتقیاء کے قائد ہیں، ان کا گروہ میرا گروہ ہے اور میرا گروہ اللہ کا گروہ ہے اور ان کے دشمنوں کا گروہ شیطان کا گروہ ہے۔( امالی صدوق (ر) ص 26 /5 ، عیون اخبار الرضا (ع) )۔
833۔ ابوذر ! میں نے رسول اکرم کو حضرت علی (ع) سے یہ فرماتے سنا ہے کہ جو تم سے محبت کرے گا اور وابستہ رہے گا وہ عروة الوثقیٰ سے متمسک رہے گا۔ (کفایہ الاثر ص 71 ، ارشاد القلوب ص 215)۔
834۔امام علی (ع) ! مجھ سے رسول اکرم نے فرمایاہے، یا علی (ع) ! تم تمام مخلوقات پر اللہ کی حجت اور عروة الوثقیٰ ہو کہ جو اس سے متمسک جائے گا ہدایت پاجائے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا گمراہ ہوجائے گا ۔( امالی مفید (ر) ص 110 / 9 روایت محمد بن عبداللہ بن علی بن الحسین بن زید بن علی (ع) بن الحسین (ع) از امام رضا (ع) )۔
835۔ امام علی (ع)! جو ہم سے متمسک ہوگا وہ ہم سے ملحق ہوجائے گا اور جو ہم سے الگ ہوجائے گا وہ ڈوب مرے گا ۔( امالی الطوسی (ر) ص 654 / 1354 ، مناقب ابن شہر 1شوب 4 ص 206 ، کمال الدین ص 206 / 20 روایت خشیمہ عن الباقر (ع) ، تحف العقول ص 116 ، غرر الحکم 7891، 8792)۔
836۔ امام علی (ع) ! تم لوگ کدھر جارہے ہو اور کہاں بہک رہے ہو جبکہ نشانیاں قائم ہیں اور آیات واضح ہیں، منارہٴ ہدایت نصب ہوچکاہے، تمھیں کدھر بہکایا جارہاہے اور تم کیسے گمراہ ہوئے جارہے ہو جبکہ تمھارے درمیان تمھارے نبی کی عترت موجود ہے جو حق کے زمان دار، دین کے پرچم اور صداقت کی زبان میں ، انھیں قرآن کی بہترین منزلوں پر رکھو اور ان کے پاس اس طرح وارد ہو جس طرح پیاسے چشمہ پر وارد ہوتے ہیں ۔( نہج البلاغہ خطبہ 87)۔
837۔ امام علی (ع) ! تمھارا فرض ہے کہ تقویٰ الہی اختیار کرو اور ان اہلبیت (ع) کی اطاعت کرو جو پروردگار کے اطاعت گذار ہیں، وہ تمھاری اطاعت کے ان لوگوں سے کہیں زیادہ حقدار ہیں اور ہم سے مقابلہ کرنا چاہتے ہیں ، حالانکہ ہمارے ہی فضل سے فضیلت حاصل کرتے ہیں اور پھر ہمیں سے مقابلہ کرتے ہیں اور ہمارے حق کو چھین کر ہم کو الگ کردینا چاہتے ہیں ، بہر حال ان لوگوں نے اپنے کئے کا مزہ چکھ لیاہے اور عنقریب اپنی گمراہی کا سامنا کرین گے۔( وقعة صفین ص 4 ، شرح نہج البلاغہ ابن الحدید 3 ص 1030)۔
838۔ امام علی (ع)! اپنے نبی کے اہلبیت (ع) پر نگاہ رکھو، انھیں کے راستہ کو اختیار کرو اور انھیں کے آثار کا اتباع کرو، یہ تمھیں نہ ہدایت سے باہر لے جاسکتے ہیں اور نہ ہلاکت میں واپس کرسکتے ہیں ، یہ ٹھہر جائیں تو ٹھہر جاؤ اور یہ اٹھ جائیں تو اٹھ جاؤ، خبردار ان سے آگے نہ نکل جانا کہ گمراہ ہوجاؤ اور پیچھے بھی نہ رہ جانا کہ ہلاک ہوجاؤ ۔( نہج البلاغہ خطبہ 97)۔
839۔ امام علی (ع) ! ہمارے پاس پرچم حق ہے جو اس کے زیر سایہ آجائے گا محفوظ ہوجائے گا اور جو اس کی طرف سبقت کرے گا کامیاب ہوجائے گا اور جو اس سے الگ ہوجائے گا ہلاک ہوجائے گا ۔ اس سے جدا ہوجانے والا گڑھے میں گرا اور اس سے تمسک کرنے والا نجات پاگیا ۔( خصال 633 /10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم عن الصادق (ع))۔
840۔ امام علی (ع) ! جو ہم سے متمسک ہوگا وہ لاحق ہوجائے گا اور جو کسی دوسرے راستہ پر چلے گا غرق ہوجائے گا ، ہمارے دوستوں کے لئے رحمت الہی کی فوجیں ہیں اور ہمارے دشمنوں کے لئے غضب الہی کی افواج ہیں ، ہمارا راستہ درمیانی ہے اور ہمارے امور میں حکمت و دانائی ہے۔( خصال 627 /10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم عن الصادق (ع) )۔ 841۔ ابوعبیدہ معمر بن المثنئ و غیرہ کا بیان ہے کہ امیر المومنین (ع) نے لوگوں سے بیعت لینے کے بعد پہلا خطبہ ارشاد فرمایا ۔
یاد رکھو کہ میری عترت کے پاکیزہ کردار اور میری اصل کے بزرگ ترین افراد جوانی میں سب سے زیادہ حلیم اور بڑھاپے میں سب سے زیادہ عالم ہوتے ہیں ، ہم وہ اہلبیت (ع) ہیں جن کا علم علم خداسے نکلا ہے اور ہمارا حکم بھی حکم الہی سے پیدا ہوتاہے، ہم قول صادق کو اختیار کرتے ہیں لہذا گر تم نے ہمارے آثار کا اتباع کیا تو ہماری بصیرتوں سے ہدایت پاجاؤگے اور اگر ایسا نہ کروگے تو اللہ تمھیں ہمارے ہی ہاتھ سے ہلاک کردے گا، ہمارے ساتھ پرچم حق ہے جو اس کے ساتھ رہے گا وہ ہم سے مل جائے گا اور جو ہم سے الگ ہوجائے گا وہ غرق ہوجائے گا ، ہمارے ہی ذریعہ ہر مومن کا خوں بہا لیا جاتاہے اور ہمارے ہی وسیلہ سے گردنوں سے ذلت کا طوق اتارا جاتاہے۔
خدا نے ہمیں سے آغاز کیا ہے نہ کہ تم سے اور ہمیں پر اختتام کرے گا نہ کہ تم پر ۔( ارشاد مفید (ر) 1 ص 240 شرح الاخبار 3 ص 562 / 1231 ، ینابیع المودة 1 ص 80 / 19 ، العقد الفرید 3 ص 119 ، احقاق الحق 9 ص 476 ، کنز العمال 14 ص 592 / 39679 ، کتاب سلیم بن قیس 2 ص 716)۔
842۔ جابر بن عبداللہ امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ آل محمد ہی وہ ریسمان ہدایت ہیں جن سے تمسک کا حکم دیا گیا ہے اور واعتصموا … کی آیت نازل ہوئی ہے۔( تفسیر عیاشی 1 ص 194 / 123)۔
843۔ امام صادق (ع) ! واعتصموا کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حبل اللہ ہم ہیں“ ( امالی طوسی (ر) 272 / مجمع البیان 2 ص 805 ، ینابیع المودة 1 ص 356 ، احقاق الحق 13 ص 84)۔
844۔ امام صادق (ع) ! تمھارے لئے کیا مشکل ہے کہ جب لوگ تم سے بحث کریں تو صاف کہہ دو کہ ہم اس طرح گئے ہیں جدھر خدا ہے اور انھیں اختیار کیا ہے جنھیں خدا نے اختیار کیا ہے ، خدا نے حضرت محمد کو اختیار کیا ہے تو ہم نے انھیں کی آل کو اختیار کیا ہے اور ہم اسی انتخاب الہی سے وابستہ ہیں۔( امالی طوسی (ر) 227 / 397 ) بشارة المصطفیٰ ص 11 روایت کلیب بن معاویہ الصیداوی )۔
845۔امام صادق (ع) ! جوہمارے غیر سے وابستہ ہوکر ہماری معرفت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا ہے۔( معانی الاخبار ص 399 / 57 روایت ابراہیم بن زیاد، صفات الشیعہ 82 / 4 روایت مفضل بن عمر )۔
