دین … اہلبیت (ع) کے نزدیک
530۔ ابوالجارود ! میں نے امام باقر (ع) سے عرض کیا ، فرزند رسول ۔! آپ کو تو معلوم ہے کہ میں آپ کا چاہنے والا ، صرف آپ سے وابستہ آپ کا غلام ہوں ؟ فرمایا ۔بیشک !
میں نے عرض کیا کہ مجھے ایک سوال کرنا ہے، امید ہے کہ آپ جواب عنایت فرمادیں گے ، اس لئے کہ میں نابیناہوں، بہت کم چل سکتاہوں اور بار بارآپ کی خدمت میں حاضر نہیں ہوسکتاہوں، فرمایا بتاؤ کیا کام ہے؟ میں نے عرض کی آپ اس دین سے باخبر کریں جس سے آپ اور آپ کے گھر والے اللہ کی اطاعت کرتے ہیں تا کہ ہم بھی اس کو اختیار کرسکیں۔
فرمایا کہ تم نے سوال بہت مختصر کیا ہے مگر بڑا عظیم سوال کیا ہے خیر میں تمھیں اپنے اور اپنے گھر والوں کے مکمل دین سے آگاہ کئے دیتاہوں دیکھو یہ دین ہے توحید الہی، رسالت رسول اللہ ان کے تمام لائے ہوئے احکام کا اقرار ہمارے اولیاء سے محبت ہمارے دشمنوں سے عداوت ، ہمارے امر کے سامنے سراپا تسلیم ہوجانا ، ہمارا قائم کا انتظار کرنا اور اس راہ میں احتیاط کے ساتھ کوشش کرنا ۔( کافی 1 ص 21 /10۔
531۔ ابوبصیر ! میں امام باقر (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ آپ سے سلام نے عرض کیا کہ خیثمہ بن ابی خیثمہ نے ہم سے بیان کیا ہے کہ انھوں نے آپ سے اسلام کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ جس نے بھی ہمارے قبلہ کا رخ کیا ، ہماری شہادت کے مطابق گواہی دی، ہماری عبادتوں جیسی عبادت کی ، ہمارے دوستوں سے حبت کی ، ہمارے دشمنوں سے نفرت کی وہ مسلمان ہے۔
فرمایا خیثمہ نے بالکل صحیح بیان کیا ہے… میں نے عرض کی اور ایمان کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ خدا پر ایمان، اس کی کتاب کی تصدیق اور ان کی نافرمانی نہ کرنا ہی ایمان ہے۔ فرمایا بیشک خیثمہ نے سچ بیان کیا ہے۔( کافی 2 ص 38 /5)۔
532۔ علی بن حمزہ نے ابوبصیر سے روایت کی ہے کہ میں نے ابوبصیر کو امام صادق (ع) سے سوال کرتے سنا کہ حضور میں آپ پر قربان، یہ تو فرمائیں کہ وہ دین کیا ہے جسے پروردگار نے اپنے بندوں پر فرض کیا ہے اور اس سے ناواقفیت کو معاف نہیں کیا ہے اور نہ اس کے علاوہ کوئی دین قبول کیاہے؟
فرمایا ، دوبارہ سوال کرو …انھوں نے دوبارہ سوال کو دہرایا تو فرمایا لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کی شہادت نماز کا قیام، زکٰوة کو ادائیگی، حج بیت اللہ استطاعت کے بعد ، ماہ رمضان کے روزہ۔
یہ کہہ کر آپ خاموش ہوگئے اور پھر دو مرتبہ فرمایا ولایت ، ولایت ( کافی 2 ص22 /11)۔
533۔ عمرو بن حریث 1 میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا جب آپ اپنے بھائی عبداللہ بن محمد کے گھر پر تھے، میں نے عرض کیا کہ میں آپ پر قربان ! یہاں کیوں تشریف لے آئے؟ فرمایا ذرا لوگوں سے دور سکون کے ساتھ رہنے کے لئے۔
میں نے عرض کی میں آپ پر قربان کیا میں اپنا دین آپ سے بیان کرسکتاہوں، فرمایا بیان کرو۔
میں نے کہا کہ میرا دین یہ ہے کہ میں لا الہ الا اللہ ، محمد رسول اللہ کلمہ پڑھتاہوں اور گواہی دیتاہوں کہ قیامت آنے والی ہے، اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے، اور پروردگار سب کو قبروں سے نکالے گا، اور یہ کہ نماز کا قیام، زکٰوة کی ادائیگی، ماہ رمضان کے روزے، حج بیت اللہ ، رسول اکرم کے بعد حضرت علی (ع) کی ولایت، ان کے بعد امام حسن (ع) ،امام حسین (ع) ، امام علی (ع) بن الحسین (ع) ، امام محمد (ع) بن علی (ع) اور پھر آپ کی ولایت ضروری ہے، آپ ہی حضرات ہمارے امام ہیں، اسی عقیدہ پر جینا ہے اور اسی پر مرناہے اور اسی کو لے کر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوناہے۔
فرمایا واللہ یہی دین میرا اور میرے آباء و اجداد کا ہے جسے ہم علی الاعلان اور پوشیدہ ہر منزل پر اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔( کافی 1 ص 23 /14)۔
534۔ معاذ بن مسلم ! میں اپنے بھائی عمر کو لے کر امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہو اور میں نے عرض کی کہ یہ میرا بھائی عمر ہے، یہ آپ کی زبان مبارک سے کچھ سننا چاہتاہے، فرمایا دریافت کروکیا دریافت کرناہے۔
کہا کہ وہ دین بتادیجیئے جس کے علاوہ کچھ قابل قبول نہ ہو اور جس سے ناواقفیت میں انسان معذور نہ ہو، فرمایا لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ کی گواہی ، پانچ نمازیں ، ماہ رمضان کے روزے ، غسل جنابت ، حج بیت اللہ ، جملہ احکام الہی کا اقرار اور ائمہ آل محمد کی اقتداء …!
عمر نے کہا کہ حضور ان سب کے نام بھی بتادیجئے ؟ فرمایا امیر المومنین (ع) علی (ع)، حسن (ع) ، حسین (ع) ، علی بن الحسین (ع) ، محمد (ع) بن علی (ع) ، اور یہ خیر خدا جسے چاہتا ہے عطا کردیتاہے۔
عرض کی کہ آپ کا مقام کیاہے؟ فرمایا کہ یہ امر امامت ہمارے اول و آخر سب کے لئے جاری و ساری ہے۔( محاسن 1 ص 450 /1037 ، شرح الاخبار 1 ص 224 /209 ، اس روایت میں غسل جنابت کے بجائے طہارت کا ذکر ہے)۔
535۔ روایت میں وارد ہواہے کہ مامون نے فضل بن سہل ذوالریاستیں کو امام رضا کی خدمت میں روانہ کیا اور اس نے کہا کہ میں چاہتاہوں کہ آپ حلال و حرام ، فرائض و سنن سب کو ایک مقام پر جامع طور پر پیش کردیں کہ آپ مخلوقات پر پروردرگار کی حجت اور علم کا معدن ہیں۔
آپ نے قلم و کاغذ طلب فرمایا اور فضل سے فرمایا کہ لکھو ہمارے لئے یہ کافی ہے کہ ہم اس بات کی شہادت دیں کہ خدا کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں ہے، وہ احدہے ، صمد ہے، اس کی کوئی زوجہ یا اولاد نہیں ہے وہ قیوم ہے، سمیع و بصیر ہے، قوی و قائم ہے، باقی اور نور ہے، عالم ہر شے اور قادر علیٰ کل شی ہے۔ ایسا غنی جو محتاج نہیں ہوتاہے اور ایسا عادل جو ظلم نہیں کرتاہے، ہر شے کا خالق ہے، اس کا کوئی مثل نہیں ہے، اس کی شبیہ و نظیر اور ضد یا مثل نہیں ہے اور اس کا کوئی ہمسر بھی نہیں ہے۔
پھر اس بات کی گواہی دیں کہ محمد (ع) اس کے بندہ ، رسول ، امین ، منتخب روزگار، سید المرسلین، خاتم النبییّن ، افضل العالمین ہیں، اس کے بعد کوئی نبی نہیں ہے، ان کے نظام شریعت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں ہے، وہ جو کچھ خدا کی طرف سے لے کر آئے میں سب حق ہے ، ہم سب کی تصدیق کرتے ہیں اور ان کے پہلے کے انبیاء و مرسلین اور حجج الہیہ کی تصدیق کرتے ہیں، اس کی کتاب صادق کی بھی تصدیق کرتے ہیں جہاں تک باطل کا گذر نہ سامنے سے ہے اور نہ پیچھے سے، وہ خدائے حکیم و حمید کی تنزیل ہے۔( فصلت 42)۔
یہ کتاب تمام کتابوں کی محافظ اور اول سے آخر تک حق ہے، ہم اس کے محکم و متشابہ ، خاص و عام ، وعد و وعید، ناسخ و منسوخ، اور اخبار سب پر ایمان رکھتے ہیں، کوئی شخص بھی اس کا مثل و نظیر نہیں لاسکتاہے۔
اور اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ رسول اکرم کے بعد دلیل اور حجت خدا، امور مسلمین کے ذمہ دار، قرآن کے ترجمان، احکام الہیہ کے عالم ان کے بھائی ، خلیفہ ، وصی ، صاحب منزلت ہارون علی (ع) بن ابیطالب امیر المومنین ، امام المتقیم ، قائد لغراالمحجلین، یعسوب المومنین ، افضل الوصیین ہیں اور ان کے بعد حسن (ع) و حسین (ع) ہیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، یہ سب عترت رسول اور اعلم بالکتاب و السنة ہیں۔
سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے اور ہر زمانہ میں امامت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں، یہی عروة الوثقیٰ ہیں اور یہی ائمہ ہدی میں اور یہی اہل دنیا پر حجت پروردگار ہیں، یہاں تک کہ زمین اور اہل زمین کی وراثت خدا تک پہنچ جائے کہ وہی کائنات کا وارث و مالک ہے اور جس نے بھی ان حضرات سے اختلاف کیا وہ گمراہ اورگمراہ کن ہے، حق کو چھوڑنے والا اور ہدایت سے الگ ہوجانے والا ہے، یہی قرآن کی تعبیر کرنے والے اور اس کے ترجمان ہیں، جو ان کی معرفت کے بغیر اور نام بنام ان کی محبت کے بغیر مرجائے وہ جاہلیت کی موت مرتاہے۔( تحف العقول ص 415)۔
536۔عبدالعظیم بن عبداللہ الحسنئ کا بیان ہے کہ میں امام علی نقی (ع) بن محمد (ع) بن علی (ع) بن موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) بن محمد (ع) بن علی (ع) بن الحسین (ع) بن علی (ع) بن ابی طالب (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھ کر مرحبا کہا اور فرمایا کہ تم ہمارے حقیقی دوست ہو۔
میں نے عرض کی کہ حضور میں آپ کے سامنے اپنا پورا دین پیش کرنا چاہتاہوں کہ اگر صحیح ہے تو میں اسی پر قائم رہوں ؟
آپ نے فرمایا ضرور ۔!
میں نے کہا کہ میں اس بات کا قائل ہوں کہ خدا ایک ہے، اس کا کوئی مثل نہیں ہے ، وہ ابطال اور تشبیہ دونوں حدودں سے باہر ہے، نہ جسم ہے نہ صورت ، نہ عرض ہے نہ جوہر، تمام اجسام کو جسمیت دینے والا اور تمام صورتوں کا صورت گر ہے، عرض و جوہر دونوں کا خالق ہر شے کا پرورگار ، مالک ، بنانے والا اور ایجاد کرنے والا ہے۔
حضرت محمد اس کے بندہ ، رسول اور خاتم النبیین ہیں ، ان کے بعد قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے اور ان کی شریعت بھی آخری شریعت ہے جس کے بعد کوئی شریعت نہیں ہے۔
اور امام و خلیفہ و ولی امر آپ کے بعد امیر المومنین (ع) علی ابن ابی طالب ہیں۔ اس کے بعد امام حسن (ع) ، پھر امام حسین (ع) پھر علی بن الحسین (ع) پھر محمد بن علی (ع) پھر جعفر بن محمد(ع) ، پھر موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) ، پھر علی (ع) بن موسیٰ (ع) ، پھر اس کے بعد آپ !۔
حضرت نے فرمایا کہ میرے بعد میرا فرزند حسن (ع) اور اس کے بعد ان کے نائب کے بارے میں لوگوں کا کیا حال ہوگا؟
میں نے عرض کی کیوں ؟ فرمایا اس لئے کہ وہ نظر نہ آئے گا اور اس کا نام لینا بھی جائز نہ ہوگا یہاں تک کہ منظر عام پر آجائے اور زمین کو عدل و انصاف سے اسی طرح بھردیگا جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوگی ۔
میں نے عرض کی حضور میں نے اس کا بھی اقرار کرلیا اور اب یہ بھی کہتاہوں کہ جو ان کا دوست ہے وہی اپنا دوست ہے اور جو ان کا دشمن ہے وہی اپنا بھی دشمن ہے، ان کی اطاعت اطاعت خدا اور ان کی معصیت معصیت خدا ہے۔
اور میرا عقیدہ یہ بھی ہے کہ معراج حق ہے اور قبر کا سوال بھی حق ہے اور جنت و جہنم بھی حق ہے اور صراط و میزان بھی حق ہے اور قیامت بھی یقیناً آنے والی ہے اور خدا سب کو قبروں سے نکالنے والا ہے۔
اور میرا کہنا یہ بھی ہے کہ ولایت اہلبیت (ع) کے بعد فرائض میں نماز۔
زکوة، روزہ، حج، جہاد، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر سب شامل ہیں، حضرت نے فرمایا اے ابوالقاسم ! خدا کی قسم یہی وہ دین ہے جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے پسند فرمایاہے اور تم اس پر قائم رہو، پروردگار تمھیں دنیا و آخرت میں اس پر ثابت قدم رکھے۔( امالی (ر) صدوق 278 / 24 ، التوحید 81 / 37 ، کمال الدین 379 ، روضة الواعظین ص 39 ، کفایة الاثر ص 282 ، ملاحظہ ہو صفات الشیعہ 127 / 68)۔
صفات شیعہ
537۔ ہمارے شیعہ وہ ہیں جو راہ محبت میں ایک دوسرے پر خرچ کرنے والے، ایک دوسرے سے محبت کرنے والے اور ہمارے دین کو زندہ رکھنے کیلئے ایک دوسرے سے ملاقات کرنے والے ہوتے ہیں، ان کی شان یہ ہے کہ غصہ آجائے تو کسی پر ظلم نہیں کرتے ہیں اور خوش حال ہوتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے ہیں، اپنے ہمسایہ کے لئے برکت اور اپنے ساتھیوں کے لئے مجسمہ سلامتی ہوتے ہیں۔( کافی 2 ص 236 / 24 روایت ابوالمقدام عن الباقر (ع) ، خصال ص 397 /154 ، صفات الشیعہ 91 / 23 ، تحف العقول ص 200 ، مشکٰوة الانوار ص 6 ، التمحیص 69 / 68 / 168 ، شرح الاخبار 3 ص 504 / 1449)۔
538۔ امام علی (ع) ! ہمارے شیعہ اللہ کی معرفت رکھنے والے، اس کے حکم پر عمل کرنے والے، صاحبان فضائل سچ بولنے والے ہوتے ہیں، ان کا کھانا بقدر ضرورت، ان کا لباس درمیانی اور ان کی رفتار متواضع ہوتی ہے، دیکھنے میں مریض اور مدہوش نظر آتے ہیں حالانکہ ایسے ہوتے نہیں ہیں، انھیں عظمت پروردگار اور جلال سلطنت الہیہ ایسا بنادیتی کہ دل بے قرار ہوجاتے ہیں اور ہوش و حواس اڑجاتے ہیں، اس کے بعد جب ہوش آتاہے تو نیک اعمال کی طرف دوڑ پڑتے ہیں، مختصر اعمال سے راضی نہیں ہوتے ہیں اور زیادہ اعمال کو کثیر نہیں سمجھتے ہیں۔(مطالب السئول ص 54 روایت نوف البکائی)۔
539۔ نوف بن عبداللہ البکالی ! مجھ سے ایک دن امام علی (ع) نے فرمایا کہ نوف ! ہم ایک پاکیزہ طینت سے پیدا ہوئے ہیں لہذا جب قیامت کا دن ہوگا تو ہمارے ساتھ ملادیئے جائیں گے۔
میں نے عرض کی حضور ذرا اپنے شیعوں کے اوصاف تو بیان فرمائیں ؟ تو حضرت رونے لگے، اور پھر فرمایا، نوف ! ہمارے شیعہ صاحبان عقل ، خدا اور دین خدا کے عارف ، اطاعت و امر الہی کے عامل، محبت الہی سے ہدایت یافتہ، عبادت گذار، زاہد مزاج، شب بیدای سے زرد چہرہ ، گریہ سے دھنسی ہوئی آنکھیں، ذکر خدا سے خشک ہونٹ، فاقوں سے دھنسے ہوئے پیٹ ، خداشناسی ان کے چہروں سے نمودار اور خوف خدا ان کے بشرہ سے نمایاں، تاریکیوں کے چراغ اور بدترین ماحول کے لئے گل و گلزار ہوتے ہیں…۔
ان کی کمزوریاں پوشیدہ اور ان کے دل رنجیدہ ، ان کے نفس عفیف اور ان کے ضروریات خفیف، ان کا نفس ہمیشہ رنج و تعب میں اور لوگ ان کی طرف سے ہمیشہ راحت و آرام میں، صاحبان عقل و خرد، خالص شریف، اپنے دین کو بچاکر نکل جانے والے ہوتے ہیں، محفلوں میں حاضر ہوتے ہیں تو کوئی انھیں پہچانتا نہیں ہے اور غالب ہوجاتے ہیں تو کوئی تلاش نہیں کرتاہے، یہی ہمارے پاکیزہ کردار شیعہ، ہمارے محترم برادر ہیں، ہائے میں ان کا کس قدر مشتاق ہوں ۔( امالی طوسی (ر) 176 /1189)۔
540۔ محمد بن الحنفیہ ! امیر المومنین (ع) جنگ جمل کے بعد بصرہ واپس آئے تو احنف بن قیس نے آپ کو دعوت میں بلایا اور کھانا تیار کیا اور اصحاب کو بھی مدعو کیا ، آپ تشریف لے آئے تو فرمایا، احنف ! میرے اصحاب کو بلاؤ ؟ احنف نے دیکھا کہ آپ کے ساتھ ایک جماعت ہے جیسے:
احنف نے عرض کی حضور ! انھیں کیا ہوگیاہے؟ انھیں کھانا نہیں ملاہے یا جنگ کے خوف نے ایسا بنادیاہے۔
فرمایا احنف ! ایسا کچھ نہیں ہے۔ اللہ ان لوگوں کو دوست رکھتاہے جو دار دنیا میں اس طرح عبادت کرتے ہیں جیسے انھوں نے روز قیامت کے ہول کو دیکھ لیا ہے اور اپنے نفس کو اس کی زحمتوں پر آمادہ کرلیاہے۔( صفات الشیعہ 118/63)۔
541۔امام صادق (ع) ! ہمارے شیعوں کو تین طرح آزماؤ! اوقات نماز کی پابندی کس قدر کرتے ہیں، ہمارے اسرار کو دشمنوں سے کس طرح محفوظ رکھتے ہیں اور اپنے اموال میں دوسرے بھائیوں سے کس قدر ہمدردی کرتے ہیں۔( خصال 103/62 ، روضة الواعظین ص 321 ، مشکوة الانوار ص 78، قرب الاسناد 78 /253)۔
542۔ امام صادق (ع)! یاد رکھو کہ جعفر (ع) بن محمد (ع) کے شیعہ بس وہ ہیں جن کا شکم اور جنسی جذبہ عفیف ہو، محنت زیادہ کرتے ہوں، پروردگار کے لئے عمل کرتے ہوں اور اس کے ثواب کے امیدوار ہوں اور اس کے عذاب سے خوفزدہ ہوں، اگر ایسے افراد نظر آجائیں تو سمجھ لینا کہ یہی ہمارے شیعہ میں ( صفات الشیعہ89/21 ، کافی 2 ص233 /9 ، خصال 296 /63 روایت مفضل بن عمر)۔
543۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ وہ ہیں جو اچھا کام کرتے ہوں، برے کاموں سے رک جاتے ہوں، ان کی نیکیاں ظاہر ہوں، مالک کی رحمت کے حصول کے لئے عمل خیر کی طرف سبقت کرتے ہوں، یہی لوگ ہیں جو ہم سے ہیں ان کی بازگشت ہمارے طرف ہے اور ان کی جگہ ہماری منزل ہے ہم جہاں بھی رہیں۔( صفات الشیعہ 95/32 روایت مسعدہ بن صدقہ)۔
544۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ صاحبان تقویٰ و اجتہاد ہوتے ہیں، اہل وفا و امانتدار ہوتے ہیں، اہل زہد و عبادت ہوتے ہیں ، دن رات میں اکیاون رکعت نماز پڑھنے والے(17 رکعت فریضہ 34 ۔ رکعت نوافل) را توں کو قیام کرنے والے، دن میں روزہ رکھنے والے، اپنے اموال کی زکواة ادا کرنے والے حج بیت اللہ انجام دینے والے اور ہر حرام سے پرہیز کرنے والے ہوتے ہیں۔( صفات الشیعہ 81/1 روایت ابوبصیر)۔
545۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ مختلف خصلتوں سے پہچانے جاتے ہیں، سخاوت، برادران ایمان پر مال صرف کرنا، دن رات مین 51 رکعت نماز۔( تحف العقول ص 303)۔
546۔ امام صادق (ع) ! ہمارے شیعہ تین طرح کے ہیں 1) واقعی محبت کرنے والے، یہ ہم سے ہیں 2) ہمارے ذریعہ اپنی زینت کا انظام کرنے والے، ان کے لئے ہم بہر حال باعث زینت ہیں 3) ہمارے ذریعہ مال دنیا کمانے والے، ایسے افراد ہمیشہ فقیر رہیں گے۔( خصال 103 /61 اعلام الدین ص 130 روایت معاویہ بن وہب، روضة الواعظین ص 321، مشکوة الانوار 78)۔
547۔امام صادق (ع) ! لوگ ہمارے سلسلہ میں تین حصوں میں تقسیم ہوگئے ہیں، ایک جماعت ہم سے محبت کرتی ہے اور ہمارے قائم کا انتظار کرتی ہے تا کہ ہمارے ذریعہ دنیا حاصل کرے، یہ لوگ ہمارے کلام کو محفوظ رکھتے ہیں لیکن ہمارے اعمال میں کوتاہی کرتے ہیں، عنقریب خدا انھیں واصل جہنم کردے گا۔
دوسری جماعت ہم سے محبت کرتی ہے، ہماری بات سنتی ہے اور عمل میں بھی کوتاہی نہیں کرتی ہے لیکن مقصد مال دنیا ہی کا حصول ہے تو خدا ان کے پیٹ کو آتش جہنم سے بھر دے گا اور ان پر بھوک پیاس کو مسلط کردے گا۔
تیسری جماعت سے ہم سے محبت کرتی ہے، ہمارے اقوال کو محفوظ رکھتی ہے، ہمارے امر کی اطاعت کرتی ہے اور ہمارے اعمال کے خلاف نہیں کرتی ہے، یہی لوگ ہیں جو ہم سے ہیں ا ور ہم ان سے ہیں( تحف العقول 514 روایت مفضل)۔
548۔ امام صادق (ع) ! ایک شخص نے محبت اہلبیت (ع) کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم ہمارے کیسے دوستوں میں ہو، وہ شخص خاموش ہوگیا تو سدیر نے کہا مولا، آپ کے دوستوں کی کتنی قسمیں ہیں ؟ فرمایا ہمارے دوستوں کے تین طبقات ہیں۔