846۔ یونس بن عبدالرحمان ! میں نے امام ابوالحسن الاول سے عرض کی کہ توحید الہی کا راستہ کیا ہے ؟ فرمایا کہ دین میں بدعت مست ایجاد کرنا کہ اپنی رائے سے فیصلہ کرنے والا ہلاک ہوجاتاہے اور اہلبیت (ع) پیغمبر سے انحراف کرنے والا گمراہ ہوجاتاہے اور کتاب خدا اور قول رسول کو چھوڑ دینے والا کافر ہوجاتاہے۔( کافی 1 ص 56 / 10)۔
847۔ سوید السائی ! حضرت ابوالحسن (ع) اول نے میرے پاس خط بھیجا کہ میں سب سے پہلے اپنے مرنے کی خبر دے رہاہوں اور اس مرحلہ پر نہ پریشان ہوں اور نہ پشیمان اور نہ قضا و قدر الہی میں کسی طرح کا شک کرنے والا، لہذا تم دین کی مضبوط رسی آل محمد سے وابستہ رہو کہ عروة الوثقیٰ یہی اوصیاء کا سلسلہ ہے لہذا تم ان کے احکام کے آگے سراپا تسلیم رہو۔( قرب الاسناد 333/1335)۔

3۔ ولایت
848۔زید بن ارقم ! جب رسول اکرم” حجة الوداع“ سے واپس ہوتے ہوئے مقام غدیر خم پر پہنچے تو آپ نے زمین کو صاف کرنے کا حکم دیا اور پھر اعلان فرمایا کہ اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر مومن کا ولی ہوں اور اس کے بعد علی (ع) کا ہاتھ پکڑ کر ارشاد فرمایا کہ جس کا میں ولی ہوں اس کا یہ بھی ولی ہے ، خدا یا اسے دوست رکھنا جو اس سے محبت کرے اور اس سے دشمنی کرنا جو اس سے دشمنی رکھے۔( مستدرک حاکم 3 ص 118 / 2576 ، 2589 ، 4578 ، 4579 ، 4610 ، 4652 ، 5477 ، 5594 ، سنن ترمذی 5 ص 633 / 3713 ، سنن ابن ماجہ 1 ص 43 / 116 ، خصائص نسائی 42 ، 47 / 150 ، 163 ، مسند ابن حنبل 641 ، 950، 961 ، 1310 ، 23090 ، 23168 ،23204، 23633 ، 25751 ، 25752 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 595 ، 989 ، 991 ، 992 ، 1007 ، 1016 ، 1017 ، 1021 ، 1022، 1048 ، 1168 ، 1177 ، 1206، المعجم الکبیر 5 ص 166 / 4969 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) ص ص 5 /90 ، البدایة والنہایة 5 ص 210 ، ص 214 7 ص 335 ، الغدیر 1 ص 14 ۔ 152)۔
واضح رہے کہ صاحب الغدیر علامہ امینی طاب ثراہ نے اس مقام پر حدیث غدیر کے روایت کرنے والے 110 صحابہ کرام 48 تابعین اور 0ی36 علماء و حفاظ کے اسماء گرامی کا ذکر کیا ہے جنھوں نے دوسری صدی سے چودھویں تک اس حدیث شریف کو اپنی کتابوں میں جگہ دی ہے۔
849۔ رسول اکرم ، جو شخص یہ چاہتاہے کہ میری طرح زندہ رہے اور میری ہی طرح دنیا سے جائے اور اس جنت میں داخل ہوجائے جس کا وعدہ میرے پروردگار نے کیا ہے، اس کا فرض ہے کہ علی (ع) اور ان کے وارث ائمہ ہدیٰ اور مصابیح الدجیٰ سے حبت کرے کہ یہ لوگ ہدایت سے نکال کر گمراہی کی طرف ہرگز نہیں لے جاسکتے ہیں ۔( امالی شجری 1 ص 136 ، کنز العمال 11 ص 611 / 32960 ، مناقب ا بن شہر آشوب 1 ص 291)۔
850۔ رسول اکرم ! جو شخص میری جیسی حیات و موت کا خواہش مند ہے اور اس گلشن عدن میں داخلہ چاہتاہے جسے میرے پروردگار نے اپنے دست قدرت سے سجایاہے اس کا فرض ہے کے علی (ع) کو ولی تسلیم کرے اور ان کے دوستوں سے دوستی رکھے اور ان کے دشمنوں سے دشمنی رکھے اور اس کے بعد اوصیاء کے لئے سراپا تسلیم رہے کہ یہ سب میری عترت اور میرا گوشت اور خون ہیں، انھیں پروردگار نے میرا علم و فہم عنایت فرمایاہے اور میں اپنے پروردگار کی بارگاہ میں اس امت کی فریاد کروں گا جو ان کے فضل کی منکر اور ان سے میری رشتہ کی قطع کردینے والی ہے، خدا کی قسم یہ لوگ میرے فرزند کو قتل کریں گے اور انھیں میری شفاعت ہرگز نہیں مل سکتی ہے۔( کافی 1 ص 209 / 5 روایت ابان بن تعلب از اما م صادق (ع))۔ 851۔ رسول اکرم نے حضرت علی(ع) سے خطاب کرکے فرمایا کہ جو شخص پروردگار سے محفوظ و مامون، پاک و پاکیزہ اور ہول قیامت سے مطمئن ملاقات کرنا چاہتا ہے اس کا فرض ہے کہ تم سے محبت کرے اور تمھارے فرزند حسن (ع) و حسین (ع) ، علی (ع) بن الحسین (ع) ، محمد بن علی (ع) ، جعفر (ع) بن محمد(ع) ، موسی (ع) بن جعفر (ع) ، علی (ع) بن موسیٰ (ع) ، محمد (ع) بن علی (ع) ، علی(ع) ، حسن (ع) اور مہدی (ع) سے محبت کرے جو ان سب کا آخری ہوگا ( الغیبتہ طوسی (ر) ص 136 / 100 روایت عیسیٰ بن احمد بن احمد بن عیسیٰ بن المنصور العسکری (ع) ، مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 293 ، الصراط المستقیم 2 ص 151۔
852۔ ابن عباس نے رسول اکرم سے ائمہ کے بارے میں یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ ان کی ولایت میری ولایت ہے اور میری ولایت اللہ کی ولایت ہے، ان کی جنگ میری جنگ ہے اور میری جنگ خدا کی جنگ ہے، ان کی صلح میری صلح ہے اور میری صلح اللہ کی صلح ہے۔( کفایة الاثر ص 18)۔
853۔ رسول اکرم ۔ میری اور میرے اہلبیت (ع) کی ولایت جہنم سے امان کا وسیلہ ہے۔( امالی صدوق (ع) ص 383 / 8 ، بشارة المصطفیٰ ص 186 روایت ابن عباس (ع) )۔
854۔ رسول اکرم (ع) ۔ ان اقوام کو کیا ہوگیا ہے کہ ان کے سامنے آل ابراہیم کا ذکر آتاہے تو خوش ہوجاتے ہیں اور آل محمد کا ذکر آتاہے تو ان کے دل بھڑک جاتے ہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے اگر کوئی بندہ روز قیامت ستر انبیاء کے اعمال کے برابر اعمال لے کر آئے تو بھی خدا اس کے اعمال کو قبول نہیں کرے گا جب تک میری اورمیرے اہلبیت (ع) کی ولایت لے کر نہ آئے۔(امالی الطوسی (ر) ص 140 / 229 ، بشارة المصطفیٰ ص 81 ، 123 ، کشف الغمہ 2 /10 ، امالی مفیدہ (ر) 115/ 8)۔
855۔ امام علی (ع)! اہلبیت (ع) اساس دین اور عماد یقین ہیں ، انھیں کی طرف غالی پلٹ کر آتاہے اور انھیں سے پیچھے رہنے والا ملحق ہوتاہے، ان کے لئے حق ولایت کے خصوصیات ہیں اور انھیں میں پیغمبراکرم کی وراثت و وصیت ہے۔( نہج البلاغہ خطبہ نمبر 2)۔
856۔ امام علی (ع) ! لوگوں پر ہمارا حق ولایت بھی ہے اور حق اطاعت بھی اور ان کے لئے خدا کی طرف سے بہترین جزا بھی ہے۔( غرر الحکم 7628)۔