1۔ وہ طبقہ جو ہم سے بظاہر محبت کرتاہے لیکن اندر سے محبت نہیں کرتاہے، 2) وہ طبقہ جو اندر سے محبت کرتاہے باہر سے اظہار نہیں کرتاہے 3) وہ طبقہ جو ہر حال میں ہم سے محبت کرتاہے، یہی تیسرا طبقہ قسم اعلیٰ ہے او دوسرا طبقہ جو بظاہر محبت کرتاہے بادشاہوں کی سیرت پر عملکرتاہے کہ زبان ہمارے ساتھ ہوئی ہے اور تلوار ہمارے خلاف اٹھتی ہے، یہ پست ترین طبقہ ہے اور تیسری قسم جہاں اندر سے محبت ہوتی ہے اگر چہ اس کا اظہار نہیں ہوتاہے یہ درمیانی طبقہ کے چاہنے والے ہیں … میری جان کی قسم اگر یہ لوگ اندر سے ہمارے چاہنے و الے ہیں اور صرف باہر سے اظہار نہیں کرتے ہیں تو یہ دن میں روزہ رکھنے والے، راتوں کو نماز پڑھنے والے ہوں ، ترک دنیاداری کا اثرات کے چہرہ سے ظاہر ہوگا اور مکمل طور پر تسلیم و اختیار والے ہوں گے۔
اس شخص نے عرض کی کہ میں تو ظاہر و باطن ہر اعتبار سے آپ کا چاہنے والاہوں… فرمایا ہمارے ایسے چاہنے والوں کی علامتیں معین ہیں، اس نے عرض کی وہ علامتیں کیا ہیں ؟ فرمایا… سب سے پہلی علامت یہ ہے کہ توحید پروردگار کی مکمل معرفت رکھتے ہیں اور اس کے نشانات کو محکم رکھتے ہیں۔( تحف العقول ص 325)۔
اخلاق اہلبیت (ع)
ایثار
﴿و یطعمون الطعام علیٰ حبہ مسکینا و یتیما و اسیرا ، انما نطعمکم لوجہ اللہ لا نرید منکم جزاءً اولا شکورا﴾ ( سورہ دہر 8 ، 9)۔
﴿و یوثرون علیٰ انفسہم و لو کان بھم خصاصہ و من یوق شح نفسہ فاولئک ہم المفلحون ﴾
( سورہ حشر 9)
549۔ ابن عباس ! حسن (ع) وحسین (ع) بیمار ہوئے تو رسول اکرم ایک جماعت کے ساتھ عیادت کے لئے آئے اور فرمایا یا اباالحسن ! اگر تم اپنے بچوں کے لئے کوئی نذرکرلیتے؟ یہ سن کر علی (ع) ، فاطمہ (ع) و فضہ (کنیز خانہ) سب نے نذر کرلی کہ اگر بچہ صحتیاب ہوگئے تو تین دن روزہ رکھیں گے۔
خدا کے فضل سے بچے صحتیاب ہوگئے لیکن گھر میں روزہ کیلئے کوئی سامان نہ تھا تو حضرت علی (ع) شمعون یہودی کے یہاں سے تین صباع جو قرض لے آئے اور فاطمہ (ع) نے ایک صاع پیس کر 5 روٹیاں تیار کیں۔
ابھی افطار کے لئے بیٹھے ہی تھے کہ ایک سائل نے آواز دی۔ اہلبیت محمد ! تم پر میرا سلام، میں مسلمانوں کے مساکین میں سے ایک مسکین ہوں، مجھے کھانا کھلاؤ، خدا تمھیں دستر خوان جنت سے سیر کرے گا، سب نے ایثار کرکے روٹیاں اس کے حوالہ کردیں اور پانی سے افطار کرلیا۔
دوسرے دن پھر روزہ رکھا اور اسی طرح افطار کے لئے بیٹھے تو ایک سائل نے سوال کرلیا اور روٹیاں اس کے حوالہ کردیں، تیسرے دن پھر یہی صورت حال پیش آئی۔
اب جو چوٹھے دن حضرت علی (ع) بچوں کو لئے ہوئے پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے دیکھا کہ بچے بھوک کی شدت سے بچہٴ پرند کی مانند کانپ رہے ہیں، یہ دیکھ کر آپ کو سخت تکلیف ہوئی اور بچوں کو لے کر خانہ فاطمہ (ع) میں آئے، دیکھا کہ فاطمہ (ع) محراب عبادت میں ہیں، لیکن فاقوں کی شدت سے شکم مبارک پیٹھ سے مل گیاہے اور آنکھیں اندر کی طرف چلی گئی ہیں۔
یہ منظر دیکھ کر آپ کو مزید تکلیف ہوئی کہ جبریل امین آگئے اور سورہ دہر دیتے ہوئے کہا کہ یامحمد ! مبارک ہو ، پروردگار نے تمھارے اہلبیت (ع) کے لئے یہ تحفہ نازل فرمایاہے۔( کشاف 4 ص 169 ، کشف الغمہ 1 ص 302)۔
550۔ امام صادق (ع) ! جناب فاطمہ (ع) کے پاس کچھ جو تھا جس کا حلوہ تیار کیا اور جب سب گھر والے کھانے کے لئے بیٹھے تو ایک مسکین آگیا اور اس نے کہا کہ خدا آپ حضرات پر رحمت نازل کرے، حضرت علی (ع) نے ایک تہائی حلوہ اس کے حوالہ کردیا، چند لمحوں میں ایک یتیم آگیا اور آپ نے ایک تہائی اس کے حوالہ کردیا اس کے بعد ایک اسیر آگیا اور باقی ماندہ اس کے حوالہ کردیا اور خود کچھ نہیں کھایا تو پروردگار نے ان کی شان میں یہ آیات نازل کردیں۔( مجمع البیان 10 ص 612 ، تفسیر قمی 2 ص 398 روایت عبداللہ بن میمون قداح)۔
نوٹ: اس روایت سے اندازہ ہوتاہے کہ سورہٴ دہر کے نزول کے بعد بھی اہلبیت (ع) کا مستقل طریقہ رہاہے کہ یتیم و مسکین و اسیر کو اپنے نفس پر مقدم کرتے رہے ہیں اور جب بھی یہ عمل انجام دیا ہے۔ سرکار دو عالم نے آیات دہر کی تلاوت فرمائی ہے نہ یہ کہ سورہ بار بار نازل ہوتا رہا ہے۔(جوادی)۔
551۔ امام (ع) باقر ! سورہٴ دہر کی شان نزول بیان فرماتے ہوئے فرمایا کہ ” علی حبہ “ سے مراد یہ ہے کہ انھیں خود بھی ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود مسکین و یتیم و اسیر کو مقدم کردیا اور خدا نے ان آیات کو نازل کردیا اور یاد رکھو کہ ” انما نطعمکم لوجہ اللہ ( ہم صرف رضائے الہی کے لئے کھلاتے ہیں اور نہ اس کی کوئی جزا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ) یہ قول اہلبیت (ع) نہیں ہے اور نہ ان کی زبان پر ایسے الفاظ آئے ہیں، یہ ان کے دل کی بات ہے جسے پروردگار نے اپنی طرف سے واضح کردیا ہے اور ان کے ارادوں کی ترجمانی کردی ہے کہ یہ نہ جزا کی زحمت دینا چاہتے ہیں اور نہ شکریہ کی تعریف کے خواستگار ہیں، یہ اپنے عمل کے معاوضہ میں صرف رضائے الہی اور ثواب آخرت کے طلب گار ہیں اور بس ! ( امالی صدوق (ر) روایت سلمہ بن خالد ص 215)۔
552۔ ابن عباس ! علی (ع) بن ابی طالب نے ایک رات صبح تک باغ کی سینچائی کا کام انجام دیا اور معاوضہ میں کچھ جو لے کر آئے جس کا ایک تہائی پیسا گیا اور حریرہ نام کی غذا تیار ہوئی کہ ایک مسکین نے آکر سوال کردیا اور سب نے اٹھاکر اس کے حوالہ کردیا، پھر دوسرے تہائی کا حریرہ تیار کیا اور اس کا یتیم نے سوال کرلیا اور اسے بھی دیدیا، پھر تیسرے تہائی کا تیار کیا اور اس کا اسیر نے سوال کرلیا تو اسے بھی اس کے حوالہ کردیا اور بھوک ہی کے عالم میں سارا دن گذار دیا۔( مجمع البیان 10 ص 612)۔
بظاہر یہ بھی سورہٴ دہر کی ایک تطبیق ہے ورنہ تنزیل کی روایت ابن عباس ہی کی زبان سے اس سے پہلے نقل کی جاچکی ہے، جوادی
553۔ ابن عباس !” یوثرون علی انفسھم “ کی آیت علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔( شواہد التنزیل 2 ص332 / 973)۔
554۔ ابوہریرہ ! ایک شخص رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے بھوک کی شکایت کی ، آپ نے ازواج کے گھر دریافت کرایا، سب نے کہہ دیا کہ یہاں کچھ نہیں ہے تو فرمایا کوئی ہے جو آخر رات اسے سیر کرے؟ علی (ع) بن ابی طالب (ع) نے فرمایا کہ میں حاضر ہوں۔! اور یہ کہہ کر خانہٴ زہرا (ع) میں آئے ، فرمایا دختر پیغمبر ! آج گھر میں کیا ہے؟
فرمایا کہ بچوں کا کھانا ہے اور کچھ نہیں ہے… لیکن اس کے بعد بھی ہم ایثار کریں گے، چنانچہ بچوں کو سلادیا، چراغ خانہ کو بجھا دیا اور آنے والے کو سارا کھانا کھلادیا۔
صبح کو پیغمبر اکرم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کا قصہ بیان کیا تو فوراً آیت کریمہ نازل ہوگئی ” یوثرون علی انفسھم و لو کان بھم خصاصہ ( امالی الطوسی (ر) 185 /309 ، تاویل الآیات الظاہرہ ص 653 ، شواہد التنزیل 2 ص 331 /972 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 74)۔
555۔ امام باقر ! ایک دن رسول اکرم تشریف فرماتے تھے اور آپ کے گرد اصحاب کا حلقہ تھا کہ حضرت علی (ع) ایک بوسیدہ چادر اوڑھ کر آگئے اور رسول اکرم کے قریب بیٹھ گئے، آپ نے تھوڑی دیران کے چہرہ پر نگاہ کی اور اس کے بعد آیت ایثار کی تلاوت کرکے فرمایا کہ یاعلی (ع) تم ان ایثار کرنے والوں کے رئیس ،امام اور سردار ہو۔
اس کے بعد فرمایا کہ وہ لباس کیا ہوگیا جو میں نے تم کو دیا تھا؟ عرض کی اصحاب میں سے ایک فقیر آگیا اور اس نے برہنگی کا شکوہ کیا تو میں نے رحم کھاکر ایثار کیا اور لباس اس کے حوالہ کردیا اور مجھے یقین تھا کہ پروردگار مجھے اس سے بہتر عنایت فرمائے گا۔
فرمایا تم نے سچ کہا ، ابھی جبریل نے یہ خبر دی ہے کہ پروردگار نے تمھارے لئے جنت میں ایک ریشم کا لباس تیار کرایاہے جس پر یاقوت اور زمرد کا رنگ چڑہا ہواہے اور یہ تمھاری سخاوت کا بہترین صلہ ہے جو تمھارے پروردگار نے دیا ہے کہ تم نے اس پرانی چادر پر قناعت کی ہے اور بہترین لباس سائل کے حوالہ کردیاہے، یا علی (ع) ! یہ تحفٴ جنّت مبارک ہو۔( تاویل الآیات الظاہرہ 255 روایت جابر بن یزید)۔
556۔ احمد بن محمد بن ابراہیم الثعلبئ کا بیان ہے کہ میں نے بعض کتب تفسیر میں دیکھا ہے کہ جب رسول اکرم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو حضرت علی (ع) کو مکہ میں یہ کہہ کر چھوڑدیا کہ انھیں سرکار کے قرضے ادا کرنا ہیں اور لوگوں کی امانتوں کو واپس کرناہے، اور اس عالم میں چلے گئے کہ سارا گھر مشرکین سے گھرا ہوا تھا اور حضور کا حکم تھا کہ علی (ع) چادر حضرمی اوڑھ کر بستر پر سوجائیں، انشاء اللہ پروردگار ہر شر سے محفوظ رکھے گا، چنانچہ آپ نے تعمیل ارشاد کی اور ادھر پروردگار نے جبریل و میکائیل سے کہاکہ میں نے تم دونوں کے درمیان برادری کا رشتہ قائم کردیاہے اور ایک کی عمر کو دوسرے سے زیادہ کردیا ہے اب بتاؤ کون اپنی زیادہ عمر کو اپنے بھائی پر قربان کرسکتاہے؟ جس پر دونوں نے زندہ رہنے کو پسند کیا تو پروردگار نے فرمایا کہ تم لوگ علی (ع) جیسے کیوں نہیں ہوجاتے ہو، دیکھؤ میں نے ان کے اور محمد کے درمیان برادری قائم کردی تو وہ کس طرح ان کے بستر پر لیٹ کر اپنی جان قربان کررہے ہیں اور ان کا تحفظ کررہے ہیں ، اچھا اب دونوں افراد جاؤ اور تم ان کا تحفظ کرو۔
چنانچہ دونوں فرشتے نازل ہوئے ، جبریل سرہانے کھڑے ہوئے اور میکائیل پائینتی اور دنوں نے کہنا شروع کیا ، مبارک ہو مبارک ہو ابوطالب (ع) کے لال تمھارا مثل کون ہے کہ خدا تمھارے ذریعہ ملائکہ پر مباہات کررہاہے، اور راہ مدینہ میں رسول اکرم پر یہ آیت کریمہ نازل کردی ” من الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضات اللہ “ بقرہ 207 ( اسدالغابہ 4 ص 98 ، العمدة 239 / 367 ، تذکرة الخواص 35 ، شاہد التنزیل 1 ص 123 / 132، ارشا د القلوب ص 224 ، ینابیع المودة 1 ص 274 / 3 الصراط المستقیم 1 ص 174 ،تنبیہ الخواطر 1 ص 173)۔
تواضع اہلبیت (ع)
557۔ رسول اکرم ! میرے پاس آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا جو اس سے پہلے کسی نبی کے پاس نہیں آیا تھا اور نہ اس کے بعد آنے والا ہے اور اس کا نام اسرافیل ہے، اس نے آکر مجھے سلام کیا اور کہا کہ میں پروردگار کی طرف سے بھیجا گیاہوں اورمجھے حکم دیا گیاہے کہ میں آپ کو یہ اختیار دوں کہ چاہے پیغمبر بندگی بن کر رہیں یا ملوکانہ زندگی گذاریں تو میں نے جبریل کی طرف نظر کی اور انھوں نے تواضع کی طرف اشارہ کیا تو میں نے اس اشارہ ٴ الوھیت کی بنیاد پر بندگی پروردگار کی زندگی کو ملوکانہ آن بان پر مقدم رکھا۔( المعجم الکبر 12 ص 267 / 13309 روایت ابن عمر)۔
558۔ امام محمد باقر (ع) ! پیغمبر اکرم کے پاس جبریل تمام زمین کے خزانوں کی کنجیاں لے کر تین مرتبہ حاضر ہوئے اور آپ کو خزانوں کا اختیار پیش کیا بغیر اس کے کہ اجر آخرت میں کسی طرح کی کمی واقع ہو لیکن آپ نے پرسکون زندگی پر تواضع کو مقدم رکھا۔( کافی 8 ص 130 / 100 ، امالی الطوسی 692 /1470 روایت محمد بن مسلم)۔
559۔ امام صادق (ع) ! جبریل نے رسول اکرم کے پاس حاضر ہوکر آپ کو سارا اختیار دے دیا لیکن آپ نے تواضع کو پسند فرمایا اور اسی بنیاد پر ہمیشہ غلاموں کی طرح بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے اور بارگاہ الہی میں تواضع کے اظہار کے لئے غلاموں ہی سے انداز سے بیٹھنا بھی پسند فرماتے تھے۔( کافی 8 ص 131 /101 روایت علی بن المغیرہ ، کافی 6 ص 270 ، المحاسن 2 ص 244)۔
560۔ حمزہ بن عبداللہ بن عتبہ، پیغمبر اسلام میں وہ خصلتیں پائی جاتی تھیں جن کا جہادوں سے کوئی تعلق نہیں ہے، آپ کو جو سیاہ و سرخ آدمی مدعو کرلیتا تھا اس کی دعوت قبول کرلیتے تھے اور بعض اوقات راستہ میں خرمہ پڑا دیکھ لیتے تھے تو اسے اٹھالیتے تھے صرف اس بات سے خوفزدہ رہتے تھے کہ کہیں صدقہ کا نہ ہو ، سواری کرتے وقت زین و غیرہ کا اہتمام نہیں فرماتے تھے۔( الطبقات الکبریٰ 1 ص 370)۔
561۔ یزبد بن عبداللہ بن قسیط ! اہل صفّہ پیغمبر کے وہ اصحاب تھے جن کاکوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور مسجد ہی میں رہا کرتے تھے اور وہیں آرام کیا کرتے تھے رسول اکرم رات کے وقت انھیں بلاکر اصحاب کے گھر بھیج دیا کرتے تھے تا کہ ان کے یہاں جاکر کھانا کھالیں اور بہت سے افراد کو خود اپنے ساتھ شریک طعام فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ پروردگار نے اسلام کو مالدار بنادیا۔( طبقات کبریٰ 1 ص 255)۔
562۔ ابوذر ! رسول اکرم اپنے اصحاب کے سامنے اس طرح بیٹھا کرتے تھے کہ باہر سے آنے والا نہیں سمجھ پاتا تھا کہ ان میں پیغمبر کون ہے ، تو ہم لوگوں نے عرض کی کہ حضور کے لئے ایک جگہ معین کردیں تا کہ مرد مسافر آپ سے سوال کرسکے چنانچہ ایک چبوترہ بنادیا گیا اور آپ اس پر تشریف فرماہوتے تھے۔( سنن نسائل 8 ص101 ، مکارم الاخلاق 1 ص 48 /8)۔
563۔ ابومسعود ! رسول اکرم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے گفتگو شروع کی تو اس کے جوڑ بند کانپ رہے تھے ، آپ نے فرمایاکہ پریشان نہ ہو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں، میری والدہ گرامی بھی گوشت کے ٹکڑوں ہی پر گذارا کیا کرتی تھیں( سنن ابن ماجہ 2 ص 1100 / 3312 ، مکارم الاخلاق 1 ص 48 /7)۔
564۔ مطرف ! میں بنی عامر کے ایک وفد کے ساتھ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ آپ ہمارے سید و سردار ہیں… فرمایا کہ مالک و مختار پروردگار ہے۔
عرض کی کہ سرکار ہم سب سے افضل و برتر اور عظیم تر تو بہر حال ہیں، فرمایا کہ جو چاہو کہو لیکن خبردار شیطان تمھیں اپنے ساتھ نہ کھینچ لے جائے، ( سنن ابی داؤد 4 ص 254 /4806 ، الادب المفرد 72 /211 ، مسند ابن حنبل 5 / 498 / 16307 ، 499 / 16311 ، کشف الخفاء 1 ص 462 /1514)۔
565۔ امام صادق (ع) ! پیغمبر اکرم نے کبھی ٹیک لگاکر کھانا نہیں کھایا اور آپ بادشاہوں سے مشابہت کو سخت ناپسند فرماتے تھے اور ہم بھی ایسا کوئی کام نہیں کرسکتے ہیں۔( کافی 6 ص 272 /8 روایت معلی بن خنیس)۔
566۔ زاذان ! میں نے حضرت علی (ع) کو دیکھا کہ بازار میں کسی شخص کے جوتے کا تسمہ گر جاتا تھا تو اٹھاکر کردیدیتے تھے، ہر بھٹکے ہوئے مسافر کو راستہ بتاتے تھے اور مزدوروں کے سامان اٹھانے میں مدد فرمایا کرتے تھے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے، یہ دار آخرت صرف ان لوگوں کے لئے ہے جو اس دنیا میں بلندی اور فساد کے طلب گار نہیں ہیں اور آخرت تو بہر حال صاحبان تقویٰ کے لئے ہے،( سورہ قصص ص 83)
اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت حکام اور صاحبان قدرت و اختیار کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل 2ص 621 /1064)۔
567۔ امام صادق (ع) ! امیر المومنین (ع) ایک دن سوار ہوکر نکلے تو کچھ لوگ آپ کے ہمراہ پیدل چلنے لگے… فرمایا کیا تمھیں کوئی ضرورت ہے؟
لوگوں نے عرض کی کہ آپ کی رکاب میں چلنا اچھا لگتاہے۔
فرمایا کہ واپس جاؤ پیدل کا سوار کے ساتھ پیدل چلنا سوار کے لئے باعث فساد و غرور ہے اور پیدل کے لئے باعث ذلت و اہانت ہے۔( کافی 6 ص 540 /16 روایت ہشام بن تحف العقول ص 209۔
568۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام حسن (ع) مساکین کے پہلو میں بیٹھ کر فرمایا کرتے تھے کہ خدا متکبر افراد کو دوست نہیں رکھتاہے۔( تفسیر طبری 14 ص 94 ، العمدة ص 400 /812)۔
569۔ روایت میں وارد ہواہے کہ امام حسن (ع) فقراء کی ایک جماعت کے پاس سے گذرے، وہ لوگ روٹی کے ٹکڑے کھارہے تھے، انھوں نے آپ کو مدعو کرلیا، آپ بیٹھ گئے اور فرمایا کہ خدا مستکبرین کو دوست نہیں رکھتاہے۔آپ نے سب کے ساتھ کھانا کھالیا اور کھانے میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوئی ، اس کے بعد سب کو اپنے گھر بلاکر کھانا بھی کھلادیا اور کپڑا بھی عنایت فرمایا۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 23)۔
570۔ محمد بن عمرو بن حزم ! امام حسین (ع) مساکین کی ایک جماعت کے پاس سے گذرے جو صفہ میں بیٹھے کھارہے تھے، ان لوگوں نے آپ کو مدعو کرلیا، آپ شریک طعام ہوگئے اور فرمایاکہ خدا متکبرین کو دوست نہیں رکھتاہے اس کے بعد فرمایا کہ میں نے تمہاری دعوت قبولی کرلی، اب تم میرے یہاں آؤ، وہ لوگ آگئے، آپ نے گھر کے اندر جاکر فرمایا رباب جوکچھ گھر میں ذخیرہ ہے سب ان لوگوں کے حوالہ کردو۔( تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 151 / 196 ، تفسیر عیاشی 2 ص 257 /15)۔
571۔ ابوبصیر! امام جعفر صادق (ع) حمام میں داخل ہوئے تو صاحب حمام نے کہا کہ آپ کے لئے خاص انتظام کرادیا جائے اورا سے خالی کرادیا جائے؟ فرمایا کوئی ضرورت نہیں ہے، مومن ان تکلفات سے سبکتر ہوتاہے۔( کافی 6 ص 503 /37)۔
572۔ روایت میں وارد ہواہے کہ اما م رضا (ع) میں داخل ہوئے تو ایک شخص نے پیٹھ رگڑ نے کا مطالبہ کردیا، آپ نے شروع کردیا، ایک شخص نے اسے بتادیا تو وہ معذرت کرنے لگا لیکن آپ اس کی تالیف قلب اور خدمت میں لگے رہے کہ انسان ہی انسان کے کام آتاہے۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 362)۔
عفو اہلبیت (ع)
573۔ رسول اکرم (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کی مروت کا تقاضا یہ ہے کہ جو ہم پر ظلم کرے اسے معاف کردیں اور جو ہمیں محروم رکھے اسے عطا کردیں۔( تحف العقول ص 38)۔
574۔ ابوعبداللہ الجدلی ! میں نے حضرت عائشہ سے رسول اکرم کے اخلاق کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا کہ حضرت کوئی فحش بات نہ کہتے تھے اور نہ کوئی ایسا کام کرتے تھے، بازاروں کی طرح شور مچانا بھی آپ کا کام نہیں تھا اور برائی کا بدلہ برائی سے بھی نہیں دیتے تھے بلکہ عفو اور گذر سے کام لیا کرتے تھے۔( سنن ترمذی 4 ص 369 /2016، مسند ابن حنبل 9 ص 32 / 25472 ، 10 ص 75 /26049 ، 94 / 26150۔