857۔ امام باقر (ع) ! اسلام کی بنیاد پانچ ستونوں پر قائم ہے، قیام نماز، ادائے زکوة ، صوم رمضان، حج بیت اللہ اور ولایت اہلبیت (ع) ۔( امالی طوسی (ر) ص 124 / 192 ، خصال 278 / 21 ، امالی مفید 353 / 4 بشارة المصطفیٰ ص 69 روایت ابوحمزہ الثمالی ، کافی 2 ص 18 ، تہذیب 4 ص 151۔
858۔ امام باقر (ع) پروردگار نے اہلبیت پیغمبر کو پاک و پاکیزہ قرار دیا ہے، ان کی محبت کا سوال کیا ہے اور ان میں پیغمبر کی ولایت کو جاری رکھاہے، انھیں امت میں پیغمبر کا محبوب اور وصی قرار دیاہے، لوگوں ! میرے بیان سے عبرت حاصل کرو، جہاں پروردگار نے اپنی ولایت، اطاعت ، مودت اور اپنے احکام کے علم واستنباط کو رکھاہے، اسے قبول کرلو اور اسی سے وابستہ رہوتاکہ نجات حاصل کرلو اور یہ روز قیامت تمھارے لئے حجت کا کام دیں، اور یاد رکھو کہ خدا تک کوئی ولایت ان کے بغیر نہیں پہنچ سکتی ہے اور جو ان سے وابستہ رہے گا پروردگار کا فرض ہے کہ اس کا احترام کرے اور اس پر عذاب نہ کرے اور جو اس کے بغیر وارد ہوگا خدا پر لازم ہوگا کہ اسے ذلیل کرے اور مبتلائے عذاب کردے (کافی 8 ص 120 / 92 روایت ابوحمزہ)۔
859۔ ابوحمزہ ! مجھ سے امام باقر (ع) نے فرمایا کہ حق کی عبادت وہی کرسکتاہے جو اس کی معرفت رکھتاہو ورنہ معرفت کے بغیر عبادت گمراہوں کی جیسی عبادت ہوگی میں نے عرض کی حضور معرفت خدا کا مقصد کیا ہے! فرمایا خدا اور اس کے رسول کی تصدیق اور علی (ع) کی محبت اور اقتدا اور ائمہ ہدی کی اطاعت اور ان کے دشمنوں سے برائت، یہ تمام باتیں جمع ہوجائیں تو معرفت خدا کا حق ادا ہوتاہے۔( کاف 1 ص 180 /1 ، تفسیر عیاشی 2 ص 116 / 155)۔
860۔ امام باقر (ع) ! جو شخص آل محمد کی ولایت میں داخل ہوگیا گویا جنت میں داخل ہوگیا اور جو ان کے دشمن کی ولایت میں داخل ہوگیا گویا جہنم میں داخل ہوگیا (تفسیر عیاشی 2 ص 160 / 66)۔
861۔ محمد بن علی الحلبی نے امام صادق (ع) سے ” رب اغفرلی ولوالدی ومن دخل بیتی آمنا “ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ اس گھر سے مراد ولایت ہے کہ جو اس میں داخل ہوگیا گویا انبیاء کے گھر میں داخل ہوگیا ، اور آیت تطہیر سے مراد بھی ائمہ طاہرین اور ان کی ولایت ہے کہ اس میں داخل ہونے والا گویا پیغمبر کے گھر میں داخل ہوگیا ۔( کافی 1 ص 423 / 54)۔
862۔امام صادق (ع)! پروردگار نے ہماری ولایت کو قرآن کا مرکز اور تمام کتب سماویہ کا محور قرار دیاہے جس پر تمام محکمات گردش کرتے ہیں اور تمام کتب نے اسی کا اراشہ دیاہے اور اسی سے ایمان واضح ہوتاہے، رسول اکرم نے قرآن اور آل محمد دونوں کی اقتدا کا حکم دیا تھا جب آخری خطبہ میں ارشاد فرمایا تھا کہ میں تم میں ثقلین کو چھوڑے جاتاہوں جن میں ثقل اکبر کتاب خدا ہے اور ثقل اصغر میری عترت اور میرے اہلبیت (ع) ہیں ، دیکھو ان دونوں کے ذیل میں میری حفاظت کرنا کہ جب تک ان سے متمسک رہوگے گمراہ نہیں ہوسکتے ہو-( تفسیر عیاشی روایت مسعدہ بن صدقہ)۔
863۔ امام کاظم (ع)! جو ہماری ولایت کی طرف قدم آگے بڑھائے گا وہ جہنم سے دور ہوجائے گا اور جو اس سے دور ہوجائے گا وہ جہنم کی طرف بڑھ جائیگا۔ ( کافی 1 ص 434 / 91 روایت محمد بن الفضیل ، مجمع البیان 10 / 591)۔
864۔ عبدالسلام بن صالح ہروی ! میں امام رضا (ع) کے ہمراہ تھا جب آپ نیشاپور میں سواری پر سوار وارد ہوئے اور تمام علماء نیشاپور آپ کی زیارت کیلئے جمع ہوگئے اور لجام پکڑ کر سواری کو روک لیا اور گذارش کی کہ فرزند رسول ! آپ کو آپ کے آباء طاہرین کا واسطہ ، ان کی کوئی حدیث بیان فرمائیں۔
آپ نے محمل سے سر نکالا اور فرمایا مجھ سے میرے پدر بزرگوار موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) نے ، اپنے والد جعفر (ع) بن محمد (ع) ان کے والد محمد (ع) بن علی (ع) ان کے والد علی (ع) بن الحسین (ع) ان کے والد حسین (ع) سردار جوانان اہل جنت ، ان کے والد امیر المومنین (ع) کے حوالہ سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل فرمایاہے کہ مجھے خدائے قدوس جل جلالہ کی طرف سے جبریل نے خبردی ہے کہ ” میں خدائے وحدہ لا شریک ہوں، میرے بندو! میری عبادت کرو اور جو شخص بھی مجھ سے لاالہ الا اللہ کے اخلاص کے ساتھ ملاقات کرے گا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوجائے گا اور جو میرے قلعہ میں داخل ہوجائیگا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہوجائے گا۔
لوگوں نے عرض کی یابن رسول اللہ ! یہ لا الہ الا اللہ کا اخلاص کیاہے؟ فرمایا خدا و رسول کی اطاعت اور اہلبیت (ع) کی ولایت ، امالی الطوسی (ر) ص589 / 1220 ، تنبیہ الخواطر 2 ص 75 روایت ابوالصلت عبدالسلام )۔
865۔ امام رضا (ع) ! دین کا کمال ہم اہلبیت (ع) کی ولایت اور ہمارے دشنوں سے برائت ہے۔( مستطرفات السرائر 149 / 3)۔
886۔ امام ہادی (ع) ! ( زیارت جامعہ ) اے اہلبیت (ع) زمین تمھارے نور سے روشن ہوئی ہے اور کامیاب لو گ تمھاری ولایت کے طفیل کا میاب ہوئے ہیں ، تمھارے ہی ذریعہ رضاء الہی کا راستہ طے ہوتاہے اور تمھاری ولایت کے منکر ہی کے لئے رحمان کا غضب ہے۔( تہذیب 6 ص 100 / 177)۔

4۔ تقدیم
867۔ رسول اکرم ! ایہا الناس میں تم سے آگے آگے جارہاہوں اور تم میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو، یاد رکھو کہ میں تم سے وہاں ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو، مجھے خدائے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ مجھ سے ملاقات کریں اور میں نے ہی اس بات کی دعا کی تھی جو خدا نے مجھے عنایت کردی یاد رکھو کہ میں نے تمھارے درمیان کتاب خدا اور اپنے عترت و اہلبیت (ع) کو چھوڑا ہے لہذا ان سے آگے نہ بڑھ جانا کہ تفرقہ پیدا ہوجائے اور نہ پیچھے رہ جانا کہ ہلاک ہوجاؤ۔ انھیں پڑھانے کی کوشش نہ کرنا کہ یہ تم سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں (ارشاد 1 ص 180 ، تفسیر عیاشی 1 ص 4 / 3)۔