575۔ عبداللہ ! میں نے پیغمبر اسلام کا یہ پیغمبرانہ طریقہ دیکھاہے کہ لوگوں نے آپ کو زخمی کردیا تو آپ چہرہ سے خون صاف کرتے جارہے تھے اور فرمارہے تھے ، خدایا میری قوم کو معاف کردینا کہ یہ جاہل ہیں۔( صحیح بخاری 6 ص 2539 / 6530 ، 3 ص 1282/3290 ، صحیح مسلم 3 ص 1417 /1792 ، سنن ابن ماجہ 2 ص 1335 /2025 ، مسند ابن حنبل 2 ص125 / 4017)۔
576۔ امام باقر (ع) ! رسول اکرم کے پاس اس یہودی عورت کو حاضر کیا گیا جس نے آپ کو زہر دیا تھا… تو آپ نے دریافت کیا کہ آخر تو نے ایسا قدم کیوں کیا ؟ اس نے کہا کہ میرا خیال یہ تھا کہ اگر یہ نبی ہیں تو انھیں نقصان نہ ہوگا اور اگر بادشاہ ہیں تو لوگوں کو آرام مل جائے گا۔! یہ سن کر آپ نے اسے معاف کردیا اور کوئی بدلہ نہیں لیا۔( کافی 1 ص 108 /9 روایت زرارہ)۔
577۔ معاذ بن عبداللہ تمیمی ! خدا کی قسم میں نے اصحاب امیر المومنین (ع) کو دیکھا کہ و ہ عائشہ کے اونٹ تک پہنچ گئے ہیں اور کسی نے آواز دی کہ اونٹ کے پیر کاٹ دیئے جائیں اور لوگوں نے کاٹ بھی دیئے اور اونٹ گر پڑا لیکن حضرت نے فوراً آواز بلند کردی کہ جو اسلحہ رکھ دے گا وہ امان میں ہے اور جو میرے گھر میں آجائے گا وہ بھی امان میں ہے، خدا کی قسم میں نے ایسا کریم انسان نہیں دیکھاہے۔( الجمل ص 365 ، مروج الذہب 2 ص 378 ، الاخبار الطوال ص 151 ، تاریخ یعقوبی 2 ص 182 ، شرح الاخبار 1 ص 395 /334)۔
578 ۔ امام علی (ع) ! اہل بصرہ پر فتح پانے کے بعد خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ بے شک پروردگار وسیع رحمت کا مالک اور دائمی مغفرت کا مختار ہے، اس کے پاس عظیم معافی بھی ہے اور دردناک عذاب بھی، اس نے یہ فیصلہ کردیاہے کہ اس کی رحمت و مغفرت و معافی صاحبان اطاعت کیلئے ہے اور اس کی رحمت سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں… اور اس کا عذاب ، غضب ، عقاب سب اہل معصیت کے لئے ہے اور ہدایت و دلائل کے بعد کوئی گمراہ نہیں ہوسکتاہے۔
اہل بصرہ ! اب تمھارا کیا خیال ہے جبکہ تم نے میرے عہد کو توڑ دیا ہے اور میرے خلاف دشمن کا ساتھ دیا ہے؟ ایک شخص کھڑا ہوگیا اور کہا کہ تو اچھا ہی خیال رکھتے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ آپ نے میدان جیت لیاہے، اب اگر سزا دیں گے تو ہم اس کے حقدار ہیں اور اگر معاف کردیں گے تو یہ طریقہ پروردگار کو پسند ہے۔ فرمایا جاؤ میں نے معاف کردیا لیکن خبردار اب فتنہ برپا نہ کرنا کہ تم نے عہد شکنی بھی کی ہے اور امت میں تفرقہ بھی پیدا کیا ہے، یہ کہہ کر آپ بیٹھ گئے اور لوگوں نے بیعت کرنا شروع کردی۔( ارشاد 1 ص 257 ، الجمل 407 روایت حارث بن سریع)۔
580۔ امام زین العابدین (ع) ! میں مروان بن الحکم کے یہاں گیا تو کہنے لگا کہ میں نے تمھارے دادا سے زیادہ کریم کوئی انسان نہیں دیکھا کہ انھیں روز جمل ہم پر غلبہ حاصل ہوگیا لیکن انھوں نے منادی کرادی کہ خبردار کسی بھاگئے والے کو قتل نہ کیا جائے اور کسی زخمی کا خاتمہ نہ کیا جائے۔( السنن الکبریٰ 8 ص 214 / 46 167 روایت ابراہیم بن محمد عن الصادق (ع) ، المبسوط ص 264 عن الصادق (ع))۔
581۔ ابن ابی الحدید ! امیر المومنین (ع) حلم و درگذر کے معاملہ میں تمام لوگوں سے زیادہ معاف کرنے والے اور حلیم تھے جس کا صحیح مظاہرہ روز جمل ہوا ہے جب آپ نے مروان بن الحکم پر قابو حاصل کرلیا جو آپ کا شدیدترین اور بدترین دشمن تھا لیکن اس کے باوجود اسے چھوڑ دیا۔
یہی حال عبداللہ بن زبیر کا تھا کہ برملا آپ کو گالیاں دیا کرتا تھا اور روز جمل بھی اپنے خطبہ میں آپ کو لئیم اور ذلیل جیسیا الفاظ سے یاد کیا تھا اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک یہ بدبخت جو ان نہیں ہوا زبیر ہمارے ساتھ تھا اور اس کے بعد اس نے گمراہ کردیا، لیکن اس کے باجود جب قبضہ میں آگیا تو اسے معاف کردیا اور فرمایا کہ میرے سامنے سے ہٹ جاو، میں تجھے دیکھنا نہیں چاہتاہوں۔
یہی کیفیت جمل کے بعد سعید بن العاص کی تھی کہ جب وہ مکہ میں پکڑا گیا تو سخت ترین دشمن ہونے کے باوجود آپ نے کچھ نہیں کہا اورا سے نظر انداز کردیا، پھر عائشہ کے بارے میں تو آپ کا سلوک بالکل واضح ہے کہ آپ نے انھیں بیس عورتوں کے ساتھ مدینہ واپس کردیا اور عورتوں کو سپاہیوں کا لباس پنھا دیا اور تلواریں ساتھ کردیں، لیکن آپ راستہ میں بھی تنقید کرتی رہیں کہ ہمیں مردوں کے لشکر کے حوالہ کردیا، یہ تو جب مدینہ پہنچ کر ان عورتوں نے فوجی لباس اتارا تو عائشہ کو علی (ع) کے کرم کا اندازہ ہوا اور شرمندہ ہوگئیں۔
خود اہل بصرہ نے آپ سے جنگ کی ، آپ کو اور آپ کی اولاد کو تلواروں کا نشانہ بنایا لیکن جب آپ نے فتح حاصل کرلی تو تلوار نہیں اٹھائی اور اعلان عام کرادیا کہ خبردار کسی بھاگتے ہوئے کا پیچھا نہ کیا جائے، کسی زخمی کو مارا نہ جائے، کسی قیدی کو قتل نہ کیا جائے اور جو اسلحہ رکھدے یا میرے لشکر کی پناہ میں آجائے اسے پناہ دیدی جائے، مال غنیمت پر قبضہ نہ کیا جائے، بچوں کو اسیر نہ کیا جائے، حالانکہ آپ کو یہ سب کچھ کرنے کا حق اور اختیار حاصل تھا لیکن آپ نے عفو و درگذر کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کیا اور روز فتح مکہ پیغمبر اسلام کی سیرت کو زندہ کردیا کہ آپ نے بھی عفو و درگذر سے کام لیا تھا حالانکہ عداوتیں سرد نہیں ہوئی تھیں اور زیادتیاں بھلائی نہیں جاسکی تھیں۔( شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید 1 ص 22 /23)۔
582۔ امام حسن (ع)! ابن ملجم کو گرفتار کرکے امیر المومنین (ع) کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کے باقاعدہ کھانے اور آرام کرنے کا انتظام کیا جائے اس کے بعد میں زندہ رہ گیا تو میں خود صاحب اختیار ہوں چاہے معاف کروں یا بدلہ لوں / لیکن اگر میں نہ بچ سکا تو اسے بھی میرے پاس پہنچا دینا تا کہ خدا کی بارگاہ میں فیصلہ کرایا جاسکے۔( اسدالغابہ 4 ص 113، تاریخ دمشق حالات امام علی 3 ص 300 /1400 ، روایت محمد بن سعد، انساب الاشراف 2 ص495 /529 ، الامامة والسیاسة 1 ص 181۔
583 ۔ امام باقر (ع) ! حضرت علی (ع) نے زخمی ہونے کے بعد ابن ملجم کے بارے میں فرمایا کہ اس کے کھانے پینے کا انتظام کرو اور اچھا برتاؤ کرو ، اس کے بعد میں زندہ رہ گیا تو میں اپنے خون کا حقدار ہوں چاہے معاف کروں یا بدلہ لوں اور اگر نہ رہ گیا اور تم نے اسے قتل کردیا تو خبر دار لاش کے ٹکڑے ٹکرے نہ کرنا ۔( السنن الکبریٰ 8 ص 317 /16759 روایت ابراہیم بن محمد عن الصادق ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 3 ص 297 /1398 ، روایت ابن عیاض ، استیعاب 3 ص219 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 213 ، الجعفریات ص 53 ، قرب الاسناد ص 143 /515 روایت ابوالبختری عن الصادق (ع))۔
584۔ روایت میں وارد ہواہے کہ امام حسن (ع) کے ایک غلام نے کوئی قابل سزا عمل انجام دیا تو آپ نے اسے مارنے کا حکم دیدیا، اس نے فوراً آیت شریفہ پڑھی ” والکاظمین الغیظ‘ صاحبان تقویٰ غصہ کو پی جاتے ہیں؟
فرمایا میں نے ضبط کرلیا، اس نے کہا” والعافین عن الناس“ اور لوگوں کی غلطیوں کو معاف کردیتے ہیں، فرمایا میں نے معاف کردیا۔
اس نے تیسرا ٹکڑا پڑھ دیا،” واللہ یحب المحسنین“ اور اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتاہے؟ فرمایا کہ میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کردیا اور پہلے سے دگنا مال بھی دے رہاہوں۔(الفرج بعد الشسدة 1 ص101)۔
585۔ روز عاشور حر بن یزید نے امام حسین (ع) کی خدمت میں آکر عرض کی ، خدا مجھے آپ کا فدیہ بنادے، فرزند رسول ! میں وہی شخص ہوں جس نے آپ کا راستہ روکا تھا اور آپ کو ساتھ لے کر آیا تھا اور اس صحرائے بلاء میں روک دیا تھا، خدائے وحدہ لاشریک کی قسم مجھے نہیں معلوم تھا کہ قوم آپ کے مطالبہ کو ٹھکرادے گی ، خیر ، اب میں اپنے گناہوں کی توبہ کے لئے حاضر ہوا ہوں اور آپ کے سامنے قربان ہونا چاہتاہوں۔
فرمائیے کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ فرمایا بیشک خدا توبہ کا قبول کرنے والاہے اور معاف کرنے والاہے، تیرا نام کیا ہے؟ حر نے کہا میں حر بن یزید ہوں ! … فرمایا تو واقعاً حر ہے جس طرح تیری ماں نے تیرا نام رکھاہے، واللہ تو دنیا و آخرت دونوں میں آزاد ہے! اب گھوڑے سے اتر آؤ، حر نے عرض کی کہ حضور اب اسی طرح جہاد کی اجازت دیدیں در اترنے کے لئے نہ فرمائیں یہاں تک کہ گھوڑے سے گرایا جاؤں۔
آپ نے فرمایا تمھیں اختیار ہے، جو چاہو کرو خدا تم پر رحمت نازل کرے گا۔( تاریخ طبری 5 ص 427 ، اعلام الوریٰ ص 239)۔
586۔ عبداللہ بن محمد ! میں نے عبدالرزاق کو یہ کہتے سناہے کہ امام ” زین العابدین (ع) “ وضو کی تیاری میں تھے اور ایک کنیز پانی انڈیل رہی تھی کہ لوٹا اس کے ہاتھ سے گرگیا اور حضرت کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا ، آپ نے سر اٹھاکر اس کی طرف دیکھنا چاہا، اس نے فوراً قرآن مجید کے اس کلمہ کی تلاوت کردی ” والکاظمین الغیظ“ … فرمایا میں نے غصہ کو ضبط کرلیا۔
اس نے دوسرا ٹکڑا پڑھا ” والعافین عن الناس“ … فرمایا میں نے تجھے معاف کردیا۔
اس نے کہا ” واللہ یحب المحسنین“ … فرمایا کہ جا میں نے تجھے راہ خدا میں آزاد کردیا۔
(تاریخ دمشق حالات امام زین العابدین (ع) 58 / 89 ، امالی صدوق (ر) 168 / 12 ، ارشاد 2 ص 146 ، مجمع البیان 2 ص 838 ، اعلام الوریٰ ص 256، کشف الغمہ 2 ص 299 روایت زہری ، شرح الاخبار 3 ص 259 /1161 ، روضة الواعظین ص 220 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 157)۔
سیرت عبادت اہلبیت (ع)
1۔ اخلاص عبادت
587۔ امام علی (ع) ! خدایا میں نے تیری عبادت نہ تیری جنت کی طمع میں کی ہے اور نہ تیرے جہنم کے خوف سے … بلکہ تجھے عبادت کا اہل پایا ہے تو تیری عبادت کی ہے۔( عوالی اللئالی 1 ص 404/63۔2 ص11/18،شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی 5 ص361 ، شرح مأتہ کلمہ ص 235)۔
واضح رہے کہ شرح نہج میں الفاظ اس طرح نقل ہوتے ہیں” ما عبدتک خوفا من عقابک ولا طمعاً فی ثوابک…“۔
588۔ امام علی (ع) ! ایک قوم نے اللہ کی عبادت رغبت کی بناپر کی ہے اور یہ تاجروں کی عبادت ہے، دوسری قوم نے خوف کی بناپر کی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے اور ایک قوم نے اس کی عبادت شکر نعمت کی بنیاد پر کی ہے، یہی آزاد اور شریف لوگوں کی عبادت ہے۔( نہج البلاغہ حکمت 237، تحف العقول ص 246 عن الحسین (ع) ، تاریخ دمشق حالات امام زین العابدین (ع) ص 111 /141 ، حلیة الاولیاء ص 134، روایت ابراہیم علوی از امام صادق (ع)۔
589 ۔ امام صادق (ع) ! عبادت گذاروں کی تین قسمیں ہیں، ایک قوم نے خوف کی بنیاد پر عبادت کی ہے تو یہ غلاموں کی عبادت ہے اور ایک قوم نے ثواب کی خواہش میں عبادت کی ہے تو یہ مزدوروں کی عبادت ہے۔ البتہ ایک قوم نے اس کی محبت میں عبادت کی ہے اور یہی آزاد مردوں کی عبادت ہے اور یہی بہترین عبادت ہے۔( کافی 2 ص 84 /5 روایت ہارون بن خارجہ)۔
590۔ امام زین العابدین (ع) ! مجھے یہ بات سخت ناپسند ہے کہ خدا کی عبادت کروں اور اس کا مقصد ثواب کے علاوہ کچھ نہ ہو اور اس طرح ایک لالچی بندہ بن جاؤں کے اسے طمع ہو تو عبادت کرے اور نہ ہو تو نہ کرے اور یہ بھی ناپسند ہے کہ میرا محرک صرف عذاب کا خوف ہو اور اس طرح بدترین بندہ بن جاؤں کہ خوف نہ ہو تو کام ہی نہ کرے۔
کسی نے دریافت کیا پھر آپ کیوں عبادت کرتے ہیں؟ فرمایا اس لئے کہ وہ اہل ہے اور اس کے انعامات میری گردن پر ہیں۔(تفسیر منسوب بہ امام عسکری (ع) ص 328 /180)۔
2۔ مشقت عبادت
591۔ امام محمد باقر (ع) ! رسول اکرم عائشہ کے حجرہ میں تھے تو انھوں نے کہا کہ آپ اس قدر زحمت عبادت کیوں برداشت کرتے ہیں جبکہ خدا نے آپ کے تمام گناہوں کو بخش دیا ہے ؟ فرمایا کیا میں خدا کا بندہٴ شکر گذار نہ بنوں !۔
آپ پنچوں کے بھل کھڑے رہتے تھے یہاں تک کہ پروردگار نے سورہٴ طہ نازل فرمایا کہ ” ہم نے قرآن اس لئے نہیں نازل کیا ہے کہ آپ مشقت میں پڑجائیں۔( کافی 2 ص 95 /2 روایت ابوبصیر، احتجاج 1 ص 520)۔
592۔ عائشہ ! رسول اکرم را توں کو اس قدر قیام فرماتے تھے کہ پیر پھٹنے لگتے تھے تو میں نے عرض کی کہ آپ اس قدر زحمت کیوں کرتے ہیں جبکہ خدا نے آپ کے تمام اول و آخر گناہ معاف کردیئے ہیں؟ فرمایا کیا میں بندہ شکر گذار بننا پسند نہ کروں۔( بخاری 4 ص 1830 / 3557 ، مسلم 4 ص 2172، 2820، صحیح بخاری 1ص 380 /1078 ، ص 2375 /8106 ، 4/1830 /4586 ، صحیح مسلم 4 ص 2171 / 2819 ، سنن ترمذی 2 ص 268 ، 412 ، سنن ابن ماجہ 1 ص 456 / 1419 ، سنن نسائی 3 ص 219 ، مسند ابن حنبل 6 ص 348 / 18366 ، الزہد ابن المبارک 35 / 4731 روایت مغیرہ تاریخ بغداد 4 ص 231 روایت انس 7 ، ص 265 روایت ابوجحیفہ، فتح الابواب ص 170 روایت زہری)۔
593 ۔ بکر بن عبداللہ ! عمر بن الخطاب پیغمبر اسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے جب حضرت بیمار تھے اور کہنے لگے کہ آپ کس قدر اپنے کو تھکاتے ہیں؟ فرمایا مجھے کون سی چیز مانع ہے کل شب میں تیس سوروں کی تلاوت کی ہے جن میں سور طوال بھی شامل تھے۔
کہنے لگے کہ خدا نے آپ کے تمام گناہوں کو معاف کردیا ہے اس کے بعد بھی اس قدر زحمت کرتے ہیں؟ فرمایا کیا میں خدا کا بندہ شکر گذار نہ بنوں۔( امالی طوسی (ر) ص403 /903)۔ 594۔ امام صادق (ع)! رسول اکرم مستحب نمازیں فرض نمازوں سے دوگنی ادا کیا کرتے تھے۔( کافی 3 ص 443/3 ،تہذیب 2 ص 4 /3 ، استبصار 1 ص 218 / 7703 روایت فضیل بن یسار و فضل بن عبدالملک و بکیر)۔
595۔ عائشہ ! رسول اکرم لمبی راتوں میں بھی کبھی کھڑے ہوکر نمازیں پڑھتے تھے اور کبھی بیٹھ کر ۔( صحیح مسلم 1 ص 504 / 105 ، سنن ترمذی 2 ص 23 /3751 سنن ابن ماجہ 1 ص 388 /1228 ، سنن نسائی 3 ص 219 ، مسند ابن حنبل 9 ص 393 /24723 ص 397 / 24743 ، مستدرک 1 ص 397 /976)۔
596۔ عائشہ ! آیت کریمہ ”قم اللیل الا قلیلا“ کے نازل ہونے سے پہلے رسول اکرم بہت ہی کم آرام فرماتے تھے۔( مسند ابویعلی 4 ص466 / 4918 ) ۔
597۔ عائشہ ! رسول اکرم ہر حال میں ذکر خدا کرتے رہتے تھے۔( صحیح مسلم 1 ص 282 /117 ، سنن ترمذی 5 ص 463 /3384، سنن ابی داؤد 1 ص 5 /18)۔
598 ۔ اام علی (ع) ! فاطمہ (ع) نے رسول اکرم سے خادمہ کا مطالبہ کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس سے بڑی شے بتاسکتاہوں اور وہ یہ ہے کہ سوتے وقت 34 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمدللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر( دن بھر کی تمام تھکن دور ہوجائے گی) جس کے بعد میں نے کبھی اس تسبیح کو ترک نہیں کیا۔
ایک شخص نے کہا کہ صفین کی رات بھی ؟ فرمایا ہاں صفین کی رات بھی۔) صحیح بخاری 5 ص 2041 /5044 ، صحیح مسلم 4 ص 2091 / 2727 ، مسند الحمیدی 1 ص 24 / 43 ، تاریخ بغداد 3 ص 24 روایات عبدالرحمان بن ابی لیلیٰ ، مسند احمد 1 ص 332 / 1312 روایت ابن اعبد)۔
599۔ عروة بن الزبیر ! ہم سب مسجد پیغمبر میں بیٹھے ہوئے اصحاب بدر و بیعت رضوان کے بارے میں گفتگو کررہے تھے تو ابن درداء نے کہا کہ کیا میں تم لوگوں کو ایک ایسے شخص کے بارے میں بتاؤں جو ساری قوم میں مال کے اعتبار سے سب سے کمزور ، تقویٰ میں سب سے طاقتور اور عبادت میں سب سے زیادہ رحمت کرنے والا تھا، لوگوں نے کہا کہ یہ کون ہے؟ کہا علی (ع) بن ابی طالب (امالی الصدوق (ر) 72/9 ، روضة الواعظین ص 125 مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 124)۔
600۔ حبّہ عرفی ! ہم نوف و حبة القصر میں سورہے تھے کہ اچانک دیکھا امیرالمومنین (ع) دیوار پر ہاتھ رکھے رات کے سناٹے میں ان فی خلق السماوات والارض … کی تلاوت کررہے ہیں اور اس کے بعد اسی عالم استغراق میں میری طرف رخ کرکے فرمایا کہ حبہ ! جاگ رہے ہویا سورہے ہو؟
میں نے عرض کی کہ میں تو جاگ رہاہوں لیکن جب آپ کی بیقراری کا یہ عالم ہے تو ہم گنہگاروں کا کیا حال ہوگا؟ یہ سن کر آپ نے زار و قطار رونا شروع کردیا، اور فرمایا کہ حبہ ! دیکھو ہمیں بھی پروردگار کے سامنے کھڑا ہوناہے اور اس سے کسی شخص کے اعمال پوشیدہ نہیں ہیں، وہ ہم سے اور تم سے رگ گردن سے زیادہ قریب تر ہے اور کوئی شے ہمارے اور اس کے درمیان حائل نہیں ہوسکتی ہے۔
اس کے بعد نوف کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ تم سورہے ہو یا جاک رہے ہو؟ نوف نے عرض کی یا امیر المومنین (ع) ! ویسے تو میں بیدار ہوں لیکن آج کی شب آپ نے بہت رلایا، فرمایا ۔ نوف ! اگر اس شب میں تمھارا اگر یہ خوف خدا سے تھا توکل روز قیامت تمھاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں گی۔
نوف ! یاد رکھو خوف خدا میں جو ایک قطرہٴ اشک آنکھوں سے نکل آتاہے وہ جہنم کی آگ کے دریاؤں کو بجھا سکتاہے، پروردگار کی نگاہ میں اس سے عظیم تر کوئی انسان نہیں ہے جو روئے تو خوف خدامیں روئے اور محبت یا دشمنی کرے تو وہ بھی خدا کے لئے کرے، دیکھو جو خدا کے لئے محبت کرتاہے وہ اس کی محبت پر کسی محبت کو مقدم نہیں کرتاہے اور جو برائے خدا دشمنی کرتاہے اس کے دشمن کے لئے کوئی خیر نہیں ہے، اور ایسی ہی محبت اور عداوت سے انسان کاایمان کامل ہوتاہے۔
اس کے بعد حضرت نے دونوں افراد کو موعظہ فرمایا اور آخر میں فرمایا کہ اللہ کی طرف سے ہوشیار رہنا کہ میں نے تمھیں ہوشیار کردیاہے، اس کے بعد یہ مناجات کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے کہ خدایا کاش مجھے معلوم ہوتا کہ غفلتوں کی حالت میں بھی تیری نگاہ کرم رہتی ہے یا تو منھ پھیر لیتاہے؟ اور کاش مجھے یہ اندازہ ہوتا کہ اس طویل نیند اور قلیل شکر کے بعد بھی تو نعمتیں عطا فرمارہاہے تو اب میرا کیا حال ہونے والاہے۔
اس کے بعد اسی عالم میں آپ فریاد کرتے رہے یہاں تک طلوع فجر کا وقت آگیا۔(فلاح السائل ص 266)۔
601۔ ابوصالح ! ضرار بن ضمرہ کنانی معاویہ کے دربار میں وارد ہوئے تو اس نے کہا کہ ذرا علی (ع) کے اوصافت تو بیان کرو؟ ضرار نے کہا مسلمانوں کے امیر ! مجھے معاف کردے تو بہتر ہے، معاویہ نے کہا ہرگز نہیں ۔!
ضرار نے کہا کہ اگر بیان ضروری ہے تو سن ! خدا گواہ ہے کہ میں نے بعض اوقات اندھیری رات میں جب ستارے ڈوب چکے تھے یہ دیکھا ہے کہ علی (ع) محراب عبادت میں داڑھی پر ہاتھ رکھے ہوئے یوں تڑپ رہے تھے جس طرح مارگزیدہ تڑپتاہے اور پھر بیقراری کے ساتھ گریہ کررہے تھے۔
ایسا لگتاہے کہ میں اس وقت بھی یہ منظر دیکھ رہاہوں کہ وہ پروردگار کو روروکر پکار رہے ہیں اور پھر دنیا کو خطاب کرکے کہہ رہے ہیں … اے دنیا ! تیرا رخ میری طرف کیوں ہوگیا ہے، افسوس کہ تو بلاوجہ زحمت کررہی ہے، جاکسی اور کو دھوکہ دینا ، میں تجھے تین بار ٹھکرا چکاہوں تیری عمر بہت مختصر ہے اور تیری منزل بہت حقیر ہے اور تیرا خطرہ بہت عظیم ہے، آہ ، آہ ! زاد سفر کس قدر کم ہے اور سفر کس قدر طولانی ہے اور راستہ بھی کس قدر وحشتناک ہے“۔
یہ سن کر معاویہ کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہوگئے اور اس نے آستینوں سے آنسؤوں کو پونچھنا شروع کردیا اور سارے دربار پر گریہ طاری ہوگیا اور معاویہ نے کہا کہ یقینا ابوالحسن (ع) ایسے ہی تھے۔
ضراراب علی (ع) کے بعد تمھارا کیا حال ہے ! ضرار نے کہا کہ جیسے کسی ماں کا بچہ اس کی گود میں ذبح کردیا جائے کہ نہ اس کے آنسو رک سکتے ہیں اور نہ اس کے دل کو سکون مل سکتاہے، یہ کہہ کر اٹھے اور باہر نکل گئے ۔( حلیة الاولیاء 1 ص 84 ، الصواعق المحرقہ ص 131 ، مروج الذہب 2 ص 433 ، الاستیعاب 3 ص 209 ، خصائص الائمہ ص 70 ، کنز الفوائد 2 ص 103 ، مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 103 ، نہج البلاغہ حکمت ص 77 الفصول المہمہ ص 127)۔
602۔امام حسن (ع) ! میں نے اپنی مادر گرامی کو دیکھاہے کہ شب جمعہ محراب عبادت میں مصروف رکوع و سجود رہیں یہاں تک کہ فجر طالع ہوگئی اور یہ سنا کہ آپ مسلسل مومنین اور مومنات کے حق میں نام بنام دعا کرتی رہیں اور ایک حرف دعا بھی اپنے حق میں نہیں کہا۔
میں نے عرض کی کہ مادر گرامی ! آپ دوسروں کے حق میں دعا کرتی ہیں، اپنے واسطے کیوں دعا نہیں کرتی ہیں ؟ فرمایا بیٹا، پہلے ہمسایہ اس کے بعد اپنا گھر ۔( دلائل الامامة 152 /65 ، علل الشرائع 181 /1 ، کشف الغمہ 2 ص 94 ، ضیافة الاخوان ص 265 روایت فاطمہ صغری)۔
603۔ حسن بصری ! اس امت میں فاطمہ زہرا سے زیادہ عبادت گذار کوئی نہیں گذرا ہے، وہ رابت بھی مصلیٰ پر کھڑی رہتی تھیں یہاں تک کہ پیروں پر ورم آجاتا تھا ۔( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 341 ، ربیع الابرار 2 ص 104)۔
604۔ عبداللہ بن زبیر نے شہادت امام حسین (ع) کی خبر سن کر یہ کلمات زبان پر جاری کئے، خدا کی قسم تم نے اسے مارا ہے جو راتوں کو اکثر قیام کیا کرتا تھا اور دنوں میں اکثر روزے رکھا کرتا تھا۔( تاریخ طبری 5 ص 375 ، مقتل ابومخنف ص 247 روایت عبدالملک بن نوفل)۔
605۔ امام زین العابدین (ع) سے دریافت کیا گیا کہ آپ کے والد محترم کی اولاد اس قدر کم کیوں ہے؟ فرمایا مجھے تو اتنی اولاد پر بھی تعجب ہے کہ رات دن میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کیا کرتے تھے تو انھیں گھر والوں کے ساتھ رہنے کا موقع کب ملتا تھا۔( تاریخ یعقوبی 2ص 247 ، العقدالفرید 2 ص 243 ، فلاح السائل ص 269)۔
606 ۔ امام صادق (ع)! حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) عبادات میں بے حد زحمت برداشت کیا کرتے تھے، دنوں میں روزہ رکھتے تھے اور راتوں میں نمازیں پڑھا کرتے تھے یہاں تک کہ بیمار ہوگئے تو میں نے عرض کی بابا ! کب تک یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا ؟ فرمایا میں اپنے پروردگار سے قربت چاہتاہوں شائد وہ اس طرح اپنی بارگاہ میں جگہ دیدے۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 155 روایت معتب)۔
607۔ امام صادق (ع) ، حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) جب حضرت علی (ع) کی کتاب کا مطالعہ فرماتے تھے اور ان کی عبادتوں کا ذکر دیکھتے تھے تو فرماتے تھے کہ اس قدر عمل کون کر سکتاہے ، یہ کس کے بس کی بات ہے، اس کے بعد پھر عمل شروع کردیتے تھے ، مصلیٰ پر نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا اور واضح طور پر اثرات ظاہر ہونے لگتے تھے اور امیر المومنین (ع) جیسی عبادت ان کے گھرانہ میں بھی حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) کے علاوہ کوئی نہیں کرسکا۔( کافی 8 ص 163 / 172 روایت سلمہ بیّاع السابری)۔
608۔ عمرو بن عبداللہ بن ہند الجملی ، امام محمد (ع) باقر سے رایت کرتے ہیں کہ جب جناب فاطمہ بنت علی (ع) نے اپنے بھتیجے زین العابدین (ع) کو اس شدت اور کثرت سے عبادت کرتے دیکھا تو جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حزام انصاری کے پاس آئیں اور فرمایا کہ تم صحابی رسول ہو، ہمارے تمھارے اوپر حقوق ہیں اور ان میں سے ایک حق یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کو زحمت و مشقت سے ہلاکت ہوتے دیکھو تو اس کی زنگی کا بند وبست کرو، دیکھو یہ علی (ع) بن الحسین (ع) جو اپنے باپ کی تنہا یادگار ہیں، اس قدر عبادت کررہے ہیں کہ پیشانی ، ہتھیلی اور گھٹنوں پر گھٹے پڑگئے ہیں اور اس کے بعد بھی مسلسل نمازیں پڑھتے چلے جارہے ہیں ؟
جابر بن عبداللہ یہ سن کر امام زین العابدین (ع) کے دروازہ پر آئے اور وہاں امام (ع) باقر کوبنئ ہاشم کے نوجوانوں کے ساتھ دیکھا ، جابر نے انھیں آگے بڑھتے دیکھا تو کہا کہ واللہ یہ بالکل رسول اکرم کی رفتار ہے۔ اور پوچھا کہ فرزند آپ کون ہیں؟
فرمایا میں محمد ! بن علی (ع) بن الحسین (ع) ہوں ! یہ سن جابر رونے لگے اور کہا کہ واللہ آپ ہی علوم کی باریکیاں ظاہر کرنے والے باقر (ع) ہیں، ذرا میرے قریب آئیے میرے ماں باپ آپ پر قربان ! حضرت آگے بڑھے، جابر نے بند پیراہن کھولے، سینہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر سینہ مبارک کو بوسہ دیا اور اپنا رخسار اور چہرہ جسم مبارک سے مس کیا اور کہا کہ میں آپ کو آپ کے جد رسول اکرم کا سلام پہنچا رہاہوں اور میں نے وہی سب کچھ کیا ہے جس کا حضرت نے مجھے حکم دیا تھا اور فرمایا تھا کہ تم اس دنیا میں اس وقت تک زندہ رہوگے کہ میرے ایک فرزند محمد سے ملاقات کروگے جو علمی موشگافیاں کرنے والا ہوگا… اور دیکھو تم نابینا ہوجاؤگے تو وہ تمھاری بصارت کا انتظام کردے گا۔
یہ کہہ کر امام سجاد (ع) کی خدمت میں حاضر ی کی درخواست کی ، آپ گھر کے اندر گئے اور بابا کو اطلاع دی کہ ایک بزرگ دروازہ پر ہیں اور انھوں نے میری ساتھ اس اندازہ کا برتاؤ کیا ہے، فرمایا فرزند یہ جابر بن عبداللہ ہیں اور یہ سارے اعمال کیا انھوں نے خاندان کے بچوں کے سامنے انجام دیئے ہیں اور یہ ساری باتیں سب کے سامنے کی ہیں …؟ عرض کی جی ہاں … فرمایا انا للہ … انھوں نے کوئی برا قصد نہیں کیا لیکن تمھاری زندگی کو خطرہ میں ڈال دیا۔
اس کے بعد جابر کو داخلہ کی اجازت دیدی اور جب جابر گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ آپ محراب عبادت میں ہیں اور جسم انتہائی لاغر ہوچکا ہے آپ نے اٹھ کر نحیف آواز میں جابر سے خیریت دریافت کی اور اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔
جابر نے گزارش شروع کی، فرزند رسول ! کیا آپ کو نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے جنت کو آپ ہی حضرات کے لئے خلق کیا ہے اور جہنم کو آپ کے دشمنوں ہی کے لئے بنایاہے تو آخر اس قدر زحمت کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
فرمایا اے صحابی رسول ! کیا آپ کو نہیں معلوم ہے کہ پروردگار نے میرے جد رسول اکرم کے جملہ محاسبات کو بخش دیا تھا لیکن اس کے بعد بھی انھوں نے عبادت کی مشقت کو نظر انداز نہیں کیا اور اس قدر عبادت کی کہ پیروں پر ورم آگیا اور جب ان سے یہی گزارش کی گئی کہ آپ کو عبادت کی کیا ضرورت ہے ؟ تو فرمایا کہ کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گذار بندہ نہ بنوں؟ جابر نے جب یہ دیکھا کہ حضرت زین العابدین (ع) پر میری بات کا اثر ہونے والانہیں ہے اور وہ عبادات میں تخفیف کرنے والے نہیں ہیں تو عرض کی کہ فرزند رسول ! اپنی زندگی کا خیال رکھیں کہ آپ ہی حضرات کے ذریعہ امت کی بلائین دفع ہوتی ہے ، مصیبتوں سے نجات ملتی ہے آسمان سے بارش ہوتی ہے؟
فرمایا ، جابر ؟ میں اس وقت تک اپنے اب وجد کے راستہ پر گامزن رہوں گا جب تک مالک کی بارگاہ میں نہ پہنچ جاؤں ! جابر نے حاضرین کی طرف رخ کرکے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے اولاد انبیاء میں یوسف بن یعقوب کے علاوہ علی (ع) بن الحسین (ع) جیسا کوئی انسان نہیں دیکھا ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ علی (ع) بن الحسین (ع) کی ذریت یوسف کی ذریت سے کہیں زیادہ بہتر ہے، بلکہ ان میں تو ایک وہ بھی ہوگا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا ہے، بلکہ ان میں تو ایک وہ بھی ہوگا جو زمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا (امالی طوسی (ر) ص 236 / 1314 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 148 ، بشارة المصطفیٰ ص 66)۔
609۔ امام (ع) صادق ! میرے پدر بزرگوار تاریکی شب میں نمازیں پڑھتے پڑھتے جب سجدہ میں طول دیتے تھے تو ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے نیند آگئی ہو۔( قرب الاسناد 5 ص 15 روایت مسعدہ بن صدقہ)
610۔ امام صادق (ع) ! میں پدر بزرگوار کے لئے بستر بچھاکر انتظار کیا کرتا تھا اور جب وہ آرام فرمالیتے تھے تو میں اپنے بستر پر جاتا تھا، ایک شب میں انتظار کرتا رہا اور جب دیر ہوگئی تو آپ کی تلاش میں مسجد کی طرف گیا ، دیکھا کہ آپ تنہا مسجد میں سجدہٴ پروردگار میں پڑے ہیں اور نہایت کرب کے عالم میں مناجات کررہے ہیں ” خدا یا تو مالک بے نیاز ہے اور یقیناً میرا پروردگار ہے، میں نے یہ سجدہ تیری بندگی اور عبدیت کے اقرار کے لئے کیا ہے، خدایا میرا عمل بہت کمزور ہے اب تو ہی اسے مضاعف کردے، خدایا اس دن کے عذاب سے محفوظ رکھنا جس دن تمام بندوں کو قبروں سے نکالا جائیگا اور میری توبہ کو قبول کرلینا کہ توبہ کا قبول کرنے والا اور بڑا مہربان ہے۔( کافی 3 ص 333/9 از اسحاق بن عمار)۔
611۔ امام صادق (ع) میرے والد بزرگوار بہت زیادہ ذکر خدا کیا کرتے تھے اور میں جب بھی ان کے ساتھ چلتا تھا یا کھانا کھاتا تھا تو انھیں ذکر خدا کرتے ہی دیکھتا تھا، حدیہ ہے کہ لوگوں سے گفتگو بھی آپ کو ذکر خدا سے غافل نہیں بناسکتی تھی، میں اکثر اوقات دیکھتا تھا کہ زبان تالو سے چپک جاتی تھی اور لا الہ الا اللہ کہتے رہتے تھے، ہم سب کو جمع کرکے طلوع آفتاب تک ذکر خدا کا حکم دیا کرتے تھے اور جو قرآن پڑھ سکتا تھا اسے تلاوت کا حکم دیتے تھے ورنہ ذکر خدا کا امر فرمایا کرتے تھے۔( کافی 2 ص 499 / 1 از ابن القداح)۔
612۔ یحیٰ العلوی ! حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) کو ان کی کثرت عبادت کی بناپر عبد صالح کہا جاتا تھا اور ہمارے بعض اصحاب کا بیان ہے کہ انھوں نے مسجد پیغمبر میں جاکر اول شب میں سجدہ شروع کیا اور اس میں یہ مناجات شروع کی کہ خدایا تیرے بندہ کا گناہ عظیم ہے تو تیری معافی کو بھی عظیم ہونا چاہیئے۔ اے صاحب تقویٰ ، اے صاحب مغفرت ! اور اس طرح صبح تک دہراتے رہے۔(تاریخ بغداد 13 ص 27)۔
613۔ حفص ! میں نے حضرت موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) سے زیادہ نہ خدا کا خوف رکھنے والا دیکھا ہے اور نہ اس کی رحمت کا امیدوار دیکھاہے، آپ کی تلاوت کا انداز بھی حرتیہ ہوتا تھا اور اس طرح پڑھتے تھے جیسے کسی انسان سے باتیں کررہے ہو۔( کافی 2 ص 606 /10)۔
614۔ ثوبانی ! حضرت موسیٰ (ع) ابن جعفر (ع) چند سال تک اسی انداز سے عبادت کرتے رہے کہ طلوع آفتاب سے زوال تک سجدہ ہی میں رہا کرتے تھے یہاں تک کہ کبھی کبھی … بلندی پر جاکر قیدخانہ میں روشندان سے دیکھتا تھا تو آپ کو سجدہ میں پاتا تھا اور پوچھتا تھا کہ اے ربیع (داروغہ زندان) یہ کپڑا کیسا پڑا ہے؟ تو وہ کہتا تھا کہ امیر المومنین !یہ کپڑا نہیں ہے، یہ موسیٰ (ع) بن جعفر (ع) ہیں جو روزانہ طلوع آفتاب سے زوال تک سجدہ معبود میں پڑے رہتے ہیں۔
ہارون کہتا کہ بیشک یہ بنئ ہاشم کے راہبوں میں سے ہیں تو میں کہتا کہ پھر آپ نے انھیں اس تنگی زندان میں کیوں رکھاہے ؟ تو کہتا کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 95 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 318 از یونانی)۔
615۔ عبدالسلام بن صالح الہردی راوی ہے کہ میں مقام سرخس میں اس گھر تک پہنچا جہاں امام رضا (ع) کو قید رکھا گیا تھا اور میں نے نگرانِ زنداں سے اجازت چاہی تو اس نے کہا کہ اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔
میں نے کہا کیوں ؟ اس نے کہا کہ یہ دن رات میں ایک ہزار رکعت نماز پڑھتے ہیں اور صرف ایک ساعت ابتدائے روز میں اور وقت زوال اور نزدیک غروب نماز روک دیتے ہیں لیکن مصلیٰ پر بیٹھ کر ذکر خدا کرتے رہتے ہیں۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 183 / 6)۔
3 ۔ نماز اہلبیت (ع)
616۔ رسول اکرم ! میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کے اندر رکھی گئی ہے( تاریخ بغداد 12 ص 372 از انس بن مالک، المعجم الکبیر 20 / 1023 از مغیرہ)۔
617۔ عبداللہ بن مسعود ! رسول اکرم تمام ذکر کرنے والوں میں نمایاں ذکر کرنے والے تھے اور تمام نمازیوں میں سب سے زیادہ نماز ادا کرنے والے تھے۔( حلیة الاولیاء 7 ص 112 ، تاریخ بغداد 10 / 94)۔
618۔ فضالہ بن عبید ! رسول اکرم جب کسی منزل پر وارد ہوتے تھے یا گھر میں داخل ہوتے تھے تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔( حلیة الاولیاء 5 ص 148)۔
619۔ عائشہ ! رسول اکرم ہمارے ساتھ مصروف گفتگو رہتے تھے لیکن جیسے ہی نماز کا وقت آجاتا تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ہم میں کوئی جان پہچان ہی نہیں ہے۔( عدة الداعی ص 139 ، عوالی اللئالی 1 ص 324 /61)۔
620۔ مطرّف بن عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا ، دیکھا کہ آپ نماز پڑھ رہے ہیں اور شدت خوف خدا سے اس طرح لرز ہے جیسے پتیلی میں پانی کھول رہا ہو۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 299 ، خصال ص 283 ، احتجاج 1 ص 519 / 127 فلاح السائل ص 161)۔
621۔ جعفر بن علی القمی ، کتاب زہد النبی میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضور اکرم جب نماز کے لئے آمادہ ہوتے تھے تو اس طرح ساکت و ساکن نظر آتے تھے جیسے کوئی کپڑا زمین پر پڑا ہو۔( فلاح السائل ص 161)۔
622۔ جابر بن عبداللہ ! رسول اکرم کھانے یا کسی دوسرے کام کے لئے نماز میں ہرگز تاخیر نہیں فرماتے تھے۔( السنن الکبریٰ 3 ص 105 / 5043)۔
623۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم غروب آفتاب کے بعد نماز مغرب پر کسی کام کو مقدم نہیں فرماتے تھے۔( علل الشرائع ص 350 /5 تنبیہ الخواطر 2 ص 78)۔
624۔ مطرف بن عبداللہ بن الشخیر ! میں نے اور عمر ان بن حصین نے کوفہ میں حضرت علی (ع) کے ساتھ نماز پڑھی تو انھوں نے رکوع و سجود کے موقع پر اس انداز سے تکبیر کہی کہ مجھ سے عمران نے کہا کہ میں نے اس نماز سے زیادہ کوئی نماز رسول اکرم کی نماز سے مشابہ نہیں دیکھی ہے۔( مسند ابن حنبل 7ص 200 / 19881)۔
625۔ امام علی (ع) میدان صفین میں مسلسل جہاد فرمارہے تھے اور آپ کی نگاہیں طرف آفتاب تھیں، ابن عباس نے کہا کہ یا علی (ع) ! فرمایا کہ وقت نماز دیکھ رہاہوں تا کہ اول زوال نماز ادا کرلوں !