868۔ رسول اکرم ! ایہا الناس ، میں نے تم پر واضح کردیا ہے کہ میرے بعد تمھاری پنا ہگاہ ، تمھارا امام ، راہنما ، ہادی میرا بھائی علی (ع) بن ابی طالب (ع) ہے، وہ تمھارے درمیان ایسا ہی ہے جیسا کہ میں ہوں، اپنے دین میں اس پر اعتماد کرو اور تمام معاملات میں اس کی اطاعت کرو، اس کے پاس وہ تمام علوم ہیں جو خدا نے مجھے دیئے ہیں اور میری حکمت بھی ہے۔ اس سے دریافت کرو، سیکھو اور اس کے بعد اوصیاء سے تعلیم حاصل کرنا اور خبردار انھیں تعلیم مت دینا اور ان سے آگے نہ نکل جانا اور پیچھے بھی نہ رہ جانا کہ یہ سب حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے، نہ یہ حق سے جدا ہوں گے اور نہ حق ان سے جدا ہونے والا ہے۔( کمال الدین 277 / 25 کتاب سلیم بن قیس 2 ص 646)۔
869۔ رسول اکرم ! پروردگار نے ہر نبی کی ذریت کو اس کے صلب میں رکھاہے اور میری ذریت کو علی (ع) کے صلب میں قرار دیا ہے لہذا انھیں آگے رکھنا اور ان سے آگے نہ بڑھ جانا کہ یہ بچپنے میں سب سے زیادہ ہوشمند اور بڑے ہونے کے بعد سب سے زیادہ صاحب علم ہیں، ان کا اتباع کرو کہ یہ نہ تمھیں گمراہی میں داخل کریں گے اور نہ ہدایت سے باہر لے جائیں گے۔(فضائل ابن شاذان ص 130 عن الصادق (ع) )۔
870۔ عثمان حنیف ! میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے اہلبیت (ع) زمین والوں کے لئے ستاروں کی طرح ہیں لہذا ان سے آگے نہ نکل جانا اور انھیں ہمیشہ آگے رکھنا کہ یہ میرے بعد حاکم ہیں۔
ایک شخص نے عرض کی کہ حضور یہ اہلبیت (ع) کون حضرات ہیں ؟ فرمایا علی (ع) اور ان کی پاکیزہ اولاد ۔( احتجاج 1 ص 198 /11 ،الیقین ص 341)۔
871۔ امام علی (ع) ۔ رسول اکرم کے فضائل بیان کرتے ہیں“ پروردگار نے انھیں بھیجاتا کہ اس کے امر کی وضاحت کریں، اس کے ذکر کا اظہار کرتے رہیں تو انھوں نے نہایت امانتداری سے پیغام کو پہنچا دیا اور کمال ہدایت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوگئے اور ہمارے درمیان ایک پرچم حق چھوڑ گئے کہ جو اس سے آگے نکل جائے وہ دین سے نکل گیا اور جو پیچھے رہ جائے وہ ہلاک ہوگیا اور جو وابستہ ہوجائے وہی ان سے ملحق ہوگیا۔( نہج البلاغہ خطبہ 100)۔
872۔ امام علی (ع) ! جب ابوبکر نے خطبہ پڑھا تو ابی بن کعب نے کھڑے ہوکر یہ سوال کرلیا کہ کیا تمھیں نہیں معلوم ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا تھا کہ میں تمھیں اپنے اہلبیت (ع) کے بارے میں خیر کی وصیت کرتاہوں ، لہذا انھیں آگے رکھنا اور ان سے آگے نہ نکل جانا اور انھیں حاکم بناکے رکھنا خود ان کے حاکم نہ بن جانا۔
یہ منظر دیکھ کر انصار کی ایک جماعت کھڑی ہوگئی اور کہنے لگے بیٹھ جائیے، آپ نے جو سنا اسے پہنچا دیا اور اپنے عہد کو پورا کردیا۔
( یہ واقعہ ماہ رمضان کی پہلی تاریخ روز جمعہ کا ہے) احتجاج 1 ص 297 / 52 روایت محمد و یحیئ فرزندان عبداللہ بن الحسن ، الیقین ص 448 باب 170 روایت یحیئ بن عبداللہ بن الحسن )۔
873۔ اما م صادق (ع)! جس نے آل محمد سے محبت کی اور انھیں تمام لوگوں پر قرابت رسول اکرم کی بنیاد پر مقدم رکھا اس کا شمار بھی آل محمد کے ساتھ ہوجائے گا کہ اس نے آل محمد سے محبت کی ہے۔ نہ یہ کہ واقعاً آل محمد ہوگا، بلکہ ان میں شمار ہوجائے گا کہ ان سے محبت کی ہے اور ان کا اتباع کیا ہے، جس طرح قرآن مجید نے اعلان کیا ہے کہ ” جو ان سے محبت کرے گا وہ انھیں میں شمار ہوگا “ (مائدہ 51)۔
دوسرے مقام پر حضرات ابراہیم (ع) کا ارشاد نقل کیا ہے ” جو میرا اتباع کرے گا وہ مجھ سے ہوگا اور جو میری نافرمانی کرے گا ، خدایا تو غفور و رحیم ہے۔سورہ ابراہیم 36 (تفسیر عیاشی 2 ص 231 / 34 روایت ابوعمرو الزبیری)۔

5۔ اقتداء
874۔ رسول اکرم! جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ میری طرح کی حیات و موت نصیب ہو اور جنت عدن میں ساکن ہوجائے جسے میرے پروردگار نے تیار کیا ہے تو اسے چاہیئے کہ میرے بعد علی (ع) اور ان کے چاہنے والوں سے محبت کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے کہ یہ سب میری عترت ہیں اور میری ہی طینت سے پیدا ہوئے ہیں انھیں مالک کی طرف سے علم و فہم عطا ہوا ہے اور ویل ہے میری امت کے ان افراد کے لئے جو ان کے فضل کا انکار کریں اور ان کے ساتھ میرے رشتہ قرابت کا خیال نہ رکھیں، اللہ ان لوگوں کو میری شفاعت نصیب نہ کرے ۔( حلیة الاولیاء 1 ص 86 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 ص 95 / 596 ، فرائد السمطین 1 ص 53 / 18 ، کنز العمال 12 ص 103 / 34198 ، امالی طوسی (ر) ص 578 / 1195 ، روایت ابی ذر ، مناقب ابن شہر آشوب 1 ص 292 ، بصائر الدرجات ص 48 ۔ 52 روایت سعد بن طریف)۔
875۔رسول اکرم ! جسے یہ بات پسند ہے کہ انبیاء کی طرح زندہ رہے اور شہداء کی طرح مرجائے اور اس گلزار عدن میں قیام کرے جسے خدائے رحمان نے سجایا ہے تو اسے چاہئے کہ علی (ع) اور ان کے دوستوں سے محبت کرے اور ان کے بعد ائمہ کی اقتدا کرے کہ یہ سب میری عترت ہیں اور میری ہی طینت سے پیدا ہوئے ہیں ۔( خدایا انھیں میرے علم و فہم سے بہرہ ور فرما۔
اور ویل ہے میری امت کے ان افراد کے لئے جو ان کی مخالفت کریں۔ خدا انھیں میری شفاعت نصیب نہ کرے ۔( کافی 1 ص 208 /3 از سعد بن طریف)۔
876۔ رسول اکرم میرے اہلبیت (ع) وہ ہیں جو حق و باطل میں امتیاز قائم کرتے ہیں اور یہی وہ ائمہ ہیں جن کی اقتداء کی جاتی ہے۔(خصال 464 / 4 ، احتجاج 1 ص 197 / 8 روایت خزیمہ بن ثابت ذو الشہادتین ، الیقین ص 341 ، اثبات الہداة 1 ص 730 / 247 روایت ابی بن کعب)۔
877۔ رسول اکرم ، سکون ، آرام ، رحمت ، نصرت، سہولت، سرمایہ ، رضا، مسرت ، نجات، کامیابی ، قرب الہی ، محبت خدا و رسول ان افراد کے لئے ہے جو علی (ع) سے محبت کریں اور ان کے بعد اوصیاء کی اقتدا کریں، (تفسیر عیاشی 1 ص 169 / 32 ، المحاسن 1 ص 235 ، 432 ، روایت ابوکلدہ عن الباقر (ع))۔
878۔ رسول اکرم ، خوشا بحال ان کا جو ہمارے قائم کو درک کرلیں اور ان کے قیام سے پہلے ہی ان کی اقتداء کرلیں، ان کے اور ان سے پہلے کے ائمہ ہدیٰ کے نقش قدم پر چلیں اور خدا کی بارگاہ میں ان کے دشمنوں سے برائت کریں، یہی افراد میں رفقا ہیں اور میری امت میں میرے نزدیک سب سے زیادہ محترم ہیں، کمال الدین ص 286 / 3 روایت سدیر عن الصادق (ع) الغیبتہ طوسی (ر) ص 456 / 466 روایت رفاعہ بن موسیٰ و معاویہ بن وہب عن الصادق (ع) ، الخرائج ص 1148 / 57)۔
879۔جابر بن عبداللہ انصاری ! ایک دن رسول اکرم نے نماز صبح پڑھائی اور پھر ہماری طرف رخ کرکے یہ ارشاد فرمانا شروع کیا ، ایہا الناس اگر آفتاب غائب ہوجائے تو چاند سے وابستہ ہوجانا اور اگر وہ بھی غائب ہوجائے تو دونوں ستاروں سے وابستہ رہنا۔
جس کے بعد ہم نے ، ابوایوب انصاری اور انس نے عرض کی کہ حضور یہ آفتاب کون ہے ؟ فرمایا : میں
اس کے بعد حضور نے مثال بیان کرنا شروع کی کہ پروردگار نے ہمارے گھرانے کو خلق کرکے ستاروں کی مانند قرار دیدیا ہے کہ جب ایک ستارہ غائب ہوتاہے تو دوسرا طالع ہوجاتاہے، میں آفتاب کے مانند ہوں لہذا جب میں نہ رہ جاؤں تو ماہتاب سے تمسک کرنا۔
ہم نے عرض کی کہ حضور یہ ماہتاب کون ہے ؟ فرمایا میرا بھائی ، وصی ، وزیر ، میرے قرض کا ادا کرنے والا، میری اولد کا باپ ، میرے اہل میں میرا جانشین علی (ع) بن ابی طالب (ع) ! ہم نے عرض کی کہ پھر یہ دوستارے کون ہیں ؟ فرمایا حسن (ع) و حسین (ع) اس کے بعد ذرا توقف کرکے فرمایا کہ اور فاطمہ (ع) بمنزلہ زہرہ ہے اور دیکھو میرے عترت و اہلبیت (ع) قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے، یہ دونوں اس وقت تک جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر وارد نہ ہوجائیں ۔( امالی طوسی (ر) 516 / 1131)۔
880۔ امام رضا (ع) ! جسے یہ بات پسند ہو کہ خدا کے جلوہ کو بے حجاب دیکھتے اور خدا بھی اس کی طرف بے حجاب نگاہ رحمت کرے اس چاہئے کہ آل محمد سے محبت کرے اور ان کے دشمنوں سے برات کرے ، ان میں کہ ائمہ کی اقتدا کرے کہ ایسے افراد کی طرف خدا روز قیامت براہ راست نگاہ رحمت کرے گا اور ایسے لوگ اس کے جلوہ کو بلا حجاب دیکھیں گے۔( محاسن 1 ص 133 / 165 روایت بکر بن صالح)۔

6۔ اکرام و احترام
” یہ نور خدا ان گھروں میں ہے جن کے احترام کا حکم دیا گیاہے اور ان میں صبح و شام ذکر خدا ہوتارہتاہے۔( نور۔آیت نمبر 36)۔
881۔انس بن مالک و بریدہ ! رسول اکرم نے آیت مذکورہ کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ !یہ کونسے گھر ہیں ؟ فرمایا یہ انبیاء کے گھر ہیں تو ابوبکر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ حضور کیا یہ علی (ع) و فاطمہ (ع) کا گھر بھی انھیں میں شامل ہے؟ فرمایا بیشک ، ان گھروں میں سب سے افضل و برتر ہے۔( درمنثور 6 ص 203 نقل از ابن مردویہ ، شواہد التنزیل 1ص 534 / 568 ، مجمع البیان 7 ص 227 ، العمدہ ص 291 / 478)۔
882۔رسول اکرم ۔ چار قسم کے افراد ہیں جن کی شفاعت میں روز قیامت کروں گا، میری ذریت کے احترام کرنے والے، ان کے ضروریات کوپورا کرنے والے، وقت ضرورت ان کے معاملات میں دوڑ دھوپ کرنے والے اور ان سے قلب و زبان سے محبت کرنے والے۔( کنز العمال 12 ص 100 / 34180 نقل از دیلمی ، امالی طوسی (ر) ص 366 / 779 ، روایت علی بن علی بن رزین برادر دعبل خزاعی عن الرضا (ع) ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 254 / 2 روایت دعبل 2 ص 25 / 4 روایت داؤد بن سلیمان و احمد بن عبداللہ الہروی، بشارة المصطفیٰ ص 36 ، فرائد السمطین 2 ص 277 / 541 روایت احمد بن عامر الطائی )۔
883۔ رسول اکرم ، ایہا النّاس ! میری زندگی میں اور میرے بعد میرے اہلبیت (ع) کا احترام کرنا، ان کی بزرگی اور فضیلت کا اقرار رکھنا، ( کتاب سلیم2 ص 687 ، احقاق الحق 5 ص 42 نقل از درر بحر المناقب روایت ابوذر و مقداد و سلمان عن علی (ع) )۔
884۔ امام حسن (ع) ! رسول اکرم نے انصار کے پاس ایک شخص کو بھیجکر سب کو طلب کیا اور جب آگئے تو فرمایا اے گروہ انصار ! کیا میں تمھیں ایسی شے کا پتہ بتاؤں جس سے متمسک رہو تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو ؟ لوگوں نے عرض کی بیشک، فرمایا یہ علی (ع) ہیں، ان سے محبت کرو اور میری کرامت کی بناء پر ان کا احترام کرو کہ جبریل نے مجھے یہ حکم پہنچا یاہے کہ میں پروردگار کی طرف سے اس حقیقت کا اعلان کردوں ۔( المعجم الکبیر 3 ص 88 / 2749، حلیة الاولیاء 1 ص 63 روایت ابن ابی لیلیٰ ، امالی طوسی (ر) ص 223 / 386 ، بشارة المصطفیٰ ص 109 روایت سلمان فارسی )۔
885۔ ابن عباس ۔ رسول اکرم منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کے اجتماع میں خطبہ ارشاد فرمایا کہ ایہا الناس ، تم سب روز قیامت جمع کئے جاؤگے اور تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کیا جائے گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہو، دیکھو یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں جس نے ان کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے ان پر ظلم کیا اس نے مجھ پر ظلم کیا اور جس نے انھیں ذلیل کیا اس نے مجھے ذلیل کیا اور جس نے ان کی عزت کی اس نے میری عزت کی اور جس نے ان کا احترام کیااس نے میرا احترام کیا اور جس نے ان کی مدد کی اس نے میری مدد کی اور جس نے انھیں چھوڑ دیا اس نے مجھے چھوڑ دیا۔( امالی صدوق (ر) 62 / 11 ، التحصین ص 599 ، مشارق انوار الیقین ص 53)۔
886۔ رسول اکرم ! روز قیامت خدا کی بارگاہ میں حاضر ہونے والی امتوں میں میری امت سے بہتر کوئی امت نہ ہوگی اور میرے اہلبیت (ع) سے بہتر کسی کے اہل بیت نہ ہوں گے لہذا حذار! ان کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہنا (جامع الاحادیث ص 261 روایت ابن عباس)۔