ابن عباس نے کہا کہ کیا یہ وقت نماز ہے جب کے گھمسان کارن پڑرہا ہے ؟ فرمایا کہ ہم کس چیز کے لئے جہاد کررہے ہیں ؟ ہمارا جہاد سی نماز کیلئے ہے۔( ارشاد القلوب ص 217)۔
626۔ امام صادق (ع)! امام علی (ع) جب رکوع فرماتے تھے تو اس قدر پسینہ جاری ہوتا تھا کہ زمین تر ہوجاتی تھی ۔( فلاح السائل ص109 از ابی الصباح)۔
627۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام علی (ع) پر جب وقت نماز آتا تھا تو چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا اور آپ کا نپنے لگتے تھے اور فرماتے تھے کہ اس امانت کو ادا کرنے کا وقت آگیا جسے زمین و آسمان اور پہاڑوں پر پیش کیا گیا تو اس کا بوجھ نہ اٹھاسکے اور انسان نے اٹھا لیا۔ اب خدا جانے میں نے اس کا حق ادا کردیا ہے یا نہیں۔( مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 124)۔
عوالی اللئالی 1 ص 324 / 63 ، احقاق الحق 18 ص4)۔
628۔ رسول اللہ ! میری بیٹئفاطمہ جب محراب عبادت میں خدا کے سامنے کھڑی ہوتی ہے تو اس کانور ملائکہ آسمان کے سامنے اسی طرح جلوہ گر ہوتاہے جس طرح ستاروں کا نور اہل زمین کے لئے، اور پروردگار ملائکہ سے فرماتاہے کہ دیکھو یہ میری کنیز فاطمہ (ع) میری تمام کنیزوں کی سردار میرے سامنے کھڑی ہے اور اس کا جوڑ جوڑ کانپ رہاہے اور وہ دل و جان سے میری عبادت کی طرف متوجہ ہے۔( امالی صدوق (ر) ص 100 / 2 ، الفضائل ابن شاذان ص 8 از ابن عباس)۔
629۔ ابن فہد الحلی ، جناب فاطمہ (ع) نماز میں خوف خدا سے کانپنے لگتی تھیں۔( عدة الداعی ص 139)۔
630۔ امام زین العابدین (ع) ! امام حسن (ع) بن علی (ع) اپنے دور میں سب سے زیادہ عابد، زاہد اور افضل تھے، پیادہ حج فرماتے تھے بلکہ بعض اوقات ننگے پیر چلتے تھے ، جب موت کو یاد کرتے تھے یا قبر کا ذکر کرتے تھے ، یا میدان حشر کا ذکر کرتے تھے، یا صراط پر گذرنے کا ذکر کرتے تھے یا خدا کی بارگاہ میں حاضری کا ذکر کرتے تھے تو اس قدر روتے تھے کہ بیہوش ہوجاتے تھے اور جب نماز میں کھڑے ہوتے تھے تو ایک ایک جوڑ کانپنے لگتا تھا اور جنت و جہنم کا ذکر کرتے تھے اور جہنم سے پناہ مانگتے تھے کتاب خدا میں کسی بھی ” یا ایہا الذین امنوا“ کی تلاوت کرتے تھے تو کہتے تھے ” لبیک اللہم لبیک“ اور ہر حال میں ہمیشہ ذکر خدا میں مصروف نظر آتے تھے۔( امالی الصدوق (ر) 150/8، فلاح السائل ص 268 ، عدة الداعی ص 123 روایت مفضل عن الصادق (ع) )۔
631۔ امام زین العابدین (ع)! امام حسن (ع) نماز پڑھ رہے تھے، ایک شخص آپ کے سامنے سے گذر گیا تو بعض لوگوں نے اسے ٹوک دیا ، نماز تمام کرنے کے بعد آپ نے دریافت کیا کہ تم نے کیوں ٹوکا؟اس نے کہا کہ یہ آپ کے اور محراب کے درمیان حائل ہوگیا تھا، فرمایا افسوس ہے تیرے حال پر بھلا میرے اور خدا کے درمیان کوئی حائل ہوسکتاہے جو رگ گردن سے زیادہ قریب ہے۔( التوحید ص184 / 22 از منیف عن الصادق (ع))۔
632۔ اما م حسین (ع) جب وضو کرتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ بدل جاتا تھا اور جوڑ بند کانپنے لگتے تھے ، کسی نے دریافت کیا ہے کہ ایسا کیوں ہوتاہے؟ تو فرمایا کہ جوشخص خدائے جبار کے سامنے کھڑا ہوا اس کا حق ہے کہ اس کا رنگ زرد ہوجائے اور اس کے جوڑ بند کانپنے لگیں۔( جامع الاخبار ص 166 / 397 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 14 رویات فتال، مناقب میں یہ روایت امام حسن (ع) کے بارے میں وارد ہوئی ہے)۔
633۔امام باقر (ع)! میرے پدر بزرگوار امام علی (ع) بن الحسین (ع) کے لئے جب وقت نماز آتا تھا تو آپ کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے اور چہرہ کا رنگ زرد ہوجاتا تھا اور جوڑ بند کانپنے لگتے تھے، آنسؤوں کا ایک سیلاب امنڈ آتا تھا اور فرماتے تھے کہ اگر بندہ کو معلوم ہوجائے کہ کس سے راز و نیاز کررہاہے تو کبھی مصلیٰ سے الگ نہ ہو۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 2 ص 24 از حنان بن سدیر)۔
634۔ امام صادق (ع) ! امام زین العابدین (ع) جب وضو فرماتے تھے تو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد ہوجاتا تھا، پوچھا گیا کہ آپ کا کیا عالم ہوجاتاہے؟ فرمایا تمہیں کیا خبر کہ میں کس کے سامنے کھڑے ہونے کی تیاری کررہاہوں۔
( اعلام الوریٰ ص 255 از سعید بن کلثوم ، ارشاد 2 ص 143 ، کشف الغمہ 2 ص 298 روایت عبداللہ بن محمد القرشی ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 148 ، مکارم الاخلاق 2 ص 79 / 2277)۔
635۔ اما م صادق (ع) ! میرے پدر بزرگوار کہا کرتے تھے کہ حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو جیسے درخت کا تنہ کہ جب ہوا ہلادیگی تبھی ہلے گا۔( کافی 3 ص 200 /4 ، فلاح السائل ص161 از جہم بن حمید)۔
636۔ ابان بن تغلب ! میں نے امام صادق (ع) سے عرض کیا کہ امام سجاد (ع) کو دیکھا کہ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو چہرہ کا رنگ بدل جاتاہے آخر اس کا راز کیا تھا؟ فرمایا انھیں معلوم تھا کہ کس کی بارگاہ میں کھڑے ہیں۔
637۔ ابوایول ! اما م باقر (ع) اور امام صادق (ع) جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو ان کے چہرہ کا رنگ کبھی سرخ اور کبھی زرد ہوجاتا تھا اور ایسا لگتا تھا کہ کوئی سامنے ہے جس سے راز و نیاز کررہے ہیں۔( فلاح السائل ص 161 ، دعائم الاسلام 1 ص 159)۔
638۔ امام صادق (ع) ! امام باقر (ع) نماز پڑھ رہے تھے تو آپ کے سر پر کوئی شے گڑ پری اور آپ نے اس کو الگ نہیں کیا یہاں تک کہ خو د جعفر نے اسے جدا کردیا کہ آپ اس حرکت کو تعظیم پروردگار کے خلاف سمجھتے تھے کہ اس نے حکم دیا ہے کہ اپنے رخ کو خدا کی طرف رکھو اور سب سے کترا کر رکھو ( الاصول الستہ عشر جعفر بن محمد الحضرمی ص 70 از جابر)۔
639۔ امام صادق (ع) ، حضرت امام باقر (ع) تلاوت کررہے تھے کہ آپ پر غشی طاری ہوگئی ، جب بیدار ہوئے تودریاف کیا گیا کہ آخر یہ کیا ماجرا تھا؟ فرمایا میں آیات الہی کی تکرار کررہا تھا کہ اچانک ایسا معلوم ہوا جیسے مالک مجھ سے ہمکلام ہے اور پھر وقت بشریت جلال الہی کے مکاشفہ کی تاب نہ لاسکی ۔( فلاح السائل ص 107)۔
4۔ نماز شب
640۔ امام باقر (ع) و اما م صادق (ع) ! من اللیل فسبحہ وا دبار النجوم کے ذیل میں فرماتے تھے کہ رسول اکرم رات کو تین مرتبہ اٹھ کر آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور آخر میں سورہ ٴ آل عمران کی پانچ آیات ” انک لا تخلف المیعاد “ (آیت 194) تک پڑھ کر نماز شب شروع فرماتے تھے( مجمع البیان 9 ص 257 از زرارہ و حمران و محمد بن مسلم ، عوالی اللئالی 2 ص 26 / 62)۔
641۔ عائشہ ! رسول اکرم آخر شب میں آرام فرماتے تھے اور آخر شب تک بیدار رہتے تھے۔( صحیح مسلم 1 ص 510 / 739 ، سنن نسائل 3 ص 218 ، سنن ابن ماجہ 1 ص 234 / 1365)۔
642۔ عائشہ ! رسول اکرم نماز شب کو ترک نہیں فرماتے تھے اور جب مریض یا خستہ حال ہوتے تھے تو بیٹھ کر ادا فرماتے تھے( سنن ابی داؤد 2 ص 32 / 1307 ، مسند احمد بن حنبل 10 ص 98 / 26174 ، السنن الکبریٰ 3 ص 21 /4722 از عبداللہ بن ابی موسیٰ النصری)۔
643۔ ابن عباس ! رسول اکرم نماز شب کو یاد کرتے تھے تو آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے تھے اور اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے ” تتجافی جنوبھم عن المضاجع، سورہ سجدہ 16 “ ان کے پہلو بستر سے نہیں لگتے ہیں۔( حلیة الاولیاء 5 ص 87 ، تفسیر طبری 21 ص 103)۔
644۔ عبداللہ بن عباس ! میں ایک شب پیغمبر اسلام کی خدمت میں تھا تو دیکھا کہ جب نیند سے بیدار ہوئے تو عبادت فرمائی ، مسواک فرمائی سورہٴ آل عمران کی آیت ص 190 کی تلاوت فرمائی اور پھروضو کرکے مصلیٰ پر آکر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر بستر پر آگئے، تھوڑی دیر کے بعد بیدار ہوئے اور پھر یہی عمل کیا اور پھر لیٹ گئے اور پھر بیدار ہوکر یہی عمل کیا ، یہاں تک کہ نماز کا وقت آگیا۔( سنن ابی داود 1 ص 15 /58 ، مسند احمد بن حنبل 1 ص 798 / 3541)۔
645۔ امام صادق (ع) پیغمبر اسلام کی نمازوں کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ پانی سرہانے رکھا رہتا ہے اور مسواک بھی حاضر رہتی تھی ، تھوڑی دیر سوکر اٹھتے تھے۔ آسما ن کو دیکھ کر سورہٴ آل عمران آیت 190 کی تلاوت فرماتے تھے اوروضو کرکے مصلیٰ پر آجاتے تھے اور چہار رکعت نماز اس طرح ادا کرتے تھے کہ رکوع کرتے تھے تو لوگ سوچتے تھے کہ یہ کب سر اٹھائیں گے اور سجدہ کرتے تھے تو جیسے اب سر نہ اٹھائیں گے، پھر بستر پر آکر لیٹ جاتے تھے اور تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر دوبارہ یہی عملانجام دیتے تھے اور پھر سوجاتے تھے اور پھر تھوڑی دیر کے بعد اٹھ کر دو رکعت نماز ادا کرتے تھے اور پھر نماز صبح کے لئے نکل جاتے تھے۔( تہذیب 2 / 334 / 1377 از معاویہ بن وہب)۔
646۔ امام علی (ع) ! میں نے جب سے سرکار دو عالم کا یہ ارشاد سناہے کہ نماز شب ایک نور ہے کبھی نماز شب ترک نہیں کی ہے یہ سن کر ابن الکواء نے کہا کہ کیا صفین میں لیلة الہریر بھی ؟ فرمایا ہاں لیلة الہریر بھی ( مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 123)۔
647۔ امام زین العابدین (ع) نماز شب میں وتر میں تین سور مرتبہ العفو العفو کہا کرتے تھے۔( من لا یحضرہ الفقیہ 1 ص 489 / 1408)۔
648۔ ابراہیم بن العباس ! امام رضا (ع) راتوں کو بہت کم آرام فرماتے تھے اور زیادہ حصہ بیدار رہا کرتے تھے۔( عیون اخبار الرضا (ع) ص 184 / 7 ، اعلام الوریٰ ص 314)۔
649۔ روایت میں وارد ہوا ہے کہ امام علی (ع) نقی (ع) رات کے وقت ہمیشہ رو بقبلہ رہتے تھے، ایک ساعت بھی آرام نہیں کرتے تھے جبکہ آپ کا جبہ اون کا تھا اور مصلیٰ چٹائی کا۔( الخرائج والجرائح 2 ص 901)۔
5۔ صیام اہلبیت (ع)
650۔حماد بن عثمان نے امام صادق (ع)سے نقل کیاہے کہ رسول اکرم نے روزہ شروع کیا تو لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ اب روزہ ہی رکھتے رہیں گے اور اس کے بعد جب افطار کیا تو افطار کے بارے میں یہی کہنے لگے یہانتک کہ آپ نے صوم داؤد شروع کردیا کہ ایک روز روزہ رکھتے تھے اور ایک روز افطار کرتے تھے، اس کے بعد آخر حیات میں مہینہ میں تین روز کی پابندی فرماتے رہے تین روزے ایک ماہ کے برابر ہیں اور ان سے وسوسہ ٴ نفس کا علاج ہوتاہے۔
حماد نے عر ض کی کہ حضور یہ تین دن کونسے ہیں ؟ فرمایا مہینہ کی پہلی جمعرات، دوسرے عشرہ کا پہلا بدھ اور مہینہ کی آخری جمعرات۔
دوبارہ سوال کیا کہ ان ایام میں کیا خصوصیت ہے؟ فرمایاکہ گذشتہ امتوں میں انھیں دنوں میں عذاب نازل ہوا تھا تو آپ اس عذاب کے خوف سے روزہ رکھتے تھے کہ یہ امت محفوظ رہے۔( کافی 4 ص 89/1 الفقیہ 2 ص 82 / 1786 ، تہذیب 4 ص 302 / 913 ، استبصار 2 ص 136 / 444 ، ثواب الاعمال 105/6 ، الدروع الواقیہ ص55)۔
651۔ ابوسلمہ ! میں نے عائشہ سے رسول اکرم کے روزوں کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے کہا کہ حضرت اس قدر روزے رکھتے تھے کہ لگتا تھا ابن افطار نہ کریں گے اور پھر افطار کرتے تھے تو اس طرح جیسے روزہ نہ رکھیں گے اور سب سے زیادہ روزے ماہ شعبان میں رکھتے تھے بلکہ تقریباً پورہ ماہ شعبان، بلکہ حقیقتاً پورا ماہ شعبان۔( مسند ابن حنبل 9 ص 474 / 25155 ، 25373 ، صحیح مسلم 2 ص 810 / 1156 ، مسند ابویعلی ٰ 4 ص 339 / 4613)۔
652۔امام علی (ع) ! مجھے گرمیوں کے روزے زیادہ محبوب ہیں ۔( مستدرک الوسائل، ص 505 / 8758 نقلا عن لب اللباب راوندی)۔
653۔امام صادق (ع) ! امیر المومنین (ع) گھر میں آکر سوال فرماتے تھے کہ کھانے کا کوئی سامان ہے یا نہیں ۔ اگر کوئی چیز ہوتی تھی تو کھالیتے تھے ورنہ یونہی روزہ رکھ لیا کرتے تھے ۔( تہذیب 4 ص 188 / 531، عوالی اللئالی 3ص 135 / 15 از ہشام بن سالم)۔
654۔ امام صادق (ع) ! امام زین العابدین (ع) جب روزہ رکھتے تھے تو ایک بکری ذبح کرکے اس کا گوشت پکواتے تھے اور وقت افطار صرف اس کی خوشبو سونگھ کر سارا گوشت مختلف غریب گھرانوں میں تقسیم کرادیا کرتے تھے اور خود روٹی اور کھجور کھالیا کرتے تھے خدا ان پر اور ان کے آباء طاہرین (ع) پر رحمتیں نازل کرے۔( کافی 4 ص 68 / 3 ، المحاسن 2 ص 158 / 1432 ، از حمزہ بن حمران)۔
655۔ابراہیم بن عباس ! امام رضا (ع) اکثر ایام میں روزے سے رہا کرتے تھے، خصوصیت کے ساتھ مہینہ میں تین دن کے روزے کبھی ترک نہیں فرماتے تھے اور اسی کو سارے سال کا روزہ قرار دیتے تھے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 184 /7 ، اعلام الوریٰ ص 314)۔
656۔ علی بن ابی حمزہ ! میں نے امام علی (ع) بن الحسین (ع) کی کنیز سے آپ کے انتقال کے بعد دریافت کیا کہ حضرت کے روزمرہ کے بارے میں بیان کرو تو انھوں نے کہا کہ مفصل یا مختصر ؟ میں نے کہا مختصر !! انھوں نے کہا کہ میں نے دن میں کبھی آپ کے سامنے کھانا پیش نہیں کیا اور نہ رات میں کبھی بستر بچھا یا ہے۔( علل الشرائع ص 232 /9 خصال ص 518 / 14 از حمران بن اعین عن الباقر (ع) ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 155)۔
6۔ حج اہلبیت (ع)
657۔عبداللہ بن عبید بن عمیر ! امام حسن (ع) بن علی (ع) نے 25 حج پیدل ادا فرمائے ہیں جبکہ ناقے آپ کے ہمراہ رہا کرتے تھے۔(مستدرک حاکم 3 ص 185 / 4788 ، تاریخ دمشق حالات امام حسن (ع) 142 / 236 ، السنن الکبریٰ 4 ص 542 / 8645 ، روایت ابن عباس ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 14 از امام صادق (ع) ، تہذیب 5 ص 11 / 29 ، 12 ص 33 استبصار 2 ص 141 / 261 ۔ ص 142 / 465 ، علل الشرائع ص 447 /6 ، قرب الاسناد 170 / 624)۔
658۔ مصعب بن عبداللہ ! امام حسین (ع) نے پیدل 25 حج فرمائے ہیں۔( المعجم الکبیر 2 ص 115 / 2844)۔
659۔ امام حسین (ع) کو دیکھا گیا کہ طواف کرنے کے بعد مقام ابراہیم (ع) پر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر مقام ابراہیم (ع) پر رخسار رکھ کر رونا شروع کیا اور برابر اس کلمہ کی تکرار فرمارہے تھے یا تیرا سائل تیرے دروازہ پر ہے، تیرا مسکین تیرے دروازہ پر ہے، تیرا بندہ تیرے دروازہ پر حاضر ہے۔( ربیع الابرار 2 ص 149)۔
660۔ امام باقر (ع) ! حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) کے پاس ایک ناقہ تھا جس پر آپ نے 23 مرتبہ سفر حج کیا لیکن ایک تازیانہ بھی نہیں مارا یہاں تک کہ جب آپ کا انتقال ہوگیا تو ہمیں خبر بھی نہیں ہوئی کہ ناقہ پر کیا اثر ہوا کہ نوکر نے آکر خبر دی کہ وہ قبر پر بیٹھا ہوا اپنے سینہ کو رگڑ رہاہے اور فریاد کررہاہے، میں نے کہا اسے میرے پاس لے آؤ قبل اس کے لوگوں کو اس امر کی اطاع ہو، اور ناقہ قبر تک اس عالم میں پہنچ گیا کہ اس نے کبھی قبر کو دیکھا بھی نہیں تھا۔
661۔ سفیان بن عینیہ ! امام علی (ع) بن الحسین (ع) بن علی (ع) ابن ابی طالب (ع) نے حج فرمایا تو جب احرام باندھ چکے اور ناقہ پر سوار ہوئے تو چہرہ کا رنگ زرد ہوگیا اور جسم کانپنے یہاں تک کہ لبیک کہنا دشوار ہوگیا، لوگوں نے عرض کی حضور لبیک کیوں نہیں کہتے ہیں فرمایا کہ ڈرتاہوں کہ میں لبیک کہوں اور ادھر سے آواز آئے مجھے قبول نہیں ہے۔
لوگوں نے کہا کہ حضور یہ تو ضروری ہے آپ نے فرمایا مجھے معلوم ہے، اس کے بعد جیسے ہی لبیک کہا بیہوش ہوگئے اور ناقہ سے گڑ پڑے اور یہی کیفیت آخر حج تک برقرار رہی ۔( تاریخ دمشق حالات امام زین العابدین (ع) 40 ص 63 ، کفایتہ الطالب ص 450 ، سیر اعلام النبلاء 4 ص 392 ، تہذیب الکمال 20 ص 390 ، عوالی اللئالی 4 ص 35 / 121)۔
662۔ افلح غلام امام محمد باقر (ع) ! میں حضرت کے ساتھ حج کے لئے نکلا تو آپ جب مسجد الحرام میں داخل ہوئے اور خانہ کعبہ کو دیکھا تو گریہ کرنا شروع کردیا ، میں نے عرض کی حضور لوگوں کی نظر یں آپ پر ہیں، ذرا آواز کم کریں، آپ نے مزید رونا شروع کردیا اور فرمایا افسوس ! میں کس طرح نہ روؤں جبکہ خیال ہے کہ شاہد مالک اس گریہ پر رحم فرمادہے تو میں کامیاب ہوجاؤں۔
اس کے بعد آپ نے طواف کیا ، نماز طواف ادا کی اور جب سجدہ سے سراٹھایا تو تمام سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہوچکی تھی(تذکرة الخواص ص 339 صفة الصفوة 2 ص 64 ، الفصول المہمہ ص 209 ، مطالب السئول ص 80 ، کشف الغمہ 2 ص360 نورالابصار ص 158)۔
663۔ قاسم بن حسین نیشاپوری ! میں نے امام باقر (ع) کو دیکھا کہ آپ نے میدان عرفات میں دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو اسی طرح اٹھائے رہے یہاں تک کہ شام ہوگئی ، اور میں نے آپ سے زیادہ اس طرح کے اعمال پر قدرت رکھنے والا کوئی دوسرا نہیں دیکھاہے۔(اقبال الاعمال 2 ص 73)۔
664۔ مالک بن انس ! میں جب بھی امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا آپ میرا احترام فرماتے تھے اور مجھے مسند عطا فرمادیتے تھے اور فرماتے تھے کہ میں تم سے محبت کرتاہوں، میں اس بات سے خوش ہوکر شکر خدا ادا کیا کرتا تھا۔
میں دیکھتا تھا کہ حضرت یا روزہ سے رہتے تھے یا نمازیں پڑھتے رہتے تھے یا ذکر خدا کرتے رہتے تھے، آپ اپنے دور کے عظیم ترین عابد اور بلندترین زاہد تھے، مسلسل حدیثیں بیان کرتے تھے، بہترین اخلاق کے مالک تھے اور بہت منفعت بخش شخصیت کے مالک تھے، اور جب رسول اکرم کا کوئی قول نقل کرتے تھے تو نام لیتے ہی چہرہ کا رنگ اس طرح سبز و زرد ہوجاتا تھا کہ پہچاننا مشکل ہوجاتا تھا۔