887۔ رسول اکرم ! پروردگار کی طرف سے تین محترم اشیاء ہیں ، جو ان کو محفوظ رکھے گا خدا اس کے امور دین و دنیا کی حفاظت کرے گا اور جو انھیں محفوظ نہ رکھے گا خدا اس کا تحفظ نہ کرے گا، حرمت اسلام ، میری حرمت اور میری عترت کی حرمت ۔( خصال ص 146 / 173 ، روایت ابوسعید خدری روضة الواعظین ص 297 ، المعجم الکبیر 3 ص 126 / 2881 ، المعجم الاوسط 1 ص 72 / 203 ، مقتل الحسین خوارزمی 2 ص 97 ، احقاق الحق 9ص 511 18 ص 442۔
888۔ امام باقر (ع) ! رسول اکرم نے منی میں اصحاب کو جمع کرکے فرمایا، ایہا الناس میں تمھارے درمیان تمام محترم اشیاء کو چھوڑے جارہاہوں، کتاب خدا ، میری عترت اور کعبہ جو بیت الحرام ہے۔( بصائر الدرجات ص 413/3 روایت جابر ، مختصر بصائر الدرجات ص 90 روایت جابر بن یزید الجعفی)۔
889۔ امام صادق (ع) ! پروردگار کے لئے اس کے شہروں میں پانچ محترم اشیاء ہیں، حرمت رسول اکرم ، حرمت آل رسول اکرم ، حرمت کتاب خدا ، حرمت کعبہ اور حرمت مومن ۔( کافی 8ص 107 / 82 روایت علی بن شجرہ)۔
890۔ امام صادق (ع) پروردگار کے لئے تین حرمتیں بے مثل و بے نظیر ہیں ، کتاب خدا جو سراپا حکمت و نور ہے ، خانہ خدا جو قبلہ خاص و عام ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی طرف رخ کرنا قبول نہیں ہے اور عترت پیغمبر اسلام ( امالی صدوق (ر) ص 339 / 13 ، معانی الاخبار 117 / 1 روایت عبداللہ بن سنان ۔ خصال ص 146 / 174 روایت ابن عباس )۔

7۔ خمس
” یاد رکھو کہ تم نے جو بھی فائدہ حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصّہ اللہ ، رسول ، قرابتداران رسول ، ایتام ، مساکین اور مسافران غربت زدہ کے لئے ہے“۔( انفال ص 41)۔
891۔ ابن الدیلمی ! امام زین العابدین (ع) نے ایک مرد شامی سے فرمایا کہ کیا تو نے سورہٴ انفال کی یہ آیت پڑھی ہے؟ اس نے کہا یقینا پڑھی ہے مگر کیا یہ قرابتدار آپ ہی ہیں ؟ فرمایا بیشک ۔( تفسیر طبری 6/10 / 5)۔
892۔ منہال بن عمرو ! میں نے عبداللہ بن محمد بن علی اور علی (ع) بن الحسین (ع) سے خمس کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ ہمارا حق ہے تو میں نے علی (ع) سے کہا کہ پروردگار تو ایتام و مساکین اور مسافروں کی بات کرتاہے … فرمایا ا س سے مراد ہمارے ہی ایتام و مساکین ہیں ۔( تفسیر طبری 5 ۔10/ 8)۔
893۔ امام باقر (ع) ، آیت خمس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ذوی القربیٰ سے مراد قرابتداران رسول ہیں اور خمس اللہ ، رسول اور ہم اہلبیت (ع) کے لئے ہے، (کافی 1 ص 529 / 2 روایت محمد بن مسلم )۔
894۔ امام کاظم (ع) ! پروردگار نے یہ خمس صرف اولاد رسول کے ایتام و مساکین کے لئے رکھاہے نہ کہ عام ایتام و مساکین کے لئے اور یہ صدقات کے بدلے میں ہے تا کہ انھیں قرابت رسول اور کرامت الہی کی بنیاد پر لوگوں کے ہاتھوں کے میل سے پاک رکھے اور انھیں یہ حق اس لئے عنایت فرمایاہے کہ اس طرح انھیں دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے اور ذلت و رسوائی کے مقامات سے لوگ رکھے۔ (کافی 1 ص 540 /4 روایت حماد بن عیسیٰ )۔

8۔ حسن سلوک
895۔ رسول اکرم ! جو ہمارے اہلبیت (ع) میں سے کسی کے ساتھ بھی کوئی اچھا برتاؤ کرے گا میں روز قیامت اس کا بدلہ ضرور دوں گا۔ (کافی 4 ص 60 / 8) تہذیب 4 ص 110 / 312 روایت عیسیٰ بن عبداللہ عن الصادق (ع) ، الفقیہ 2 ص 65 / 1725 ، ذخائر العقبئ ص 19 ، ذخائر العقبئ ص 19 ، کنز العمال 12 ص 95 / 34152 ، الجامع الصغیر 2 ص 619 / 8821 از ابن عساکر)۔
896۔ رسول اکرم ! جو شخص بھی مجھ سے ارتباط چاہتاہے اور چاہتاہے کہ اس کا کوئی حق میرے ذمہ رہے اور میں روز قیامت اس کی شفاعت کرسکوں اس کا فرض ہے کہ میرے اہلبیت (ع) سے رابطہ رکھے اور انھیں خوش کرتارہے۔( امالی طوسی (ر) ص 424 / 947، امالی صدوق (ر) ص 310 /5 روایت ابان بن تغلب ، کشف الغمہ 2 ص 25 ، روضة الواعظین ص 300 ، ینابیع المودة 2 ص 379 / 75 ، احقاق الحق 9ص 424 / 31 ۔18 ص 475 / 52)۔
897۔ رسول اکرم ! ائمہ اولاد علی (ع) کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی ان میں سے کسی ایک پر ظلم کرے گا وہ میرا ظالم ہوگا اور جو ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے گا اس نے گویا میرے ساتھ بہترین سلوک کیا ۔( کمال الدین ص 413 / 13 روایت محمدبن الفضیل)۔
898۔ امام صادق (ع) ! اپنے اموال میں آل محمد کے ساتھ حسن سلوک کو نظر انداز مت کرو ، اگر غنی ہو تو بقدر دولت اور اگر فقیر ہو تو بامکان فقیری ، اس لئے کہ جو شخص بھی یہ چاہتاہے کہ پروردگار اس کی اہم ترین حاجت کو پورا کردے اس کا فرض ہے کہ آل محمد اور ان کے شیعوں کے ساتھ بہترین برتاؤ کرے چاہے اسے خود اپنے مال کی کسی قدر ضرورت کیوں نہ ہو۔( بشارة المصطفیٰ ص 6 روایت عمران بن معقل)۔
899۔ امام صادق (ع)! جو ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہ کرسکے اسے چاہئے کہ ہمارے نیک کردار دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے، پروردگار اسے ہمارے ساتھ سلوک کا ثواب عنایت فرما دے گا اور اسی طرح جو ہماری زیارت نہ کرسکے وہ ہمارے چاہنے والوں کی زیارت کرے ، پروردگار اسے ہماری زیارت کا ثواب عنایت کردے گا ۔( ثواب الاعمال ص 124 / 1 روایت احمد بن محمد بن عیسیٰ ، الفقیہ 2 ص 73 / 1765 ، کامل الزیارات ص 219 روایت عمرو بن عثمان عن الرضا (ع) )۔
900۔ عمر بن مریم ! میں نے امام صادق (ع) سے آیت ” الذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل “ کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ یہ صلہٴ رحم کے بارے میں ہے اور اس کی آخری تاویل تمھارا برتاؤ ہمارے ساتھ ہے۔( تفسیر عیاشی 2 ص 208 / 30)۔

9۔ صلوات
901۔ ابوسعید خدری ! ہم نے رسول اکرم سے گذارش کی کہ تسلیم تو معلوم ہے یہ صلوات کا طریقہ کیاہے؟ تو فرمایا کہ اس طرح کہو ” خدایا اپنے بندہ اور رسول محمد پر اس طرح رحمت نازل کرنا جس طرح آل ابراہیم پر نازل کی ہے اور انھیں اس طرح برکت دینا جس طرح ابراہیم (ع) کو دی ہے ۔( صحیح بخاری 4 ص 1802 / 4520 ، صحیح مسلم 1 ص 305 / 405 ، سنن دارمی 1ص 330 / 1317 سنن ابی داؤد 1 ص 257 / 978 ، سنن نسائی 3 ص 49)۔
902۔ عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ ! مجھ سے کعب بن عجرہ نے ملاقات کے دوران بتایا کہ میں تمھیں ایک بہترین تحفہ دینا چاہتاہوں جو رسول اکرم نے ہمیں دیا ہے میں نے کہا وہ کیا ؟ تو انھوں نے کہا کہ ہم نے حضور سے سوال کیا کہ آپ اہلبیت (ع) پر صلوات کا طریقہ کیا ہے، سلام کرنے کا طریقہ تو ہمیں معلوم ہے؟ فرمایا کہ اس طرح کہو” خدایا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما جس طرح ابراہیم (ع) اور آل ابراہیم (ع) پر نازل کی ہے کہ تو قابل حمد بھی ہے اور بزرگ بھی ہے، اور محمد و آل محمد کو برکت عنایت فرما جس طرح کہ ابراہیم (ع) اور آل ابراہیم (ع) کو دی ہے کہ تو حمید بھی ہے اور مجید بھی ہے۔( صحیح بخاری 3 ص 1233 / 3190 ، صحیح مسلم 1 ص 305 / 406 ، سنن ابی داؤد 1 ص 257 / 976 ، سنن دارمی 1 ص 329 / 1316 ، سنن نسائی 3 ص 45)۔
903۔امام صادق (ع) ! میرے والد بزرگوار نے ایک شخص کو خانہ کعبہ سے لپٹ کر یہ کہتے ہوئے سنا کہ خدایا محمد پر رحمت نازل فرما … تو فرمایا کہ ناقص صلوات مت پڑھ اور ہم پر ظلم نہ کر، پڑھناہے تو اس طرح پڑھ ” خدایا محمد او ران کے اہلبیت (ع) پر رحمت نازل فرما ۔( کافی 2 ص 495 / 21 ، عدة الداعی ص 149 روایت ابن اقداح)۔
904۔ رسول اکرم ! جو شخص بھی ایسی نماز پڑھے گا جس میں مجھ پر اور میرے اہلبیت (ع) پر صلوات نہ ہوگی تو اس کی نماز قابل قبول نہیں ہے۔(سنن دارقطنئ 1 ص 355 / 6 عوالی اللئالی 2 ص 40 / 101 ، احقاق الحق 18 ص 310 ، مستدرک الوسائل 5 ص 15 / 5256 روایت ابومسعود انصاری )۔
905۔ شافعی ! اے اہلبیت (ع) رسول آپ کی محبت پروردگار کی طرف سے فرض ہے اور اس کا حکم قرآن میں نازل ہوا ہے۔
آپ کی عظمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جو شخص بھی آپ پر صلوات نہ پڑھے اس کی نماز ، نماز نہیں ہے۔( الصواعق المحرقہ ص 148 ، نور الابصار 127)۔
واضح رہے کہ نور الابصار میں ” عظیم القدر“ کے بجائے ” عظیم الفخر “ نقل کیا گیاہے۔

10۔ ذکر فضائل
906۔ رسول اکرم جب بھی کوئی قوم ایک مقام پر جمع ہوکر محمد و آل محمد کے فضائل کا تذکرہ کرتی ہے تو آسمان سے ملائکہ نازل ہوکر اس گفتگو میں شامل ہوجاتے ہیں اور جب یہ لوگ منتشر ہوجاتے ہیں تب واپس جاتے ہیں اور دوسرے ملائکہ انھیں دیکھ کر کہتے ہیں کہ آج تو تمھارے بدن سے ایسی خوشبو آرہی ہے جو ہم نے کبھی نہیں دیکھی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسی قوم کے پاس تھے جو محمد و آل محمد کے فضائل کا ذکر کررہی تھی اور ان لوگوں نے ہمیں یہ خوشبو عنایت کی ہے۔
تو دوسرے ملائکہ خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں بھی وہاں لے چلو اور وہ کہتے ہیں کہ اب تو مجلس ختم ہوچکی ، تو گزارش کرتے ہیں کہ اس چگہ پر لے چلو جہاں یہ مجلس تھی۔( احقاق الحق 18 ص 522 ، ینابیع المودة 2ص 271 / 773 نقل از مودة القربیٰ ، بحار 38 ص 199 / 38)۔
907۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کا ذکر جملہ امراض و اسقام اور وسوسہ قلب کا علاج ہے۔ ( خصال ص 625 /10 روایت ابوبصیر و محمد بن مسلم عن الصادق (ع) ، تفسیر فرات ص 367 /499 روایت عبید بن کثیر )۔
908۔ امام باقر (ع) ! ہمارا ذکر اللہ کا ذکر ہے اور ہمارے دشمنوں کا ذکر شیطان کا ذکر ہے، ( کافی 2 ص 496/2 روایت ابوبصیر عن الصادق (ع) )۔
909۔ امام صادق (ع) ! ہمارا ذکر اللہ کے ذکر کا ایک حصہ ہے لہذا جب ہمارا ذکر ہوگا تو گویا خدا کا ذکر ہوگا اور جب ہمارے دشمن کا ذکر ہوگا تو گویا شیطان کا ذکر ہوگا ۔( کافی 2 ص 186 /1 روایت علی بن ابی حمزہ )۔
910۔ معتب غلام امام نے امام جعفر صادق (ع) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے داؤد بن سرحان سے فرمایا، داؤد ! ہمارے چاہنے والوں تک ہمارا سلام پہنچا دینا۔ اور کہنا کہ اللہ اس بندہ پر رحم کرتاہے جو دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ہمارے امر کا ذکر کرتاہے اور ان کا تیسرا فرشتہ ہوتاہے جو ان دونوں کے لئے استغفار کرتاہے اور جب بھی دو افراد ہمارے ذکر کے لئے جمع ہوتے ہیں تو پروردگار ملائکہ پر مباہات کرتاہے لہذا جب بھی تمھارا اجتماع ہو تو ہمارا ذکر کرنا کہ اس اجتماع اور اس مذاکرہ میں ہمارے امر کا احیاء ہوتاہے اور ہمارے بعد بہترین افراد وہی ہیں جو ہمارے امر کا ذکر کریں اور لوگوں کو ہمارے ذکر کی دعوت دیں۔( امالی طوسی (ر) ص 224 / 390 ، بشارة المصطفیٰ ص 110)۔
911۔ امام صادق (ع) ! آسمان کے ملائکہ جب ان ایک یا دو یا تین افراد پر نگاہ کرتے ہیں جو آل محمد کے فضائل کا ذکر کرتے ہیں تو آپس میں کہتے ہیں ذرا دیکھو یہ اپنی اس قدر قلت اور دشمنوں کی اس قدر کثرت کے باوجود آل محمد کے فضائل کا ذکر کررہے ہیں تو دوسرا گروہ کہتاہے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم وہ جسے چاہتاہے عنایت فرمادیتاہے اور وہ صاحب فضل عظیم ہے۔( کافی 8 ص 334/ 521 ، 2 ص 187 /4 ، تاویل الآیات الظاہرة ص 667)۔

11۔ ذکر مصائب
912۔ احمد بن یحییٰ الاودی نے اپنے اسناد کے ساتھ منذر کے واسطہ سے امام حسین (ع) سے نقل کیا ہے کہ جس بندہ کی آنکھ سے ہمارے غم میں ایک قطرہٴ اشک بھی گرجاتاہے پروردگارا اسے جنت میں عظیم منزل عنایت فرماتاہے” … اور اس کے بعد امام حسین (ع) کو خواب میں دیکھ کر عرض کیا کہ مجھ سے مخول بن ابراہیم نے ربیع بن منذر نے اپنے والد کے حوالہ سے آپ کا یہ قول نقل کیا ہے تو کیا یہ صحیح ہے؟ تو فرمایا کہ بیشک صحیح ہے۔( امالی مفید ص 340 / 6 ، امالی طوسی (ر) ص 117 / 181 بشارة المصطفیٰ ص 62 ، کامل الزیارات ص 100)۔