ایک سال میں نے حضرت کے ساتھ حج کیا تو احرام کے موقع پر جب ناقہ پر سوار ہوئے اور تلبیہ کا ارادہ کیا تو آواز گلوگیر ہوگئی اور قریب تھا کہ ناقہ سے گر جائیں، میں نے عرض کی کہ فرزند رسول ! تلبیہ تو ضروری ہے۔ فرمایا یابن عامر ! کیسے جسارت کروں کہ میں لبیک کہوں اور یہ خوف ہے کہ وہ اسے رد کردے۔(خصال ص 167 / 219 ، علل الشرائع ص 235 ، امالی الصدوق (ر) 123 / 3 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 275)۔
665۔ علی بن مہزیار ! میں نے امام ابوجعفر ثانی (ع) کو 225 ء ھ میں حج کے موقع پر دیکھا کہ آپ نے سورج نکلنے کے بعد جب خانہٴ کعبہ کو وداع کرنا چاہا تو پہلے طواف کیا اور ہر چکر میں رکن یمانی کو بوسہ دیا ، پھر آخری چکر میں رکن یمانی اور حجر اسود دونوں کو بوسہ دیا اور اپنے ہاتھوں سے مس کرکے ہاتھوں کو چہرہ پر مل لیا اور پھر مقام ابراہیم (ع) پر دو رکعت نماز ادا کی اور پھر پشت کعبہ پر جاکر ملتزم سے یوں لپٹ گئے کہ شکم مبارک سے کپڑا ہٹاکر اسے بھی مس کیا اور تاویر کھڑے دعائیں کرتے رہے اور پھر باب الحناطین سے باہر نکل گئے۔
یہی صورت حال میں نے 217 ء ھ میں رات کے وقت کعبہ کو وداع کرنے میں دیکھی کہ ہر چکر میں رکن یمانی اور حجر اسود کو مس کررہے تھے اور پھر ساتویں چکر میں پشت کعبہ پر رکن یمانی کے قریب شکم مبارک کو کعبہ سے مس کیا ، پھر حجر اسود کو بوسہ دیا اور ہاتھوں سے مس کیا اور پھر مقام ابراہیم (ع) پر نماز ادا کی اور باہر تشریف لے گئے، ملتزم پر آپ کا توقف اتنی دیر رہا کہ بعض اصحاب نے طواف کے سات شوط پورے کرلئے یا آٹھ ہوگئے ( کافی 4 ص 532 / 3 ، تہذیب 5 ص 281 / 959 تہذیب میں واقعہ کا 219 ء ھ نقل کیا گیا ہے)۔
666۔ محمد بن عثمان العمری ! خدا گواہ ہے کہ امام عصر (ع) ہر سال موسم حج میں تشریف لاتے ہیں اور تمام لوگوں کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے ہیں لیکن لوگ نہ انھیں دیکھتے ہیں اور نہ پہچانتے ہیں ۔
(الفقیہ 2 ص 520 ، کمال الدین ص 440 / 8 ، الغیبتہ الطوسی (ر) ص 363/ 329 ، اثبات الہداة 3 ص 452 /68)۔
سیرت صبر و رضا
667۔ امام حسین (ع) ! عراق کے لئے نکلتے ہوئے آپ نے خطبہ ارشاد فرمایا اور اس میں حمد و ثنائے الہی کے بعد فرمایا کہ موت کا نشان اولاد آدم کی گردن سے یونہی وابستہ ہے جس طرح عورت کے گلے میں ہار ، میں اپنے اسلاف کا اسی طرح اشتیاق رکھتاہوں جس طرح یعقوب کو یوسف کا اشتیاق تھا میری بہترین منزل وہ ہے جس کی طرف میں جارہاہوں اور میں وہ منظر دیکھ رہاہوں کہ نواویس اور کربلا کے درمیان نبی امیہ کے درندے میرے جوڑ جوڑ کو الگ کررہے ہیں اور اپنی عداوت کا پیٹ بھر رہے ہیں، قلم قدرت نے جو دن لکھ دیا ہے وہ بہر حال پیش آنے والا ہے ” اللہ کی مرضی ہی ہم اہلبیت (ع) کی رضا ہے، ہم اس کی بلاپر صبر کرتے ہیں اور وہ ہمیں صابروں کا اجر دینے والا ہے رسول اکرم سے ان کے پارہ ہائے جگر الگ نہیں رہ سکتے ہیں، خدا سب کو جنت میں جمع کرنے والا ہے جس سے ان کی آنکھوں کو خنکی نصیب ہوگی اور ان سے کئے گئے وعدہ کو پورا کیا جائے گا، دیکھو جو ہمارے ساتھ اپنی جان قربان کرسکتاہے اور لقائے الہی کے لئے اپنے نفس کو آمادہ کرچکاہے وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوجائے، ہم کل صبح نکل رہے ہیں ۔( کشف الغمہ 2 ص 241 ، ملہوف ص 126 ، نثر الددر ص 333)۔
668۔ امام زین العابدین (ع) ! جب امام حسین (ع) کے حالات انتہائی سخت ہوگئے تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ کے حالات تمام لوگوں کے حالات سے بالکل مختلف ہیں۔ سب کے رنگ بدل رہے ہیں ، اعضاء لرزرہے ہیں، دل کانپ رہے ہیں لیکن امام حسین (ع) اور ان کے مخصوص اصحاب کے چہرے دمک رہے ہیں ، اعضاء ساکن ہیں اور نفس مطمئن ہیں۔
لوگوں نے آپس میں کہنا شروع کردیا کہ دیکھو یہ کس قدر مطمئن نظر آتے ہیں جیسے موت کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہے، آپ نے فرمایا ، شریف زادو! صبر کرو صبر، یہ موت صرف ایک پل ہے جس کے ذریعہ سختی اور پریشانی سے نکل کر جنت النعیم کے محلول تک پہنچا جاتاہے، تم میں کون ایسا ہے جو اس بات کو برا سمجھتاہے کہ زندان سے نکل کر قصر میں چلاجائے، مصیبت تمہاری دشمنوں کے لئے ہے جنھیں محل سے نکل کر زندان کی طرف جاتاہے،میرے پدر بزرگوار نے رسول اکرم سے روایت کی ہے کہ دنیا مومن کے لئے قیدخانہ ہے اور کافر کے لئے جنت اور موت ایک پل ہے جو مومن کو جنت تک پہنچا دیتاہے اور کافر کو جہنم تک ، میں نہ غلط بیانی سے کام لیتاہوں اور نہ کسی نے یہ بات مجھ سے غلط بیان کی ہے۔( معانی الاخبار 288 / 3)۔
669۔ ابومخنف ! امام حسین (ع) تین ساعت تک تن تنہا خون میں ڈوبے ہوئے آسمان کی طرف دیکھ کر یہ مناجات کرتے رہے، خدایا میں تیرے امتحان پر صابر ہوں اور تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے، اے فریادیوں کے فریادرس! جس دیکھ کر چالیس سوار بڑھے کہ آپ کے سر مبارک و مقدس و منور کو قلم کرلیں اور عمر سعدیہ آواز دیتا رہا کہ ان کے قتل میں عجلت سے کام لو ۔( ینابیع المودة 2 ث 82)۔
670۔ عبیداللہ بن زیاد کا دربان بیان کرتاہے کہ ابن زیاد نے حضرت علی (ع) بن الحسین (ع) اور خواتین کو طلب کیا اور سر حسین (ع) بھی سامنے لاکر رکھدیا ، خواتین کے درمیان حضرت زینب (ع) بنت علی بھی تھیں، ابن زیاد نے انھیں دیکھ کر کہا کہ شکر ہے اس خدا کا جس نے تمہیں رسوا کیا ، قتل کیا اور تمھاری باتوں کو جھوٹا ثابت کردیا ، آپ نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہم کو حضرت محمد کے ذریعہ کرامت عطا فرمائی اور ہمیں پاک و پاکیزہ قرار دیا، رسوائی فاسق کا حصّہ ہے اور جھوٹ فاجر کا مقدر ہے۔
اس نے کہا کہ تم نے اپنے ساتھ پروردگار کا برتاؤ کیسا پایا ؟ فرمایا ہمارے گھر والوں پر شہید ہونا فرض تھا تو وہ گھروں سے نکل کر اپنے مقتل کی طرف آگئے اور عنقریب خدا تیرے اور ان کے درمیان اجتماع کرکے دونوں کا فیصلہ کردے گا۔( امالی صدوق ص 140 / 3 ، روضة الواعظین ص 210 ، ملہوف ص 200 ، اعلام الوریٰ ص 247)۔
671۔ امام حسین (ع) کے ایک فرزند کا انتقال ہوگیا اور لوگوں نے چہرہ پر رنج و غم کے اثرات نہ دیکھے تو اعتراض کیا، آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) خدا سے سوال کرتے ہیں تو وہ عطا کردیتاہے اور پھر جب وہ کوئی ایسی چیزچاہتاہے جو بظاہر ناگوار ہوتی ہے تو ہم اس کی رضا سے راضی ہوجاتے ہیں۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 147)۔
672۔ ابراہیم بن سعدت ! امام سجاد (ع) نے گھر کے اندر نالہ و شیون کی آواز سنی تو اٹھ کر اندر تشریف لے گئے اور پھر واپس آگئے کسی نے دریافت کیا کیا کوئی حادثہ ہوگیاہے؟ یقینا لوگوں نے پرسہ دیا لیکن آپ کے صبر پر تعجب کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) جس چیز کو پسند کرتے ہیں اس میں خدا کی اطاعت کرتے ہیں اور جس بات کو ناپسند کرتے ہیں اس پر بھی اس کا شکر ہی کرتے ہیں ۔( حلیة الاولیاء 3 ص 138 ، تاریخ دمشق حالات امام سجاد (ع) 5/ 88، کشف الغمہ 2 ص 314 عن الباقر (ع) )۔
673۔امام باقر (ع) ! جب جس چیز کو پسند کرتے ہیں اس کے بارے میں دعا کرتے ہیں، اس کے بعد اگر ناخوشگوار امر پیش آجاتاہے تو خدا کی مخالفت نہیں کرتے ہیں، (حلیة الاولیاء 3 ص 187 از عمرو بن دینار، کشف الغمہ 2 ص 363 از احمد بن حمون)۔
674۔ علاء بن کامل ! میں امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر تھا کہ گھر سے نالہ و فریاد کی آواز بلند ہوئی ، آپ اٹھے اور پھر بیٹھ گئے اور انا للہ کہہ کر گفتگو میں مصروف ہوگئے اور آخر میں فرمایا کہ ہم خدا سے اپنے لئے اپنی اولاد اور اپنے اموال کے لئے عافیت چاہتے ہیں لیکن جب قضاء واقع ہوجاتی ہے تو یہ ممکن نہیں ہوتا ہے کہ جس کو خدا چاہتاہے اس کو ناپسند کردیں۔( کافی 3 ص 226 / 13)۔
675۔قتیبہ الاعشی ! میں امام صادق (ع) کے گھر آپ کے ایک فرزند کی عیادت کیلئے حاضر ہوا تو دروازہ پر آپ کو مخزون و رنجیدہ دیکھا اور پوچھا بچہ کا کیا حال ہے ، فرمایا وہی حال ہے ، اس کے بعد گھر کے اندر گئے اور ایک ساعت کے بعد مطمئن برآمد ہوئے، میں سمجھا کہ شائد صحت ہوگئی ہے ، میں نے کیفیت دریافت کی ؟ فرمایا مالک کی بارگاہ میں چلاگیا۔
میں نے عرض کی ، میری جان قربان، جب وہ زندہ تھا تو آپ رنجیدہ تھے، اب جب مرگیا ہے تو وہ حالت نہیں ہے؟ فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) مصیبت کے نازل ہونے سے پہلے تک پریشان رہتے ہیں ، اس کے بعد جب امر الہی واقع ہوجاتاہے تو اس کے فیصلہ پر راضی ہوجاتے ہیں اور اس کے امر کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے ہیں ۔( کافی 3 ص 225/11)۔
طلب معاش میں سیرت اہلبیت (ع)
676۔ امام صادق (ع) ! خبردار طلب معاش میں سستی اور کاہلی سے کام مت لینا کہ ہمارے آباء و اجداد اس راہ میں تگ و دوکیا کرتے تھے۔(الفقیہ 3 ص 157 / 3576 روایت حماد لحام)۔
677۔ جابر بن عبداللہ ! ہم رسول اکرم کے ساتھ دادی مرّ الظہر ان میں اراک کے پھل چنا کرتے تھے تو آپ فرماتے تھے کہ سیاہ دانے چنوکہ یہ جانور کیلئے زیادہ لذیذ ہوتے ہیں، ہم نے عرض کی کہ کیا حضور کو بھی بکریاں چرانے کا تجربہ ہے؟
فرمایا بیشک اور کوئی نبی بھی ایسا نہیں ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔( صحیح بخاری 5 ص 2077 / 5138 ، صحیح مسلم 3 ص 1621 / 2050 ، مسند ابن حنبل 5 ص 75 / 14504/ مسند ابویعلی 2 ص 404 / 3058)۔
478۔ عبداللہ بن حزم ! ایک مرتبہ اونٹ اور بکری کے چراوہوں میں بحث ہوگئی تورسول اکرم نے فرمایا کہ بکریاں جناب موسیٰ ، جناب داؤد نے بھی چرائی ہیں اور بکریاں میں نے بھی چرائی ہیں ! اپنے گھر کی بکریاں مقام اجیاد ہیں۔( الادب المفرد 175 / 577)۔
679۔ امام صادق (ع) ! رسول اکرم نے مال غنیمت تقسیم کیا تو حضرت علی (ع) کے حصّہ میں ایک زمین آئی جس میں زمین کو دی گئی تو ایک چشمہ نکل آیا جس کا پانی باقاعدہ آسمان کی طرف جوش ماررہا تھا اور اسی بنیاد پر اس کا نام ینبع رکھدیا گیا اور جب بشارت دینے والے نے حضرات کو اس کی بشارت دی تو آپ نے فرمایا کہ صدقہ عام ہے تمام حجاج بیت اللہ اور مسافروں کے لئے، نہ اس کی خرید و فرخت ہونگی نہ ہبہ نہ وراثت اور اگر کوئی شخص ایسا کرے گا تو اس پر اللہ ملائکہ اور تمام انسانوں کی لعنت ہوگی اور اس سے روز قیامت نہ کوئی صرف قبول کیا جائے گا اور نہ بدل ۔( کافی 7 ص 54 /9 ، تہذیب 9 ص 128 /609 روایت ایوب بن عطیہ الخداء )۔
680۔امام علی (ع) ! ایک مرتبہ مدینہ میں شدید بھوک کا ماحول پیدا ہوگیا تو میں تلاش عمل میں عوالی کی طرف نکل پڑا، اتفاق سے دیکھا کہ ایک عورت چند مٹی کے ڈھیلے جمع کئے ہوئے ہے ، میں نے خیال کیا کہ یہ اسے ترکنا چاہتی ہے ، میں نے سودا طے کرلیا کہ ایک ڈول پانی ایک کھجور کے عوض ! اور اس کے بعد سولہ ڈول کھینچے جس کے نتیجہ میں ہتھیلی میں گھٹے پڑگئے اور پھر اس عورت کو جاکر ہاتھ دکھلائے اور کام بتلایا تو اس نے سولہ کھجوریں دیدیں اور میں انھوں لے کر رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا اور ماجرا بیان کیا تو آپ بھی اس کے کھانے میں شریک ہوگئے ( مسند ابن حنبل 1 ص 286 / 1135 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 17 / 1229 ، صفة الصفوہ 1 ص 135 روایات مجاہد)۔
681۔ امیر المومنین (ع) سخت گرمی میں بھی کام کرنے کے لئے نکل پڑتے تھے تا کہ خدا خود دیکھ لے کہ بندہ طلب حلال کے لئے جد و جہد کررہاہے۔( الفقیہ 3 ص 163 / 3596 ، عوالی اللئالی 3 ص 200 / 24)۔
282۔ امام صادق (ع) ! خدا کی قسم حضرت علی (ع) نے راہ خدا میں ہزار غلام آزاد کئے ہیں اور سب اپنے ہاتھ کی کمائی سے کیا ہے ۔( کافی 8 ص 165 / 175 روایت معاویہ بن وہب 5 / 74 / 2 روایت فضل بن ابی قرّہ، الغارات 1 ص 92۔
683۔امام صادق (ع) ! محمد بن المنکدر کا بیان ہے کہ میرے خیال میں امام سجاد (ع) کے بعد ان کی اولاد میں کوئی ان سے بہتر نہیں ہوسکتاہے لیکن جب امام باقر (ع) کو دیکھا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ میں انھیں موعظہ کرنا چاہتا تھا لیکن انھوں نے مجھے موعظہ کردیا۔
لوگوں نے پوچھا کہ آپ کو کیا موعظہ کردیا ؟ ابن المنکدر نے بتایا کہ میں ایک مرتبہ سخت گرمی میں بیرون مدینہ نکلا تو امام باقر (ع) کو دیکھا کہ بھاری جسم کے باوجود دوغلاموں پر تکیہ گئے ہوئے نکل پڑے ہیں ، میں نے کہا اے سبحان اللہ نبی ہاشم کا ایک بزرگ آدمی طلب دنیا میں اس طرح مبتلا ہوجائے کہ اس گرمی میں اس طرح گھر سے نکل پڑے، یہ سوچ کر قریب گیا ، سلام کیا آپ نے جھڑک کر جواب دی اور پسینہ میں تر تھے، میں نے اپنی بات دہرائی اور کہا کہ اس حال میں اگر موت آگئی تو کیا کریں گے؟
فرمایا اگر اس وقت موت آگئی تو اس حال میں آئے گی کہ میں اطاعت خدا میں ہوں گا، خدا نہ کرے کہ اس وقت آئے گی کہ میں اطاعت خدا میں ہوگا، خدا نہ کرے کہ اس وقت آئے جب کوئی معصیت خدا کررہاہو،تو اس وقت اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو لوگوں کے احسانات سے بچارہاہوں۔
یہ سننا تھا کہ ابن المنکدر نے کہا کہ آپ نے سچ فرمایا، خدا آپ پر رحمت نازل کرے، میں نے آپ کو نصیحت کرنا چاہی تھی مگر آپ نے مجھ ہی کو موعظہ فرمادیا ۔( کافی 5 ص 73 / 1، تہذیب 6 ص 325 / 894 ، ارشاد 2 ص 161 روایت عبدالرحمان بن الحجاج)۔
685 ، ابوعمرو الشیبانی ! میں نے امام صادق (ع) کو موٹا کپرا پہنے بیچہ لئے اپنے باغ میں یوں کام کرتے دیکھا کہ پسینہ پیروں سے بہہ رہا تھا، میں نے عرض کی میری جان قربان،یہ بیلچہ مجھے دیدیجئے، میں یہ کام کروں گا، فرمایاکہ میں چاہتاہوں کہ انسان طلب معاش میں حرارت آفتاب کی اذیت برداشت کرے۔( کافی 5 ص 76 / 13)۔
686۔ عبدالاعلی ٰ غلام آل سام ! میں نے شدید گرمی کے زمانہ میں مدینہ کے ایک راستہ پر امام صادق (ع) کو دیکھ کر عرض کی ، حضور میری جان قربان ایک تو خدا کی بارگاہ میں آپ کا مرتبہ پھر رسول اکرم سے آپ کی قرابت، اس کے بعد بھی آپ اس گرمی میں مشقت برداشت کررہے ہیں۔
فرمایا عبدالاعلی ٰ میں طلب رزق میں نکلا ہوں تا کہ تم جیسے افراد سے بے نیاز ہوجاؤں۔( کافی 5 ص 74 / 3)۔
687۔ علی بن ابی حمزہ ! میں نے حضرت ابوالحسن (رضا (ع)) کو اپنی ایک زمین میں اس طرح کام کرتے دیکھا کہ پسینہ پیروں سے بہہ رہا تھا تو میں نے عرض کی میری جان قربان، کام کرنے والے سب کیا ہوگئے ؟
فرمایا کہ دیکھو اپنے ہاتے سے ان لوگوں نے بھی کام کیا ہے جو مجھ سے اور میرے والد سے بھی بہتر تھے۔
میں نے عرض کی یہ کون حضرات ہیں ؟ فرمایا رسول اکرم ، امیر المومنین (ع) او ر میرے تمام آباء و اجداد اور یہ کام تو جملہ انبیاء ، مرسلین، اوصیاء اور صالحین نے کیا ہے۔( کافی 5 ص 75 / 10 ، الفقیہ 3 ص 163 / 3593 ، عوالی اللئالی 3 ص 200)۔
سیرت اہلبیت (ع) در عطایا و ہدایا
688۔ رسول اکرم ! ہم غیر مستحق کو بھی دیدیا کرتے ہیں کہ کہیں کوئی مستحق محروم نہ رہ جائے۔( عدة الداعی ص 91)۔
689۔ محمد بن الحنفیہ ! میرے بابا جان رات کی تاریکی میں قنبر کے کاندھے پر آٹا اور کھجور لادکر ان گھروں تک پہنچایا کرتے تھے جنھیں وہ خود جانتے تھے اور کسی کو باخبر نہیں ہونے دیتے تھے ، ایک مرتبہ میں نے عرض کیا کہ یہ کام تو دن میں بھی ہوسکتاہے فرمایا ” مخفی صدقہ غضب پروردگار کی آگ کو سرد کردیتا ہے۔( مناقب الامام امیر المومنین (ع) الکوفی 2 ص 69 / 552 ، ربیع الابرار 2 ص 148)۔
690۔ امام صادق (ع) ! امام حسن (ع) نے اپنے پروردگار کی راہ میں سارا مال تین مرتبہ برابر برابر تقسیم کیا تھا یہاں تک لباس، دینار کے ساتھ نعلین میں بھی غریبوں کو برابر کا حصہ دیا تھا۔( تہذیب 5 ص 11 / 29 ، استبصار 2 ص 141 / 461، حلیة الابرار 3 ص 56 / 5 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) (ع)142 / 236۔ ( 24 ، السنن الکبریٰ 4 ص 542 / 8645 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 14)۔
691۔ حسن بصری ! حضرت حسین (ع) بن علی (ع) ایک سی زاہد ، متقی صالح و ناصح اور بہترین اخلاق کے مالک تھے، ایک مرتبہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے ایک باغ میں گئے جہاں آپ کا غلام ”صافی “ رہا کرتا تھا، باغ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ غلام بیٹھا ہوا روٹی کھارہاہے، آپ ایک خرمہ کے درخت کی آڑ میں ٹھہرگئے، دیکھا کہ غلام آدھی روٹی کھاتاہے اور آدھی کتے کو دیدیتاہے ، کھانا ختم کرنے کے بعد اس نے کہا کہ شکر ہے خدائے رب العالمین کا پروردگار مجھے اور میرے مولی کو بخش دینا اور انھیں اسی طرح برکت عطا فرمانا جس طرح ان کے والدین کو عطا فرمائی تھی کہ تو بڑا رحم کرنے والا ہے۔
آپ نے سامنے کر غلام کو آواز دی ، وہ گھبرا کر کھڑا ہوگیا اور کانپنے لگا، کہنے لگا اے میرے اور جملہ مومنین کے سردار میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا اب مجھے معاف فرمادیجیئے؟
فرمایا تم مجھے معاف کردینا کہ میں تمھارے باغ میں بغیر اجازت کے داخل ہوگیا ، اس نے کہا سرکار ! یہ تو آپ بربنائے شفقت و کرم فرمارہے ہیں ورنہ میں خود ہی آپ کا غلام ہوں۔
فرمایا یہ بتاؤ کہ آدھی روٹی کتے کو کیوں ڈال رہے تھے ؟ عرض کی یہ میری طرف دیکھ رہا تھا تو مجھے حیا آئی کہ میں اکیلے کھالوں اور پھر یہ آپ کا کتاہے اور میں آپ کا غلام اور دونوں کا کام باغ کی حفاظت ہے لہذا دونوں نے برابر سے مل کر کھالیا۔
حضرت یہ سن کر رونے لگے اور فرمایا تجھے راہ خدا میں آزاد کردیا اور دو ہزار درہم بھی عطا کئے، غلام نے کہا جب حضور نے آزاد کردیاہے تو کم از کم باغ میں رہنے کی اجازت تو دیجیئے؟ فرمایا مرد وہی ہے جس کے قول و فعل میں فرق نہ ہو، جب میں نے تجھ سے کہہ دیا کہ تیرے باغ میں بلااجازت داخل ہوا ہوں تو اب یہ باغ بھی تیرا ہے۔
صرف یہ میرے اصحاب میرے ساتھ پھل کھانے آئے ہیں تو انھیں اپنا مہمان بنالے اور ان کا اکرام کرتا کہ خدا روز قیامت تیرا اکرام کرے اور تیرے حسن اخلاق میں برکت عنایت کرے۔
غلام نے عر ض کی جب آپ نے باغ مجھے ہبہ کردیا ہے تو میں نے اسے آپ کے شیعوں اور چاہنے والوں کے لئے وقف کردیا ہے۔
حسن بصری کہتے ہیں کہ مرد مومن کا کردار ایسا ہی ہونا چاہیئے اور اولاد رسول کے نقض قدم پر چلنا چاہیئے۔( مقتل الحسین (ع) خوارزمی 1 ص 153)۔
692۔ ابوحمزہ الثمالی ! میں نے امام زین العابدین (ع) کو اپنی کنیز سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میرے دروازہ سے جو سائل بھی گذرجائے اسے کھانا کھلادینا کہ آج جمعہ کا دن ہے، تو میں نے عرض کی کہ تمام سائل مستحق نہیں ہوتے ہیں ، فرمایا میں اس بات سے ڈرتاہوں کہ کسی مستحق کو دروازہ سے واپس کردوں اور وہ بلاء نازل ہوجائے جو حضرت یعقوب پر نازل ہوئی تھی۔( علل الشرائع 45/1)۔
493۔ امام باقر (ع) ! ہم اہلبیت (ع) قطع تعلق کرنے والوں سے صلہٴ رحم کرتے ہیں اور برائی کرنے والوں کے ساتھ احسان کرتے ہیں اور اس میں حسن عاقبت سمجھتے ہیں ۔(کافی 2 ص 488 / 1 از احمد بن محمد بن ابی نصر عن الرضا (ع) )۔
694۔ امام صادق (ع) ! میرے والد کے پاس مال بہت کم تھا اور ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں اور ہر جمعہ کو ایک دینار صدقہ میں دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جمعہ کے دن کا صدقہ اسی اعتبار سے فضیلت رکھتاہے جس طرح جمعہ کو باقی دنوں پر فضیلت حاصل ہے۔( ثواب الاعمال 20/1 روایت عبداللہ بن بکیر)۔
695۔ سلمیٰ کنیز امام محمد باقر (ع) ! جب حضرت کے پاس برادران مومنین آتے تھے تو بہترین کہائے بغیر اور بہترین لباس پہنے بغیر نہیں جاتے تھے، اور دراہم اوپر سے دیے جاتے تھے، میں نے حضرت سے گزارش کی کہ اس بخشش میں کچھ کمی کردیں تو فرمایا سلمیٰ ، دنیا کی نیکی صرف اس میں ہے کہ اس سے برادران ایمانی اور جان پہچان والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔( کشف الغمہ 2 ص 330، الفصول المہمہ ص 212)۔
696۔ حسن بن کثیر ! میں نے امام ابوجعفر محمد (ع) بن علی (ع) سے بعض ضروریات کے لئے شکایت کی تو فرمایا بدترین بھائی وہ ہے جو دولت مندی میں تمھارا خیال رکھے اور غربت میں قطع تعلق کرلے، اس کے بعد غلام کو اشارہ کیا اور وہ سات سو درہم کی تھیلی لے کر آیا، آپ نے فرمایا کہ موجودہ حالات میں انھیں دراہم کو استعمال کرو، اس کے بعد جب یہ خرچ ہوجائیں تو اطلاع کرنا ۔( ارشاد 2 ص166 ، روضة الواعظین ص 225 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 207)۔
697۔ ہشام بن سالم ! امام جعفر صادق (ع) رات کا ایک حصہ گذر جانے کے بعد ایک ظرف میں روٹی ، گوشت اور کچھ درہم اپنے کاندھے پر رکھ کر نکلتے تھے اور مدینہ کے تمام مساکین کے دروازہ پر جاکر تقسیم کردیا کرتے تھے اور کسی کو علم بھی نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ جب حضرت کا انتقال ہوگیا اور کوئی دروازہ پر نہ آیا تو اندازہ ہوا کہ یہ شخص امام جعفر صادق (ع) تھے۔( کافی 4 ص 8 /1)۔
698۔ معلی بن خنیس ! امام جعفر صادق(ع) ایک رات میں بیت الشرف سے برآمدہوئے، بارش ہورہی تھی اور آپ بنئ ساعدہ کے چھتہ کی طرف جارہے تھے اتفاق سے راستہ میں کوئی چیز گر گئی ، آپ نے دعا کی خدایا، ہماری چیز کو ہم تک پلٹا دینا ، میں نے سلام کیا ، فرمایا معلیٰ ؟
میں نے عرض کی سرکار ! حاضر ہوں میری جان قربان، فرمایا ذرا ہاتھوں سے تلاش کرو اور جو کچھ مل جائے میرے حوالہ کردو۔
میں نے دیکھا کہ بہت سی روٹیاں بکھری پڑی ہیں، میں نے سب اٹھاکر حضرت کو دیدیں، مگر دیکھا کہ ٹوکری کابوجھ اتنا ہے کہ میں نہیں اٹھا سکتاہوں، میں نے عرض کیا لائیے میں اسے سر پر اٹھالوں، فرمایا نہیں، یہ میرا اپنا کام ہے ، بس تم میرے ساتھ رہو۔
میں ساتھ چلا ، جب بنئ ساعدہ کے چھتہ میں پہنچا تو دیکھا کہ فقراء کی ایک جماعت سورہی ہے ، آپ نے سب کے سرھانے روٹیاں رکھنا شروع کردیں اور جب کا م تمام ہوگیا تو میں نے سوال کیا : کیا یہ لوگ حق کو پہچانتے ہیں ، فرمایا اگر حق کو پہچانتے ہوتے تو اس سے زیادہ ہمدردی کرتا۔( کافی 4 ص 8 /3 ، ثواب الاعمال 173 / 2 مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 75)۔
699۔ ابوجعفر الخثعمی ! امام جعفر صادق (ع)نے ایک تھیلی میں پچاس دینار رکھ کر مجھے دیے کہ بنئ ہاشم میں فلاں شخص کو پہنچا دینا لیکن یہ نہ بتانا کہ کس نے دیے ہیں، میں لے کر گیا اور دیدیا تو اس شخص نے کہا کہ یہ کس نے بھیجے ہیں۔ خدا اسے جزائے خیر دے کہ برابر رقم بھیجتا رہتاہے اور میرا گذرا ہورہاہے۔ ورنہ جعفر کے پاس اس قدر پیسہ ہے اور مجھے کچھ نہیں دیتے ہیں ؟ (امالی الطوسی ص 677 / 1433، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 273)۔
700۔ الہیاج بن بسطام ! حضرت جعفر بن محمد (ع) اس قدر لوگوں کو کھلاتے تھے کہ گھروالوں کے لئے کچھ نہ بچتا تھا۔( حلیة الاولیاء 3 ص 194 ، تذکرة الخواص ص 342 ، سیر اعلام النبلاء 6 ص 262 ، کشف الغمہ 2 ص 369 ، مناقب ابن شہر آشوب4 ص 273 ، احقاق الحق 1 ص 510)۔
701۔ امام کاظم (ع) ! ہم سب علم اور شجاعت میں ایک جیسے ہیں اور عطایا میں بقدر امر الہی عطا کرتے ہیں ۔( کافی 1 ص 275 / 2 ، بصائر الدرجات ص 480 / 3 روایت علی بن جعفر )۔
702۔الیسع بن حمزہ ! ہم لوگ امام رضا (ع) کی محفل میں باتیں کررہے تھے اور بے شمار لوگ حلال و حرام کے مسائل دریافت کررہے تھے کہ ایک لمبا سا نو لاشخص وارد ہواور اس نے کہا السلام علیک یابن رسول اللہ ! میں آپ کا اور آپ کے آباء و اجداد کا دوست ہوں، حج سے واپس آرہاہوں میرا سارا سرمایہ ختم ہوگیا ہے۔ اب گھر تک پہنچنے کا وسیلہ بھی نہیں ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ مجھے شہر تک پہنچا دیں۔ میں اس قدر رقم خیرا ت کردوں گا جتنی آپ مجھ پر صرف کریں گے اس لئے کہ میں مستحق صدقہ نہیں ہوں۔
آپ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ ، خدا تم پر رحم کرے۔
اس کے بعد آپ لوگوں سے باتیں کرنے لگے، یہاں تک تمام لوگ اپناکام ختم کرکے چلے گئے، صرف امام ، سلیمان ، جعفر بن خیثمہ اور میں باقی رہ گئے آپ نے فرمایا، اجازت ہے کہ میں گھر کے اندر جاؤں! سلیمان نے کہا کہ آپ خود صاحب اختیار ہیں۔
آپ اٹھ کر حجرہ میں تشریف لے گئے اور ایک ساعت کے بعد دروازہ سے ہاتھ نکال کر فرمایا وہ خراسانی کہا ں ہے، اس نے عر ض کی کہ میں حاضر ہوں ! فرمایا یہ دو سو دینار لے لے اور اپنے ضروریات میں صرف کر اور اسے برکت قرار دے اور اس کے مقابلہ میں صدقہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اب گھر سے باہر چلا جاتا کہ نہ میں تجھے دیکھوں اور نہ تو مجھے دیکھے۔ اس کے بعد آپ باہر تشریف لائے تو سلیمان نے کہا کہ حضور اس قدر کثیر رقم دینے کے بعد منھ چھپانے کی کیا وجہ ہے ! فرمایا کہ میں اس کے چہرہ پر سوال کی ذلت کا اثر نہیں دیکھ سکتاہوں، کیا تم لوگوں نے رسول اکرم کا یہ ارشاد نہیں سنا ہے کہ چھپاکر ایک نیکی کرنا ستر حج کے برابر ہے اور برائی کا اعلام کرنے والا سوا ہوتاہے لیکن اسے بھی چھپاکر کرنے والا مغفرت کا امکان رکھتاہے ( کیا تم نے بزرگوں کا یہ مقولہ نہیں سناہے کہ جب میں کسی ضرورت سے ان کے دروازہ پر جاتاہوں تو اس شان سے واپس آتاہوں کہ میری آبرو برقرار رہتی ہے۔( کافی 4ص 23 / 3)۔
703۔ محمد بن عیسیٰ بن زیاد ! میں نے ابن عباد کے دربار میں پہنچ کر دیکھا کہ ایک کتاب نقل کررہے ہیں ، میں نے دریافت کیا کہ یہ کونسی کتاب ہے؟
کہا یہ امام رضا (ع) کا مکتوب ہے ان کے فرزند کے نام ۔! میں نے کہا کیا یہ ممکن ہے کہ یہ مجھے بھل مل جائے، ان لوگوں نے دیدیا تو میں نے دیکھا کہ اس میں لکھا ہے ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ فرزند ! خدا تمہیں طول عمر عنایت کرے اور دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے، میں تمھارے قربان ! میں نے اپنی زندگی میں اپنا سارا مال تمھارے حوالہ کردیاہے کہ شائد خدا تم پر یہ کرم کرنے کے تم قرابتداروں کے ساتھ صلہٴ رحم کرو اور حضرت موسیٰ (ع) اور حضرت جعفر (ع) کے غلاموں کے کام آؤ؟ پروردگار کا ارشاد ہے ، کون ہے جو خدا کو قرض حسنہ دے گا کہ وہ دگنا چوگنا کردے ۔( بقرہ 245)۔
جس کے پاس وسعت ہے اس پر فرض ہے کہ اس میں سے انفاق کرے اور جو تنگی کا شکار ہے اسے بھی چاہیئے کہ جس قدر ہے اس میں سے انفاق کرے۔( سورہ طلاق ص 7)۔
خدا نے تمہیں وسعت دی ہے… فرزند تم پر تمھارا باپ قربان … (تفسیر عیاشی 1 ص 131 / 436)۔
704۔ احمد بن محمد بن ابی نصر بزطنی، میں نے امام رضا (ع) کا وہ مکتوب پڑھاہے جو امام جواد (ع) کے نام تھا اور جس کا مضمون یہ تھا” ابوجعفر ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ تمھارے موالی تمھیں چھوٹے دروازہ سے باہر لے جاتے ہیں تا کہ لوگ تم سے استفادہ نہ کرسکیں، یہ ان کے بخل کا نتیجہ ہے ، خبردار ، تمھیں میرے حق کا واسطہ جو تمھارے ذمہ ہے کہ آئندہ تمھارا داخلہ اور خارجہ بڑے دروازہ سے ہونا چاہیئے اور جب سواری باہر نکلے تو تمھارے ساتھ سونے چاندی کے سکہ ہونے چاہئیں ورکوئی بھی آدمی سوال کرے تو اسے محروم نہ کرنا ، اور اگر رشتہ داروں میں کوئی مرد سوال کرے تو پچاس دینار سے کم نہ دینا، زیادہ کا تمھیں اختیار ہے اور اگر کوئی خاتون سوال کرے تو 25 دینار سے کم نہ دینا اور زیادہ تمھارے اختیار میں ہے، میرا مقصد یہ ہے کہ خدا تمھیں بلندی عنایت فرمائے، دیکھو راہ خدا میں خرچ کرو اور خدا کی طرف سے کسی افلاس کا خوف نہ پیدا ہونے پائے(کافی 4 ص 43 / 5، عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 8 / 20 ، شکوة الانوار ص 233)۔
705۔ عبداللہ علی بن عیسیٰ ۔ امام جواد (ع) کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اپنی مروت کے برابر عنایت فرمائیے، فرمایا یہ میرے امکان سے باہر ہے، اس نے کہا پھر میری اوقات کے برابر عنایت فرمائیے؟ فرمایا یہ ممکن ہے اور یہ کہہ کر غلام کو آواز دی کہ اسے سو دینا ر دیدو۔( کشف الغمہ 3 ص 158)۔
سیرت اہلبیت (ع) خدام کے ساتھ
706۔ انس ! جب رسول اکرم وارد مدینہ ہوئے تو آپ کے پاس کوئی خاتم نہ تھا، ابوطلحہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور حضور کے پاس لے گئے ، کہا کہ سرکار ! یہ انس ہوشیار بچہ ہے، یہ آپ کی خدمت کرے گا، جس کے بعد میں سفر و حضر میں ہمیشہ حضور کے ساتھ رہا لیکن نہ کسی کام کے کرنے پر یہ فرمایا کہ ایسا کیوں کیا … اور نہ ترک کرنے پر فرمایا کہ ایسا کیوں نہیں کیا ؟ (صحیح مسلم 4 ص 1805 / 2309 ، مسند ابن حنبل 4 ص 203/1988، الطبقت الکبریٰ 7 ص 19)۔
واضح رہے کہ صحیح بخاری 3ص 1018 / 2616 میں دس سال خدمت کرنے کا ذکر ہے اور صحیح مسلم میں 9 سال۔
707۔ بکیر ! میں نے ام سلمہ کے غلام مہاجرکی زبان سے سناہے کہ میں نے دس سال ، یا پانچ سال ، رسول اکرم کی خدمت کی ہے، لیکن نہ کسی کام کے کرنے پر ٹوکا اور نہ ترک کرنے پر ۔!( اسدالغابہ 5 ص 266 / 1537 )۔
708۔ انس ! رسول اکرم اخلاق کے اعتبار سے ساری کائنات سے بہتر تھے۔ ایک دن مجھے ایک کام سے بھیجا تو میں نے کہا کہ میں نہیں جاؤ گا حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ جب رسول خدا نے حکم دیا ہے تو بہر حال جانا ہے۔
میں گھر سے نکلا تو راستہ میں بچے کھیل رہے تھے، میں ادھر چلاگیا ایک مرتبہ دیکھا کہ حضرت پشت سے میری گردن پکڑے ہوئے ہیں ، میں نے مڑ کر دیکھا تو مسکرار ہے تھے، فرمایا میں نے جہاں بھیجا تھاگئے؟ میں نے عرض کی جی ہاں، اب جارہاہوں۔( صحیح مسلم 4 ص 1805 2310)۔
709۔ زیاد بن ابی زیاد نے رسول اکرم کے ایک خادم کے حوالہ سے نقل کیا ہے، کہ حضور نوکروں سے بھی پوچھا کرتے تھے کوئی ضرورت تو نہیں ہے۔( مسند احمد بن حنبل 5 ص 239 / 16076 ، مجمع الزوائد 2 ص 515 / 3503)۔
710۔ ابوالنوار ، کرباس بیچنے والا راوی ہے کہ حضرت علی (ع) ایک غلام کو لے کر میری دکان پر آئے اور دو پیراہن دکھلاکر فرمایا کہ جو پسند ہو وہ لے لو، اس نے ایک لے لیا اور دوسرا بچا ہوا حضرت نے لے لیا ، اس کے بعد ہاتھ بڑھاکر کہا کہ آستین جس قدر لمبی ہے اسے کم کردیجئے، آپ نے کم کردی اور وہ پہن کر چلاگیا ،( فضائل الصحابہ ابن حنبل 1 ص 544 / 919 ، اسدالغابہ 4 ص 97 ) شرح نہج البلاغہ معتزلی 9 ص 235)۔
711۔ابومطر البصری ! امیر المومنین (ع) سوق الکرابیس میں داخل ہوئے اور ایک دکاندار سے پوچھا پانچ درہم میں دو کپڑے مل سکتے ہیں، اس نے مڑ کر دیکھا کہا یا امیر المومنین (ع) بیشک مل سکتے ہیں، آپ نے دیکھا کہ اس نے پہچان لیا ہے تو آگے بڑھ گئے اور نہیں لیا، دوسری جگہ ایک غلام کو بیچتے دیکھا اس سے سوال کیا ، اس نے کہا بیشک ممکن ہے، ایک اچھا ہے وہ تین درہم کاہے اور دوسرا قدرے معمولی ہے وہ دو درہم کا ہے آپ نے قنبر سے فرمایا کہ تین درہم و الا تم لے لو، قنبر نے عرض کی حضور ! یہ آپ کا حق ہے، فرمایا تم جو ان ہو اور جوانی میں زینت کی خواہش ہوتی ہے، مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے کہ تم سے بہتر لباس پہنوں جبکہ رسول اکرم نے فرمایا ہے کہ ، غلاموں کو وہی کھلاؤ جو تم کھاتے ہواور وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو، اس کے بعد آپ نے دوسرا والا پہن لیا اور جب آستین لمبی نظر آئی تو اسے کٹوادیا لیکن کنارہ سلوانے کی زحمت نہیں کی اور فرمایا کہ معاملہ اس سے زیادہ عجلت کا ہے۔( الغارات 1 ص 106)۔
712۔ ابومطر البصری ! حضرت علی (ع) نے ایک غلام کو کئی بار آواز دی لیکن اس نے لبیک نہیں کہی اور جب گھر سے باہر نکلے تو دیکھا کہ وہ دروازہ پر موجود ہے، فرمایا کہ تو نے میری آواز پر آواز کیوں نہیں دی ؟ اس نے کہا کہ ایک تو کاہلی تھی اور دوسرے یہ آواز پر آواز کیوں نہیں دی ؟ اس نے کہا کہ ایک تو کاہلی تھی اور دوسرے یہ کہ آپ سے سزا کا کوئی خطرہ نہیں تھا، یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ لوگ میری طرف سے اپنے کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور اس کے بعد اسے راہ خدا میں آزاد کردیا ۔( مناقب ابن شہر آشوب 2 ص 133 ، الفخری ص 19)۔
713۔ انس ! میں امام حسین (ع) کی خدمت میں تھا آپ کی ایک کنیز نے ایک پھولوں کا گلدستہ آپ کو تحفہ میں پیش کیا اور آپ نے اسے راہ خدا میں آزاد کردیا، میں نے عرض کیا کہ ایک گلدستہ کی قیمت اس قدر نہیں ہے کہ اسے آزاد کردیا جائے، فرمایا یہ پروردگار کا سکھلایا ہوا ادب ہے کہ جب تمھیں کوئی تحفہ دیا جائے تو اس سے بہتر واپس کرو اور ظاہر ہے کہ اس بہتر اس کی آزادی ہی ہوسکتی تھی۔
(نثر الدرر 1 ص 33 ، نزہة الناظر 83 / 8 ، کشف الغمہ 2 ص 243 ، احقاق الحق 11 ص 444)۔
714۔ امام صادق (ع) ! میں نے رسول اکرم کی کتاب میں دیکھاہے کہ جب اپنے غلام سے کوئی ایسا کام لو جو اس کے بس کا نہیں ہے تو خود بھی اس کے ساتھ شریک ہوجاؤ اور میرے پدر بزرگوار کا یہی طریقہ تھا کہ وہ غلاموں کو کام دینے کے بعد صورت حال کا جائزہ لیتے تھے ، اگر دیکھا کام مشکل ہے تو شریک ہوجاتے تھے ورنہ الگ ہوجاتے تھے۔( اللزہد للحسین بن سعید 44 / 117 روایت بداؤد بن فرقد)۔
715۔ حفص بن ابی عائشہ ! امام صادق (ع) نے کسی غلام کو کسی کام کے لئے بھیجا اور اس نے دیر لگائی تو آپ اس کی تلاش میں نکل پڑے، دیکھا کہ ایک مقام پر سورہاہے، آپ اس کے سرھانے کھڑے رہے اور پنکھا جھلتے رہے یہانتک کہ اس کی آنکھ کھل گئی ، وہ دہشت زدہ ہوگیا ، حضرت نے فرمایا کہ دیکھو دن رات سونا اصول کے خلاف ہے، رات تمھارے لئے ہے اور دن ہمارے لئے۔( کافی 8 ص 78 / 50 ، مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 274)۔
716۔ سفیان ثوری امام صادق (ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ کے چہر ہ کا رنگ بدلا ہوا ہے ، سبب دریافت کیا تو فرمایا کہ میں نے گھر والوں کو چھت پر جانے سے منع کیا تھا لیکن میری ایک کنیز ایک بچہ کو لے کر اوپر چڑھ گئی اور جب دیکھنے گیاتو اس قدر گھبرائی کہ بچہ اس کے ہاتھ سے گر کر مرگیا۔
اس وقت میری پریشانی بچہ کی موت کی طرف سے نہیں ہے، اپنے رعب کی طرف سے ہے کہ لوگ مجھ سے اس قدر خوف کھاتے ہیں ، حالانکہ حضرت اس سے پہلے اس کنیز کو اطمینان دلاچکے تھے اور اسے راہ خدا میں آزاد کرچکے تھے۔( مناقب ابن شہر آشوب 4 ص 274)۔