913 ۔ الحسین بن ابی فاختہ ! میں اور ابوسلمہ السراج و یونس بن یعقوب و فضل بن یسار سب امام جعفر صادق (ع) کے پاس حاضر تھے تو میں نے عرض کی حضور میں آپ پر قربان ! میں لوگوں کے اجتماعات میں شرکت کرتاہوں اور آپ کو یاد کرتاہوں تو کیا کہا کروں ؟ تو فرمایا ۔ حسین ! جب ان کی مجالس میں شرکت کرو تود عا کرو کہ خدایا ہمیں آسانی اور سرور عنایت فرما، پروردگار تمھارے مقصد کو عطا کردے گا۔
پھر میں نے عرض کیا کہ اگر امام حسین (ع) کو یاد کروں تو کیا کہوں؟ فرمایا تین مرتبہ کہو ” صلی اللہ علیک یا اباعبداللہ “ا ے ابوعبداللہ ! خدا آپ پر رحمت نازل کرے … اس کے بعد فرمایا کہ شہادت امام حسین (ع) پر ساتوں آسمان ، ساتوں زمینیں اور ان کے درمیان کی تمام مخلوقات اور جنت و جہنم کی تمام مخلوقات نے گریہ کیا ہے، صرف تین مخلوقات نے گریہ نہیں کیاہے، میں نے عرض کیا وہ کون ہیں؟
فرمایا ، زمین بصرہ، دمشق ، اور آل الحکم بن ابی العاص ۔( امالی الطوسی (ع) ص 54 / 73)۔
واضح رہے کہ آل حکم کا تذکرہ علامت ہے کہ بصرہ اور دمشق سے مراد زمین بصرہ و دمشق ہے، اہل بصرہ و دمشق نہیں ہیں۔ (جوادی)
914۔امام صادق (ع)! جب بھی کسی آنکھ سے ایک آنسو اس غم میں نکل آتاہے کہ ہمارا خون بہایا گیا ہے یا حق چھینا گیاہے یا ہتک حرمت کی گئی ہے یا ہمارے کسی شیعہ پر ظلم کیا گیا ہے تو پروردگار اسے جنت میں مستقل قیام عنایت فرماتاہے۔( امالی طوسی (ر) ص 194 / 330 ، امالی مفید (ر) 175 / 5 روایت محمد بن ابی عمارہ کوفی)۔
915۔ بکر بن محمد ازدی امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت نے دریافت کیا کہ تم لوگ آپس میں بیٹھ کر گفتگو کرتے ہو ؟ میں نے عرض کی بیشک ! فرمایا میں ان مجالس کو دوست رکھتاہوں لہذا میرے امر کا احیاء کرو کہ اگر کوئی شخص ہمارا ذکر کرتاہے یا اس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جاتاہے اور اس کی آنکھ سے مکھی کے پر کے برابر آنسو نکل آتاہے تو پروردگار اس کے گناہوں کو معاف کردیتاہے چاہے سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔( ثواب الاعمال 223 / 1 ، بشارة المصطفیٰ 275 ، مستطرفات السرائر 125 ، المحاسن ! ص 136 / 174 ، کامل الزیارات ص 104 ، تفسیر قمی 2 ص 292)۔
916۔ امام صادق (ع) ! جس کے سامنے ہمارا ذکر کیا جائے اور اس کی آنکھ سے آنسو نکل آئیں تو اللہ اس کے چہرہ کو آتش جہنم پر حرام کردیتاہے۔(کامل الزیارات ص104)۔
917۔ ابان بن تغلب ! امام صادق (ع) فرماتے ہیں کہ جو ہماری مظلومیت سے رنجیدہ ہو اس کی سانس بھی تسبیح کا ثواب رکھتی ہے اور اس کا ہم و غم بھی عبادت کا درجہ رکھتاہے اور ہمارے راز کا محفوظ رکھنا ایک جہادِ راہِ خدا ہے“۔
اس کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کو سونے کے پانی سے لکھنا چاہئے، ( امالی طوسی (ر) ص 115 / 178 ، امالی مفید (ر) 338 / 2 ، بشارة المصطفیٰ ص 257 ، کافی 2 ص 226 / 16)۔
918۔ سمع بن عبدالملک ! مجھ سے امام صادق (ع) نے فرمایا کہ جس دن سے امیر المومنین (ع) کی شہادت ہوئی ہے، آسمان و زمین ہمارے غم میں رورہے ہیں اور ملائکہ کا گریہ اور ان کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو اس سے زیادہ ہیں اور جب بھی کوئی ملک یا انسان ہمارے حال پر مہربان ہوکر گریہ کرتاہے تو آنسو نکلنے سے پہلے ہی پروردگار اس کے حال پر مہربان ہوجاتاہے اور جب یہ آنسو رخسار پر جاری ہوجاتے ہیں تو ان کا مرتبہ یہ ہوتاہے کہ ایک قطرہ بھی جہنم میں گر جائے تو آگ سرد ہوجائے اور جس کا دل ہمارے غم میں دکھنے لگتاہے، پروردگار وقت مرگ ہماری زیارت سے وہ فرحت عنایت کرتاہے جس کا سلسلہ موت سے حوض کوثر تک برقرار رہتاہے۔( کامل الزیارات ص 101)۔
919۔ امام رضا (ع) ! جو ہماری مصیبت کو یاد کرکے ہمارے غم میں آنسو بہائے وہ روز قیامت ہمارے ساتھ ہمارے درجہ میں ہوگا اور جس کے سامنے ہماری مصیبت کا ذکر کیا جائے اور وہ گریہ کرے یا دوسروں کو رلائے اس کی آنکھ اس دن نہ روئے گی جس دن تمام آنکھیں گریہ کناں ہوں گی اور جو کسی ایسی مجلس میں بیٹھے جہاں ہمارے امر کا احیاء کیا جاتاہے اس کا دل اس دن مردہ نہ ہوگا جس دن تمام دل مردہ ہوجائیں گے۔( امالی صدوق (ر) ص 68 /4 روایت علی بن فضال ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 394 / 48 ، مکارم الاخلاق 2 ص 93 / 2663)۔
920۔ دعبل خزاعی ! میں امام علی بن موسی الرضا (ع) کی خدمت میں ایام غم میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ محزون و رنجیدہ بیٹھے ہیں اور اصحاب بھی آپ کے گرد اسی عالم میں ہیں حضرت نے مجھے آتے دیکھ کر استقبال فرمایا اور فرمایا کہ آؤ آؤ تم زبان اور ہاتھ سے ہماری مدد کرنے والے ہو، اس کے بعد مجھے اپنے پہلو میں بٹھاکر فرمایا کہ یہ دن ہم اہلبیت (ع) کے حزن و غم کے دن میں ، ہماری خواہش ہے کہ تم کوئی غم کا شعر سناؤ کہ آج کل بنئ امیہ ہمارے غم سے خوشی منارہے ہیں۔
دیکھو دعبل ! اگر کوئی شخص ہمارے غم میں روئے گا یا ایک آدمی کو بھی رلائے گا تو اس کے اجر کی ذمہ داری پروردگار پر ہوگی اور جس کی آنکھ سے ہمارے غم میں آنسو نکل آئیں گے خدا اسے ہمارے زمرہ میں محشور کرے گا اور جو ہمارے جد کے غم میں گریہ کرے گا خدا اس کے گناہوں کو یقیناً معاف کردے گا۔( بحار الانوار 45 ص 257 / 15)۔
921۔ ائمہ طاہرین (ع)! جو ہمارے غم میں روئے یا سو آدمیوں کو رلائے گا اس کے لئے جنت ہے، اور جو پچاس کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنت ہے اور جو تیس کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنت ہے اور جو بیس کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنّت ہے اور جو دس کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنّت ہے اور جو ایک کو رلائے گا اس کے لئے بھی جنت ہے اور جو حزن و غم طاری کرے گا اس کے لئے بھی جنّت ہے۔ (طہوف ص 86)۔
واضح رہے کہ ان روایات کا مقصد بے عملی کی ترویج نہیں ہے بلکہ گریہ کی تاثیر کا بیان ہے، اس کے بعد پروردگار ہر اچھے برے عمل کا حساب کرنے والا ہے۔( جوادی)