717۔ یاسر خادم امام رضا (ع) ! امام رضا (ع) کا طریقہ تھا کہ لوگوں کے جانے کے بعد تما م چھوٹے بڑے خدام کو مع کرتے تھے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے بلکہ سائس اور حجام کو بھی اپنے ساتھ دستر خوان پر بٹھالیا کرتے تھے۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2 ص 159 ، حلیة الابرار 3 ص 266)۔
718۔ نادر خادم ! امام رضا (ع) کا دستور تھا کہ ہم لوگ جب تک کھانا کھاتے رہتے تھے ہم سے کسی کام کے لئے نہیں فرماتے تھے ( کافی 6 ص 298 /11)۔
719۔ یاسر و نادر ! امام رضا (ع) کا حکم تھا کہ اگر میں تمھارے سامنے اس وقت آجاؤں جب تم کھانا کھارہے ہو تو اس وقت تک کھڑے نہ ہونا جب تک کھانا ختم نہ ہوجائے بلکہ بعض اوقات آپ کسی کو آاوز دیتے تھے اور اگر کہہ دیا کہ وہ کھانا کھارہاہے، تو فرماتے تھے رہنے دو جب تم تمام نہ ہوجائے۔ ( کافی 6 ص 298 / 10 ، المحاسن 2 ص 199 / 1583)۔
720۔ عبداللہ بن المصلت ایک مرد بلخی کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں کہ میں سفر خراسان میں امام رضا (ع) کے ساتھ تھا، ایک دن دستر خوان پر آپ نے تمام سیاہ و سفید غلاموں کو جمع کرلیا تو میں نے کہا کہ میں آپ پر قربان، کاش آپ انھیں الگ کھلادیتے، فرمایا خبردار، خدا سب کا ایک ہے اور مادر و پدر ( آدم و حوا) بھی ایک ہیں اور جزا کا تعلق صرف اعمال سے ہے۔( کافی 8 ص 230 / 296)۔
جامع مکارم اخلاق
721۔ امام علی (ع) ! رسول اکرم کی توصیف کرتے ہوئے… آپ سب سے زیادہ سخی و کریم، سب سے زیادہ وسیع الصدر ، سب سے زیادہ صادق اللہجہ، سب سے زیادہ نرم دل اور سب سے بہتر معاشرت رکھنے والے تھے، انسان پہلی مرتبہ دیکھتا تو ہیبت زدہ ہوجاتا تھا اور ساتھ رہ جاتا تھا تو محبت کرنے لگتا تھا۔( سنن ترمذی 5 ص 599 / 3638 از ابراہیم بن محمد)۔
722۔ امام حسن (ع) ! میں نے اپنے خال ہند بن ابی ہالہ التمیمی سے دریافت کیا کہ پیغمبر اسلام کی گفتگو کے بارے میں کچھ بتائیں تو انھوں نے کہا کہ حضرت ہمیشہ رنجیدہ رہتے تھے، فکر میں غرق رہتے تھے ، کبھی آپ کے لئے راحت نہ تھی لیکن بلاضرورت بات نہیں کرتے تھے اور دیر تک ساکت رہا کرتے تھے ، کلام اس طرح کرتے تھے کہ پورا منھ نہیں کھولتے تھے، نہایت جامع کلمات استعمال کرتے تھے جس میں ہر کلمہ حرف آخر ہوتا تھا کہ نہ فضول اور نہ کوتاہ، اخلاق انتہائی متوازن کہ نہ بالکل خشک اور نہ بالکل جبروت نعمتیں معولی بھی ہوں تو ان کا احترام کرتے تھے اور کسی شے کی مذمت نہیں کرتے تھے، کسی ذائقہ کی نہ مذمت کرتے تھے اور نہ تعریف ، دنیا اور امور دنیا کے لئے غصہ نہیں کرتے تے لیکن حق پر آنچ آجاتی تھی تو پھر کوئی آپ کو نہیں پہنچانتا تھا او رجب کسی غضب کیلئے اٹھ جاتے تھے تو بغیر کامیابی کے بیٹھتے بھی نہیں تھے، لیکن اپنے معاملہ میں نہ غصّہ کرتے تھے اور نہ بدلہ لیتے تھے، جب کسی کی طرح اشارہ کرتے تھے تو پوری ہتھیلی سے ، تعجب کا اظہار کرتے تھے تو اسے الٹ دیتے اور بات کرتے تھے تو اسے ملالیتے تھے اور داہنی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کے انگوٹھے سے دبا تے تھے، ناراض ہوتے تھے تو بالکل قطع تعلق کرلیتے تھے اور خوش ہوتے تھے تو نظریں نیچی کرلیتے تھے، خوشی میں اکثر اوقات صرف تبسم فرماتے تھے اور دندان مبارک موتیوں کی طرح نظر آتے تھے۔( دلائل النبوة بیہقی 1 ص 286 ، شعب الایمان 2 ص 154 / 1430 ، الطبقات الکبریٰ 1 ص 222 ، تہذیب الکمال 1 ص 214 ، عیون اخبار الرضا (ع) 1 ص 317 /1 ، معانی الاخبار 81 / 1 روایت اسماعیل بن محمد بن اسحاق ، مکارم الاخلاق 1 ص 43 / 1 از کتاب محمد بن ابراہیم بن اسحاق ، حلیة الابرار 1 ص 171)۔
723۔ امام حسین (ع) ! میں نے اپنے پدر بزرگوار سے رسول اکرم کی مجلس کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا کہ آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہمیشہ ذکر خدا کے ساتھ ہوتا تھا، جہاں دوسروں کو رہنے سے منع کرتے تھے وہاں خود بھی نہیں رہتے تھے، کسی قوم کیساتھ بیٹھ جاتے تھے تو آخر مجلس تک بیٹھے رہتے تھے اور اسی بات کا حکم بھی دیتے تھے ، تمام ساتھ بیٹھنے والوں کو ان کا حق دیتے تھے اور کسی کو یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ دوسرے کا مرتبہ زیادہ ہے۔کسی کی ضرورت میں اس کے ساتھ اٹھتے یا بیٹھتے تھے تو جب تک وہ خود نہ چلا جائے آپ الگ نہیں ہوتے تھے، اگرکوئی شخص کسی حاجت کا سوال کرتا تھا تو اسے پورا کرتے تھے یا خوبصورتی سے سمجھا دیتے تھے ، کشادہ روئی اور اخلاق میں تما م لوگوں کو حصہ دیتے تھے یہاں تک کہ آپ کی حیثیت ایک باپ کی تھی اور تمام لوگ حقوق میں برابر کی حیثیت کے مالک تھے، آپ کی مجلس حلم، حیاء ، صبر اور امانت کی مجلس تھی جہاں نہ آوازیں بلند ہوتی تھیں ، نہ کسی کو برا بھلا کہا جاتاتھا، نہ کسی غلطی کا مذاق اڑایا جاتا تھا ، سب برابر کا درجہ رکھتے تھے فضیلت صرف تقویٰ کی بنا پر تھی ، سب متواضع افراد تھے، بزرگوں کا احترام ہوتا تھا، بچوں پر مہربانی ہوتی تھی ، حاجت مندوں کو مقدم کیا جاتا تھا اور مسافروں کا تحفظ کیا جاتا تھا۔
میں نے عرض کی کہ ہمنشینوں کے ساتھ آپ کا برتاؤ کیساتھا؟ فرمایا ہمیشہ کشادہ دل رہتے تھے، اخلاق میں سہل ، طبیعت میں نرم ، نہ ترشرو بدخلق ، نہ حرف بدکہنے والے ، نہ عیب نکالنے والے، نہ بے تکا مذاق کرنے والے ، جس چیز کو نہیں چاہتے تھے اس سے چشم پوشی فرماتے تھے، نہ مایوس ہوتے تھے اور نہ اظہار محبت فرماتے تھے ، تین چیزوں کو اپنے سے الگ رکھتے تھے ، بیجا بحث ، زیادہ گفتگو، بے مقصد کلام، اور تین چیزوں سے لوگوں کے بارے میں پرہیز فرماتے تھے، نہ کسی کی مذمت اور سرزنش کرتے تھے، نہ کسی کے اسرار کی جستجو فرماتے تھے اور نہ امید ثواب کے بغیر کسی موضوع میں گفتگو فرماتے تھے، جب بولتے تھے تو لوگوں اس طرح خاموش سر جھکا لیتے تھے جیسے سروں پر طائر بیٹھے ہوں اور جب خاموش ہوجاتے تھے تو لوگ بات کرتے تھے لیکن جھگڑا نہیں کرسکتے تھے ، کوئی شخص کوئی بات کرتا تھا و سب سنتے تھے جب تک بات ختم نہ ہوجائے، ہر ایک کو بات کہنے کا موقع ملتا تھا اور سب ہنستے تھے تو آپ بھی مسکراتے تھے اور سب تعجب کرتے تھے تو آپ بھی اظہار تعجب کرتے تھے، کوئی اجنبی بے تکی بات کرتا تھا یا غلط سوال کرتا تھا تو اسے برداشت کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جب کی حاجت مند کو سوال کرتے دیکھو تو عطاکرو، مسلمان کے علاوہ کسی سے تعریف پسند نہیں فرماتے تھے کسی کی بات کو قطع نہیں فرماتے تھے اور جب وہ حد سے تجاوز کرتا تو منع فرماتے یا کھڑے ہوکر بات ختم کردیتے تھے۔( دلائل النبوة بیہقی 1 ص 290)۔
724۔ معاویہ بن وہب امام صادق (ع) سے نقل کرتے ہیں کہ حضور نے ابتدائے بعثت سے آخر عمر تک کبھی ٹیک لگاکر کھانا نہیں کھایا اور نہ کسی شخص کے سامنے پیر پھیلاکر بیٹھے، مصافحہ کرتے تھے تو اس وقت تک ہاتھ نہیں کھینچتے تھے جب تک وہ خود نہ کھینچ لے ، کسی کی برائی پر اسے برائی سے بدلہ نہیں دیا کہ پروردگار نے فرمادیا تھا کہ برائی کا دفاع اچھائی سے کرو، کسی سائل کو رد نہیں فرمایا، کچھ تھا تو دیدیا ورنہ کہا انتظار کرو اللہ دے گا ، اللہ کے نام پر جو کہہ یا خدا نے اسے پورا کردیا یہاں تک کہ جنت کا بھی وعدہ کرلیتے تو خدا پورا کردیتا۔( کافی 8 ص 164 / 175)۔
725۔خارجہ بن زید ! ایک جماعت میرے والد زید بن ثابت کے پاس آئی اور اس نے سوال کیا کہ ذرا رسول اکرم کے اخلاق پر روشنی ڈالیں ؟ تو انھوں نے کہا کہ میں آپ کے ہمسایہ میں تھا، جب وحی کا نزول ہوتا تھا تو مجھے لکھنے کے لئے طلب فرمایا کرتے تھے اور میں لکھ دیا کرتا تھا، اس کے بعد ہم لوگ دینا ، دین یا کھانے پینے کی جو گفتگو کرتے تھے آپ ہمارے ساتھ شریک کلام رہا کرتے تھے …( السنن الکبری 7 ص 83 / 13340)۔
726۔ ابن شہر آشوب ! رسول اکرم کے پاس جب بھی کوئی شخص آتا تھا اور آپ نماز میں مصروف ہوتے تھے تو نماز کو مختصر کرکے اس سے دریافت کرتے تھے کیا کوئی ضرورت ہے؟( مناقب 1 ص 147)۔
727۔ جابر بن عبداللہ ! رسول اکرم سفر میں ہمیشہ پیچھے رہا کرتے تھے تا کہ کمزور کو سہارا دے سکیں اور اپنے ساتھ سوار کرسکیں ۔( السنن الکبریٰ 5 ص 422 / 10352)۔
728۔ ابوامامہ سہل بن حنیف الانصاری ، بعض اصحاب رسول کی زبان سے نقل کرتے ہیں کہ آپ مسلمانوں کے مریضوں کی عیادت اور کمزوروں کی دیکھ بھال کیا کرتے تھے، جنازہ میں شرکت کرتے تھے اور خود نماز جنازہ ادا کرتے تھے، ایک مرتبہ عوالی کی ایک غریب عورت بیمار ہوگئی آپ برابر اس کا حال دریافت کرتے رہے اورفرمایا کہ اگر اس کا انتقال ہوجائے تو میرے بغیر دفن نہ کرنا ، میں اس کے جنازہ کی نماز پڑھاؤں گا۔
اتفاق سے اس کا ا نتقال رات میں ہوا اور لوگ جنازہ کو مسجد رسول کے پاس لے آئے لیکن جب دیکھا کہ حضور آرام فرمارہے ہیں تو جگانے کے بجائے نماز پڑھ کر دفن کردیا، دوسرے دن جب رسول اکرم نے خیریت پوچھی تو صورت حال بیان کی گئی ، آپ نے فرمایا کہ ایسا کیوں کیا ؟ اچھا اب میرے ساتھ چلو، سب کو لے کر قبرستان پہنچے اور قبر باقاعدہ نماز جنازہ ادا فرمائی اور چار تکبیریں کہیں ۔( السنن الکبر یٰ 4 ص 79 / 7019)۔
729۔انس ! رسول اکرم سب سے زیادہ لوگوں پر مہربان تھے، سردی کے زمانہ میں بھی چھوٹے بڑے ، غلام و کنیز سب کے لئے پانی فراہم کرتے تھے تا کہ سب منھ ہاتھ دھولیں، جب کوئی شخص کوئی سوال کرتا تھا تو سنتے تھے اور اس وقت تک منھ نہ پھیرتے تھے جب تک وہ خود نہ چلاجائے ، جب کسی شخص نے ہاتھ پکڑنے کا ارادہ کیا تو ہاتھ دیدیا اور اس وقت تک نہ چھڑا یا جب تک اس نے خود نہ چھوڑ دیا ۔ ( حلیة الاولیاء 3ص 26)۔
730۔ امام علی (ع)! پروردگار کریم ، حلیم ، عظیم اور رحیم ہے اس نے اپنے اخلاق کی رہنمائی کی ہے اور اس اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور لوگوں کو آمادہ کیا ہے تو ہم نے اس امانت کو لوگوں تک پہنچا دیا اور بلاکسی نفاق کے اس پیغام کو ادا کردیا اور اس کی تصدیق کی اور بلاکسی شک و شبہہ کے اسے قبول کرلیا(تحق العقول ص 175 ، بشارة المصطفیٰ ص 29 روایت کمیل)۔
731۔ امام علی (ع)۔ رسول اکرم وہ مظلو م تھے جن کے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کیا جاتا تھا حالانکہ آپ کے احسانات قریش ، عرب ، عجم سب کے شامل حال تھے، اور سب سے زیادہ نیکی کرنے والے تھے، یہی حال ہم اہلبیت (ع) کا ہے کہ ہمارے احسانات کا شکریہ نہیں ادا کیا جاتاہے اور یہی حال تمام نیک مومنین کاہے کہ وہ نیکی کرتے ہیں لیکن لوگ قدردانی نہیں کرتے ہیں۔( علل الشرائع 560 /3 از حسین بن موسیٰ عن الکاظم (ع) ) ۔
732۔ امام علی (ع) ! ہم اہلبیت (ع) کے سامنے جب بھی حق آجاتاہے ہم اس سے متمسک ہوجاتے ہیں۔( مقاتل الطالبین ص 76 از سفیان بن اللیل)۔
734۔ مصعب بن عبداللہ ! جب دشمنوں نے چاروں طرف سے امام حسین (ع) کو گھیر لیا تو آپ رکاب فرس پر کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خامو ش رہنے کی دعوت دی ، اس کے بعد حمد و ثناء الہی کرکے فرمایا کہ مجھے ایک ناتحقیق باپ کے ناتحقیق بیٹے نے دورا ہے پر کھڑا کردیا ہے کہ یا تلوار کھینچ لوں یا ذلت برداشت کروں اور ذلت برداشت کرنا میرے امکان میں نہیں ہے، اسے نہ خدا پسند کرتاہے اور نہ رسول اور نہ صاحبان ایمان، نہ پاک و پاکیزہ گودیاں اور طیب و طاہر آباء و اجداد کسی کو یہ برداشت نہیں ہے کہ میں آزاد مردوں کی طرح جان دینے پر ذلیلوں کو اطاعت کو مقدم کروں۔( احتجاج 2 ص 97 / 167)۔
735۔ امام زین العابدین (ع) ! پروردگار نے ہمیں حلم، علم ، شجاعت، سخاوت اور مومنین کے دلوں میں محبت کا انعام عنایت فرمایا ۔( معجم احادیث المہدی (ع) 3 ص 200 ، منتخب الاثر 172 / 96)۔
736۔ ابوبصیر ! میں نے امام باقر (ع) سے عر ض کی کہ رسول اکرم ہمیشہ بخل سے پناہ مانگا کرتے تھے؟ فرمایا بیشک ہر صبح و شام ہم بھی بخل سے پناہ مانگتے ہیں کہ پروردگار نے فرمایاہے کہ جو نفس کے بخل سے محفوظ ہوگیا وہی کامیاب ہے۔( علل الشرائع 548 / 4 ، قصص الانبیاء 118 / 118)۔
737۔ امام صادق (ع) ! ہم اہلبیت (ع) جب کسی شخص کے خیر کو خود جان لیتے ہیں تو پھر ہمارے خیال کو لوگوں کی باتیں تبدیل نہیں کرسکتی ہیں۔( بصائر الدرجات ص 1362 از داؤد بن فرقد)۔
738۔ حریز ! امام صادق (ع) کی خدمت میں جہینہ کی ایک جماعت وارد ہوئی ، آپ نے باقاعدہ ضیافت فرمائی اور چلتے وقت کافی سامان اور ہدایا بھی دیدیے لیکن غلاموں سے فرمادیا کہ خبردار سامان باندھنے ، سمیٹنے میں ان کی مدد نہ کرنا ، ان لوگوں نے گذارش کی کہ فرزند رسول ! اس قدر ضیافت کے بعد غلاموں کو امداد سے کیوں روک دیا ؟ فرمایا، ہم اپنے مہمانوں کی جانے میں امداد نہیں کرتے ہیں ۔( ہمارا منشاء یہی ہوتاہے کہ مہمان مقیم رہے تا کہ صاحب خانہ میزانی کی برکتوں سے مستفید ہوتارہے) ( امالی صدوق 437 / 9 ، روضة الواعظین ص 233)۔
739۔ اللہ کے صالح اور متقی بندوں کے اخلاق میں تکلف اور تصنع شامل نہیں ہوتا ہے، پروردگار نے پیغمبر سے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اپنی زحمتوں کا کوئی اجر نہیں چاہتا اور میں تکلف کرنے والوں میں نہیں ہوں اور رسول اکرم نے بھی فرمایا ہے کہ ہم گروہ انبیاء وا تقیاء و امنا ہر طرح کے تکلف سے بری اور بیزار رہتے ہیں ۔( مصباح الشریعہ ص 208)۔
840۔ حماد بن عثمان ! ایک مرتبہ مدینہ میں قحط پڑا اور صورت حال یہ ہوگئی کہ بڑے بڑے دولت مند بھی مجبور ہوگئے کہ گند میں جو ملاکر کھائین یا اسے بیچ کر طعام فراہم کریں، تو امام صادق (ع) نے اپنے غلاموں سے فرمایا کہ جو گندم ابتدائے فصل میں خرید لیاہے اس میں جو ملادو یا اسے بیچ ڈالو کہ ہمیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ عوام الناس جو ملا ہوا گیہوں کھائیں اور ہم خالص کیہوں استعمال کریں ۔( کافی 5 ص 166 / 1)۔
741۔ امام کاظم (ع) ! جب سندی بن شاہک نے آپ سے کفن دینے کی بات کی تو آپ نے فرمایا کہ ہم اہلبیت (ع) اپنے ذاتی حج، اپنی عورتوں کا مہر اوراپنا کفن اپنے خالص پاکیزہ مال سے فراہم کرتے ہیں ۔( الفقیہ 1 ص 189 / 577 ، ارشاد 2 ص 243 ، تحق العقول ص 412 ، روضة الواعظین ص 243 ، فلاح السائل ص 72 ، الغیبتہ للطوسی (ر) 30 / 6)۔
742۔ امام رضا (ع) ، ہم اہلبیت (ع) کو وراثت میں آل یعقوب (ع) سے عفو ملاہے اور آل داؤد سے شکر !( کافی 8 ص 308 / 480 از محمد بن الحسین بن یزید)۔
743۔ امام رضا (ع) ! آ پ نے بن سہل کے خط میں تحریر فرمایا کہ ائمہ کے کردار میں تقویٰ ، عفت ، صداقت ، صلاح، جہاد، اداء امانت صالح و فاسق ، طول سجدہ ، نماز شب ، محرمات سے پرہیز ، صبر کے ذریعہ کشائش احوال کا انتظار ، حسنِ معاشرت، حسن سلوک ہمسایہ، نیکیوں کا عام کرنا،اذیتوں کا روکنا، کشادہ روی سے ملنا، نصیحت کرنا اور مومنین پر مہربانی کرنا شامل ہے۔( تحف العقول ص 416)۔
744۔ امام رضا (ع) ہم اہلبیت (ع) جب کوئی وعدہ کرلیتے ہیں تو اسے اپنے ذمہ ایک قرض تصور کرتے ہیں جیسا کہ سرکار دو عالم کے کردار میں تھا۔( تحف العقول ص 246 مشکٰوة الانوار ص 173)۔
745۔امام رضا (ع) ، ہم اہلبیت(ع) سوتے وقت دس کام انجام دیتے ہیں، طہارت، داہنے ہاتھ پر تکیہ ، 33 مرتبہ سبحان اللہ 33 مرتبہ الحمدللہ ، 34 مرتبہ اللہ اکبر ، استقبال قبلہ ، سورہٴ حمد کی تلاوت ، آیة الکرسی کی تلاوت، شہد اللہ انہ لا الہ الا ہو الخ تو جو شخص بھی اس طریقہ کو اپنا لے گا وہ اس رات کی فضیلتیں حاصل کرلے گا ۔( فلاح السائل ص 280 روایت حسن بن علی العلوی)۔
نوٹ! بظاہر روایت مین قل ہوا للہ یا انا انزلناہ کا ذکر رہ گیا ہے ورنہ مذکورہ اشیاء صرف نو ہیں۔
746۔عبید بن ابی عبداللہ البغدادی ! امام رضا (ع) کی خدمت میں ایک مہمان آیا اور رات گئے تک حضرت سے باتیں کرتا رہا،یہاں تک کہ چراغ ٹمٹانے لگا، اس نے چاہا کہ ٹھیک کردے، آپ نے روک دیا اور خود ٹھیک کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم وہ قوم ہیں جو اپنے مہمانوں سے کام نہیں لیتے ہیں۔( کافی 6 ص 283 / 2)۔
747۔ ابراہیم بن عباس ! میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ امام رضا (ع) نے کسی شخص سے بھی ایک نامناسب لفظ کہا ہو یا کسی کی بات کاٹ دی ہو جبتک وہ اپنی بات تمام نہ کرے ، یا کسی کی حاجت برآری کا امکان ہوتے ہوئے اس کی بات کو رد کردیا ہو یا کسی کے سامنے پیر پھیلاکر بیٹھے ہوں ، یا ٹیک لگاکر بیٹھے ہوں یا کسی نوکر اور غلام کو برا بھلا کہا ہو یا تھوک دیا ہو یا سننے میں قہقہہ لگایاہو بلکہ ہمیشہ تبسم سے کام لیتے تھے ، جب گھر میں دستر خوان لگتا تھا تو تمام نوکروں اور غلاموں کو ساتھ بٹھالیتے تھے، رات کو بہت کم سوتے تھے اور زیادہ حصہ بیدار رہتے تھے، اکثر راتوں میں تو شام سے فجر تک بیدار رہی رہتے تھے، روزے بہت رکھتے تھے، ہر مہینہ تین روزے تو بہر حال رکھتے تھے اور اسے سارے سال کا روزہ قرار دیتے تھے، نیکیاں بہت کرتے تھے اور چھپاکر صدقہ بہت دیتے تھے خصوصیت کے ساتھ تاریک راتوں میں اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ایسا کوئی دوسرا شخص بھی دیکھاہے تو خبردار اس کی تصدیق نہ کرنا ۔( عیون اخبار الرضا (ع) 2ص 184 /7)۔
748۔ امام ہادی (ع) زیارت جامعہ میں فرماتے ہیں، اے اہلبیت (ع) آپ کا کلام نور ، آپ کام ہدایت ، آپ کی وصیت تقویٰ ، آپ کا عمل خیر ، آپ کی عادت احسان آپ کی طبیعت کرم اور آپ کی شان حق و صداقت و نرم دلی ہے۔ ( تہذیب 6 ص 100 / 177)۔
|